جو تحقیق کر سکتا ہو اور کرے وہ مقلد کی تعریف سے نہیں نکلتا۔
اور جو تحقیق نہیں کر سکتا ہو کم علمی یا بے مائیگی کے باعث اسے تحقیق میں گھسنا مناسب نہیں کیوں کہ جب وہ کر ہی نہیں سکتا تو گھس کر کیا کرے گا؟ اسے شوق ہو تو علم حاصل کرنا چاہیے۔
سوال نمبر -١
مقلد قرآن و حدیث کا مطلب سمجھ سکتا ہے یا نہیں۔ حالانکہ ہماری فقہ شریف کے اصول کی کتابوں میں ہے کہ مقلد قرآن و حدیث سے دلیل لے ہی نہیں سکتا۔ پھر تو گویا قرآن و حدیث منسوخ اور بےکار ہیں{معاذ اللہ}۔ اگر لے سکتا ہے تو تقلید کی ضرورت ہی کیا۔ اگر نہیں لے سکتا تو قرآن و حدیث کی ضرورت ہی کیا؟
سوال نمبر - ٢
یہ جو فقہ کی کتابوں میں ہے کہ عامی کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ (پھر تو حنفی ہو کر بھی حنفی نہ رہے)
در مختار اور اس کی شرح رد المختار میں ہے
"میں کہتا ہوں : انہوں نے کہا ہے کہ عامی کا کوئی مذہب نہیں بلکہ اس کا مذہب اس کے مفتی کا مذہب ہے، اس کی توجیہ شرح تحریر میں یوں کی ہے کہ مذہب صرف اس آدمی کا ہوتا ہے جسے نظر و استدلال میں ایک قسم کی قوت اور مذاہب میں کافی بصیرت ہو یا جس شخص نے ان مذاہب کے فروع میں کوئی کتاب پڑھی ہو اور اپنے امام کے فتاوٰی اور اقوال کو جانتا ہو، اس کے سوا جو شخص حنفی، شافعی ہونے کا دعوٰی کرے تو وہ صرف کہنے سے ایسا نہیں ہو گا بلکہ وہ اسی طرح ہے جیسے کوئی کہے کہ میں فقیہ ہوں، میں نحوی ہوں۔"
رد المختار (4/80)
سوال نمبر - ٣
اگر امام کے کسی مقلد کے پاس کوئی صحیح حدیث پہنچے اور وہ اس امام کے قول کے خلاف ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ اور جو یہ کہہ کر اس حدیث کو ٹال دے کہ یہ میرے مذہب میں نہیں وہ مسلمان رہا یا اسلام سے خارج ہو گیا اور ایسے وقت مقلد کو کیا کرنا چاہیے ہے؟
سوال نمبر - ٤
احناف کو اپنے مذہب کی مواقت کے لیے حدیث سازی کی ضرورت کیونکہ پیش آئی؟
آپ جس فقہ حنفی کا ذکر کر رھے ہیں کیا وہ حیاتی والی فقہ حنفی ہے یا مماتی والی فقہ حنفی ہے
آپ کے جوابات کو ہم حیاتی والی فقہ حنفی سمجھیں یا مماتی والی فقہ حنفی