امام احمد رحم الله
كان يقول إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وأن الميت يعلم بزائره يوم الجمعة بعد طلوع الفجر وقبل طلوع الشمس
بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اور میت زائر کو پہچانتی ہے جمعہ کے دن، فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے
بحوالہ كتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل – المؤلف : عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي الناشر : دار المعرفة – بيروت
کہا جاتا ہے کہ ابن تیمیہ کہتے ہیں یہ کتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل ، المؤلفہ عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي نے اپنے فہم پر لکھی ہے
ابن تیمیہ کتاب درء تعارض العقل والنقل میں بتاتے ہیں کہ امام البیہقی کتاب اعتقاد أحمد جو أبو الفضل عبد الواحد بن أبي الحسن التميمي کو درس میں استمعال کرتے تھے
ولما صنف أبو بكر البيهقي كتابه في مناقب الإمام أحمد – وأبو بكر البيهقي موافق لابن البقلاني في أصوله – ذكر أبو بكر اعتقاد أحمد الذي صفنه أبو الفضل عبد الواحد بن أبي الحسن التميمي، وهو مشابه لأصول القاضي أبي بكر، وقد حكى عنه: أنه كان إذا درس مسألة الكلام على أصول ابن كلاب والأشعري يقول: (هذا الذي ذكره أبوالحسن أشرحه لكم وأنا لم تتبين لي هذه المسألة) فكان يحكى عنه الوقف فيها، إذ له في عدة من المسائل
اور جب ابو بکر البیہقی نے کتاب مناقب امام احمد لکھی اور ابو بکر البیہقی اصول میں ابن الباقلاني سے موافقت کرتے ہیں اسکا ذکر ابو بکر البیہقی نے ذکر کیا کتاب اعتقاد أحمد کا جو أبو الفضل عبد الواحد بن أبي الحسن التميمي کی تصنیف ہے اور اصولوں میں قاضی ابو بکر کے مشابہ ہے اور ان سے بات بیان کی جاتی ہے کہ جب وہ مسئلہ کلام میں ابن کلاب اور الأشعري کے اصول پر درس دیتے، کہتے ایسا ذکر کیا ابو الحسن نے جس کی شرح میں نے تمہارے لئے کی
ابن تیمیہ فتوی ج ٤ ص ١٦٧ میں لکھتے ہیں
وَكَانَ مِنْ أَعْظَمِ الْمَائِلِينَ إلَيْهِمْ التَّمِيمِيُّونَ: أَبُو الْحَسَنِ التَّمِيمِيُّ وَابْنُهُ وَابْنُ ابْنِهِ وَنَحْوُهُمْ؛ وَكَانَ بَيْنَ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ وَبَيْنَ الْقَاضِي أَبِي بَكْرٍ بْنِ الْبَاقِلَانِي مِنْ الْمَوَدَّةِ وَالصُّحْبَةِ مَا هُوَ مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ. وَلِهَذَا اعْتَمَدَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ البيهقي فِي كِتَابِهِ الَّذِي صَنَّفَهُ فِي مَنَاقِبِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ – لَمَّا ذَكَرَ اعْتِقَادَهُ – اعْتَمَدَ عَلَى مَا نَقَلَهُ مِنْ كَلَامِ أَبِي الْفَضْلِ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ. وَلَهُ فِي هَذَا الْبَابِ مُصَنَّفٌ ذَكَرَ فِيهِ مِنْ اعْتِقَادِ أَحْمَدَ مَا فَهِمَهُ؛ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ أَلْفَاظَهُ وَإِنَّمَا ذَكَرَ جُمَلَ الِاعْتِقَادِ بِلَفْظِ نَفْسِهِ وَجَعَلَ يَقُولُ: ” وَكَانَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ “. وَهُوَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ يُصَنِّفُ
كِتَابًا فِي الْفِقْهِ عَلَى رَأْيِ بَعْضِ الْأَئِمَّةِ وَيَذْكُرُ مَذْهَبَهُ بِحَسَبِ مَا فَهِمَهُ وَرَآهُ وَإِنْ كَانَ غَيْرُهُ بِمَذْهَبِ ذَلِكَ الْإِمَامِ أَعْلَمَ مِنْهُ بِأَلْفَاظِهِ وَأَفْهَمَ لِمَقَاصِدِهِ
امام أَبُو الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيُّ کے عقائد کی طرف سب سے زیادہ تَّمِيمِيُّونَ میں سے أَبُو الْحَسَنِ التَّمِيمِيُّ اور ان کے بیٹے اور پوتے اور اسی طرح کے دیگر ہوئے اور أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ اور َ الْقَاضِي أَبِي بَكْرٍ بْنِ الْبَاقِلَانِي میں بہت مودت اور اٹھنا بیٹھنا تھا اور اس کے لئے مشھور تھے اور اسی لئے امام البیہقی نے کتاب جو مَنَاقِبِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ میں لکھی تو انہوں نے أَبِي الْفَضْلِ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ کی کتاب پر اعتماد کیا ہے جو انہوں نے امام احمد کے اعْتِقَادِ پر لکھی تھی اور اس میں مصنف نے وہ اعْتِقَادِ ذکر کیے ہیں جو ان کے فہم کے مطابق امام احمد کے ہیں اور اس میں الفاظ نقل نہیں ہیں اور انہوں نے اجمالا الِاعْتِقَادِ لکھے ہیں اپنے الفاظ میں اور کہا ہے اور ابو عبداللہ .. اس کا مقام فقہ میں اماموں کی رائے نقل کرنے جیسا ہے اور مذبب کا ذکر فہم پر مبنی ہے اور اگر امام کا مذھب ہوتا تو الفاظ کے ساتھ لوگوں نے نقل کیا ہوتا اور اس کا مقصد سمجھا ہوتا
عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ المتوفی ٤١٠ ھ اورابن الباقلانی المتوفی ٤٠٢ ھ اشعری عقائد رکھتے تھے اور انکو امام احمد کا عقیدہ بھی بتاتے تھے ابن تیمیہ کو اعتراض اس پر ہے کہ اشعری عقائد امام احمد سے منسوب کیوں کیے جا رہے ہیں وہ صرف اس کا رد کر رہے ہیں . بیہقی بھی ابن البا قلانی سے متاثر تھے . بیہقی نے امام احمد کے مناقب میں عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ کی کتاب الاعتقاد استمعال کی کیونکہ وہ ابن الباقلانی سے متاثر تھے
ابن تیمیہ کے مطابق عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ نے اپنے فہم پر اس کتاب کو مرتب کیا ہے. ابن تیمیہ نے مطلقا اس کتاب کو رد نہیں کیا دوئم یہ صرف ابن تیمیہ کی رائے ہے جبکہ حنبلی مسلک میں کتاب معروف ہے -
جہاں تک مردہ کا زائر کو پہچاننے کا تعلق ہے اس کو ابن تیمیہ بھی مانتے ہیں
امام ابن تیمیہ
رحم الله
ابن تیمیہ فتوی الفتاوى الكبرى لابن تيمية ج ٣ ص ٤٢ میں لکھتے ہیں
وَأَمَّا عِلْمُ الْمَيِّتِ بِالْحَيِّ إذَا زَارَهُ، وَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَفِي حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَمُرُّ بِقَبْرِ أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ، إلَّا عَرَفَهُ، وَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ» . قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: ثَبَتَ ذَلِكَ عَنْ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَصَحَّحَهُ عَبْدُ الْحَقِّ صَاحِبُ الْأَحْكَامِ
اور جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ میت زندہ کی زیارت سے کو جانتی ہے اور سلام کرتی ہے تو اس پر ابن عبّاس کی حدیث ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
جو شخص بھی اپنے کسی جاننے والے کی قبر پر گذرتا ہے اور اس کو سلام کرتا ہے وہ ( میت) کو پہچان لیتی ہے اور اس کو سلام کا جواب دیتی ہے
ابن مبارک کہتے ہیں یہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس کو صحیح کہا ہے عبد الحق صاحب الاحکام نے
امام ابن قیم رحم الله
ابن قیم کہتے ہیں اس پر اجماع ہے. ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں
وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ
اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے