• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اشرف علی تھانوی --- بہشتی زیور کا خود ساختہ اسلام / نجس چیز کو چاٹنا

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
کیا آپ بتانا پسند فرمائيں گے آپ حنفی فقہ کی کس عبارت سے یہ یقین ہوا کہ زبان کا استعمال شرط ہے اور معاملہ تھوک سے طھارت کا نہیں
یہاں بہشتی زیور کے حوالے سے جو عبارت پیش کی گئی ہے اور اشرف علی تھانوی نے جس فقہ کی کتاب سے اسے نقل کیا ہے دونوں جگہ صاف لکھا ہے کہ اگر کوئی زبان سے نجاست زدہ جگہ کو تین مرتبہ چاٹ لے تو پاکی حاصل ہوجاتی ہے۔ اب آپ خود ہی بتائیں کہ فتویٰ میں صاف صاف زبان سے چاٹنے کا ذکر، کیا نہیں بتاتا کہ صرف زبان کا استعمال ہی شرط ہے ورنہ پاکی حاصل نہیں ہوگی۔ اگر آپ کہتے ہیں نجاست کو تھوک زائل کرتا ہے جو زبان کے ساتھ لگا ہوتا ہے تو ہم کہیں گے کہ پھر فتویٰ میں حنفی کو یہ اختیار بھی ہونا چاہیے تھا کہ وہ بلا زبان لگائے انگلی کی مدد سے یا کسی اور طرح تھوک سے نجاست زائل کرلیتا۔ لیکن چونکہ فتویٰ میں ایسی کوئی وضاحت یا رعایت نہیں اس لئے ثابت ہوا کہ حنفیوں کے نزدیک جسم یا کسی اور چیز پر لگی نجاست زبان سے چاٹنے پر ہی زائل ہوتی ہے۔

میں نے صرف یہ کہا تھا کہ ایسا عمل کا صدور صرف پاگل یہ غیر عاقل بچہ سے ہونا ممکن ہے
لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ فقہ حنفی کا نجاست سے پاکی حاصل کرنے کا یہ مسئلہ صاف بتاتا ہے کہ یہ صحت مند اور عقلی طور پر درست حنفیوں کے لئے ہے ناکہ پاگلوں اور بچوں کے لئے۔ اب اگر آپ خود ہی اپنے امام کو فقاہت کو رد کرکے اور انکی تذلیل کرکے اپنی فقہ کے اس مسئلہ سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے تو اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اسے پاگلوں اور بچوں سے مخصوص کردیں۔

اس الزام کی دلیل چاھئیے ورنہ یہ صرف ایک دیوانہ کی بھڑک کہلائے گی
میں نے صرف اپنا خیال ظاہر کیا تھا اور آغاز جملہ میں اس بات کو لکھ بھی دیا تھا لیکن اگر آپ کو اس سے اتفاق نہیں اور آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پانی موجود ہوتے ہوئے بھی حنفی زبان سے نجاست چاٹ کر پاکی حاصل کرسکتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

آپ مجھے صرف یہ بتادیں کہ کیا اہل حدیث فقہ کے میں اس مسئلہ کا جواب موجود ہے کہ اگر کوئی پاگل نجاست زدہ انگلی کو چاٹ کر پانی میں انگلی ڈالے تو کیا وہ پانی پاک ہو گا یا نہیں ، یا اہل حدیث ایک نا مکمل فقہ ہے ؟؟؟؟ ایسی نا مکمل فقہ کس کام کی جو ادھوری ہو !!!
دیکھیں آپ نے سوال ہی غلط کیا ہے آپ نے لکھا ہے کہ ’’اگر کوئی پاگل نجاست زدہ انگلی کو چاٹ کر‘‘ حالانکہ آپ کی فقہ کا مسئلہ تو بالکل مختلف ہے آپ پہلے سوال درست کریں اور یوں پوچھیں کہ اگر کوئی صحت مند حنفی، کوئی حنفی مفتی، کوئی حنفی عالم اگر نجاست زدہ انگلی کو چاٹ کر پانی میں انگلی ڈالے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ پھر ہم اس کا جواب دینگے۔

کیا کسی مسئلہ کا شرعی حل بتانے کے لئيے آپ حضرات کے مفتی حضرات پہلے اس مسئلہ پر عمل کرتے ہیں پھر فتوی دیتے ہیں ، جو لوگ فقہاء پر اعتراض کرتے ان کی عقل ایسی ہی سلب ہوجاتی ہے
کچھ مسائل ایسے ضرور ہوتے ہیں جن پر عمل کرکے ہی ان کا جواب دیا جاسکتا ہے جیسے فقہ حنفی کا زیر بحث مسئلہ۔ اور اگر حنفی فقہاء نے نجاست چاٹ بھی لی تو اس میں آخر حرج ہی کیا ہے اس سے پاکی ہی تو حاصل ہوگی کیا پاکی حاصل کرنا حنفیت میں کوئ جرم ہے؟؟؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
پوری بحث پڑھ کر جو کچھ مجھے سمجھ آیا، خلاصہ لکھ دیتا ہوں:
اعتراض یہ ہے کہ فقہ حنفی میں یہ مسئلہ درج ہے:
"ہاتھ میں کوئی نجس چیز لگی تھی، اس کو تین دفعہ کسی نے زبان سے چاٹ لیا تو پاک ہو جائے گا"

اعتراض اس بات پر نہیں کہ تھوک سے طہارت حاصل ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اعتراض اس بات پر ہے کہ نجاست کو چاٹ کر صاف کرنا قبیح فعل معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ تلمیذ بھائی کو بھی اعتراف ہے۔ اس کی جو توجیہہ تلمیذ بھائی نے کی ہے، کہ اس مسئلے میں یہ نہیں بتایا جا رہا کہ نجاست لگے تو انگلی چاٹ لیا کرو، بلکہ یہ مراد ہے کہ نجاست لگی ہو اور کسی پاگل یا بچے نے انگلی چاٹ لی تو کیا نجاست کا اثر زائل ہوا یا نہیں؟

خصوصاً اگر اس دھاگے کی پہلی پوسٹ کا اسکین بھی دیکھا جائے تو اس میں واضح لکھا ہے کہ:
"مگر انگلی چاٹنا ممنوع ہے"۔

گویا فقہ حنفی میں بھی انگلی چاٹنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، لیکن اگر کوئی چاٹ لے تو اُس صورت میں مسئلہ بتایا گیا ہے۔

لیکن یہ تشریح واقعی فقہ کے مسئلے پر منطبق ہوتی ہو اس کے یا رفع اعتراض کی خاطر بعد میں گھڑی گئی ہے۔ یہ علیحدہ سوال ہے۔ کیونکہ اول تو کہیں یہ لکھا نہیں ملتا کہ یہ چاٹنے والی بات فقط پاگل یا بچے کے لئے ہے۔ بہشتی زیور عام دیوبندی خواتین کے لئے لکھی گئی ہے اور جب تک بالا تشریح اس مسئلے کے ساتھ نتھی نہ ہو، اس سے عام آدمی کو یہی تاثر ملتا ہے کہ اگر میری انگلی نجس ہو گئی ہے تو اسے زبان سے چاٹ لینے سے میری نجاست دور ہو جائے گی۔ اگر درمختار، ہدایہ وغیرہ کی بات ہو تو امکان موجود ہے کہ یہ کتب عامیوں کے لئے نہیں، لیکن بہشتی زیور کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ جملہ دس پچاس بندوں کے سامنے رکھ دیا جائے تو ہر کوئی اس سے وہی سمجھے گا جو اعتراض کے ضمن میں ہم پیش کرتے ہیں، اور جو تشریح تلمیذ بھائی فرما رہے ہیں، وہ شاید کسی کے سان و گمان میں بھی نہ آئے گی۔

دوسری بات یہ کہ اگر پاگل یا بچہ یا جس کسی نے نجاست والی انگلی چاٹ ہی لی ہے تو اب یہ مسئلہ کہیں نہیں ملتا کہ اس کی زبان بھی نجس ہوئی یا نہیں؟ اگر زبان نجس نہیں ہوئی، تو زبان سے چاٹنا ممنوع ہی کیوں قرار پایا؟ اور اگر کہیں کہ نجس ہوگئی تو وہ مسئلہ دکھا دیا جائے کہ نجاست انگلی سے چاٹ لینے کے بعد زبان کی نجاست زائل کرنے کے لئے کیا کیا جائے؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
خصوصاً اگر اس دھاگے کی پہلی پوسٹ کا اسکین بھی دیکھا جائے تو اس میں واضح لکھا ہے کہ:
"مگر انگلی چاٹنا ممنوع ہے"۔

گویا فقہ حنفی میں بھی انگلی چاٹنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، لیکن اگر کوئی چاٹ لے تو اُس صورت میں مسئلہ بتایا گیا ہے۔
یہ بات مخالفین کے نزدیک بھی مسلمہ ہے کہ اشرف علی تھانوی مجتہد نہیں تھے صرف مقلد تھے اور مقلد کا کام صرف نقل ہوتا ہے اور یہی کام اشرف علی تھانوی نے بہشتی زیور میں کیا ہے۔ بہشتی زیور کوئی جدید تصنیف یا اشرف علی تھانوی کی زاتی کاوش نہیں بلکہ فقہ حنفی کی کتب سے خواتین کے متعلق مسائل جمع کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اشرف علی تھانوی نے فقہ حنفی کی جن کتب سے زبان سے نجاست چاٹنے کا یہ مسئلہ نقل کیا ہے وہاں "مگر انگلی چاٹنا ممنوع ہے" کے الفاظ قطعا موجودنہیں۔ یہ اشرف علی تھانوی کا زاتی اجتہاد ہے جو انکے مقلد ہونے کی وجہ سے مردود ہے اور یہ مقلدانہ جسارت فقہ حنفی کے فتویٰ پر زیادتی ہے جو کہ ایک معنی میں تحریف اور فقہاء پر عدم اعتماد کی دلیل ہے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
خصوصاً اگر اس دھاگے کی پہلی پوسٹ کا اسکین بھی دیکھا جائے تو اس میں واضح لکھا ہے کہ:
"مگر انگلی چاٹنا ممنوع ہے"۔
لیکن یہ تشریح واقعی فقہ کے مسئلے پر منطبق ہوتی ہو اس کے یا رفع اعتراض کی خاطر بعد میں گھڑی گئی ہے۔ یہ علیحدہ سوال ہے۔ کیونکہ اول تو کہیں یہ لکھا نہیں ملتا کہ یہ چاٹنے والی بات فقط پاگل یا بچے کے لئے ہے۔ بہشتی زیور عام دیوبندی خواتین کے لئے لکھی گئی ہے اور جب تک بالا تشریح اس مسئلے کے ساتھ نتھی نہ ہو، اس سے عام آدمی کو یہی تاثر ملتا ہے کہ اگر میری انگلی نجس ہو گئی ہے تو اسے زبان سے چاٹ لینے سے میری نجاست دور ہو جائے گی۔
محترم شاکر بھائی آپ واقعی اخلاص سے تلمیذ بھائی کو سمجھانا چاہ رہے ہیں جیسا کہ انکے ممنوع والی بات آپ نے ہی نکال کر دی
البتہ اگلے اعتراض پر میں بھی کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط ولو علی انفسکم کے تحت میں ایک بات لکھنا چاہوں گا کہ اگرچہ بہشتی زیور میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کی تاویل نہیں ہو سکتی مگر یہاں خواتین کے لئے لکھی گئی کتاب میں پاگل کے لئے فتوی دینے پر جو اعتراض ہو رہا ہے میرے خیال میں اسکی بھی ایک تاویل ہے کہ جو اس سے اگلے فتوی میں درج ہے کہ عورت کی چھاتی سے دودھ پیتا بچہ جب قے کر دے تو وہ نجاست ہے اور ماں کو پتا ہی نہیں چلا اب اس بچے نے نا سمجھی میں وہی چاٹ لیا تو بعد میں ماں کے لئے نجاست نہیں رہے گی اب بچے کے لئے زبان کے صاف کرنے کا اعتراض بھی میرے خیال میں ختم ہو جائے گا تو اسکو ثابت کرنے کے لئے انھوں نے پہلا مسئلہ لکھا جس پر قیاس کر کے ماں کی چھاتی والا مسئلہ ثابت کیا
دوسرا میرے علم کے مطابق ایک صحیح اعتراض تو اکثر سلف کو رہا ہے کہ اہل الرائے پیش آنے سے پہلے ہی مسئلہ فرض کر کے اس کا جواب لکھتے ہیں اور پھر اس میں خالی یہی لکھتے ہیں کہ اگر ایسے ہو گیا تو پھر کیا ہونا چاہئے اس میں وہ حالات نہیں لکھتے کہ ایسا کن حالات میں ہو گا پس اس مسئلہ میں بھی ہو سکتا ہے کہ اصل حنفی کتابوں میں اصل حالات کی بجائے صرف اتنا لکھا ہو کہ اگر کسی نے چاٹ لی تو یہ حکم ہے- پس میرے خیال میں ہم یہاں یہ اعتراض نہیں کر سکتے کہ عام آدمیوں کے لئے بھی یہ فتوی ہے- ہاں بعض دوسرے بے شرمی کے مسائل میں ضرورت سے پہلے فتوی دینے پر سب نے اعتراض کیا ہے جو یہاں لکھے نہیں جا سکتے واللہ اعلم
اس پر تلمیذ بھائی سے درخواست ہے کہ غلط چیز کی بے جا حمایت کبھی نہ کریں کیونکہ نہ آپکی جماعت نے نہ میری جماعت نے مجھے قیامت کے دن فائدہ دینا ہے بلکہ اللہ کے نبی کی صحیح اطاعت نے ہی فائدہ دینا ہے پس جس پر آپکا دل کھٹکے اس پر ضد نہ کریں جزاک اللہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
بہشتی زیور --- اشرف علی تھانوی --- بہشتی زیور کا خود ساختہ اسلام / نجس چیز کو چاٹنا


جواب نمبر 1


سوال
ہاتھ پر نجاست لگ جائے تین بار چاٹ لینے سے نجاست دور ہوجاتی ہے۔ بہشتی زیور صفحہ نمبر ۷۲۔ مباشرت کے بعد اگر پانی نہ ملے تو بھی یہی حکم ہے تین دفعہ چاٹ لینے سے نجاست دور ہوجائے گی۔
جواب

فتوی: 612=612/ م
بہشتی زیور کا مسئلہ درست ہے، لیکن جہاں وہ مسئلہ لکھا ہے وہیں اس کے بعد یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ?مگر چاٹنا منع ہے? اب مطلب یہ ہوا کہ نجاست کا چاٹنا تو جائز نہیں، لیکن اگر کوئی نادانی میں نجاست کو چاٹ لے اور اس کا اثر زائل ہوجائے تو نجاست دور ہوجائے گی۔ مباشرت کے بعد آدمی پر دو چیز واجب ہوتی ہے، ایک عین نجاست کا ازالہ اگر جسم یا کپڑے پر لگی ہو، دوسرے غسل کا وجوب، تو مباشرت کے بعد جسم پر اگر منی لگ گئی ہے اور اس کو کوئی تین دفعہ چاٹ لے تو نجاست بلاشبہ دور ہوجائے گی لیکن یہ چاٹنا حماقت کی انتہاء ہے، طبیعت کیسے گوارہ کرے گی کہ آدمی نجاست کو چاٹ لے، نیز اس نجاست کے زائل ہونے سے غسل کا وجوب ساقط نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
لنک

جواب نمبر 2


نمبر 01 - دور برطانیہ سے پہلے بھی یہاں مسلمان آباد تھے مگر کافر غیر کتابی [ہندو ، سکھ ، مجوسی ، چمار ، چوڑا وغیرہ] کے ذبیحہ کو نجس اور مردار قرار دیتے تھے دور برطانیہ میں جب یہ لامذہب فرقہ پیدا ہوا تو انہوں نے اس نجاست اور مردار کو کھانا شروع کردیا اور فتوی دے دیا کھ یہ حلال ہے
(عرف الجادی ص 10 و ص 239 و دلیل الطالب ص 413)
نمبر 02 - اسی طرح بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اتفاق رہا کہ اگر ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم الله نہ پڑھی جائے تو وہ جانور مردار اور نجس ہے - مگر اس نجاست خور فرقہ نے اس کے بھی جواز کا فتوی دے دیا۔
[عرف الجادی]
نمبر 03 - بندوق سے جو جانور مرجائے وہ مردار اور نجس ہے مگر اس لامذہب فرقہ نے یہ نجاست بھی کھانا شروع کردی اور اس کو حلال کہہ دیا۔
[بدور الاہلہ ص 335 ، فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 150 و ج 2 ص 132]
نمبر 04 - بجو کو اس ملک کے مسلمان حرام اور نجس سمجھتے تھے مگر اس لامذہب فرقہ نے فتوی دیا "بجو حلال ہے ، جو شخص بجو کا کھانا حلال نہ جانے وہ منافق دے دین ہے ، اس کی امامت ہرگز جائز نہیں ، یہ قول صحیح اور موافق حدیث رسول الله صلی الله علیه وسلم ہے"
[فتاوی ستاریہ ج 2 ص 21 ص 277]
نمبر 05 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک کے مسلمان منی کو ناپاک اور نجس قرار دیتے تھے اس فرقہ نے اس کو پاک قرار دیا اور ایک قول میں اس کا کھانا بھی جائز قرار دیا۔
[فقہ محمدیہ ج 1 ص 46]
(البتہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ منی کا کسٹرڈ بناتے ہیں یا قلفیاں جماتے ہیں)
نمبر 06 - بارہ [1200] سو سال تک یہاں کے مسلمان حلال جانوروں کے پیشاب کو پینا جائز نہیں سمجھتے تھے اور اس کو نجس قرار دیتے تھے لیکن لامذہبوں نے اس نجاست کے پینے کو جائز قرار دیا ، لکھا کہ "لکھا کہ حلال جانوروں کا پیشاب و پاخانہ پاک ہے جس کپڑے پر لگا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے ، نیز بطور ادویات استعمال کرنا درست ہے"
[فتاوی ستاریہ ج 1 ص 56 ، ج 1 ص 89]
نمبر 07 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک میں یہ مسئلہ تھا کہ تھوڑے پانی ، دودھ وغیرہ میں تھوڑی سی نجاست پڑجائے تو وہ نجس ہوجاتا ہے "پاک پانی میں نجاست پڑجاوے تو اس سے وضو ، غسل وغیرہ کچھ درست نہیں چاہے وہ نجاست تھوڑی ہو یا بہت" [بہشتی زیور ج 1 ص 57 ، ہدایہ ج 1 ص 18] لیکن دور برطانیہ میں اس فرقہ نام نہاد اہل حدیث نے فتوی دیا کہ اگر پانی وغیرہ میں نجاست پڑجائے تو جب تک نجاست سے اس کا رنگ ، بو ، مزہ نہ بدلے وہ پاک ہے۔
[عرف الجادی ، بدور الاہلہ]
(مثلا ایک بالٹی دودھ میں ایک چمچہ پیشاب ڈال دیا جائے تو نہ اس کا رنگ پیشاب جیسا ہوتا ہے نہ بو نہ مزہ ہمارے مذہب میں وہ پھر بھی ناپاک ہے اس کا پینا حرام بلکہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو نماز ناجائز ، اس فرقہ کے نزدیک وہ دودھ پاک ، حلال طیب ہے ، یہ اس نجس کو پینا جائز سمجھتے ہیں)
نمبر 08 - بارہ [1200] سو سال تک اس ملک کے مسلمان الخمر [شراب] کو پیشاب کی طرح سمجھتے تھے لیکن اس فرقہ غیر مقلدین نے فتوی دیا کہ "الخمر طاھر" [کنز الحقائق] شراب پاک ہے بلکہ بتایا کہ اگر شراب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو کھانا جائز ہے [نزل الابرار ج 1 ص 50] اور وجہ یہ بتائی کہ اگر پیشاب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو پیشاب بھی تو جل جائے گا۔

الغرض اس قسم کے اور کئی مسائل بھی تھے جن سے ملک میں نجاست خوری کی بنیاد ڈال دی ، جب احناف نے ثبوت مانگا کے اپنے اصول پر قرآن پاک کی صریح آیات یا احادیث صحیحہ صریحہ غیر معارضہ سے ان مسائل کا ثبوت پیش کرو تو بجائے احادیث پیش کرنے کے لگے فقہاء کو گالیاں دینے اور فقہ کے خلاف شور مچانا شروع کردیا کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے - نجاست عین کا چاٹنا تو کجا ، جس پانی وغیرہ میں نجاست تھوڑی سی پڑجائے کہ نجاست کا رنگ نہ بو نہ مزہ کچھ بھی ظاہر نہ ہو پھر بھی اس پانی کا پینا حرام ہے ، اس میں احناف کا کوئی اختلاف نہیں بلکہ بہشتی گوہر میں لکھا ہے کہ ایسے ناپاک پانی کا استعمال جس کے تینوں وصف یعنی مزہ اور بو اور رنگ نجاست کی وجہ سے بدل گئے ہوں کسی طرح درست نہیں نہ جانوروں کو پلانا درست ہے نہ مٹی وغیرہ میں ڈال کر گارا بنانا جائز ہے [بہشتی گوہر ج 1 ص 5 بحوالہ درمختار ج 1 ص 207] تو جب نجس پانی جانور کو پلانا ہمارے مذہب میں جائز نہیں تو انسان کو چاٹنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟

چناچہ بہشتی زیور میں صاف لکھا ہے کہ نجاست چاٹنا منع ہے [بہشتی زیور ج 2 ص 5] دراصل اختلاف بعض چیزوں کے پاک ناپاک ہونے میں ہے ، ان مسائل کی تفصیل یہ لوگ بیان نہیں کرتے اور غلط نتائج نکالتے ہیں۔

نمبر 01 - مثلآ بعض جاہل عورتوں کی عادت ہوتی ہے کپڑا سی رہی تھی انگلی میں سوئی لگ گئی اور تھوڑا سے خون نکل آیا وہ بجائے اس پر پانی ڈالنے کے اس کو دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیتی ہیں اب اس کا مسئلہ بتانا ہے تو فقہ یہ کہتی ہے کہ اس نے جو چاٹا یہ گناہ ہے اور پہلی دفعہ چاٹنے سے منہ بھی ناپاک ہوگیا مگر بار بار تھوکنے سے جب خون کا کوئی نشان باقی نہ رہا تو انگلی اور منہ پاک سمجھے جائیں گے ، اس مسئلے کے خلاف اگر وہ صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کردیں تو البتہ ہم ان کی علمی قابلیت مان لیں گے یعنی
فقہ کہتی ہے کہ چاٹنا منع ہے وہ حدیث سنائیں کہ چاٹنا جائز ہے؟
فقہ کہتی ہے کہ خون کا نشان نہ رہے تو جگہ پاک ہے وہ حدیث دکھائیں کہ خون کا نشان مٹ جانے کے بعد بھی جگہ ناپاک ہے؟
لیکن ان کا اپنا مسئلہ تو یہ ہے کہ خون پاک ہے ، انگلی کو لگا انگلی بھی پاک رہی ، منہ کو لگا منہ بھی پاک رہا یعنی غیر مقلد عورت اس خون کو پاک سمجھ کر چاٹے گی حنفی ناپاک سمجھ کر۔

نمبر 02 - ایک اہل سنت و الجماعت اور ایک غیر مقلد گنا چوستے جارہے تھے ، دونوں کے منہ سے خون نکل آیا حنفی گناہ چھوڑ کر تھوکنے لگا ، پانی وغیرہ پاس نہ تھا غیر مقلد نے پوچھا کیا بات ہے ؟ اس نے کہا بھئی خون نکل آیا جس کی وجہ سے منہ ناپاک ہوگیا ہے- اس نے کہا ہمارے مذہب میں تو خون پاک ہے ، تھوکا دونوں نے مگر حنفی ناپاک سمجھ کر تھوکتا رہا غیر مقلد پاک سمجھ کر ، جب نشان مٹ گیا تو حنفی نے گنا چوسنا شروع کردیا کیونکہ چاٹنے اور تھوکنے سے منہ پاک ہوگیا تھا غیر مقلد سے کہا یہ مسئلہ غلط ہے تو اس کے خلاف حدیث سنادو؟

نمبر 03 - ایک حنفی اور غیر مقلد سفر میں تھے دونوں کے پاس ایک ایک چھوٹی بالٹی پانی کی تھی ، آگے ایک شرابی ملا جس کے ہونٹوں کو شراب لگی ہوئی تھی یہ شراب حنفی کے نزدیک پیشاب کی طرح نجس تھی اور غیر مقلد کے نزدیک پاک تھی ، اب اختلاف یہ ہوا کہ وہ اگر مٹکے کو منہ لگا کر پانی پئے تو حنفی کے ہاں باقی پانی نجس ہے اور غیر مقلد کے نزدیک باقی بچا ہوا پانی پاک ہے ، اب وہ شرابی اگر شراب ہونٹوں سے چاٹ چاٹ کر تھوکنا شروع کردے تو حنفی مذہب میں یہ چاٹنا گناہ ہے اور غیر مقلد کے ہاں چاٹنا گناہ نہیں کیونکہ وہ پاک چیز چاٹ رہا ہے ، ہاں اگر چاٹنے سے شراب کا اثر زائل ہوجائے تو حنفی کے نزدیک اب اس کا منہ پاک ہوگیا ہے اور غیر مقلد کے نزدیک تو پہلے شراب آلودہ بھی پاک ہی تھا۔

نمبر 04 - ایک بلی نے چوہے کا شکار کیا اور اس کے منہ کو خون لگا ہوا ہے ، اب غیر مقلدوں کے مذہب میں چونکہ خون پاک ہے اس لئے اس کا خون آلودہ منہ بھی پاک ہے اس بلی نے غیر مقلد کے مٹکے میں منہ ڈال دیا تو اس کے نزدیک وہ پانی پاک ہے - مگر حنفی فقہ کی رو سے وہ پانی ناپاک ہے ، اب وہ بلی بیٹھی اپنا منہ چاٹ چاٹ کر صاف کرتی رہی جب خون کا اثر بالکل ختم ہوگیا تو اب اس کا جھوٹا نجس نہیں مکروہ ہوگا کیونکہ اس نے چاٹ کر اپنا منہ صاف کرلیا ہے۔

نمبر 05 - ایک حنفی اور غیر مقلد سفر میں تھے اتفاق سے حنفی کو احتلام ہوگیا اور پانی کہیں ملتا نہیں - حنفی نے کہا یہ جو منی لگی ہوئی ہے یہ ناپاک ہے ، غیر مقلد نے کہا کہ یہ پاک ہے بلکہ ایک قول میں کھانا بھی جائز ہے ، حنفی نے کہا کہ پھر اگر تم چاٹ کر صاف کرلو تو تمہارا ناشتہ ہوجائے گا اور جب اس کا اثر ختم ہوجائے گا تو میرا جسم پاک ہوجائے گا۔

بہرحال حنفی فقہ میں نجاست کا چاٹنا ہرگز جائز نہیں ، ہاں بعض چیزیں ہمارے مذہب میں نجس ہیں جیسے شراب ، خون ، قے لیکن غیر مقلدوں کے ہاں پاک ہیں اس لئے ہمارے فقہاء نے یہ فرق بتایا کہ جب منہ آلودہ ہو تو نجس ہے اور اگر پانی نہیں ملا اور قے والے نے دو تین مرتبہ ہونٹ چاٹ کر تھوک دیا یا شراب والے نے دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیا یا جس کے دانتوں سے خون نکلا تھا اس نے چاٹ کر تھوک دیا تو چاٹنا تو منع تھا اس کا گناہ الگ رہا البتہ خون ، قے ، شراب کا اثر ختم ہونے سے منہ کی پاکی کا حکم ہوگا ، اس کے برعکس غیر مقلد کے ہاں جب خون ، قے یا شراب منہ کو لگی ہوئی تھی اس وقت بھی منہ پاک تھا جب چاٹا تو بھی پاک چیزوں کو چاٹا - "یہ دو مسائل ہیں جن کو غلط انداز میں بیان کرکے کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے جو بالکل جھوٹ ہے"

الله تعالی ہمیں دین حق پر استقامت نصیب فرمائیں اور لادین غیر مقلدین کے وساوس سے محفوظ فرمائیں [آمین]
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
سہج صاحب،
آپ کے تیار کردہ نمبرز جو کہ اوکاڑوی صاحب سے مستعار لئے گئے ہیں۔ انہی کی وجہ سے میں نے دیوبندیت کو خیرباد کہا تھا کہ جس مسلک میں ایسے کھلے عام جھوٹ بولے جاتے ہوں، اس کا حق پر ہونا ذرا مشکل سی بات ہے۔ غالبا کتاب کا نام غیرمقلدین کی فقہ کے دو سو مسائل یا ایسا کچھ تھا، اس سے قبل جو بات مجھ پر پانچ چھ ماہ کی تگ و دو اور طرفین کے علماء کی کتب پڑھ کر نہیں کھلی، وہ اس ایک کتاب ہی سے روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی، کیونکہ الحمدللہ اس معاملے میں تعصب سے کام نہیں لیا تھا۔

اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔!
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
سہج صاحب،
آپ کے تیار کردہ نمبرز جو کہ اوکاڑوی صاحب سے مستعار لئے گئے ہیں۔ انہی کی وجہ سے میں نے دیوبندیت کو خیرباد کہا تھا کہ جس مسلک میں ایسے کھلے عام جھوٹ بولے جاتے ہوں، اس کا حق پر ہونا ذرا مشکل سی بات ہے۔ غالبا کتاب کا نام غیرمقلدین کی فقہ کے دو سو مسائل یا ایسا کچھ تھا، اس سے قبل جو بات مجھ پر پانچ چھ ماہ کی تگ و دو اور طرفین کے علماء کی کتب پڑھ کر نہیں کھلی، وہ اس ایک کتاب ہی سے روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی، کیونکہ الحمدللہ اس معاملے میں تعصب سے کام نہیں لیا تھا۔

اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔!
یہاں بھی دوسوایک سوال رکھے پڑے ہیں ان کو بھی جھوٹ کہیں اور اپنے غیر مقلد ہونے کا ثبوت دیجئے۔
شکریہ
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
سہج صاحب،
آپ کے تیار کردہ نمبرز جو کہ اوکاڑوی صاحب سے مستعار لئے گئے ہیں۔ انہی کی وجہ سے میں نے دیوبندیت کو خیرباد کہا تھا کہ جس مسلک میں ایسے کھلے عام جھوٹ بولے جاتے ہوں، اس کا حق پر ہونا ذرا مشکل سی بات ہے۔ غالبا کتاب کا نام غیرمقلدین کی فقہ کے دو سو مسائل یا ایسا کچھ تھا، اس سے قبل جو بات مجھ پر پانچ چھ ماہ کی تگ و دو اور طرفین کے علماء کی کتب پڑھ کر نہیں کھلی، وہ اس ایک کتاب ہی سے روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی، کیونکہ الحمدللہ اس معاملے میں تعصب سے کام نہیں لیا تھا۔

اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔!
محترم آپ کی تحقیق کے طریقہ کار سے مجھے سخت اختلاف ہے ۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ امین اکاڑوی صاحب نے فقہ حنفی کی حقانیت ثابت کرنے کے لئیے جھوٹ بولا ہے تو کئی راویوں نے قرآن و دیگر اعمال کی فضیلت ثابت کرنے کے لئیے جھوٹی روایات گھڑی ہیں تو کیا ان راویوں کی وجہ سے آپ قرآن یا اسلام چھوڑ دیں گے ؟؟؟ یقینا نہیں تو یہاں اگر امین اکاڑوی صاحب کے متعلق آپ کو گمان ہوا کہ انہوں نے جھوٹ بولا ہے تو یہ فقہ یا مسلک تبدیل کرنے کی کوئی دلیل نہیں
اہل حدیث مسلک کے حوالہ سے اگر بات کریں تو طالب الرحمن نے کئی عقائد متعلق جھوٹ بولا ہے کہ یہ دیوبندیوں کے عقائد ہیں جب کہ وہ صریح جھوٹ ہیں تو کیا آپ اہل حدیث مسلک کو چھوڑ کر کسی اور مسلک کی تلاش کریں گے ؟؟؟؟ یا للعجب
اسی فورم بلکہ اسی تھریڈ کی مثال دیکھ لیں ایک جھوٹی بات حنفی مسلک کی طرف منسوب کی جارہی ہے کہ نجاست والی انگلی چاٹنا حنفی مسلک میں جائز ہے
یہ تو ایک الگ موضوع بیچ میں آگيا ، باقی تھریڈ کے حوالہ سے گفتگو جلد ہی ان شاء اللہ
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
یہاں میں نے ایک اعتراض کہ حنفی مسلک میں نجاست والی انگلی چاٹنا جائز ہے کے جواب میں کچھ وضاحت پیش کی تھی اس پر مختلف ممبران نے مختلف انداز میں ملتا جلتا اعتراض کیا ہے ۔ اس لئیے کسی کی بھی پوسٹ کا اقتباس لئيے ان اعتراضات کا جواب دے رہا ہوں
اللہ تبارک وتعالی مجھے حق بات کہنے اور اس پر چلنے کی توفیق دے آمین

اعتراض نمبر ایک

جب حنفی فقہ میں یہ مسئلہ لکھا کہ انگلی چاٹنے سے نجاست پاک ہوجاتی تو اصل کتاب مثلا فتاوی عالمگیری وغیرہ تو ساتھ یہ بھی لکھ دیتیں ایسا کرنا منع ہے
قرآن کی ایک آیت ہے

ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْ أَشْرَكُواْ لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ

اگر انبیاء بھی شرک کریں تو ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے
اس کا مطلب یہ ہے شرک اتنا بڑا گناء ہے کہ اگر انبیاء بھی کریں تو ان کے اعمال بھی ضائع ہوجائیں گے
اب اگر کوئی جاھل اس سے یہ مطلب نکالے کہ انبیاء بھی شرک کرسکتے ہیں کیوں یہاں اس آیت کے ساتھ اس بات کی نفی نہیں کہ انبیاء شرک نہیں کر سکتے تو آپ اس کیا جواب دیں گے
جب حنفی فقہ میں نجاست کے باب میں نجاست کے ناپاک ہونے کی واضح مسائل موجود ہیں تو یہاں یہ مطالبہ کرنا کہ فتاوی عالمگیری میں لکھا ہوا ہونا چاہئیے تھا کہ نجاست چاٹنے سے ازالہ نجاست کی صورت میں نجاست پاک ہوجاتی ہے لیکن ایسا عمل ممنوع ہے تو اس جاھل کو وہی جواب دیا جائے گا جو اوپر جاہل کو دیا جائے گا اللہ تبارک و تعالی ساتھ فرمادیتے کہ انبیاء شرک نہیں کرسکتے

اعتراض نمبر دو
دوسرا اعتراض یہ آیا کہ یہاں ازالہ نجاست کے لئیے زبان شرط ہے نہ کہ تھوک اور میں نے جو تھوک سے ازالہ نجاست کی بات کی تھی وہ اصول یہاں لاگو نہیں ہوسکتے
فتاوی عالمگیری کی عبارت ہے

لأنه يطهر بالبزاق

کیوں کہ یہ تھوک سے پاک ہوجاتی ہے
اس سے ثابت ہوا کہ اصل مسئلہ تھوک سے طھارت کا ہے نہ کہ زبان شرط ہے اور تھوک سے حیض کے خون کا ازالہ حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ اوپر گذرا

تیسرا اعتراض

ایک اعتراض یہ ہوا کہ میں کیوں کہ رہا ہوں کہ پاگل یا بچہ ہی ایسا کر سکتا ہے جب کہ یہ مسئلہ ہر ایک لئیے ہے
بلا شبہ اس مسئلہ کا اطلاق ہر ایک پر ہوتا ہے اور کوئی بھی ایسے قبیح امر سے طھارت حاصل کرے اس کو طھارت ہوجائے گی لیکن انگلی والی نجاست کو چاٹنا ایک پاگل ہی کرسکتا
یہ ایسے ہی جیسا کہ بلا شبہ اگر کوی نبی شرک کرے تو اس کے عمل بھی ضائع ہوجایں گے لیکن وضاحت پیش کی جاتی ہے کہ ایسا عمل (شرک) ایک امتی تو کر سکتا ہے نبی نہیں
وہی وضاحت میں پیش کی تھی
اللہ سے ہی ہدایت کا سوال ہے
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جواب نمبر 1


سوال
ہاتھ پر نجاست لگ جائے تین بار چاٹ لینے سے نجاست دور ہوجاتی ہے۔ بہشتی زیور صفحہ نمبر ۷۲۔ مباشرت کے بعد اگر پانی نہ ملے تو بھی یہی حکم ہے تین دفعہ چاٹ لینے سے نجاست دور ہوجائے گی۔

جواب
فتوی: 612=612/ م
بہشتی زیور کا مسئلہ درست ہے، لیکن جہاں وہ مسئلہ لکھا ہے وہیں اس کے بعد یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ?مگر چاٹنا منع ہے? اب مطلب یہ ہوا کہ نجاست کا چاٹنا تو جائز نہیں، لیکن اگر کوئی نادانی میں نجاست کو چاٹ لے اور اس کا اثر زائل ہوجائے تو نجاست دور ہوجائے گی۔ مباشرت کے بعد آدمی پر دو چیز واجب ہوتی ہے، ایک عین نجاست کا ازالہ اگر جسم یا کپڑے پر لگی ہو، دوسرے غسل کا وجوب، تو مباشرت کے بعد جسم پر اگر منی لگ گئی ہے اور اس کو کوئی تین دفعہ چاٹ لے تو نجاست بلاشبہ دور ہوجائے گی لیکن یہ چاٹنا حماقت کی انتہاء ہے، طبیعت کیسے گوارہ کرے گی کہ آدمی نجاست کو چاٹ لے، نیز اس نجاست کے زائل ہونے سے غسل کا وجوب ساقط نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
یہ جاہلانہ اور تاویلانہ جواب کئی وجوہ کی بنا پرمردود ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے مفتی صاحب جس جملہ ’’مگر چاٹنا منع ہے‘‘ کو دلیل بنارہے ہیں وہ دلیل نہیں اشرف علی تھانوی کی تحریف ہے۔ اور اصل کتابوں میں اس جملے کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ مزید تفصیل پوسٹ نمبر 23 پر بیان کرچکا ہوں پھر ملاحظہ فرمالیں: یہ بات مخالفین کے نزدیک بھی مسلمہ ہے کہ اشرف علی تھانوی مجتہد نہیں تھے صرف مقلد تھے اور مقلد کا کام صرف نقل ہوتا ہے اور یہی کام اشرف علی تھانوی نے بہشتی زیور میں کیا ہے۔ بہشتی زیور کوئی جدید تصنیف یا اشرف علی تھانوی کی زاتی کاوش نہیں بلکہ فقہ حنفی کی کتب سے خواتین کے متعلق مسائل جمع کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اشرف علی تھانوی نے فقہ حنفی کی جن کتب سے زبان سے نجاست چاٹنے کا یہ مسئلہ نقل کیا ہے وہاں "مگر انگلی چاٹنا ممنوع ہے" کے الفاظ قطعا موجودنہیں۔ یہ اشرف علی تھانوی کا زاتی اجتہاد ہے جو انکے مقلد ہونے کی وجہ سے مردود ہے اور یہ مقلدانہ جسارت فقہ حنفی کے فتویٰ پر زیادتی ہے جو کہ ایک معنی میں تحریف اور فقہاء پر عدم اعتماد کی دلیل ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایک طرف نجاست چاٹنے کی بھرپور ترغیب اور حوصلہ افزائی اور پھر اس کے فورا بعد نجاست چاٹنے کی تردید صاف بتاتی ہے یہ دو مختلف لوگوں کی عبارتیں ہیں جنھیں بے وقوفانہ طریقے سے جوڑا گیا ہے۔ یا تو کہو کہ چاٹو یا کہو نہ چاٹو۔ چاٹو بھی اور نہیں بھی چاٹو سے قاری اور حنفی بھی مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ نجاسٹ چاٹنے کا حکم دیا جارہا ہے یا اس سے روکا جارہا ہے۔ بہرحال اشرف علی تھانوی نے اپنے فقہاء کے ناپاک مسئلہ میں جو بے جوڑ پیوند لگانے کی کوشش کی ہے اس سے معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ گیا ہے اور پھر مزید یہ کہ اشرف علی تھانوی صاحب نے بلاوجہ اپنی فقہ میں تحریف کردی جبکہ انکی بات کوئی دلیل نہیں۔


مباشرت کے بعد آدمی پر دو چیز واجب ہوتی ہے، ایک عین نجاست کا ازالہ اگر جسم یا کپڑے پر لگی ہو، دوسرے غسل کا وجوب، تو مباشرت کے بعد جسم پر اگر منی لگ گئی ہے اور اس کو کوئی تین دفعہ چاٹ لے تو نجاست بلاشبہ دور ہوجائے گی
مفتی صاحب کی یہ وضاحت ان لوگوں کی بھرپور تردید کررہی ہے جو کہتے ہیں کہ نجاست چاٹنے کا عمل صرف بچے اور پاگل ہی سے متوقع ہے۔ مفتی صاحب وضاحت کررہے ہیں کہ حنفی مباشرت کے بعد اگر چاہے تو منی اپنی زبان سے چاٹ سکتا ہے اور بہت یقین اور اعتما د سے یہ بھی فرما رہے ہیں کہ "نجاست بلاشبہ دور ہو جائے گی" مطب یہ کہ ہر حنفی سے نجاست چاٹنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

اب مطلب یہ ہوا کہ نجاست کا چاٹنا تو جائز نہیں، لیکن اگر کوئی نادانی میں نجاست کو چاٹ لے اور اس کا اثر زائل ہوجائے تو نجاست دور ہوجائے گی۔
مفتی صاحب کی جہالت اور تضاد ملاحظہ فرمائیں کہ طرف نجاست چاٹنے کو ناجائز قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف فرمارہے ہیں کہ لیکن یہ ناجائز کام کرنے والا بہرحال اپنا مقصود پالے گا۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جسے کوئی کہے کہ پاکی حاصل کرنے کے لئے شراب سے غسل ناجائز ہے لیکن اگر کوئی ایسا کرلے تو اسے پاکی حاصل ہوجائے گی۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اس کی دلیل کیا ہے؟؟؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top