• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

افسانے: شہناز احمد (آٹووا)

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے؟...

امیروں ، سفیروں اور وزیروں کی محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کاخیال توکبھی ہمارے خوابوں میں بھی نہیں آیاتھا...مگر قسمت دیکھئے کہ کینیڈا کی سرزمین کو ہم اس قدر پسند آئے کہ یہاں کاکوئی شہر یہ نہیں چاہتا کہ ہم اس کا دیدار کئے بغیر اپنے مفلس اور قلاش ،فتنوں اور آفتوں سے گھرے ہوئے ،تیسری دنیاکے ایک چھوٹے سے ملک کو واپس سدھار جائیں۔چنانچہ جب ہم نے یہاں کے دارالحکومت میں قدم رکھاتو پتہ چلا کہ ان لوگوں کی اڑان بہت اونچی ہے۔ابھی تک تو ڈاکٹروں اورپروفیسروں کی فیملیاں ہی ہمارے اعصاب پر سوار تھیں۔ لیکن یہاں آئے تو سفیروں اور ان کے مشیروں کی بیگمات کے چرچے ہمارے صبر کاامتحان بن گئے۔
غالباً دوسال پہلے کی بات ہے۔ ہمارے معززسفیر اپنے عہدے کی میعاد پوری کرکے وطن واپس جارہے تھے۔کئی ہم وطن انھیں الوداعی دعوتیں دے رہے تھے۔موصوف کی بیگم صاحبہ بڑی فعال سماجی کارکن تھیں جن کے کارنامے پاکستان کی ترقیاتی کاموں کی ایک طویل فہرست پر مشتمل تھی۔مثلاً انھوں نے ملک و قوم کی نمائندگی اور سرپرستی ہمیشہ بہترین انداز میں کی۔بہت سے پروگرام ، شوز اور پارٹیاں کرائیں۔جیسے فلاور شو، ڈریس شو، میوزک پارٹی اور ڈانس پارٹی وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑی یادگار قسم کی محفل میلاد بھی کروائی جس کاخواتین بڑی عقیدت کے ساتھ ذکرکرتیں۔ اور حد یہ ہے کہ جاتے جاتے اپنی بے انتہا مصروفیت یعنی شاپنگ، پکنک، پیکنگ اور دعوتوں کے باوجود بھی پاکستان کی خدمت سے غافل نہیں ہوئیں اور شعلہ بداماں وطن عزیز سے رنگ ِ دھنک نکال ہی لائیں۔ یعنی ملک کی مایہ ناز ڈیزائنر نورجہاں بلگرامی کے کپڑوں کی نمائش کروائی،جو وہ پاکستان سے کینیڈا بیچنے کے لئے لائی تھیں۔ ایک بہت بڑے ہوٹل میں ڈنر کااہتمام کیاگیا تھا۔جس میں شرکت کرنے کے لئے پاکستانی خواتین نہ صرف آٹوا(Ottowa) بلکہ منٹریال سے بھی آئی تھیں۔ اس شو کی رنگینی اور کامیابی کے تذکرے آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔ چلئے اس محفل کی ایک جھلک ہم آپ کو بھی دکھالائیں۔دروغ برگردن راوی اگر ہوتو، کیونکہ نہ تو ہم اس محفل کوسنبھال سکتے تھے اور نہ وہ محفل ہی ہمیں برداشت کرسکتی تھی!۔
کہتے ہیں اس ڈریس شو میں شرکت کرنے والی خواتین اس قدر آراستہ و پیراستہ تھیں کہ لگتاتھا جیسے پوراہال ہی ماڈلنگ کررہاہو۔بیگم صاحب سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے فخر سے چاروں طرف نظریں دوڑا رہی تھیں۔نورجہاں بلگرامی پاکستان کی بڑی مشہور ڈیزائنر ہیں۔ (ہمیں حیرت ہے کہ ابھی تک فرانس کیوں نہیں گئیں ، شاید پاکستان کو ہی فرانس بنانے کاعزم ہو)۔اس وقت دو ٹی۔ وی آرٹسٹ اس کی ماڈلنگ کررہی تھیں۔ان کے کپڑوں کی قیمت ساڑھے چار سو ڈالر سے شروع ہوتی تھی جو کہ انتہائی سادہ سلک کے سوٹ تھے۔انھوں نے بھاری زیورات کی بھی نمائش کی اور اس کے ساتھ ساتھ لہنگے اور ایسی کرتی کی بھی نمائش کی جو پیچھے سے ایک بند پر مشتمل تھی !ہماری پاکستانی خواتین ان کپڑوں کے اسٹائل پر مرمٹیں۔ صد افسوس کہ وہ پاکستان میں نہیں رہتی تھیں کہ ان کو خرید کرپہننے کاارمان بھی پورا کرلیتیں۔
کپڑوں کی قیمتوں پرتبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب نے بڑی معصومیت سے کہاکہ بھئی ان کوتو پاکستان کے لوگ ہی خرید سکتے ہیں۔ ہم یہاں دن رات محنت کرکے گزر بسر کرنے والے کہاں ایک سوٹ پرپانچ یاہزار ڈالر خرچ کر سکتے ہیں۔ دوسری خاتون گویا ہوئیں کہ یہ کپڑے تو پاکستان میں تو ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں جبکہ وہاں بھی اتنے ہی مہنگے ہوتے ہیں لیکن بھئی وہاں کاشوق بڑا زبردست ہے۔ اس پر ایک اور صاحب نے کہا وہاں کی امیر خواتین کے لئے چار پانچ ہزار کاسوٹ تو کوئی چیز ہی نہیںہے۔ اب تو وہاں دلہن کاشادی کاسوٹ ہی تیس چالیس ہزار میں بنتاہے۔گفتگو چونکہ انگریزی میں ہورہی تھی، ایک کینیڈین خاتون جو بڑی دلچسپی سے یہ سب سن رہی تھیں بڑی بے ساختگی سے بولیں کہ پھر تو پاکستان میں جوہورہا ہے بالکل درست ہورہاہے۔ا س پر زیورات کے بوجھ سے لدی ہوئی ، سوچ بچار سے فارغ ایک محترمہ بڑے بھولپن سے پوچھنے لگیں ، کیاہورہا ہے پاکستان میں ؟میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی۔وہ کینیڈین خاتون بڑے اعتماد سے گویا ہوئیں یہی نہ کہ اگر امیر گھر کی دلہن کاجوڑا تیس چالیس ہزار کا ہوگاتو ایک غریب آدمی اس کے گھر میں ڈاکہ کیوں نہیں ڈالے گا جن کے پاس اپنی بیٹی کی شادی کے لئے تیس چالیس سو روپے بھی نہیں ہونگے۔ا س پر ایک غیور محب وطن خاتون کی آنکھوں میں نمی آگئی اوروہ بھرائی ہوئی آواز میں بولیں'' نہیں جناب!پاکستان کا غریب شخص ڈاکونہیں ہے۔یہ تو ان امیروں کی کارستانیاں ہیں جن کے نام ، شکلیں اور پیشے مختلف ہیں جس طرح ان کے لوٹنے کے انداز مختلف ہیں ''۔
اس فیشن شو کاخاکہ جب ایک بزرگ خاتون کے سامنے کھینچا گیا تو بڑے دکھ کے ساتھ بولیں ''یہ شوباز عورتیں تو کینیڈا کو بھی دوسرا پاکستان بناکرچھوڑیں گی''۔
پھریہ سننے میں آیاکہ اس مرتبہ جو ہائی کمشنر آئے ہیں ان کی بیگم بڑی دین دار ہیں۔ محفلوں میں سر دوپٹے سے ڈھکارکھتی تھیں۔لوگوں سے بڑے اخلاق سے پیش آتی ہیں مسجد میں بھی آیاکرتی ہیں۔ ان خبروں پریقین کرنے میں تامل ہوا۔ کیونکہ کل کے بیگم صاحب کے کارناموں کی یاد ابھی ذہن میں محو نہیں ہوئی تھی ویسے بھی اس طبقے نے کچھ اس طرح بدظن کیاہوا ہے کہ اب تو سچ بھی جھوٹ نظر آتا ہے۔ غرض ہم نے کوئی توجہ نہ دی۔مگر چودہ اگست کے دعوت نامے کے پروگرام نے ہمیں چونکا دیا خواتین کاپروگرام تھا جس میں قرآن خوانی اور Reunionکاتذکرہ تھا۔شوقِ تجسس نے سر اٹھایا اور ہم اس محفل میں پہنچ گئے۔
اس سے پہلے ہم نے کبھی سفیروں کی کسی بھی محفل میں شرکت نہیں کی تھی۔اس لئے وہاں پہنچ کر پہلے اپنے آپ کو سنبھالا جب کچھ حواس بحال ہوئے تو ایک خاتون کی آواز کانوں میں پڑنے لگی جو کلام پاک پڑھ رہی تھیں پتہ چلا کہ یہی ہائی کمشنر کی بیگم ہیں !ہم نے دیکھا کہ نہ ان کے بال کٹے ہوئے تھے، نہ بھنویں تنی ہوئی ہیں نہ گہرے میک اپ کی تہوں میں چہرہ چھپا ہوا ہے اور نہ ہی ان کا دوپٹہ کاندھے پر پڑا ہوا ہے۔ اور اس پر متضاد یہ کہ وہ نہ کوئی تقریر کررہی تھیں ، نہ کوئی نغمہ گنگنا رہی تھیں اور نہ ہی منہ بگاڑ بگاڑ کر انگریزی بول رہی تھیں۔بلکہ وہ تو بڑی دلسوزی سے سورئہ اخلاص کا ترجمہ بتارہی تھیں۔ ہم تو ان کی آواز میں ایسے کھوئے کہ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کہاں بیٹھے ہیں۔ البتہ جب ادھر ادھر نظر پڑی تو یہ ضرور اندازہ ہوجاتا تھا کہ ہماری پاکستانی بیگمات سولہ سنگھار سے آراستہ کاندھوں پر لٹکی ہوئی بڑی احتیاط سے استری کی ہوئی پٹی (دوپٹے) کوکھولنے میں مصروف ہیں۔ پھر جب پروگرام ختم ہوا تو ماحول ہی بدلا ہواتھا سبھی کے دوپٹے تھوڑے بہت کھل چکے تھے۔ ہماری ایک سہیلی یہ منظر دیکھ کر بڑی رازداری سے بولیں کہ بھئی میں نے یہاں عورتوں کو اپنے دوپٹے تہہ کر کے پرس میں رکھتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ ایمبیسی کی تقریب میں اس قسم کی خواتین شریک ہیں۔ ورنہ یہاں تو محفل میلاد پر بھی فیشن شو کا گمان ہوتا تھا!۔
بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے
سراپا سادگی کی نمونہ اور خوف الٰہی میں ڈوبی رہنے والی بیگم کلیم اللہ نے اب پاکستانی خواتین کو عربی سکھانے کاعزم کیاہے۔وہ خود عربی زبان پڑھی ہوئی ہیں اورقرآن شریف کو سمجھ کر پڑھتی ہیں۔ اس لئے یہ چاہتی ہیں کہ ہم لوگ بھی قرآن کی زبان سیکھیں ، قرآن کو سمجھیں اور اس میں بتائے ہوئے طریقوں پر اپنی زندگی کوڈھالیں۔
شہناز احمد (آٹووا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تکمیلِ آرزو...

کیاریاں پھولوں سے بھرگئیں ، غنچے کھل پڑے۔ خوشبوئیں ہرسوپھیل گئیں، بادِ سموم کے جھونکے کہیں کھسک گئے۔ پودوں کا کیا گھر کا ہی رنگ بدل گیا۔ چھوٹا سا گھر کاآنگن ، اس میں نماز کے لئے بنا چبوترا اور چاروں طرف گلاب، بیلا اورچنبیلی کی کیاریاں۔ گرمیوں کی شام کاچھڑکاؤ۔ پانی کی بوندوں سے مٹی کی اٹھتی ہوئی سوندھی خوشبو چاندی راتوں کاسحر،ہواؤں میں بسی چمپا اور موتیا کی مہک جس میں پلے اور بڑھے تھے وہ سب خوب سے خوب تر کی تلاش میں چھوڑ آئے تھے۔ واقعی انسان بھی کتنا عجیب ہے۔ اس کی فطرت کو ایک ایک ذرہ معذوری محتاجی اور کمزوری سے سست توانا اور جوان رعنا بناتا ہے پر کبھی ایک نظر غلط انداز بھی بھی نہیں ڈالتا۔ لذتوں اور لپکے ہوئے مضبوط ہاتھ کمزور پڑنے لگتے ہیں توپھر یہی انسان شکائتیں کرنے لگتا ہے۔ ہاں تو ہم کچی مٹی کے آنگن ، سیمنٹ کے فرش کے سادہ سے سامان کے کمرے اور چھوٹی چھوٹی بیلا چنبیلی اور گلاب کی کیاریاں چھوڑ کر ایک بڑی شاندار گلابی ، فیروزی ، انگوری اور بادامی کمروں والی کوٹھی میں آگئے۔جہاں پکی لال اینٹوں کی کیاریاں اور ہری ہری گھاس کابہت بڑا لان تھا۔جس میں ہار سنگھار ، بوگن ویلا، کنیر ، یوکلپٹس اور سرو کے اونچے اونچے درخت تھے۔سب اس گھرمیں آکر اتنے مگن ہوئے، اتنے خوش ہوئے کہ نماز کے چبوترے کی کمی بھی محسوس نہ کی۔ برسات میں سوندھی مٹی کی مہک بھی یاد نہ آئی۔ جون جولائی اگست کی راتوں میں کراچی کی خوشبوؤں میں بسی ہوئی خنک ہواؤں کی بھی پرواہ نہیں کی۔ اب سب لوگ کمروں میں ایئر کنڈیشنڈ لگاکر سوتے تھے۔سب کی مصروفیات بڑھ گئیں۔گھر کوسجانے سنوارنے، لوگوں کو بلانے اور دکھانے سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی کہ دولت اپنے ساتھ عیش و عشرت ہی نہیں مصروفیت بھی ساتھ لاتی ہے۔ اب کس کے پاس اتنا وقت تھا کہ رات عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد،پلنگوں پر لیٹ کر دادی اماں سے پیغمبروں کے قصے سنے۔یاامی کو کہاں اتنی فرصت تھی کہ وہ ہر پیر کو دلی والی خالہ کے گھر جاکر وعظ سنیں۔ صبحیں بھی کتنی بے رونق ہوگئی تھیں۔گھرگھر سے آنے والی قرآن پڑھنے کی آوازیں کہیں کھوگئی تھیں۔ایک توگھروں کے درمیان اتنی موٹی دیواریں۔ دوسرے کوئی قرآن پڑھتا ہی نہیں تھا۔ ہاں البتہ انگلش گانے اردو گانے لوگ بڑی فراخ دلی سے پڑوسیوں کو سناکر حق ہمسائیگی ادا کرتے تھے۔ پھران چھوٹے چھوٹے گھروں کے مکینوں کاخلوص، ریڑھی والوں کی آوازیں ، بچوں کاسکول جانا، محلے کی خواتین کا تھوڑی دیر کے لئے ایک گھرمیں جمع ہوکر اپنادکھ سکھ کہنا،سب ایک مذاق لگنے لگا۔ لگنے لگاکیا،مذاق اڑانے لگے کہ کتنے بیوقوف اور سیدھے تھے ہم لوگ جو اس طرح زندگی گزارتے تھے۔کیونکہ بعد میں تودعوتوں کے ذریعے ملنے ملانے کا طریقہ شروع ہوگیا تھا۔ لوگ بڑے تکلف سے ملنے لگے اور ملنے میں بھی اس بات کاخیال رکھا جانے لگا کہ کون ملنے کے قابل ہے اورکون نہیں۔ اورملنے کے قابل وہ ٹھہرے جودولت میں ہمارے برابر یاہم سے بڑھے ہوئے تھے چہرے ہی بدل کررہ گئے تھے حالانکہ شکلیں وہی تھیں۔ قدوقامت بھی وہی تھے۔ اعضاء بھی وہی تھے۔ لیکن ایک دل کے بدلنے کی وجہ سے زاویہ حیات بدل گیاتھا۔شاید اپنے اوپر غلاف چڑھالئے تھے دولت کے ،ترقی کے اورماڈرن ازم کے۔ پھر وہی امریکہ جہاں آٹھ سال پہلے بڑے بھائی جان کے چلے جانے سے ساری دنیا ویران لگتی تھی ،وہیں اب منجھلے بھائی بھی سدھار گئے تھے۔ کچھ عرصے بعد ساجدہ اپیا بھی میکے سے رخصت ہوکر وہیں جابسیں۔اور تعلیم مکمل کرکے فرخ بھی امریکہ چلاگیا۔فرخ کے جانے کاامی اور ابا کوبہت دکھ ہوا۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسرے بیٹوں کی طرف فرخ بھی انہیں چھوڑ کر چلاجائے۔اس بڑھاپے میں جبکہ انہیں قدم قدم پر سہارے کی ضرورت ہے ، ساری اولاد کا ان کو اس طرح چھوڑ کر چلے جانا توان کے ساتھ زیادتی ہے۔ امی دبی دبی زبان میں کہتیں۔ لگتا تھادولت کے لئے رنگ برنگے کھلونوں سے بڑی جلدی ان کادل بھرگیا تھا۔ مصروفیت سے وہ تھک چکے تھے۔ شہرت اور بڑائی سے ان کادل اکتا گیا تھا۔ ننھے پودے تناور درخت بن چکے تھے۔ترقی ، شہرت،عظمت اور دولت کانشہ ان کی رگ و پے میں سماگیاتھا اب جبکہ یہ درخت پھل پھول دے رہے تھے، مالی انہیں نوچنے اوراکھاڑنے کے درپے تھے۔ چنانچہ بڑے بھائی اورمنجھلے بھائی نے بڑے فیصلہ کن انداز میں امی سے کہہ دیا کہ یہ تو آپ لوگوں کی خود غرضی ہے کہ آپ اپنی خاطر فرخ کویہاں روک کر اس کامستقبل خراب کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں رہ کر اس کامستقبل کیا ہو گا؟۔ سوائے جوتیاں چٹخانے اور چند ہزار کی ملازمت کے جس میں بنیادی ضرورتیں تک پوری نہیں ہوسکتیں۔ فرخ اپنی صلاحیتوں کوبروئے کار لانا چاہتا ہے تاکہ وہ ترقی کرے اور دنیا میں اپنامقام بناسکے۔آپ لوگوں کو توچاہیئے کہ اس کی ہمت افزائی کریں نہ کہ اس پر جذباتی دباؤ ڈالیں۔ اب بہتر تویہی ہے کہ آپ لوگ بھی ہمارے ساتھ آکر رہیں۔ یہاں پاکستان میں کیارکھا ہے؟۔ لیکن اس کے لئے بھی آپ لوگ راضی نہیں ہوتے۔خیرٹھیک ہے ہم اس پر اصرار نہیں کرتے۔یہ آپ کی زندگی ہے آپ کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کااختیار ہے۔ لیکن اپنی ضرورت اور خواہش کی خاطر اپنے ایک بچے کامستقبل تباہ کرناکہاں کی دانشمندی ہے؟ اور مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ یہ سن کرابا منہ تکتے کے تکتے رہ گئے تھے، جیسے کہہ رہے ہوں کہ ''بیٹا میرے پاس دانش مندی کہاں؟۔ وہ تو میں نے تمہیں منتقل کر دی ہے''۔اور پھر فرخ باہر چلے گئے۔
وسیع وعریض زمین پر بنی ہوئی مضبوط سنگین عمارت منہ پھاڑ پھاڑ کر اپنے مکینوں کو چاروں طرف ڈھونڈنے لگی جوجگہ جگہ سے اٹھ کر ایک کمرے میں سمٹ آئے تھے۔
دسمبر کی ایک سرد رات میں بچوں کو سلا کرراشدہ انتظار کررہی تھی۔ وقت گذارنے کے لئے میں نے شیلف سے ایک کتاب اٹھالی۔موضوع تھا ''والدین کے حقوق''۔ جیسے جیسے میں پڑھتی جارہی تھی۔ میرا دل بھراچلا آرہاتھا۔مجھے لاشعوری طور پر اپنے والدین کااس طرح تنہارہ جانا بڑا شاق گزرتاتھا۔ اپنے بہن بھائیوں سے دل کی بات کہتی تووہ ٹال دیتے کہ ''اب تم شادی شدہ ہو، تمہاری اپنی زندگی ہے ، اپنے شوہر اور بچوں کی طرف توجہ دو،ہروقت والدین کے بارے میں نہ سوچاکرو۔مانا کہ سب سے چھوٹی ہونے کی بناء پر ابھی تک تمہارے اندربچپن ہے۔لیکن تمہیں چاہیئے کہ اب کچھ'' میچور''Matureہونے کی کوشش کرو۔اور میں خاموش ہوکررہ جاتی تھی۔ لیکن امی ابا کی تنہائی کاخیال مجھے ہمیشہ ستاتا تھا۔کبھی کبھی یہ سوچ کر تھوڑاسا اطمینان ہوجاتا تھاکہ اللہ کی مہربانی سے کم از کم میں تو اسی شہر میں رہتی ہوں، کسی بھی وقت ان کے پاس آجاسکتی ہوں حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ میں اتنی آسانی سے ان کے پاس جا نہیں سکتی تھی۔کیونکہ ایک تو میرے بچے چھوٹے تھے ، دوسرے میرے ساتھ ساس سسر رہتے تھے جن کا میرے شوہر اس قدر خیال رکھتے تھے کہ وہ دوسرے شہر دورے پر بھی جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ یہ بات بھی مجھے اکثر بے چین رکھتی تھی کہ میرے بھائیوں کے برخلاف میرے میاں اپنے والدین کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ اگرچہ میرے سسر بہت بڑی پوزیشن کے آدمی تھے لیکن انہوں نے بااصول اورسادہ زندگی گزاری تھی۔ ڈپٹی کمشنر ہونے کے باوجود کبھی حرام کی کمائی کاتصور تک ان کے ذہن میں نہیں آیا۔ کبھی اپنے پیشے سے انہوں نے ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔حد یہ ہے کہ کبھی اپنی اولاد کو بے جا حقوق دے کر سر پر نہیں چڑھایا۔ان کے مال میں عزیزوں ، رشتے داروں اور غیروں سب کاحصہ تھا۔اسی وجہ سے ان کی زندگی بہت سادہ تھی۔ساری زندگی نہ وہ کسی سے مرعوب ہوئے اور نہ کسی کومرعوب کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ تھی کہ ایک چھوٹے سے سادہ گھر میں جتنے مطمئن اور پرسکون مجھے اپنے ساس سسر نظر آتے تھے۔ اتنے اپنے والدین ایک عالیشان کوٹھی میں رہ کر بھی نظر نہیں آتے تھے۔میں کتاب کے اوراق الٹتی جارہی تھی۔اور دل کاغبار دل سے آنکھوں کے ذریعے بہے چلاجارہاتھا۔ خیالات کی رو میں کچھ اس قدر ڈوبی ہوئی تھی کہ مسلسل بجتی ہوئی ٹیلی فون کی گھنٹی کابھی مجھے احساس نہیں ہوا۔اپنی ساس کی گھبرائی ہوئی آواز پر میں چونکی جوکہہ رہی تھیں۔ ''شہلا دلہن سوگئیں کیا؟دیکھو تمہارے گھر سے ٹیلی فون آیاہے۔ تمہاری امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ان کانوکر بول رہا ہے''۔ اور پھر مجھے کچھ پتہ نہیں کہ کیاہوا۔میرے سامنے تو میری ماں کازرد چہرہ تھالگتاتھا۔ وہ خوف سے بے دم ہوگئی ہیں۔تنہائی کے مہیب سناٹے انہیں اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔اباکی بری حالت تھی۔بے چارے کانپ رہے تھے۔ شہلابیٹی !عمران اور آفتاب کو فون کرو کہ فوری آجائیں۔ماں کی حالت بہت خراب ہے۔اباکے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی اور امی نے یہ سن کر بدّقت آنکھیں کھولیں ،پھر اشارے سے منع کیا۔کوئی ضرورت نہیں انہیں پریشان کرنے کی۔ بے ترتیب الفاظ ان کے منہ سے نکلے۔ میراگھبراہٹ اور پریشانی سے براحال تھا۔پورے گھرمیں مجھے اندھیرا چھایا ہوا نظر آرہاتھا۔ہوا کی سائیں سائیں دل کواڑا لئے جارہی تھی۔ہائے اللہ! ہے کوئی جو اس وقت آجائے دیکھو تو امی کی کیسی حالت ہے؟ اف میرے خدا۔کہاں چلے گئے وہ سب لوگ جن کی خاطر امی نے اپنے آپ کو اس حال میں پہنچالیا؟۔کتنی خودغرضی اورسفاکی ہے کہ اس طرح بڑھاپے میں والدین کو تنہا چھوڑ جائیں۔ خداکے واسطے بڑے بھائی جان، منجھلے بھائی جان ، اپیااور فرخ سب آجاؤ۔میں پوری طاقت سے چیخنا چاہتی تھی لیکن آواز میرے حلق میں پھنسی ہوئی تھی۔ادھر امی کی نبض ڈوب رہی تھی۔ اف شامِ زندگی اتنی ویران سوگوار اور دل چیر دینے والی ہوتی ہے!۔
امی کی جدائی سے اباکوسکتا ساہوگیا۔ اولاد تو دور ہوئی تھی۔اب رفیقہء حیات بھی ساتھ چھو ڑ گئی۔دکھ سکھ کی ساتھی۔اچھے برے کی رازداں۔ابانے شاید کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ امی انہیں یوں زندگی کے صحرا میں اکیلا چھو ڑکرخاموشی سے رخصت ہوجائیں گی۔
امی کے انتقال پر منجھلے بھائی اور فرخ تو نہیں آسکے۔اور اپیا بھی نمرہ کی شادی کی وجہ سے صرف دو ہفتوں کے لئے آئیں۔ دسویں کے بعد جب بھائی جان جانے لگے تو انہوں نے ابا سے کہا کہ اب آپ اتنے بڑے گھر میں اکیلے کیسے رہیں گے؟
''کیسے کیامطلب ؟جیسے پہلے رہتا تھا ویسے ہی رہ لوں گا''
اباکے لہجے میں تلخی تھی۔
مگر ابا پہلے تو امی تھیں آپ کے ساتھ۔اب تو آپ اکیلے ہیں۔ اپیابولیں۔
تنہائی کاجو روگ تمہاری ماں کو لے گیا، ان شاء اللہ جلد ہی مجھے بھی لے جائے گا۔
آپ تو خواہ مخواہ دل دکھانے کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ توسوچئے کہ ابھی امی کی جدائی کے غم سے ہی لوگ افسردہ ہیں۔ بھائی جان کو اباکااندازِ گفتگو ناگوارگزرا تھا۔اللہ نہ کرے کہ تمہارے دشمنوں کے بھی دل دکھیں۔ابانے چہرے کی کیفیت بدلنے کی کوشش کی۔
اور میں سوچنے لگی کہ یہ کیابات ہے۔ آپ کایہ بیٹا امریکن یونیورسٹی کاپروفیسر ہے۔ ان کے بچے امریکن Bornامریکن Raisedبچے ہیں جن پر آپ کو ہی نہیں آپکے پورے خاندان کوفخرہے۔تو ابا یہ کیابات ہوئی کہ اپنے حسین خوابوں کی دلرباتعبیر دیکھ کر آپ رورہے ہیں۔ ذرا یہ توسوچئے دنیا میں کتنے لوگ ہیں جنکے سپنے حقیقت بن کر ان کے سامنے آتے ہیں۔ آج آپ کی طرح نجانے کتنی آنکھیں وہی حسین سپنے سجائے حسین تعبیر کی منتظر ہوں گی جن کو پاکر آپ رورہے ہیں۔
لیکن میرے ابا......پیارے اباتعبیر ان ہی خوابوں کی بتائی جاتی ہے جو دیکھے جاتے ہیں ......کاش کاش آپ نے یہ خواب نہ دیکھے ہوتے ......شہلاکاذہن سوچتے سوچتے اور آنکھیں برستے برستے تھم گئی تھیں۔
شہناز احمد (آٹووا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حساب دینا ہے۔
کبھی کبھی مجھے لگتا جیسے میں منجمد ہوکررہ گئی ہوں۔ ہرسوچ، ہر فکر اور ہر خیال میرے ذہن سے نکل گیاہے۔ ہرتمنا ،ہرخواہش اور ہر آرزو سے دل بے نیاز ہوگیا ہے کائنات کاسارارنگ،ساری خوبصورتی میر نظروں میں دھندلا کررہ جاتی ہے۔ دنیاکی لذتوں، کیف و سرور اور راحتوں سے مجھے بیزاری سی ہوجاتی ہے۔ ۔۔جب۔ ۔۔۔جب میں اپنے اطراف میں بھیانک ڈراؤنے خوابوں کو حقیقت بناہوا دیکھتی ہوں۔۔۔ اُف ایسی حقیقت ایسی حقیقت کہ میں لاکھ جھٹلانے کی کوشش کروں، وہ میرے وجود کوکرچی کرچی کرجاتی ہیں۔ لیکن مجھ پر ثابت کرجاتی ہیں کہ دیکھو مجھے میں حقیقت ہوں میں صبح ہوں۔میں تصور اور گمان نہیں ہوں۔اور یہی کیفیت مجھ پر اس وقت بھی طاری ہے۔
شازی کے چیخنے چلانے سے لوگوں کے دل بہے جارہے تھے۔ اس نے چھوٹی ممانی کوغسل دینامشکل کردیا ہے۔ اس کی خالائیں اوررشتے دار خواتین اسے سمجھانے کی بہت کوشش کررہی ہیں...لیکن اسے ہوش کہاں ہے جو وہ کسی کی سنے۔ وہ تو بس ایک ایک بات پر حیران اورپریشان ہے۔ جوکچھ اس کی سمجھ میں اور منہ میں آرہا ہے کہے چلی جارہی ہے ...پلیز میری ماما کی جیولری نہ اتارو۔وہ کبھی بھی بغیر جیولری کے نہیں رہتی تھیں۔ہائے آپ لوگ کیاکررہے ہیں۔ خدا کے واسطے ان کامیک اپ تو کردیں ، وہ تو میک اپ کے بغیر کسی سے ملتی بھی نہیں تھیں۔ اور یہ دیکھو Casket بھی آپ نے کتنا سادہ لیاہے وہ تو اسے کبھی بھی پسند نہ کرتیں۔ For God's sakeڈیڈ آپ کو کیاہوگیا ہے کیوں مام کے ساتھ ایسا کررہے ہیں یہ لوگ؟کس چیز کی کمی ہے آپ کے پاس؟ کس لئے پیسہ بچا کررکھ رہے ہیں آپ ؟جاؤ جیمی اور ٹونی جاؤ سب سے بڑے فلورسٹ شاپ سے پھول لے کر آنا... ہائے میری ماما کاکتنا Great Taste تھا... ان جیسا ہماری پوری فیملی میں کوئی نہیں ہے...اوگاڈ!یہ کیاہوگیا ...ماما یوآر سو بیوٹی فل! ... جذبات کی شدت سے شازی اپنے قابو میں نہ تھی...اورمیری ساکت پتلیوں کو جیسے برقی کرنٹ لگ گیا...پچیس چھبیس سال کاعرصہ برق کی طرح میری آنکھوں میں چکاچوند کرنے لگا...
چھوٹی ممانی ایک حسین خیال کی طرح میرے ذہن میں لہراگئیں۔رنگوں سے سجی، زیوروں میں لدی اور خوشبوؤںمیں نہائی ہوئی دلہن...اپنے ہوش و حواس کی وہ پہلی دلہن تھی جو میرے دل و دماغ میں بس کررہ گئی تھیں۔دلہن کے نام کے ساتھ جو حسین تصور ذہن میں آتا تھا وہ چھوٹی ممانی کاہوتا تھا...میں تو خیر بچی تھی لیکن رشتے دار، عزیزوں، دوستوں سے لے کر ہردیکھنے والا تک دلہن کی خوبصورتی اور حسن کاگرویدہ تھا۔لگتا تھا نانی اماں کے گھر میںکوئی حور اتر آئی ہے۔ لڑکی بالیوں کابس نہ چلتا تھا کہ ممانی کے اندر ہی گھس جائیں۔مگر جیسے جیسے ممانی دلہن پنے سے باہر آتی گئیں حسن کا سحرتو اپنی جگہ شخصیت کا،رعب بھی ایسا سحر لوگوں پرپڑنے لگا کہ لوگ سمٹ کررہ گئے!... سسرال والوں کابس نہ چلتا تھا کہ ان کے قدموں میں بچھ جائیں مگر وہ کسی کوگھاس ہی نہ ڈالتی تھیں۔اور بڑی ممانی بیچاری جن کو ہم نے آنکھیں کھول کر سب کی خدمت کرتے دیکھا سب سے محبت کرتے دیکھا ان کی تو کوئی قدر نہ تھی۔جبکہ چھوٹی ممانی اگر کسی پر نظر بھی ڈال دیتیں تو اس کی قسمت چمک جاتی... کیونکہ نانی اماں کے خیال میں چھوٹی دلہن کمسن ہے ، اس کے کھانے کھیلنے اور بننے سنورے کے دن ہیں ،اسے باتیں بنانا نہیں آتی ہیں ...بڑی دلہن تو بڑی ہی للّو چپّوکرتی ہیں ...اور مجھے کچھ نہ سمجھ میں آتے ہوئے بھی نانی اماں کی یہ باتیں بہت ناگوار گزرتی تھیں...اور یوں تو وہ دیکھتے جانتے اور سمجھتے سبھی تھے لیکن جیسے سب کو سانپ سونگھ کیاہویازبانوں پر تالے پڑگئے ہوں۔ حرکت کوئی نہ کرتاتھا۔
جب چھوٹی ممانی اور نانی اماں کاگھر گھٹا ہوا اور پرانی وضع کالگا تو ان کے ابا نے شہر کے نئے اور خوبصورت علاقے میں انہیں شاندار کوٹھی بنوادی...اور چھوٹے ماموں وہ جو نانی اماں کی گود میں سر رکھ کر سویاکرتے تھے ، پھر مہینوں نانی اماں کوشکل دکھانے کے لئے ترسانے لگے...شب برات ، رمضان،عید بقر عید،خوشی ، غمی کے موقع پر ماموں میاں کے گھر میں پوراخاندان جمع ہوتا۔ بڑی ممانی بیچاری سب کو آنکھوں پر بٹھاتیں ، ایک ایک کی خاطر تواضع میں کوئی کسر نہ چھوڑتیں...اور نندیں بھانجیاں جب چھوٹے ماموں کی شاندار کوٹھی میں چند منٹوں کے لئے غیروں کی طرح جاکر اجنبیوں کی طرح چھوٹی ممانی کے عالیشان گھر کی خوبصورتی ،ممانی کے حسن ،رکھ رکھاؤ، سلیقہ قابلیت، فیشن اور بننے سنورے کے ہنر کے گن گاتیں توزمین وآسمان ایک کردیتیں...اور بقول امی کے میرا ٹیڑھا دل نہ جانے کیوں کڑھ کررہ جاتا...خاندان کی کونسی محفل کونسی تقریب ہوتی جہاں ممانی کاحسن ، ان کے کپڑے، ان کابہترین طریقہ سے بنناسنورنا اور ان کااعلیٰ ذوق سب کی توجہ کامرکز نہ ہوتا۔
وقت کے ساتھ ساتھ میراذہن جتنابڑھتاگیا ،اتنا ہی چھوٹی ممانی کا ناقد بنتا گیا... اُف کتنی مغرور اور خود پسند عورت ہیں؟۔ سوائے اپنی نمودو نمائش اورفخر وغرور کے انہیں کسی کی پرواہ نہیں ...نانی اماں کے پاس رات کوسوتے ہوئے نانی کاسسکنا مجھ سے پوشیدہ نہ تھاجب کہ وہ مجھے بچی سمجھ کرسوتا ہواخیال کرکے اپنے اللہ سے رورو کرفریاد کرتے ہوئے کہتی تھیں کہ مجھ بیوہ کے بچے کوتو نے مجھ سے یوں جدا کر دیا کہ وہ مہینوں شکل نہیں دکھاتا ہے۔ کمزور اور بیماربھائی کی مددکرنا تو بڑی بات اسکاحال احوال تک نہیں پوچھتا ہے... کیونکہ ماموں میاں کی صحت ہمیشہ سے خراب رہتی تھی...انہوں نے اپنی اولاد سے بڑھ کر بھائی کی پرورش کی تھی اور اسے اعلی تعلیم دلوائی تھی...اور چھوٹا بھائی بھی جو ہروقت یہ کہاکرتا تھا کہ بس بھیا یہ چند سال اور گزر جائیں، ڈاکٹر بن کر اتنا کماؤں گا کہ گھر کے سارے دکھ دور ہوجائیں گے !اور جب دکھ دور کرنے کے دن آئے تو وہ شہر کے مشہور ڈاکٹر ہی نہ تھے بلکہ شہر کے مشہور رئیس کے داماد بھی تھے...چنانچہ ماموں میاں کے والد تو اللہ میاں نے ہی دور کر دیئے لیکن چھوٹے ماموں نے ماموں میاں کو وقت سے پہلے ہی مار دیا...جب انہوں نے بتایاکہ ناہید کی ساری فیملی امریکہ جارہی ہے تو میں بھی وہاں جاکررہنا چاہتا ہوں تو ان پربجلی سی گرگئی ...وہ رات بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ ماموںمیاں نانی اماں کو اور نانی اماں ماموں میاں کوتسلیاں دے رہے تھے اور چھوٹے ماموں ممانی امریکہ رخصت ہورہے تھے ...وقت کاسیلاب اپنے ساتھ کیاکیا نہیں بہالے جاتا ہے؟۔ نانی اماں بھی ختم ہوگئیں۔ ماموں میاں بھی رخصت ہوگئے۔اور ہم جوبچے تھے جوانی کی منزلوں میں قدم رکھنے لگے...
پھر میںجب شادی کے بعد امریکہ کے اسی شہر میں آرہی تھی جہاں چھوٹے ماموں تھے تو مجھے کوئی خوشی نہیں ہورہی تھی۔ ذہن میں بچپن کی پوشیدہ باتیں مجھے یاد آنے لگتیں تومجھے چھوٹے ماموں سے نفرت ہونے لگتی۔اخلاق، کردار اور مردانگی کی کوئی صفت مجھے ان کی شخصیت میں نظر نہ آتی تھی۔ اورچھوٹی ممانی میرے نزدیک اپنی شخصیت کی ظاہری چمک دمک کے باوجود ایک ناپسندیدہ ہستی تھیں... اور میری حیرت کی حد نہیں رہی جب میں نے انہیں اپنے خیالوں اور تصورات سے بھی بڑھ کر ناپسندیدہ اور اگر میں یہ کہوں توغلط نہیں ہوگا کہ قابل نفرت پایا...ان کو سوائے اپنی ذات کے اور کسی چیز سے دل چسپی نہ تھی...میں کبھی حیرت سے انہیں تکا کرتی تھی کہ اللہ یہ اپنے سراپے کی آرائش و زیبائش میں مشغول رہتی ہیں۔ انہیں اپنے چہرے کی ،اپنے ہاتھوں کی اور جسم کی آرائش اور راحت کا کتنا خیال ہے؟ لیکن اپنی روح کی انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ کبھی یہ کوئی اچھی بات نہیںکرتیں ، کبھی کسی کے دکھ درد میں شریک نہیں ہوتیں ، کبھی کسی کے ساتھ محبت و الفت سے پیش نہیں آتیں۔ ہروقت یہ فکر کہ چہرے پر کوئی جھرّی نہ پڑجائے، کوئی سفیدبال نہ نظرآجائے جسم پر ایک اونس گوشت نہ چڑھ جائے۔فیشن کاکوئی لباس اور کوئی اسٹائل نظرسے پوشیدہ نہ رہ جائے۔اور دنیاکاکوئی عیش و آرام ، لذت اورنعمت ایسی نہ رہ جائے جسے وہ حاصل کرکے دوسروں پر رعب نہ ڈال سکیں۔اور چھوٹے ماموں مقدس پجاری کی طرح اپنی دیوی کی پوجا میں لگے رہتے تھے۔ اپنی بیگم کے حسن کے چرچے، فیشن کے قصے اور زندگی سے بھرپور لائف اسٹائل پرلوگوں کی مدح و ستائش پروہ پھولے نہیں سماتے تھے۔ اور کبھی کبھی تو میں حیران ہوتی !...واقعی کیاعورت ہیں یہ!۔ اپنے بننے سنورنے میں اپنے آپ کو کیاکھپاتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ اپنے بچوں تک کی انہیں پرواہ نہیں تو شوہر کس گنتی میں ہے۔لوگوں سے دوستی بھی اس حد تک ہے کہ تفریح ہوجائے اور ان کی ذات نمایاں ہوجائے۔دس سال کے اندر شاذو نادر ہی ایسا ہوا کہ میں نے ان کے گھر ایک یاآدھا دن گذاراہو۔
شروع میں جب میرے بچے نہیں تھے اور ان کی طبیعت خراب ہوتی تو وہ مجھے بلالیتی تھیں۔ اس طبیعت کی خرابی میں بھی جس طرح انہیں اپنے سراپے کی فکر ہوتی تھی۔وہ میرے لئے ناقابل یقین ہوتا تھا کیونکہ طبیعت ناساز ہوتے ہوئے بھی جس طرح وہ چہرے کامساج کرتیں ناخنوں کو نرم کرتیں،گھنٹوں بیٹھ کر ہاتھ پاؤں کی انگلیوں پرنیل پالش لگاتیں۔ بھنویں ڈریس اپ ہوتیں... میں مہینوں یہ سوچ سوچ کر غرق حیرت رہاکرتی کہ اے اللہ کیامقصد زندگی اتنا محدود بھی ہوجاتا ہے؟... مگر یہ تو میری نگاہ اور میری فکر تھی۔ چھوٹی تائی کاتو یہی نظریہ تھاکہ زندگی کالطف اٹھانا چاہیئے کہ جسم و جان اللہ نے تمہیں دیا ہے اس کو خوب توجہ سے بنانا اور سنوارنا چاہیے۔زندگی ایک دفعہ ہی ملتی ہے لہذ اجو وقت عیش و عشرت میں گذر جائے وہی اچھاہے۔قنوطی ، دقیانوسی اورمذہبی قسم کی باتوں سے انہیں سخت چڑ تھی۔ میرے میاں اگر باتوں باتوں باتوں میں چھوٹے ماموں یا ان کی توجہ نماز کی طرف دلاتے تو وہ بڑی لاپرواہی سے سنی ان سنی کرجاتیں۔اورمجھے اتنا زیادہ دکھ ہوتا کہ ہم جو ایک دیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اسلام سے کتنے دور ہوتے جارہے ہیں !۔اورچھوٹے ماموں کاگھرانہ تو دین اسلام سے قطعی بیگانہ اور بہت دور ہے۔ بچے بالکل امریکن انداز میں پرورش کئے گئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بیٹی نے امریکن لڑکے سے اور بیٹے نے اٹیلین لڑکی سے شادی کرلی تھی۔
لیکن ہائے افسوس ہماری عقلوں پر!۔ وقت کس کاہوا ہے۔ اور خاص طور پر سے تو ان کاتوبالکل نہیں ہوتا جو سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا ہے یاہمارا ہی رہے گا۔ہرلمحہ سراپے کو سنوارنے والی، اپنے حسن کی حفاظت کرنے والی، عیش و عشرت میں زندگی بسر کرنے والی ،ہردم جوان نظر آنے کی خواہش مند اور اس کے لئے سینکڑوں جتن کرنے والی اسی پھولوں اور خوشبوؤں میں بسنے والی چھوٹی ممانی بالآخر ایسے موذی مرض میں مبتلا ہوئیں کہ اسی شہر میں رہتے ہوئے جب تک مجھے اس بیماری کی خبر پہنچی، وہ قریب المرگ ہوچکی تھیں۔وہ زندہ تھیں لیکن ان کا سراپا عبرتناک تھا۔اور آج کفن میں رکھاہوا انکابدن خاک کاڈھیر، مجھے انسان کی حقیقت، اس کی غفلت غلط روی اوردنیا کی بے ثباتی کاوہ منظر دکھارہاتھا کہ میں سکتے کی سی کیفیت میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ ہائے ساری زندگی انہوں نے جس جسم اور شکل و صورت کی سیوا میں گزار دی آج وہ ایسا خاک کاڈھیر بناخاک میں ملنے کو تیار ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ آگے کیابھیجا۔اور پیچھے کیاچھوڑا۔ آگے کچھ بھیجنے کے لئے جووقت انہیں ملا تھاوہ تو انہوں نے اس فانی جسم کوبنانے سنوارنے اور راحتیں پہنچانے میں لگادیا اورپیچھے کیا چھوڑا تو مسلمان والدین کی اس کی مسلمان بیٹی جو عیسائی آدمی کی بیوی ہے اور یہ باتیں کررہی ہے۔ اور مسلمان والدین کامسلمان بیٹا جوکالے کپڑوں میںملبوس اپنی اٹالین بیوی کے ساتھ بیٹھا سگریٹ پی رہا ہے مگر بات یہیں پرختم نہیں ہوجاتی۔سب سے زیادہ اور شدید دکھ دینے والی بات یہ ہے کہ انہیں آگے ان سب باتوں کاحساب دینا ہے اوریہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ بالکل ایسی ہی حقیقت جیسے چھوٹی ممانی کایہ بے جان جسم جو میری آنکھوں کے سامنے رکھاہے۔!​
شہناز احمد (آٹووا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس دورِ بے حسی میں
''لیجئے آج بیسواں روزہ بھی ختم ہوگیا۔ رمضان کامہینہ تو ایسا لگتا ہے، ہواؤں کے دوش پر اڑتا ہے۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس ماہ مبارک کی رحمتوں اوربرکتوں سے اپنی جھولیاں بھرتے ہیں۔ ہُمانے چائے کی ٹرے میز پر رکھ کر فراز کے قریب بیٹھتے ہوئے افسردگی سے کہا۔ او مما !بیس روزے گزر گئے اور آپ نے عید کی کوئی تیاری ہی نہیں کی؟۔ پتہ نہیں اس رمضان میں کیاہوگیا ہے آپ کو؟۔ کوئی فن نہیں ہوا ہمارے گھر۔نہ کوئی افطار پارٹی ہوئی اور نہ ہم کہیں گئے۔عید کی شاپنگ بھی ابھی شروع نہیں کی۔روبی، زیبا، صائمہ،عائشہ سب کی شاپنگ مکمل ہوگئی ہے۔ ثمینہ اس رمضان میں بہت بور ہورہی تھی۔
بھئی عید کی کیاتیاریاں کرنی ہیں تمہیں۔ میں تو عید پر یہاں ہوں گا نہیں، ڈنمارک جارہاہوں میں سمجھ رہاتھا کہ کانفرنس اپریل کے دوسرے ہفتے میں ہوگی لیکن آج معلوم ہوا ہے کہ وہ تو مارچ کے تیسرے ہفتے میں ہورہی ہے۔ فراز نے چہرے سے اخبار ہٹاتے ہوئے بتایا۔اور مما میرا Math Contest ہے میں اس دن چھٹی نہیں لے سکتا۔شیراز نے ہوم ورک کرتے ہوئے کہا۔اوہ گاڈ ہماری عید بھی بور گزرے گی۔ ثمینہ روہانسی ہوگئی۔عید کی سب سے زیادہ چاہت ہما کے بعد ثمینہ اور روبینہ کو ہوا کرتی تھی۔ہُما رمضان شروع ہوتے ہی اپنے بچوں کے کپڑوں، زیورات اور بننے سنورے کا انتظام کیاکرتی تھی کہ ساری دوستوں میں اس کے اور اسکی بچیوں کے کپڑوں کااور بننے سنورنے کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔
چاند رات کو مہندی پارٹی ہوگی اور آنٹی شینا کے گھر کا ٹریڈیشنل ڈنر۔ اور اس سال تو ڈنر بہت بڑے پیمانے پرہورہا ہے۔ B.J.والوں نے یونیورسٹی ھال میں ڈنر کاانتظام کیاہے جسمیں کانسرٹ بھی ہوگا۔پوری کمیونٹی جمع ہوگی۔سنا ہے ہمارے ٹکٹ بک ہوگئے ہیں اور اب لوگ ادھر ادھر سے ٹکٹ خریدنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور ڈیڈ آپ تو یہاں ہوں گے بھی نہیں۔ ثمینہ نے ہوم میگزین کوبیزاری سے میز پر پھینکتے ہوئے کہا۔
ارے تو اس میں بوریت کی کیابات ہے بیٹا؟ تم لوگ اپنی مما کے ساتھ چلے جانا۔خوب انجوائے کرنا۔ میں بھی وہاں اپنا وقت اچھا گزارنے کی کوشش کروں گا۔فراز نے بیٹی کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے کہا۔اوگڈ ڈیڈ اس کامطلب ہے مجھے بھی اجازت ہے اس روز ڈانس کرنے کی۔روبینہ تھرکتی ہوئی سیڑھیوں پر سے بولی۔ Sure عید کے دن سب کو آزادی ہونی چاہیئے۔اور ہم تو بھئی ویسے بھی آزا د خیال ہیں۔ یہ تو تمہاری مما بس روز ملانی بنتی جارہی ہیں۔ ان سے پوچھ لو فراز نے ہما کوچھیڑا۔ڈیڈ مما تو ہمارے ساتھ زیادتی کرتی ہیں۔ وہ جب ہماری Ageکی تھیں توسب کچھ کرتی تھیں۔ انہوں نے اپنے سارے شوق پورے کئے ہیں۔ اب جب وہ Oldہورہی ہیں تو نہ جانے کیوں ان پر اچانک مذہب کاجنون سوارہوگیاہے۔ڈیڈ!آپ مماکوروکتے کیوں نہیں؟۔ دیکھئے کس طرح بیچاری سارا دن روزہ رکھتی ہیں۔ Jobپرجاتی ہیں ،رات کو نمازیں پڑھتی ہیں اور ہروقت ہمارے پیچھے بھی پڑی رہتی ہیں۔ پؤر مام اتنی ریلیجئس ہوگئی ہیں!۔ ثمینہ نے بڑی محبت بھری نگاہوں سے ماں کودیکھا جو خاموش بت کی مانندسب کوتک رہی تھیں۔ ثمی!بٹرنگ نہ کرو۔مجھے تولگتا ہے کہ ممابہت سخت ہوگئی ہیں۔ خود تو سب کچھ کر لیاہمیں کچھ نہیں کرنے دیتی ہیں۔ یہاں سب کی لڑکیاں انجوائے کرتی ہیں۔ اسکولوں میں، یونیورسٹیوں میں ،پارٹیز میں جاتی ہیں۔ انکے بوائے فرینڈز ہیں اور ایک ہماری مماہیں جنہوں نے زندگی مصیبت بنادی ہے۔ نجانے ایک دم انہیں کیاہوگیا ہے !۔پہلے تو ایسی نہیں تھیں۔روبینہ جوپچھلے پورے ایک ہفتے سے ماں سے ناراض تھی کہ رمضان میں اس نے اسے یونیورسٹی پارٹی میں نہیں جانے دیاتھا۔اپنے دل کاغبار نکال رہی تھی۔فراز کھل کھلا کرہنس پڑے۔بھئی ہما خانم !بچوں کو بہت شکایتیں ہیں آپ سے۔ اپنی اصلاح کیجئے ورنہ بچے باغی ہوجائیں گے۔ ڈیڈ مجھے مما سے کوئی شکایت نہیں اگر وہ مجھے نماز پڑھنے کانہ کہیں۔ شیراز معصومیت سے بولا۔اس سے پہلے کہ سب کازور دارقہقہہ فضا میں گونجتا۔دروازے کی بیل نے سب کو چونکادیا۔
پروین اور سہیل کی آمد پر سب کھل اٹھے بہت دنوں بعد ان کاآنا ہواتھا۔ برادر کدھر راستہ بھول گئے ؟۔فراز نے سہیل بھائی سے گلے ملتے ہوئے کہا۔بھئی کیابتائیں زندگی نہ ہوئی گھڑی کی سوئی ہوگئی۔ رکتی ہی نہیں۔ اے توبہ کریں زندگی کی سوئیاں رک گئیں ...توگئے۔ ابھی تودنیا میں دیکھا ہی کیاہے پروین نے ٹوکا۔بس عیش کرنے کی آرزو میں ہی جیتے چلے جارہے ہیں۔ بیگم کادوسراہنی مون بھی ابھی Dueہے۔ سہیل نے کہا۔لیجئے ایسے کہہ رہے ہیں جیسے پہلا تو بہت خوب دھوم سے منایا ہو جو دوسرا قرض ہے۔ پروین ہنس پڑیں۔بیگم زندگی پڑی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بس ہنی مون ہی منایا کریں گے۔بہت خوب سہیل بھائی فلوریڈا میں جاکررہیں گے۔جوانی کے عیشوں کی کسر بڑھاپے میں پوری کردیں گے۔ کیاخیال ہے ہماخانم آپ کا۔؟فراز نے ہماکو ٹہوکا دیا۔ ہماری بیگم تو بس اب اللہ والی بن گئی ہیں۔ ''ہاں بھئی سنا ہے سارے رمضان کاثواب آپ سمیٹ لے جائیں گی اس سال؟ '' سہیل نے بھی ہُما کی خاموشی کانوٹس لیا۔''بھئی تم نے کب سے روزے رکھنے شروع کردیئے؟'' پروین نے حیرت سے ہما کی طرف دیکھا۔ ''جب سے عقل آئی ہے '' ہمابولیں۔اے لوتو اس سے پہلے کیاتم بے عقل تھیں؟۔۔۔نہیں بچی تھی۔ فراز بہت شوخ موڈ میں تھے۔اور سب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے۔ بھئی ہم نے بچپن سے روزے رکھے ، لیکن یہاں زندگی ایسی مصروف ہوگئی ہے کہ اب نہیں رکھے جاتے۔کوشش توکرتی ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ اب jobکے ساتھ گھرکاکام ، باہر کی ذمہ داریاں ، بہت پریشر ہوتا ہے ذہن پر ، اسکے ساتھ مذہب جتنا چل سکتا ہے ، چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب یہ گھر بیٹھنے والیاں اگر روزے نہ رکھیں تو واقعی گناہ کی بات ہے۔ ہماری تو مصروفیت کایہ عالم ہے کہ ابھی تک عید کی کوئی شاپنگ بھی ڈھنگ سے نہیں ہوئی ہے۔ حالانکہ آج کاپورا دن بازار میں گزر گیا ہے۔ لڑکیوں کی ڈیمانڈز ایسی ہوگئی ہیں کہ ابھی پاکستان سے کپڑوں کاپارسل آیا تھا مگر نہیں جی وہ نہیں پہنیں گے۔ یہاں جو لوگوں نے بوتیک کھول لی ہیں۔ اتنے مہنگے کپڑے ہوتے ہیں ان کے! مگر ایک سے بڑھ کر ایک شاندار اور اسٹائلش ہوتے ہیں۔ سب سے اچھے اسٹائل ''کرانتی'' میںہوتے ہیں۔ صائمہ ، عائشہ نے تو وہیں سے لئے ہیں۔ پروین نے تو ڈھیر ساری باتیں ایک ہی سانس میں کہہ ڈالیں۔ہاں آنٹی ہم لوگ بھی وہیں سے لیں گے۔ روبینہ بولی بلکہ میں تو ایک ڈیزائن پسند بھی کر آئی ہوں مما!آج کل بڑے پاپولر ہورہے ہیں اس کے کپڑے۔ یہ ہے تو ہندو کی دکان مگر کیاکریں اسٹائل بھی وہی اچھے بنواتا اورمنگواتا ہے اور قیمت بھی مناسب ہوتی ہے اور بھئی ہم تو ویسے بھی Prejudiced نہیں ہیں۔ لوگ بلاوجہ نفرت پھیلاتے ہیں۔ اب اگر بابری مسجد ہندوستان میں شہید ہوئی ہے تو یہاں بیٹھ کر لڑنے جھگڑنے اور اپنے دوستوں کے ساتھ تعلقات خراب کرنے سے وہ دوبارہ تو نہیںبن جائے گی!۔ میں تو اس بات کے سخت خلاف ہوں کہ ہم اس قسم کی بچکانہ باتیں کریں۔پروین بولی۔ آنٹی ٹھیک کہتی ہیں آپ۔ ہم بھی ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے ویسے بھی ہم کینیڈین ہیں۔ ہمیں انڈیا یاپاکستان کے معاملات میں پڑنے کی کیاضرورت ہے؟ ہمیں اپنافائدہ دیکھنا ہے یاہندو مسلمان دیکھنا ہے؟۔ یہ سب جنونی مذہب پرستوں کی باتیں ہیں۔ ہم سب انسان ہیں اور سب کینیڈین ہیں۔ روبینہ بڑے جوش میں بول رہی تھی کہ یکایک ایک زور دار طمانچہ کی آواز سے محفل میں سناٹا چھاگیا جو روبینہ کے گال پر پڑاتھا۔خبردار اگر پھر یہ کہا کہ ہم سب ایک ہیں۔ تم مسلمان ہو۔تم مسلمان تھے۔اور تم مسلمان رہوگے۔ہاں تمہارا تعلق ہے بابری مسجد سے !، تمہارا تعلق ہے ہر مسلمان سے !خواہ ، وہ ایران کاہو، چائناکاہو،بوسنیاکاہو، برماکاہو،یاکشمیر وفلسطین کا، تمہارا تعلق ہے اس سے !۔ان مظلوم مسلمانوں کادشمن ہمارا بھی دشمن ہے۔اسلئے تمہیں ہندوؤں کابائیکاٹ کرناہوگا۔تمہیں بتانا ہوگا کہ صدیوں پہلے بھی جب تم حکمرانی کرتے تھے مسلمان تھے او رآج تمہارے جنونی اور نفرت بھرے کردار کے آگے بھی ہم مسلمان ہیں۔ خطے، علاقے اور جگہ سے ہمارادین نہیں بدل جاتا۔بڑی دیر سے خاموش بیٹھی ہوئی اپنی سوچوں میں جلتی اور تپتی ہوئی ہرقسم کی باتیں سنتی ہوئی ہماآتش فشاں کی طرح پھٹ پڑی۔معاف کیجئے پروین آپا اور سہیل بھائی اگر ہندو آپ کے دوست ہیں اور آپ کو انکی دوستی اور خاطر داری زیادہ عزیز ہے توپھر ہم سے آپ کی کوئی رشتہ داری نہیں ہے۔ ہندو آپ کے دوست ہیں اور آپ معتصب نہیں تو جائیے ہندوستان میں جاکر رہیئے اور انکے تعصب کامزہ چکھئے۔ان کے ہاتھ مضبوط کرکرکے اسکی سزا بے گناہ مسلمانوں کو کیوں دلواتے ہیں ؟ہاں جائیے ہندوتہذیب وثقافت کوفروغ دیجئے، ہندو تجارت کوچمکائیے تاکہ آپ کی لتادیوی، شتروگن سہنا اور دوسرے بہت سے سپر اسٹار انکے قدموں میں آپ کے نچھاور کئے ہوئے پیسوں سے مسلمانوں کو ذبح کرنے کے لئے B.J.P.کے ہاتھ مضبوط کریں۔آپ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ میں نے روزے کب سے رکھنے شروع کر دیئے۔ تو سنئے جس دن بابری مسجد پر ہتھوڑے پڑے۔بابری مسجد کی ہرگرنے والی اینٹ میری گمراہی پستی اور غفلت کو دور کرتی اور دھکیلتی چلی گئی۔الحمد للہ اب میں ہوش میں ہوں۔ میرا ایمان مجھے واپس مل رہا ہے۔ میرا یقین مضبوط ہورہا ہے۔ رمضان المبارک میری تربیت کابہترین ماہ ثابت ہورہا ہے۔ اور اس عید پر میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک نئی زندگی کاآغاز کروں گی۔انشاء اللہ تعالیٰ۔یہ عید میرے شعور وفہم، یقین و ایقان اور علم و وجدان کی پہلی عید ہوگی۔میرا ایمان ہے اور مجھے یقین ہے کہ میں رمضان کی رحمتوں اور برکتوں بھری ساعتوں سے محروم نہیں رہوں گی۔مجھے احساسِ ندامت اور شرمندگی ہے کہ میری غفلت اور گمراہی کی وجہ سے میرے یہ بچے تاریکیوں اور پستیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ اسی لئے وہ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں جو میں سن رہی تھی اورآپ نے سنیں۔ روبینہ!میری جان مجھے معاف کرنا یہ طمانچہ میں نے تمہارے منہ پر نہیں اپنے دل پر مارا ہے جو اتنے اندھیروں میں تھا۔لیکن انشاء اللہ یہ عید ،عید ِ اسلام ہوگی یہ عید ایمان اور یقین کانور اور کفروباطل کاخاتمہ ثابت ہوگی۔یہ عید مظلوموں کے زخموں پرمرہم رکھے گی اور ظالموں کے ظلم کاحساب لے گی۔آپ دیکھئے گا۔ شدت جذبات سے وہ بری طرح کانپ رہی تھی۔ بچے سہمے ہوئے تھے، سہیل بھائی اور پروین سکتے میں تھے۔فراز نے بے اختیار اٹھ کر اس کے دونوں ہاتھ تھام لئے۔ہماقابو کرواپنے آپ کو انشاء اللہ تعالی وہ ضرور ہوگا جوتم کہہ رہی ہو۔لیکن فراز یہ تبھی ممکن ہوگا جب مسلمان اس دورِبے حسی میں تھوڑا ساوقت ،صرف تھوڑا ساوقت یہ سوچنے کے لئے نکال لیں۔کہ وہ کون ہیں ؟کیاہیں ؟انہیں کیاکرنا چاہیئے؟اور وہ کیاکررہے ہیں ؟​
شہناز احمد (آٹووا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خوابِ غفلت

اللہ اللہ کیاشان تھی ، کیارونق تھی اور کیارنگ وسرور تھااس شادی میں !۔ مجھے تو راجاؤں مہاراجاؤں کی شادیاں یاد آگئیں۔کشور ، عطیہ بیگم کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے سمیرا سے مخاطب تھیں۔
ہاں جیسے راجہ مہاراجاؤں کی شادیوں میں تم نے بہت دفعہ شرکت کی ہے جو اس شادی کو دیکھ کر وہ یاد آگئیں۔عطیہ بیگم تسبیح پڑھتے ہوئے بڑبڑائیں۔
اور مماکتنی لکی ہے جینا بھی۔ میں نے ایسی شادی اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھی۔پرنس ڈیانا کے بعد اسی شادی کی دھوم ہے۔ بڑی اماں۔ اتنا (Fun)تھا اس شادی میں۔ آپ نے بڑی گریٹ ’’ویڈنگ‘‘ (Wedding)مس کی ہے۔ مما نے بھی ڈانس کیاتھا مہندی میں۔ اور میری تو ٹانگیں ٹوٹ رہی ہیں۔ کیوں مما کون ایسا تھا جس نے وہاں انجوائے نہ کیاہو۔اور مہندی تواتنی زبردست تھی، پاکستان سے آئے ہوئے مہمان بھی حیران تھے کہ کینیڈا میں رہتے ہوئے بھی لوگ اتنی زبردست ’’کلچرل ویڈنگ‘‘ کرسکتے ہیں!۔
ہاں بھئی نہ صرف اپنے کلچر کو پیش کیابلکہ کرنل صاحب نے تو کمال کر دیا۔ مشرق اور مغرب کااتنا حسین امتزاج پیش کیاکہ لو گ عش عش کراٹھے۔آ پ کومعلوم ہے برات اسکاٹش بینڈ کے ساتھ آئی اور اور دولہا سفید گھوڑے پر آیاتھا۔اور اللہ بھئی کیاجہیز دیا ہے۔ کینیڈا میں مثال قائم کر دی ہے گھر سے لے کرگہوارہ تک بیٹی کو دیاہے۔ عطیہ بیگم کی آنکھیں پھیل گئیں۔ گہوارا ، گہوارا کس لئے؟
ارے بھئی بڑے عقل مند لوگ ہیں سارے گھر کوفرنش(Furnish) کرایا تو بے بی کے روم کو بھی فرنیچر دیا۔اب بھئی بچہ تو ہوگا ہی! لیکن انہوں نے یہ سوچ کر کہ ایک ساتھ ہی سب کر دیاجائے اس کام سے بھی فارغ ہوگئے اور چیزیں بھی سب کی نظروں میں آگئیں۔ ویسے میرے دل کو تو بہت لگا۔ بڑا اچھا ’’آئیڈیا‘‘ دیاہے۔
اور مماجینا کی طرح کے Outfits اور جیولری ابھی تک تو میں نے کسی اور کے پاس نہیں دیکھی۔حالانکہ وہاں سارا کراؤڈ ’’Crowd‘‘ بھی بڑا اچھاتھا۔
ہاں سمی!صحیح کہتی ہوتم۔ وہ دونوں تو محفل کی جان بنی ہوئی تھیں۔کتنی ٹیلنٹڈ ہیں دونوں بہنیں اور کتنی ’’فرینڈلی‘‘ بھی !مجھے ڈانس سکھانے کی آفر بھی کی ہے۔ نہ بابا اب ہم لوگ کہاں ان کی طرح کے ماڈرن اور خوش ذوق ہوسکتے ہیں ؟۔پتہ ہے اس شادی کے لئے انہوں نے اپنی شاپنگ انڈیاجاکر کی ہے۔ ویسے ٹورنٹو میں کیاکچھ نہیں ملتا۔لیکن شوق اوراعلی معیار اور چیز ہے۔ مگر جی ہم قائل ہوگئے لوگوں کے اعلی معیار اور شوق و ارمان کے!۔
کوثر بتا رہی تھی کہ دو ہفتے سے مسلسل میوزک اور ڈانس کی پارٹیز ہورہی تھیں سارے قریب کے فرینڈز شریک ہوئے تھے۔ ہم سے توصرف جان پہچان تھی تب بھی مہندی اور شادی پر بلایا۔سچ آپا بی اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ پورے کینیڈا سے لوگ اس شادی میں شریک ہوئے تھے کشور کو اس شادی نے کچھ زیادہ ہی مرعوب کردیاتھا۔
کیوں بہن اللہ نہ کرے تم کیوں غلط کہو گی۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اس شادی نے تمہارے سارے ہوش و حواس بھی گم کردیئے ہیں۔ عطیہ آپا جو ابھی نئی نئی بچوں کے مستقبل کی خاطر مجبور ہوکر بھانجی سے بیٹے کی شادی کرکے بہن کے گھر کینیڈا آئیں تھیں حیران اور غلطاں تھیںکہ یااللہ یہ شادی تھی یا اشتہارِ شہرت اور خود نمائی جس نے سارے ٹورنٹو شہر کو اپنی لپیٹ میں لیاہوا تھا۔کون ساگھر تھا جس میں اس کاچرچا نہ تھا ؟کون سی محفل تھی جس میں اسکے تذکرے نہ تھے ؟اور کون ساخاندان تھا جو اس شادی سے مرعوب نہ تھا؟۔اور سب سے زیادہ ان کی بہن اور بہو تھیں جو اس شادی کے سحرمیں ڈوب کررہ گئی تھیں۔وہ ششدر تھیں کہ تعریفیں کس بات کی ہورہی ہیں؟ ترانے کس چیز کے گائے جارہے ہیں؟ فخر کن کاموں پر ہورہا ہے؟ اپنی قوم کی یہ سرمستی اور بے خودی کو وہ اپنے ملک میں بھی کافی عرصے سے دیکھ رہی تھیں اور یہ حالات و واقعات تووہاں بھی ان کے لئے کافی تکلیف دہ تھے لیکن یہ ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا کہ کینیڈا میں بھی یہ جادوسرچڑھ کر بولے گا۔
کشور!میں تو یہی سمجھتی تھی کہ کینیڈا میں تو ہم ان خود ساختہ رسم و رواج کے چکروں سے بچ جائیں گے جو ہندوانہ تہذیب سے متاثر ہوکر ہم نے یہاں بنا لی ہیں۔ لیکن میری بہن اس شادی کی خبریں سناسناکر تم مجھے بے حال کئے دے رہی ہو۔یہ ہماری قوم کوکیاہوگیا ہے؟۔ انہوں نے بہت درد سے کہا، اور کشور کی تیوری چڑھ گئی۔عطیہ آپا آپ کا بھی جواب نہیں اب کیاکینیڈا میں بسنے والے پاکستانی۔۔۔پاکستانی نہیں رہے کہ اپنی تمام چیزوں کوچھوڑ دیں۔بھئی اگر ہم ان چیزوں کوچھوڑ دیں گے تو ہمارے بچوں کو ہمارے کلچر کاکیاپتہ چلے گا۔ویسے بھی میں کہتی ہوں کہ یہ کرنے کے لئے بھی حوصلہ چاہیئے۔ کشور کو انتہائی گلہ تھا کہ ان کی بہن نے کس سادگی سے بیٹے کی شادی کی تھی۔۔۔۔کاش اگر میں اپنی بیٹی کی شادی پاکستان میں نہیں یہاں کرتی تو ایسی نہ سہی لیکن اس کی ٹکر کی ضرور کرتی۔ ۔۔اے اللہ مجھے اتنا پیسہ دے کہ اب میں اپنے بیٹے کی شادی دھوم دھام سے کروں۔ مما آپ فکر نہ کریں میں جاب کروں گی۔ جیمی کی شادی ہم اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ دھوم دھڑکے سے کریں گے اور ویسے بھی اگلے سال وہ ڈاکٹر ہوجائے گا۔ خود ہی اتنا پیسہ کمالے گا،آپ فکر نہ کریں۔۔۔ سمیرا جذباتی ہوگئی۔۔۔ نہیں بیٹا میں کہاں فکر کرتی ہوں کشور نے گہرا سانس لیا۔۔۔ تم نے سناتھا مسز خان کہہ رہی تھیں کہ اب اگلے ماہ نورین کی شادی کے لئے وہ اپنا شہر والا مکان بیچ رہی ہیں کیونکہ بھئی بچوں کے لئے ہی تو سب کچھ ہوتا ہے اور زندگی میں ایک بار ہی تو شادی ہوتی ہے۔ یہ نہ کہیئے مما کہ شادی ایک بار ہوتی ہے۔ بھئی شادی تو بندہ کتنی بار بھی کرسکتا ہے لیکن رونق بس پہلی شادی میں ہی زیادہ ہوتی ہے۔ نہیں سمیرا یہ کمیونٹی میں عزت کی بات بھی ہوتی ہے۔ اب دیکھوکرنل صاحب کتنے اونچے جارہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ دوسرے بیٹے کے لئے اب کوئی اپنی بیٹی کے رشتے کوانکار کرے گا۔حالانکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس لڑکے کے طور اطوار اچھے نہیں ہیں۔ مگر مما کتنا ہینڈسم لڑکاہے۔ ویسے بھی یہاں کی سوسائٹی میں یہ چیزیں کون نہیں کرتا۔اور عطیہ بیگم بھبھک اٹھیں۔’’استغفراللہ ‘‘ اب لڑکی دینے کامعیار دھوم دھڑکے سے شادی کرنا ٹھہرا۔ آپا آ پ تو ہر بات پرسنل لیتی ہیں۔ بھئی ہرسوسائٹی کے کچھ طور طریقے ہوتے ہیں۔ یہاں کی زندگی میں خوشحالی اور عیش کی بڑی اہمیت ہے۔ اب انسان اس زندگی کے لئے اتنی محنت مشقت کرتا ہے تو اس کوعیش و تفریح ذہنی راحت وسکون بھی تو چاہیئے۔اور یہ چیزیں پیسے کے بغیر نہیں مل سکتی ہیں۔ اور جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے دولت ہوتی ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ چنانچہ جس کے پاس پیسہ ہوگا وہی تو عیش کرے گا تو پھر ایسی فیملی میں لڑکی دینے سے کسی کو کیااعتراض ہوسکتا ہے؟۔ جبکہ آجکل ہمارے بچے بھی راحت و آرام چاہتے ہیں۔ اب وہ ہماری طرح سخت زندگی اور مشقتوں کے عادی نہیں رہے ہیں۔
عطیہ بیگم گہرا سانس لے کر رہ گئیں۔کشور اورسمیرا کمرے سے جاچکی تھیں۔گھر کے سب لوگ سوچکے تھے اور نیند ان سے اس طرح روٹھ چکی تھی جیسے کہ وہ اپنے اطراف اورماحول سے روٹھی ہوئی تھیں۔لیکن وہ سوچ رہی تھیں کہ میرے دکھ اور غم کا میرے ماحول کوکیااحساس؟میراروٹھنا کیا؟میں اگر اس غم میں گھل گھل کاجان بھی دے دوں تو کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے گی۔ اس طرح یہ نیند تو مجھے تو آجائے گی لیکن اپنے دل کی حالت اور اپنی ہر بات میں کس سے اور کیسے کہوں کہ یاتو میں ہی پاگل ہوں یا یہ میری بہن، یہ میری بہو، یہ میرے اطراف میں بسے ہوئے ہم وطن اور ہم مذہب سبھی دیوانے ہوگئے ہیں۔ انہیں کیاہوگیا ہے ان کی عقلیں کہاں چلی گئی ہیں؟۔ ان کے فہم و فکر کیوں سوگئے ہیں کہ انہیں پتہ نہیں کہ یہ کیاکررہے ہیں؟۔ کدھر جارہے ہیں ان کی منزل کون سی ہے ؟اور ان کاٹھکانہ کہاں ہے ؟۔ اور ان کا یہ ''کارنامئہ حیات'' کوئی حیثیت رکھتا ہے یایونہی بلبلے کی طرح اٹھتا اور فناہوجاتا ہے۔ کیایہ سب مسلمان ، یہ میرے ہم وطن مسلمان ،صرف نام کے مسلمان ہیں ؟اور اگر یہ اعمال کے بھی مسلمان ہیں تو کیا مسلمانوں کے اعمال ایسے ہی ہونے چاہیئیں۔کیونکہ جس اللہ کی اطاعت کایہ زبان سے اقرار کرتے ہیں اس کی نافرمانی کرتے ہوئے کبھی یہ سوچتے بھی ہیں کہ ہم آزاد اور خود مختار نہیں ہیں۔ ہم اپنے تمام اعمال کے لئے جوابدہ ہیں۔ اس خدائے حیّ و قیوم کے سامنے جس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے۔ یقینا یہ لوگ یہ نہیں سوچتے۔دنیاکی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھاہے۔حیات ظاہری کے فریب نے انہیں آخرت سے غافل کر رکھاہے۔تب ہی تومشرق اور مغرب کی ساری آلودگیاں اور ساری برائیاں اپنے اوپر خوشی خوشی لاد رہے ہیں۔ یہ بے خبر ہیں۔ یہ مدہوش ہیں۔ یہ خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں انہیں خبر نہیں کہ یہ کدھر جارہے ہیں۔
رات کا اندھیرا چھٹتا نہ تھا لیکن عطیہ بیگم کی آنکھیں برستے برستے تھم گئی تھیں۔
شہناز احمد (آٹووا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
شامِ زندگی
نجانے کیاہوکررہ گیا ہے لگتا ہے زندگی ایک نکتہ پر سمیٹ آئی ہے۔ زندگی کی ساری خوشیاں ، لذتیں ، راحتیں ، خواہشیں اور آرزوئیں ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔ کسی چیز میں رعنائی اور کسی شکل میں حسن باقی نہیں رہا ہے۔ روح کے درد جسم کے درد سے کہیں زیادہ ہیں۔ روح کے زخم جسم و جاں کو چورچور کئے ڈال رہے ہیں۔ کسی پہلو قرار نہیں۔ کسی کل چین نہیں۔ تیس سال کاعرصہ کبھی کبھی تو منٹوں میں سمٹ آتا ہے۔ اوریہ طویل فاصلہ؟۔ میں نے ہرچیز داؤ پر لگا دی۔ لگتا ہے ریت کاتودہ تھا جو ہوائیں چلنے سے بکھر کررہ گیا ہے۔ اور ان ذروں میں میں اپنے ساتھی کے نشانات ڈھونڈتی ہی رہ جاتی ہوں۔ تیز اڑتی ہوئی ہوائیں میری آنکھوں میںدھول جھونکتی ہوئی ادھر ادھر نکل جاتی ہیں۔ سوائے ان چند کنکریوں کے جو میں ہاتھ میں لئے رہ جاتی ہوں۔یاان کانٹوں کے جوپھولوں کے ساتھ شاخ میں لگے میرے ہاتھوں میں رہ گئے ہیں۔ مگر ان تھمے تھمے کانٹوں نے میرے سارے وجود کو لہولہان کرڈالاہے۔ میری ہستی کو چھلنی کردیاہے۔ کیونکہ یہ تھمے تھمے کانٹوں جو پھولوں کے ساتھ لگے تھے ،ان سے دامن نہیں بچاسکی تھی۔تیس سال کی خوشگوار زندگی کی بل کھاتی ہوئی پگڈنڈی میں میری راہوں میں کہکشائیں بھی تھیں او ر گردو غبار بھی۔ لیکن تاروں کے جھرمٹ ،چاند کی روشنی اور سورج کی شعاعوں نے اتنی بھرپور خوشیاں دی تھیں کہ میں نے کبھی گردو غبار کی پرواہ ہی نہ کی تھی۔میں بھرپور اندازمیں ماضی سے رشتہ توڑ کرحال ،اور مستقبل سے ناطہ جوڑ کر اپنی زندگی کاآغاز کیاتھا۔ اپنا گھر ،اپنے بچے اور اپنی زندگی کی بھلائی بہتری اور خوشیوں کے لئے میں نے زمانے کے فرسودہ رسم و رواج کو بہت دور چھوڑ دیا تھا۔ اور پھر نئے نئے ملک اور اجنبی ماحول میں بیوقوفوں کی طرح رونے دھونے کی قائل نہیں تھی۔اس ملک میں میں اپنی خوشی سے بلکہ اپنی بے پناہ خواہش اور آرزو سے آئی تھی۔میں نے یہاں رہ کراس کی زندگی کے ایک ایک منٹ سے خوشی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اپنے شوہر کی ترقی، اپنے بچوں کا مستقبل، یہ میرا مقصد زندگی تھا۔کون سا شوق تھا میرے میاںکا جو میں نے پورا نہیں کیا۔اور کون سی خواہش تھی میرے بچوں کی جو میں نے کبھی رد کی ہو۔کیونکہ یہ میری گھٹی میں پڑاتھا۔شوہر کی اطاعت اور بچوں کی بہترین پرورش۔ میں نے اپنے بچوں کی خوشیوں کی خاطر ہرچیز گوارا کی۔ تب ہی تو میں ساجد کوبے حد مجبور کرکے امریکہ لے کرآگئی۔کیونکہ مجھے اندازہ تھا ہمارا مستقبل پاکستان نہیں۔ اور انسان دنیا میں ترقی کرنے کے لئے پیدا کیاگیاہے۔ چنانچہ ہمیں ترقی کے یہ مواقع نہیں گنوانے چاہئیں۔حالانکہ ساجد کے بوڑھے والدین اسے مجبور کررہے تھے کہ وہ ان کے بڑھاپے کااکلوتا سہارا ہے، انہیں اس عمر میں اس کی ضرورت ہے۔ وہ انہیں اس طرح تنہاچھوڑ کر پردیس میں اتنی دور نہ جائے۔انہوں نے تو بڑی آرزوؤںاور ارمانوں سے انہیں پروان چڑھایا تھا کہ بڑھاپے میں وہ انکی لاٹھی بنے گا۔اسکی بیوی بچوں سے انکے سونے آنگن میں بہار آئے گی۔ لیکن یہ کیا جب کلیاں چٹکنے کوتھیں تو باغباں ہی انہیں نوچ ڈال رہاتھا۔ساجد کے ابا کے یہ الفاظ اب نجانے کیوں میرے کانوں میں کھب کررہ گئے ہیں !۔
تیس سال کے عرصے میں تو میں اپنی مشغولیات اپنی زندگی کے رنگوں میںمنہمک تھی۔ اتنی مگن کہ مجھے ان الفاظ پر غور کرنے کاکبھی موقع ہی نہ ملا۔اگر کبھی ان کاتذکرہ بھی کیاگیا تو میں نے نہایت درشتی اورعقلی دلیوں کے ذریعے ان کے خیالات کی بھرپور تردید کی۔ وہ دن بھی نجانے کیوں مجھے اس وقت سے زیادہ مضطرب اور بے چین کرتے ہیں جب ساجد کے اباامی کے محبت سے لبریز خط ساجد کی جدائی کاصدمہ لفظ لفظ سے ظاہر کرتے تھے۔ میں چڑ کررہ جاتی تھی۔دنیامیں ایک نرالا ہی ان کابیٹا والدین سے دور ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے ان دنوں ساجد کے والدین میرے اعصاب پر ناقابلِ بیان اور ناقابل برداشت بوجھ تھے۔ مجھے اکثر یہ خدشہ رہتا تھا کہ کہیں ساجدوالدین کی بے جامحبت سے مجبور ہوکر پاکستان واپس جانے کافیصلہ نہ کرلیںاور اس طرح ہم سب کی زندگی برباد ہوکر رہ جائے۔ بچوں کامستقبل تباہ ہوجائے گا۔ساجد کاکیرئیر ختم ہوجائے گا۔کیونکہ ان دنوں ساجد اکثر بہت اداس اور خاموش ہوجایاکرتے تھے اور کبھی کبھی تو بڑی سنجیدگی سے پاکستان جانے کی باتیں کیاکرتے تھے۔اس لمحے میں بچوں میں لگا کر انہیںادھر ادھر کی باتوں میں مشغول کر دیاکرتی تھی۔ لیکن یہ اب مجھے کیاہوتا جارہا ہے کہ جب سے میرے بچے مجھ سے جدا ہوئے ہیں تو میں بجائے بچوںکے بچپن کی باتیں یاد کرنے کے اپنی جوانی کی یادیں تازہ کرنے کے اور اپنی زندگی کے خوشگوار واقعات اور لمحات سے لطف اندوز ہونے کے اپنی زندگی کی تلخ گھڑیوں کو ہروقت آنکھوں میں روشن کئے ماضی کے اندھیروں میں پہنچ جاتی ہوں۔ حالانکہ میں تو ہمیشہ سے روایات کی باغی اور قدامت پرستی سے بیزار تھی۔ میں نے تو اپنے بچوں کو ہمیشہ جذباتیت اور فرسودگی اور کم ہمتی سے نفرت دلائی تھی۔میں تو بڑے فخر سے کہتی تھی کہ ہمیں بڑھاپے میں بچوں کی کوئی خدمت ودمت نہیں چاہیئے۔ بس وہ اپنے گھروں میں خوش رہیں۔ ہم توہمیشہ انڈیپنڈنٹ رہے ہیں اور انڈیپنڈنٹ رہیں گے۔ بچوں کی پرورش اور ذمہ داریوں سے جو تھک گئے ہیں تو ریٹائرمنٹ کے بعد ریلیکس کریں گے۔ سمرمیں ورلڈ کپ پرجائیں گے اور سردیوں میں فائر پلیس کے پاس بیٹھ کر ناول پڑھاکریں گے۔ مگر اب جب فرصت کاوقت ملاتو یہ کیاہوگیا۔
ایک توساجد کی صحت کی خرابی دوسری پھر میری اپنی صحت ،اور پھر یہ نامعلوم سے اندیشے اور خدشات جو ہروقت میرے دل کو مسلے رکھتے ہیں وہ مجھے آئندہ زندگی کے لئے تو کوئی پلان بنانے ہی نہیں دیتے۔ اور پھر یہ مہیب سناٹے یہ تنہائی!!۔اُف پردیس میں خاص طور سے ان ملکوں میں بڑھاپے میں اکیلا رہناکتنا دشوار ہے۔ ہرملک میں اکیلا رہنا کتنا دشوار ہوتاہے!۔ اسکی گہرائیوں میں سے کوئی آواز اٹھی۔ساجد کے والدین برق کی طرح نگاہوں میں پھر گئے۔کلثوم نے پہلو بدلا۔ سوچوں کادھاراکہاں نکلاچلاجارہا تھا۔کوئی نہیں، کس کے بچے ہمیشہ والدین سے چمٹے رہے ہیں انکی اپنی زندگی ہوتی ہے اپنی مصروفیات اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں اوراپنی خوشیاں اور جوانی کی دلچسپیاں ہوتی ہیں۔ وہ بھرپور طریقے سے روح کی گہرائیوں سے اٹھنے والی حقیقت کا انکارکرناچاہ رہی تھی۔لیکن خیالات اس کے ذہن میں گھٹ کررہ گئے۔ہائے میری جوانی کاوہ استدلال جو میں بڑی قوت سے بیان کیاکرتی تھی، میری صحت کی طرح کمزور ہوکررہ گیا ہے۔ بلکہ اب تو میری زندگی کی حقیقتیں ،میرے خیالات اورذہن کے سارے فلسفوں کوجھٹلانے پر تلی ہوئی ہیں۔ واقعی اپناوطن اپنا وطن ہوتا ہے۔ رشتہ دار عزیز پڑوسی سب اپنے جیسے ہوتے ہیں۔ دکھ درد غم تکلیف میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ ۔۔لیکن یہاں۔ ۔۔یہاںتو کوئی کسی کانہیں سوائے اولاد کے۔ ۔۔بلکہ اولاد بھی صرف نام کی ہماری ہے۔ وہ بھی ہماری کہاں؟ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کڑوی گولی کی طرح اس کے سارے وجود میں زہر گھول گئی۔ ۔۔واقعی اولاد بھی ہماری کہاں ہے ؟۔۔۔ہماری ہوتی تو۔۔۔تو کچھ توہمارا خیال کرتی۔۔۔اب یہ کیسا ظلم کہ جس کے تین بیٹے اور دوبیٹیاں ہوں لیکن کوئی ان کے پاس نہ ہو۔۔۔وہ اس طرح تنہائی کے عذاب میں گرفتا ر ہوں۔
ہمارے بچوںپر ہمارا اتنا سابھی حق نہیں کہ وہ بیماربوڑھے والدین کے پاس آکر تھوڑا ساوقت گزار لیں۔یاہمیں پیارومحبت اور عزت سے بلاکر رکھیں اس کے دل میں شکایتوں کے دفتر کھلنے لگے۔ساجد تو ایک ہی بیٹے تھے اپنے والدین کے پھر بھی ان کاکسقدر خیال رکھتے تھے۔ کتنی ان سے محبت کرتے تھے !ہروقت اپنے والدین کے لئے بے چین و بے قرار رہاکرتے تھے۔
ایک ہماری اولاد ہے جن کے مستقبل کی خاطر ہم اپنا سب کچھ قربان کرکے یہاں آکربس گئے ہیں اوراب وہ ہمیں تنہا چھوڑ کر دور دور شہروں میں جاکرآباد ہوگئے۔ مہینوں میںکبھی کبھار فون کرکے صدقہ وخیرات کی طرح ہماری جھولی میں دعا و سلام کا لفظ ڈال دیتے ہیں۔
میری ذات کی تلخیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ۔۔ہرآنے والا دن میرے وجود کو کمزور اور بوجھل کرجاتا ہے۔ اب پھر سردیاں شروع ہونے کو ہیں۔ پھر موسم کے گھُٹے ہوئے دن اور طویل راتیں ہمیں تنہائی کے عذاب میں گرفتار کریں گی۔برف کے ڈر اور خوف سے آسمان دیکھنے کو بھی ترس جائیں گے۔ دوست احباب جنکی کمپنی میں کبھی شامیں اور راتیں جگمگایا کرتی تھیں کچھ تو اللہ کو پیارے ہوگئے اور کچھ تو ہماری ہی طرح بڑھاپے کی تنہائی اوربیچارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سوچیں کلثوم کے ذہن کوچٹخائے دے رہی تھیں۔ نجانے کیوں آج کی رات اتنی سنگین اور بے درد ہوگئی تھی کہ نیند اس سے کوسوں دورتھی۔ جسم درد سے بے کل ہوا ہواتھا۔اس نے کراہتے ہوئے کروٹ بدلی۔کیاہوا نیند نہیں آرہی ساجد نے پوچھا۔ آپ بھی ابھی جاگ رہے ہیں؟ کلثوم نے اس کوجواب دینے کے بجائے سوال کیا۔ہاں بہت دیر سے جاگ رہاہوں۔یہ برفانی ہوائیں لگتا ہے ہرچیز کو اٹھا کر پھینک دیں گی۔ ساجد جو خود اکھڑ رہے تھے ان کو ہوا کے نازک جھونکے بھی اکھاڑ کر پھینکتے ہیں۔ یہ طوفانی ہوائیں نجانے اور کیاستم ڈھائیں گی۔ الفاظ اس کے حلق کے اندر منڈلاکررہ گئے۔ تمہیں سردی تو نہیں لگ رہی ساجد نے اٹھ کر کمرے کاٹمپریچر بڑھاکر پوچھا۔نہیں سردی تونہیں لگ رہی مگر سب کی طرح لگتا ہے اب نیند نے بھی ہمارا ساتھ چھو ڑدیاہے۔ اپنے والد بہن بھائی اوررشتے داروں کو تو ہم چھوڑ کرآئے تھے۔یہاں اب ہمارے بچے ہمیں یہاں اکیلاچھوڑ کر ہم سے دور چلے گئے۔
ساجد اب میں سوچتی ہوں کہ ہم نے یہاں آکر کسی کاسکھ چین ختم کیاتھا اسی وجہ سے تو اب بچوں کی جدائی سے میراسکھ چین بھی ختم ہوگیا ہے۔ میری روح ان کے لئے ترستی ہے ،میرادل ان کے لئے بے قرا رہتا ہے۔ مجھے دنیا کی کوئی نعمت نہیں چاہیئے میں ان سے کچھ نہیں چاہتی صرف ان کی خیریت چاہتی ہوں، انکالمس چاہتی ہوں، انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھناچاہتی ہوں۔ کلثوم اٹھ کر بیٹھ گئی۔وہ ایک چھوٹے بچے کی طرح بلک بلک کر رورہی تھی۔ ساجد ساجد یہ کیاہوگیاہے مجھے اور ساجد اپنی روح کوزخموں کو ہرا ہوتا ہوا دیکھ کر گھبرا گئے۔ یہ کلثوم ہے ؟یہ کلثوم رورہی ہے ؟یہ کلثوم کادل تڑپ رہا ہے؟۔ ہاں ہاں یہ کلثوم ہے ان کی نظروں نے جواب دیا۔ لیکن نہیں یہ کلثوم نہیں ہے انکے دل نے تصدیق کی کہ یہ کلثوم نہیں ہے ، '' یہ شام زندگی ہے'' پھر انہوں نے اپنے بے قابو ہوتے ہوئے دل کو دونوں ہاتھوں سے سنبھالا۔
کلثوم زندگی کی صبح بڑی چمکیلی اور روشن تھی لیکن ہم نے اپنی آنکھوں پر جوانی اور غفلت کے پردے ڈال کر اسے غبار آلود کرلیاتھا۔چنانچہ ان پردوں کے پیچھے رہ کر جب دن کی روشنی سے ہم محروم رہے تو زندگی کی شام اور بڑھتے ہوئے مہیب سائے سے کیسے ہم بچ سکتے ہیں ؟۔اب شام کی یہ سوگواری ہمارا مقدر ہے۔ یہ بھی گذر جائے گی۔مگر یہ بتاؤ کہ ہمارے بچوں کی زندگی میں جب یہ شام آئے گی تو ان کاکیاحال ہوگا؟۔کیونکہ میرے ابا نے اپنے آخری خط میں مجھے یہ ہی لکھا تھا کہ بیٹے ہم نے تو تمہاری جدائی میں زندی کی یہ تاریک راتیں یادوں تصورات اور اللہ کے اجروثواب کی روشنی میں گذار لیںگے لیکن جب تمہاری شامِ زندگی ہوگی تو وہ بہت جان لیوا اور المناک ہوگی کیونکہ تم نے نہ صرف والدین سے بے پرواہ ہوکر زندگی گزاری بلکہ اللہ سے بھی غافل ہوکر زندگی کاٹی ہوگی۔​
شہناز احمد (آٹووا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اضطراب

کنسرٹ پورا بھرا ہواتھا۔مشہور زمانہ پیانوسٹ، بیتھوون (Beethovan) کی سمفونی (Symphony) پر اپنے فن کامظاہرہ کررہاتھا۔ ماحول پر خوابناک رومانوی سحر چھایا ہوا تھا۔محسوس ہوتا تھا کہ ہر ساز لہروں میں ڈوبا ہواہے۔دھیمی دھیمی آواز ابھرنے لگی۔لہریں اونچی اٹھنے لگیں۔فوجیں شہر میں داخل ہوگئی تھیں۔خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔فرط و انبساط کی لہریں دلوں میں ہلچل مچانے لگیں۔خوابیدہ جذبات میں ہیجان پیدا ہونے لگا۔صبحِ نو طلوع ہورہی ہے۔فتح و کامرانی کے ڈنکے پٹنے لگے۔اورمیرادل ڈوب گیا۔گھُٹتے گھُٹتے لگتا تھا خاموش ہوگیا ہے مگر کہاں۔۔۔کہاں خاموش ہوگیا تھا؟۔رگڑنے ، مسلنے اورمسل کر پھینک دینے میں پھول جن کیفیات سے گزرتا ہے۔ میرا دل بھی ان ہی کیفیات سے گزر رہاتھا۔مجھے محسوس ہوا میرے جسم سے خون ٹپک رہا ہے۔ میرے دست و بازو علیحدہ کئے جارہے ہیں۔ میری آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں اور زبان گنگ ہوگئی ہے میں لٹ رہی ہوں سر بازار لٹ رہی ہوں ،کٹ رہی ہوں، دار پر نہیں اپنے گھر میں، اپنی پناہ گاہ میں اور اپنوں کے درمیان۔مگر بالکل یکہ و تنہا، بالکل اکیلی۔ کیونکہ میرے ساتھی بھی ساری دنیا کے ہوتے ہوئے بالکل میری طرح بے یارومددگار یکہ و تنہا۔ لگتا ہے دنیاانسانوں سے خالی ہوگئی ہے نہ سرپر آسمان ہے اور نہ نیچے زمین۔ فوجیں شہر میں داخل ہوگئی ہیں۔ سلامی دے دی گئی ہے۔ میری چیخ نکل گئی۔ '' جاوید خدارا بھاگ چلو یہاں سے، بھاگ چلو یہاں سے۔ بوسنیا پر قبضہ کرلیا انہوں نے۔ پورا قبضہ ہوگیا ان کا ،مسلمان ختم ہوگئے، مسلمانوں کاخون بہہ رہا ہے، چاروں طرف بہہ رہا ہے میں تیزی سے اٹھ کر ہال کی طرف بھاگی۔لوگ حیران ہوکر دیکھنے لگے۔
جاوید کاموڈ خراب ہوگیا۔'' یہ کیابدتمیزی ہے۔ تمہیں محفل کے آداب کابھی خیال نہیں''۔ ''ہاں نہیں ہے مجھے خیال۔آپ جاکر خیال کریں ان کی ہرچیز کا۔ کیونکہ آپ کو تو ان کے کوڑے کرکٹ کابھی احترام ہے اور انہیں ہمارے خون کابھی احترام نہیں '' مجھے کچھ ہوش نہیں تھا۔''نان سنس ! میرے ساتھ ایسی جنونی قسم کی حرکتیں نہ کیاکرو۔نجانے تمہیں کیاہوتا جارہا ہے؟ پچھلے دنوں ریسٹورنٹ میں سارا کھانا چھو ڑ کر اٹھ آئیں کہ صومالیہ میں لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور ہم یہاں بیٹھے تفریحاً جاپانی کھانا کھارہے ہیں۔ اس سے پہلے ڈاکٹر مَلِک کی بیٹی کی شادی میں عین اس وقت جبکہ تقریب اپنے شباب پر تھی، روتی ہوئی اٹھ آئیں کہ مسلمانوں کوکیاہوگیا ہے۔ مسلمانوں او ر عیسائیوں کے درمیان تفریق مشکل ہوگئی ہے۔ لوگوں کے گھر آناجانا چھوڑ دیا ہے کہ بیکار وقت فضول باتوں اور مشغلوں میں ضائع ہوتا ہے۔ کوئی تعمیری اور اصلاحی مقصد زندگی ہی نہیں ہے۔میری تو سمجھ میں نہیں آتا عجب ہے تمہارا فلسفہ اور نظریہ زندگی۔کبھی کشمیر کاغم ہے تو کبھی افغانستان کاروگ۔کبھی فلسطین کارونا توکبھی بوسنیا کادکھ۔اور اب بابری مسجد کاتازہ زخم۔میں پوچھتا ہوں کہ کیاتم اکیلی مسلمان رہ گئی ہو اس دنیا میں، جو اپنی جان گھلائے جارہی ہو؟۔کیاصرف تمہارے ہی دل میں مسلمانوں کاسارا درد اور محبت سمٹ آئی ہے؟۔ باقی ہم تو جیسے مسلمان ہیں ہی نہیں۔جاوید غصے میں نجانے کیاکیاکہہ رہے تھے اور میں دور بہت دور اس دنیا کے چوراہے پر کھڑی پھٹی پھٹی نظروں سے اپنا مستقبل دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔۔
میرا مستقبل جوطوفانی ہواؤں کی زد میں ہے۔ میرامستقبل جو پرکٹے پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہاہے۔یایوں سمجھئے میرا مستقبل مردار گوشت کی طرح جس پر گدھ پر ٹوٹے پڑتے ہیں دنیاکے چوراہے پر پڑا ہے۔ اور میں آنکھیں پھاڑے اپنی قوم کو دیکھ رہی ہوں جو ایوان سجائے بیٹھی ہے رسم تاج پوشیوں میں مصروف ہے۔ عشرت کدوں پر شباب ہے، عقل و خرد محو خواب ہیں۔ سازو طرب کی محفلیں آراستہ ہیں رنگ و نشاط اور کیف و سرور ، دروبام سے ٹپک رہے ہیں اورلوگ بے خودی و سرمستی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ میں پوری قوت سے چیخنا چاہتی ہوں۔ کس سے کہوں۔کون سنتا ہے میری آواز؟۔میری روح ایک کمزور بدن میں محبوس ہے۔ میری کوئی آواز نہیں ہے۔میری کوئی پرواز نہیں ہے۔ میں ایک کمزور عورت ہوں ،ایک کمزور مسلمان عورت، ایک مسلمان بیٹی، ایک مسلمان بیوی، ایک مسلمان بہن اور ایک مسلمان ماں۔۔۔ہاں میں ایک مسلمان ماں ہوں ، جاوید!پھرمیں کیسے یہ سارے دکھ ، درد، رنج و الم ، غم و مصائب ، المناک مناظر اور خوفناک مظالم برداشت کروں۔۔۔۔ برداشت کرنے یانہ کرنے پر تو میرا زور نہیں۔ لیکن میں کیسے محفلیں سجاؤں؟۔لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ،کڑیل جوان ختم ہوگئے ہیں۔ لاکھوں ننھے معصوم بچے یتیم ہورہے ہیں۔ میری ان گنت بہنیں بیوہ ہو گئی ہیں ،میری لاکھوں بیٹیاں دنیاکے لق و دق صحرا میں تن تنہا باپ بھائیوں کے سائے سے محروم ہراساں و پریشاں کھڑی ہیں۔ لٹیرے ان پر ٹوٹ رہے ہیں انکی عصمتیں لٹ رہی ہیں۔ ان کے بچے کٹ رہے ہیں۔ تم مجھے بتاؤ میں یہ سب کیسے برداشت کروں؟جاوید!خدا کے واسطے کچھ تو خدا کا خوف کرو۔چند سکے ان کی جھولی میں ڈال کر، حاتم طائی بن کر، ان لذتوں میں غرق مت ہوجاؤ جن میں ڈوب کر انسانیت مر جاتی ہے۔ ۔۔صرف چلتے پھرتے تنو مند جسم رہ جاتے ہیں جن کی سجاو ٹ دیکھ کر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں کہ یہ انسان ہیں۔ مگر اندر سے وہ درندے بلکہ درندوں سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔ ۔۔۔خدا کے لئے جاوید ذرا عالمِ اسلام پر نظر ڈالو۔۔۔ذرا مسلمانوں کی بے حسی دیکھو۔ ذرا اپنے دل کوٹٹولو۔ تم کیسے مسلمان ہو جو رنگ و طرب کی محفلیں سجاکر مُردوں کاسوگ مناتے ہو۔ دنیا میں تمہاری یہ دولت ،تمہارے یہ نام ،تمہاری یہ قابلیت اور شہرت آج کتنی بے وقعت ہوگئی ہے کہ تم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی ٹھوکروں میں ہو؟۔۔۔آج عالم اسلام کامنہ سی دیاگیا ہے عالم اسلام کے فرزندوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر اس گندی، غلیظ دنیا پر خوبصورتی اور تعیش کے غلاف چڑھا کر اسے جھنجھوڑنے کے لئے ان کے آگے ڈال دیاگیاہے اور وہ آقاؤں کی سرپرستی اوردست شفقت میں نہ صرف خود اپنے عوام کاخون چوس رہے ہیں بلکہ خونخوار بھیڑیوں کو بھی شکار کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔۔۔اور تم ۔۔۔ تم جیسے سرمایہ دار معزز مسلمان۔۔۔مجھے کہتے ہو کہ میں دنیامیں اکیلی مسلمان رہ گئی ہوں جو اس طرح غم کااظہار کرتی ہوں۔ ۔۔نہیں جاوید میں اکیلی نہیں ہوں،تمہارے دئے ہوئے نام ''بنیاد پرستوں'' کی آج کی دنیا میں بھی کمی نہیں ہے۔ بے شک یہ تھوڑے ہی سہی لیکن ہرملک، ہرشہر، ہربستی اور ہرمقام پر موجود ہیں۔ تمہیں نظر نہیں آتے تو تمہاری بے بصیرتی کاقصورہے۔۔۔ورنہ جاوید یہ آندھیوں میں چراغ جلائے ہوئے ہیں۔ ان کے دم ہی سے تو میرے جسم میں حرارت ہے۔ بس جاوید خدا کے واسطے تم مجھے ایسی محفلوں میں لے کر نہ جایاکرو جہاں جاکر مجھے انسانیت اتنی برہنہ اور پست نظر آتی ہے کہ میرادم گھٹنے لگتا ہے
''صدیقہ!تم میرا دماغ خراب کردوگی۔'' جاوید نے گاڑی گیراج میں کرکے زور سے دروازہ بند کرتے ہوئے اتر کرکہا۔''تمہیں حق ہے کہ تم اللہ کی زمین کو خراب کردو لیکن دوسرے کو حق نہیں کہ وہ صحیح بات بھی تمہیں بتاسکے ''۔؟صدیقہ نے زیر لب کہا اور گاڑی سے اتر آئی۔ ۔۔
 
Top