• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الجوابات الفاضلہ فی رَدِّ تاویلاتِ فاسدہ (قسط اول)

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
الجوابات الفاضلہ فی رَدِّ تاویلات فاسدہ


[غلام مرتضی ساقی بریلوی کی فاسد تاویلات کا جواب]


راقم الحروف کا ایک مضمون بنام ’’عقیدہ ختم نبوت اور بریلویت‘ ماہنامہ ضربِ حق سرگودھا (نومبر ۲۰۱۱ء شمارہ نمبر۱۹) میں شائع ہو چکا ہے۔ اس اشاعت سے قبل ہی ایک جاننے والے بریلوی ’’دوست‘‘ کو پڑھنے کے لئے اس مضمون کے پروف کی فوٹو کاپی دی۔ جو کئی ہاتھوں سے گزرتے ہوئے کسی طرح بریلویوں کے ’’مناظر اسلام‘‘ غلام مرتضیٰ ساقی مجددی صاحب کے پاس جاپہنچی۔ جس پر بریلوی ’’مناظر اسلام‘‘ نے اپنے تئیں ایک عدد مضمون بنام ’’عقیدہ ختم نبوت اور فرقہ وہابیہ‘‘ لکھ کر جواب سے سبکدوش ہونے کی کوشش کی ہے۔دیکھئے ماہنامہ الحقیقہ (جنوری ۲۰۱۲ء ص۴۱)
پورا مضمون بے ترتیب باطل تاویلات و شبہات اوربلادلیل الزامات کا شاہکار ہے اور استعمال کی گئی زبان نے تو پوری تحریر کو چار چاند لگا دئے ہیں۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
’’٬٬عقیدہ ختم نبوت اور بریلویت،،کے نام پر تقریباً ساڑھے چھ صفات (فل سکیپ فوٹو اسٹیٹ) کسی چور کذاب اور دجال قسم کے آدمی نے سیالکوٹ کے علاقہ میں تقسیم کئے اور اپنا اور اپنی کسی تنظیم کا نام دینا بھی گوارا نہیں کیا۔‘‘ (الحقیقہ ص۴۱)
اس شیریں اور بریلوی اخلاقیات کا عمدہ نمونہ پیش کرتی زبان کے بارے میں کیا عرض کروں کہ یہ تو صرف ایک بریلوی ’’مناظر اسلام‘‘ کو ہی جچتی ہے۔ دیگر الزامات کے متعلق عرض ہے کہ یہ مضمون ہرگز بھی سیالکوٹ کے کسی علاقہ میں تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ صرف ایک بریلوی ’’صاحب‘‘ کو ہی پڑھنے کے لئے اپنے ہاتھ سے دیا گیا تھا۔ جہاں تک اپنا یا کسی تنظیم کا نام نہ دینے کا تعلق ہے تو اس جوابی مضمون کے چھپنے سے دو ماہ پہلے ہی یہ مضمون راقم الحروف کے نام سے ماہنامہ ضربِ حق سرگودھا (نومبر ۲۰۱۱ء شمارہ نمبر۱۹) میں شائع ہو چکا ہے۔
ساقی صاحب کے اس جوابی مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
اول: (فاسد تاویلات و شبہات) جس میں انہوں نے ہماری جانب سے پیش کردہ بریلوی علماء و اکابرین و ممدوحین کی عبارات کا تاویلات و شبہات کے سہارے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
دوم: (الزامات) جس میں اہل حدیث پر جوابی الزام عائد کرنے کی سعی لاحاصل ہے۔
ان شاء اللہ ان دونوں حصوں کا بالترتیب جواب پیش خدمت ہے:
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
فاسد تاویلات و شبہات اور ان کے جوابات
۱) مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ کیا کہ ’’میں بروزی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں‘‘ اور اس دعوے کی دلیل کے طور پر یہ باطل فلسفہ پیش کیا کہ ’’تمام کمالات محمدی ؐ مع نبوت محمدیہؐ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں‘‘۔ اسی باطل فلسفہ کی بنیاد پر یہ بھی لکھا کہ ’’پھر کونسا علیحدہ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘
مرزا قادیانی کی یہ عبارت جو ہم نے اپنے مضمون میں با حوالہ نقل کی تھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مرزا قادیانی کا دعویٰ کہ ’’میں بروزی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں.....کونسا علیحدہ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا‘‘ کی اصل بنیاد اس کا یہ باطل و مردود فلسفہ تھا کہ ’’تمام کمالات محمدی ؐ مع نبوت محمدیہؐ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں‘‘۔اس باطل فلسفہ کو اس نے اپنی جھوٹی نبوت کی بنیاد بنایا تھا۔ ہم نے باحوالہ عبارت پیش کی تھی کہ احمد رضا خان بریلوی نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے لئے یہی باطل و مردود فلسفہ و نظریہ بیان کیا ہے کہ نبی a اپنی جمیع صفاتِ جمال وجلال و کمال و افضال کے ان میں متجلی ہیں۔
اس اعتراض کے جواب میں ساقی صاحب نے لکھا:
’’پوری عبارت میں کوئی ایک جملہ تو بتایا جاتا کہ یہاں حضورغوثِ پاک کو آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ اور٬٬ کونسے الگ انسان ہیں،، لکھا گیا ہے‘‘ ( الحقیقہ ص ۴۲)
بریلوی ’’مناظر اسلام ‘‘کی اس بے ربط سی عبارت کا حاصل یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے تو ’’تمام کمالات محمدیہ مع نبوت محمدیہ‘‘ کے متجلی و منعکس ہونی کی بات کی ہے جبکہ احمد رضا خان بریلوی کی عبارت میں ’’جمیع صفات جمال و جلال و کمال و افضال‘‘ کے متجلی و منعکس ہونے کی بات ’’مع نبوت محمدیہ‘‘ کے بغیر ہے ۔اسی طرح مرزا قادیانی نے تو ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ....کونسا الگ انسان ہوا‘‘ کا دعویٰ بھی کیا تھا جبکہ بریلوی اعلیٰ حضرت کی عبارت میں ایسا کوئی دعویٰ شیخ عبدالقادر جیلانی کے لئے نہیں۔
الجواب: ۱۔ پہلی بات کے جواب میں تو عرض ہے کہ مرزا قادیانی نے ’’تمام کمالات محمدیہ مع نبوت محمدیہ‘‘کے منعکس ہونے کا جو مردود و فلسفہ بیان کر رکھا ہے وہی باطل فلسفہ بریلوی اعلیٰ حضرت نے ’’جمیع صفات جمال و جلال و کمال و افضال‘‘ کے متجلی و منعکس ہونے کی صورت میں بیان کیا ہے کیونکہ جس طرح تمام کمالات محمدیہ میں نبوت شامل ہے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جمیع صفات میں نبوت شامل ہے بلکہ بریلوی اعلیٰ حضرت نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام صفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل کمال و افضال کے ساتھ شیخ جیلانی میں متجلی ہونے کی بات کی ہے۔پھر بریلوی اعلیٰ حضرت کی دوسری عبارت جو ہم نے اپنے مضمون میں پیش کر رکھی تھی اس میں یہ بات موجود ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام صفات و کمالات کی تجلی کے ساتھ، شیخ عبدالقادر جیلانی کے مقام کو مرتبہ نبوت کا ظل (عکس) بھی مانتے تھے۔
احمد رضا بریلوی کا شیخ عبدالقادر جیلانی کے بارے میں عقیدہ ہماری پیش کردہ دونوں عبارات کو سامنے رکھنے سے بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی ذات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام صفات و کمالات کے ساتھ متجلی ہیں اور شیخ عبدالقادر جیلانی کا یہ مقام، مرتبہ نبوت کا بھی ظل و عکس ہے۔یہی بات مرزا قادیانی نے اپنے بارے میں ’’تمام کمالات محمدیہ مع نبوت محمدیہ‘‘ کے منعکس ہونے سے کی ہے۔ مرزا قادیانی اپنی ذات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کمالات کے منعکس ہونے کی بات کرتا ہے اور احمد رضا خان بریلوی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جمیع صفات ِکمال و افضال کے شیخ عبدالقادر جیلانی میں منعکس ہونے کی بات کی ہے۔مرزا قادیانی نے ’’مع نبوت محمدیہ‘‘ کے منعکس ہونے کی صراحت کی ہے اور احمد رضا بریلوی نے دوسری جگہ شیخ عبدالقادر جیلانی میں’’ مرتبہ نبوت‘‘ کا بھی ظل و عکس ہونے کی صراحت کی ہے، تو فرق کیا ہوا؟
۲۔ دوسری بات کے جواب میں عرض ہے کہ مرزا قادیانی نے "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ....کونسا الگ انسان ہوا‘‘کا دعویٰ اپنے بارے میںجس باطل و مردود فلسفہ کی بنیاد پرکیا تھا، بریلوی اعلیٰ حضرت نے وہی باطل و مردود نظریہ شیخ عبدالقادر جیلانی کے بارے میں بیان کر رکھا ہے۔ رہی بات شیخ عبدالقادر جیلانی کو نبی یا وہی انسان قرار دینے کی تو اس کی کسر بھی بریلوی علماء و اکابرین و ممدوحین نے نہیں چھوڑی۔ ملاحظہ فرمائیں:
بریلوی ممدوح عبدالقادر اربلی نے شیخ عبدالقادر جیلانی سے منسوب کرتے ہوئے لکھا:
’’آپ نے فرمایا خدا کی قسم یہ وجود میرے نانا سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے نہ کہ عبدالقادر کا وجود‘‘
(تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادرص۱۰۷، قادری رضوی کتب خانہ لاہور)​
معلوم ہوا کہ بریلویوں کے نزدیک جس طرح شیخ عبدالقادر جیلانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جمیع صفات و کمالات اور مرتبہ نبوت کا عکس ہیں اسی طرح ان کاوجود بھی الگ نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود ہے ۔ گویا یہاں بھی وہی دعویٰ موجود ہے کہ ’’کونسا الگ انسان ہوا‘‘۔ ممکن ہے کہ ابھی بھی یہ بریلوی ’’حضرات‘‘ کہیں کہ ٹھیک ہے ہمارا فلسفہ بھی مرزا قادیانی والا، ہمارا دعویٰ بھی ’’کونسا الگ انسان ہوا‘‘ والا لیکن ہم نے کبھی شیخ عبدالقادر جیلانی کو نبی یا آنحضرت نہیں کہا۔ لہٰذا ان کی یہ غلط فہمی بھی دور کئے دیتے ہیں۔ بریلویوں کے ممدوح عبدالقادر اربلی نے لکھا:
’’سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ مبارک میں ایک بہت بڑا گنہگار فاسق فاجر گناہ کرنے میں سرمست رہتا تھامگر اس کو آپ رحمۃ اللہ علیہ سے بے حد محبت تھی ۔ تو جب وہ شخص فوت ہو گیا اور عزیز و اقارب نے اس کو قبر میں دفن کر دیا تو سوال و جواب کیلئے منکر نکیر آئے۔تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ اور دین اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا کہ تیرا رب کون ہے۔ تیرا دین کیا ہے ۔تیرا نبی کون ہے۔ تو اس شخص نے سب سوالوں کے جواب میں عبدالقادر کہا۔تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوںکو حکم ہوا۔ اے فرشتو اگرچہ یہ بندہ گنہگار خطاکار ہے۔لیکن میرے محبوب بندے سید عبدالقادرکی سچی محبت اپنے دل میں رکھتا ہے اس لئے میں نے اس کی مغفرت فرما دی ہے۔ اوراس کی قبر کو حدِ نگاہ کشادہ کر دیا ہے۔‘‘
(تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادرص۷۹)​
احمد رضا خان بریلوی نے ’’تفریح الخاطر‘‘ اور اس کے مصنف کو بہت سی جگہ پر بطور حوالہ و سند پیش کر رکھا ہے۔( دیکھئے فتاویٰ رضویہ ج۲۶ص۳۹۹، ج۲۸ص۳۷۰،۴۰۶۔۴۱۱)
شیخ عبدالقادر جیلانی سے متعلق ایک روایت کے متعلق بریلوی اعلیٰ حضرت نے لکھا:
’’ہاں فاضل عبدالقادر قادری ....نے کتاب تفریح الخاطرفی مناقب الشیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ میں یہ روایت لکھی اور اسے جامع شریعت و حقیقت شیخ رشید ابن محمد جنیدی کی کتاب ’’حرز العاشقین‘‘ سے نقل کیا اور ایسے امور کو اتنی ہی سند بس ہے۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج۲۶ص۳۹۹)​
فتاویٰ رضویہ میں ایک حوالے کے تحت حاشیہ پر لکھا ہے:
’’حضرت علامہ عبدالقادر قادری بن محی الدین الصدیقی الاربلی جامع علوم شریعت و حقیقت تھے۔ علماء کرام اور صوفیہ عظام میں عمدہ مقام پایا۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج۲۸ص۴۰۶)
بریلوی اعلیٰ حضرت کی معتمد و سند یافتہ کتاب میں موجود اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ بریلویوں کے نزدیک تو قبر میں بھی جب سوال ہو کہ تیرا نبی کون؟ تو جواب میں ’’عبدالقادر‘‘ کہنا مغفرت و نجات کا باعث ہے۔
اب آخر میں بطور خلاصہ عرض ہے کہ
۱۔ مرزا قادیانی نے ’’تمام کمالات محمدیہ‘‘کو خود میں منعکس ماننے کا باطل و کفریہ نظریہ گھڑا اور بریلوی اعلیٰ حضرت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’جمیع صفات جمال و جلال و کمال و افضال‘‘کے متجلی ہونے کا وہی باطل و کفریہ نظریہ شیخ عبدالقادر جیلانی کے لئے مان لیا۔
۲۔ مرزا قادیانی نے ’’مع نبوت محمدیہ‘‘ کے منعکس ہونے کی صراحت کی اور بریلوی اعلیٰ حضرت نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے لئے ’’مرتبہ نبوت‘‘ کا ظل (عکس) ہونے کی صراحت پیش کی۔
۳۔ مرزا قادیانی نے ’’کونسا الگ انسان ہوا‘‘ کی وضاحت کی اور بریلوی اکابرین و ممدوحین نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے وجود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود ماننے کی وضاحت پیش کر دی۔
۴۔ مرزا قادیانی نے ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں‘‘ کا کفریہ دعویٰ کیا اور بریلویوں نے قبر میں بھی شیخ عبدالقادر جیلانی کو نبی کہنا وماننا مغفرت و نجات کا باعث بنا دیا۔
إنا للہ و إنا إلیہ راجعون
تنبیہ: اس عنوان کے تحت راقم الحروف نے بریلوی پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی ایک عبارت بریلوی اعلیٰ حضرت کی پہلی عبارت پر بطور رَدّ پیش کی تھی اور ساقی صاحب نے اپنی کم فہمی سے مہر علی شاہ صاحب کی عبارت کو بھی بطور اعتراض سمجھ لیا اور اس کا بھی خوامخواہ اوٹ پٹانگ جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
دوبارہ بطور وضاحت عرض ہے کہ بریلوی پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی عبارت اس لئے پیش کی تھی کہ مہر علی شاہ صاحب کے نزدیک تو افضل ترین اور جلیل القدرصحابہ کرام ؓ (ابو بکر، عمر، عثمان، علی، حسن و حسین رضی اللہ عنہم اجمعین) کا مجموعہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف ’’ جمال باکمال‘‘ کا ہی آئینہ بن سکا اور احمد رضا بریلوی کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی کی اکیلی ذات اس قدر اونچی ہو گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جمیع صفات جمال و جلال و کمال و افضال کا تجلی خانہ و آئینہ قرار پائی۔یہاں ایک پنجابی محاورہ بطور محاورہ ہی عرض ہے کہ
؂ آئی گل سمجھ چہ کہ اگلی وی گئی
انتہائی حیرت کی بات ہے کہ جو بریلوی ’’مناظر اسلام‘‘ ہمارے مضمون میں پیش کردہ اعتراضات اور ان پر بطور رَدّ و معارضہ پیش کی گئی عبارات کابھی فرق نہیں جان سکا وہ اس کا جواب لکھ رہا ہے۔واللہ المستعان
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
۲) ہماری پیش کردہ بریلوی اعلیٰ حضرت کی دوسری عبارت کے جواب میں ساقی صاحب کی زبان سے اس ناچیز کے بارے میں یوں پھول جھڑے کہ
’’اس بد بخت نے آخری جملہ بالخصوص نقل نہیں کیا آخری جملہ یہ ہے٬٬قول مذکور ثابت نہیں،،(عرفان شریعت ص۸۴ مطبوعہ سنی دارالاشاعت)‘‘
(الحقیقہ ص۴۳)
الجواب:
احمد رضا خان بریلوی سے کچھ سوالات کئے گئے جن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتاتو پیران پیر ہوتے۔‘‘ (عرفان شریعت:ص۸۴ ، اکبر بک سیلرز لاہور)
اس بات کے جواب میں بریلوی اعلیٰ حضرت نے یہ جواب دیا جسے ہم نے پیش کیا تھاکہ ’’یہ قول کہ اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو حضور غوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی ہوتے اگرچہ اپنے مفہوم شرطی پر صحیح و جائز اطلاق ہے کہ بے شک مرتبہ علیہ رفعیہ حضور پر نور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظل مرتبہ نبوت ہے۔‘‘
ہماری پیش کردہ اس واضح عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت کے نزدیک یہ کہنا کہ اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو شیخ عبدالقادر جیلانی نبی ہوتے، بالکل صحیح ہے کیونکہ بقول ان کے شیخ عبدالقادر جیلانی کا مقام، مرتبہ نبوت کا ظل ہے۔
مگر چونکہ پوچھے گئے سوال میں اس بات کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کی گئی تھی اس لئے اپنے عقیدہ و نظریہ کی اس واضح صراحت کے بعد اس بات کو بطور حدیث بیان کرنے کے متعلق لکھا:
’’مگر ہر حدیث حق ہے ہر حق حدیث نہیں۔ حدیث ماننے اور حضور اکرم سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنے کے لئے ثبوت چاہتے ہیں۔ بے ثبوت نسبت جائز نہیں اور قول مذکور ثابت نہیں۔‘‘
(عرفان شریعت ص۸۵)
گویا بریلوی اعلیٰ حضرت نے تو صرف بطور ِحدیث اس بات کا انکار کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس قول کی نسبت جائز نہیں کیونکہ یہ بات ان کے نزدیک اگرچہ حق ہے مگر ہر حق کو بطور حدیث بیان کرنا جائز نہیں۔
اپنے اعلیٰ حضرت کی بات کے صرف ایک ٹکڑے کوپیش کرکے ساقی صاحب نے جان بوجھ کر ہم پر الزام بنا دیا کہ شاید ہم نے بریلوی اعلیٰ حضرت کی نسبت ایسے عقیدے کی جانب کی ہے جو ان کے نزدیک ثابت نہیں ۔ یوں ہم پر بہتان و دھوکہ دہی کے ا ور اپنے اعلیٰ حضرت کے واضح فرمان میں تحریف معنوی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
بہرحال اس مکمل وضاحت سے یہ بالکل واضح ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی کا مقام و مرتبہ نبوت کا ظل (عکس) ہے۔ یاد رہے کہ مرزا قادیانی کے ماننے والے بھی اس کی جھوٹی نبوت کو ’’آنحضرت کا ظل‘‘ قرار دیتے ہیں۔دیکھئے مشہور قادیانی قاضی محمد نذیر لائلپوری کی کتاب ’’الحق المبین فی تفسیر خاتم النبیین‘‘ (ص۲۵۰)
ساقی صاحب نے یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ خود بریلوی اعلیٰ حضرت نے شیخ عبدالقادر جیلانی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ نبوت میں ان کا حصہ نہیں، لہٰذا بریلوی اعلیٰ حضرت پریہ الزام درست نہیں۔حالانکہ میں پہلے ہی بریلوی محقق و عالم محمد خان قادری کی عبارت پیش کر کے یہ ثابت کرچکا ہوں کہ خود بریلویوں کے نزدیک بھی کسی کو صرف نبی ماننا ہی نہیں بلکہ ظلی یا بروزی نبی ماننا بھی کفریہ اور دائرہ اسلام سے خارج کرنے والا عقیدہ ہے۔
لہٰذا مرزائیوں کا مرزا قادیانی کے بارے میں یہ عقیدہ کہ’’آنحضرت کا ظل‘‘ ہے اور اسی طرح بریلوی اعلیٰ حضرت کا شیخ عبدالقادر جیلانی کے بارے عقیدہ ’’ظل مرتبہ نبوت‘‘ ایک ہی درجہ میں ہیں۔ اپنے اعلیٰ حضرت کے اس بلا دلیل دعوے کو ماننے والے اور اس کی من گھڑت ، جھوٹی تاویلات کرنے والے اسی راہ پر گامزن ہیں جو مرزا قادیانی کی عبارات کے دفاع میں مرزائیوں نے اختیار کر رکھی ہے۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
۳) اشاراتِ فریدی (ترجمہ مقابیس المجالس )
ساقی صاحب لکھتے ہیں:
’’اشاراتِ فریدی یا مقابیس المجالس غیر معتبر اور غیر مستند کتاب ہے اس کتاب کا مرتب مولوی رکن الدین مرزائی نواز تھا تفصیل کے لئے دیکھئے ٬٬روئیداد مناظرہ گستاخ کون ص ۱۴۴)لہٰذا اس کا حوالہ مردود ہے۔‘‘
(الحقیقہ ص۴۴)
الجواب:
اپنے مضمون میں ہم پہلے ہی اس کتاب اشاراتِ فریدی (ترجمہ مقابیس المجالس) کا خواجہ غلام فرید چشتی کے ہی ملفوظات ہونا بریلوی علماء و محققین (عبدالحکیم شرف قادری ، فیض احمد اویسی)کے حوالوں سے ثابت کر چکے ہیں۔ نیز بریلوی مناظر و معاون، قریشی و کاظمی کی جس کتاب ’’روئیداد مناظرہ گستاخ کون؟‘‘ کے بے سرو پا دلائل کی بنیاد پر یہ بات کی جا رہی ہے، انہیں کے تسلیم شدہ ’’چراغ گولڑہ حضرت قبلہ پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ‘‘ سے ’’مقابیس المجالس‘‘ کا مستند و حجت ہونا با حوالہ پیش کیا جا چکا ہے۔
ان دلائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے محض حنیف قریشی کی من گھڑت کہانی پر ایمان لاتے ہوئے مولوی رکن الدین کو مرزائی نواز ثابت کرنے سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مولوی رکن الدین ، خواجہ غلام فرید کا خلیفہ ہے اور اس پر الزام قائم کرنے سے بھی خواجہ غلام فرید کی گردن نہیں بچ سکتی۔ چنانچہ بریلوی ’’شیخ الحدیث و التفسیر‘‘ فیض احمد اویسی اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’مولانا رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ حضرت خواجہ قدس سرہ کے خلیفہ ہیں اگر مذکورہ غلطی ان کے لئے مان لی جائے تو خواجہ صاحب پر حرف آتا ہے۔‘‘
(خواجہ غلام فرید چاچڑانی اور مرزا قادیانی ص۱۲)
’’مرزا قادیانی کے اعتراض والی عبارت کا مولانا رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ کو مجرم گردانا جاتا ہے ان پر یہ الزام سراسر غلط ہے۔‘‘
(خواجہ غلام فرید چاچڑانی اور مرزا قادیانی ص۱۲)
اپنے’’ مولانا رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کے متعلق زبردست توثیق دیتے ہوئے فیض احمد اویسی نے لکھا:
’’مولانا رکن الدین بھی پرہار تھے لہٰذا وہ بھی سعید ازلی ہوئے ۔ سعید ازلی کے لئے قادیانی سازش میں ملوث ہو کر مردود ہونا محال ہے۔‘‘
(خواجہ غلام فرید چاچڑانی اور مرزا قادیانی ص۱۲)​
لہٰذا ساقی صاحب سے عرض ہے کہ حنیف قریشی کے بے سروپا دعووں پر ایمان لاتے ہوئے مولوی رکن الدین کو ’’قربانی کا بکرا‘‘ بنا دینے سے بھی بریلوی حضرات کو ہرگز کوئی فائدہ نہیں۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
۴) سکرو مستی اور شطحیات کا بہانہ
سب سے پہلے دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ کیاصریح کفریات کے دفاع میں شطح و غلبہ حال کا یہ بہانہ کتاب و سنت سے ثابت ہے؟کیونکہ کسی بڑے سے بڑے عالم کی بلادلیل ذاتی رائے ہرگز دلیل نہیں۔
احمد رضا خان بریلوی نے ایک جگہ لکھا:
’’یہ تو ان سعات میں سے ہے جو امام رازی بحث اور کلام میں اختیارکرتے رہتے ہیں۔ امام رازی نے اس پر کوئی دلیل بھی پیش نہیں کی‘‘
(فتاویٰ رضویہ:ج۵ص۱۴۲)
خود ساقی مجددی صاحب نے لکھ رکھا ہے کہ:
’’اگر کسی شخص کی بات قرآن و حدیث، اجماع امت اور اسلامی قواعد و ضوابط کے مخالف ہو تو ہرگز معتبر نہیں ، کہنے والا خواہ کتنا ہی صاحب علم و فضل ہو، اس کی لغزش اور خطا کو غلطی قرار دے کر ترک کر دیا جائیگا۔‘‘
(بد مذہب کے پیچھے نماز کا حکم ص۷۰)​
یزیدبن معاویہ رضی اللہ عنہ اور ولید (جس نے بقول بریلوی اعلیٰ حضرت: قرآن کو دیوار میں لٹکا کر تیروں سے چھیدا تھا) کو ملا علی قاری نے ہدایت یافتہ بارہ خلفاء کی فہرست میں شامل کررکھا ہے۔
اس پر احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
’’ایسے بے سرو پا بے معنیٰ اقوال کی سند نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک متاخر عالم کی خطائے رائے ہے عصمت انبیاء و ملائکہ علیھم الصلوٰۃ و السلام کے سواکسی کے لئے نہیں۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج۲۹ص۲۱۹)
یاد رہے کہ ملا علی قاری کو احمد رضا خان بریلوی نے ’’جلیل القدراجلۃ المشاہیر علماء کبار‘‘ میں شامل کر رکھا ہے۔ دیکھئے فتاویٰ رضویہ (ج۲۸ص۳۹۱)
لہٰذا صریح کفریہ و شرکیہ اقوال کے دفاع میں شطح و غلبہ حال کا بہانہ بنانے والوں سے عرض ہے علماء کے بے سند و بلا دلیل اقوال کی بجائے اپنے اس دعویٰ پر قرآن و حدیث سے دلائل پیش کریں ۔
شبہ۱:
صحیح مسلم میں روایت موجود ہے کہ ایک شخص نے خوشی کی شدت میں کہا: ’’اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں‘‘۔
(دیکھئے الحقیقہ ص۴۶ ، روئیداد مناظرہ گستاخ کون ص۲۳۵)​
الجواب: ۱۔ بلاشبہ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی بھی شخص کے منہ سے بلا ارادہ،کوئی ایسا کلام نکل جائے جو غیر شرعی ہو تو اس پر کوئی مئواخذہ نہیں۔مگر بریلوی حضرات کو اس روایت کاکوئی فائدہ نہیں کہ ہم نے جو عبارات ان حضرات کی کتب سے پیش کی ہیں ان میں قطعاً ثابت نہیں کہ ان بزرگوں نے جو صریح کفریہ کلام کیا وہ بلاارادہ یا بلا ہوش تھا بلکہ الٹا یہ ثابت ہے کہ کفریہ کلمات کے قائلین نے جان بوجھ کر ان کفریہ کلمات کو پیش کیااور ان کفریہ کلمات کی تائید کی۔
۲۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس روایت کو باطل طور پر جان بوجھ کر پڑے پڑھائے جانے والے کفریہ کلمات کی دلیل بنانے والے بریلوی حضرات خود اس کے شدید مخالف ہیں۔ احمد رضاخان بریلوی نے اپنے تسلیم شدہ اصول بیان کرتے ہوئے لکھا:
’’امام قاضی عیاض شفاء شریف میں فرماتے ہیں کسی آدمی کے کفر کے ارتکاب پر اس کا یہ عذر مقبول نہ ہو گا کہ میری زبان پھسل گئی....امام ابو محمد بن ابی زید نے فرمایا ایسی صورت میں کسی کا یہ عذر قبول نہیں کہ زبان قابو میں نہ رہی۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج ۱۵ص۸۰)​
بریلوی علماء و اکابرین کی کیسی یہ دوغلی پالیسی ہے کہ مخالفین کے خلاف وہ اصول پیش کرتے ہیں کہ زبان کے پھسلنے یا بہکنے کا عذر بھی قبول نہیں اور اپنے بڑوں کی کتابوں میں موجود جان بوجھ کر پڑھے پڑھائے اور پسند کئے گئے صریح کفریہ کلمات پر زبان بہک جانے والی روایات پیش کر کے دھوکہ دیتے ہیں۔ إنا للہ و إنا إلیہ راجعون
شبہ۲: صحیح احادیث میں موجود ہے کہ تین قسم کے لوگوں سے شریعت کا قلم اٹھا لیا گیا ہے: بچے سے یہاں تک کہ بالغ ہو جائے ، سونے والے سے یہاں تک کے جاگ جائے ، مجنون (ذہنی مریض) سے یہاں تک کہ تندرست ہو جائے۔
(دیکھئے روئیدادِ مناظرہ گستاخ کون ص۲۳۳)​
الجواب: بلاشبہ اس روایت کی رو سے یہ بات بالکل ثابت ہے کہ تین قسم کے لوگ مرفوع القلم ہیں: (۱) نابالغ بچہ (۲) سویا ہوا شخص (۳) ذہنی مریض و مجنون جب تک وہ تندرست نہ ہو جائے۔
ہم نے بریلوی اکابرین کی معتبر کتب سے جو کفریہ عبارات بطور اعتراض پیش کی ہیں ان اعتراضات کے پیش کرنے میں ہرگز بھی اس حدیث کی مخالفت نہیں پائی جاتی۔ شبلی، چشتی و انگریز رسول اللہ کے کفریہ کلمات کے پڑھنے، پڑھانے والے نہ تو بچے تھے، نہ سوئے ہوئے تھے اور نہ ذہنی مریض تھے بلکہ انہوں نے بالکل ہوش و حواس میں جان بوجھ کر ان کفریہ کلمات کو پڑھا، پڑھایا اور اس کی تائید کی۔
یہ روایت ہمارے خلاف تو ہرگز نہیں مگر بریلوی علماء اپنی دوغلی پالیسی کے عین مطابق خود اس روایت کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے۔ چنانچہ بریلویوں کے’’ غزالی زماں‘‘ احمد سعید کاظمی نے اشرف علی تھانوی کے نام کا کلمہ و درود پڑھنے والے دیوبندی مرید کے مشہور واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’خواب یا بیداری میں یہ الفاظ پڑھنا پڑھنے والے کے مغضوب الٰہی ہونے کی دلیل ہے۔‘‘
(الحق المبین ص۷۲)
ملاحظہ فرمائیں کہ عین ہوش و حواس میں جان بوجھ کر ’’چشتی و شبلی رسول اللہ‘‘ کے کفریہ گستاخانہ کلمات پڑھنے پڑھانے والوں کی وکالت کرنے والے دوسروں کے بیداری کے علاوہ دوران ِ خواب بھی ایسے کلمات کہنے والے کو مغضوبِ الٰہی قرار دیتے ہیں۔قربان جایئے اس اصول و انصاف پر!
اعتراض: شبلی کو تو امام ذہبی و ابن تیمیہ و ابن قیم وغیرہ نے بھی دیوانہ سمجھ کر ان کی باتوں کو شطح قرار دے رکھا ہے۔
جواب: دیوانہ و مجنون حدیث کی رُو سے مرفوع القلم اور معذور ہے۔ ذہبی، ابن تیمیہ و ابن قیم رحمہم اللہ نے شبلی کو دیوانہ و مجنون سمجھاجیسا کہ ساقی صاحب کے پیش کئے گئے حوالوں میں صاف ظاہر ہے تو انہوں نے اسے معذور قرار دیا۔ اس کے مقابلے میں ہم نے بریلوی اکابرین و بزرگوں کی تسلیم شدہ جو روایات پیش کی ہیں ان سے ثابت ہے کہ شبلی نے ہوش و حواس میں بیعت کی غرض سے آنے والے کو جان بوجھ کر کلمہ پڑھایا اور بعد میں اس کی وضاحت بھی دی۔نیز اگر شبلی کو معذور سمجھ بھی لیا جائے تو یہ کفر ان پر تو لازم رہے گا جنہوں نے اس کفریہ کلمے کو پڑھا اور اس کے پڑھنے پڑھانے والوں کی تائید کی۔جیسے اگر کوئی پاگل کفریہ کلمہ کہے اور کوئی صحیح تندرست اس کے کفریہ کلمے کو صحیح سمجھے یا اس کی تائید کرے تو اس پاگل کو تو معذور قرار دیا جا سکتا ہے مگرتائید کرنے والے کو نہیں۔ اسی طرح شبلی کا معذور ہونا ثابت ہو بھی جائے تو اس کے صریح کفریہ کلمے کو پڑھنے والے یا اس کی تائید کرنے والے بریلوی بزرگ بری نہیں ہو سکتے۔
غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے لکھا:
’’جب ایک آدمی کفریہ کلمہ بولے اور کچھ لوگ اس کلمہ کی تائید کریں اور اسے کفر نہ سمجھیں تو وہ کفریہ کلمہ سب کی طرف منسوب ہو گا اور یہی سمجھا جائے گا کہ سب کا یہی عقیدہ ہے۔‘‘
(عباراتِ اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ج۲ص۵۰)​
ساقی مجددی صاحب نے الزام تراشی کرتے ہوئے لکھا:
’’وہابیوں کا ان صوفیہ مثلاً حضرت شبلی ، خواجہ معین الدین رحمہمااللہ پر افترا کرنا اپنے محروم الایمان ہونے کا ثبوت دینا ہے جب ان لوگوں کو ان کے حالات و واقعات سے صحیح آگاہی نہیں تو پھر صرف ابلیس کو خوش کرنے کے لئے فتوے صادر نہیں کرنے چاہئے لیکن کیا کریں وہابیت کو یہی چیزیں تحفہ و گھٹی میں ملی ہوئی ہیں۔‘‘
(الحقیقہ ص۴۴)​
الجواب: اسے کہتے ہیں ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ جن کے ممدوحین و اکابرین نے شبلی و چشتی کوبا ہوش و حواس جان بوجھ کر کفریہ کلمہ پڑھانے کا مرتکب قرار دیتی روایات کو باتائید اپنی کتب میں لکھ رکھا ہے بجائے انہیں افتراء یا جھوٹ کا مرتکب ماننے کے ان پر برسا جا رہا ہے جو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی پر مشتمل کلمہ طیبہ کے مقابلے پر نئے نئے کلموں کا انکار کر رہے ہیں۔
جس طرح شیعہ حضرات نے اہل بیت کے متعلق جھوٹی اور کفریہ روایات اپنی کتب میں جمع کر رکھی ہیں اور بجائے اپنے بڑوں کا کفر ماننے کے ان کفریہ روایات کے بل بوتے پر وہ ان کفریات کا انکار کرنے والوں کو اہل بیت کا منکر بنائے بیٹھے ہیں،سو یہی وطیرہ بریلوی حضرات یہاں پر آزماتے ہیں۔
مگر جس طرح اہل بیت کے متعلق کفریہ روایات ہماری جانب سے ان مبارک ہستیوں پر الزام نہیں بلکہ ان شیعہ رافضیوں کا اپنا کفر و توہین ہے جنہوں نے ان روایات کو اپنی کتب میں درج کر رکھا ہے یا ان کفریہ روایات کی تائید کر رکھی ہے۔ اسی طرح شبلی و چشتی کے متعلق کفریہ روایات ہماری جانب سے ان بزرگوں پر الزام نہیں بلکہ انہیں کا کفر و گستاخی ہے جنہوں نے اپنی کتب میں ان کو درج کر رکھا ہے یا ان کفریہ کلمات کی تائید کر رکھی ہے۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
یہاں پر یہ بھی ضروری ہے کہ تصویر کادوسرا رُخ پیش کرتے ہوئے یہ وضاحت بھی کر دی جائے کہ ساقی صاحب کے فرمان کے مطابق شیطان کو خوش کرنے کے لئے اپنے تسلیم شدہ اولیاء پر فتوے بازی کون کرتا ہے ؟ اور کن لوگوں کو یہ چیز تحفہ و گھٹی میں ملی ہے؟ فی الحال دو مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
۱۔ بریلوی اعلیٰ حضرت کے ’’جلیل القدراجلۃالمشاہیرعلماء کبار‘‘ میں شامل ملا علی قاری نے ابن تیمیہ و ابن قیم کے بارے میں لکھا:
’’(ترجمہ) وہ دونوں (ابن تیمیہ و ابن القیم) اہل ِ سنت و الجماعت کے اکابر میں سے اور اس اُمت کے اولیاء میں سے تھے۔‘‘
(جمع الوسائل فی شرح الشمائل ج۱ص۲۰۷)​
اہلسنت و الجماعت کے اکابر اور اس امت کے اولیاء امام ابن تیمیہ و ابن قیم رحمہم اللہ کے متعلق بریلوی ’’اعلیٰ حضرت‘‘ احمد رضا خان بریلوی نے بد مذہب اور گمراہ کا فتویٰ جاری کر رکھاہے۔(دیکھئے فتاویٰ رضویہ ج۱۷ص۵۴۳) اور موجودہ بریلوی حضرات تو ان کو کافر ثابت کرنے پر تلے ہیں۔(دیکھئے روئیداد مناظرہ، گستاخ کون؟ص۴۹۵)
۲۔ کتاب ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ بریلویوں کے پیر و شیر ربانی میاں شیرمحمد شرقپوری کی پسند فرمودہ کتب میں شامل ہے۔ (دیکھئے تذکرہ حضرت شیر ربانی شرقپوری اور انکے خلفاء ص۲۳)
نیز’ تذکرہ غوثیہ‘کے بزرگِ تذکرہ و ملفوظات غوث علی شاہ پانی پتی کے متعلق بریلویوں کے شیر ربانی شیر محمد شرقپوری نے کہا:
’’حضرت غوث علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ اپنے وقت کے بہت بڑے ولی کامل تھے بلکہ ولی گر تھے۔‘‘
(ایضاًص۲۸۷)
بریلویوں کے تسلیم شدہ ’’ولی‘‘ غوث علی شاہ پانی پتی کے ملفوظات و تذکرہ پر مشتمل بریلوی پیر شیر محمد شرقپوری کی پسندیدہ کتاب ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ کو بریلوی اعلیٰ حضرت نے ضلالتوں، گمراہیوں بلکہ صریح کفر کی باتوں پر مشتمل قرار دے رکھا ہے۔ (دیکھئے فتاویٰ رضویہ ج۱۵ص۲۷۹)
ان دو مثالوں پرمولوی صاحب سے گزارش ہے کہ اچھی طرح غور کریں:
بریلوی اعلیٰ حضرت نے آپ کے بقول ابلیس کو خوش کرنے کے لئے بریلوی بزرگوں کے تسلیم شدہ اولیاء پر فتوے بازی کیوں کی؟
تحقیق کریں کہ آپ کے الزام کے مطابق جو تحفہ و گھٹی وہابیوں کوملی تھی، وہ بریلوی اعلیٰ حضرت کی جیب میں کیسے پہنچی؟
بریلویوں نے بلا دلیل اپنے بڑوں کی صریح کفریہ باتوں پر شطح و غلبہ حال کا جو پردہ ڈال رکھا ہے وہ پہلے تار تارہے یا بریلوی اعلیٰ حضرت نے بریلوی اکابرین کے تسلیم شدہ اولیاء پر فتویٰ بازی کر کے خود اس کے چیتھڑے اڑا دیے ہیں؟
آسان الفاظ میں رضا خانیوں سے گزارش ہے کہ اگر بلادلیل صریح کفر و گستاخی کو شطح، مستی یا غلبہ حال کے پردے میں چھپانا درست ہے تو عرض ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت نے اس پردے کو خود چاک کر رکھا ہے اور شطح و غلبہ حال کا بلادلیل بہانہ بنائے بغیرتضلیلی وتکفیری فتاویٰ داغ رکھے ہیں۔ اب اگر آپ اسے ابلیس کو خوش کرنے کی خاطر سمجھتے ہیں تو بھی آپ کی مرضی اور اگر بریلوی اعلیٰ حضرت کے عمل کو عین ایمانی تقاضا سمجھتے ہیں کہ صریح کفر و گستاخی کو بلا دلیل ایسے بہانوں سے چھپایا نہیں جا سکتا تو یہی ہم سمجھانا چاہتے ہیں۔ اللہ حق بات کو قبول کرنے کی توفیق دے،آمین۔
ساقی صاحب نے لکھا ہے:
’’پھر لطف کی بات یہ ہے کہ حضرت شبلی اور خواجہ معین الدین چشتی وہ بزرگ ہیں جنہیں وہابی ملاں بھی اپنا پیشوا اور بزرگ مانتے ہیں۔ اب خود بتائیں وہ ان بزرگوں کو تسلیم کر کے ختم نبوت کے غدار قرار نہیں پاتے؟‘‘
(الحقیقہ ص۴۶)
الجواب: ۱۔ اس سلسلے میں پہلے بھی عرض کر دیا گیا ہے کہ ان بزرگوں کی طرف ہم نے کفر منسوب نہیں کیا بلکہ ان بریلوی اکابرین نے منسوب کیا ہے کہ جن کی کتابوں کے حوالے اپنے مضمون میں پیش کر چکے ہیں۔لہٰذا یہ ’’نالے چور نالے چتر‘‘ والا رویہ اپنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
۲۔ احمد رضا بریلوی نے اولیاء کی جانب منسوب کسی کلمہ کفرکے بارے اپنا اصول بیان کرتے ہوئے لکھا :
’’بفرضِ غلط توہین جس سے ثابت ہو وہی مقبول نہ ہو گانہ یہ کہ معاذ اللہ اس کے سبب توہین مقبول ہو جائے۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج۲۹ص۲۲۵)​
لہٰذا یہ بار بار بزرگوں کی بزرگی کا رونا رونے کی ضرورت نہیں۔جن بزرگوں سے یہ کفریہ کلمات ثابت ہو جائیں یا ان کی تائید ثابت ہو جائے ان کی بزرگی ہی مقبول نہ رہے گی نا یہ کہ ان بزرگوں کے نام پر ان کفریات کو قبول کر لیا جائے۔
۳۔ مزید عرض یہ ہے کہ بریلوی علماء و اکابرین بھی ان حضرات کو اپنا ولی مانتے ہیں جن پر خود بریلوی اعلیٰ حضرت نے فتویٰ تضلیل و تکفیر داغ رکھا ہے۔تفصیلی حوالہ جات کے لئے دیکھئے راقم الحروف کا مضمون ’’تکفیر و تضلیل ابن عربی اور شبہاتِ حنیف قریشی‘‘ (ماہنامہ الحدیث حضرو، جنوری ۲۰۱۲ء ، شمارہ نمبر۹۲) کیا بریلوی اپنے ان علماء و اکابرین کو بھی یہ تمغہ دینے کے لئے تیار ہیں ؟ اگر نہیں تو ایسا بے تکا اعتراض کرنے کا فائدہ؟ اصل اعتراض تو ان پر ہی ہے جن سے کفریہ و گستاخانہ کلمات ثابت ہو جائیں یا ان کفریہ و گستاخانہ کلمات کی تائید ثابت ہو جائے۔
۲۔ اہل بیت کو تمام اہلسنت اپنا بزرگ مانتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ شیعہ حضرات نے جو کفریات و گستاخیاں اہل بیت کی جانب منسوب کر رکھی ہیں اس کے مرتکب اہل بیت ہیں (نعوذباللہ) اور اہل بیت کے ماننے والے اہلسنت بھی ان کفریات کے مرتکب ہیں۔حقیقت صرف یہ ہے کہ یہ کفریات و گستاخیاں صرف ان شیعہ کی ہیں جنہوں نے ان کو اہل بیت کی جانب منسوب کیا ہے یا جنہوں نے ان کفریہ روایات کی تائید کر رکھی ہے۔شبلی و چشتی کو بزرگ ماننے والوں اوران کی جانب صریح کفریات کو منسوب کرنے ، تائید کرنے والوں کا فرق بھی اسی سے واضح ہے۔
بریلوی حضرات اپنے صریح کفریہ و گستاخانہ عقائد و نظریات کے دفاع میں ’’شطح، مستی و غلبہ حال‘‘ کا بلا دلیل بلکہ خلافِ ثبوت بہانہ بناتے ہیں جس کی کچھ تفصیل اوپر گزر گئی ہے۔یہاں ایک اور عرض کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ انبیاء کی گستاخی اور توہین پر مبنی عبارات و کلمات کے دفاع میں بریلوی اصول کے مطابق یہ بہانہ سرے سے ہی نا قابل قبول ہے ۔
احمد رضا بریلوی نے لکھا:
’’نشہ کی بیہوشی میں اگر کسی سے کفر کی کوئی بات نکل جائے اسے بوجہ بیہوشی کافر نہ کہیں گے نہ سزائے کفر دیں گے، مگر نبی صلی اللہ تعالےٰ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی وہ کفر ہے کہ نشہ کی بیہوشی سے بھی صادر ہوا تو اسے معافی نہ دینگے۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج۱۴ص۳۰۱)
غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے لکھاہے:
’’اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ ایک ہے باقی کلمات کفر کا حکم اور ایک ہے سرکارکی شان میں گستاخی کرنے کا حکم ۔ تو جو آدمی سرکار کی شان میں گستاخی کرے گا وہ چاہے نشہ میں ہو یا اس کی زبان قابو میں نہ ہو پھر بھی اس کو کافر سمجھا جائے گا۔‘‘
(عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ج۲ص۳۸۶)​
بریلویوں کے ’’علامہ مفتی‘‘ منظور احمد فیضی نے لکھا:
’’اور جس نے مستی کی حالت میں کلمہ کفر کہااس کے مرتد ہونے کا حکم نہ دیا جائے گا سوائے شاتم نبی علیہ الصلوٰہ والسلام کے۔‘‘
(مقام رسول صلی اللہ علیہ وسلم ص۵۸۴، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)
لہٰذا بریلوی حضرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی و توہین پر مبنی کلمات و عبارات کے دفاع میں ’’شطح، مستی و غلبہ حال‘‘ کا بہانہ بناتے ہوئے شرم آنی چاہئے کہ ان کے ہاں نبی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی و توہین کا مرتکب کا حکم دیگر کفریات سے بڑھ کر ہے کہ چاہے ہوش میں نہ ہویا اس کی زبان قابو میں نہ ہو یا مستی کی حالت میں ہو تب بھی شرعی فتویٰ سے بچ نہیں سکتا۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
اب ہم ذیل میں ان صریح کفریہ و گستاخانہ کلمات کو پیش کرتے ہوئے ان ضمنی اعتراضات کا جواب عرض کرتے ہیں جوساقی صاحب نے ان حوالہ جات پر کئے ہیں:
۱۔ شبلی رسول اللہ (نعوذ باللہ)
۱) خواجہ نظام الدین اولیاء کے ملفوظات ’’فوائد الفواد‘‘ سے اس کفریہ کلمے پر پیش کئے گئے ہمارے پہلے حوالے میں صاف موجود ہے کہ شبلی نے بیعت کے لئے آنے والے شخص کو جان بوجھ کر کفریہ کلمہ پڑھایا اور جسے مرید نے پڑھ لیا۔شبلی نے اس کفریہ کلمہ پڑھانے کی وضاحت دی کہ ’’اللہ کے رسول وہی ہیں میں تو تیرے اعتقاد کا امتحان کر رہاتھا۔‘‘ یہ وضاحت بالکل واضح کر دیتی ہے کہ بریلوی بزرگوں کی تسلیم شدہ اس روایت کے مطابق شبلی نے شطح و مستی میں نہیں بلکہ ہوش و حواس میں سب کچھ سمجھنے کے باوجود اپنے نام کا کفریہ کلمہ بالرضا و رغبت خودمرید سے پڑھوایا۔
علاوہ ازیں احمد رضا بریلوی نے کلماتِ بے ادبی کو چاہے کسی کی طرف منسوب ہو ، بلارَدّ و انکار نقل کرنے یا حکایت کرنے کو بھی گستاخی شمار کرنے کا اصول تفصیل سے بیان کر رکھا ہے۔(دیکھئے فتاویٰ رضویہ ج۱۴ص۶۳۲۔۶۳۳) لہٰذا شبلی کا جان بوجھ کر کلمہ کفریہ و گستاخانہ اپنے مرید سے پڑھانا ، مرید کا پڑھنا اور اس کفریہ و گستاخانہ حکایت کا رَدّ کئے بغیرخواجہ نظام الدین کا اسے بیان کرنا بھی رضا خانی اصول کے مطابق گستاخی و توہین میں برابر ہیں۔
۲) بریلوی پیر جماعت علی شاہ لاثانی کے خلیفہ حکیم محمد شریف کی لکھی ہوئی اور بریلویوں کے اکابرین میں شامل بزرگ حکیم خادم علی سیالکوٹی کی تائید و تصدیق شدہ کتاب ’’منازل الابرار‘‘ سے پیش کئے گئے ’’شبلی رسول اللہ‘‘ کے کفریہ کلمہ پر ساقی صاحب بالکل خاموشی سے نظریں چرا گئے ہیں۔ جس میں نہ صرف شبلی کی جانب سے یہ کفریہ کلمہ پڑھانے کا تذکرہ ہے بلکہ بریلوی بزرگوں کی جانب سے اس صریح کفر کی بھرپور تائید بھی موجود ہے کہ ’’یہ چیزیں طریقت کے رموز ہیں اور درست ہیں۔عوام نہیں سمجھ سکتے۔ خواص اور سالکانِ طریقت کو ان چیزوں کو سمجھ کر عمل پیرا ہونا لازمی اور ضروری ہے۔‘‘
’’شبلی رسول اللہ‘‘ جیسے کفریہ و گستاخانہ کلمہ کو پڑھنے پڑھانے والوں اور اس کو بھرپور تائید اور پسندیدگی سے نوازنے والے ان بریلوی اکابرین کی وکالت کرنے والوں کو کیا ذرا بھی اللہ کے حضور کھڑے ہونے کا خوف نہیں۔
۲۔ چشتی رسول اللہ (نعوذ باللہ)
۱) بریلوی پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی کتاب ’’تحقیق الحق‘‘ کی فارسی عبارت میں یہ کفریہ کلمہ ’’لاالہ الاللہ چشتی رسول اللہ‘‘ صاف موجود ہے ۔ بریلوی پیر مہر علی شاہ کی اس عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے مولوی فیض احمد گولڑوی نے’’ چشتی ‘‘کے بعد بریکٹ میں (سالک) کا اضافہ کر دیا ہے۔حالانکہ اس بات سے بھی مراد صرف یہ ہے کہ چشتی جو کہ سالک ہے (نعوذباللہ) ’’رسول اللہ‘‘ ہے کیونکہ پیر مہر علی شاہ کی پوری فارسی عبارت کا مطلب یہی ہے کہ سالک (سلوک کی منزلیں طے کرنے والا) جب حقیقت محمدیہ کا مظہر بن جاتا ہے تو یہ کلمہ کہتا ہے۔پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی واضح اور اصل فارسی عبارت کے برخلاف ،مولوی فیض احمد گولڑوی کے بریکٹ میں کئے گئے اضافے کو بنیاد بنا کر ساقی بریلوی نے بلادلیل محض سینہ زوری سے دھوکہ دیتے ہوئے لکھا:
’’یعنی چشتی رسول اللہ نہیں یہاں سالک کا لفظ پوشیدہ ہے اور اصل عبارت یہ ہو گی کہ چشتی سالک رسول اللہ‘‘
(الحقیقہ ص۴۶)

عرض ہے کہ اس طرح کی صریح کفریہ و گستاخانہ عبارات میں ’’ہو گی یا ہو گا‘‘ سے کچھ حاصل نہیں۔اس عبارت میں ’’چشتی رسول اللہ‘‘ نہیں کادعویٰ محض جھوٹ ہے کیونکہ اصل فارسی عبارت میں یہ کفریہ و گستاخانہ کلمہ کسی اضافے کے بغیر صریح الفاظ میںموجود ہے۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ محض دھوکہ و جھوٹ کے سہارے اپنے اکابرین کا دفاع کیا جا رہا ہے۔
۲) ’’فوائد فریدیہ‘‘ میں موجود اس کفریہ کلمے کی وضاحت میں ساقی صاحب صرف شطح کا بہانہ ہی بنا سکے ہیں جس کا تفصیلی جواب اوپر گزر چکا ہے نیزآنے والے حوالے میں اس کفریہ کلمہ کی تفصیل موجود ہے۔
۳) ’’فوائد السالکین‘‘ میں ’’چشتی رسول اللہ‘‘ کے کفریہ کلمہ پڑھانے کی تفصیل موجود ہے کہ محض مرید کا اعتقاد جانچنے کی خاطر یہ باطل و گستاخانہ کلمہ بالرضا جان بوجھ کرپڑھایا گیا۔ مرید نے بھی اس کفریہ کلمے کا اقرار کیااور پڑھ لیا توخواجہ معین الدین نے اسے بیعت کر لیا۔ نیز بعد میں بھی اپنے اس کفریہ کلمے کی تائید یوں کی کہ مرید سے کہا: ’’تو نے ایسا کہہ دیااس لئے سچا مرید ہو گیا۔ اور درحقیقت مرید کا صدق بھی ایسا ہی ہونا چاہئے کہ اپنے پیرکی خدمت میں صادق اور راسخ رہے۔‘‘
ایسے صریح کفریہ و گستاخانہ کلمات کو پڑھانا اور اس کے پڑھنے والے کی ایسی زبردست تائید ،پھر بھی ڈھٹائی سے ایسے کھلم کھلے کفرو توہین کی وکالت ۔۔۔؟ اللہ کی پناہ!
۴) بریلویوں کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق شدہ کتاب ’’سبع سنابل‘‘ میں بھی یہ صریح گستاخانہ و کفریہ کلمہ موجود ہے نیز اس کی تائید بھی موجود ہے کہ میر عبدالواحد بلگرامی نے پیر کے اس کفریہ کلمے کو پڑھانے اور مرید کے پڑھنے کی وضاحت میں خود بھی لکھا کہ ’’لہٰذا پیر کے ساتھ صدق یہی ہے کہ ظاہر و باطن کی کسی حالت پر زرہ برابر اعتراض نہ کرے۔‘‘
یہ تمام حوالہ جات بالکل کسی شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتے کہ بریلوی بزرگوں نے جان بوجھ کرہوش و حواس میں سب کچھ جاننے کے باوجود ’’چشتی و شبلی رسول اللہ‘‘ کے صریح کفریہ کلمات کو پڑھانے والوں اور پڑھنے والوں کی بھرپور تائیدبھی کر رکھی ہے۔
۳۔ انگریز رسول اللہ (نعوذ باللہ)
بریلوی کتب سے ہماری پیش کردہ روایت سے صاف ظاہر ہے کہ بریلوی پیر میاں شیر محمد شرقپوری نے ایک نوجوان سے ’’انگریز رسول اللہ، لندن کعبۃ اللہ‘‘ کا کفریہ و گستاخانہ کلمہ کہنے کو کہا۔اس کے باوجود ساقی بریلوی نے لکھا:
’’نہ تو حضرت میاں صاحب نے وہ کلمات پڑھائے....بلکہ حضرت میاں صاحب نے تو ایک شخص کو خلاف ِشرع کام پر ٹوکتے ہوئے اور شرم دلاتے ہوئے احساس دلایا...."
( الحقیقہ ص۴۶)​

یہ اصول خود بریلوی اکابرین و علماء کا تسلیم شدہ ہے کہ گستاخانہ کلمات کہنے والے کی مراد جو بھی بیان کی جائے حکم ِکفر ٹل نہیں سکتا۔ ’’انگریز رسول اللہ، لندن کعبۃ اللہ‘‘ کے الفاظ کا گستاخانہ ہونا اظہر من الشمس ہے اور بریلوی پیر صاحب نے ان الفاظ کو خود سے کہا ہے۔ اب چاہے یہ غصہ ہو، شرم دلانے کے لئے ہو یا خلاف شرع ٹوکنے کا بہانہ ان گستاخانہ کلمات کو ان بریلوی پیر صاحب نے باہوش و حواس بلا اکراہ ادا کیا ہے۔کیا شرم دلانے کے لئے کفر و گستاخی جائز ہے؟
بریلوی غزالی زماں احمد سعید کاظمی نے لکھا:
’’توہین رسالت پر حکمِ کفر کا مدار ظاہر الفاظ پر ہے ۔ توہین کرنے والے کے قصد و نیت اور اس کے قرائن ِ حال کو نہیں دیکھا جائے گا، ورنہ توہین کا دروازہ کبھی بند نہیں نہ ہو سکے گا۔‘‘
(گستاخِ رسول کی سزا...ص۴۱)

احمد رضا بریلوی نے لکھا:
’’کیا بلا ضرورت با اختیار خود کفر بکنے سے آدمی کافر نہیں ہوتاجب کہ دل سے نہ ہو، اس دل سے نہ ہونے کا عذر منافقین پیش کر چکے اور اس پر واحد قہار سے فتوائے کفر پا چکے۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج۱۴ص۵۹۹)

اس کی وضاحت میں مزید لکھا:
’’یہاں وہ ضرورت معتبر ہے کہ حدِ اکراہ شرعی تک پہنچی .....کوئی اسے قتل کر دیتا یا ہاتھ پائوں کاٹ دیتا یا آنکھیں پھوڑ دیتا، کچھ بھی نہ ہوتااس کے ایک رونگٹے کو بھی ضرر نہ پہنچتا، تو یقینا اس نے بلا اکراہ وہ کلماتِ کفر بکے اور واحد قہار عز جلالہ نے کلماتِ کفربکنے میں کافر ہونے سے صرف مبتلائے اکراہ کا استثناء فرمایاہے....
یہاں اکراہ تو درکنار ایک رونگٹے کو بھی نقصان نہ پہنچتاتھاایک دھیلا بھی گرہ سے نہ جاتا تھا.....لہٰذا جو بلا اکراہ کلمہ کفر بکے بلا فرق ِ نیت مطلقاً قطعاً یقینا اجماعاً کافر ہے‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج۱۴ص۶۰۰)​

لہٰذا’’چشتی رسول اللہ ‘‘ ، ’’شبلی رسول اللہ ‘‘ اور ’’انگریز رسول اللہ‘‘ کے کفریہ کلمات پڑھانے والوں اور ان کے قائلین کا صریح واضح کفر نیت، مقصود، قرائن و غیرہ کے باطل پردوں میں چھپ نہیں سکتا۔کیا ان کفریہ کلمات کے قائلین کے مقاصدکی ضرورت حدِ اکراہ شرعی تک پہنچتی ہے....؟ اگر نہیں توپھر اپنے بڑوں کے کفرو گستاخی کو چھپانے کی خاطربریلی کے تسلیم شدہ شرعی اصولوںکی دھجیاں اڑا نے سے کیا حاصل؟
آخر میں بریلوی حضرات کے لئے ان کے اعلیٰ حضرت کا ایک اصول مزید پیش خدمت ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’یا اُس کے جلسہ میں لا إلہ إلا اللہ فلاں رسول اللہ اُسی مغرور کا نام لے کر کہا جائے اور وہ اسی پر راضی ہو جائے۔ یہ سب فرقے بالقطع و الیقین کافر مطلق ہیں۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج۱۴ص۱۲۸)​

بریلوی اعلیٰ حضرت کے ان اعلیٰ اصولوں کے پیش نظر عرض ہے کہ ہم بیچاروں پر برسنا فضول ہے۔ آپ کے اعلیٰ حضرت چشتی، شبلی و انگریز رسول اللہ کے کفریہ کلمات پڑھانے والوں ، پڑھنے والوں اور ان کی تائید کرنے والوں پر خود فتویٰ کفر عائد کر چکے ہیں۔
تنبیہ: ’’شبلی، چشتی، انگریز رسول اللہ‘‘ (نعوذ باللہ) کے صریح گستاخانہ و کفریہ بریلوی کلمات کے مکمل اور تعارفی حوالہ جات کے لئے اصل مضمون ’’عقیدہ ختم نبوت اور بریلویت‘‘ (ماہنامہ ضرب حق،نومبر ۲۰۱۱ء شمارہ نمبر۱۹) ضرور ملاحظہ کریں۔
(بقیہ آئیندہ ان شاء اللہ)
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا طالب نور بھائی۔
بہت ہی زبردست مضمون ہے۔ اللہم زدفزد۔
آپ کا یہ مضمون ’’عقیدہ ختم نبوت اور بریلویت‘‘یہ محدث فورم پر بھی موجود ہے۔ میں نے اصل مضمون کے لنکس بھی آپ کے درج بالا مضمون میں دونوں جگہ شامل کر دئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو اس محنت کا بہتر بدل عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

آتے جاتے اور لکھتے لکھاتے رہا کریں۔ آپ کے مضامین مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہیں۔ اور شدت سے انتظار رہتا ہے نئے مضامین کا۔ اس عرصے میں اگر اور بھی مضامین تحریر کئے ہوں تو وہ بھی ضرور شیئر کیجئے گا پلیز۔
 
Top