- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
حسبہ کے ماتحت محکمہ جات
الحمد ﷲ رب العالمین والصلوہ والسلام علی رسولہ الاٰمین وعلی الہ وصحبہ اجمعین وبعد
الامر بالمعروف والنھی عن المنکر اسلام کے عظیم شعائر میں سے ایک نہایت اہم شعبہ اور اسلامی ریاست کی وزارتوں میں سے ایک اہم وزارت ہے۔ اگرچہ اسلامی ریاست کا مقصد اولین الامر بالمعروف والنھی عن المنکر ہے لیکن عملی طور پر خلافت راشدہ کے بعد عمر بن عبدالعزیز کی خلافت میں اس فریضے کا احیاء”وزارت مظالم“ کے عنوان سے ہوا تھا۔ زیر نظر مقالہ میں ہم وزارت حسبہ کو تفویض کئے جانے والے شعبہ ہائے جات پر روشنی ڈالیں گے اور اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے کہ اسلامی ریاست کس طرح الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی ہے کیونکہ یہ فریضہ اس امت کی خصوصیات میں سے ایک ایسی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اُمت محمدیہ کو بہترین اُمت کا لقب دیا گیا ہے۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو“۔
اِس اہم فریضہ کو باحسن طریقے سے انجام دینے کیلئے اللہ تعالیٰ اسی سورہ کی آیت ١٠٤ میں ارشاد فرماتا ہے:
”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور بُرائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے“۔
سورہ حج میں اسلامی ریاست کے فرائض، اقامت صلوہ اور نظام زکوٰت کے علاوہ جس تیسرے فریضہ کا حکم دیا گیا ہے وہ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:
”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوت دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے“۔ (سورہ حج: ٤١)
فریضہ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کی اہمیت اور وجوب سے متعلق کتاب وسنت میں بے شمار نصوص ہیں جن کا استقصا کرنا ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر یہ امر ہے کہ مسلمان عملاً کس طرح ان نصوص مبارکہ سے عہدہ برآہوئے تھے۔ معاشرے کی سطح پر ان احکام کو کس طرح منطبق کیا گیا تھا، اسلامی ریاست کے پھیلائو اور اُس وقت کے تقاضوں کے مطابق اس فریضے کے نفاذ میں کیا کیا تبدیلی اور وسعت پیدا کی جاتی رہی تھی کہ جس سے ہر زمانے اور ہر معاشرے میں اس فریضہ پر عمل پیرا ہونا ممکن رہا تھا اور جس کی وجہ سے اُمت محمدیہ اجتماعی سطح پر خیر پر رہی تھی۔ یہاں تک کہ اس فریضہ کو ترک کرنے سے ایسا بُرا زمانہ آگیا ہے کہ جس سے آپ پوری طرح آگاہ ہیں۔ اجتماعی سطح پر الامر بالمعروف والنھی عن المنکر مکمل طور پر فراموش کردیا گیا ہے اور اس فریضے کے نافذ ہونے سے معاشرے میں جو برکات ہوا کرتی تھیں اب وہ قصہ پارینہ بن چکی ہیں اکثر اسلامی ملکوں میں سرے سے ’وزارت حسبہ‘ جو سرکاری سطح پر الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی ہے سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ مملکت سعودی عرب میں .... بحمدللہ .... الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا شعبہ سرکاری سطح پرقائم ہے لیکن اس کے اختیارات محدود اور کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس محکمہ کو فعال کرکے اُس کے وہ تمام اختیارات بحال کئے جائیں جو تاریخ اسلامی میں وزارت حسبہ کے پاس ہوا کرتے تھے۔ ان اختیارات کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔
الحمد ﷲ رب العالمین والصلوہ والسلام علی رسولہ الاٰمین وعلی الہ وصحبہ اجمعین وبعد
الامر بالمعروف والنھی عن المنکر اسلام کے عظیم شعائر میں سے ایک نہایت اہم شعبہ اور اسلامی ریاست کی وزارتوں میں سے ایک اہم وزارت ہے۔ اگرچہ اسلامی ریاست کا مقصد اولین الامر بالمعروف والنھی عن المنکر ہے لیکن عملی طور پر خلافت راشدہ کے بعد عمر بن عبدالعزیز کی خلافت میں اس فریضے کا احیاء”وزارت مظالم“ کے عنوان سے ہوا تھا۔ زیر نظر مقالہ میں ہم وزارت حسبہ کو تفویض کئے جانے والے شعبہ ہائے جات پر روشنی ڈالیں گے اور اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے کہ اسلامی ریاست کس طرح الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی ہے کیونکہ یہ فریضہ اس امت کی خصوصیات میں سے ایک ایسی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اُمت محمدیہ کو بہترین اُمت کا لقب دیا گیا ہے۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو“۔
اِس اہم فریضہ کو باحسن طریقے سے انجام دینے کیلئے اللہ تعالیٰ اسی سورہ کی آیت ١٠٤ میں ارشاد فرماتا ہے:
”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور بُرائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے“۔
سورہ حج میں اسلامی ریاست کے فرائض، اقامت صلوہ اور نظام زکوٰت کے علاوہ جس تیسرے فریضہ کا حکم دیا گیا ہے وہ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:
”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوت دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے“۔ (سورہ حج: ٤١)
فریضہ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کی اہمیت اور وجوب سے متعلق کتاب وسنت میں بے شمار نصوص ہیں جن کا استقصا کرنا ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر یہ امر ہے کہ مسلمان عملاً کس طرح ان نصوص مبارکہ سے عہدہ برآہوئے تھے۔ معاشرے کی سطح پر ان احکام کو کس طرح منطبق کیا گیا تھا، اسلامی ریاست کے پھیلائو اور اُس وقت کے تقاضوں کے مطابق اس فریضے کے نفاذ میں کیا کیا تبدیلی اور وسعت پیدا کی جاتی رہی تھی کہ جس سے ہر زمانے اور ہر معاشرے میں اس فریضہ پر عمل پیرا ہونا ممکن رہا تھا اور جس کی وجہ سے اُمت محمدیہ اجتماعی سطح پر خیر پر رہی تھی۔ یہاں تک کہ اس فریضہ کو ترک کرنے سے ایسا بُرا زمانہ آگیا ہے کہ جس سے آپ پوری طرح آگاہ ہیں۔ اجتماعی سطح پر الامر بالمعروف والنھی عن المنکر مکمل طور پر فراموش کردیا گیا ہے اور اس فریضے کے نافذ ہونے سے معاشرے میں جو برکات ہوا کرتی تھیں اب وہ قصہ پارینہ بن چکی ہیں اکثر اسلامی ملکوں میں سرے سے ’وزارت حسبہ‘ جو سرکاری سطح پر الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی ہے سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ مملکت سعودی عرب میں .... بحمدللہ .... الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا شعبہ سرکاری سطح پرقائم ہے لیکن اس کے اختیارات محدود اور کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس محکمہ کو فعال کرکے اُس کے وہ تمام اختیارات بحال کئے جائیں جو تاریخ اسلامی میں وزارت حسبہ کے پاس ہوا کرتے تھے۔ ان اختیارات کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔