شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,014
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
امین اوکاڑوی کے بے حیائی اور بے شرمی ملاحظہ ہو کہ یہ اور اسکا ناپاک دیوبندی فرقہ خود انہی کے بقول دور برطانیہ کی یادگار اور پیداوار ہے لیکن دوسروں کو دور برطانیہ کا طعنہ دیتا ہے۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔جواب نمبر 2
نمبر 01 - دور برطانیہ سے پہلے بھی یہاں مسلمان آباد تھے مگر کافر غیر کتابی [ہندو ، سکھ ، مجوسی ، چمار ، چوڑا وغیرہ] کے ذبیحہ کو نجس اور مردار قرار دیتے تھے دور برطانیہ میں جب یہ لامذہب فرقہ پیدا ہوا تو انہوں نے اس نجاست اور مردار کو کھانا شروع کردیا اور فتوی دے دیا کھ یہ حلال ہے
(عرف الجادی ص 10 و ص 239 و دلیل الطالب ص 413)
مذکورہ بالا عبارت میں دلیل الطالب کا حوالہ دیا گیا ہے لیکن خود دیوبندیوں کو بھی نہیں پتا کہ یہ کس کی کتاب ہے اور مصنف کا اہل حدیث ہونا بھی نامعلوم ہے۔ لیکن اہل حدیث پر اعتراض قائم کرنے کے لئے امین اوکاڑوی صاحب کے شیطانی دماغ میں جو کچھ آتا ہے بغیر سوچے سمجھے اہل حدیث کے سر تھوپتے چلے جاتے ہیں۔ بہرحال دوسری کتاب جس کا حوالہ دیا گیا ہے وہ عرف الجادی ہے۔ یہ اہل حدیث کی کتاب نہیں کیونکہ اسے دیوبندی ہی چھاپتے ہیں اور اسکا مصنف بھی وحید الزماں ہے جس کے بارے میں اس جھوٹے امین اوکاڑوی نے خود گواہی دی ہے اس کی تمام کتابوں سے اہل حدیث علماء اور عوام بے زاری اور برات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ملاحظہ ہو: نواب صدیق حسن خان، میاں نذیر حسین، نواب وحیدالزماں، میر نورالحسن، مولوی محمد حسین اور مولوی ثنا ء اللہ وغیرہ نے جو کتابیں لکھی ہیں، اگر چہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن و حدیث کے مسائل لکھے ہیں لیکن غیر مقلدین کے تمام فرقوں کے علماء اور عوام بالاتفاق ان کتابوں کو غلط قرار دے مسترد کر چکے ہیں بلکہ برملا تقریروں میں کہتے ہیں کہ ان کتابوں کو آگ لگا دو۔ (تحقیق مسئلہ تقلید، صفحہ 6)
امین اوکاڑوی کی خود اپنی اس گواہی کے بعد انہی مردود کتابوں اور انکے مسائل کو کو اہل حدیث کے ذمہ لگانا امین اوکاڑوی کو مکار، دغاباز، دھوکے باز، جھوٹا اور دجال ثابت کرتا ہے۔
یہ پھر عرف الجادی کا حوالہ ہے جس کے بارے میں پہلے عرض کردیا گیا ہے کہ جو کتاب اہل حدیثوں کے ہاں بالاتفاق مردود ہے اصولا اور اخلاقا اس کا حوالہ اہل حدیث کے خلاف پیش نہیں کیا جاسکتا اور جو ایسا کرے گا وہ بددیانت اور فراڈی ہوگا۔ عرف الجادی وغیرہ کتابیں اہل حدیث کے ہاں مردود ہیں اس کے بارے امین اوکاڑوی ہی کی ایک اور گواہی ملاحظہ فرمائیں: نواب وحیدالزماں نے ہدیۃ المہدی ، نزل الابرار اور کنز الحقائق وغیرہ کتابیں لکھیں مگر ان کتابوں کا جو حشر ہوا وہ خدا کسی دشمن کی کتاب کا بھی نہ کرے۔نہ ہی غیر مقلد مدارس نے ان کو قبول کیا کہ ان میں سے کسی کتاب کو داخل نصاب کرلیتے نہ ہی غیرمقلد مفتیوں نے ان کو قبول کیا کہ اپنے فتاویٰ میں ان کو لیتے اور نہ ہی غیر مقلد عوام نے ان کو قبول کیا ۔(تجلیات صفدر ، جلد1، صفحہ 621)نمبر 02 - اسی طرح بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اتفاق رہا کہ اگر ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم الله نہ پڑھی جائے تو وہ جانور مردار اور نجس ہے - مگر اس نجاست خور فرقہ نے اس کے بھی جواز کا فتوی دے دیا۔
[عرف الجادی]
چونکہ امین اوکاڑوی کثرت سے جھوٹ بولنے اور تحریف کرنے کا عادی تھا حتی کہ اسکے ناپاک ہاتھوں سے قرآن و حدیث بھی محفوظ نہ رہے۔اس لئے ہمیں اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں امین اوکاڑوی کے مقلدوں سے درخواست ہے کہ فتاوی ثنائیہ سے یہ عبارت مکمل اور باحوالہ نقل کریں اس کے بعد ہی ہم کوئی جواب دے سکیں گے۔نمبر 03 - بندوق سے جو جانور مرجائے وہ مردار اور نجس ہے مگر اس لامذہب فرقہ نے یہ نجاست بھی کھانا شروع کردی اور اس کو حلال کہہ دیا۔
[بدور الاہلہ ص 335 ، فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 150 و ج 2 ص 132]
یہاں بھی ہمیں امین اوکاڑوی دجال کی بات کا اعتبار نہیں لہٰذا یہ مسئلہ مکمل اور باحوالہ نقل کریں۔نمبر 04 - بجو کو اس ملک کے مسلمان حرام اور نجس سمجھتے تھے مگر اس لامذہب فرقہ نے فتوی دیا "بجو حلال ہے ، جو شخص بجو کا کھانا حلال نہ جانے وہ منافق دے دین ہے ، اس کی امامت ہرگز جائز نہیں ، یہ قول صحیح اور موافق حدیث رسول الله صلی الله علیه وسلم ہے"
[فتاوی ستاریہ ج 2 ص 21 ص 277]
امین اوکاڑوی کو صرف اہل حدیث پر اعتراض سے غرض ہوتی تھی اور وہ اس بات کی کوئی فکر نہیں کرتا تھا کے اس کی زد کہاں کہاں پڑ رہی ہے۔ دیوبندیوں کے تسلیم شدہ بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی کے نزدیک منی پاک ہے اور حنبلیوں کا بھی یہی مذہب ہے۔ اب حنفی اپنے حنبلی بھائیوں سے خود ہی پوچھ لیں کہ وہ منی کا کسٹرڈ بنا کرکھاتے ہیں یا اسکی قلفیاں جما کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خود امین اوکاڑوی کے اپنے مذہب میں ہر قسم کی نجاست چاٹنا جائز ہے اور اسکا یہ کہنا بھی فریب ہے کہ منی ناپاک اور نجس ہے۔ دیکھئے یہاں دیوبندی مفتی صاحب ایک جنبی حنفی کو کسٹرڈ اور قلفی بنائے بغیر خالص اور اصلی منی چاٹنے کا جواز فراہم کررہے ہیں۔ http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=6331نمبر 05 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک کے مسلمان منی کو ناپاک اور نجس قرار دیتے تھے اس فرقہ نے اس کو پاک قرار دیا اور ایک قول میں اس کا کھانا بھی جائز قرار دیا۔
[فقہ محمدیہ ج 1 ص 46]
(البتہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ منی کا کسٹرڈ بناتے ہیں یا قلفیاں جماتے ہیں)
اب اگر منی حنفیوں کے ہاں نجس اور ناپاک ہوتی تو اسکے چاٹنے کا کیسے حکم دیتے۔
اس مسئلہ کے لئے امین اوکاڑوی نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے یعنی فقہ محمدی یہ وحیدالزماں کی تصنیف ہے جس کے بارے میں اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ ایسے سارے حوالے اہل حدیث کے خلاف باطل و مردود ہیں۔
اہل حدیث کے ہاں منی نجس اور ناپاک ہے اس کے لئے ممتاز اہل حدیث عالم و محدث حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا فتویٰ ماہنامہ الحدیث میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
یہاں بھی امین اوکاڑوی کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے اصل اور پورے حوالے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ بھی بتائیں کہ یہاں تو صرف حلال جانوروں کے پیشاب اور پاخانہ کی بات کی گئی ہے لیکن ابوحنیفہ کے مذہب میں حلال جانور تو چھوڑیے ہر قسم کی گندگی چاہے وہ انسان کا پیشاب و پاخانہ ہو یا حرام جانور کا اگر کپڑوں یا جسم کے ساتھ لگا ہو تو حنفی کی نماز ہوجاتی ہے۔ اپنے مذہب کے اس مسئلہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟نمبر 06 - بارہ [1200] سو سال تک یہاں کے مسلمان حلال جانوروں کے پیشاب کو پینا جائز نہیں سمجھتے تھے اور اس کو نجس قرار دیتے تھے لیکن لامذہبوں نے اس نجاست کے پینے کو جائز قرار دیا ، لکھا کہ "لکھا کہ حلال جانوروں کا پیشاب و پاخانہ پاک ہے جس کپڑے پر لگا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے ، نیز بطور ادویات استعمال کرنا درست ہے"
[فتاوی ستاریہ ج 1 ص 56 ، ج 1 ص 89]
عرف الجادی کا مردود حوالہ ہے جو اہل حدیث پر حجت نہیں۔نمبر 07 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک میں یہ مسئلہ تھا کہ تھوڑے پانی ، دودھ وغیرہ میں تھوڑی سی نجاست پڑجائے تو وہ نجس ہوجاتا ہے "پاک پانی میں نجاست پڑجاوے تو اس سے وضو ، غسل وغیرہ کچھ درست نہیں چاہے وہ نجاست تھوڑی ہو یا بہت" [بہشتی زیور ج 1 ص 57 ، ہدایہ ج 1 ص 18] لیکن دور برطانیہ میں اس فرقہ نام نہاد اہل حدیث نے فتوی دیا کہ اگر پانی وغیرہ میں نجاست پڑجائے تو جب تک نجاست سے اس کا رنگ ، بو ، مزہ نہ بدلے وہ پاک ہے۔
[عرف الجادی ، بدور الاہلہ]
(مثلا ایک بالٹی دودھ میں ایک چمچہ پیشاب ڈال دیا جائے تو نہ اس کا رنگ پیشاب جیسا ہوتا ہے نہ بو نہ مزہ ہمارے مذہب میں وہ پھر بھی ناپاک ہے اس کا پینا حرام بلکہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو نماز ناجائز ، اس فرقہ کے نزدیک وہ دودھ پاک ، حلال طیب ہے ، یہ اس نجس کو پینا جائز سمجھتے ہیں)
یہاں بھی امین اوکاڑی فراڈی نے کنزالحقائق اور نزل الابرار کا حوالہ دیا ہے جو کہ وحیدالزماں کی تصنیفات ہونے کی وجہ سے باطل مسائل ہیں اور ان مسائل سے اہل حدیث کا کوئی تعلق نہیں البتہ اس قسم کے کئی حوالے فقہ حنفی کی زینت ضرور ہیں اس بارے میں کیا خیال ہے۔نمبر 08 - بارہ [1200] سو سال تک اس ملک کے مسلمان الخمر [شراب] کو پیشاب کی طرح سمجھتے تھے لیکن اس فرقہ غیر مقلدین نے فتوی دیا کہ "الخمر طاھر" [کنز الحقائق] شراب پاک ہے بلکہ بتایا کہ اگر شراب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو کھانا جائز ہے [نزل الابرار ج 1 ص 50] اور وجہ یہ بتائی کہ اگر پیشاب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو پیشاب بھی تو جل جائے گا۔
نجاست خوری کے بارے میں یہ تو امین اوکاڑوی کے وہ جھوٹ ہیں جسے نہ وہ اپنی زندگی میں ثابت کرسکا اور نہ اسکے اندھے مقلدین آج تک اس میں کوئی کامیابی حاصل کرسکے۔ لیکن فقہ حنفی کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والا یہ ضرور جانتا ہے کہ بہت سے جانور ہیں جو نجاست خوری کرتے ہیں جیسے سور لیکن یہ مخصوص قسم کی نجاستیں ہی کھاتے ہیں لیکن حنفی دنیا کا وہ واحد جانور ہے جو پاکی کے حصول کے لئے ہر قسم کی نجاست چاٹتا ہے۔الغرض اس قسم کے اور کئی مسائل بھی تھے جن سے ملک میں نجاست خوری کی بنیاد ڈال دی ، جب احناف نے ثبوت مانگا کے اپنے اصول پر قرآن پاک کی صریح آیات یا احادیث صحیحہ صریحہ غیر معارضہ سے ان مسائل کا ثبوت پیش کرو تو بجائے احادیث پیش کرنے کے لگے فقہاء کو گالیاں دینے اور فقہ کے خلاف شور مچانا شروع کردیا کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے - نجاست عین کا چاٹنا تو کجا ، جس پانی وغیرہ میں نجاست تھوڑی سی پڑجائے کہ نجاست کا رنگ نہ بو نہ مزہ کچھ بھی ظاہر نہ ہو پھر بھی اس پانی کا پینا حرام ہے ، اس میں احناف کا کوئی اختلاف نہیں بلکہ بہشتی گوہر میں لکھا ہے کہ ایسے ناپاک پانی کا استعمال جس کے تینوں وصف یعنی مزہ اور بو اور رنگ نجاست کی وجہ سے بدل گئے ہوں کسی طرح درست نہیں نہ جانوروں کو پلانا درست ہے نہ مٹی وغیرہ میں ڈال کر گارا بنانا جائز ہے [بہشتی گوہر ج 1 ص 5 بحوالہ درمختار ج 1 ص 207] تو جب نجس پانی جانور کو پلانا ہمارے مذہب میں جائز نہیں تو انسان کو چاٹنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟
اس کا جواب ماقبل میں تفصیل کے ساتھ عرض کردیا گیا ہے وہاں دیکھا جاسکتا ہے۔چناچہ بہشتی زیور میں صاف لکھا ہے کہ نجاست چاٹنا منع ہے [بہشتی زیور ج 2 ص 5] دراصل اختلاف بعض چیزوں کے پاک ناپاک ہونے میں ہے ، ان مسائل کی تفصیل یہ لوگ بیان نہیں کرتے اور غلط نتائج نکالتے ہیں۔
اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے امین اوکاڑوی جس مسئلہ میں چاہیں غلط بیانی کرلیتے تھے دنیا جانتی ہے کہ جب انگلی میں سوئی چبھ جائے اور خون کا قطرہ نکل آئے تو انسان اسے چوس لیتا ہے۔ جبکہ امین اوکاڑوی اپنی فقہ کا مسئلہ ثابت کرنے کے لئے فرمارہے ہیں انگلی میں سوئی لگ جانے پر انسان اسے دو یا تین مرتبہ چاٹ لیتا ہے۔ کہاں زبان سے چاٹنا اور کہاں منہ سے چوسنا۔ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔نمبر 01 - مثلآ بعض جاہل عورتوں کی عادت ہوتی ہے کپڑا سی رہی تھی انگلی میں سوئی لگ گئی اور تھوڑا سے خون نکل آیا وہ بجائے اس پر پانی ڈالنے کے اس کو دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیتی ہیں اب اس کا مسئلہ بتانا ہے تو فقہ یہ کہتی ہے کہ اس نے جو چاٹا یہ گناہ ہے اور پہلی دفعہ چاٹنے سے منہ بھی ناپاک ہوگیا مگر بار بار تھوکنے سے جب خون کا کوئی نشان باقی نہ رہا تو انگلی اور منہ پاک سمجھے جائیں گے ، اس مسئلے کے خلاف اگر وہ صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کردیں تو البتہ ہم ان کی علمی قابلیت مان لیں گے یعنی
یہ ان جاہلوں کی پرانی عادت ہے کہ مسئلہ اپنا ہوتا ہے اور دلیل مخالفین سے طلب کرتے ہیں۔فقہ کہتی ہے کہ چاٹنا منع ہے وہ حدیث سنائیں کہ چاٹنا جائز ہے؟
یہ امین اوکاڑوی کی خالص کذب بیانی ہے ورنہ ہر حنفی مرد و عورت انگلی سے خون کا قطرہ نکل آنے کی بنا پر اسے چوس ہی رہے ہوتے ہیں۔ درزی کا دکان پر یا گھروں میں اس کا عام مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اور چونکہ راقم الحروف خود بھی درزی کا کام کرتا ہے لہٰذا اس بات سے بخوبی واقف ہے۔لیکن ان کا اپنا مسئلہ تو یہ ہے کہ خون پاک ہے ، انگلی کو لگا انگلی بھی پاک رہی ، منہ کو لگا منہ بھی پاک رہا یعنی غیر مقلد عورت اس خون کو پاک سمجھ کر چاٹے گی حنفی ناپاک سمجھ کر۔
جب مسئلہ حنفی کا ہے تو حنفی ہی کو دلیل پیش کرنی چاہیے وہ اپنے مسئلہ کی دلیل اہل حدیث سے کیوں چاہتا ہے؟نمبر 02 - ایک اہل سنت و الجماعت اور ایک غیر مقلد گنا چوستے جارہے تھے ، دونوں کے منہ سے خون نکل آیا حنفی گناہ چھوڑ کر تھوکنے لگا ، پانی وغیرہ پاس نہ تھا غیر مقلد نے پوچھا کیا بات ہے ؟ اس نے کہا بھئی خون نکل آیا جس کی وجہ سے منہ ناپاک ہوگیا ہے- اس نے کہا ہمارے مذہب میں تو خون پاک ہے ، تھوکا دونوں نے مگر حنفی ناپاک سمجھ کر تھوکتا رہا غیر مقلد پاک سمجھ کر ، جب نشان مٹ گیا تو حنفی نے گنا چوسنا شروع کردیا کیونکہ چاٹنے اور تھوکنے سے منہ پاک ہوگیا تھا غیر مقلد سے کہا یہ مسئلہ غلط ہے تو اس کے خلاف حدیث سنادو؟
امین اوکاڑوی نے جھوٹ کا کارخانہ لگایا ہوا تھا۔کتنی بے شرمی سے کہہ رہا ہے کہ حنفی مذہب میں شراب جیسی نجس چیز چاٹنا گناہ ہے جب کہ انکی فقہ میں ہر قسم کی نجاست چاٹنا جائز ہے۔ اور کیا منی، ٹٹی اور پیشاب وغیرہ حنفی مذہب میں پاک ہے جسے حنفی کو اپنی زبان سے چاٹنے کی اجازت دیتے ہو؟؟؟نمبر 03 - ایک حنفی اور غیر مقلد سفر میں تھے دونوں کے پاس ایک ایک چھوٹی بالٹی پانی کی تھی ، آگے ایک شرابی ملا جس کے ہونٹوں کو شراب لگی ہوئی تھی یہ شراب حنفی کے نزدیک پیشاب کی طرح نجس تھی اور غیر مقلد کے نزدیک پاک تھی ، اب اختلاف یہ ہوا کہ وہ اگر مٹکے کو منہ لگا کر پانی پئے تو حنفی کے ہاں باقی پانی نجس ہے اور غیر مقلد کے نزدیک باقی بچا ہوا پانی پاک ہے ، اب وہ شرابی اگر شراب ہونٹوں سے چاٹ چاٹ کر تھوکنا شروع کردے تو حنفی مذہب میں یہ چاٹنا گناہ ہے اور غیر مقلد کے ہاں چاٹنا گناہ نہیں کیونکہ وہ پاک چیز چاٹ رہا ہے ، ہاں اگر چاٹنے سے شراب کا اثر زائل ہوجائے تو حنفی کے نزدیک اب اس کا منہ پاک ہوگیا ہے اور غیر مقلد کے نزدیک تو پہلے شراب آلودہ بھی پاک ہی تھا۔
کہاں لکھا ہے کہ اہل حدیث کے مذہب میں خون پاک ہے؟؟؟ اور وہ بھی گندے چوہے کا خون؟؟؟نمبر 04 - ایک بلی نے چوہے کا شکار کیا اور اس کے منہ کو خون لگا ہوا ہے ، اب غیر مقلدوں کے مذہب میں چونکہ خون پاک ہے اس لئے اس کا خون آلودہ منہ بھی پاک ہے اس بلی نے غیر مقلد کے مٹکے میں منہ ڈال دیا تو اس کے نزدیک وہ پانی پاک ہے - مگر حنفی فقہ کی رو سے وہ پانی ناپاک ہے ، اب وہ بلی بیٹھی اپنا منہ چاٹ چاٹ کر صاف کرتی رہی جب خون کا اثر بالکل ختم ہوگیا تو اب اس کا جھوٹا نجس نہیں مکروہ ہوگا کیونکہ اس نے چاٹ کر اپنا منہ صاف کرلیا ہے۔
امین اوکاڑوی تو اس طرح کے فرضی اور جھوٹے قصے بنانے میں ماہر تھا۔ ہم نے ثابت کردیا ہے کہ نجاست خور حنفی ہوتا ہے۔امین اوکاڑوی اگر دارلعلوم دیوبندی کا یہ فتویٰ دیکھ لیتے تو شرم اور غیرت سے مر جاتے یہاں ناپاکی کی صورت میں حنفی کو اپنی ہی زبان سے اپنی منی چاٹنے کی اجازت دی جارہی ہے۔نمبر 05 - ایک حنفی اور غیر مقلد سفر میں تھے اتفاق سے حنفی کو احتلام ہوگیا اور پانی کہیں ملتا نہیں - حنفی نے کہا یہ جو منی لگی ہوئی ہے یہ ناپاک ہے ، غیر مقلد نے کہا کہ یہ پاک ہے بلکہ ایک قول میں کھانا بھی جائز ہے ، حنفی نے کہا کہ پھر اگر تم چاٹ کر صاف کرلو تو تمہارا ناشتہ ہوجائے گا اور جب اس کا اثر ختم ہوجائے گا تو میرا جسم پاک ہوجائے گا۔
http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=6331
فقہ حنفی کی کتابوں میں درج حنفی کا اپنی زبان سے تین مرتبہ ہر قسم کی نجاست چاٹنے کا مسئلہ امین اوکاڑوی کے اس پورے بیان کی تردید کرکے اسے جھوٹا اور مکار ثابت کررہا ہے۔بہرحال حنفی فقہ میں نجاست کا چاٹنا ہرگز جائز نہیں ، ہاں بعض چیزیں ہمارے مذہب میں نجس ہیں جیسے شراب ، خون ، قے لیکن غیر مقلدوں کے ہاں پاک ہیں اس لئے ہمارے فقہاء نے یہ فرق بتایا کہ جب منہ آلودہ ہو تو نجس ہے اور اگر پانی نہیں ملا اور قے والے نے دو تین مرتبہ ہونٹ چاٹ کر تھوک دیا یا شراب والے نے دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیا یا جس کے دانتوں سے خون نکلا تھا اس نے چاٹ کر تھوک دیا تو چاٹنا تو منع تھا اس کا گناہ الگ رہا البتہ خون ، قے ، شراب کا اثر ختم ہونے سے منہ کی پاکی کا حکم ہوگا ، اس کے برعکس غیر مقلد کے ہاں جب خون ، قے یا شراب منہ کو لگی ہوئی تھی اس وقت بھی منہ پاک تھا جب چاٹا تو بھی پاک چیزوں کو چاٹا - "یہ دو مسائل ہیں جن کو غلط انداز میں بیان کرکے کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے جو بالکل جھوٹ ہے"