ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے؟...
امیروں ، سفیروں اور وزیروں کی محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کاخیال توکبھی ہمارے خوابوں میں بھی نہیں آیاتھا...مگر قسمت دیکھئے کہ کینیڈا کی سرزمین کو ہم اس قدر پسند آئے کہ یہاں کاکوئی شہر یہ نہیں چاہتا کہ ہم اس کا دیدار کئے بغیر اپنے مفلس اور قلاش ،فتنوں اور آفتوں سے گھرے ہوئے ،تیسری دنیاکے ایک چھوٹے سے ملک کو واپس سدھار جائیں۔چنانچہ جب ہم نے یہاں کے دارالحکومت میں قدم رکھاتو پتہ چلا کہ ان لوگوں کی اڑان بہت اونچی ہے۔ابھی تک تو ڈاکٹروں اورپروفیسروں کی فیملیاں ہی ہمارے اعصاب پر سوار تھیں۔ لیکن یہاں آئے تو سفیروں اور ان کے مشیروں کی بیگمات کے چرچے ہمارے صبر کاامتحان بن گئے۔
غالباً دوسال پہلے کی بات ہے۔ ہمارے معززسفیر اپنے عہدے کی میعاد پوری کرکے وطن واپس جارہے تھے۔کئی ہم وطن انھیں الوداعی دعوتیں دے رہے تھے۔موصوف کی بیگم صاحبہ بڑی فعال سماجی کارکن تھیں جن کے کارنامے پاکستان کی ترقیاتی کاموں کی ایک طویل فہرست پر مشتمل تھی۔مثلاً انھوں نے ملک و قوم کی نمائندگی اور سرپرستی ہمیشہ بہترین انداز میں کی۔بہت سے پروگرام ، شوز اور پارٹیاں کرائیں۔جیسے فلاور شو، ڈریس شو، میوزک پارٹی اور ڈانس پارٹی وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑی یادگار قسم کی محفل میلاد بھی کروائی جس کاخواتین بڑی عقیدت کے ساتھ ذکرکرتیں۔ اور حد یہ ہے کہ جاتے جاتے اپنی بے انتہا مصروفیت یعنی شاپنگ، پکنک، پیکنگ اور دعوتوں کے باوجود بھی پاکستان کی خدمت سے غافل نہیں ہوئیں اور شعلہ بداماں وطن عزیز سے رنگ ِ دھنک نکال ہی لائیں۔ یعنی ملک کی مایہ ناز ڈیزائنر نورجہاں بلگرامی کے کپڑوں کی نمائش کروائی،جو وہ پاکستان سے کینیڈا بیچنے کے لئے لائی تھیں۔ ایک بہت بڑے ہوٹل میں ڈنر کااہتمام کیاگیا تھا۔جس میں شرکت کرنے کے لئے پاکستانی خواتین نہ صرف آٹوا(Ottowa) بلکہ منٹریال سے بھی آئی تھیں۔ اس شو کی رنگینی اور کامیابی کے تذکرے آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔ چلئے اس محفل کی ایک جھلک ہم آپ کو بھی دکھالائیں۔دروغ برگردن راوی اگر ہوتو، کیونکہ نہ تو ہم اس محفل کوسنبھال سکتے تھے اور نہ وہ محفل ہی ہمیں برداشت کرسکتی تھی!۔
کہتے ہیں اس ڈریس شو میں شرکت کرنے والی خواتین اس قدر آراستہ و پیراستہ تھیں کہ لگتاتھا جیسے پوراہال ہی ماڈلنگ کررہاہو۔بیگم صاحب سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے فخر سے چاروں طرف نظریں دوڑا رہی تھیں۔نورجہاں بلگرامی پاکستان کی بڑی مشہور ڈیزائنر ہیں۔ (ہمیں حیرت ہے کہ ابھی تک فرانس کیوں نہیں گئیں ، شاید پاکستان کو ہی فرانس بنانے کاعزم ہو)۔اس وقت دو ٹی۔ وی آرٹسٹ اس کی ماڈلنگ کررہی تھیں۔ان کے کپڑوں کی قیمت ساڑھے چار سو ڈالر سے شروع ہوتی تھی جو کہ انتہائی سادہ سلک کے سوٹ تھے۔انھوں نے بھاری زیورات کی بھی نمائش کی اور اس کے ساتھ ساتھ لہنگے اور ایسی کرتی کی بھی نمائش کی جو پیچھے سے ایک بند پر مشتمل تھی !ہماری پاکستانی خواتین ان کپڑوں کے اسٹائل پر مرمٹیں۔ صد افسوس کہ وہ پاکستان میں نہیں رہتی تھیں کہ ان کو خرید کرپہننے کاارمان بھی پورا کرلیتیں۔
کپڑوں کی قیمتوں پرتبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب نے بڑی معصومیت سے کہاکہ بھئی ان کوتو پاکستان کے لوگ ہی خرید سکتے ہیں۔ ہم یہاں دن رات محنت کرکے گزر بسر کرنے والے کہاں ایک سوٹ پرپانچ یاہزار ڈالر خرچ کر سکتے ہیں۔ دوسری خاتون گویا ہوئیں کہ یہ کپڑے تو پاکستان میں تو ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں جبکہ وہاں بھی اتنے ہی مہنگے ہوتے ہیں لیکن بھئی وہاں کاشوق بڑا زبردست ہے۔ اس پر ایک اور صاحب نے کہا وہاں کی امیر خواتین کے لئے چار پانچ ہزار کاسوٹ تو کوئی چیز ہی نہیںہے۔ اب تو وہاں دلہن کاشادی کاسوٹ ہی تیس چالیس ہزار میں بنتاہے۔گفتگو چونکہ انگریزی میں ہورہی تھی، ایک کینیڈین خاتون جو بڑی دلچسپی سے یہ سب سن رہی تھیں بڑی بے ساختگی سے بولیں کہ پھر تو پاکستان میں جوہورہا ہے بالکل درست ہورہاہے۔ا س پر زیورات کے بوجھ سے لدی ہوئی ، سوچ بچار سے فارغ ایک محترمہ بڑے بھولپن سے پوچھنے لگیں ، کیاہورہا ہے پاکستان میں ؟میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی۔وہ کینیڈین خاتون بڑے اعتماد سے گویا ہوئیں یہی نہ کہ اگر امیر گھر کی دلہن کاجوڑا تیس چالیس ہزار کا ہوگاتو ایک غریب آدمی اس کے گھر میں ڈاکہ کیوں نہیں ڈالے گا جن کے پاس اپنی بیٹی کی شادی کے لئے تیس چالیس سو روپے بھی نہیں ہونگے۔ا س پر ایک غیور محب وطن خاتون کی آنکھوں میں نمی آگئی اوروہ بھرائی ہوئی آواز میں بولیں'' نہیں جناب!پاکستان کا غریب شخص ڈاکونہیں ہے۔یہ تو ان امیروں کی کارستانیاں ہیں جن کے نام ، شکلیں اور پیشے مختلف ہیں جس طرح ان کے لوٹنے کے انداز مختلف ہیں ''۔
اس فیشن شو کاخاکہ جب ایک بزرگ خاتون کے سامنے کھینچا گیا تو بڑے دکھ کے ساتھ بولیں ''یہ شوباز عورتیں تو کینیڈا کو بھی دوسرا پاکستان بناکرچھوڑیں گی''۔
پھریہ سننے میں آیاکہ اس مرتبہ جو ہائی کمشنر آئے ہیں ان کی بیگم بڑی دین دار ہیں۔ محفلوں میں سر دوپٹے سے ڈھکارکھتی تھیں۔لوگوں سے بڑے اخلاق سے پیش آتی ہیں مسجد میں بھی آیاکرتی ہیں۔ ان خبروں پریقین کرنے میں تامل ہوا۔ کیونکہ کل کے بیگم صاحب کے کارناموں کی یاد ابھی ذہن میں محو نہیں ہوئی تھی ویسے بھی اس طبقے نے کچھ اس طرح بدظن کیاہوا ہے کہ اب تو سچ بھی جھوٹ نظر آتا ہے۔ غرض ہم نے کوئی توجہ نہ دی۔مگر چودہ اگست کے دعوت نامے کے پروگرام نے ہمیں چونکا دیا خواتین کاپروگرام تھا جس میں قرآن خوانی اور Reunionکاتذکرہ تھا۔شوقِ تجسس نے سر اٹھایا اور ہم اس محفل میں پہنچ گئے۔
اس سے پہلے ہم نے کبھی سفیروں کی کسی بھی محفل میں شرکت نہیں کی تھی۔اس لئے وہاں پہنچ کر پہلے اپنے آپ کو سنبھالا جب کچھ حواس بحال ہوئے تو ایک خاتون کی آواز کانوں میں پڑنے لگی جو کلام پاک پڑھ رہی تھیں پتہ چلا کہ یہی ہائی کمشنر کی بیگم ہیں !ہم نے دیکھا کہ نہ ان کے بال کٹے ہوئے تھے، نہ بھنویں تنی ہوئی ہیں نہ گہرے میک اپ کی تہوں میں چہرہ چھپا ہوا ہے اور نہ ہی ان کا دوپٹہ کاندھے پر پڑا ہوا ہے۔ اور اس پر متضاد یہ کہ وہ نہ کوئی تقریر کررہی تھیں ، نہ کوئی نغمہ گنگنا رہی تھیں اور نہ ہی منہ بگاڑ بگاڑ کر انگریزی بول رہی تھیں۔بلکہ وہ تو بڑی دلسوزی سے سورئہ اخلاص کا ترجمہ بتارہی تھیں۔ ہم تو ان کی آواز میں ایسے کھوئے کہ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کہاں بیٹھے ہیں۔ البتہ جب ادھر ادھر نظر پڑی تو یہ ضرور اندازہ ہوجاتا تھا کہ ہماری پاکستانی بیگمات سولہ سنگھار سے آراستہ کاندھوں پر لٹکی ہوئی بڑی احتیاط سے استری کی ہوئی پٹی (دوپٹے) کوکھولنے میں مصروف ہیں۔ پھر جب پروگرام ختم ہوا تو ماحول ہی بدلا ہواتھا سبھی کے دوپٹے تھوڑے بہت کھل چکے تھے۔ ہماری ایک سہیلی یہ منظر دیکھ کر بڑی رازداری سے بولیں کہ بھئی میں نے یہاں عورتوں کو اپنے دوپٹے تہہ کر کے پرس میں رکھتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ ایمبیسی کی تقریب میں اس قسم کی خواتین شریک ہیں۔ ورنہ یہاں تو محفل میلاد پر بھی فیشن شو کا گمان ہوتا تھا!۔
بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے
سراپا سادگی کی نمونہ اور خوف الٰہی میں ڈوبی رہنے والی بیگم کلیم اللہ نے اب پاکستانی خواتین کو عربی سکھانے کاعزم کیاہے۔وہ خود عربی زبان پڑھی ہوئی ہیں اورقرآن شریف کو سمجھ کر پڑھتی ہیں۔ اس لئے یہ چاہتی ہیں کہ ہم لوگ بھی قرآن کی زبان سیکھیں ، قرآن کو سمجھیں اور اس میں بتائے ہوئے طریقوں پر اپنی زندگی کوڈھالیں۔
شہناز احمد (آٹووا)