مقدمہ:
اس بات پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ختم نبوت کے بعد اب دین کا تنہا ماخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دین دو طریقوں سے عطا فرمایا ہے: ایک اللہ تعالیٰ کا براہ راست کلام جو قرآن مجید ہے اور دوسری حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت مبارکہ۔
جب کوئی معاشرہ مذہب کو اپنے قانون کا ماخذ بنا لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں علم فقہ وجود پذیر ہوتا ہے۔ علم فقہ، دین کے بنیادی ماخذوں سے حاصل شدہ قوانین کے ذخیرے کا نام ہے۔ چونکہ دین اسلام میں قانون کا ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اس وجہ سے تمام قوانین انہی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ جب قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے تو اس کے نتیجے میں متعدد سوالات پیدا ہو جاتے ہیں:
· قرآن مجید کو کیسے سمجھا جائے؟
· قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟
· سنت کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟
· سنت کہاں سے اخذ کی جائے گی؟
· قرآن اور سنت کا باہمی تعلق کیا ہے؟
قرآن مجید، سنت اور حدیث میں سے کس ماخذ کو دین کا بنیادی اور کس ماخذ کو ثانوی ماخذ قرار دیا جائے؟·
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مروی احادیث کو کیسے سمجھا جائے گا اور ان سے سنت کو کیسے اخذ کیا جائے گا؟
· اگر قرآن مجید کی کسی آیت اور کسی حدیث میں بظاہر کوئی اختلاف نظر آئے یا دو احادیث میں ایک دوسرے سے بظاہر اختلاف نظر آئے تو اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟