• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول فقہ اور چودہویں صدی ہجری کے علماء

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصول فقہ
اور
چودہویں صدی ہجری کے علماء

طالب علم
امجد عبیداللہ بن محمد عبداللہ

الاشراف
السید غضنفر احمد

اصول فقہ
ایم ایس علوم اسلامیہ
شیخ زید بن اسلامک سینٹر ،جامعہ کراچی
1430ھجری
2010م
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مقدمہ:
اس بات پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ختم نبوت کے بعد اب دین کا تنہا ماخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دین دو طریقوں سے عطا فرمایا ہے: ایک اللہ تعالیٰ کا براہ راست کلام جو قرآن مجید ہے اور دوسری حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت مبارکہ۔
جب کوئی معاشرہ مذہب کو اپنے قانون کا ماخذ بنا لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں علم فقہ وجود پذیر ہوتا ہے۔ علم فقہ، دین کے بنیادی ماخذوں سے حاصل شدہ قوانین کے ذخیرے کا نام ہے۔ چونکہ دین اسلام میں قانون کا ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اس وجہ سے تمام قوانین انہی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ جب قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے تو اس کے نتیجے میں متعدد سوالات پیدا ہو جاتے ہیں:
· قرآن مجید کو کیسے سمجھا جائے؟
· قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟
· سنت کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟
· سنت کہاں سے اخذ کی جائے گی؟
· قرآن اور سنت کا باہمی تعلق کیا ہے؟
قرآن مجید، سنت اور حدیث میں سے کس ماخذ کو دین کا بنیادی اور کس ماخذ کو ثانوی ماخذ قرار دیا جائے؟·
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مروی احادیث کو کیسے سمجھا جائے گا اور ان سے سنت کو کیسے اخذ کیا جائے گا؟
· اگر قرآن مجید کی کسی آیت اور کسی حدیث میں بظاہر کوئی اختلاف نظر آئے یا دو احادیث میں ایک دوسرے سے بظاہر اختلاف نظر آئے تو اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصول فقہ کی تعریف :
ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے جو فن وجود پذیر ہوتا ہے، اسے اصول فقہ کہا جاتا ہے۔ اصول فقہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
"اصول فقہ" دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔ اس کا مطلب ہے قوانین اور قواعد و ضوابط کا مجموعہ جس کی بنیاد پر شرعی دلائل سے قانونی احکام اخذ کیے جاتے ہیں۔ اس مفہوم میں اس کا مطلب "فکر اسلامی کا قانون" ہے اور یہی احکام کو صحیح طور پر اخذ کرنے کا معیار ہے۔ (الدکتور عبدالوہاب ابراہیم ابو سلیمان، الفکر الاصولی: دراسۃ تحلیلیۃ نقدیۃ۔ ص 18 مطبع دارالشروق، جدہ﴾
اصول فقہ یعنی اسلامی فقہ کے ماخذوں سے قوانین اخذ کرنے کے علم کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے کہ یہ قانون کے ثبوت کے حصول کا ایسا مجموعہ ہے جس کا اگر صحیح طور پر مطالعہ کی جائے تو اس کی بنیاد پر شریعت کے کسی حکم کا واضح طور پر تعین کیا جا سکتا ہے یا کم از کم ایک قابل قبول حد تک شریعت کے کسی حکم کے بارے میں رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ اس طریقے کا نام ہے جس کی بنیاد پر یہ ثبوت اکٹھا کیا جاتا ہے اور اسی سے ثبوت اکٹھا کرنے والے کی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصول فقہ کا موضوع
اصول فقہ کے یہ اصول عقل عام کی روشنی میں اخذ کیے گئے ہیں۔ اصول فقہ کےبعض اصولوں کا ماخذ "اصول حدیث" کا فن ہے جس کے اصول بھی عقل عام کی روشنی میں اخذ کیے گئے ہیں۔ ان اصولوں کا تعلق بالخصوص حدیث سے ہے۔ اسی طرح قرآن مجید سے متعلق اصول، "اصول تفسیر" کے فن سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ اصول فقہ کا موضوع میں عام طور پر ان موضوعات کا مطالعہ کیا جاتا ہے:
· قرآن مجید کو سمجھنے کے اصول
· زبان و بیان کے اصول
· حلال و حرام سے متعلق احکام معلوم کرنے کا طریق کار
· دین کے عمومی اور خصوصی نوعیت کے احکامات کے تعین کا طریق کار
· دین کے ناسخ و منسوخ احکامات کے تعین کا طریق کار (یہ تمام مباحث بنیادی طور پر اصول تفسیر کے فن کا حصہ ہیں لیکن ان کے بنیادی مباحث اصول فقہ میں بھی بیان کیے جاتے ہیں۔
· رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت اور حدیث کو سمجھنے کا طریق کاررسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے روایت کردہ احادیث کو پرکھنے اور ان کی چھان بین کرنے کا طریق کار (یہ بالعموم علم اصول حدیث کا موضوع ہے لیکن اس کے بنیادی مباحث اصول فقہ میں بھی بیان کیے جاتے ہیں۔
· اجماع (امت کے اتفاق رائے) کے ذریعے بنائے گئے قوانین کی حیثیت
· قیاس و اجتہاد کا طریق کار
· اختلاف رائے سے متعلق اصول
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصول فقہ کے فن کا تاریخی ارتقاء
· عہد رسالت و صحابہ کرام کا دور اول(0-60﴾
چونکہ اصول فقہ کے علم کا انحصار بنیادی طور پر علم فقہ ہی پر ہے اس وجہ سے اصول فقہ کا ارتقاء، فقہ کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ہی ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اللہ تعالی کی وحی کی بنیاد پر دینی احکام جاری فرماتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وحی سے کوئی حکم نہ ملنے کی صورت میں آپ اجتہاد فرماتے۔ بعد میں اللہ تعالی کی جانب سے بذریعہ وحی اس اجتہاد کی توثیق کر دی جاتی یا اگر کسی تغیر و تبدل کی ضرورت پیش آتی تو اس بارے میں آپ کو وحی کے ذریعے رہنمائی فراہم کر دی جاتی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے تربیت یافتہ اصحاب میں بہت سے ایسے تھے جو آپ کی حیات طیبہ ہی میں فتوی (دینی معاملات میں ماہرانہ رائے) دینا شروع کر چکے تھے۔ ظاہر ہے ایسا حضور کی اجازت کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ ان صحابہ میں سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، علی، عائشہ، عبدالرحمٰن بن عوف، عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم کے فتاوی مشہور ہیں۔ ان کے فتوی دینے کا طریق کار یہ تھا کہ جب ان کے سامنے کوئی صورت حال پیش کی جاتی تو وہ اس کا موازنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سامنے پیش آ جانے والی صورتحال سے کرتے اور ان میں مشابہت کی بنیاد پر حضور کے فیصلے کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سنا دیتے۔
خلافت راشدہ کے دور میں بھی یہی طریق کار جاری رہا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت میمون بن مہران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آپ کے پاس کوئی مقدمہ لایا جاتا تو سب سے پہلے آپ قرآن میں دیکھتے۔ اگر اس صورتحال سے متعلق کوئی حکم آپ کو ملتا تو آپ اس کے مطابق فیصلہ کر دیتے۔ اگر قرآن سے کوئی واضح حکم نہ ملتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سابق فیصلوں کی طرف رجوع فرماتے۔ اگر اس میں بھی کوئی بات نہ ملتی تو صحابہ کے اہل علم کو جمع کر کے ان کی رائے لیتے اور ان کے اتفاق رائے (اجماع) کی بنیاد پر فیصلہ کر دیتے۔ اگر صحابہ کے اہل علم میں کسی معاملے میں اتفاق رائے نہ ہو پاتا تو پھر آپ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کر دیتے۔( شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ، باب 84) عہد صدیقی کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس دور میں قانون سازی اجماع اور قیاس کا استعمال کافی بڑے پیمانے پر کیا گیا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ آپ کے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے ہر اہم مسئلے میں غور و فکر کرنے کے لئے مجتہد صحابہ کی ایک غیر رسمی کمیٹی بنائی جس میں اجتماعی طور پر غور و فکر کر کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ اس کمیٹی کے اکثر فیصلے اجماع کے ذریعے طے پاتے۔ سیدنا عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے دور میں بھی یہی طریق کار رائج رہا۔ یہ دونوں حضرات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مشاورتی کمیٹی کے اہم ترین رکن تھے۔ اپنے دور خلافت میں انہوں نے بھی اسی طریق کار پر عمل کیا۔ فقہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خاص میدان تھا۔ آپ نے عدالتی معاملات میں بہت سے فیصلے جاری فرمائے جن کی بنیاد پر آپ کے فتاوی کی ایک ضخیم کتاب تیار کی جا سکتی ہے۔
حکومت سے ہٹ کر انفرادی طور پر بھی بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لوگوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں فقہی اور قانونی معاملات میں فتاوی جاری کیا کرتے تھے۔ یہ فتاوی اگرچہ قانون نہ تھے لیکن لوگ ان صحابہ پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے اجتہادات کی پیروی کرتے۔ سیدنا عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں بہت سے صحابہ مفتوحہ ممالک میں پھیل گئے اور مقامی آبادی کو دین کی تعلیم دینے لگے۔ یہ حضرات لوگوں کے سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیتے اور فتاوی جاری کرتے۔ اس دور پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ دہلوی لکھتے ہیں:
ہر صحابی نے اپنی سہولت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عبادت، فتاوی اور عدالتی فیصلوں کو دیکھا، سمجھا اور انہیں یاد کر لیا۔ انہوں نے شواہد و قرائن کی بنیاد پر آپ کے ہر قول و فعل کی وجہ بھی معلوم کر لی۔ انہوں نے بعض امور کے جائز اور بعض کے منسوخ ہونے کا تعین بھی کر لیا۔ ان کے نزدیک قلبی اطمینان کی اہمیت (موجودہ دور کے) طریق استدلال سے زیادہ تھی۔ جیسا کہ آپ عرب دیہاتیوں کو دیکھتے ہیں کہ کہ وہ کلام عرب کے واضح جملوں اور اشارات سے بات کو سمجھ لیتے ہیں اور انہیں اس پر مکمل اطمینان بھی حاصل ہو جاتا ہے حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ اطمینان کیسے حاصل ہوا ہے۔
اس کے بعد حضور کا مبارک دور گزر گیا اور صحابہ کرام مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ ان میں سے ہر صحابی اپنے شہر کے لوگوں کے لئے راہنما کی حیثیت اختیار کر گیا۔ (چونکہ ملک بہت پھیل گیا تھا اس وجہ سے) کثیر تعداد میں واقعات پیش آنے لگے اور لوگوں کو (دینی امور) دریافت کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ صحابہ کرام اپنے حافظے اور استنباط کی بنیاد پر ان سوالوں کے جواب دیتے اور اگر انہیں اپنے محفوظ علم یا استنباط میں سے اس کا جواب نہ ملتا تو وہ اپنی رائے سے اجتہاد کرتے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے واضح احکام کی وجوہات (علتوں) کو جاننے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ جہاں انہیں وہی وجہ (علت) نظر آتی، وہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مقصد کے مطابق اس پر حکم لگا دیا کرتے تھے۔ (شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ، باب 82)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
· صحابہ کرام کا دوسرا دور (60-90﴾
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، بڑی عمر کے صحابہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ارشادات، افعال اور فیصلوں کا براہ راست مشاہدہ کیا تھا، دنیا سے رخصت ہوتے چلے گئے۔ اس وقت تک ان صحابہ کے تربیت یافتہ صحابہ اور تابعین کی بڑی جماعت تیار ہو چکی تھی۔ یہ ان صحابہ کا دور تھا جو عہد رسالت میں ابھی کم عمر تھے۔ ان صحابہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ایک خصوصی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے قریبی صحابہ جیسے سیدنا عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے شاگرد تھے۔ اس دور میں کچھ سیاسی اور مذہبی فتنوں نے جنم لیا جس کے باعث دینی معاملات سے متعلق بھی کچھ مسائل پیدا ہوئے۔ اس دور کی چیدہ چیدہ خصوصیات یہ ہیں:
· اہل علم کے ہاں قرآن اور حدیث میں غور و فکر کا سلسلہ جاری رہا۔
· احادیث کی نشر و اشاعت کا کام تیز ہوا۔ تابعین میں یہ شوق شدت اختیار کر گیا کہ چونکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زیارت نہیں کر سکے، اس وجہ سے آپ کی باتوں کو ہم جس حد تک سن اور سمجھ سکتے ہیں، اس کی کوشش کریں۔
· سیاسی اور مذہبی مسائل کے باعث احادیث وضع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے اہل علم کے ہاں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ احادیث کی چھان بین ایک نہایت ہی ضروری کام ہے۔
· فقہاء صحابہ کے مختلف شہروں میں پھیل جانے کے باعث اجماع عملی طور پر ممکن نہ رہا۔ اب اجماع ایک شہر کے علماء کے درمیان تو ممکن تھا لیکن پورے عالم اسلام کی سطح پر ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402

· تابعین کا دور (90-150﴾
پہلی صدی ہجری کے آخری عشرے (لگ بھگ 730ء) تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ سیدنا سہل بن سعد الساعدی، انس بن مالک اور عامر بن واثلہ بن ابو عبداللہ رضی اللہ عنہم آخر میں وفات پانے والے صحابہ ہیں۔ اب تابعین کا دور تھا۔ اس دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تربیت یافتہ افراد کثرت سے موجود تھے۔ ان میں نافع مولی ابن عمر، عکرمہ مولی ابن عباس، مکہ کے عطاء بن رباح، یمن کے طاؤس بن کیسان، یمامہ کے یحیی بن کثیر، کوفہ کے ابراہیم النخعی، بصرہ کے حسن بصری اور ابن سیرین، خراسان کے عطاء الخراسانی، اور مدینہ کے سعید بن مسیب اور عمر بن عبدالعزیز (رحمھم اللہ) کے نام زیادہ مشہور ہیں۔ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اصحاب کے نقطہ ہائے نظر میں اختلاف پیدا ہو گیا اور تابعین نے حسب توفیق ان کے علوم کو ان سے اخذ کر لیا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اور صحابہ کرام کے نقطہ ہائے نظر کو سنا اور سمجھا۔ اس کے بعد انہوں نے اختلافی مسائل کو اکٹھا کیا اور ان میں سے بعض نقطہ ہائے نظر کو ترجیح دی۔۔۔۔۔ اس طرح ہر تابعی نے اپنے علم کی بنیاد پر ایک نقطہ نظر اختیار کر لیا اور ان میں سے ہر ایک کسی شہر کا امام (لیڈر) بن گیا۔ مثال کے طور پر مدینہ میں سعید بن المسیب اور سالم بن عبداللہ بن عمر اور ان کے بعد زہری، قاضی یحیی بن سعید اور ربیعۃ بن عبدالرحمٰن، مکہ میں عطاء بن ابی رباح، کوفہ میں شعبی اور ابراہیم النخعی، بصرہ میں حسن بصری، یمن میں طاؤس بن کیسان، شام میں مکحول۔ اللہ تعالی نے لوگوں کے دل میں علوم کا شوق پیدا کر دیا تھا، اس وجہ سے لوگ ان اہل علم کی طرف راغب ہو گئے اور ان سے حدیث اور صحابہ کے نقطہ ہائے نظر اور آراء حاصل کرنے لگے۔(شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ، باب 82)
تابعین نے نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث کے ریکارڈ کو محفوظ کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر شاگرد نے اپنے استاذ صحابی کے عدالتی فیصلوں اور فقہی آراء کو محفوظ کرنے کا اہتمام بھی کیا۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے فیصلوں اور احادیث کو محفوظ کرنے کا سرکاری حکم جاری کیا اور فتوی دینے کا اختیار اہل علم تک ہی محدود کیا۔ آپ ابوبکر محمد بن عمرو بن حزم الانصاری کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی جو حدیث بھی آپ کو ملے، اسے لکھ کر مجھے بھیج دیجیے کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ اہل علم کے رخصت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ علم بھی ضائع نہ ہو جائے۔"
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402

· تبع تابعین کا دور (150-225﴾
تابعین کا دور کم و بیش 150 ہجری (تقریباً 780ء) کے آس پاس ختم ہوا۔ اپنے دور میں تابعین کے اہل علم اگلی نسل میں کثیر تعداد میں عالم تیار کر چکے تھے۔ یہ حضرات تبع تابعین کہلاتے ہیں۔ اس وقت تک اصول فقہ کے قواعد اور قوانین پر اگرچہ مملکت اسلامیہ کے مختلف شہروں میں عمل کیا جا رہا تھا لیکن انہیں باضابطہ طور پر تحریر نہیں کیا گیا تھا۔
یہ دور فقہ کے مشہور ائمہ کا دور تھا۔ مملکت اسلامی اب بلوچستان سے لے کر مراکش تک پھیل چکی تھی۔ حکمران اپنے پیشروؤں کی طرح اس درجے کے اخلاقی معیار پر نہ رہے تھے کہ ان سے دینی معاملات میں راہنمائی حاصل کی جاتی۔ اس وقت یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اس عظیم سلطنت کے لئے مدون قانون (Codified Law) کا مجموعہ تیار کیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت کی طرف سے ایک باضابطہ ادارہ بنایا جاتا جس میں پوری امت کے اہل علم کو اکٹھا کیا جاتا اور یہ سب حضرات مل کر قانون سازی کرتے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اس وقت دنیا کی قانونی تاریخ کا عجیب و غریب واقعہ پیش آیا کہ مختلف شہروں میں اہل علم نے قرآن و سنت اور صحابہ و تابعین کی فقہی آراء اور قانونی فیصلوں کی بنیاد پر پرائیویٹ قانون ساز مجالس بنانا شروع کر دیں۔
اس دور میں نقل و حمل اور ابلاغ کے ذرائع اتنے ترقی یافتہ نہ تھے کہ مختلف شہروں کے اہل علم ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے۔ اس وجہ سے ہر شہر کے رہنے والوں نے اپنے شہر کے صحابہ و تابعین کے پھیلائے ہوئے علم، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اور صحابہ و تابعین کے فقہا کے اجتہادات شامل تھے، کی پیروی شروع کر دی۔
اہل مدینہ میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (وفات 179ھ) کا مکتب فکر وجود پذیر ہوا۔ انہوں نے مدینہ کے فقہاء صحابہ سیدنا عمر، ابن عمر، عائشہ، عبداللہ بن عباس اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور فقہا تابعین و تبع تابعین سعید بن مسیب (وفات 93ھ)، عروہ بن زبیر (وفات 94ھ)، سالم (وفات 106ھ)، عطاء بن یسار (وفات 103ھ)، قاسم بن محمد بن ابوبکر (وفات 103ھ)، عبیداللہ بن عبداللہ (وفات 99ھ)، ابن شہاب زہری (وفات 124ھ)، یحیی بن سعد (وفات 143ھ)، زید بن اسلم (وفات 136ھ)، ربیعۃ الرائے (وفات 136ھ) رحمۃ اللہ علیہم کے اجتہادات کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا۔
اسی دور میں بالکل یہی عمل کوفہ میں بھی جاری تھا۔ یہاں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (وفات 150ھ) کا مکتب فکر بعینیہ یہی کام کر رہا تھا۔ انہوں نے کوفہ میں قیام پذیر ہو جانے والے فقہاء صحابہ سیدنا عبداللہ بن مسعود اور علی رضی اللہ عنہما اور فقہا تابعین جیسے قاضی شریح (وفات 77ھ)، شعبی (وفات 104ھ)، ابراہیم نخعی (وفات 96ھ) رحمۃ اللہ علیہم کے اجتہادات کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل جاری رکھا۔
اس دور سے پہلے فن تحریر موجود تھا اور قرآن مجید کو باقاعدہ لکھ کر اس کی نشر و اشاعت کی جا چکی تھی لیکن احادیث کو لکھ کر پھیلانے کا سلسلہ عام نہ ہوا تھا۔ جن لوگوں نے احادیث کو باقاعدہ لکھا تھا، اس کی حیثیت بھی شائع شدہ کتاب کی بجائے ذاتی ڈائری کی تھی۔ احادیث کو باقاعدہ مدون کر کے پھیلانے کا سلسلہ اس دور میں شروع ہوا اور امام مالک کی موطاء اس دور کی کتاب ہے جو آج بھی پوری دنیا میں شائع ہو رہی ہے۔ ابن ابی ذئب (وفات 158ھ)، ابن جریج (وفات 150ھ)، ابن عینیہ (وفات 196ھ)، سفیان ثوری (وفات 161ھ)، اور ربیع بن صبیح (وفات 160ھ) کی کتب کا سراغ بھی ملتا ہے۔
امام ابوحنیفہ ، جو کہ ابراہیم نخعی کے شاگرد حماد (وفات 120ھ) اور امام جعفر صادق (وفات 148ھ) رحمہم اللہ کے شاگرد تھے، کی تقریباً چالیس افراد پر مشتمل ایک ٹیم تھی جو قرآن و سنت کی بنیادوں پر قانون سازی کا کام کر رہی تھی۔ اس ٹیم میں ہر شعبے کے ماہرین شامل تھے جن میں زبان، شعر و ادب، لغت، گرامر، حدیث، تجارت ، سیاست ، فلسفے ہر علم کے ماہرین نمایاں تھے۔ ہر سوال پر تفصیلی بحث ہوتی اور پھر نتائج کو مرتب کر لیا جاتا۔ امام صاحب نے خود تو فقہ اور اصول فقہ پر کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن ان کے فیصلوں کو ان کے شاگردوں بالخصوص امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی علیہما الرحمۃ نے مدون کیا۔ امام ابوحنیفہ اور مالک کے علاوہ دیگر اہل علم جیسے سفیان ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد علیہم الرحمۃ یہی کام کر رہے تھے لیکن ان کے فقہ کو وہ فروغ حاصل نہ ہو سکا جو حنفی اور مالکی فقہ کو ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہارون رشید کے دور میں حنفی فقہ کو مملکت اسلامی کا قانون بنا دیا گیا اور مالکی فقہ کو سپین کی مسلم حکومت نے اپنا قانون بنا دیا۔
یہ دونوں کام ان بزرگوں کی وفات کے بعد بعد ہوئے ورنہ ان اہل علم کی وسعت نظری کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے فتاوی اور آرا کو حتمی نہ سمجھتے تھے بلکہ اپنے سے مختلف رائے کو بھی خندہ پیشانی سے سنا کرتے۔ امام ابو حنیفہ اور مالک کی زندگی میں انہیں متعدد مرتبہ حکومت کی طرف سے یہ پیش کش ہوئی کہ ان کے فقہ کو مملکت کا قانون بنا دیا جائے لیکن انہوں نے اسے قبول نہ کیا۔
دین کے بنیادی ماخذوں سے متعلق ان اہل علم میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ یہ سب کے سب ہی قرآن اور سنت کو دین کا بنیادی ماخذ مانتے تھے۔ بنیادی ماخذوں کے علاوہ ثانوی مآخذ کے بارے میں ان حضرات میں کچھ اختلاف رائے تھا۔ جیسا کہ امام مالک اہل مدینہ کے عمل کو بہت اہمیت دیتے تھے اور امام ابوحنیفہ استحسان اور عرف و عادت کو اہمیت دیا کرتے تھے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اہل الرائے اور اہل الحدیث
بعد کے دور میں فقہاء باقاعدہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک گروہ اہل الرائے (Rationalists) کا تھا جبکہ دوسرا اہل الحدیث (Traditionalists) کا۔ اہل الرائے زیادہ تر عراق میں پھیلے جبکہ اہل الحدیث کو حجاز کے علاقے میں فروغ حاصل ہوا۔ اہل الرائے قیاس اور اجتہاد کو زیادہ اہمیت دیتے اور اہل الحدیث، روایات کو۔
اگر غور کیا جائے تو ان ائمہ میں اساسی نوعیت کا کوئی اختلاف موجود نہیں تھا۔ یہ سب حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہی کو دین کا ماخذ قرار دیتے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ بعض ائمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معلومات کے حصول کے جن ذرائع کو کم اہمیت دیتے تھے، دوسرے انہیں زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اہل الرائے اس بات کے قائل تھے کہ اگر کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو اپنے قیاس کو ترک کر دینا چاہیے۔ اسی طرح اہل الحدیث اس بات کے قائل تھے کہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نت نئے پیدا ہونے والے مسائل میں قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ عقل اور قیاس کو بھی استعمال کرنا چاہیے۔
اہل الرائے اور اہل الحدیث کے اختلاف کی بنیادی وجہ مختلف علاقوں میں رہنا ہے۔ اگر یہ سب حضرات ایک ہی زمانے اور ایک ہی شہر میں ہوتے تو لازماً آپس میں مختلف مسائل پر مکالمہ کرنا ان کے لئے ممکن ہوتا۔ اگرچہ امام ابوحنیفہ اور مالک کے درمیان ایک آدھ مرتبہ ملاقات بھی ہوئی، لیکن ظاہر ہے ایک چند ایک ملاقاتوں میں مسائل کی ایک طویل فہرست پر مکالمہ کرنا ممکن نہ تھا۔ دوسری طرف چونکہ عراق مختلف فرقوں اور سیاسی گروہوں کی چپقلش کا مرکز بنا رہا اور ہر گروہ نے اپنے نظریات کے حق میں جعلی حدیثیں ایجاد کر کے پھیلانا شروع کر دیں، اس وجہ سے اہل الرائے کے ہاں حدیث کو قبول کرنے میں زیادہ احتیاط برتی جانے لگی۔
اہل الرائے اور اہل الحدیث میں اساسی نوعیت کے اتفاق رائے کے باوجود وقت کے ساتھ ساتھ ان گروہوں کے اختلافات میں شدت پیدا ہو گئی اور ہر ایک اپنے اپنے مسلک میں شدت برتنے لگا۔ بعض شدت پسند اہل الرائے، اہل الحدیث پر روایت پسند اور کم عقل ہونے کا الزام لگاتے تو دوسری طرف شدت پسند اہل الحدیث، اہل الرائے کو منکر حدیث کا خطاب دیتے۔
اس اختلاف کا ایک مثبت اثر بھی وجود پذیر ہوا۔ اہل الرائے کی شدت نے اہل الحدیث کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ احادیث رسول کے ضمن میں زیادہ سے زیادہ محنت کریں۔ ان کی محنت کا نقشہ کھینچتے ہوئے شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
احادیث کی تدوین کا عمل مملکت اسلامیہ کے مختلف شہروں میں شروع ہو گیا۔ احادیث کی کتابوں کی تصنیف کا عمل شروع ہوا۔ اہل روایت میں سے شائد ہی ایسا کوئی عالم ہو جس نے احادیث کی کتب نہ لکھی ہوں۔ وقت کی ضرورت نے اس کام کی شدید طلب پیدا کر رکھی تھی۔ اہل الحدیث کے جلیل القدر اہل علم نے اس زمانے میں حجاز، شام، عراق، مصر، یمن اور خراسان (ایران و افغانستان) کا سفر کیا اور کتابوں اور نسخوں کو جمع کیا۔ انہوں نے احادیث و آثار کے نوادر (کم روایت کی جانے والی احادیث) کو اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا اور ایسا ذخیرہ اکٹھا ہو گیا جو اس سے پہلے نہ ہوا تھا۔ ایسی صحیح احادیث کثیر تعداد میں شائع ہو گئیں جو پہلے اہل فتوی کے علم میں نہ تھیں۔(شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ، باب 84﴾
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
امام شافعی اور کتاب الرسالہ
اس دور میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (150-204ھ) پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق فلسطین میں غزہ کے علاقے سے تھا۔ ان کے والدین ان کے بچپن ہی میں مکہ میں قیام پذیر ہو گئے۔ مکہ میں قیام کے دوران انہوں نے اہل الحدیث کے مشہور اہل علم سفیان بن عینیہ (وفات 198ھ) اور مسلم بن خالد الزنجی (وفات 179ھ) سے علم حاصل کیا۔ اس کے بعد آپ مدینہ چلے گئے اور وہاں جا کر امام مالک سے ان کی کتاب موطاء کا درس لیا۔ آپ امام مالک کے طریق کار سے بہت متاثر تھے اور ان سے نہایت عقیدت رکھتے تھے۔
کچھ عرصے بعد امام شافعی عراق چلے گئے اور وہاں انہوں نے امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی سے تعلیم حاصل کی۔ عراق میں امام شافعی، اہل الرائے کی انتہا پسندی سے سخت متنفر ہوئے۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث کی نسبت اپنے اساتذہ کے اقوال و آراء اور فتاوی کی تعلیم پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ امام شافعی نے اہل الرائے کی اس شدت پسندی کے خلاف ایک کتاب "الحجۃ" بھی لکھی۔
دوسری طرف امام صاحب شدت پسند اہل الحدیث کے طریق کار سے بھی مطمئن نہ تھے۔ انہوں نے مقطوع اور مرسل احادیث کو قبول کرنے کے بارے میں اپنا نقطہ نظر تفصیل سے بیان کیا اور اس ضمن میں اہل الحدیث کے طریق کار پر انہوں نے تنقید کی۔ یہ تفصیل کتاب الرسالہ کے اس ترجمے میں دیکھی جا سکتی ہے۔
کچھ عرصے بعد امام شافعی کو نجران کا قاضی مقرر کیا گیا۔ آپ کی حق گوئی کے باعث وہاں کے گورنر سے آپ کے کچھ اختلافات ہو گئے جس کے باعث انہیں مصر کی طرف کوچ کرنا پڑا۔ مصر میں انہوں نے دیکھا کہ لوگ امام مالک کے اجتہادات کی اندھی تقلید میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے یہ امام مالک کے طریق کار پر تنقید کی اور اس میں موجود خامیوں کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے ایک کتاب "اختلاف مع مالک" بھی لکھی۔
امام شافعی نے اہل الحدیث اور اہل الرائے کے مابین ایک پل کا کام کرتے ہوئے ان دونوں کو چند اصولوں پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے دونوں گروہوں کے اصولوں کی غلطی واضح کی۔ ممتاز محقق ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں:
امام شافعی کی شخصیت میں دونوں گروہوں (اہل الحدیث اور اہل الرائے) کی خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ انہوں نے ماہر ترین محدثین سے حدیث کا علم حاصل کیا اور ماہر ترین فقہاء سے فقہ کا علم حاصل کیا۔ انہیں فلسفہ اور جدلیات پر بھی کامل عبور حاصل تھا۔ ایسی شخصیت کی بنیاد پر وہ ایسے عالم بنے جنہوں نے ان دونوں مکاتب فکر کے مابین رابطے کا کام کیا۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے ان دونوں مکاتب فکر کو اکٹھا کر دیا۔ وہ نہ صرف حدیث پر مکمل عبور رکھتے تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قیاس، استدلال، استخراج اور اجتہاد کے امام بھی تھے۔ اسی وجہ سے وہ دونوں مکاتب فکر کے اہل علم کو مطمئن کر سکتے تھے۔(Dr. Hamidullah, Emergence of Islam)
اس دوران امام شافعی نے یہ ضرورت محسوس کی کہ اصول فقہ کے قواعد و ضوابط کو باقاعدہ مربوط صورت میں پیش کیا جائے۔ یہ کام انہوں نے "الرسالہ" کی تصنیف کے ذریعے کیا۔ تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اصول فقہ کے فن میں یہ پہلی کتاب ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں جو اصول بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:
 
Top