• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاعتراف بالفضل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
15- عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺإِذْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ آخِذًا بِطَرَفِ ثَوْبِهِ حَتَّى أَبْدَى عَنْ رُكْبَتِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺأَمَّا صَاحِبُكُمْ فَقَدْ غَامَرَ فَسَلَّمَ وَقَالَ إِنِّي كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ ابْنِ الْخَطَّابِ شَيْءٌ فَأَسْرَعْتُ إِلَيْهِ ثُمَّ نَدِمْتُ فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَغْفِرَ لِي فَأَبَى عَلَيَّ فَأَقْبَلْتُ إِلَيْكَ فَقَالَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ثَلَاثًا ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ نَدِمَ فَأَتَى مَنْزِلَ أَبِي بَكْرٍ فَسَأَلَ أَثَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَقَالُوا لَا فَأَتَى إِلَى النَّبِيِّ ﷺفَسَلَّمَ فَجَعَلَ وَجْهُ النَّبِيِّ ﷺيَتَمَعَّرُ حَتَّى أَشْفَقَ أَبُو بَكْرٍ فَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ أَنَا كُنْتُ أَظْلَمَ مَرَّتَيْنِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺإِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي إِلَيْكُمْ فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ صَدَقَ وَوَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُوا لِي صَاحِبِي مَرَّتَيْنِ فَمَا أُوذِيَ بَعْدَهَا. ([1])
(۱۵)سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر تھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کا کنارہ پکڑے ہوئے ،گھٹنا کھولے ہوئے آئے۔ رسول اللہﷺنے یہ حالت دیکھ کر فرمایا ،معلوم ہوتا ہے تمہارے دوست کسی سے لڑ کر آئے ہیں ۔پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حاضر ہو کر سلام کیا اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میرے اور عمر بن خطاب کے درمیان کچھ تکرار ہو گئی تھی۔ اور اس سلسلے میں میں نے جلدی میں ان کو سخت لفظ کہہ دیئے لیکن بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی تو میں نے ان سے معافی چاہی اب وہ مجھے معاف کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اسی لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ آپ نے فرمایا اے ابو بکر! تمہیں اللہ معاف کرے۔ تین مرتبہ آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا ۔عمر رضی اللہ عنہ کو بھی ندامت ہوئی اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے اور پوچھا کیا ابو بکر گھر پر موجود ہیں؟ معلوم ہوا کہ نہیں تو آپ بھی نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا ۔رسول اللہﷺکا چہرہ مبارک غصہ سے بدل گیا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ ڈر گئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ! اللہ کی قسم زیادتی میری ہی طرف سے تھی۔ دو مرتبہ یہ جملہ کہا اس کے بعد رسول اللہﷺنے فرمایا اللہ نے مجھے تمہاری طرف نبیﷺ بنا کر بھیجا تھا۔ اور تم لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تم جھوٹ بولتے ہو لیکن ابو بکر نے کہا تھا آپ سچے ہیں اور اپنی جان و مال کے ذریعہ انہوں نے میری مدد کی تھی تو کیا تم لوگ میرے دوست کو ستانا چھوڑتے ہو یا نہیں؟ آپ نے دو دفعہ یہی فرمایا آپ کے یہ فرمانے کے بعد پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے نہیں ستایا۔

16- عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا غِرْتُ عَلَى نِسَاءِ النَّبِيِّ ﷺإِلَّا عَلَى خَدِيجَةَ وَإِنِّي لَمْ أُدْرِكْهَا قَالَتْ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺإِذَا ذَبَحَ الشَّاةَ فَيَقُولُ أَرْسِلُوا بِهَا إِلَى أَصْدِقَاءِ خَدِيجَةَ قَالَتْ فَأَغْضَبْتُهُ يَوْمًا فَقُلْتُ خَدِيجَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺإِنِّي قَدْ رُزِقْتُ حُبَّهَا. ([2])
(۱۶)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺکی بیوں پر رشک نہیں کیا البتہ خدیجہ پر کیا اور میں نے ان کو نہیں پایا رسول اللہﷺجب بکری ذبح کرتے تو فرماتے اس کا گوشت خدیجہ کے عزیزوں کو بھیجو۔ ایک دن میں نے آپ پر غصہ کیا اور کہا خدیجہ۔ آپ نے فرمایا مجھے ان کی محبت اللہ تعالیٰ نےڈال دی۔


[1] - صحيح البخاري - (ج 11 / ص 496) بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا, كِتَاب الْمَنَاقِبِ (3388)
[2] - صحيح مسلم - (ج 12 / ص 181) بَاب فَضَائِلِ خَدِيجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا, كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ (4464)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
17- عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَطَبَ النَّبِيُّ ﷺفَقَالَ إِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي مَا يُبْكِي هَذَا الشَّيْخَ إِنْ يَكُنْ اللَّهُ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺهُوَ الْعَبْدَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا قَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ لَا تَبْكِ إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَكْرٍ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا مِنْ أُمَّتِي لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ وَمَوَدَّتُهُ لَا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ إِلَّا بَابُ أَبِي بَكْرٍ.
(۱۷)ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو دنیا میں اور جو کچھ اللہ کے پاس آخرت میں ہے ان دونوں میں سے کسی ایک کا اختیار دیا تو اس بندے نے اختیار کر لیا جو اللہ کے پاس تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ رونے لگے۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم کو انکے رونے پر حیرت ہوئی کہ رسول اللہﷺتو کسی بندے کے متعلق خبردے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا تھا۔ لیکن بات یہ تھی کہ خود رسول اللہﷺہی وہ بندے تھے جنہیں اختیار دیا گیا تھا اور(واقعتاً) جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ رسول اللہﷺنے ایک مرتبہ فرمایا کہ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پر ابو بکر کا سب سے زیادہ احسان ہے اور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو جانی دوست بنا سکتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور اسلام کی محبت ان سے کافی ہے۔ دیکھو مسجد کی طرف تمام دروازے (جو صحابہ کے گھروں کی طرف کھلتے تھے) سب بند کر دیئے جائیں ۔صرف ابو بکر رضی اللہ عنہ کا دروازہ رہنے دو ۔ ([1])
18- عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺقَالَ فِي أُسَارَى بَدْرٍ لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِيٍّ حَيًّا ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلَاءِ النَّتْنَى لَتَرَكْتُهُمْ لَهُ. ([2])
(۱۸)محمد بن جبیر نے اور انہیں ان کے والد نے کہ رسول کریمﷺ نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ اگر مطعم بن عدی( جو کفر کی حالت میں مر گئے تھے) زندہ ہوتے اور ان نجس ناپاک لوگوں کی سفارش کرتے تو میں ان کی سفارش سے انہیں (فدیہ لئے بغیر چھوڑ دیتا)۔([3])

19- عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ ﷺيَوْمَ حُنَيْنٍ قَسَمَ فِي النَّاسِ فِي الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا فَكَأَنَّهُمْ وَجَدُوا إِذْ لَمْ يُصِبْهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ فَخَطَبَهُمْ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاكُمْ اللَّهُ بِي وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ فَأَلَّفَكُمْ اللَّهُ بِي وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمْ اللَّهُ بِي كُلَّمَا قَالَ شَيْئًا قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ قَالَ مَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تُجِيبُوا رَسُولَ اللَّهِ ﷺقَالَ كُلَّمَا قَالَ شَيْئًا قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ قَالَ لَوْ شِئْتُمْ قُلْتُمْ جِئْتَنَا كَذَا وَكَذَا أَتَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ وَتَذْهَبُونَ بِالنَّبِيِّ ﷺإِلَى رِحَالِكُمْ لَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنْ الْأَنْصَارِ وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَشِعْبَهَا الْأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أُثْرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ. ([4])
(۱۹)عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺکو جو غنیمت دی تھی آپ نے اس کی تقسیم کمزور ایمان کے لوگوں میں ( جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے) کردی اور انصار کو اس میں سے کچھ نہیں دیا۔ اس کا انہیں کچھ ملال ہوا کہ وہ مال جو رسول اللہﷺنے دوسروں کو دیا انہیں کیوں نہیں دیا۔ آپ نے اس کے بعد انہیں خطاب کیا اور فرمایا اے انصاریو! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا پھر تم کو میرے ذریعہ اللہ نے ہدایت نصیب کی اور تم میں آپس میں دشمنی اور نا اتفاقی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم میں باہم الفت پیدا کی اور تم محتاج تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ غنی کیا۔ آپ کے ایک ایک جملے پر انصار کہتے جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں۔ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ میری باتوں کا جواب دینے سے تمہیں کیا چیز مانع رہی؟ بیان کیا کہ رسول اللہﷺکے ہر اشارہ پر انصار عرض کرتے جاتے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں پھر رسول اللہﷺنے فرمایا کہ اگر تم چاہتے تو مجھ سے اس اس طرح کہہ سکتے تھے( کہ آپ آئے تو لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے لیکن ہم نے آپ کی تصدیق کی وغیرہ) کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب لوگ اونٹ اور بکریاں لے جارہے ہوں گے تو تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہﷺکو ساتھ لئیے جا رہے ہو گے؟ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک آدمی بن جاتا لوگ خواہ کسی گھاٹی یا وادی میں چلیں میں تو انصار کی وادی اور گھاٹی میں چلوں گا۔ انصار اس کپڑے کی طرح ہیں یعنی استر جو ہمیشہ جسم سے لگا رہتا ہے اور دوسرے لوگ اوپر کے کپڑے کی طرح ہیں یعنی ابرہ۔ تم لوگ ( انصار)دیکھو گے کہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائےگی۔ تم ایسے وقت میں صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آملو۔

20- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺلَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ. ([5])
(۲۰)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے فرمایا مت براکہو میرے اصحاب کو مت برا کہو میرے اصحاب کو قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی تم میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے مد یا آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا۔

21- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺمَنْ لَمْ يَشْكُرْ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرْ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ. ([6])
(۲۱)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺنے فرمایا جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا کرنا نہیں جانتا وہ اللہ کا شکریہ ادا نہیں سکتا۔

[1] - 17- صحيح البخاري - (ج 2 / ص 268) كِتَاب الصَّلَاةِ, بَاب الْخَوْخَةِ وَالْمَمَرِّ فِي الْمَسْجِدِ (446)
[2] - صحيح البخاري - (ج 10 / ص 389) كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ, بَاب مَا مَنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْأُسَارَى مِنْ غَيْرِ أَنْ يُخَمِّسَ (2906)
[3])صحيح بخاري حديث نمبر(۳۱۳۹)
[4] - صحيح البخاري - (ج 13 / ص 224) كِتَاب الْمَغَازِي, بَاب غَزْوَةِ الطَّائِفِ (3985)
[5] - صحيح مسلم - (ج 12 / ص 369) بَاب تَحْرِيمِ سَبِّ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ, كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ (4610)
[6] - مسند أحمد - (ج 15 / ص 232) (7191 ) السلسلة الصحيحة - (ج 1 / ص 415)برقم :416
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
احسان ماننے کے متعلق آثار اور اقوال علماء

(۱)امام ابو حاتم بستی رحمہ اللہ نے کہا انسان پر احسان کی شکر ادائی اور اپنی وسعت و طاقت کے مطابق احسان کا بدلہ دینا واجب ہے۔ اگر طاقت ہو تو دگنا بدلے دے ورنہ برابر کا تو دے۔ یہ بھی نہیں کر سکتا تو احسان کی قدر جانے اور بطور شکریہ ادائی" جزاک اللہ خیرا" یعنی اللہ تجھے اچھا بدلہ دے" کے الفاظ تو کہے۔ اور کہا "علی بن محمد نے مجھے یہ اشعار سنائے "کسی کے احسان کا شکر ادا کرنے کی علامت اس کی تعریف کا اظہار کرنا ہے۔ پس جس نے کسی کو مہربان کی چھپایا اس نے شکر ادا نہیں کیا جب بھی میرا کوئی دوست خیر حاصل کرتا ہے پھر میرے ساتھ خیانت کرتا ہے۔

(۲)ابراہیم بن ادھم کے ساتھ جب کوئی احسان کرتا تو وہ چاہتے کہ اس کو برابر کا بدلہ دیں یا اس سے بھی اچھا بدلہ دیں ۔اس کے ایک ساتھی نے کہا کہ وہ مجھے ملے جب میں گدھے پر سوار رملہ سے بیت المقدس کی طرف جا رہا تھا ۔انہوں نے چار دوانیق سے سیب سفر جل (بہی) شفتا لو اور دیگر میوہ خریدا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم یہ اٹھاؤ ۔آگے چلے تو ایک یہودی عورت اپنی جھوپڑی پر بیٹھی دیکھی۔ ابراہیم بن ادھم نے کہا میں چاہتا ہوں کہ تویہ چیزیں اس یہودی عورت تک پہنچائے ۔کیوں کہ ایک دفعہ میں اس کے پاس سے شام کے وقت گذرا تھا تو اس نے مجھے اپنے ہاں ٹھہرا یا تھا۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس کا اچھا بدلہ دوں۔

(۳)امام ابن حبان البستی نے کہا ہے "میں پسند کرتا ہوں کہ انسان احسان کا شکر اداکرنے کو لازم کرے اور اس کے بارے میں کوشش کرے اور احسان اور نیکی کرنے کا اہتمام اور ارادہ کرے اس لئے کہ نیکی کا اہتمام یا ارادہ بعض اوقات نیکی سے (ثواب میں )بڑھ جاتا ہے۔ کیوں کہ نیکی تو انسان خود کے لئے کرتا ہے، جبکہ احسان دوسرے لوگوں کے ساتھ کرتا ہے اور وہ بھی (کبھی کبھی) بغیر اہتمام (یا ارادہ) کے ساتھ اور کبھی کبھی انسان اس کو نا پسند کرتے ہوئے بھی کرتا ہے جبکہ اہتمام تو فقط جذبہ اور لگن سے اور مزید چاہت سے ہوتا ہے ۔لہذا عقلمند اہتمام کا شکر احسان اور اچھائی کے شکر سے بھی بڑھ کر کرتا ہے ۔عبدالعزیز سلیمان نے کہا : "میں تیری اس اچھائی کا شکر ضرور ادا کروں گا جس کا تونے ارادہ کیا ہے اور اگر تقدیر نے اسے ہونے نہیں دیا تو اس کی تجھ پر ملامت نہیں کروں گا۔ کیوں کہ وہ چیز جسے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تقدیر اسے پھیر دیتی ہے۔

(۴)اور انہوں نے کہا کہ منتصر بن بلال نے مجھے کچھ اس طرح اشعار سنائے جو تیرے ساتھ اچھائی کرتا ہے تو اس کا شکر ادا کرتو اس کی اچھائی ضائع نہیں ہوگی اور شکر ادائی میں بخل نہ کر اور قرض ادا کرتو تُو بہترین احسان کیا ہوا اور بہترین اچھائی کرنے والا ہوگااور کریزی نے کہا "لوگوں میں سے تیرے حسن تعاون کا زیادہ حقدار وہ شخص ہے جس پر تم پہلے احسان کر چکے ہو۔اور سب سے زیادہ شکر ادا کرنے والا بھی ا ن میں سےوہ شخص ہے جو تمہاری اچھائی اور نیکی کا زیادہ مستحق ہے۔

اور بعض اہل علم نے کہا ہے: اور احسان کرنے والوں کے فضل کا شکر ادا کرنے والا بن جا اور ان پر مہربانی کر جب تجھے قدرت ہو اور احسان بھی کر اور شکر ادا کرنے والا تو مزید (اچھائی ) کا مستحق ہے۔ اور احسان کرنے والا ہر نیکی کا اہل ہے۔اور حر نے کہا "(انسان)احسان اور نعمت کی نا شکری نہ کرے اور نہ ہی مصیبت کے وقت غصہ کرے، بلکہ نعمتوں کے وقت شکر کرے اور مصائب کے دوران صبر کرے اور جو شخص تھوڑی نیکی اور احسان کی قدر نہیں کرتا قریب ہے کہ وہ زیادہ کا شکر بھی ادا نہ کرے اور شکر کے بغیر مزید نعمتوں کا حصول اور آفات سے بچاؤ ممکن نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
احسان ماننے کے فوائد

(۱)مہربان اور مہربانی دونوں کا اعتراف ہے۔

(۲)نعمت کی حفاظت بلکہ مزید حاصل کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔

(۳)احسان مندی فقط زبان سے نہیں ہوتی بلکہ زبان اس چیز کی تعبیر کرتی ہے جو دل کے اندر (جذبہ شکر) ہوتا ہے، بلکہ زبان اور اسی طرح عمل جوارح و ارکان (یعنی ظاہری اعمال ) سے ہوتی ہے۔

(۴)احسان کرنے والے کے کثرت انعام کا انسا ن شکر کے بغیر حق ادا نہیں کر سکتا ۔

(۵)اس سے رب تعالیٰ کی رضامندی اور محبت کماتا ہے۔


نضرۃ النعیم
 
Top