• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اقیمو االصلوٰۃ و اٰتو االزکوٰۃ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْ‌كَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَ‌بَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ‌ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۩ ﴿٧٧الحج
ترجمہ :اے ایمان والو! رکوع اور سجدے کرتے رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ
توضیح : کتنے احسن انداز میں رب کائنات نے انسان کو آگاہ فرمایا کہ ساری عبادتیں اللہ ہی کے لئے خاص ہیں قیام و رکوع وسجود و حاجت روائی و مشکل کشائی وغیرہ انہیں لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے کامیابی کی ضمانت دی ہے
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّ‌حْمَـٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّ‌حْمَـٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُ‌نَا وَزَادَهُمْ نُفُورً‌ا ۩ ﴿٦٠الفرقان
ترجمہ :ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کروتو جواب دیتے ہیں رحمن ہے کیا؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دے رہا ہے اور اس (تبلیغ) نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کر دیا
توضیح : کافرین و مشرکین اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتے مساجد اور نمازوں سے کو سوں دور رہتے ہیں مگر اللہ کے سامنے جھکنے سے انہیں بیر ہے مکہ کے کفار اور مشرکین مختلف قسم کے بتوں کا وسیلہ لیتے تھے (مثلاً:لات، منات و عزیٰ) جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ رحمن کی عبادت کرواسی کو سجدہ کروتو کہتے کہ یہ رحمن کیا ہے حالانکہ وہ جانتے تھے مگروسیلہ کی غلط تعبیر نے انہیں گمراہ کر دیا تھا یہی حال آج کے مشرکین کا ہے یعنی براہ راست اس کے سامنے جھکنے سے قاصر تھے توحید کی ہمیشہ مخالفت کرتے تھے آج بھی یہی حال ہے
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ ﴿٢٢﴾إِنِّي وَجَدتُّ امْرَ‌أَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْ‌شٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾ وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّـهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ ﴿٢٤﴾ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي يُخْرِ‌جُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ﴿٢٥﴾ اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَ‌بُّ الْعَرْ‌شِ الْعَظِيمِ ۩ ﴿٢٦النمل
ترجمہ :سباکی ایک سچی خبر تیرے پاس لایا ہوں میں نے دیکھا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کر رہی ہے جسے ہرقسم کی چیزسے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے اور اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے میں نے اسے اور اس کی قوم کو ، اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا، شیطان نے ان کے کام انہیں بھلے کر کے دکھلا کر صحیح راہ سے روک دیا ہے پس وہ ہدایت پر نہیں آتے کہ اسی اللہ کے لیے سجدے کریں جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو وہ سب کچھ جانتا ہے اس کے سواکوئی معبود برحق نہیں وہی عظمت والے عرش کا مالک ہے
توضیح : حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق پر حکمرانی عطافرمائی تھی ایک روز آپ علیہ السلام نے سب کو ایک میدان میں جمع ہونے کا حکم دیاسارے جاندار چرند پرند حشرات الارض سب اکٹھے ہو گئے مگر وہاں ایک مخصوص ہدہد پرندہ غائب تھا جو مشیت الٰہی سے ملک سباء چلا گیا تھا حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ اب ہدہد کو میں سزادونگا کہ بغیر اجازت کہاں فرار ہو گیا یہی بات چل رہی تھی کہ اچانک ہدہد میاں ٹپک پڑے اور آ کراس ملک کی خبرسناتے ہیں جو آیات مذکورہ میں بیان ہے ہدہد پرندہ نے بھی شرک کی غلاظت کو آ کر بیان کیا کتنا اچھا ہوتا کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اسی کو سجدے کرتے مگر شیطان نے وہاں کے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اسی کو سجدے کرتے مگر شیطان نے وہاں کے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے کہ وہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو سجدہ کر رہے ہیں معلوم ہوا کہ ساری مخلوق چرند پرند اللہ کی عبادت کرتے ہیں تفصیل کے لیے مکمل سورۃ النحل کا مطالعہ کریں
إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُ‌وا بِهَا خَرُّ‌وا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَ‌بِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُ‌ونَ ۩ ﴿١٥السجدہ
ترجمہ :ہماری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جنہیں جب کبھی ان سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ہیں
توضیح : اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی پہچان بیان فرمائی ہے کہ وہ لوگ سجدہ کرنے والے ہیں عاجزی اور انکساری کرنے والے ہیں قرآنی آیات ان کے دلوں میں اثر کر جاتی ہیں وہی لوگ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا و بزرگی و بڑائی و کبریائی کرتے ہیں نمازیں پڑھتے ہیں اسی کے سامنے جھکنے والے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سامنے نہ جھکے وہ متکبر ہے و مغرور ہیں
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قال لقدظلمت بسوال نعجتک الی نعاجہ وان کثیرامن الخلطآ لیبغی بعضھم علی بعض الا الذین امنواوعملوا الصلحت وقلیل ماھم وظن داودانما فتنہ فاستغفر ربہ وخر راکعا واناب(ص۳۸:۲۴)
ترجمہ :آپ نے فرمایا!اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری ایک دنبی ملا لینے کا سوال بے شک تیرے اوپر ایک ظلم ہے اور اکثر حصہ دار اور شریک (ایسے ہی ہوتے ہیں کہ) ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں ، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں اور (حضرت) داؤد(علیہ السلام) سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے ، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے (یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدے میں گر پڑے ) اور (پوری طرح) رجوع کیا
توضیح :توضیح اور شان نزول! حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس دو فرشتے آدمی کی شکل میں بطور آزمائشی ایک مقدمہ لے کر آئے تو آپ علیہ السلام نے دونوں کی بات سنے بغیر ایک کے حق میں فیصلہ سنا دیئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو آگاہی فرمائی تو آپ علیہ السلام سمجھ گئے کہ مجھ سے لغزش ہو گئی تو فوراً اللہ تعالیٰ کے طرف رجوع ہوئے اور سجدے میں گر پڑے تو اللہ تعالیٰ نے درگزر فرمایا اس لئے آیت پر سجدہ کیا جاتا ہے معلوم ہواسجدہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی قربت و نزدیکی حاصل ہوتی ہے اور سجدے سے انسان اللہ کے سامنے عاجزی وانکساری کا ثبوت دیتا ہے شریعت اسلام میں یہ ہے کہ مدعی اور مدعی علیہ دونوں کی بات سن کر قاضی فیصلہ سنائے تاکہ حق والوں کو حق مل سکے
ومن ایتہ الیل والنھار والشمس والقمر لاتسجدو اللشمس ولا للقمروسجدواللہ الذی خلقھن ان کنتم ایاہ تعبدون فان استکبروافالذین عندربک یسبحون لہ بالیل والنھاروھم لایسٔمون(ختم السجدہ۴۱:۳۷سے ۳۸)
ترجمہ :اور دن رات اور سورج چاند بھی (اسی کی) نشانیوں میں سے ہیں تم سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ اس اللہ کے لیے کروجس نے ان سب کو پیدا کیا ہے ، اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے تو پھر بھی اگر یہ کبر و غرور کریں تو وہ (فرشتے ) جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں وہ تورات دن اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں اور (کسی وقت بھی) نہیں اکتاتے
توضیح : اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی آگاہ فرمایا کہ ہم نے جن وانس کو ہماری ہی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ پوری کائنات اس انسان کے لئے سجایا ہے لہٰذا تم اس کی مخلوق میں سے کسی کی بھی عبادت نہ کرنا کسی کے بھی سامنے سجدہ نہ کرنا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے سجدے کرنا اگر تم ہماری عبادت نہ کرو گے ہمیں سجدے نہ کرو گے تو ہماری شان میں ذرہ برابر بھی فرق نہ پڑے گا ہمارے سامنے تو ہمارے فرشتے سجدہ ریز ہیں اور ہماری حمدوثنا تسبیح بیان کر رہے ہیں وہ اس سے تھکتے بھی نہیں ہیں
وتضحکون ولاتبکون وانتم سمدون فاسجدواللہ اعبدوا(النجم۵۴:۶۰سے ۶۲)
ترجمہ :اور ہنس رہے ہو؟ روتے نہیں ؟ (بلکہ) تم کھیل رہے ہو اب اللہ کے سامنے سجدے کرو اور (اسی کی) عبادت کرو
توضیح :کفار و مشرکین مکہ آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ پر مذاق اڑاتے ہنستے کھیل و ٹھٹا کرتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کو یہاں بیان فرمایا اللہ تعالیٰ جب یہ آیات نازل فرمائی تواس حکم کی تعمیل میں آپﷺ اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سجدے میں گر گئے مجلس میں اس وقت یہ کیفیت تھی کہ وہاں جو مشرکین و کافرین موجود تھے سب کے سب سجدے میں گر گئے تھے
توحید کی دعوت پر آج بھی مذاق اڑایا جاتا ہے ہر دور میں مذاق اڑانے والے مشرکین ہی رہے ہیں
فمالھم لایومنون واذاقری علیھم القران لایسجدون بل الذین کفروایکذبون واللہ اعلم بمایوعون فبشرھم بعذاب الیم الا الذین امنواوعملوا الصلحت لھم اجرغیرممنون(الانشقاق ۸۴:۲۰سے ۲۵)
ترجمہ :انہیں کیا ہو گیا کہ ایمان نہیں لاتے اور جب ان کے پاس قرآن پڑھا جاتا ہے توسجدہ نہیں کرتے بلکہ جنھوں نے کفر کیا وہ جھٹلا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ جو کچھ یہ دلوں میں رکھتے ہیں انہیں المناک عذابوں کی خوش خبری سنادو ہاں ایمان والوں اور انیک اعمال والوں کو بے شمار اور نہ ختم ہونے والا اجر ہے
توضیح : اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بھی کفار مکہ کی ہٹ دھرمی بیان فرمائی ہے کہ تعلیمات قرآنی سے ان کو نفرت ہے سجدوں سے عداوت ہے جب وہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کے جسم میں حرارت پیدا ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے جہنم کی وعید سنائی ہے اس کے بعد مومنوں کے نیک اعمال کا ثمرہ بیان فرمایا کہ ان کو لازوال اجر دیا جائے گا کیوں وہ نمازیں پڑھتے ہیں اللہ کے سامنے سجدے کرتے ہیں
کلالئن لم بنتہ لنسفعابالناصیۃ ناصیۃ کاذبۃ خاطئۃ فلیدع نادیہ سندع الزبانیۃ کلالاتطعہ واسجد واقترب(العلق ۹۶:۱۴سے ۱۹)
ترجمہ :یقیناً اگر یہ باز نہ رہا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے ایسی پیشانی جو جھوٹی خطا کار ہے یہ اپنی مجلس والوں کو بلالے ہم بھی (دوزخ کے ) پیادوں کو بلا لیں گے خبردار! اس کا کہنا ہرگز نہ مانئے اور سجدہ کیجئے اور قریب ہو جائیے
توضیح : مکہ میں آپ کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل تھا اپ کو نماز پڑھنے سے روکتا تھا ایک مرتبہ ابوجہل نے آپﷺ کے بارے میں کہا کہ اگر وہ کعبہ کے پاس نماز پڑھنے سے باز نہیں آئے تو میں اس کی گردن میں پیر رکھ دوں گا جب آپﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر وہ یہ حرکت کرتا تو فرشتے اسے پکڑ لیتے ایک مرتبہ آپﷺ کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے ادھر ابوجہل گزراتواس نے کہا کہ کیا میں نے تجھے یہاں نماز پڑھنے سے نہیں روکا تھا تو آپ ﷺ نے بھی اسے سخت جواب دیاتواس نے بھی کہا کہ اے محمد(ﷺ) کیا تو مجھے ڈراتا ہے میرے حمایتی تو یہاں سب سے زیادہ ہیں اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ مذکورہ آیات نازل فرمائیں (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ العلق، ترمذی ایضاً)
معلوم ہوا کہ اتنی سخت مخالفت کے باوجود سجدے کی تاکید کی گئی ہے کہ تم ان کی پرواہ کئے بغیر سجدے کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو گویا نمازوں کی پابندی سے اللہ تعالیٰ کی خصوصی تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے افسوس آج اس سے انتہائی غفلت برتی جا رہی ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سجدۂ شکر
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کیا اور اس کو لمبا کر دیا پھر اپناسر اٹھایا اور فرمایا کہ تحقیق میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور خوش خبری دی تومیں نے اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کو سجدہ کیا (بروایت احمد)
ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو کوئی ایساکام پیش آتاجس سے آپﷺ خوش ہوتے تو آپ سجدۂ شکر ادا کرتے (بخاری ومسلم ابوداؤد ترمذی)
اب اگر کوئی کسی بھی خوشی میں غیر اللہ کے مزاروں پرجا کر، بت خانوں میں جا کر نذر و نیاز کرے ، ان کا شکر ادا کرے توا س سے بڑھ کر نافرمان اور سرکش کو ن ہو گا
سجدے میں دعا:اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا''سجدہ کرو اور اللہ کے قریب ہو جاؤ (سورۃ العلق، آخری آیت)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بندہ سب سے زیادہ اپنے رب ک قریب سجدہ میں ہوتا ہے پس سجدے میں کثرت سے دعا مانگو (رواہ مسلم)
جنگ بدر میں مسلمان ۳۱۳ تھے اور کفار ایک ہزار تھے مگرمسلمان ایمان کی دولت سے لبریز تھے پھر بھی آپﷺ اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں گر پڑے اور عاجزی اور انکساری سے مومنین کے لئے دعائیں فرمائے بالآخر اللہ تعالیٰ نے فتح کی خوش خبر عطا فرمائیں تو پھر آپ نے سجدے سے سراٹھایا اور اپنے پیارے اصحاب رضی اللہ عنہم کو فتح کی بشارت سنائی(مسلم، ج:۲، ص:۱۳۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سجدوں ہی سے جنت ملے گی
اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے یہ مقام صرف ان لوگوں کو نصیب ہو گا جنھوں نے ایمان لا کر نیک اعمال کئے ہوں گے یہ جنت کوئی ٹھیکیداری کا مقام نہیں ہے کہ کوئی پیر و مرشد، فقیر و درویش یا اور کوئی جنت کا ضامن بن جائے جیساکہ آج اس دور کے جاہل علماء بریلویوں نے یہ تصور عوام میں پرو دیا ہے اور قوم کو گمراہی کے عمیق دلدل میں پھنسا دیا ہے تعلیمات قرآنی سے انہیں دور کر دیا ہے صرف اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرکر اپنا الوسیدھا کر رہے ہیں اللہ انہیں ہدایت سے نواز دے آمین
رحمۃ اللعلمین نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حضرت ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ حاضر رہتے تھے آپﷺکے دروازے کے پاس بیٹھے رہتے تھے کہ کب آپﷺ حکم فرمائیں اور میں خدمت کا شرف حاصل کروں کئی غزوات میں بھی آپ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ہم سفر رہتے تھے آپ رضی اللہ عنہ کی یہی پُرخلوص خدماتِ جلیلہ کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ آپ رضی اللہ عنہ کو بہت چاہتے تھے آخرکار جب رحمت کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ ائے ربیعہ بن کعب اب مجھ سے جو مانگنا ہے مانگ میں تجھے دوں گا تو انھوں نے عرض کیا:''یارسول اللہﷺ!میں سوچ کر جواب دوں گا''
دوسرے دن حضورﷺ نے پھر پوچھا:''تم نے کیا سوچا؟''انھوں نے عرض کیا:''یا رسول اللہﷺ!میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لیے یہ دعا کریں کہ وہ مجھے آخرت میں دوزخ سے بچائے اور جنت میں آپ کی معیت نصیب فرمائے ''حضورﷺ نے فرمایا:کیا اس کے علاوہ کوئی اور حاجت ہے ؟'' میں نے عرض کیا:''نہیں یارسول اللہﷺ! صرف یہی حاجت ہے ''
تو آپﷺ نے فرمایا کہ: ''فاعنی علیٰ نفسک بکثرۃ السجود''
''تو تم اپنے مطلوب مقصد کے لئے بہت سجدے کر کے میری مدد کرو''
(رواہ مسلم باب صلوٰۃ التطوع)
معلوم ہوا کہ بنا عبادت و بندگی اور بنا نماز وسجود کے جنت نہیں ملے گی

*****​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آٹھواں باب

مسجدوں و دیگر سجدوں کا مختصر بیان
''اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے سب سے پہلے اس کائنات میں مسجد بنایا کعبۃ اللہ مکۃ المکرمہ میں '' جو آج کائنات کے مسلمانوں کا قبلہ ہے اور پھر کائنات کی ساری مسجدیں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں جوسب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو محبوب اور پسندیدہ ہیں
(اٰل عمرآن۳:۹۶)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک تمام مقامات میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ترین جگہیں یہی مسجدیں ہیں اور تمام مقامات میں سب سے زیادہ ناپسند اور بری جگہ بازارہیں
اس سے مساجد کی قدر ومنزلت کا اور عزت و حرمت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور یہی ساری کائنات کے مسلمانوں کے روحانی مرکز ہیں
مسجدیں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں جہاں صرف اسی کی عبادت کی جاتی ہے اقامتِ نماز اور تلاوتِ قرآن، ذکرو اذکار، دعا التجا کے لئے اور وہاں فضول باتیں شور و غل، لہو و لعب کرنا حرام ہے چنانچہ ایک حدیث میں اس طرح اس کی عزت و حرمت آئی ہے :
''حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ وہ اپنی دنیا کی باتیں اپنی مسجدوں میں کریں گے ، اس وقت تم ان لوگوں میں نہ بیٹھنا، اللہ کو ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے ''(بیہقی)
اتنی بڑی پیشن گوئی ہمارے سامنے ہے آج کے حالات کا مشاہدہ کریں تو امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کے گھروں کے ساتھ اسی طرح پیش آ رہی ہے کیا یہ بڑا ظلم نہیں ہے مساجد گمشدہ چیزوں کے اعلان کی جگہ نہیں ہے اس تعلق حدیث رسولﷺ ملاحظہ ہو:
''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو کسی شخص کو مسجد میں کسی گمشدہ چیز کے لیے اعلان کرتے سنے تو کہے کہ اللہ تجھے وہ چیز نہ لوٹائے کیونکہ مسجدیں اس کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں ''(رواہ مسلم)
مساجد تو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہیں جو لوگ گمشدہ چیزوں کا اعلان مسجدوں میں کرتے ہیں ان کے لیے نبی اکرم ﷺ کی بدعا ہے ، کیونکہ وہ لوگ آپﷺ کے فرمان کی مخالفت کرنے کی ٹھیکیداری لئے ہوئے ہیں آئے دن کسی نہ کسی گمشدہ چیزوں کا مسجدوں میں اعلان کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہدایت سے نواز دے
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ''جب تم میں سے کوئی بھی مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت پڑھنے سے پہلے نہ بیٹھے (بخاری ومسلم)
اس حدیث سے مسجدکی قد رو منزلت واضح ہو جاتی ہے اس مسجد کے حق کو تحیۃ المسجد کہتے ہیں مسجد میں جس وقت بھی جانا ہو چاہے سفر ہو یا حضر دو رکعت پڑھنا ہے ایک حدیث میں اس طرح ہے کہ نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ ''قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ آدمی مسجد سے گزرے مگر دو رکعت نماز ادا نہیں کرے گا اور سلام صرف پہچان والوں سے کرے گا (رواہ الطبرانی)
حدیث ہٰذا سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قیامت بالکل قریب ہے آج لوگ مسجدوں سے دور ہو گئے صرف حاجت کرنے والوں کی بھیڑ کے بھیڑ لگی رہتی ہے مسجدوں کے پیشاب خانے ، بیت الخلاء، باپ کی ملکیت سمجھ لئے ہیں یہی حال سلام کرنے والوں کا ہے کہ صرف پہچان والوں کو سلام کرتے ہیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا کہ مجھ پر میری امت کے اجروثواب پیش کئے گئے یہاں تک کہ وہ اجربھی کہ آدمی مسجد سے ایک تنکا ہی نکال پھینک دیتا ہے (رواہ ابوداؤد وترمذی)
نبی اکرم ﷺ کو معراج میں جنت و جہنم اور اس کی بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کرایا گیا اور لوگوں کے عمل صالح کے ثمرات اسی طرح جس نے اللہ تعالیٰ کے گھر مسجد سے ایک تنکا ہی پھینک دیا ہو اس کا بڑا اجروثواب آپﷺ کو دکھایا گیا اس لئے ہمیں چاہئے کہ نمازوں کے ساتھ ساتھ اس کی صاف صفائی کا بھی خیال رکھیں تاکہ اس بشارت عظمیٰ کے ہم بھی مستحق بن سکیں اسی طرح مسجدمیں خرید و فروخت کرنے کی بھی ممانعت آئی آپ ﷺ فرماتے ہیں جب کوئی مسجدمیں خرید و فروخت کرے تواس کو کہو کہ اللہ تعالیٰ تیری تجارت میں نفع و فائدہ نہ دے اس حدیث سے بھی مسجد کی عزت و حرمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے (رواہ نسائی وترمذی)
مساجد آبادی کے تناسب سے زیادہ سے زیادہ بنائی جا سکتی ہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجدوں کو محلوں میں بنانے کا اور انہیں صاف ستھرا رکھنے کا اور خوشبو سے معطر کرنے کا حکم دیا ہے (ابوداؤد)
خوشبو کے لئے عود کی دھونی اچھی قسم کی اگربتی اور کثرت سے عطریات کا استعمال کرنا چاہئے تاکہ مسجد میں خوشبو ہو جائے اسی طرح بدبودار چیزیں کھا کر نہیں آنا چاہئے لہسن اور کچا پیاز کے تعلق سے کسی شخص نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے نبی ﷺ کو لہسن کے بارے میں کچھ فرماتے سنا ہے (انھوں نے ) کہا کہ آپﷺ نے فرمایا ہے :جو شخص لہسن کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے (رواہ البخاری)
چونکہ اس میں بدبو ہوتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوق کو تکلیف پہنچتی ہے بیڑی پینے والوں کو ہوش میں آنا چاہئے کیوں کہ بیڑی کی بدبو اس سے کہیں زیادہ آتی ہے بیڑی پینے والے مسجد کی بے حرمتی کرتے ہیں
نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم ایک غزوہ سے واپس آ رہے تھے لوگوں کو بھوک لگی تو کچھ اصحاب رضی اللہ عنہم کچی پیاز کھائے اس کے بعد نماز کا وقت ہو گیا جب جماعت کھڑی ہوئی تو آپﷺ نے پیاز کھانے والوں کو صف کے سب سے پیچھے کھڑا کیا تاکہ اللہ کے فرشتوں اور نمازیوں کو اس کی بدبو سے تکلیف نہ ہو تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ پیاز حرام ہو گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کسی حلال چیز کو حرام کرنا میرے اختیار میں نہیں (بخاری مسلم)
صرف کچی پیاز اور لہسن کھا کر مسجد میں نہیں آنا ہے جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسجدوں سے روکنے والاسب سے بڑا ظالم ہے :
مسجدیں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں جواس کی عبادت سے کسی مسلمان کو روکے گا اس کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ومن اظلم ممن منع مسجداللہ ان یذکرفیھا اسمہ وسعی فی خرابھا اولئک ماکان لھم ان یدخلوھا الاخائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاخرۃعذاب عظیم(البقرہ ۲:۱۱۴)
ترجمہ :اس شخص سے بڑھ کر ظالم کو ن ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کو شش کرے ، ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہئے ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب ہے
توضیح :سابقہ امم میں بھی ایسے ظالم لوگ گزرے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے گھروں میں اس کی عبادت کرنے سے روکا کرتے تھے خود مکہ کے کفار و مشرکین آپ ﷺ کو اور آپ کے ساتھیوں کو کعبۃ اللہ مسجد حرام سے اللہ کی عبادت کرنے سے روکتے تھے تو انہیں سب سے بڑا ظالم کہا گیا ہے افسوس صدافسوس آج بریلوی مسلمانوں نے ان کی جگہ لے لی ہے وہ مسجدوں کو اپنے گھر سمجھتے ہیں توحید پرستوں کو مسجدوں سے روکتے ہیں اگر کسی نے بسا اوقات نماز پڑھ بھی لیا تو مسجدوں کو دھوتے تک ہیں ، یہ تعلیمات قرآنی سے دور اور جہالت کا ثبوت ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسجدوں کے آداب:
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
واذافعلوافاحشۃ قالواوجدنا علیھا ابآء ناواللہ امرنا بھا قل ان اللہ لایامربالفحشاء اتقولون علی اللہ مالاتعلمون یبنی ادم خذوازینتکم عندکل مسجد وکلو اواشربواولا تسرفوا انہ لایحب المسرفین(الاعراف ۷:۲۷سے ۳۱)
ترجمہ :اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریق پر پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی بتایا ہے آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ فحش بات کی تعلیم نہیں دیتا، کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے ؟آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے حکم دیا ہے انصاف کا اور یہ کہ تم ہرسجدہ کے وقت اپنا رخ سیدھارکھا کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طور پر کرو کہ اس عبادت کو خالص اللہ ہی کے واسطے رکھو تم کو اللہ نے جس طرح شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہو گئے
بعض لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی ہے اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی ہے ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا ہے اور خیال رکھتے ہیں کہ وہ راست پر ہیں اے اولاد آدم!تم مسجد کی ہر حاضری کی وقت اپنالباس پہن لیا کرو اور خوب کھاؤ اور پیو اور حدسے مت نکلو بے شک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا
توضیح :مشرکین و کفار مکہ بت پرستی آباء و اجداد پرستی، توہم پرستی اور بھی بہت سی رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اسی جہالت کے سبب وہ برہنہ ننگے ہو کر خانہ کعبہ کا کیا کرتے تھے اس بے ہودہ حرکتوں سے نبی اکرم ﷺ نے انہیں روکا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہی صحیح طریقہ ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات نازل فرمایا اور انہیں آداب مساجد بتایا گیا ہے کہ جب ہم مسجد میں آئیں تو ادب و احترام کے ساتھ پاک ہو کر آئیں اور ہمارے کپڑے بھی پاک وصاف رہیں اور نماز میں خشوع اور خضوع رکھیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مساجد تعلق باللہ کا ذریعہ ہیں :
الذین اخرجوامن دیارھم بغیرحق الا ان یقولواربنا اللہ ولولادفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع وبیع وصلوت ومسجدیذکرفیھا اسم اللہ کثیراولینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیز(الحج ۲۲:۴۰)
ترجمہ :یہ وہ ہیں جنھیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا، صرف ان کے اس قول پر کہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام بہ کثرت لیا جاتا ہے جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے
توضیح : اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان توحید پرستوں کی کیفیت بیان فرمائی ہے کہ انہیں ہمیشہ کافرین و مشرکین سے ایذائیں پہنچتے رہیں گے جن پر انہیں صبر کرنا ہے اور اپنا تعلق برابر اللہ تعالیٰ سے اس کی عبادت کر کے قائم رکھنا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے گھر مسجدیں آباد رہیں گے اس کی برکتوں سے اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی رحمت مومنوں کے ساتھ شامل رہیں گی اور جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جانے لگے گی مسلمان سرکشی کرنے لگیں گے نمازیں نہیں پڑھیں گے تو پھر ان پر اللہ کا غضب، ذلت ورسوائی نازل ہو گی تواس ذلت اور رسوائی سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسجدوں کی شہادت ہماری نافرمانیوں کا صلہ ہیں :
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتب لتفسدن فی الارض مرتبین ولتعلن علواکبیرا ان احسنتم احسنتم لانفسکم وان اساتم فلھا فاذاجآء وعدالاخرۃ لیسوء اوجوھکم ولید خلوا المسجد کمادخلوہ اول مرۃ ولیتبرواما علواتتبیرا(بنی اسرائیل ۱۷:۴سے ۸)
ترجمہ :اور ہم نے بنواسرائیل کے لیے ان کی کتاب میں صاف فیصلہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دوبارفساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے
ان دونوں وعدوں میں سے پہلے کے آتے ہی ہم نے تمہارے مقابلہ پر اپنے بندے بھیج دیئے جو بڑے ہی لڑاکے تھے پس وہ تمہارے گھروں کے اندر تک پھیل گئے اور اللہ کا یہ وعدہ پورا ہونا ہی تھا پھر ہم نے ان پر تمہارا غلبہ دے کر تمہارے دن پھیرے اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں بڑے جتھے والا بنا دیا
اگر تم نے اچھے کام کیے تو خود اپنے ہی فائدہ کے لیے ، اور اگر تم نے برائیاں کیں تو بھی اپنے ہی لیے ، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا(تو ہم نے دوسرے بندوں کو بھیج دیا تاکہ)وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور پہلی دفعہ کی طرح پھر اسی مسجد میں گھس جائیں اور جس جس چیز پر قابو پائیں توڑ پھوڑ کر جڑسے اکھاڑ دیں
قریب ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے ہاں اگر تم نے دوبارہ وہی حرکت کی توہم بھی دوبارہ ایساہی کریں گے اور ہم نے منکروں کا قید خانہ جہنم بنا رکھا ہے
توضیح : ۶۰۰ ق م جب یروشلم میں اہل کتاب یہودیوں کی نافرمانی وسرکشی حدسے بڑھ گئی تورات کے احکامات کے خلاف ورزی کرنے لگی اللہ تعالیٰ کے پیغامبروں حضرت شعیب علیہ السلام کو قتل کر دیا اور دیگر کو قیدی بنا لئے زمین میں فتنہ وفساد برپا کر دیا تو اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اور بطور عذاب اللہ تعالیٰ نے جالوت بادشاہ کو (ایک قول کے مطابق بخت نصر بادشاہ) ان پر مسلط کر دیاجس نے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے قتل و غارت گری کیا اور بہتوں کو قیدی بنایا اور ہیکل سلیمانی کو ڈھا دیا مسجدوں کی بے حرمتی اور توڑ پھوڑ کر دی ان پر اس سے پہلے اس طرح عذاب آئے تو پھر یہ لوگ مار کھانے کے بعد سدھر ے اور ایک وقت تک یہ قوم صحیح رہی پھر دوبارہ وہی حرکتیں کرنے لگے تو پھر عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات میں ہمیں انتباہ فرمایا ہے کہ اگر تم ایسی سرکشی کرو گے توہم تم پر ظالم بادشاہوں ، ظالم حکمرانوں کو مسلط کر دیں گے وہ بھی اسی طرح ظلم کریں گے جیسا کہ بنی اسرائیل پر کیا تھا
 
Top