• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الحکم بن ابو العاص﷜ پر لعنت اور جلا وطنی

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کئی احادیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ سے بد دُعا کرنا ثابت ہے۔ صحیحین میں سیدنا ابن مسعود﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے قریش کے سات لعنتی سرداروں (ابو جہل، عتبہ، شیبہ، ولید بن عتبہ، اُمیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور ایک اور لعنتی جس کا راوی بھول گئے) کیلئے بد دُعا فرمائی۔
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
اس حدیث میں جس لعنتی کا نام راوی بھول گئے اس کا نام دیگر احادیث میں سرائت کے ساتھ آیا ہے

وربِّ هذَا البيتِ لقدْ لعنَ اللهُ الحكَمَ وما وَلدَ على لسانِ نبيهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ

الراوي: عبدالله بن الزبير المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 7/720
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

الدرر السنية - الموسوعة الحديثية

حضرت عبدالله بن زبيرسے روایت ہے کہ رب کعبہ کی قسم اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے حکم اور اس کی اولاد پر لعنت کی ہے

عن عبدِ اللَّهِ بنِ الزُّبيرِ أنَّهُ قال وهوَ على المنبرِ وربِّ هذا البيتِ الحرامِ والبلدِ الحرامِ إنَّ الحَكمَ بنَ أبي العاصِ وولدَه ملعونونَ على لسانِ محمد صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّم

الراوي: عبدالله بن الزبير المحدث:ابن عساكر - المصدر: تاريخ دمشق - الصفحة أو الرقم: 57/271
خلاصة حكم المحدث: محفوظ


یہ اس وقت کی بات ہے جب مروان بن حکم بن ابی العاص اپنے باپ کے صلب میں تھا

كنتُ بينَ الحسنِ والحسينِ ومروانَ يتشاتمانِ فجعل الحسنُ يكفُّ الحسينَ فقال مروانُ أهلُ بيتٍ ملعونونَ فغضِب الحسنُ وقال أقلتَ أهلُ بيتٍ ملعونونَ فواللهِ لقد لعنك اللهُ على لسانِ نبيِّه صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وأنت في صلبِ أبيك ، وفي روايةٍ فقال الحسينُ والحسنُ واللهِ ثم واللهِ لقد لعنك اللهُ

الراوي: الحسن بن علي بن أبي طالب المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 5/243
خلاصة حكم المحدث: فيه عطاء بن السائب


الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
حضرت حسن بن علي بن أبي طالب سے روایت ہے کہ میں حسن وحسین علیہا السلام مروان کے پاس تھے کہ ایک دوسرے کو سب و شتم کر رہے ہیں حسن علیہ السلام حسین علیہ السلام کو کچھ کہنے سے مانع ہو رہے تھے لیکن مروان نے کہا اہل بیت سب کے سب ملعون اور لعنتی ہیں امام حسن علیہ السلام غضبناک ہو کر فرماتے ہیں :کیا اہل بیت سلام اللہ علیہم ملعون ہیں؟ اللہ کی قسم اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے تجھ پر لعنت کی ہے اس زمانہ میں جب تو اپنے باپ کی صلب میں تھا

والسلام
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
کئی احادیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ سے بد دُعا کرنا ثابت ہے۔ صحیحین میں سیدنا ابن مسعود﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے قریش کے سات لعنتی سرداروں (ابو جہل، عتبہ، شیبہ، ولید بن عتبہ، اُمیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور ایک اور لعنتی جس کا نام راوی بھول گئے) کیلئے بد دُعا فرمائی۔
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
اس حدیث میں جس لعنتی کا نام راوی بھول گئے اس کا نام دیگر احادیث میں سرائت کے ساتھ آیا ہے

وربِّ هذَا البيتِ لقدْ لعنَ اللهُ الحكَمَ وما وَلدَ على لسانِ نبيهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ

الراوي: عبدالله بن الزبير المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 7/720
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

الدرر السنية - الموسوعة الحديثية

حضرت عبدالله بن زبيرسے روایت ہے کہ رب کعبہ کی قسم اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے حکم اور اس کی اولاد پر لعنت کی ہے

عن عبدِ اللَّهِ بنِ الزُّبيرِ أنَّهُ قال وهوَ على المنبرِ وربِّ هذا البيتِ الحرامِ والبلدِ الحرامِ إنَّ الحَكمَ بنَ أبي العاصِ وولدَه ملعونونَ على لسانِ محمد صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّم

الراوي: عبدالله بن الزبير المحدث:ابن عساكر - المصدر: تاريخ دمشق - الصفحة أو الرقم: 57/271
خلاصة حكم المحدث: محفوظ


یہ اس وقت کی بات ہے جب مروان بن حکم بن ابی العاص اپنے باپ کے صلب میں تھا

كنتُ بينَ الحسنِ والحسينِ ومروانَ يتشاتمانِ فجعل الحسنُ يكفُّ الحسينَ فقال مروانُ أهلُ بيتٍ ملعونونَ فغضِب الحسنُ وقال أقلتَ أهلُ بيتٍ ملعونونَ فواللهِ لقد لعنك اللهُ على لسانِ نبيِّه صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وأنت في صلبِ أبيك ، وفي روايةٍ فقال الحسينُ والحسنُ واللهِ ثم واللهِ لقد لعنك اللهُ

الراوي: الحسن بن علي بن أبي طالب المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 5/243
خلاصة حكم المحدث: فيه عطاء بن السائب


الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
حضرت حسن بن علي بن أبي طالب سے روایت ہے کہ میں حسن وحسین علیہا السلام مروان کے پاس تھے کہ ایک دوسرے کو سب و شتم کر رہے ہیں حسن علیہ السلام حسین علیہ السلام کو کچھ کہنے سے مانع ہو رہے تھے لیکن مروان نے کہا اہل بیت سب کے سب ملعون اور لعنتی ہیں امام حسن علیہ السلام غضبناک ہو کر فرماتے ہیں :کیا اہل بیت سلام اللہ علیہم ملعون ہیں؟ اللہ کی قسم اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے تجھ پر لعنت کی ہے اس زمانہ میں جب تو اپنے باپ کی صلب میں تھا
والسلام
آپ کا دعویٰ ہے کہ نبی کریمﷺ پر اونٹ کی اوجھڑی رکھی جانے والے اس واقعہ میں جن سات لوگوں کیلئے نبی کریمﷺ نے بد دُعا فرمائی تھی ان میں ساتواں شخص الحکم بن ابی العاص تھا؟

آپ کا کہنا یہ ہے کہ دیگر احادیث سے صراحت سے اس بات کا پتہ چلتا ہے، پھر موقف کی دلیل کے طور جو احادیث آپ نے پیش کی ہیں ان میں اس واقعہ کا سرے سے ہی تذکرہ نہیں ہے۔

صحیح بخاری کی ہی دیگر احادیث مبارکہ میں اس واقعہ کے ساتویں شخص کا نام الحکم بن ابی العاص نہیں بلکہ عُمارۃ بن الولید بیان کیا گیا ہے، دیکھئے:

بينما رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قائم يصلي عِندَ الكعبة، وجمع قريش في مجالسهم، إذ قال قائل منهم : ألا تنظرون إلى هذا المرائي، أيكم يقوم إلى جزور آل فلان، فيعمد إلى فرثها ودمها وسلاها، فيجيء به، ثم يمهله، حتى إذا سجد، وضعه بين كتفيه ؟ فانبعث أشقاهم، فلما سجد رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وضعه بين كتفيه، وثبت النبي ساجدا، فضحكوا حتى مال بعضهم إلى بعض من الضحك، فانطلق منطلق إلى فاطمة عليها السلام، وهي جويرية، فأقبلت تسعى، وثبت النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ساجدا، حتى ألقته عنه، وأقبلت عليهم تسبهم، فلما قضى رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم الصلاة، قال : اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش . ثم سمى : اللهم عليك بعمرو بن هشام، وعتبة بن ربيعة، وشيبة بن ربيعة، والوليد بن عتبة، وأمية بن خلف، وعقبة بن أبي معيط، وعمارة بن الوليد . قال عبد الله : فوالله، لقد رأيتهم صرعى يومَ بدر، ثم سحبوا إلى القُلْيب، قُلْيب بدر، ثم قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : وأتبع أصحاب القُلْيب لعنة .
الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 520
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جہاں تک الحکم بن ابی العاص﷜ کا تعلق ہے وہ صحابی ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔ فتح مکہ کے بعد ہجرت ضروری نہیں تھی، نبی کریمﷺ فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں 15 دن رہے تھے۔ اس کے بعد یہ لوگ مکہ مکرمہ میں ہی رہے تھے، پھر ان کی نبی کریمﷺ سے ملاقات حج کے موقع پر ہوئی تھی تو یہ سمجھنا کہ نبی کریمﷺ نے کسی وجہ سے ان پر لعنت کی اور انہیں مدینہ سے جلاوطن کر دیا تھا، صحیح نہیں۔ کیونکہ ان کو نبی کریم کے ساتھ زیادہ رہنا نصیب ہی نہیں ہوا کہ ان کے بارے میں نبی کریمﷺ کو اس قسم کا شکوہ ہو۔
شیخ عثمان خمیس اس حکم بن ابی العاص﷜ کی جلاوطنی وغیرہ کے متعلق فرماتے ہیں:
هذا غير صحيح , لم يثبت أن النبي صل الله عليه وسلم مروان بن الحكم , أو الحكم ابن أبي العاص , ثم أن الحكم ابن أبي العاص من مسلمة الفتح , مسلمة الفتح ضلو في مكة لم يهاجرو , فالهجرة كانت واجبة قبل الفتح , لذلك قال النبي صل الله عليه وسلم , لا هجرة بعد الفتح , فجميع مشيخة قريش الذي اسلمو بعد الفتح لم يهاجرو , والنبي كان مقامه في المدينة , ولم يبقى في مكة الا خمسة عشر يوما عند فتح مكة , ثم لما جاء الى الحج , ولا يعقل أبدا أن الحكم أو غيره , بعد اسلامه يستهزء بالرسول , لا يمكن هذا أبدا , هذا كذب , ثم لايوجد اسناد صحيح , وكذلك عقلا لا تقبل , كذلك النفي لمدة طويلة , كيف نفاه وهو في مكة والنبي في المدينة , كذلك لايعلم نفي مدته طويله , لو قلنا ان النبي نفاه في السنة الأخيرة من حياته , يعني سنة , مع خلافة أبي بكر , سنتان , ثم خلافة عمر عشر سنوات , ثم أعاده عثمان , لنفرض جدلا أن عثمان أعاده منذ أول سنة في حكمه , بذلك يكون النفي , ثلاثة عشر سنة , لايوجد نفي لمدة ثلاثة عشر سنة , أقصى نفي في الشرع هو تغريب عام للزاني الغير محصن , وعلى كل حال , بما أن القصة لا تصح , يكفينا هذا الموضوع

لہٰذا ان کے بارے میں لعنت اور جلا وطنی وغیرہ کی روایات صحیح اسناد سے ثابت نہیں ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ نے بھی منہاج السنۃ میں اس بات کو واضح فرمایا ہے:
وقد طعن كثير من أهل العلم في نفيه وقالوا هو ذهب باختياره وقصة نفي الحكم ليست في الصحاح ولا لها إسناد يعرف به أمرها

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
وأما قصة الحكم فعامة من ذكرها إنما ذكرها مرسلة وقد ذكرها المؤرخون الذين يكثر الكذب فيما يروونه وقل أن يسلم لهم نقلهم من الزيادة والنقصان فلم يكن هنا نقل ثابت

اگر بفرض محال ان پر نبی کریمﷺ کی طرف سے سبّ ولعنت ثابت بھی ہو تو نبی کریمﷺ بشر تھے بعض مرتبہ آپﷺ کو بھی غصہ آجاتا تھا، لیکن آپ﷤ رحمۃ للعالمین تھے۔ احادیث مبارکہ میں آپﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَتَّخِذُ عِنْدَكَ عَهْدًا لَنْ تُخْلِفَنِيهِ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ آذَيْتُهُ شَتَمْتُهُ لَعَنْتُهُ جَلَدْتُهُ فَاجْعَلْهَا لَهُ صَلَاةً وَزَكَاةً وَقُرْبَةً تُقَرِّبُهُ بِهَا إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔۔۔ صحیح مسلم
اے اللہ! میں آپ سے عہد لیتا ہوں کہ میں انسان ہوں۔ اگر میں نے کسی مسلمان کو اذیت پہنچائی ہو کہ اس پر برا کہا ہو، لعنت کی ہو، اسے کوڑے لگائے ہوں تو اسے اس کیلئے رحمت، تزکیہ اور قربت کا ذریعہ بنا دے ۔۔۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: قالت: دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان. فكلمها بشيء لا أدري ما هو. فأغضباه. فلعنهما وسبهما. فلما خرجا قلت: يا رسول الله! من أصاب من الخير شيئا ما أصابه هذان. قال "وما ذاك" قالت قلت: لعنتهما وسببتهما. قال "أو ما علمت ما شارطت عليه ربي؟ قلت: اللهم! إنما أنا بشر. فأي المسلمين لعنته أو سببته فاجعله له زكاة وأجرا . مسلم
کہ ’’نبی کریمﷺ کے پاس دو آدمی حاضر ہوئے، انہوں نہ جانے نبی کریمﷺ سے کیا بات کی کہ آپ کو ناراض کر دیا، نبی کریمﷺ نے انہیں اس پر لعنت وملامت کی۔ جب وہ نکلے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان دونوں کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ آپﷺ نے پوچھا وہ کیسے؟ ام المؤمنین نے عرض کیا کہ آپ نے ان دونوں کو لعنت وملامت کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تجھے علم نہیں کہ میں نے اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے کیا شرط کر رکھی ہے میں نے کہا اے اللہ! میں ایک انسان ہوں، اگر میں کسی مسلمان پر سب ولعنت کروں تو آپ اسے اس کے لئے پاکی اور اچھا بدلہ بنا دیں۔‘‘

واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے، اس کا کافروں سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر نبی کریمﷺ ان پر لعنت یا بد دُعا فرمادیں تو وہ ان کے لئے وبال بن جاتی ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: قالت: دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان. فكلمها بشيء لا أدري ما هو. فأغضباه. فلعنهما وسبهما. فلما خرجا قلت: يا رسول الله! من أصاب من الخير شيئا ما أصابه هذان. قال "وما ذاك" قالت قلت: لعنتهما وسببتهما. قال "أو ما علمت ما شارطت عليه ربي؟ قلت: اللهم! إنما أنا بشر. فأي المسلمين لعنته أو سببته فاجعله له زكاة وأجرا . مسلم
کہ ’’نبی کریمﷺ کے پاس دو آدمی حاضر ہوئے، انہوں نہ جانے نبی کریمﷺ سے کیا بات کی کہ آپ کو ناراض کر دیا، نبی کریمﷺ نے انہیں اس پر لعنت وملامت کی۔ جب وہ نکلے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان دونوں کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ آپﷺ نے پوچھا وہ کیسے؟ ام المؤمنین نے عرض کیا کہ آپ نے ان دونوں کو لعنت وملامت کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تجھے علم نہیں کہ میں نے اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے کیا شرط کر رکھی ہے میں نے کہا اے اللہ! میں ایک انسان ہوں، اگر میں کسی مسلمان پر سب ولعنت کروں تو آپ اسے اس کے لئے پاکی اور اچھا بدلہ بنا دیں۔‘‘


واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے۔ ان کا کافروں سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر نبی کریمﷺ ان پر لعنت یا بد دعا کریں تو وہ ان کے لئے بال بن جاتا ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
السلام علیکم
آج میری طبیعت خراب ہے مگر آپ کی اس بات نے مجھے فورم پر آنے لیے مجبور کردیا ماشاء بہت اچھی بات کہی ۔جزاک اللہ خیر اً فی الدارین اللہم زد فی علمک
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ کا دعویٰ ہے کہ نبی کریمﷺ پر اونٹ کی اوجھڑی رکھی جانے والے اس واقعہ میں جن سات لوگوں کیلئے نبی کریمﷺ نے بد دُعا فرمائی تھی ان میں ساتواں شخص الحکم بن ابی العاص تھا؟

آپ کا کہنا یہ ہے کہ دیگر احادیث سے صراحت سے اس بات کا پتہ چلتا ہے، پھر موقف کی دلیل کے طور جو احادیث آپ نے پیش کی ہیں ان میں اس واقعہ کا سرے سے ہی تذکرہ نہیں ہے۔

صحیح بخاری کی ہی دیگر احادیث مبارکہ میں اس واقعہ کے ساتویں شخص کا نام الحکم بن ابی العاص نہیں بلکہ عُمارۃ بن الولید بیان کیا گیا ہے، دیکھئے:

بينما رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قائم يصلي عِندَ الكعبة، وجمع قريش في مجالسهم، إذ قال قائل منهم : ألا تنظرون إلى هذا المرائي، أيكم يقوم إلى جزور آل فلان، فيعمد إلى فرثها ودمها وسلاها، فيجيء به، ثم يمهله، حتى إذا سجد، وضعه بين كتفيه ؟ فانبعث أشقاهم، فلما سجد رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وضعه بين كتفيه، وثبت النبي ساجدا، فضحكوا حتى مال بعضهم إلى بعض من الضحك، فانطلق منطلق إلى فاطمة عليها السلام، وهي جويرية، فأقبلت تسعى، وثبت النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ساجدا، حتى ألقته عنه، وأقبلت عليهم تسبهم، فلما قضى رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم الصلاة، قال : اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش . ثم سمى : اللهم عليك بعمرو بن هشام، وعتبة بن ربيعة، وشيبة بن ربيعة، والوليد بن عتبة، وأمية بن خلف، وعقبة بن أبي معيط، وعمارة بن الوليد . قال عبد الله : فوالله، لقد رأيتهم صرعى يومَ بدر، ثم سحبوا إلى القُلْيب، قُلْيب بدر، ثم قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : وأتبع أصحاب القُلْيب لعنة .
الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 520
یہاں لعنت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود فرمارہیں ہیں

جس کے لئے رسول اللہ کا فرمان یہ آپ نے پیش کیا
اے اللہ! میں آپ سے عہد لیتا ہوں کہ میں انسان ہوں۔ اگر میں نے کسی مسلمان کو اذیت پہنچائی ہو کہ اس پر برا کہا ہو، لعنت کی ہو، اسے کوڑے لگائے ہوں تو اسے اس کیلئے رحمت، تزکیہ اور قربت کا ذریعہ بنا دے ۔۔۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے
اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے

النجم : 3

حضرت عبدالله بن زبيرسے روایت ہے کہ رب کعبہ کی قسم اللہ نےاپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے حکم اور اس کی اولاد پر لعنت کی ہے
الراوي: عبدالله بن الزبير المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 7/720
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

لیکن اس صحیح حدیث میں تو خود اللہ نےاپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے حکم اور اس کی اولاد پر لعنت کی ہے

والسلام
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
لہٰذا ان کے بارے میں لعنت اور جلا وطنی وغیرہ کی روایات صحیح اسناد سے ثابت نہیں ہیں۔
وربِّ هذَا البيتِ لقدْ لعنَ اللهُ الحكَمَ وما وَلدَ على لسانِ نبيهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ

الراوي: عبدالله بن الزبير المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 7/720
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
آپ نے اصلاً دعویٰ کیا تھا کہ نبی کریمﷺ پر اونٹ سے اوجھڑی رکھنے والے قصے میں جن سات لوگوں پر نبی کریمﷺ نے لعنت فرمائی تھی ان میں ساتواں شخص الحکم بن ابی العاص تھا۔

میری طرف صحیح بخاری کی حدیث پیش کرنے پر (کہ ساتواں شخص عمارہ بن ولید تھا) آپ نے اپنے اس دعویٰ سے تنازل کر لیا ہے۔ جزاک اللہ خیرا!

یہاں لعنت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود فرمارہیں ہیں

جس کے لئے رسول اللہ کا فرمان یہ آپ نے پیش کیا

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے
اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے

النجم : 3

حضرت عبدالله بن زبيرسے روایت ہے کہ رب کعبہ کی قسم اللہ نےاپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے حکم اور اس کی اولاد پر لعنت کی ہے
الراوي: عبدالله بن الزبير المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 7/720
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

لیکن اس صحیح حدیث میں تو خود اللہ نےاپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے حکم اور اس کی اولاد پر لعنت کی ہے

والسلام
وربِّ هذَا البيتِ لقدْ لعنَ اللهُ الحكَمَ وما وَلدَ على لسانِ نبيهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ

الراوي: عبدالله بن الزبير المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 7/720
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
الحکم بن ابی العاص﷜ پر لعنت اور ان کے جلاوطنی والے واقعے کے متعلّق میں پہلے واضح کر چکا ہوں کہ یہ صحیح سند سے ثابت نہیں ہیں، شائد آپ نے اس پر توجہ نہیں کی۔ مزید حوالہ جات ملاحظہ کیجئے:

سمعت ابن الزبير يقول ورب هذه الكعبة ، إن الحكم بن أبي العاص ، وولده ملعونون على لسان محمد صلى الله عليه وسلم .
الراوي: الشعبي عامر بن شراحيل المحدث:الذهبي - المصدر: سير أعلام النبلاء - الصفحة أو الرقم: 2/108
خلاصة حكم المحدث: يروى في سبه أحاديث لم تصح

إنما كان نفيُ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم الحكمَ بنَ أبي العاصِ من المدينةِ إلى الطائفِ بينما النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في حجرتِه إذا هو بإنسانٍ يطَّلِعُ عليه فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم الورعَ الورعَ فنظروا فإذا هو الحكمُ فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم اخرجْ لا تساكِنِّي في المدينةِ ما بقيتُ فنفاه إلى الطائفِ
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/46
خلاصة حكم المحدث: فيه ملك بن سليمان ولم أعرفه وبقية رجاله ثقات

كان الحكمُ بنُ أبي العاصِ يجلسُ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وينقلُ حديثَه إلى قريشٍ فلعنه رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وما يخرجُ من صلبِه إلى يومِ القيامةِ
الراوي: عبدالله بن عمرو المحدث:ابن عدي - المصدر: الكامل في الضعفاء - الصفحة أو الرقم: 4/239
خلاصة حكم المحدث: [فيه] سليمان بن قرم لا يتابع عليه

كانَ الحَكَمُ بنُ أبي العاصِ يجلس ُإلى رسولِ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وينقلُ حديثَه إلى قريشٍ فلعَنَه النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وما يخرُجُ مِن صلبِهِ إلى يومِ القيامةِ
الراوي: عبدالله بن عمرو المحدث:ابن القيسراني - المصدر: ذخيرة الحفاظ - الصفحة أو الرقم: 3/1731
خلاصة حكم المحدث: [فيه] سليمان بن قرم متروك الحديث

كانَ الحَكَمُ بنُ أبي العاصِ يجلِسُ إلى رسولِ اللَّهِ صَلى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ويَنقِلُ حَديثَه إلى قُرَيشٍ ،فلَعَنَه رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ وما يخرُجُ مِن صُلبِه إلِى يومِ القيامَةِ
الراوي: زهير بن الأقمر المحدث:ابن عساكر - المصدر: تاريخ دمشق - الصفحة أو الرقم: 57/270
خلاصة حكم المحدث: [فيه] سليمان كوفي ضعيف

طردَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم الحكمَ بنَ أبي العاصِ عمَّ عثمانَ عن المدينةِ ومعه ابنهُ مروانَ ، فلم يزلْ هو وابنهُ طريدَينِ في زمنِ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وأبي بكرٍ وعمرَ ، فلمَّا وليَ عثمانُ آواهُ وردَّهُ إلى المدينةِ ، وجعل مروانَ كاتبَهُ وصاحبَ تدبيرِهِ . مع أنَّ اللهَ قال : {لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ } الآية
الراوي: - المحدث:ابن تيمية - المصدر: منهاج السنة - الصفحة أو الرقم: 6/265
خلاصة حكم المحدث: وقصة نفي الحكم ليست في الصحاح، ولا لها إسناد يعرف به أمرها. وعامة من ذكرها إنما ذكرها مرسلة

استأذن الحكم بن أبي العاص على رسول الله صلى الله عليه وسلم فعرف رسول الله صلى الله عليه وسلم كلامه فقال ائذنوا له حية أو ولد حية لعنه الله وكل من خرج من صلبه إلا المؤمنون منهم وقليل ما هم يشرفون في الدنيا ويوضعون في الآخرة وذوو مكر وخديعة يعظمون في الدنيا وما لهم في الآخرة من خلاق
الراوي: عمرو بن مرة الجهني المحدث:ابن عساكر - المصدر: تاريخ دمشق - الصفحة أو الرقم: 57/268خلاصة حكم المحدث: إسناده فيه من يجهل حاله وجعفر بن سليمان من الغلاة في التشيع
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ نے اصلاً دعویٰ کیا تھا کہ نبی کریمﷺ پر اونٹ سے اوجھڑی رکھنے والے قصے میں جن سات لوگوں پر نبی کریمﷺ نے لعنت فرمائی تھی ان میں ساتواں شخص الحکم بن ابی العاص تھا۔

میری طرف صحیح بخاری کی حدیث پیش کرنے پر (کہ ساتواں شخص عمارہ بن ولید تھا) آپ نے اپنے اس دعویٰ سے تنازل کر لیا ہے۔ جزاک اللہ خیرا!
شکریہ پر بات یہ ہے کہ آپ نے جو لعنتی افراد والی حدیث پیش کی اس کا صرف آپ نے ایک حصہ کا ہی ترجمہ پیش کیا تھا اس پورے واقعے کو بیان نہیں کیا پھر جب میں نے آپ کی تائید میں ایک اور لعنتی کا ذکر کیا تو اس کے جواب میں آپ نے صحیح بخاری کی حدیث کا پورا عربی متن پیش کیا جس پرمیں نے آپ کے لئے شکریہ اور جزاک اللہ خیراً کا بٹن دبایا یہ کیوں کیا گیا ؟ اس کی وجہ ہائی لائٹ کردی گئی ہے ۔

بينما رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قائم يصلي عِندَ الكعبة، وجمع قريش في مجالسهم، إذ قال قائل منهم : ألا تنظرون إلى هذا المرائي، أيكم يقوم إلى جزور آل فلان، فيعمد إلى فرثها ودمها وسلاها، فيجيء به، ثم يمهله، حتى إذا سجد، وضعه بين كتفيه ؟ فانبعث أشقاهم، فلما سجد رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وضعه بين كتفيه، وثبت النبي ساجدا، فضحكوا حتى مال بعضهم إلى بعض من الضحك، فانطلق منطلق إلى فاطمة عليها السلام، وهي جويرية، فأقبلت تسعى، وثبت النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ساجدا، حتى ألقته عنه، وأقبلت عليهم تسبهم، فلما قضى رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم الصلاة، قال : اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش . ثم سمى : اللهم عليك بعمرو بن هشام، وعتبة بن ربيعة، وشيبة بن ربيعة، والوليد بن عتبة، وأمية بن خلف، وعقبة بن أبي معيط، وعمارة بن الوليد . قال عبد الله : فوالله، لقد رأيتهم صرعى يومَ بدر، ثم سحبوا إلى القُلْيب، قُلْيب بدر، ثم قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : وأتبع أصحاب القُلْيب لعنة .
الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 520
اور اس سب کی وجہ یہ فتوہ تھا
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
الحکم بن ابی العاص﷜ پر لعنت اور ان کے جلاوطنی والے واقعے کے متعلّق میں پہلے واضح کر چکا ہوں کہ یہ صحیح سند سے ثابت نہیں ہیں، شائد آپ نے اس پر توجہ نہیں کی۔ مزید حوالہ جات ملاحظہ کیجئے:

سمعت ابن الزبير يقول ورب هذه الكعبة ، إن الحكم بن أبي العاص ، وولده ملعونون على لسان محمد صلى الله عليه وسلم .
الراوي: الشعبي عامر بن شراحيل المحدث:الذهبي - المصدر: سير أعلام النبلاء - الصفحة أو الرقم: 2/108
خلاصة حكم المحدث: يروى في سبه أحاديث لم تصح

إنما كان نفيُ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم الحكمَ بنَ أبي العاصِ من المدينةِ إلى الطائفِ بينما النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في حجرتِه إذا هو بإنسانٍ يطَّلِعُ عليه فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم الورعَ الورعَ فنظروا فإذا هو الحكمُ فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم اخرجْ لا تساكِنِّي في المدينةِ ما بقيتُ فنفاه إلى الطائفِ
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/46
خلاصة حكم المحدث: فيه ملك بن سليمان ولم أعرفه وبقية رجاله ثقات

كان الحكمُ بنُ أبي العاصِ يجلسُ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وينقلُ حديثَه إلى قريشٍ فلعنه رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وما يخرجُ من صلبِه إلى يومِ القيامةِ
الراوي: عبدالله بن عمرو المحدث:ابن عدي - المصدر: الكامل في الضعفاء - الصفحة أو الرقم: 4/239
خلاصة حكم المحدث: [فيه] سليمان بن قرم لا يتابع عليه

كانَ الحَكَمُ بنُ أبي العاصِ يجلس ُإلى رسولِ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وينقلُ حديثَه إلى قريشٍ فلعَنَه النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وما يخرُجُ مِن صلبِهِ إلى يومِ القيامةِ
الراوي: عبدالله بن عمرو المحدث:ابن القيسراني - المصدر: ذخيرة الحفاظ - الصفحة أو الرقم: 3/1731
خلاصة حكم المحدث: [فيه] سليمان بن قرم متروك الحديث

كانَ الحَكَمُ بنُ أبي العاصِ يجلِسُ إلى رسولِ اللَّهِ صَلى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ويَنقِلُ حَديثَه إلى قُرَيشٍ ،فلَعَنَه رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ وما يخرُجُ مِن صُلبِه إلِى يومِ القيامَةِ
الراوي: زهير بن الأقمر المحدث:ابن عساكر - المصدر: تاريخ دمشق - الصفحة أو الرقم: 57/270
خلاصة حكم المحدث: [فيه] سليمان كوفي ضعيف

طردَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم الحكمَ بنَ أبي العاصِ عمَّ عثمانَ عن المدينةِ ومعه ابنهُ مروانَ ، فلم يزلْ هو وابنهُ طريدَينِ في زمنِ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وأبي بكرٍ وعمرَ ، فلمَّا وليَ عثمانُ آواهُ وردَّهُ إلى المدينةِ ، وجعل مروانَ كاتبَهُ وصاحبَ تدبيرِهِ . مع أنَّ اللهَ قال : {لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ } الآية
الراوي: - المحدث:ابن تيمية - المصدر: منهاج السنة - الصفحة أو الرقم: 6/265
خلاصة حكم المحدث: وقصة نفي الحكم ليست في الصحاح، ولا لها إسناد يعرف به أمرها. وعامة من ذكرها إنما ذكرها مرسلة

استأذن الحكم بن أبي العاص على رسول الله صلى الله عليه وسلم فعرف رسول الله صلى الله عليه وسلم كلامه فقال ائذنوا له حية أو ولد حية لعنه الله وكل من خرج من صلبه إلا المؤمنون منهم وقليل ما هم يشرفون في الدنيا ويوضعون في الآخرة وذوو مكر وخديعة يعظمون في الدنيا وما لهم في الآخرة من خلاق
الراوي: عمرو بن مرة الجهني المحدث:ابن عساكر - المصدر: تاريخ دمشق - الصفحة أو الرقم: 57/268خلاصة حكم المحدث: إسناده فيه من يجهل حاله وجعفر بن سليمان من الغلاة في التشيع
میں نے تو آپ کی خدمت میں عبدالله بن زبير والی روایت پیش کی تھی جس میں حکم اور اس کی اولاد کے لئے صرف لعنت کی گئی ہے اس روایت کو ناصر الدین البانی صاحب نے السلسلة الصحيحة میں پیش کیا ہے اور اس روایت کو صحیح کہا ہے !
 
Top