• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اعتقاد الامام المنبل ابی عبد الله احمد بن حنبل --- عبد العزیز بن الحارث التمیمی -

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
اعتقاد الامام المنبل ابی عبد الله احمد بن حنبل --- عبد العزیز بن الحارث التمیمی -



ترجمہ : اور وہ (احمد بن حنبل) کہتے تھے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، اور نماز پڑھتے ہیں اور مردہ اپنے زائر (قبر پر آنے والے) کو پہچانتا ہے جعمہ کے دن طلوع فجر کے بعد اور طلوع شمس سے پہلے -

(اعتقاد الامام المنبل ابی عبد الله احمد بن حنبل ، صفحہ ٦٨ تا ٧٠)




یہاں @اسحاق سلفی بھائی بتائیں گے کہ اس مسلہ میں صحیح عقیدہ کیا ہونا چاہیے


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
چند وجوہات کے سبب آج کل ۔نیٹ ۔سے رابطہ نہیں ۔
بہرحال جواب حاضر ہے :
جس کتاب۔اعتقاد الامام المنبل ۔کا حوالہ دے کر جناب امام کوہدف بنایا گیا ہے ،
یہ کتاب جیسا کہ اس کے ٹائٹل پر موجود ہے چوتھی صدی ہجری میں لکھی گئی ۔اور امام احمد ؒ .288ھ میں فوت ہوگئے تھے ۔
اور اسی کتاب جس کا سکین یہاں پیش کیا گیا ہے اس کے صفحہ ۷ ۔پر صاف صاف درج ہے کہ اس کتاب میں موجود عقیدہ کے الفاظ امام احمد ؒ
کے نہیں ہیں ۔۔۔بلکہ مصنف نےاپنے الفاظ میں بزعم خود امام احمد کا عقیدہ پیش کیا ہے ۔
لہذا اس کے مندرجات کو بعینہ امام احمد کا عقیدہ قرار دینا محتاج ثبوت اور محتاج تحقیق ہے ۔پہلے ان الفاظ امام صاحب سے ثابت کریں پھر مزید
بات ہوسکتی ہے ۔یعنی پہلے چھت تو ثابت کریں پھر اس کے نقوش کی دلربائی کا نظارہ بھی کرلیں گے ۔
اعتقاد احمد.jpg
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
السلام و علیکم -

بظاھر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امام حنبل رح ، امام ابن تیمیہ رح اور امام ابن قیم رح کا عقیدہ بریلوی و دیوبندی حیاتی عقیدے سے مماثلت رکھتا ہے - اہل حدیث بھائی اس بارے میں وضاحت فرمائیں -اور مہربانی کرکے ہم پر الزام نہ لگائیں کہ ہم آئمہ محدثین کا احترام نہیں کرتے-کیوں کہ یہ معامله عقیدے کا ہے جس کی بنیاد پرمعاشرے میں شرک کا وجود پھیل رہا ہے-

الزام سے پہلے آپ کی وضاحت ضروری ہے -ورنہ کل کو دیوبندی بریلوی ہم پر الزام لگائیں گے کہ تمھارے "آئمہ و محدثین " کا بھی وہی عقیدہ ہے جو ہمارا ہے - تو ہم پر تنقید تشنیع کیوں ؟؟

یہ لنک بھی ملاحظه فرمائیں - جو بریلویوں اور دیوبندیوں کے عقائد "انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں" کے رد میں ایک اہل سلف بھائی نے لکھا ہے -

http://forum.mohaddis.com/threads/عقیدہِ-حیات-فی-القبور-و-حیات-النبی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-فی-القبر-حصہ-اول.11939/
ابھی تک جناب امام احمد سے جتنی باتیں منسوب کی گئیں ہیں ۔ان کا ثبوت امام صاحب کی اپنی کتب یا معتبر ذرائع نہیں دیا گیا
اس کے باوجود ناحق ان کی ذات گرامی کو تلبیس کا شکار کیا جا رہا ہے۔
دوسری بات۔۔۔۔۔ جس شرک کا واویلا کیا جارہا ہے پہلے اس کی وضاحت یعنی تعارف تو کروائیں ۔
اس کی تعریف بتائیں ۔۔۔لیکن براہ راست صرف تین مصادر سے ۔۔قرآن ،حدیث ،لغت عرب۔۔چونکہ یہ خالص عربی کا لفظ ہے
اور یاد رہے کسی کا قول شول ہرگز نقل نہ کریں ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ابھی تک جناب امام احمد سے جتنی باتیں منسوب کی گئیں ہیں ۔ان کا ثبوت امام صاحب کی اپنی کتب یا معتبر ذرائع نہیں دیا گیا
اس کے باوجود ناحق ان کی ذات گرامی کو تلبیس کا شکار کیا جا رہا ہے۔
دوسری بات۔۔۔۔۔ جس شرک کا واویلا کیا جارہا ہے پہلے اس کی وضاحت یعنی تعارف تو کروائیں ۔
اس کی تعریف بتائیں ۔۔۔لیکن براہ راست صرف تین مصادر سے ۔۔قرآن ،حدیث ،لغت عرب۔۔چونکہ یہ خالص عربی کا لفظ ہے
اور یاد رہے کسی کا قول شول ہرگز نقل نہ کریں ۔
محترم -

یہی تو میں که رہا ہوں کہ آپ امام ابن تیمیہ رح کی کتب سے ہی ان کے نظریات "عقیدہ عود روح اور یہ کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور یہ کہ میت زائرین کو
پہچانتی
ہے وغیرہ
" کا رد کردیں اور بس-

کیوں کہ یہی نظریات دیوبندی حیاتییوں اور بریلویوں کے بھی ہیں جس کی بنا پر وہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں - اور حوالے امام ابن تیمیہ رح کے دیتے ہیں -

اور آپ کا یہ کہنا کہ"جس شرک کا واویلا کیا جارہا ہے پہلے اس کی وضاحت یعنی تعارف تو کروائیں" یہ غیر متعلق سوال ہے -

یہاں ہم شرک کی تعریف بیان نہیں کر رہے بلکہ ان ذرایع کی بات کر رہے ہیں کہ جن کی بنیاد پر معاشرے میں شرک پھیلتا ہے- یہ کیسے ممکن ہے کہ انبیاء و صالحین کو ان کی قبروں میں زندہ بھی تسلیم کیا جائے اور پھر ان سے حاجت روائی کے لئے پکارا بھی نہ جائے - جب کہ یہی شرک کی جڑ ہے اسی لئے تو قرآن نے اپنا اصول واضح کردیا کہ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ کہ زندہ اور مردہ برابر نہیں – یعنی نہ سنتے ہیں چاہے امّت کا سلام ہی کیوں نہ ہو- نہ بولتے ہیں (سوره فاطر ٢٢ )- نہ ہی کسی چیز کا ادراک رکھتے ہیں - نہ ہی اپنے عزیز و اقارب کو پہچانتے ہیں- (سوره یٰسین ٢٦ -سوره النحل ٢١)-
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
یہ احمد بن حنبل رحم الله کا اپنا عقیدہ ہے ، اور یہ آپ اچھی طرح سمجھتے ہوں گے کہ صرف روایت بیان کر دینے پر گرفت نہیں کی جا سکتی جب تک بیان کرنے والا اس پر اپنا عقیدہ نہ بنائے -
کیوں جھوٹ بولتے ہو
یہ امام احمد ؒ کا اپنا عقیدہ نہیں ،بلکہ ان سے منسوب کیا گیا ہے ،ان کے نام پر لکھا گیا ہے
،
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
محترم -

یہی تو میں که رہا ہوں کہ آپ امام ابن تیمیہ رح کی کتب سے ہی ان کے نظریات "عقیدہ عود روح اور یہ کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور یہ کہ میت زائرین کو
پہچانتی
ہے وغیرہ
" کا رد کردیں اور بس-

کیوں کہ یہی نظریات دیوبندی حیاتییوں اور بریلویوں کے بھی ہیں جس کی بنا پر وہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں - اور حوالے امام ابن تیمیہ رح کے دیتے ہیں -
@
اسحاق سلفی
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

امام احمد رحم الله


كان يقول إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وأن الميت يعلم بزائره يوم الجمعة بعد طلوع الفجر وقبل طلوع الشمس


بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اور میت زائر کو پہچانتی ہے جمعہ کے دن، فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے


بحوالہ كتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل – المؤلف : عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي الناشر : دار المعرفة – بيروت


کہا جاتا ہے کہ ابن تیمیہ کہتے ہیں یہ کتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل ، المؤلفہ عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي نے اپنے فہم پر لکھی ہے

ابن تیمیہ کتاب درء تعارض العقل والنقل میں بتاتے ہیں کہ امام البیہقی کتاب اعتقاد أحمد جو أبو الفضل عبد الواحد بن أبي الحسن التميمي کو درس میں استمعال کرتے تھے


ولما صنف أبو بكر البيهقي كتابه في مناقب الإمام أحمد – وأبو بكر البيهقي موافق لابن البقلاني في أصوله – ذكر أبو بكر اعتقاد أحمد الذي صفنه أبو الفضل عبد الواحد بن أبي الحسن التميمي، وهو مشابه لأصول القاضي أبي بكر، وقد حكى عنه: أنه كان إذا درس مسألة الكلام على أصول ابن كلاب والأشعري يقول: (هذا الذي ذكره أبوالحسن أشرحه لكم وأنا لم تتبين لي هذه المسألة) فكان يحكى عنه الوقف فيها، إذ له في عدة من المسائل


اور جب ابو بکر البیہقی نے کتاب مناقب امام احمد لکھی اور ابو بکر البیہقی اصول میں ابن الباقلاني سے موافقت کرتے ہیں اسکا ذکر ابو بکر البیہقی نے ذکر کیا کتاب اعتقاد أحمد کا جو أبو الفضل عبد الواحد بن أبي الحسن التميمي کی تصنیف ہے اور اصولوں میں قاضی ابو بکر کے مشابہ ہے اور ان سے بات بیان کی جاتی ہے کہ جب وہ مسئلہ کلام میں ابن کلاب اور الأشعري کے اصول پر درس دیتے، کہتے ایسا ذکر کیا ابو الحسن نے جس کی شرح میں نے تمہارے لئے کی


ابن تیمیہ فتوی ج ٤ ص ١٦٧ میں لکھتے ہیں

وَكَانَ مِنْ أَعْظَمِ الْمَائِلِينَ إلَيْهِمْ التَّمِيمِيُّونَ: أَبُو الْحَسَنِ التَّمِيمِيُّ وَابْنُهُ وَابْنُ ابْنِهِ وَنَحْوُهُمْ؛ وَكَانَ بَيْنَ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ وَبَيْنَ الْقَاضِي أَبِي بَكْرٍ بْنِ الْبَاقِلَانِي مِنْ الْمَوَدَّةِ وَالصُّحْبَةِ مَا هُوَ مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ. وَلِهَذَا اعْتَمَدَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ البيهقي فِي كِتَابِهِ الَّذِي صَنَّفَهُ فِي مَنَاقِبِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ – لَمَّا ذَكَرَ اعْتِقَادَهُ – اعْتَمَدَ عَلَى مَا نَقَلَهُ مِنْ كَلَامِ أَبِي الْفَضْلِ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ. وَلَهُ فِي هَذَا الْبَابِ مُصَنَّفٌ ذَكَرَ فِيهِ مِنْ اعْتِقَادِ أَحْمَدَ مَا فَهِمَهُ؛ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ أَلْفَاظَهُ وَإِنَّمَا ذَكَرَ جُمَلَ الِاعْتِقَادِ بِلَفْظِ نَفْسِهِ وَجَعَلَ يَقُولُ: ” وَكَانَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ “. وَهُوَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ يُصَنِّفُ

كِتَابًا فِي الْفِقْهِ عَلَى رَأْيِ بَعْضِ الْأَئِمَّةِ وَيَذْكُرُ مَذْهَبَهُ بِحَسَبِ مَا فَهِمَهُ وَرَآهُ وَإِنْ كَانَ غَيْرُهُ بِمَذْهَبِ ذَلِكَ الْإِمَامِ أَعْلَمَ مِنْهُ بِأَلْفَاظِهِ وَأَفْهَمَ لِمَقَاصِدِهِ


امام أَبُو الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيُّ کے عقائد کی طرف سب سے زیادہ تَّمِيمِيُّونَ میں سے أَبُو الْحَسَنِ التَّمِيمِيُّ اور ان کے بیٹے اور پوتے اور اسی طرح کے دیگر ہوئے اور أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ اور َ الْقَاضِي أَبِي بَكْرٍ بْنِ الْبَاقِلَانِي میں بہت مودت اور اٹھنا بیٹھنا تھا اور اس کے لئے مشھور تھے اور اسی لئے امام البیہقی نے کتاب جو مَنَاقِبِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ میں لکھی تو انہوں نے أَبِي الْفَضْلِ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ کی کتاب پر اعتماد کیا ہے جو انہوں نے امام احمد کے اعْتِقَادِ پر لکھی تھی اور اس میں مصنف نے وہ اعْتِقَادِ ذکر کیے ہیں جو ان کے فہم کے مطابق امام احمد کے ہیں اور اس میں الفاظ نقل نہیں ہیں اور انہوں نے اجمالا الِاعْتِقَادِ لکھے ہیں اپنے الفاظ میں اور کہا ہے اور ابو عبداللہ .. اس کا مقام فقہ میں اماموں کی رائے نقل کرنے جیسا ہے اور مذبب کا ذکر فہم پر مبنی ہے اور اگر امام کا مذھب ہوتا تو الفاظ کے ساتھ لوگوں نے نقل کیا ہوتا اور اس کا مقصد سمجھا ہوتا


عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ المتوفی ٤١٠ ھ اورابن الباقلانی المتوفی ٤٠٢ ھ اشعری عقائد رکھتے تھے اور انکو امام احمد کا عقیدہ بھی بتاتے تھے ابن تیمیہ کو اعتراض اس پر ہے کہ اشعری عقائد امام احمد سے منسوب کیوں کیے جا رہے ہیں وہ صرف اس کا رد کر رہے ہیں . بیہقی بھی ابن البا قلانی سے متاثر تھے . بیہقی نے امام احمد کے مناقب میں عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ کی کتاب الاعتقاد استمعال کی کیونکہ وہ ابن الباقلانی سے متاثر تھے

ابن تیمیہ کے مطابق عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ نے اپنے فہم پر اس کتاب کو مرتب کیا ہے. ابن تیمیہ نے مطلقا اس کتاب کو رد نہیں کیا دوئم یہ صرف ابن تیمیہ کی رائے ہے جبکہ حنبلی مسلک میں کتاب معروف ہے -

جہاں تک مردہ کا زائر کو پہچاننے کا تعلق ہے اس کو ابن تیمیہ بھی مانتے ہیں

امام ابن تیمیہ
رحم الله


ابن تیمیہ فتوی الفتاوى الكبرى لابن تيمية ج ٣ ص ٤٢ میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا عِلْمُ الْمَيِّتِ بِالْحَيِّ إذَا زَارَهُ، وَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَفِي حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَمُرُّ بِقَبْرِ أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ، إلَّا عَرَفَهُ، وَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ» . قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: ثَبَتَ ذَلِكَ عَنْ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَصَحَّحَهُ عَبْدُ الْحَقِّ صَاحِبُ الْأَحْكَامِ


اور جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ میت زندہ کی زیارت سے کو جانتی ہے اور سلام کرتی ہے تو اس پر ابن عبّاس کی حدیث ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

جو شخص بھی اپنے کسی جاننے والے کی قبر پر گذرتا ہے اور اس کو سلام کرتا ہے وہ ( میت) کو پہچان لیتی ہے اور اس کو سلام کا جواب دیتی ہے

ابن مبارک کہتے ہیں یہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس کو صحیح کہا ہے عبد الحق صاحب الاحکام نے


امام ابن قیم رحم الله


ابن قیم کہتے ہیں اس پر اجماع ہے. ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ


اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
”امام احمد بن حنبلؒ“کا انتقال” 241 ہجری“ میں ہوا تھا” 288 ہجری“ میں نہیں۔
 
Top