اہل الحدیث
مبتدی
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 89
- ری ایکشن اسکور
- 544
- پوائنٹ
- 0
حال ہی میں ایک معروف دینی ویب سائیٹ پر ایک کتاب اپ لوڈ ہوئی ہے جو تفسیر ابن کثیر کے ترجمہ ، تخریج و تحقیق پر مبنی ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تحقیق اسماء الرجال کے معروف امام فضیلۃالشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ اور اس کتاب کو یہاں سے ڈاؤنلوڈ کیا جا سکتا ہے
تفسیر ابن کثیر
گو کہ اس عظیم الشان کتاب کو انٹرنیٹ پر پیش کرنے والے حضرات قابل تحسین ہیں لیکن کتاب کا تعارف لکھتے وقت انہوں نے چند فاش غلطیاں کی ہیں جن کی طرف میں اجمالی طور پر اشارہ کروں گا۔ ان شاء اللہ علماء اس کی طرف تفصیلی اشارہ فرمائیں گے۔
کتاب کا تعارف کچھ یوں شروع ہوتا ہے؛
تخریج آسان الفاظ میں اس حدیث کے حوالہ جات تلاش کرنے کا نام ہے۔
تحقیق عام الفاظ میں اس حدیث کے رواۃ اور متن کی جانچ پڑتال کا نام ہے اور عموما" محدثین تحقیق کے بعد حدیث کی صحت و ضعف کے بارے میں حکم لگاتے ہیں۔
اب ایک نظر ڈالتے ہیں اس تعارف میں شامل چند شبہات پر۔۔۔۔۔
1- اولا" یہ کہ اس تعارف میں کامران طاہر صاحب کی خدمات کو بطور تخریج اور تحقیق کے ذکر کیا گیا ہے جب کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالیٰ کی خدمات نظر ثانی تک محدود رکھی گئی ہیں۔ حالانکہ کتاب کا سرورق اس بات کا شاہد ہے کہ کتاب کی تحقیق و نظر ثانی دونوں کا فریضہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے سرانجام دیا ہے جب کہ کامران طاہر صاحب نے تخریج کی خدمت سرانجام دی ہے۔
ثانیا" کامران طاہر صاحب کو شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کا شاگرد تو ذکر کیا گیا ہے جب کہ وہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ کے بھی تلمیذ ہیں۔ اور اس معاملہ کو گول ہی کر دیا گیا ہے۔
کامران طاہر حفظہ اللہ کے بذات خود شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ سے بہت اچھے تعلقات ہیں لیکن اس قسم کا تعارف شاید "نائب مدیر ماہنامہ محدث کامران طاہر صاحب" کا منظور نظر بننے کے لیے شامل کیا گیا ہے یا واللہ اعلم کوئی دوسرا معاملہ ہے۔ بہر حال معاملہ جو کوئی بھی ہو، کسی کی روز و شب کی محنت پر قلم سے سیاہی پھیرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
2- جہاں تحقیق کے حوالے سے کوئی اعتراضات کیے گئے ہیں تو وہ تعارف کروانے والے صاحب کی کھلی لاعلمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اصول حدیث کے ادنی سے ادنی طالبعلم بھی ااس بات کو جانتے ہیں کہ محدثین کسی روایت یا حدیث کی سند پر حکم رواۃ یا بیان کرنے والے کو دیکھ کر لگاتے ہیں۔ اور رواۃ کا درجہ ہی دراصل اس حدیث کی صحت اور ضعف کا تعین کرتا ہے۔ اس حوالے سے بعض اوقات کسی روایت کے حوالے سے متقدمین اور متاخرین کے حدیث پر حکم کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ اور محدثین و محققین اپنا حکم بھی بیان فرماتے ہیں۔ یہ طریقہ کار اوائل سے ہی چلا آ رہا ہے۔ بعض اوقات چند لوگ کسی دوسرے محدث کا کسی حدیث پر حکم نقل کرنے کو ہی کافی سمجھتے ہیں جس کی ایک وجہ ان کی بذات خود اسماء الرجال اور تحقیق سے نآشنائی ہوتی ہے۔ لیکن یہاں صاحب تعارف نے بات کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ فضیلۃ الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے شیخ البانی کی تحقیق سے اختلاف کر کے "جرم عظیم" سر انجام دیا ہے جو ان صاحب کی کم علمی اور اصول تحقیق سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک دونوں شیوخ یعنی شیخ الالبانی رحمہ اللہ اور شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ قابل احترام ہیں۔ لیکن شیخ زبیر علی زئی جب بھی کسی حدیث کو بیان کرتے ہیں تو اس کی وجہ ضعف بھی بیان فرما دیتے ہیں۔ صاحب تعارف نے جن دو روایات کی طرف اشارہ کیا ہے ، کتاب کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب نے ان کی وجہ ضعف پہلے ہی بیان فرما دی ہے۔ اب بجائے کہ علمی دیانت سے کام لیتے ہوئے صاحب تعارف اس بات کو خندہ پیشانی سے قبول فرماتے، انہوں نے اس پر بے جا اعتراضات فرمائے ہیں جو شیخ صاحب کا اصول حدیث میں مرتبہ گھٹانے کی ایک انتہائی بھونڈی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ یہاں میں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا منہج بالکل عیاں ہے اور صاحب مضمون شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی پہلے بھی کئی کتب اپ لوڈ کر چکے ہیں۔ اس لیے ہماری صاحب تعارف سے یہ گزارش ہے کہ ان مغالطہ دینے والے کلمات کو حذف کر دیا جائے یا پھر اس اصول کے بارے میں اہل علم سے رابطہ کیا جائے تاکہ ان کا یہ اشکال دور ہو سکے کہ کوئی بھی محقق اپنی تحقیق کر کے حدیث پر حکم لگا سکتا ہے اور یہ بات اصول حدیث کے اصولوں سے خارج نہیں۔
عموما" میں اس قسم کے موضوعات پر نہیں لکھتا لیکن یہاں اہم اشکالات کا ازالہ مطلوب تھا اس لیے وضاحت ضروری سمجھی۔ امید ہے ساتھی میری اس بات کو مثبت انداز میں لے کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں گے
تفسیر ابن کثیر
گو کہ اس عظیم الشان کتاب کو انٹرنیٹ پر پیش کرنے والے حضرات قابل تحسین ہیں لیکن کتاب کا تعارف لکھتے وقت انہوں نے چند فاش غلطیاں کی ہیں جن کی طرف میں اجمالی طور پر اشارہ کروں گا۔ ان شاء اللہ علماء اس کی طرف تفصیلی اشارہ فرمائیں گے۔
کتاب کا تعارف کچھ یوں شروع ہوتا ہے؛
یہاں میں کچھ تبصرہ کرنے سے پہلے چند تراکیب کی وضاحت کروں گا۔"دینی علوم میں کتاب اللہ کی تفسیر وتاویل کا علم اشرف علوم میں شمار ہوتا ہے۔ ہر دور میں ائمہ دین نے کتاب اللہ کی تشریح وتوضیح کی خدمت سر انجام دی ہے تا کہ عوام الناس کے لیے اللہ کی کتاب کو سمجھنے میں کوئی مشکل اور رکاوٹ پیش نہ آئے۔ سلف صالحین ہی کے زمانہ ہی سے تفسیر قرآن، تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے کے مناہج میں تقسیم ہو گئی تھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللہ اجمعین کے زمانہ میں تفسیر بالماثور کو خوب اہمیت حاصل تھی اور تفسیر کی اصل قسم بھی اسے ہی شمار کیا جاتا تھا۔ تفسیر بالماثور کو تفسیر بالمنقول بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں کتاب اللہ کی تفسیر خود قرآن یا احادیث یا اقوال صحابہ یا اقوال تابعین و تبع تابعین سے کی جاتی ہے۔ بعض مفسرین اسرائیلیات کے ساتھ تفسیر کو بھی تفسیر بالماثور میں شامل کرتے ہیں کیونکہ یہ اہل کتاب سے نقل کی ایک صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قدیم تفسیری ذخیرہ میں اسرائیلیات بہت زیادہ پائی جاتی ہیں۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ متوفی ۷۷۴ھ کی اس تفسیر کا منہج بھی تفسیر بالماثور ہے۔ امام رحمہ اللہ نے کتاب اللہ کی تفسیر قرآن مجید، احادیث مباکہ، اقوال صحابہ وتابعین اور اسرائیلیات سے کی ہے اگرچہ بعض مقامات پر وہ تفسیر بالرائے بھی کرتے ہیں لیکن ایسا بہت کم ہے۔ تفسیر طبری ، تفسیر بالماثور کے منہج پر لکھی جانے والی پہلی بنیادی کتاب شمار ہوتی ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ تفسیر ابن کثیر ، تفسیر طبری کا خلاصہ ہے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی اس تفسیر کو تفسیر بالماثور ہونے کی وجہ سے ہر دور میں خواص وعوام میں مرجع و مصدر کی حیثیت حاصل رہی ہے اگرچہ امام رحمہ اللہ نے اپنی اس تفسیر میں بہت سی ضعیف اور موضوع روایات یا منگھڑت اسرائیلیات بھی نقل کر دی ہیں جیسا کہ قرون وسطی کے مفسرین کا عمومی منہاج اور رویہ رہا ہے۔ بعض اوقات تو امام رحمہ اللہ خود ہی ایک روایت نقل کر کے اس کے ضعف یا وضع کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔ لہٰذا اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ تفسیر بالماثور کے اس مرجع ومصدر میں ان مقامات کی نشاندہی کی جائے جو ضعیف یا موضوع روایات یا منگھڑت اسرائیلیات پر مشتمل ہیں ۔ مجلس التحقیق الاسلامی کے محقق اور مولانا مبشر احمد ربانی صاحب کے شاگرد رشید جناب کامران طاہر صاحب نے اس تفسیر کی مکمل تخریج وتحقیق کی ہے اور حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اس تخریج وتحقیق پر نظر ثانی کی ہے۔تخریج و تحقیق عمدہ ہے لیکن اگر تفسیر کے شروع میں محققین حضرات اپنا منہج تحقیق بیان کر دیتے تو ایک عامی کو استفادہ میں نسبتاً زیادہ آسانی ہوتی کیونکہ بعض مقامات پر ایک عامی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے جیسا کہ پہلی جلد میں ص ۳۷ پر ایک روایت کے بارے لکھا ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’صحیح‘ قرار دیا ہے لیکن اس کی سند منقطع ہے۔اسی طرح ص ۴۲ پر ایک روایت کے بارے لکھا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے اور اسے ضعیف کہنا غلط ہے۔ اب یہاں یہ وضاحت نہیں ہے کہ کس نے ضعیف کہا ہے اور کن وجوہات کی بنا پر کہا ہے اورضعیف کے الزام کے باوجود صحیح ہونے کی دلیل کیا ہے ؟اسی طرح ص ۴۳پر ایک روایت کے بارے لکھا ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ان مقامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ محققین نے علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق پر اعتماد نہیں کیا ہے بلکہ اپنی تحقیق کی ہے جبکہ ایک عام قاری اس وقت الجھن کا شکار ہو جاتا ہے جب وہ اکثر مقامات پر یہ دیکھتا ہے کہ کسی روایت یا اثر کی تحقیق میں علامہ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح وتضعیف نقل کر دی جاتی ہے اور یہ وضاحت نہیں کی جاتی ہے کہ محققین نے ان مقامات پرمحض علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق پر اعتماد کیا ہے یا اپنی بھی تحقیق کی ہے اور اگر اپنی بھی تحقیق کی ہے تو ان کی تحقیق اس بارے علامہ البانی رحمہ اللہ سے متفق ہے یا نہیں ؟یہ ایک الجھن اگر اس تفسیر میں شروع میں منہج تحقیق پر گفتگو کے ذریعہ واضح ہو جاتی تو بہتر تھا۔ بہر حال بحثیت مجموعی یہ تخریج وتحقیق ایک بہت ہی عمدہ اور محنت طلب کاوش ہے ۔ اللہ تعالیٰ جناب کامران طاہر صاحب کو اس کی جزائے خاص عطا فرمائے۔ آمین!"
تخریج آسان الفاظ میں اس حدیث کے حوالہ جات تلاش کرنے کا نام ہے۔
تحقیق عام الفاظ میں اس حدیث کے رواۃ اور متن کی جانچ پڑتال کا نام ہے اور عموما" محدثین تحقیق کے بعد حدیث کی صحت و ضعف کے بارے میں حکم لگاتے ہیں۔
اب ایک نظر ڈالتے ہیں اس تعارف میں شامل چند شبہات پر۔۔۔۔۔
1- اولا" یہ کہ اس تعارف میں کامران طاہر صاحب کی خدمات کو بطور تخریج اور تحقیق کے ذکر کیا گیا ہے جب کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالیٰ کی خدمات نظر ثانی تک محدود رکھی گئی ہیں۔ حالانکہ کتاب کا سرورق اس بات کا شاہد ہے کہ کتاب کی تحقیق و نظر ثانی دونوں کا فریضہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے سرانجام دیا ہے جب کہ کامران طاہر صاحب نے تخریج کی خدمت سرانجام دی ہے۔
ثانیا" کامران طاہر صاحب کو شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کا شاگرد تو ذکر کیا گیا ہے جب کہ وہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ کے بھی تلمیذ ہیں۔ اور اس معاملہ کو گول ہی کر دیا گیا ہے۔
کامران طاہر حفظہ اللہ کے بذات خود شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ سے بہت اچھے تعلقات ہیں لیکن اس قسم کا تعارف شاید "نائب مدیر ماہنامہ محدث کامران طاہر صاحب" کا منظور نظر بننے کے لیے شامل کیا گیا ہے یا واللہ اعلم کوئی دوسرا معاملہ ہے۔ بہر حال معاملہ جو کوئی بھی ہو، کسی کی روز و شب کی محنت پر قلم سے سیاہی پھیرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
2- جہاں تحقیق کے حوالے سے کوئی اعتراضات کیے گئے ہیں تو وہ تعارف کروانے والے صاحب کی کھلی لاعلمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اصول حدیث کے ادنی سے ادنی طالبعلم بھی ااس بات کو جانتے ہیں کہ محدثین کسی روایت یا حدیث کی سند پر حکم رواۃ یا بیان کرنے والے کو دیکھ کر لگاتے ہیں۔ اور رواۃ کا درجہ ہی دراصل اس حدیث کی صحت اور ضعف کا تعین کرتا ہے۔ اس حوالے سے بعض اوقات کسی روایت کے حوالے سے متقدمین اور متاخرین کے حدیث پر حکم کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ اور محدثین و محققین اپنا حکم بھی بیان فرماتے ہیں۔ یہ طریقہ کار اوائل سے ہی چلا آ رہا ہے۔ بعض اوقات چند لوگ کسی دوسرے محدث کا کسی حدیث پر حکم نقل کرنے کو ہی کافی سمجھتے ہیں جس کی ایک وجہ ان کی بذات خود اسماء الرجال اور تحقیق سے نآشنائی ہوتی ہے۔ لیکن یہاں صاحب تعارف نے بات کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ فضیلۃ الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے شیخ البانی کی تحقیق سے اختلاف کر کے "جرم عظیم" سر انجام دیا ہے جو ان صاحب کی کم علمی اور اصول تحقیق سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک دونوں شیوخ یعنی شیخ الالبانی رحمہ اللہ اور شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ قابل احترام ہیں۔ لیکن شیخ زبیر علی زئی جب بھی کسی حدیث کو بیان کرتے ہیں تو اس کی وجہ ضعف بھی بیان فرما دیتے ہیں۔ صاحب تعارف نے جن دو روایات کی طرف اشارہ کیا ہے ، کتاب کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب نے ان کی وجہ ضعف پہلے ہی بیان فرما دی ہے۔ اب بجائے کہ علمی دیانت سے کام لیتے ہوئے صاحب تعارف اس بات کو خندہ پیشانی سے قبول فرماتے، انہوں نے اس پر بے جا اعتراضات فرمائے ہیں جو شیخ صاحب کا اصول حدیث میں مرتبہ گھٹانے کی ایک انتہائی بھونڈی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ یہاں میں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا منہج بالکل عیاں ہے اور صاحب مضمون شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی پہلے بھی کئی کتب اپ لوڈ کر چکے ہیں۔ اس لیے ہماری صاحب تعارف سے یہ گزارش ہے کہ ان مغالطہ دینے والے کلمات کو حذف کر دیا جائے یا پھر اس اصول کے بارے میں اہل علم سے رابطہ کیا جائے تاکہ ان کا یہ اشکال دور ہو سکے کہ کوئی بھی محقق اپنی تحقیق کر کے حدیث پر حکم لگا سکتا ہے اور یہ بات اصول حدیث کے اصولوں سے خارج نہیں۔
عموما" میں اس قسم کے موضوعات پر نہیں لکھتا لیکن یہاں اہم اشکالات کا ازالہ مطلوب تھا اس لیے وضاحت ضروری سمجھی۔ امید ہے ساتھی میری اس بات کو مثبت انداز میں لے کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں گے