اس دفعہ اسائمنٹ کے لیے "مذہب اور جدید چیلنج" از مولانا وحید الدین خان کا خلاصہ لکھنے کو ملا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے بھی تھوڑا بہت سونگھا تو تھا لیکن اب اس کتاب کے محاسن صحیح معنوں میں آشکارا ہو رہے ہیں، باب اول میں مخالفین مذہب کا مقدمہ پیش کیا یا ہے اور اس کے بعد باب دوم میں ان کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد آٹھ ابواب ایجابی انداز میں مذہب کے بنیادی تصورات یعنی خدا، رسالت اور آخرت کا اثبات پر بات کرتے ہیں ۔ خاص طور پر
باب سوم: " تبصرہ" (مخالفین مذہب کے دلائل پر)
باب سوم "استدلال کا طریقہ" اور
باب ہفتم : "دلیل اخرت"۔ کا انداز بیان اور علمی و عقلی دلائل اتنے سادہ اور اپیل کرنے والے ہیں کہ انسان کو بے ساختہ بار بار اللہ اکبر کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
2012ء میں یونی ورسٹی کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ ایک روز کچھ دوست تبلیغ کے لیے نمل اور اقراء یونیورسٹی کی طرف گئے جہاں ان کی ملاقات کچھ طلباء و طالبات سے ہوئی، مجھے اچھی طرح یاد ہے عثمان بھائی نے مجھے بتایا کہ ایک لڑکی نے ان سے کہا "مجھے معاشرے کا ڈر ہے ورنہ اللہ اور آخرت ایسی چیزوں پر میرا یقین اٹھ چکا ہے اور اگر اس معاشرے کا ڈر نہ ہو تو شاید میں اعلانیہ ترک اسلام کر دوں "۔ پھر اس نے مولانا طارق جمیل صآحب کا نمبر مانگا کہ شاید وہ کچھ تسلی کر سکیں !
یہ صورتحال یونیورسٹیز کی ہے جہاں مختلف پہلوؤں سے انہیں دین کے بنیادی حقائق ہی سے برگشتہ کیا جاتا ہے ، اگرچہ یہ خدمت نصاب کی بجائے استاد زیادہ انجام دیتے ہوں لیکن اس سے حقیقت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آج کے داعیوں کو اس پہلو پر بھی بلاشبہ عغور کرنا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل باطل آپ کی جڑوں میں بیٹھنے جا رہے ہیں اور یہ کام بڑی آہستگی سے بڑی تدریج سے کیا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبوتر آنکھیں بند کر لے تو اور بات ہے! اس تناظر میں بھی فی زمانہ ایسی کتابوں اور تحریروں کی اہمیت کا ادراک ہمیں کرنا ہو گا۔
یہ کتاب مولانا کے تجدد کی راہ پر لگنے سے بہت پہلے کی ہے اور بلاشبہ ایک علمی کارنامہ ہے۔ میرے بس میں ہو تو یہ کتاب آج کے دور میں ہمارے مدارس سے لے کر کالجز تک کے نصاب میں لازمی ہونی چاہیے! بہرحال احباب کو اس کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے الحاد جدید کے مقابل یہ ایک زبردست کاوش ہے۔
ہمارے بلاگرز، فیس بک مجاہدین اور مسلکوں کی حقانیت "ثابت" کرنے والے رضاکاران بھی اس کی طرف توجہ فرمائیں ، اس کتاب کو کم از کم یونی کوڈ میں ہی لے آئیں تو بڑی خدمت ہو گی، ویسے تو اس کا ترجمہ لازما انگلش میں موجود ہو گا اور اصل فائدہ اس کا اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی ترجمہ یونی کوڈ کرنے میں ہے کیونکہ بالعموم اصلی تے وڈا "پڑھا لکھا پاکستان" جو بیکن ہاؤس سے فرابلز تک پھیلا ہوا ہے ، الحاد جدید کی وبا کا پہلا شکار ہوتا ہے اور ان کے لیے مادری اور پدری زبان انگلش ہی ہے! اردو بول بھی لیتے ہیں تو یہ ان کی مہربانی ہے ، پڑھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!
خیر کی چابیاں اور شر کے تالے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے جو بنے !
9۔9۔2014ء
باب سوم: " تبصرہ" (مخالفین مذہب کے دلائل پر)
باب سوم "استدلال کا طریقہ" اور
باب ہفتم : "دلیل اخرت"۔ کا انداز بیان اور علمی و عقلی دلائل اتنے سادہ اور اپیل کرنے والے ہیں کہ انسان کو بے ساختہ بار بار اللہ اکبر کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
2012ء میں یونی ورسٹی کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ ایک روز کچھ دوست تبلیغ کے لیے نمل اور اقراء یونیورسٹی کی طرف گئے جہاں ان کی ملاقات کچھ طلباء و طالبات سے ہوئی، مجھے اچھی طرح یاد ہے عثمان بھائی نے مجھے بتایا کہ ایک لڑکی نے ان سے کہا "مجھے معاشرے کا ڈر ہے ورنہ اللہ اور آخرت ایسی چیزوں پر میرا یقین اٹھ چکا ہے اور اگر اس معاشرے کا ڈر نہ ہو تو شاید میں اعلانیہ ترک اسلام کر دوں "۔ پھر اس نے مولانا طارق جمیل صآحب کا نمبر مانگا کہ شاید وہ کچھ تسلی کر سکیں !
یہ صورتحال یونیورسٹیز کی ہے جہاں مختلف پہلوؤں سے انہیں دین کے بنیادی حقائق ہی سے برگشتہ کیا جاتا ہے ، اگرچہ یہ خدمت نصاب کی بجائے استاد زیادہ انجام دیتے ہوں لیکن اس سے حقیقت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آج کے داعیوں کو اس پہلو پر بھی بلاشبہ عغور کرنا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل باطل آپ کی جڑوں میں بیٹھنے جا رہے ہیں اور یہ کام بڑی آہستگی سے بڑی تدریج سے کیا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبوتر آنکھیں بند کر لے تو اور بات ہے! اس تناظر میں بھی فی زمانہ ایسی کتابوں اور تحریروں کی اہمیت کا ادراک ہمیں کرنا ہو گا۔
یہ کتاب مولانا کے تجدد کی راہ پر لگنے سے بہت پہلے کی ہے اور بلاشبہ ایک علمی کارنامہ ہے۔ میرے بس میں ہو تو یہ کتاب آج کے دور میں ہمارے مدارس سے لے کر کالجز تک کے نصاب میں لازمی ہونی چاہیے! بہرحال احباب کو اس کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے الحاد جدید کے مقابل یہ ایک زبردست کاوش ہے۔
ہمارے بلاگرز، فیس بک مجاہدین اور مسلکوں کی حقانیت "ثابت" کرنے والے رضاکاران بھی اس کی طرف توجہ فرمائیں ، اس کتاب کو کم از کم یونی کوڈ میں ہی لے آئیں تو بڑی خدمت ہو گی، ویسے تو اس کا ترجمہ لازما انگلش میں موجود ہو گا اور اصل فائدہ اس کا اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی ترجمہ یونی کوڈ کرنے میں ہے کیونکہ بالعموم اصلی تے وڈا "پڑھا لکھا پاکستان" جو بیکن ہاؤس سے فرابلز تک پھیلا ہوا ہے ، الحاد جدید کی وبا کا پہلا شکار ہوتا ہے اور ان کے لیے مادری اور پدری زبان انگلش ہی ہے! اردو بول بھی لیتے ہیں تو یہ ان کی مہربانی ہے ، پڑھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!
خیر کی چابیاں اور شر کے تالے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے جو بنے !
9۔9۔2014ء