• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصولِ حدیث، ایک تنقیدی مطالعہ ملحدوں کے اعتراضات کا جواب درکار ہے

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اصولِ حدیث، ایک تنقیدی مطالعہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(مفید اضافوں کے بعد نشرِ مکرر)
تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہوتی ہے جس سے قومیں اپنی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہو کر بہتر سے بہتر کی طرف گامزن ہوتی ہیں۔ جو قومیں اپنی تاریخ کو مسخ کرتی ہیں، تاریخ انہیں مسخ کر دیتی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ خود کو سب سے بہتر ین اُمت ثابت کرنے کے چکر میں اپنی تاریخ کو انتہائی لایعنی قسم کے اصول و ضوابط کے سہارے مسخ کر ڈالا۔
حدیثی و تاریخی روایات سے اسلام کی جو تصویر کشی ہوتی ہے وہ اس اسلام سے یکسر مختلف ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ اب چونکہ یہ بات سب سے بہترین اُمت ہونے کے دعویٰ کی بنیاد منہدم کرنے کے مترادف تھی، اس لئے ایسے اصول و ضوابط مرتب کئے گئے، جن کے سہارے ان احادیث و روایات سے جان چھڑائی جا سکے۔ ہر آنے والے دور میں امت مسلمہ کے آئمہ و محدثین ایسے ایسے اصولوں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہے جن سے ان کے متقدمین بالکل لاعلم تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر نیا آنے والا دن مسلمانوں کے نزدیک "مستند" احادیث و تاریخ کو مختصر کرتا گیا اور "رطب و یابس" کا نام دے کرکثیر روایات کو ترک کرنے کا وطیرہ اپنا لیا گیا۔ جس کو دیکھ کر یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے بڑے بڑے آئمہ و محدثین نے شاید سوائے"فضول اور خلافِ اسلام" روایات اکٹھی کرنے کے کچھ نہیں کیا۔
اس کے مقابلے میں حقیقت یہ ہے کہ بڑے بڑے آئمہ و محدثین اپنے طور پر جمع کرنے کے لحاظ سے بہت بہترین کام کر گئے تھے لیکن ان روایات سے "ظاہر اسلام" کو ہر آنے والا دن چیلنج کر رہا تھا اور ان روایات کو پھر ایسے اصولوں کی بھینٹ چڑھایا گیا جن کی بنیادیں انتہائی کھوکھلی تھیں اورجن پر عمل کبھی ممکن ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے بڑے بڑے آئمہ ان اصولوں کی مالا جپتے ضرور نظر آتے ہیں لیکن عملاً ان کو اپنا نہیں سکے۔ ان اصولوں کا صرف یہ فائدہ ہوا کہ جب بھی مخالف نے کسی روایت سے استدلال کیا تو ان اصولوں کے سہارے اس کو ضعیف قرار دے دیا گیا۔
اس مختصر تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ اختصار کے ساتھ اس نظریہ ضرورت کو واضح کیا جا سکے جس کی خاطر اصول حدیث اور جرح و تعدیل کے وہ ضوابط بنائے گئے ، جن کی بنیاد سوائے ایک دوسرے کو بلادلیل تعریف و تنقید کا نشانہ بنانے اور اپنی مرضی کی روایات و قبول و رَدّ کرنے کے کچھ نہیں تاکہ مخالفین کو ان بے بنیاد اصولوں میں الجھا کر ان روایات سے گلوخلاصی کروائی جا سکے جو اسلام کا اصلی چہرہ عیاں کرتی ہیں اورجو مسلمانوں کے ہی بڑے بڑے آئمہ و محدثین نے اپنی مایہ ناز کتب میں بطور خبر بلکہ بہت جگہ بطور استدلال پیش کر رکھی ہیں۔
میری کوشش ہو گی کہ "اصول حدیث "کے نام پر پیش کئے جانے والے اصول و ضوابط کو دلائل کے ساتھ پیش کروں اور پھر ان پر تبصرہ کرتے ہوئے دلائل کے ساتھ ان کے بودے پن اور آپسی تضادات کو واضح کروں تا کہ یہ بات کھل کر ثابت ہو جائے کہ اصول حدیث کوئی علم نہیں بلکہ محض مختلف وقت کے مختلف لوگوں کی مختلف آراء کا ڈھیر ہے جس میں ہر شخص اپنی اپنی مرضی کی چیزیں اٹھا کر اپنے استدلال اور مخالف کی تردید میں پیش کر دیتا ہے ۔ روایات کو ضعیف و ناقابل استدلال ثابت کرنے کے چکر میں ایسے ایسے نا قابل عمل اصول بنائے گئے کہ بیچارے مسلمان آج اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )کی کوئی ایک سیرت کی کتاب بھی ایسی پیش نہیں کر سکتے جس میں ان اصولوں کو مد نظر رکھا گیا ہو بلکہ اس مبارک کام کے لئے بھی مسلمانوں کو انہی روایات کا لینا مجبوری ہے جو ان اصولوں کے تحت ضعیف و مردود قرار پاتی ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بھی یاد رہے کہ ہمارا تبصرہ اور اٹھائے گئے سوال انہی بنیادوں پر پوں گے جن کے تحت یہ اصول بنائے گئے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ یہ اصول محض دکھانے کے ہیں کھانے کے نہیں۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ کوئی ہمارے تبصرے سے یہ نہ سمجھ لے کہ ہم ان اصولوں کو صحیح سمجھتے ہوئے صرف ان کے عمل میں نہ آنے پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ اصولی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارے اصول حدیث صرف دفع الوقتی کے لئے ہی بنائے گئے تھے ورنہ اصول و ضوابط کی یہ صورت کبھی نافذ العمل ہی نہیں ہو سکتی۔
اس ضمن میں حدیث اور جرح و تعدیل کے بنیادی ترین اصول پر ہماری گزارشات پیشِ خدمت ہیں جو یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ جس علم کی بنیاد ہی ایسے کھوکھلے اور من پسند اصول پر رکھی گئی ہو، اس کی باقی عمارت کا حال کیا ہو گا؟
خبر و روایت کی تحقیق کا اصول
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کسی خبر یا روایت کی تحقیق کیوں کی جائے اس کے لئے مسلمان علماء قرآن کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہیں جو کچھ یوں ہے:
"اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو(مبادا) کہ کسی قوم پر نادانی سے جا پڑو، پھر اپنے کئے پر پچھتانے لگو۔ (الحجرات:6)
مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "اسی قاعدے کی بنا پر محدثین نےعلم حدیث میں جرح و تعدیل کا فن ایجاد کیا۔۔۔۔اور فقہاء نے قانونِ شہادت میں یہ اصول قائم کیاکہ کسی ایسے معاملہ میں جس سے کوئی شرعی حکم ثابت ہوتا ہویا کسی انسان پر کوئی حق ثابت ہوتا ہو، فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں۔" (تفہیم القرآن: ج5 ص74)
پیر کرم شاہ الازہری اس آیت کی تفسیر میں مشہور مفسر امام ابوبکر الجصاص کے حوالے سےلکھتے ہیں: "یعنی اس آیت کا مقتضی یہ ہے کہ فاسق کی خبر کی تحقیق کرنا واجب ہے۔۔۔۔۔ فاسق کی شہادت مردود ہو گی۔ روایتِ حدیث میں بھی اس کا کوئی اعتبار نہ ہو گا۔ کسی قانون، کسی شرعی حکم اور کسی انسان کے حق کے ثبوت کے لئے بھی اس کی خبر غیر معتبراور غیر مقبول ہو گی۔" (ضیاء القرآن: ج4 ص585)
حدیثِ نبوی میں پی ایچ ڈی لقمان السلفی لکھتے ہیں: "یہ آیت دلیل ہے کہ فاسق کی خبر رد کر دی جائے گی اور خبر دینے والا چاہے راوی ہو، شاہد ہو، یا مفتی ہو، اس کا ثقہ اور عدل ہونا ضروری ہے، اور اگر وہ ثقہ و عادل ہے تو اس کی روایت قبول کی جائے گی، اگرچہ وہ اکیلا راوی ہو۔"
(تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن: ص1449، ناشر دارالداعی للنشر و التوزیع، ریاض)
امام المفسرین ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا: "اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ فاسق کی خبر کا اعتماد نہ کرو۔"
(تفسیر ابن کثیرمترجم: ج5 ص89، طبع مکتبہ اسلامیہ، لاہور)
مشہور محدث امام مسلم نے اس آیت کو پیش کرتے ہوئے کہا: "ثابت ہوا کہ فاسق کی خبر ساقط اور ناقابل قبول ہے۔"
(صحیح مسلم مع اُردوترجمہ: مقدمہ،ج1 ص53، طبع دارالسلام )
کچھ آگے اور لکھا: "جہاں اہل علم کے ہاں فاسق کی خبر ناقابل قبول ہے وہاں ان تمام کے ہاں اس کی گواہی (بھی) مردود ہے۔ "
(صحیح مسلم مع اُردوترجمہ: مقدمہ،ج1 ص53، طبع دارالسلام )
ان تمام مستند حوالہ جات سے ثابت ہے کہ کسی بھی خبر اور روایت کو قبول کرنے لئے یہ اصول اور قاعدہ اہل اسلام کے ہاں مسلمہ ہے کہ اس کا راوی ثقہ و مستند ہو۔ اس کے برعکس فاسق کی خبر اور روایت نا قابل قبول اور مردود قرار پائے گی۔ اصول حدیث کے انتہائی دقیق اور بڑے بڑے علماء تک کے ہاں بھی "سمجھ میں آنے کی ہے نہ سمجھانے کی" جیسے ضابطوں کے مقابلے میں یہ انتہائی بنیادی ترین اور آسان فہم اصول ہے۔ مگر آنے والے شواہد یہ بات ثابت کریں گے کہ اس بنیادی اصول کو انتہائی کھوکھلی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے اور محض اپنی مخصوص اغراض و مقاصد کی خاطر ہی استعمال کیا گیا۔ چنانچہ
1) اس اصول کے بنانے والوں نے اس حقیقت کو بالکل فراموش کر دیا کہ جس آیت سے استدلال کرتے ہوئے راویوں کے لئے فاسق نہ ہونے کی شرط عائد کی جا رہی ہے وہ دوسرے راویوں سے پہلے خود صحابہ کرام کے دور میں ان کے لئے ہی اتری تھی۔ چنانچہ اس آیت کے متعلق امام المفسرین حافظ ابن کثیر نےلکھا:
"اکثر مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابو معیط کے بارے میں نازل ہوئی تھی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قبیلہ بنومصطلق سے زکوٰۃ لینے کے لئے بھیجا تھا۔" (تفسیر ابن کثیرمترجم: ج5 ص89، طبع مکتبہ اسلامیہ، لاہور)
"سلف میں سے حضرت قتادہ کے علاوہ اور بھی بہت سے حضرات نے یہی ذکر کیا ہے جیسے ابن ابی لیلیٰ، یزید بن رومان، ضحاک، مقاتل ابی حیان وغیرہ۔ ان سب کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن ابی عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، واللہ اعلم۔"
(تفسیر ابن کثیرمترجم: ج5 ص91، طبع مکتبہ اسلامیہ، لاہور)
لقمان السلفی نے لکھا کہ "ابن قتیبہ نے اپنی کتاب "المعارف" میں لکھا ہے کہ ولید بن عقبہ بن ابی معیط ، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا سوتیلا بھائی تھا۔ دونوں کی ماں اردیٰ بنت کریز تھی، فتح مکہ کے دن اسلام لایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بنی مصطلق کی زکاۃ لانے کے لئے بھیجا تھا لیکن وہ راستہ سے ہی واپس آ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا کہ انہوں نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا ہے، وہ جھوٹا تھا۔ اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔"
(تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن: ص1449، ناشر دارالداعی للنشر و التوزیع، ریاض)
ان حوالہ جات سے بالکل واضح ہے کہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ایسے ایسے لوگ بھی موجود تھے جو خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے جھوٹ بولتے بھی نہ شرماتے تھے اور جن کے فاسق ہونے پر قرآن نے گواہی دی۔ کسی کو اپنے ہی جمہور مفسرین کے خلاف اس آیت کے شان نزول پر اختلاف ہو تو ہو لیکن اس بات سے تو اختلاف ممکن نہیں کہ یہ آیت صحابہ کے دور میں ہی نازل ہوئی تھی، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خود اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں بھی فاسق ہو سکتے ہیں اور ان کی خبر اور روایت بھی ناقابل قبول قرار پائے گی۔
مگر محدثین کی کمال چابکدستی دیکھئے کہ جس آیت سے استدلال کرتے ہوئے دوسرے راویوں پر جرح و تعدیل کا سارا بے بنیاد سلسلہ شروع کیا، وہ آیت جن کے لئے اتری تھی ان کے بارے میں اصول یہ بنا دیا کہ
"امت کا تمام صحابہ کرام کی عدالت پر اجماع ہے اور ان صحابہ کرام کی عدالت پر بھی جو ان میں سے فتنہ میں مبتلا ہو گئے، ان سے حسن ظن رکھنے اور دین کے لئے عظیم خدمات پیش کرنے کے سبب، گویا اللہ نے امت کو ان کی تعدیل پر جمع کر دیا، اس لئے کہ وہ اس کے دین کے ناقلین ہیں۔"
(معرفۃ انواع علوم الحدیث لابن صلاح: ص 171 بحوالہ علم جرح و تعدیل: ص 97، ڈاکٹر سہیل حسن)
اسی طرح مشہور امام حافظ ابن عبدالبر فرماتے ہیں: "تمام صحابہ عادل، رضایافتہ، ثقہ اور ثبت ہیں اوراس پر محدثین کا اجماع ہے۔"
(التمہید لابن عبدالبر22/47، بحوالہ علم جرح و تعدیل، ص 96،ڈاکٹر سہیل حسن)
؎ تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہی تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
٭ کیا اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ولید بن عقبہ بن ابی معیط جیسے لوگ نہ تھے جو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بھی جھوٹ بولتے نہ شرماتے تھے اور جو اکثر مفسرین کے نزدیک قرآن کی رُو سے فاسق قرار پائے اور جس کے باپ عقبہ بن معیط نے جب قتل ہوتے وقت اپنی اولاد کے کفیل کے بارے میں سوال کیا تھا تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب میں" آگ "کہا تھا ۔ (سنن ابو داؤد، حدیث 2686)
٭ کیا اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ایسے لوگ نہ تھے جن کو حدود میں رجم کیا گیا اور جن کو کوڑے مارے گئے؟ یہ بھی یاد رہے کہ کسی پر بھی حدود کا نفاذ اس پر فاسق ہونے کاالزام ثابت کرنا ہے۔
٭ کیا صحابہ کرام میں ایسے نہ تھے جو ایک دوسرے پر منافقین کا کردار ادا کرنے اور منافقین کا دفاع کرنےکے الزامات عائد کرتے؟ (صحیح بخاری، حدیث 4141، 4750)
٭ کیا وہ لوگ صحابہ کرام میں سے ہی نہ تھے جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیوی عائشہ تک پر محض سنی سنائی باتوں سے انتہائی گھناؤنے الزامات عائد کئے۔ جن میں سے تین پر جھوٹے الزام لگانے کی حدِ قذف خود نبی (صلعم) نے جاری کی (سنن ابو داؤد: 4474) اور جن میں سے ام المومنین زینب کی بہن حمنہ کے لئے عائشہ نے خود کہا کہ " ہلاک ہونے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئی تھیں۔" (صحیح بخاری: حدیث 4141، 4750) اور حسان جیسے صحابی کو عائشہ کے سامنے ان کے شاگرد مسروق نے قرآن کی آیت کے مطابق عذاب عظیم کا مستحق قرار دیا۔ (صحیح بخاری: حدیث 4146)
٭ کیا اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ایسے نہیں تھے جن کے لئے خود دوسرے صحابی ابن عباس نے فرمایا کہ "معاذ اللہ !یہ تو اللہ تعالیٰ نے ابن زبیر اور بنو امیہ ہی کے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ حرم پاک کی بے حرمتی کریں۔۔۔۔ابن زبیر نے تو دُم دبا لی ہے" (صحیح بخاری: حدیث 4665) اور صحابی رسول ابن زبیر نے ابن عباس کے لئے کہا: "اللہ نے ان کے دلوں کو بھی اندھا کر دیا ہے۔" (صحیح مسلم: حدیث3429، دارالسلام)
٭ کیا ایسی صحابیہ نہیں تھی کہ جس کے بارے ابن عباس نے کہا: "وہ عورت اسلام میں (داخل ہونے کے باوجود) اعلانیہ بُرائی (زنا) کرتی تھی۔" (صحیح مسلم: حدیث3758، دارالسلام)
٭ کیا اصحاب رسول میں امیر معاویہ جیسے لوگ شامل نہ تھی کہ جن کے بارے ثقہ تابعی نے دوسرے صحابی عبداللہ بن عمرو بن العاص کے سامنے گواہی دی کہ "یہ جو آپ کے چچا معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں، وہ تو حکم دیتے ہیں کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں۔" (صحیح مسلم: حدیث4776، دارالسلام) مزے کی بات یہ کہ صحابی عبداللہ بن عمرو نے اس الزام کو ہرگز نہیں جھٹلایا۔
٭ کیا آپ کے اصحاب میں ہی وہ لوگ نہ تھے جن کے لئے خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ "تم لوگ مجھ پر اعتماد نہیں کرتے۔" (صحیح بخاری، حدیث 4351)
٭ کیا ان اصحاب میں وہ بھی شامل نہ تھے جنہوں نے اسلام اس حال میں قبول کیا تھا کہ ان کی گردن پر تلوار رکھی ہوئی تھی۔ (صحیح بخاری: حدیث 4357)
ایسی بہت سی مثالوں کے ساتھ ساتھ یہ کون جھٹلا سکتا ہے کہ دور نبوی کے مسلمانوں میں منافقین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور جو وہ تمام حقوق حاصل کئے ہوئے تھے جو دیگر مسلمانوں کو حاصل تھے۔خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھی کبھی ان منافقین کو دیگر مسلمانوں سے علیحدہ نہ کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد تو اس بات کی گنجائش ہی موجود نہ تھی کہ ان منافقین کو علیحدہ کیا جا سکتا۔ چنانچہ مشہور صحابی خذیفہ سے روایت ہے کہ "نفاق تو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دور میں تھا، آج کل تو کفر ہے یا ایمان۔" (صحیح بخاری، حدیث7114)
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو دور نبوی میں مسلمان تھے سمیت منافقین کے، وہ سب کے سب بعد میں درجہ صحابیت پر ہی فائز ہوئے۔ مسلمان علماء اس بات پر کبھی کوئی یقینی بات پیش ہی نہیں کر سکتے کہ ختمی ایمان والے صحابہ اور ختمی منافقین (صحابہ) کو الگ الگ بیان کر سکیں ۔ایسے میں یہ کتنا بڑا دھوکہ ہے کہ اس دور کے تمام کے تمام لوگوں کو پکے ایمان والے صحابہ کے برابر سمجھ کر یک جنبش تحقیق و جانچ پھٹک کے قرآنی اصول سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔
2) اس ضمن میں یہ بھی مدِ نظر رہے کہ اس گروہ صحابہ میں بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو ایک دوسرے کی جانوں کے دشمن ہو گئے۔ جنگ جمل اور جنگ صفین میں بڑے بڑے صحابہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوئے اور ان کی تلواریں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خون سے رنگین ہوئیں۔ ہمارے مسلمان بھائی ان جنگوں پر اجتہادی غلطی، نیک نیتی وغیرہ کے جتنے چاہے پردے ڈالیں، یہ بات تو طے ہے کہ ان صحابہ کو ہی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا تھا کہ "تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔" (صحیح مسلم، حدیث 225)
اب جن صحابہ نے اس صریح نبوی حکم کی نافرمانی کی ان کی گردنوں کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بیان کردہ کفر سے بچانے کے لئے جتنی مرضی تاویلیں گڑھ لی جائیں ، وہ کم از کم فسق سے تو نہیں بچ سکتیں اور فاسق کی روایت مردود و ناقابل قبول ہونے کا قرآنی حکم پس پشت ڈال کر تمام کے تمام صحابہ کو تحقیق و تفشیش سے بری قرار دینا ،وہ شکستہ بنیاد ہے جس پر یہ ساری بناوٹی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ جب بنیاد میں ہی تحقیق نہیں کی گئی تو بعد والوں پر تحقیق کی تلوار لٹکانا صرف لوگوں کو دھوکہ دینا ہی ہے۔
3) ایک اور بات جو بہت غور طلب ہے وہ یہ کہ آج ہمیں جو روایات اس طرح ملتی ہیں کہ کسی صحابی نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے روایت کیا، وہ ضروری نہیں کہ اس صحابی نے خود براہِ راست سُنی ہو۔ چنانچہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ایک صحابی براء ابن عازب خود بیان کرتے ہیں کہ "ہم جو روایات بیان کرتے ہیں وہ سب ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنیں، ان میں سے کچھ ہم نے آپ سے سُنی ہیں اور کچھ ہمارے ساتھیوں نے ہمیں بتائی ہیں اور ہم لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔"
(مسند احمد: 283/4، محقق شعیب الارنووط، بحوالہ علم جرح و تعدیل: ص 21، ڈاکٹر سہیل حسن)
اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ بات بھی یقینی نہیں کہ کس صحابی نے کیا خود سنا تھا اور کیا کسی مجہول صحابی سے؟ اب کوئی یہ بات نہیں جانتا کہ جو کسی صحابی نے کسی دوسرے سے سنا تھا وہ بھی اس کا اپنا سنا تھا یا مزید کسی اور کا؟ پھر ان تمام صحابہ میں پہلے بھی ثابت کیا جا چکا کہ وہ لوگ بھی تھے جو دور نبوی میں منافقین شمار ہوتے تھے۔ انتہائی عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ صحابی محض اس بات پر دوسروں پر اندھا اعتماد کئے جاتے کہ ہم میں سے کوئی جھوٹ نہیں بولتا۔ کیا کبھی کسی نے اپنے منہ سے یہ مان کر بھی خبر سنائی ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے؟ کیا ان کو یہ خبر نہیں کہ قرآن کی وہ آیت جس پر تحقیق و تفشیش کو لازمی قرار دیا گیا وہ اتری اس لئے تھی کہ اس دور میں بھی جھوٹ بول کر خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دھوکہ دیا گیا؟ کیا بڑے بڑے مفسرین و علماء نے یہ نہیں کہا کہ وہ صحابی ہی تھا جو خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تک سے جھوٹ بول گیا۔ پھر کیا صرف جھوٹ بولنا ہی ایسا فسق ہے جس کی بنیاد پر خبر کی تحقیق قرآن نے بیان فرمائی؟ ممکن ہے کہ وہ خبر بیان کرنے والا کسی دوسرے کبیرہ گناہ کی وجہ سے فاسق ہو یا کسی اور کمزوری کا شکار ہو اور آپ نے محض صحابی ہونے کی رواداری میں سب قبول کر لیا۔
4) فاسق کی گواہی یا روایت کو قبول نہ کرنے کے لئے ضروری یہ ہونا چاہئے تھا کہ کوئی شخص یا راوی فاسق ثابت کر دیا جائے کیونکہ محض الزام تو کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ مگر یہاں آئمہ و محدثین کی جانب سے انتہاء درجے کی بے اصولی دیکھنے کو ملتی ہے وہ یہ کہ محض الزامات کے سہارے کسی بھی راوی کو ضعیف قرار دیا جا سکتا ہے چاہے وہ الزام ثابت ہو یا نہ ہو۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بے شمار راویوں پر جو کلمات جرح و تعدیل نقل کئے جاتے ہیں، ان کی یقینی جانچ پرکھ کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔ ایک ہی راوی کو ایک محدث ثقہ قرار دے گا تو دوسرا شدید ضعیف بلکہ بعض اوقات کذاب بھی۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ اگر کذاب تھا تو ثقہ کہنے والے کے پاس کیا دلیل تھی اور اگر ثقہ تھا تو کذاب کہنے والے کے پاس کیا ثبوت تھا؟ صرف یہی نہیں خود ایک امام کی ایک ہی راوی پر مختلف رائے مل جاتی ہے کہ ایک وقت میں اسے ثقہ کہا تو کسی اور وقت ضعیف بھی اور ایسی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ جرح و تعدیل محض مختلف محدثین کی ایک راوی پر اپنی اپنی رائے ہے جو کسی ثبوت اور ضابطے کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض تاثر پر کھڑی ہے۔ افسوس در افسوس یہ کہ ایک راوی پر دو، تین، چار، پانچ صدیوں بعد آنے والے بھی اس بیچارے کو ثقہ یا ضعیف قرار دینے کی اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ کوئی اللہ کے ماننے والا یہ نہیں پوچھتا کہ حضور! اتنے سو سال بعد پیدا ہونے والا کیسے اس راوی پر اپنی گواہی پیش کر سکتا ہے؟ جب ایک دور سے تعلق رکھنے والے کسی شخص پر کسی کا محض الزام کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو اتنی صدیوں بعد والے لوگوں کی کیا حیثیت ہے کہ ان کی سُنی سنائی باتوں پر کسی راوی کو ضعیف قرار دے دیا جائے۔
اس سے بڑھ کر اس شکستہ معیار کو کیسے ثابت کیا جائے کہ صحابہ کی فہرست میں شامل ہونے والے کسی بھی شخص کے لئے ثابت شدہ فسق کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا اور بعد والے راویوں پر محض الزامات کو فرد جرم بنا دیا گیا۔ اس پر بھی زعم یہ کہ ہمارے اصول بڑے کڑے معیاروں پر کھڑے ہیں اور یہ صرف ایک بنیادی اصول کا حال ہے، باقی
؎ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
Saad Raza

فنِ حدیث میں اسی ناقص العقل عورت کی گواہی مکمل قبول؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پیغمبر اسلام نے کہا کہ عورت ناقص العقل ہے اس لیے اسکی گواہی آدھی ہے (بخاری و مسلم) ۔۔۔۔۔ لیکن علم الحدیث والوں نے جناب عائشہ کی بطور عورت ناقص العقلی کے باوجود اپنا آدھے سے زیادہ فقہ و قانون جناب عائشہ سے ہی مستعار لیا۔
حیرت ہے کہ اللہ کے مطابق ایک عورت طلاق و نکاح و مالی معاملات میں تو اپنی جذاباتیت کی وجہ سے ایک گواہی تک صحیح نہیں دے سکتی، لیکن دوسری طرف وہ اسی عورت سے پورا کا پورا قانون لے رہے ہیں
 
Last edited by a moderator:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اگر شیوخ محترم اس كا جواب ارشاد نہیں فرماتے تو میں ان شاء اللہ پانچ چھ دن میں اس کا جواب عرض کرتا ہوں۔ آپ اس سلسلے سے متعلق اگر اور تحاریر ہیں تو وہ بھی نقل کر دیجیے۔

یہ بہت خطرناک محسوس ہونے والے سوالات ہیں اصول حدیث پر۔ ان میں سے کچھ میرے ذہن میں بھی آتے رہے ہیں جن میں سے بعض کو اپنے اساتذہ کے سامنے اور بعض کو ساتھیوں کے سامنے رکھتا رہا ہوں۔ کبھی اوپن فورمز پر پیش نہیں کیے کہ مبطلین کے لیے دلیل نہ بن جائیں۔ لیکن جتنے گہرے یہ سوالات لگتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
صولِ حدیث، ایک تنقیدی مطالعہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(مفید اضافوں کے بعد نشرِ مکرر)
تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہوتی ہے جس سے قومیں اپنی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہو کر بہتر سے بہتر کی طرف گامزن ہوتی ہیں۔ جو قومیں اپنی تاریخ کو مسخ کرتی ہیں، تاریخ انہیں مسخ کر دیتی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ خود کو سب سے بہتر ین اُمت ثابت کرنے کے چکر میں اپنی تاریخ کو انتہائی لایعنی قسم کے اصول و ضوابط کے سہارے مسخ کر ڈالا۔
السلام علیکم و علی کل من اتبع الہدی

اس تقریر دل پذیر کو پڑھا اور دل سر دھننے کو چاہا۔ ایک بہت محترم بھائی کی خواہش پر اس کا جواب تحریر کرنا چاہتا ہوں۔
اس مکمل تحریر میں جہاں بہت سے مغالطے ہیں وہیں بہت سی غلط فہمیاں بھی ہیں اور ان کا دور کرنا ضروری ہے۔ ہم اولا صاحب کلام کی تمہید کو دیکھتے ہیں جس میں جناب نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ امت مسلمہ نے اپنی تاریخ کو مسخ کر دیا ہے اور وہ بھی بعض اصولوں کا سہارا لے کر۔
میں انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ معاملہ اس کے سراسر الٹ ہے۔ امت مسلمہ کے علماء نے اپنی تاریخ کو مسخ نہیں کیا بلکہ انتہائی دیانت کے ساتھ محفوظ کر دیا ہے۔ آپ سیف بن عمر الاسدی (متوفی ۲۰۰ھ) كی وقعۃ الجمل سے لے كر اکبر شاہ نجیب آبادی کی تاریخ اسلام تک سب کا مطالعہ کر لیں۔ سب نے اپنی اپنی وسعت کے مطابق سچی جھوٹی، کمزور قوی، اچھی بری ہر روایت کو جمع کر دیا ہے اور یہ علماء اسلام کی دیانت کی عمدہ مثال ہے۔ کون سی قوم یہ پسند کرتی ہے کہ وہ اپنے ناپسندیدہ قصے بیان کرے؟ ہاں ہر روایت کا سچا اور جھوٹا ہونا بتانا نہ ان پر لازم تھا اور نہ ہی یہ ہر کسی کے لیے ممکن ہوتا ہے۔
اس کے مقابلے میں بائبل کو دیکھیے۔ قرآن کی صراحت کے مطابق عیسی بن مریمؑ نے احمد نبی کے آنے کا ذکر کیا تھا لیکن کیا انہوں نے اسے باقی رکھا؟ یہود نے اپنے احکام کو کتنا باقی رکھا اور کتنے بدل دیے؟
کیا نصاری عیسیؑ کے حواریین کا نام یقین سے بتا سکتے ہیں؟ چند افراد کے نام بھی محفوظ نہ رکھ سکے؟ انجیل پولس کے ہاتھ سے لکھی گئی جس نے گیمی لیل یہودی عالم سے علم حاصل کیا تھا اور مسیحیوں کو ستایا کرتا تھا، جو کبھی جیسس (مسیحّ) سے نہیں ملا لیکن معجزاتی طور پر انجیل کا مصنف بن گیا۔
جن قوموں نے عقائد اور احکام کا یہ حال کیا ہے وہ اپنی تاریخ کی کیا حفاظت کرتے۔ لیکن اس کے بر خلاف مسلمانوں نے بے شمار لوگوں كی نہ صرف تفصیلات محفوظ کی ہیں بلکہ ان پر جرح اور ان کی تعدیل بھی کی ہے تو صاحب کلام اسے لایعنی اصول قرار دے کر چھپانا چاہتے ہیں۔ ذرا لا کر تو دکھائیں کسی قوم سے ایسی مثال!

حدیثی و تاریخی روایات سے اسلام کی جو تصویر کشی ہوتی ہے وہ اس اسلام سے یکسر مختلف ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ اب چونکہ یہ بات سب سے بہترین اُمت ہونے کے دعویٰ کی بنیاد منہدم کرنے کے مترادف تھی، اس لئے ایسے اصول و ضوابط مرتب کئے گئے، جن کے سہارے ان احادیث و روایات سے جان چھڑائی جا سکے۔ ہر آنے والے دور میں امت مسلمہ کے آئمہ و محدثین ایسے ایسے اصولوں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہے جن سے ان کے متقدمین بالکل لاعلم تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر نیا آنے والا دن مسلمانوں کے نزدیک "مستند" احادیث و تاریخ کو مختصر کرتا گیا اور "رطب و یابس" کا نام دے کرکثیر روایات کو ترک کرنے کا وطیرہ اپنا لیا گیا۔ جس کو دیکھ کر یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے بڑے بڑے آئمہ و محدثین نے شاید سوائے"فضول اور خلافِ اسلام" روایات اکٹھی کرنے کے کچھ نہیں کیا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صاحب کلام کا یہ گمان ہے کہ حدیث اور روایات کو قبول اور رد کرنے کے اصول بہت بعد میں لکھے اور استعمال کیے گئے ہیں۔ حالانكہ حقیقت یہ ہے کہ 80 ھ میں پیدا ہونے والے اور 160 ھ میں وفات پانے والے شعبہ بن حجاج نے سب سے پہلے رواۃ پر کلام شروع کیا تھا (تہذیب الکمال)۔ اسی طرح اسی زمانے کے ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بھی رواۃ پر کلام کرتے تھے (العلل للترمذی)۔ اور یہ حضرات متقدمین میں سے تھے۔ یہ نہ صرف کلام کرتے تھے بلکہ روایات کو قبول اور رد بھی کیا کرتے تھے۔ پھر ان کے فورا بعد آنے والے مالک بن انس اور سفیان ثوری کے کام سے تو شاید صاحب کلام واقف ہوں گے ہی۔ یہ بھی متقدمین میں سے تھے۔

امام شافعی، امام ترمذی، امام مسلم وغیرہ بھی متقدمین میں سے تھے اور انہوں نے اصول حدیث کو باقاعدہ لکھا ہے۔ ہاں یہ تسلیم ہے کہ ان کی کتب میں ترتیب اور جمع نہیں ہوتی تھی۔ بہت سی چیزیں بلا ترتیب مسائل کے ضمن میں لکھی جاتی تھیں یا بہت سی چیزیں چھوڑ دی جاتی تھیں۔ لیکن۔۔۔۔۔ فلسفہ سے لے کر مائیکرو بیالوجی اور سیل اینڈ مولیکیولر بیالوجی تک کون سا ایسا فن صاحب کلام مجھے ایسا دکھا سکتے ہیں جس کے ابتدائی لکھنے والوں نے ہی ہر چیز اور قاعدہ لکھ دیا ہو؟؟؟ کیا افلاطون، ارسطو اور سقراط نے اپنا کام پورا کر لیا تھا؟؟
اور اگر نہیں دکھاسکتے تو کتنے فنون کو صاحب کلام نے اس بنیاد پر ترک کیا ہے؟ صرف علم حدیث پر اعتراض کرنے کی کیا تک ہے؟

ایک بار پھر کہتا ہوں کہ یہ تو علماء اسلام کی دیانت ہے کہ وہ ہر چیز جمع کر گئے تاکہ بعد والے صحیح اور غلط کو الگ کر لیں لیکن سامنے سب کچھ ہو۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس مختصر تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ اختصار کے ساتھ اس نظریہ ضرورت کو واضح کیا جا سکے جس کی خاطر اصول حدیث اور جرح و تعدیل کے وہ ضوابط بنائے گئے ، جن کی بنیاد سوائے ایک دوسرے کو بلادلیل تعریف و تنقید کا نشانہ بنانے اور اپنی مرضی کی روایات و قبول و رَدّ کرنے کے کچھ نہیں تاکہ مخالفین کو ان بے بنیاد اصولوں میں الجھا کر ان روایات سے گلوخلاصی کروائی جا سکے جو اسلام کا اصلی چہرہ عیاں کرتی ہیں اورجو مسلمانوں کے ہی بڑے بڑے آئمہ و محدثین نے اپنی مایہ ناز کتب میں بطور خبر بلکہ بہت جگہ بطور استدلال پیش کر رکھی ہیں۔
میری کوشش ہو گی کہ "اصول حدیث "کے نام پر پیش کئے جانے والے اصول و ضوابط کو دلائل کے ساتھ پیش کروں اور پھر ان پر تبصرہ کرتے ہوئے دلائل کے ساتھ ان کے بودے پن اور آپسی تضادات کو واضح کروں تا کہ یہ بات کھل کر ثابت ہو جائے کہ اصول حدیث کوئی علم نہیں بلکہ محض مختلف وقت کے مختلف لوگوں کی مختلف آراء کا ڈھیر ہے جس میں ہر شخص اپنی اپنی مرضی کی چیزیں اٹھا کر اپنے استدلال اور مخالف کی تردید میں پیش کر دیتا ہے ۔ روایات کو ضعیف و ناقابل استدلال ثابت کرنے کے چکر میں ایسے ایسے نا قابل عمل اصول بنائے گئے کہ بیچارے مسلمان آج اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )کی کوئی ایک سیرت کی کتاب بھی ایسی پیش نہیں کر سکتے جس میں ان اصولوں کو مد نظر رکھا گیا ہو بلکہ اس مبارک کام کے لئے بھی مسلمانوں کو انہی روایات کا لینا مجبوری ہے جو ان اصولوں کے تحت ضعیف و مردود قرار پاتی ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بھی یاد رہے کہ ہمارا تبصرہ اور اٹھائے گئے سوال انہی بنیادوں پر پوں گے جن کے تحت یہ اصول بنائے گئے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ یہ اصول محض دکھانے کے ہیں کھانے کے نہیں۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ کوئی ہمارے تبصرے سے یہ نہ سمجھ لے کہ ہم ان اصولوں کو صحیح سمجھتے ہوئے صرف ان کے عمل میں نہ آنے پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ اصولی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارے اصول حدیث صرف دفع الوقتی کے لئے ہی بنائے گئے تھے ورنہ اصول و ضوابط کی یہ صورت کبھی نافذ العمل ہی نہیں ہو سکتی۔
یہ تو جب دلائل پر بحث شروع ہوگی تب معلوم ہوگا کہ کون سے اصول کیسے ہیں اور کون سے نہیں۔ اس سے قبل بطور تمہید میرا صاحب کلام سے ایک سوال ہے کیا صاحب کلام قرآن کریم کو مانتے ہیں یا نہیں؟ (اصولا تو نہیں ماننا چاہیے کیوں کہ قرآن کے ناقلین بھی وہی صحابہ ہیں جن سے صاحب کلام نالاں ہیں۔)
اگر قرآن کو نہیں مانتے تو یہ سارا کلام صاحب کلام کو کوئی فائدہ نہیں دیتا کیوں کہ یہ قرآن کی ایک آیت پر مبنی ہے اور جب آپ کے نزدیک قرآن اور اس کی آیات ہی غلط ہیں تو ان پر مبنی بات بھی بداہۃ غلط ہوئی۔
اور اگر قرآن کو کلام خداوندی مانتے ہیں یا یہ سارا کلام مسلمانوں کے اعتبار سے کیا ہے اپنے زعم میں تو پھر ہم بھی قرآن سے ہی بات کریں گے اور انہی کتب اور مفسرین سے جن کا صاحب کلام نے حوالہ دیا ہے۔
لیکن ایک بات کی وضاحت میں کرتا چلوں کہ اگر صاحب کلام کی پیش کردہ آیت نہ بھی ہوتی جس میں فاسق کی گواہی قبول نہ ہونے کا ذکر ہے تب بھی عقلا روایت کے قبول ہونے کے لیے راوی کی تحقیق لازم تھی کیوں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم مسلمان سینٹ پال اور سینٹ لیوک جیسے کرداروں سے اپنا دین نہیں لیا کرتے۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
خبر و روایت کی تحقیق کا اصول
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کسی خبر یا روایت کی تحقیق کیوں کی جائے اس کے لئے مسلمان علماء قرآن کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہیں جو کچھ یوں ہے:
"اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو(مبادا) کہ کسی قوم پر نادانی سے جا پڑو، پھر اپنے کئے پر پچھتانے لگو۔ (الحجرات:6)
مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "اسی قاعدے کی بنا پر محدثین نےعلم حدیث میں جرح و تعدیل کا فن ایجاد کیا۔۔۔۔اور فقہاء نے قانونِ شہادت میں یہ اصول قائم کیاکہ کسی ایسے معاملہ میں جس سے کوئی شرعی حکم ثابت ہوتا ہویا کسی انسان پر کوئی حق ثابت ہوتا ہو، فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں۔" (تفہیم القرآن: ج5 ص74)
پیر کرم شاہ الازہری اس آیت کی تفسیر میں مشہور مفسر امام ابوبکر الجصاص کے حوالے سےلکھتے ہیں: "یعنی اس آیت کا مقتضی یہ ہے کہ فاسق کی خبر کی تحقیق کرنا واجب ہے۔۔۔۔۔ فاسق کی شہادت مردود ہو گی۔ روایتِ حدیث میں بھی اس کا کوئی اعتبار نہ ہو گا۔ کسی قانون، کسی شرعی حکم اور کسی انسان کے حق کے ثبوت کے لئے بھی اس کی خبر غیر معتبراور غیر مقبول ہو گی۔" (ضیاء القرآن: ج4 ص585)
حدیثِ نبوی میں پی ایچ ڈی لقمان السلفی لکھتے ہیں: "یہ آیت دلیل ہے کہ فاسق کی خبر رد کر دی جائے گی اور خبر دینے والا چاہے راوی ہو، شاہد ہو، یا مفتی ہو، اس کا ثقہ اور عدل ہونا ضروری ہے، اور اگر وہ ثقہ و عادل ہے تو اس کی روایت قبول کی جائے گی، اگرچہ وہ اکیلا راوی ہو۔"
(تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن: ص1449، ناشر دارالداعی للنشر و التوزیع، ریاض)
امام المفسرین ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا: "اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ فاسق کی خبر کا اعتماد نہ کرو۔"
(تفسیر ابن کثیرمترجم: ج5 ص89، طبع مکتبہ اسلامیہ، لاہور)
مشہور محدث امام مسلم نے اس آیت کو پیش کرتے ہوئے کہا: "ثابت ہوا کہ فاسق کی خبر ساقط اور ناقابل قبول ہے۔"
(صحیح مسلم مع اُردوترجمہ: مقدمہ،ج1 ص53، طبع دارالسلام )
کچھ آگے اور لکھا: "جہاں اہل علم کے ہاں فاسق کی خبر ناقابل قبول ہے وہاں ان تمام کے ہاں اس کی گواہی (بھی) مردود ہے۔ "
(صحیح مسلم مع اُردوترجمہ: مقدمہ،ج1 ص53، طبع دارالسلام )
ان تمام مستند حوالہ جات سے ثابت ہے کہ کسی بھی خبر اور روایت کو قبول کرنے لئے یہ اصول اور قاعدہ اہل اسلام کے ہاں مسلمہ ہے کہ اس کا راوی ثقہ و مستند ہو۔ اس کے برعکس فاسق کی خبر اور روایت نا قابل قبول اور مردود قرار پائے گی۔ اصول حدیث کے انتہائی دقیق اور بڑے بڑے علماء تک کے ہاں بھی "سمجھ میں آنے کی ہے نہ سمجھانے کی" جیسے ضابطوں کے مقابلے میں یہ انتہائی بنیادی ترین اور آسان فہم اصول ہے۔
صاحب کلام کی بات سے یہاں تک تو اتفاق ہے لیکن اس کے اوپر صاحب کلام نے بہت غیر صحیح بات کی بنیاد رکھی ہے اور وہ ہے اس آیت سے ایک صحابی رسول پر اعتراض کر کے تمام صحابہ کو متہم کرنا۔
میرے محترم عرض یہ ہے کہ جس قرآن کی ایک آیت کے ضمن میں موجود ایک جزئی واقعہ کو لے کر آپ اعتراض کرنا چاہ رہے ہیں (حالانکہ قرآن تمام انسانیت کے لیے اترا ہے اس کے الفاظ کسی خاص شخص کا جب تک نام نہ لے لیں اس کے لیے خصوصی حکم ذکر نہیں کرتے۔ یہ تو ایک واقعہ ہوا تھا جس کے ضمن میں مالک قرآن نے اپنی کتاب میں ایک حکم قیامت تک اتار دیا۔ کیا کہیں قرآن نے یہ وضاحت کی ہے کہ فاسق انہی صحابی کو کہا ہے؟) اسی قرآن کی بہت ساری آیات نے تمام صحابہ کی عدالت کو ثابت کیا ہے۔
اور یہ یاد رکھیے کہ اس اصول اور اس جیسے تمام اصولوں کی بنیاد ہی دین کی حفاظت ہے۔ جب اس دین کا بنانے والا ہی کسی سے راضی ہو تو پھر ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس کی کھوج لگاتے پھریں؟

وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ (الانفال 62)
"اور اگر یہ چاہیں کہ آپ کو دھوکہ دیں تو اللہ آپ کو کافی ہے۔ اس نے آپ کی مدد کی ہے اپنی نصرت سے اور مومنین سے"
اس آیت میں دو چیزیں واضح طور پر بتائیں:
1۔ اگر کسی نے نبی کو دھوکہ دینے کی کوشش کی تو اللہ کافی ہے۔ وہ حفاظت کرے گا۔
2۔ آپ کے زمانے کے آپ کی مدد کرنے والے مومنین ہیں اور اللہ نے ان کے ذریعے اپنے نبی کی مدد و تائید کی ہے۔ اور اس سے سب واقف ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ کی مدد صحابہ کرام نے کی تھی۔
تو جب صحابہ خود ہی اللہ کی نصرت ہیں تو کسی کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اللہ کی نصرت میں فسق ڈھونڈے۔ اور رہ گئے منافقین تو وہ دھوکہ دینے والے ہیں۔ ان کے لیے اللہ کافی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (74) وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ
(الانفال 75۔76)

ترجمہ" اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے انہیں ٹھکانہ دیا اور مدد کی، یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لیے بخشش اور عمدہ رزق ہے۔ اور وہ لوگ جو ان کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ جہاد کیا وہ تم میں سے ہی ہیں۔"
اس آیت میں اللہ پاک نے تین قسم کے لوگوں کی تعدیل کی ہے اور انہیں مومن کہا ہے:
1۔ مہاجرین صحابہ کی۔
2۔ انصار کی۔
3۔ اور بعد میں ایمان لانے والوں کی۔ ان کے ساتھ ہجرت کی بھی شرط ہے لیکن فتح مکہ کے بعد ہجرت خود ختم ہو گئی تھی اس لیے یہ شرط بھی ختم ہو گئی۔ تو اس طرح اس آیت میں تمام صحابہ کرام شامل ہیں۔
حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
ثم ذكر أن الأتباع لهم في الدنيا على ما كانوا عليه من الإيمان والعمل الصالح فهم معهم في الآخرة
(4۔99 ط دار طیبہ)
"پھر اللہ پاک نے یہ ذکر کیا کہ دنیا میں جس ایمان اور عمل صالح پر وہ تھے اس پر ان کی اتباع کرنے والے آخرت میں ان کے ساتھ ہوں گے۔"
ان کی اتباع کرنے والوں کا سب سے پہلا مصداق بعد میں ایمان لانے والے صحابہ کرام رض ہیں۔

والسابقون الأولون من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان رضي الله عنهم ورضوا عنه وأعد لهم جنات تجري تحتها الأنهار خالدين فيها أبدا ذلك الفوز العظيم (التوبۃ ۔6)
ترجمہ: "اور سبقت کرنے والے ابتداء کرنے والے مہاجرین اور انصار اور وہ لوگ جنہوں نے ان کی اتباع کی اچھائی کے ساتھ، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ اور ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔"
اس آیت میں بھی اللہ پاک نے مہاجرین و انصار کے سابقین اولین اور ان کی اتباع کرنے والے بعد کے صحابہ کے لیے یہ بشارت فرمائی ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے۔
ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
فقد أخبر الله العظيم أنه قد رضي عن السابقين الأولين من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان: فيا ويل من أبغضهم أو سبهم أو أبغض أو سب بعضهم
(4۔203)
"اللہ پاک نے خبر دی ہے کہ وہ سابقین اولین مہاجرین و انصار اور جنہوں نے ان کی اتباع کی اچھائی کے ساتھ ان سے راضی ہو چکا ہے۔ سو کتنی ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو ان سے بغض رکھے یا انہیں گالی دے یا ان میں سے بغض رکھے یا گالی دے۔"
رہ گئے منافقین جن کے روایت میں شامل ہوجانے کا صاحب کلام کو غم کھائے جا رہا ہے تو ان کی ذمہ داری اللہ نے اپنے ذمہ لے لی ہے اور اگلی ہی آیت میں ذکر ہے:

وممن حولكم من الأعراب منافقون ومن أهل المدينة مردوا على النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم سنعذبهم مرتين ثم يردون إلى عذاب عظيم (التوبہ۔ 101)
ترجمہ: "اور تمہارے گرد و نواح کے بعضے گنوار منافق ہیں اور بعض مدینہ والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں ہم انہیں دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔"
یہاں اللہ پاک نے واضح بتا دیا کہ اے نبی ﷺ آپ منافقین کو اگرچہ نہیں جانتے لیکن ہم تو جانتے ہیں تو ہم انہیں دوہری سزا دیں گے۔ تو اس طرح تسلی دے دی کہ آپ کو ان کو ختم کرنے کے لیے محنت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (الحدید۔ 10)
ترجمہ: " تم میں سے اور کوئی اس کے برابر ہو نہیں سکتا جس نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا یہ ہیں کہ اللہ کے نزدیک جن کا بڑا درجہ ہے ان لوگوں پر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا اور اللہ نے ہر ایک سے نیک جزا کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔"
یہ آیت ایک جانب تمام صحابہ کرام کے مراتب کو متعین کرتی ہے تو دوسری جانب دو بہت اہم باتیں بتاتی ہے:
1۔ اللہ نے ہر صحابی سے اچھے بدے کا وعدہ کیا ہے چاہے وہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوا ہو یا اس کے بعد۔ اور ولید بن عقبہ جن کے فسق کا کہہ کر صاحب کلام نے سارا کلام مرتب کیا ہے وہ بھی ان میں شامل ہیں۔
2۔ اللہ نے یہ وعدہ ایسے نہیں کرلیا کہ اللہ کو صحابہ کی حالت نہیں پتا کہ کون سچا ہے اور کون منافق۔ بلکہ اللہ پاک نے سب کے اعمال جانتے ہوئے یہ وعدہ کیا ہے۔

یہ اور اس جیسی کئی آیتیں صحابہ کرام کی تعدیل کرتی ہیں۔ اور جب یہ آیات صحابہ کرام کی تعدیل کرتی ہیں اور اللہ پاک نے انہیں عادل سمجھا ہے تو پھر ہمارے لیے کیا حاجت رہ جاتی ہے کہ ہم ان کی چھان پھٹک کرتے رہیں؟؟؟

چنانچہ
1) اس اصول کے بنانے والوں نے اس حقیقت کو بالکل فراموش کر دیا کہ جس آیت سے استدلال کرتے ہوئے راویوں کے لئے فاسق نہ ہونے کی شرط عائد کی جا رہی ہے وہ دوسرے راویوں سے پہلے خود صحابہ کرام کے دور میں ان کے لئے ہی اتری تھی۔ چنانچہ اس آیت کے متعلق امام المفسرین حافظ ابن کثیر نےلکھا:
"اکثر مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابو معیط کے بارے میں نازل ہوئی تھی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قبیلہ بنومصطلق سے زکوٰۃ لینے کے لئے بھیجا تھا۔" (تفسیر ابن کثیرمترجم: ج5 ص89، طبع مکتبہ اسلامیہ، لاہور)
"سلف میں سے حضرت قتادہ کے علاوہ اور بھی بہت سے حضرات نے یہی ذکر کیا ہے جیسے ابن ابی لیلیٰ، یزید بن رومان، ضحاک، مقاتل ابی حیان وغیرہ۔ ان سب کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن ابی عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، واللہ اعلم۔"
(تفسیر ابن کثیرمترجم: ج5 ص91، طبع مکتبہ اسلامیہ، لاہور)
لقمان السلفی نے لکھا کہ "ابن قتیبہ نے اپنی کتاب "المعارف" میں لکھا ہے کہ ولید بن عقبہ بن ابی معیط ، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا سوتیلا بھائی تھا۔ دونوں کی ماں اردیٰ بنت کریز تھی، فتح مکہ کے دن اسلام لایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بنی مصطلق کی زکاۃ لانے کے لئے بھیجا تھا لیکن وہ راستہ سے ہی واپس آ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا کہ انہوں نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا ہے، وہ جھوٹا تھا۔ اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔"
(تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن: ص1449، ناشر دارالداعی للنشر و التوزیع، ریاض)
ان حوالہ جات سے بالکل واضح ہے کہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ایسے ایسے لوگ بھی موجود تھے جو خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے جھوٹ بولتے بھی نہ شرماتے تھے اور جن کے فاسق ہونے پر قرآن نے گواہی دی۔ کسی کو اپنے ہی جمہور مفسرین کے خلاف اس آیت کے شان نزول پر اختلاف ہو تو ہو لیکن اس بات سے تو اختلاف ممکن نہیں کہ یہ آیت صحابہ کے دور میں ہی نازل ہوئی تھی، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خود اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں بھی فاسق ہو سکتے ہیں اور ان کی خبر اور روایت بھی ناقابل قبول قرار پائے گی۔
مگر محدثین کی کمال چابکدستی دیکھئے کہ جس آیت سے استدلال کرتے ہوئے دوسرے راویوں پر جرح و تعدیل کا سارا بے بنیاد سلسلہ شروع کیا، وہ آیت جن کے لئے اتری تھی ان کے بارے میں اصول یہ بنا دیا کہ
"امت کا تمام صحابہ کرام کی عدالت پر اجماع ہے اور ان صحابہ کرام کی عدالت پر بھی جو ان میں سے فتنہ میں مبتلا ہو گئے، ان سے حسن ظن رکھنے اور دین کے لئے عظیم خدمات پیش کرنے کے سبب، گویا اللہ نے امت کو ان کی تعدیل پر جمع کر دیا، اس لئے کہ وہ اس کے دین کے ناقلین ہیں۔"
(معرفۃ انواع علوم الحدیث لابن صلاح: ص 171 بحوالہ علم جرح و تعدیل: ص 97، ڈاکٹر سہیل حسن)
اسی طرح مشہور امام حافظ ابن عبدالبر فرماتے ہیں: "تمام صحابہ عادل، رضایافتہ، ثقہ اور ثبت ہیں اوراس پر محدثین کا اجماع ہے۔"
(التمہید لابن عبدالبر22/47، بحوالہ علم جرح و تعدیل، ص 96،ڈاکٹر سہیل حسن)
یہ تو ہم نے واضح کر دیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خود دین کے بھیجنے والے نے قبول کیا ہے تو پھر یہ اجماع تو بالکل مناسب ہے۔
لیکن۔۔۔۔۔۔ کیا ولید بن عقبۃ رضی اللہ عنہ اس آیت کی رو سے فاسق قرار پاتے ہیں۔۔۔۔۔؟

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top