• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

التماس برائے دعائے مغفرت و رفع درجات

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
زاہد بھائی، جان کر دلی دکھ ہوا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کے والد محترم کے صغیرہ کبیرہ گناہ فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت نعیم عطا فرمائے، آمین!

اللہ سے دعا کہ سب گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَ‌اجِعُونَ
اللھم اغفر لہ وارحمہ ،وعافہ واعف عنہ ،واکرم نزلہ ووسع مدخلہ ،واغسلہ بالماء والثلج والبرد ونقہ من الخطایا کما نقیت الثوب الابیض من الدنس ،وابدلہ دارا خیرا من دارہ و اھلا خیرا من اگلہ و زوجا خیرا من زوجہ وادخلہ الجنۃ الفردوس
اللھم انہ اصبح فقیرا الی رحمتک وانت غنی عن عذابہ فارحمہ
اللھم انت خلقتہ وانت رزقتہ وانت قبضت روحہ وانت اعلم بسرہ وعلانیتہ جئنا شفعالہ فاغفرلہ وارحمہ
اللھم ان کان محسنا فزد فی احسانہ وان کان مسیئا فتجاوزْ عن سیئاتہ
اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تضلنا بعدہ

اللہ تعالی آپ کے والد صاحب کی مغفرت فرمائیں اور ان کے درجات بلند کریں ۔ آمین
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
میرے والد میرے مربی
کہتے کہتے سانس رکی اور ختم ہوا افسانہ زندگی۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
میرے والد میرے مربی میرے دوست جو کہ عالم وجود میں اب نہیں رہے اور رحمت الہی کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔ بدھ بروز 18 جون بعد نماز عصر جب میں ان سے ملنے گیا تو ان سے بات نہیں کی جا رہی تھی بہت مشکل سے اپنے جملے مکمل کیے:
بیٹا جی اللہ رب العزت نے سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو قاتلانہ حملے کے بعد تیسرے دن یا چوتھے دن اپنے پاس بلا لیا تھا یعنی آخری وقت کی تکلیف سےفاروق اعظم بھی محفوظ نہیں رہے تو میں کیا اور میری اوقات کیا ؟ لیکن بیٹا جی میرا دل کہتا ہے کہ مجھے بھی اللہ تعالی تیسرے سے چوتھا دن نہیں دے گا۔ پھر ایک طویل خاموشی اور پھر کہنے لگے کہ مجھے اللہ تعالی سے اس کی رحمت کے اسباب میں سے ایک سبب پر اندھا یقین ہے کہ وہ مجھے رسوا نہیں ہونے دے گا کہ میں نے اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ۔ اور پھر فوجی فاونڈیشن ، جناح کارڈیو، لیاقت نیشنل اور پھر مہران میڈیکل سینٹر اور پھر سفر آخرت کے مراحل جن کا آغاز بدھ نماز فجر کے بعد سے ہوا تھا اختتام جمعہ کی صبح فجر کے بعد تقریبا چھ بجے ۔
جاں جس کی دی ہوئی تھی اسی کے سپرد کر دی۔
جامعہ ابی بکر کے صحن میں بعد از نماز عصر ساڑھے پانچ بجے عم محترم حافظ فیض الرحمن (جو ہنگامی طور پر بھلوال سے کچھ دیر پہلے ہی طویل سفر طے کر کے پہنچے تھے ، کیونکہ ابی جی رحمہ اللہ کی وصیت تھی کہ زیادہ دیر نہ کرنا اور کسی کا انتظار نہ کرنا چند افراد ہی کافی ہوں گے نماز جنازہ کے حوالے سے انہوں نے ایک ماہ قبل مجھ سے کہا تھا کہ فیض الرحمن اگر پہنچ سکے تو فبہا ورنہ تم یا ضیاء الرحمن ۔ بن محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ ۔میری نماز پڑھا دینا) نے نماز جنازہ پڑھائی ۔غسل برادرم مکرم فیض الانوار ، فیض الوقار نے استاد مکرم و محترم ڈاکٹر عبدالحئی المدنی حفظہ اللہ کی رہنمائی میں دیا۔ جامعہ ابی بکر میں چھٹیوں کے باوجود جامعہ کے اساتذہ ، علماء اہل علم و عمل اور طلباء اور عام لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے گرمی کی شدت کے باوجود شرکت کی اور شاہ فیصل ٹاون کے قبرستان میں برلب سڑک ان کی آخری آرام گاہ قرار پائی۔قبر میں چھوٹے بھائی فیض العمار اور عم محترم فیض الرحمن نے اتارا۔یعنی آخری تمام رسوم ان کی خواہش کے مطابق خود ان کی اولاد کے ہاتھوں ہی طے پائی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ہر شخص کے لیے باپ کا وجود ایک شجر سایہ دار کا سا ہوتا ہے سو میرے لیے بھی تھا لیکن میرے لیے میرے والد محترم اس سے بھی بڑھ کر تھے وہ میرے مربی بھی تھے اور میرے دوست بھی ۔ میں نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ کیسا باپ مثالی ہوا کرتا ہے یا باپ کو کیسا ہونا چاہیے تو کہنے لگے کہ وہ باپ جو اپنی اولاد کے لیے دوست بھی بن سکےاور میں اپنے ارد گرد معاشرے کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو ایسے باپ خال خال ہی ملتے ہیں۔
ابی جی رحمہ اللہ جن کی تاریخ پیدائش کاغذات کے اعتبار سے یکم جنوری1939 بمقام فتح پور مضافات راجوری مقبوضہ کشمیرہے۔ لیکن قیام پاکستان کے حوالے سے جو واقعات وہ سناتے تھے ان کی رو سے تو ان کی عمر کم ازکم دس سے زائد معلوم ہوتی تھی لیکن ان کی قوت حافظہ جو کہ میرے لیے بے مثال تھی اس سے کچھ بعید نہ تھا ۔قوت مشاہدہ اور قوت اخذ میں نے اپنی پوری زندگی میں ان سے بڑھ کر کسی کو نہ پایا۔قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ بے شمار کتب جو نظر سے گزری ہوئی تھی وہ ان کے حافظہ میں کم و بیش اسی طرح موجود ہوا کرتی تھی بالخصوص علم تاریخ اور علم طب میں تو میں حیران ہوا کرتا تھا کہ کس طرح افراد تاریخ کا تسلسل کے ساتھ یاد کیا جانا اور علم طب میں وہ اس اعتبار سے بے مثال تھے جو آج کل حکماء طب میں شاید ہی پائی جاتی ہو کہ ادویاء کی ماہیت اور اصل شاید مخزن المفردات اور انسائیکلوپیڈیاز انہیں حفظ ہوا کرتے تھے لیکن وفات سے ایک سال قبل مجھے فون آیا کہ بیٹا فرصت ملے تو گھر کا چکر لگانا میں ان دنوں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کے قریب رہائش پذیر تھا اور وہ شاہ فیصل کالونی بڑے بھائی کے پاس ۔
اگلے دن جب میں ان سے ملنے گیا تو بات کرتے کرتے رو پڑے اور کافی دیر ایک ہی جملہ دہراتے رہے کہ صرف یہ بتانے کے لیے بلایا تھا کہ اللہ واقعی سب سے بڑا ہے ۔مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا پھر ان کی وضاحت پر سمجھ آیا کہ بقول ان کے بیٹا جی مجھے اپنے حافظے پر اندھا یقین تھا کہ یہ مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا لیکن آج گھر سے کسی کام سے نکلا تو واپسی میں گھر تو کیا اپنا آپ بھئ بھول گیا کافی دیر تک گلی کے کونے بیٹھا یاد کرتا رہا کہ کون ہوں اور کہاں جانا ہے پھر عمار(چھوٹا بھائی) کو دیکھ کر اس کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہوا تو یاد داشت واپس آئی۔پھر اس کے بعد اپنا نام اور فون نمبر اپنے عارضی بستر کے پاس دیوار پر لکھ کرتے تھے کہ کوئی پوچھے تو بتایا جا سکے لیکن حیران کن امر یہ تھا کہ علمی طور پر حافظہ کا وہی عالم تھا کسی بھی دوائی کا نام لیں اس کے اجزاء اور ان کی اصل ماہیت اور کہاں سے اخذ کیے گئے کس طرح اخذ کیے گئے چند لمحات میں ذکر کر دیا کرتے تھے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
زندگی کے آخری دس سال ان کے قرآن مجید کے ساتھ گزرے گویا ان کا اوڑھنا بچھونا ہی فہم قرآن اور تفہیم قرآن تھا ان کی الماری سے مجھے تقریبا دس مختلف تراجم (اردو، عربی، انگریزی، فارسی) قرآن ایسے ملے جس میں انہوں نے سورۃ الفاتحہ سے سورۃ الناس تک مکمل گہرے غور وفکر کے ساتھ مطالعہ کرنے کے بعد اس پر حواشی اور عناوین تحریر کیے ہوئے تھے اور راقم نے قرآنی موضوعات کے حوالے سے جو کام دار السلام کے لیے کیا تھا جو بعض وجوہات کی بناء پر مکمل ہونے کے باوجود طبع نہ ہو سکا تھا اس میں عصری مسائل کے طور پر جتنے بھی موضوعات تھے وہ ان کی مساعدت سے ہی ترتیب دیےتھے جو آج بھی اسی طرح مسودہ کی صورت میں میرے پاس موجود ہے۔
اور ان کی یہ فہم قرآن کی کیفیات صرف علمی طو رپر نہ تھی بلکہ بے شمار مواقع پر میں نے حیران کن انداز میں اس کی تطبیق دیکھی اور زبردست نتائج مرتب ہوتے ہوئے دیکھے۔ میں نے کچھ عرصہ کاروبار بھی کیا تھا اور اس کاروبار میں کچھ جعل سازوں کی وجہ سے لاکھوں کا نقصان بلکہ زیربار ہونا پڑا میں شدید پریشانی کی کیفیات میں رہتا تھا تو ایک دن کہنے لگے بیٹا جی تم نے پریشانی کچھ زیادہ ہی اپنے اوپر حاوی نہیں کر لی؟ قصہ مختصر میں نے صرف قرضے کا بتایا کہ میں مقروض ہوں اور صرف اس امر کا خواہش مند ہوں کہ قبل از موت یہ قرضہ ادا ہو جائے کہنے لگے رات کو نماز کھانا وغیرہ سے فارغ ہو کر آنا پھر بات کریں گے۔ رات کو میں ان کے کمرے میں گیا تو دادا ابو کی ایک تحریر مجھے دی کہنے لگے ایسی ہی کیفیات سے میں بھی کبھی دوچار ہوا تھا تو ابا جی رحمہ اللہ نے مجھے یہ لکھ کر بھیجا تھا شاید اس امانت کی ادائیگی کا آج وقت آ گیا ہے کہ تمہیں سونپ دوں دادا ابو رحمہ اللہ کی اس تحریر میں وہ حدیث مبارکہ درج تھی کہ قرض کا پہاڑ بھی ہو تو یہ کلمات کثرت سے پڑھو قرض کی ادائیگی عالم ممکنات میں ہو جائے گی (
اللہم اکفنی بحلالک عن حرامک واغننی بفضلک عمن سواک) ۔
میں نے یہ کلمات کثرت سے پڑھنا شروع کیے چلتے پھرتے سوتے جاگتے ہر وقت یہی کلمات زیر لب ہوا کرتے تھے ایک سال گزر گیا دوسرا سال گرز گیا ۔ایک دن میں نے کہا کہ ابی جی دو سال ہو گئے ہیں یہ کلمات پڑھتے ہوئے مزید پیچھے ہی آیا ہوں پچھلے قرض کی ادائیگی کا بندوبست کیا ہونا ہے! ۔ بہت مطمئن لہجے میں کہنے لگے سورۃ الضحی تفسیر کے ساتھ پڑھو کہ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا بیتی تھی کہ رب العالمین کو آسمانوں سے تسلی دینی پڑ گئی تھی اور بیٹا جی پڑھتے رہو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا آزمائش جتنی طویل نتیجہ اتنا ہی زیادہ خوبصورت اور واقعی کچھ عرصے کے بعد فراوانی رزق کا عملی مشاہدہ کیا قرض کی ادائیگی بھی ممکن ہوئی بلکہ ان کی ایک بات اور حقیقت بن کر میرے سامنے آئی کہ بیٹا جی دروس، جمعہ، نکاح وغیرہ میں ہمیشہ انبیا کا یہ موقف سامنے رکھنا کہ مجھے اس پر کوئی معاوضہ نہیں چاہیے پھر دیکھنا اللہ تعالی کیا کرتا ہے اور واقعی ہی یہ سچ ثابت ہوا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
میرے چھوٹے چچا حافظ فیض الرحمن حال نزیل بھلوال سرگودھا بیان کرتے ہیں کہ میں بہت زیادہ پریشان تھا میں بھائی جان سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہنے لگے شاہ جی اللہ کا کلام حفظ کیا ہوا ہے لوگوں کو بتاتے ہو خود کیوں نہیں رجوع کرتے دریافت کرنے پر (و افوض امری الی اللہ ) کی آیت سمجھنے اور عمل کرنے کا کہا کہنے لگے کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ تمام مسائل ختم ۔ ایک بات مجھے ان کی آج بھی یاد ہے کہ قرآن مجید پر ایمان ہی نہیں بلکہ یقین رکھو اور عملی فہم اختیار کرو پھر دیکھو وہی نتائج سامنے آئیں گے جو سابقہ لوگوں کے سامنے آ تے رہے۔
اس کے علاوہ تراجم قرآن کے مختلف نسخوں پر ان کے اخذ کردہ فوائد میرے لیے حیران کن تھے کہ وہ شخص جو کسی مدرسہ کا فارغ نہ تھا گو کہ زندگی کے تین یا چار سال مختلف مدارس میں بغرض تعلیم صرف کیے ۔صرف دادا ابو رحمہ اللہ اور پر داداابو رحمہ اللہ کا گھر میں ہی پڑھانا اور دادا ابو رحمہ اللہ کے کچھ دوست جن میں سے ایک کا ذکر وہ کیا کرتے تھے کہ مولوی امام الدین رحمہ اللہ جو جامعہ الازھر میں 15 سال تدریس کے بعد اپنے گاوں میں بس گئے تھے اور عبرانی زبان کی معروف لغت جو غالبا اب پینگوئن سے چھپ رہی ہے اس کے سات حروف مکمل طور پر ان کی ترتیب تھے۔ اور اس پر عربی ،فارسی اور اردو کی دقیق عبارتوں کی فہم اپنی مثال آپ تھے اور ایک بات جو مجھے ان کے مطالعہ کتب میں بطور خاص نظر آتی تھی کہ کسی بھی کتاب کے مطالعہ کے دوران اس پر حواشی لکھنا تو ایک عام معمول ہے لیکن وہ باقاعدہ دیگر کتب سے حوالہ جات بھی تحریر لکھا کرتے تھے اور اپنے استفادات لازمی تحریر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ بیٹا جی صرف لائبریرین بننا ہے تو کوئی کمال نہیں اصل کمال تو یہ ہے کہ آپ کی کمائی کیا ہے اور آپ کا ماحصل کیا ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
میری معلومات کے مطابق کشمیری، پنجابی، سرائیکی، اور بین الاقوامی زبانوں میں سے اردو ، عربی، فارسی ، انگریزی تو مکمل طور پر اورفرانسیسی اور اطالوی زبان جزوی طور پر سیکھیں تھی۔کنگ ایڈروڈ لاہور سے ایم بی بی ایس ، فارغ علوم طبیہ ، اور چار مختلف مضامین اردو، عربی، فارسی، سیاسیات میں ایم اے کیا ہوا تھا۔لیکن پھر نہ جانے کیوں اپنی ساری سندات کو ایک مرتبہ تلف کر دیا اور اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے بہت سے مرتب اور غیر مرتب کاغذات اس وقت جلا دیئے جب 1996 میں کراچی سے ساہیوال ہجرت کی۔ میں نے اپنے والدمحترم میں دنیا سے بے رغبتی اور عدم طلب مثالی پائی اس اعتبار سے قناعت پسندی کی مکمل تصویر۔ میں نے اپنے والد محترم کی ذات میں پائی۔ مجھے بہت بعد میں اس کی سمجھ میں آئی جب ایک مرتبہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اپنی تمام سندات کو تلف کیوں کر دیا تھا تو کہنے لگےبیٹے جی میری نجات جس امر میں ہے اس کا وجود مجھے مطمئن نہیں کر رہا ہے کہ وہ مطلوبہ شکل میرے پاس نہیں ہے تو پھر ان سندات کا کیا کروں گا باقی رہی دنیا تو اس کے پیچھے جتنا بھاگوں گا یہ اتنا ہی مجھے خوار کرے گی ۔ لہذا میں نے ابی جی رحمہ اللہ کو ساری زندگی پاکستان پوسٹ آفس میں ایک کلرک کے طور پر گزارا کرتے اور بہت زیادہ مطمئن پایا کہ جس گریڈ میں بھرتی ہوئے تھے 27 سال کی سروس کے بعد صرف غالبا تین یا چار گریڈ کی ترقی ہوئی اور حیران کن امر تو یہ تھا کہ نوکری کے بعد انہوں نے جتنے تعلیمی مراحل طے کیے انہیں کبھی بھی ترقی اور تنخواہ میں اضافہ کے لیے استعمال نہیں کیا کہا کرتے تھے کہ بیٹا جی جتنا زیادہ کما لوں روٹی تو ایک ہی مقدر میں ہے ان کی ایسی باتیں اس وقت مجھے سمجھ میں نہیں آتی تھی لیکن اب جب خود عملی زندگی میں داخل ہوا ہوں تو کچھ کچھ سمجھ میں آ رہا ہے کہ توکل شاید ایسی ہی کسی کیفیت کا نام ہے۔ اور اگر کوئی مریض گھر پر آگیا تو جتنے نے اس نے دے دیے وہ خاموشی سے لے لیے کبھی خود نہیں مانگے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ خود اپنی جیب سے اس نسخہ کو مکمل کرنا پڑتا تھا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تمام تر مالی مسائل کے باوجود ایک بات وہ کثرت سے کہا کرتے تھے جو اب آ کر مجھے سمجھ میں آئی ہے کہ بیٹا جی اللہ کا شکر ادا کرتے رہا کرو اس نے تمام تر مالی مسائل کے باوجود بھوکا اٹھایا ضرور ہے بھوکا سلایا نہیں ۔حتی کہ محکمہ میں غلط کام اور افسران بالا کی جی حضوری نہ کرنے کی وجہ سے تین سال ایک الزام کی وجہ سے معطل رہے پھر تحقیق ہونے پر بحال ہوئے ان تین سالوں میں ابی جی مسلسل حاضری دیتے رہے اور اورنگی ٹاون سے تبت سینٹر پیدل جایا کرتے تھے کہ بس کے کرایہ کی گنجائش نہیں ہوا کرتی تھی اور یہ سفر تقریبا 10 کلومیٹر بنتا ہے لیکن میں نے اس زمانے میں بھی انہیں اللہ تعالی کا شکر ہی ادا کرتے ہوئے دیکھا اللہ سے شکوہ یا شکایت میں نے کبھی ان کے منہ سے نہیں سنا یہ تقدیر پر عملی ایمان کی بہترین کیفیت تھی۔ انہی افسران بالا نے ان کے آٹھ انکریمنٹ ختم کروائے اس پر بھی وہ مطمئن رہا کرتے تھے کہ اس میں بھی میرے لیے کوئی بہتری ہے کیا ہے میں نہیں جانتا اور واقعی ایسا ہی ہوا ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی ایماندار افسر آیا اس نے کچھ سابقہ معاملات کی تحقیق کروائی کہ ان کی فائلز بند کروائی جائیں اس میں ابی جی کے کے بھی ایک دو معاملات حل ہوئےاور حل ہونے کے بعد 80000 ہزار ملے اور میں اس وقت اپنی کچھ ادائیگیوں کے لیے پریشان تھا مجھے بلوایا کہنے لگے دیکھو بیٹا جی وہ افسر اپنے گمان میں میرے ساتھ برائی کر کے گیا تھا لیکن اس کی وہ مزعومہ برائی میرے لیے اچھائی بن گئی مجھے بھی اپنے کچھ قرض ادا کرنے تھے اور تمہیں بھی ضرورت تھی تو میں نے وہی حدیث پچھلے ایک ماہ سے پڑھنا شروع کی ہوئی تھی تو اللہ تعالی نے بندوبست کر دیا ۔ وفات سے دو ماہ پہلے مجھ سے کہنےلگے کہ میرے باقی بقایاجات کے لیے دفتر کے ایک موجودہ افسر نے رابطہ کیا ہے کہ کچھ دے دلا کر اپنے بقایاجات وصول کر لیں میں نے پوچھا پھر کیا ارادہ ہے کہنے لگے پہلے اسی ہزار کے لیے جب کچھ نہیں دیا وہ گھر بیٹھے مل گئے تھے یہ اگر میرے نصیب میں ہوئے تو مل جائیں گے وگرنہ دینے دلانے والی سیاست نہ میں نے کبھی کی اور نہ ہی کروں گا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
میں نے اپنی زندگی میں بے شمار لوگ ایسے دیکھے جو اپنے اپنے فن میں امام کہے جا سکتے تھے اور کہے جا سکتے ہیں لیکن علمی طور پر ہر فن معلومات صرف اپنے والد محترم رحمہ اللہ کو ہی دیکھا موضوع سخن طب ، اسلامیات، تاریخ، ریاضیات، طبیعات، کیمیا، حیاتیات، جغرافیہ، فلکیات، سیاسیات ، اقتصادیات خواہ کچھ بھی وسیع معلومات میں نے ان کے پاس ہی دیکھی ہیں لیکن ان کی گفتگو کا عمومی محور یہود اور آل یہود ہوا کرتے تھے۔بقول ان کے یہود اور آل یہود دنیا میں غاصب اور مستبد ہیں اور ان کے علاوہ باقی تمام گہری اور اندھی نیند میں منعمق ہیں یہود اور آل یہود نے ہماری صفوں میں وہ وہ بہروپ دھار کر تخریب کاری اور انتشار برپا کیے ہیں کہ ہمارے وہم وگماں میں بھی نہ ہوں ۔
یہود اور آل یہود کے حوالے سے ان کی سوچ اور فکر بہت زیادہ شدت پسندی پر حامل تھی اور بالخصوص وہ لوگ جو بہروپ دھار کر مسلمان بن گئے میر جعفر و میر صادق بن کر اہل اسلام کو نقصان پہچانے میں سرگرم عمل تھے اور ہیں۔اور اس حوالے سے انہیں بہت سے تسامحات بھی لگے اور مسلمانوں کی تاریخ کے حوالے سے ان کے بہت سے تفردات بھی تھے جس میں سے کچھ سحیح اور کچھ عملا تفردات ہی تھے۔
علمی طور پر ان کی جہود درج ذیل ہیں:
سید مودودی رحمہ اللہ کے ترجمہ قرآن پر ایک محاکمانہ نظر
عبدالماجد دریا بادی کی تفسیر پر تنقیدی نظر (انگریزی)
وادی غیر ذی زرع (روداد عمرہ)
سیرت طیبہ کی تدوین پر ایک تاریخی جائزہ
حاملہ زچہ و بچہ
حسن مجسم صلی اللہ علیہ وسلم (مختصر مضمون جو کہ ۱۳ صفحات پر مشتمل ہے)
فوائد سورہ الحجرات
سیرۃ النبی شبلی نعمانی پر ایک تحقیقی جائزہ
ایک ذاتی بیاض جس میں اردو ، عربی اور انگلش اشعار ، طبی نسخہ جات، استفادات وغیرہ درج ہیں
ذاتی کیلیگرافی کے تقریبا ایک سو مختلف نمونے(آیات، کلمہ طیبہ، لفظ اللہ اور محمد ) جو میرے پاس سکین شدہ محفوظ ہیں
موضوعات قرآن پر ایک مختصر مقدمہ
مختلف قرآنی تراجم پر حواشی جسے اگر باقاعدہ مرتب کیا جائے تو ہر ترجمہ پر ایک مختصر کتاب بن سکتی ہے۔
یہ ان کے وہ کام ہیں جو مجھے ان کے کاغذات سے ملے ہیں ابھی ان کی الماری دیکھوں گا تو ممکن ہے اور کچھ بھی ملے لیکن یہ سب غیر مطبوع حالت میں ہیں بفضلہ تعالی سب شائع ہوں گے۔
 
Top