• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(اللهم إني أسألك علما نافعا۔۔) والی روایت کی استنادی حالت

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
آج کل مساجد میں عام طور سے ایک پوسٹر نظر آتاہے جس میں نماز کے بعد کے مسنون دعائیں یا اذکار لکھے ہوتے ہیں لیکن اس میں بعض ایسی دعاؤں کو بھی مسنون کہا گیا ہے جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں ، انہیں غیرثابت شدہ دعاؤں میں ایک دعادرج ذیل ہے:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا طَيِّبًا وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا​


یہ دعاء اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحیح ثابت نہیں ہے، ذیل میں اس کی تفصیل پیش کی جارہی ہے:

اسے موسی بن عائشہ عن مولی ام سلمہ عن أم سلمة کے طریق سے درج ذیل لوگوں نے روایت کیا ہے:

مسعر بن كدام رحمہ اللہ۔
رقبة بن مصقلة رحمہ اللہ ۔
الوضاح بن عبد الله رحمہ اللہ۔
شعبة بن الحجاج رحمہ اللہ۔
عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ رحمہ اللہ
سفیان الثوری رحمۃ اللہ۔


تفصیل ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
مسعر بن كدام رحمہ اللہ کی روایت​

امام طبرانی رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ثنا أَبُو مَعْمَرٍ، ثنا أَبُو أُسَامَةَ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًى لِأُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ [المعجم الكبير للطبراني 23/ 305]


رقبة بن مصقلة رحمہ اللہ کی روایت

امام ابو يعلى الفراء نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ حبابة قال: حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ نَيْرُوزَ قال: حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ كَثِيرٍ قال: حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ الحراني حدثنا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ بْنِ مِرْدَانبه عَنْ رَقَبَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ مَوْلًى لأُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْغَدَاةَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا وَاسِعًا وَعَمَلا مُتَقَبَّلا. [ستة مجالس لأبي يعلى الفراء (ص: 93) واخرجه ابو يعلي ايضا في السادس من أماليه (ص: 6)].



ابوعوانہ الوضاح بن عبد الله رحمہ اللہ کی روایت

امام مسدد رحمہ اللہ نے کہا:
ثنا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًى لِأُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي دُبُرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا"[مسند مسدد بحواله مصباح الزجاجة 1/ 145، واخرجه ايضا ابن عبدالبر في جامع بيان العلم وفضله: (1/ 320) من طريق مسدد به، واخرجه ايضا الطبراني في الدعاء (ص: 213)، و في المعجم الكبير (23/ 305) من طريق ابي عوانه به ].


شعبة بن الحجاج رحمہ اللہ۔

امام ابوداؤد طیالسی نے کہا:
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًى لِأُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى الصُّبْحَ قَالَ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا"
[مسند أبي داود الطيالسي (3/ 179) واخرجه ايضا أحمد بن منيع في مسنده کما في مصباح الزجاجة (1/ 145) و احمد بن حنبل في مسنده (44/ 221) و (44/ 221) وإسحاق بن راهويه في مسنده (4/ 137) و عبد بن حميد في مسنده (ص: 443) و ابن أبي شيبة في مصنفه (6/ 33) و ابن ماجه في سننه (1/ 298) و محمد بن العباس بن نجيح البزاز في الأول من حديثه (345) و أبو علي بن شاذان في الأول من حديثه (ص: 66) وفي الثاني من أجزاء ه (ص: 77) و في جزءه مخطوط ص: 18 و البيهقي في شعب الإيمان (3/ 276) وفي الدعوات الكبير (1/ 186) و أبو يعلى مسنده (12/ 361) و (12/ 382) وابن السني في عمل اليوم والليلة (ص: 52) و (ص: 100) والطبراني في الدعاء (ص: 213) و في المعجم الكبير (23/ 305) و عبد الله بن عمر بن أبي بكر المقدسي في جزئه مخطوط ص: 1کلهم من طريق شعبه به]


عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ رحمہ اللہ کی روایت

امام حمیدی رحمہ اللہ نےکہا:
ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلَى لِأُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ بَعْدَ الصُّبْحِ "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مَقْبُوَلًا" [مسند الحميدي (1/ 309) واخرجه ايضا ابن عبدالبر في جامع بيان العلم وفضله (1/ 626) من طريق الحميدي به]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سفیان الثوری رحمہ اللہ کی روایت




قارئین غورفرمائیں کہ مذکورہ روایت کو پانچ محدثین نے بالکل ایک ہی طریق اوریکسان الفاظ سےروایت کیا ہے سب میں ام سلمہ کاشاگردمولی ام سلمہ ہے جو مبہم ومجہول ہے اوراسی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔

،لیکن جب اسی متن کو اسی سند سے سفیان الثوری رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں تو سند میں کئی طرح سے تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہیں ،
سفیان الثور ی نے اس روایت کو اپنے تین اساتذہ سے بیان کیا ہے۔
تفصیل ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سفیان ثوری رحمہ اللہ کے پہلے استاذ:عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ

امام حمیدی رحمہ اللہ نےکہا:
ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلَى لِأُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ بَعْدَ الصُّبْحِ "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مَقْبُوَلًا"[مسند الحميدي (1/ 309) واخرجه ايضا ابن عبدالبر في جامع بيان العلم وفضله (1/ 626) من طريق الحميدي به]

سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اپنے اس استاذ سے جوروایت بیان کی ہے وہ دیگرتمام رواۃ کے موافق ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سفیان ثوری کے دوسرے استاذ:مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ

سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اپنے اس استاذ سے مذکورہ حدیث کو دو طرح روایت کیا ہے

اول : تمام رواۃ کے موافق روایت:

امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًى لِأُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فِي حَدِيثِهِ: عَمَّنْ، سَمِعَ أُمَّ سَلَمَةَ، تُحَدِّثُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ الْفَجْرِ إِذَا صَلَّى: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا" [مسند أحمد (44/ 297 و 44/ 140) و اخرجه ايضا عبد الرزاق في مصنفه (2/ 234)، و الطبراني في المعجم الكبير (23/ 305) و في الدعاء (ص: 213) والنسائي في الکبري (9/ 44) وفي عمل اليوم والليلة للنسائي (ص: 184)، واخرجه ايضا الشجري في ترتيب الأمالي الخميسية للشجري (1/ 90) و (1/ 319) و (1/ 331) والخطيب البغدادي في السابق واللاحق في تباعد ما بين وفاة راويين عن شيخ واحد ص: 138 کلهم من طرقهم عن سفيان به]


دوم: تمام رواۃ سے الگ روایت:

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثنا الحُسَينُ بن إِسماعِيل المَحامِلِيُّ، قال: حَدَّثنا أَحمَد بن إِدرِيس المَخرمِيُّ، قال: حَدَّثنا شاذانُ، قال: حَدَّثنا سُفيانُ الثَّورِيُّ، عَن مُوسَى بنِ أَبِي عائِشَة، عَن عَبدِ الله بنِ شداد، عَن أُمِّ سَلَمَة، قالَت: كان رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيه وسَلم، إِذا صَلَّى الفَجر لَم يَقُم مِن مَجلِسِهِ حَتَّى يَقُول: اللهمّ إِنِّي أَسأَلُك عِلمًا نافِعًا، وعَمَلا مُتَقَبَّلا، ورِزقًا طَيِّبًا يُكَرِّرُها ثَلاث مَرّاتٍ، لَم يَقُل فِيهِ: عَن عَبد الله بنِ شَدّادٍ، غير المَخرمِيِّ، عَن شاذان.[علل الدارقطني 15/ 220، أفراد للدارقطني بحواله تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف مع النكت: ج13ص46 واخرجه ايضا الخطيب في تاريخ بغداد ت بشار 5/ 64 من طريق أَحمَد بن إِدرِيس المَخرمِيُّ به]


سفیان ثوری رحمہ اللہ کی اس روایت میں سب سے الگ بات ہے اور وہ یہ کی مذکورہ تمام روایات میں بلکہ خود سفیان ثوری رحمہ اللہ کی سابقہ روایات میں بھی ام سلمہ کے مولی کا نام مبہم تھا ، لیکن اس روایت میں اس کانام ( عَبدِ الله بنِ شداد) بتلایا گیا ہے اسی سے بعض اہل علم کو غلط فہمی ہوگئی اورانہوں نے یہ سمجھ لیا کہ مذکورہ روایات میں مولی ام سلمہ جو مبہم راوی ہے اس سے مراد (عبداللہ بن شداد ) ہی ہے ، اوریہ ثقہ ہے لہٰذا یہ روایت صحیح ہے۔

لیکن ہماری نظر میں یہ بات قطعا در ست نہیں یعنی سفیان ثوری کی موخر الذکر روایت کی بنا پر سابقہ روایات میں مبہم راوی کی تعین نہیں ہو سکتی ۔
اس کی کئی وجوہات ہیں :

الف :

خود سفیان ثوری سے بھی یہ روایت ثابت نہیں کیونکہ سفیان ثوری سے نیچے اس سند کوبیان کرنے والا ( أَحمَد بن إِدرِيس المَخرمِيُّ) ہے اوریہ مجہول ہے کسی بھی کتاب میں اس کے حالات نہیں ملے، لہٰذا ایک مجہول راوی کی بیان کردہ منفرد سند سے کسی مبہم راوی کی تعین نہیں ہوسکتی۔


ب:
کسی بھی محدث نے اس روایت کو بنیاد بناکر سابقہ روایت میں موجود مبہم راوی کی تعینن نہیں کی ہے ، امام بوصیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا إسناد رجاله ثقات خلا مولى أم سلمة فإنه لم يُسمّ ولم أر أحداً ممن صنف في المبهمات ذكره ولا أدري ما حاله [مصباح الزجاجة 1/ 145]


حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے گرچہ تقریب میں کہا ہے کہ :
موسى ابن أبي عائشة عن مولى أم سلمة اسمه عبدالله ابن شداد وقع في الأفراد للدارقطني[تقريب التهذيب 2/ 737]


لیکن خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہی نے اپنی دوسری کتاب میں اس روایت کو شاذقرار دیا ہے اورشاذ روایت مردود ہوتی ہے، چنانچہ حافظ موصوف لکھتے ہیں:
وأخرجه أيضا من رواية شاذان عن سفيان الثوري فقال عبد الله بن شداد بدل مولى أم سلمة وهي رواية شاذ ( نتائج الافکار: ج2 ص 331 )

مزید براں یہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب نتائج الافکار میں اس روایت پر بحث کیا ہے مگر سفیان ثوری کی موخرالذکر روایت کو بنیاد بناکر زیرتحقیق حدیث کوصحیح نہیں کہا، اس سے معلوم ہوا کہ خود حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی تحقیق میں بھی سفیان الثوری کی موخرالذکر روایت مبھم راوی کی تعین کے لئے کافی نہیں ہے۔


ج:

سفیان الثوری سے اس روایت کو ان کے شاگرد شاذان نے روایت کیا ہے اورکسی نے ان الفاظ پر ان کی متابعت نہیں‌ کی ہے ، جبکہ اس کے برعکس سفیان کے پانچ شاگردوں نے سفیان سے اسی روایت کو مولی ام سلمہ کے ابہام ہی کے ساتھ روایت کیا ملاحظہ ہو:

پہلے شاگر:امام عدالرزاق رحمہ اللہ ۔
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ رَجُلٍ، سَمِعَ أُمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي دُبُرِ صَلَاةٍ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ رِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا، وَعِلْمًا نَافِعًا " [مصنف عبد الرزاق الصنعاني (2/ 234) وأخرجه الطبراني في الكبير (685)و الحافظ في نتائج الأفكار (2/ 330) من طريق عبدالرزاق به]۔


دوسرے شاگرد: امام وکیع رحمہ اللہ۔
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًى لِأُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: فِي دُبُرِ الْفَجْرِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا»[مسند أحمد مخرجا (44/ 140) رقم 26521، (44/ 296) رقم26700، وأخرجه النسائي في الكبرى (9850) نا محمود بن غيلان قالا ثنا وكيع ثنا سفيان عن موسى به]



تیسرے شاگرد:عبد الرحمن بن مهدي رحمہ اللہ۔
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًى لِأُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فِي حَدِيثِهِ: عَمَّنْ، سَمِعَ أُمَّ سَلَمَةَ، تُحَدِّثُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ الْفَجْرِ إِذَا صَلَّى: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا"[مسند أحمد (44/ 297) رقم 26700]۔


چوتھے شاگرد : امام ابونعیم رحمہ اللہ۔
امام طبرانی رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًى لِأُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا صَالِحًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا"[الدعاء للطبراني (ص: 213) و أخرجه الحافظ في نتائج الأفكار (2/ 330) من طريق الطبراني به]



پانچویں‌ شاگرد: إسماعيل بن عمرو البجلي۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ يَزْدَادَ الْقَارِئُ أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الأَصْبَهَانِيُّ ثنا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَخْلَدٍ الْفَرْقَدِيُّ ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِيُّ ثنا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ مَوْلًى لأُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ رِزْقًا طَيِّبًا، وَعِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلا مُتَقَبَّلا"[السابق واللاحق في تباعد ما بين وفاة راويين عن شيخ واحد ص:138 وأخرجه ايضا الشجري في ترتيب الأمالي الخميسية (1/ 90) و (1/ 319) و (1/ 331) من طريق إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِيُّ به]۔




د:

امام دارقطنی رحمہ اللہ امام ناقد ہونے کے ساتھ ساتھ خود موخرالذکر روایت کے راوی بھی ہیں، خود انہوں نے بھی اس روایت کو مردود قرار دیا ہے اوراس میں موجود مبہم راوی کی تعیین کو غلط قرار دیا ہے، علل میں ہے:
وسئل عن حديث عبد الله بن شداد بن الهاد ، عن أم سلمة ، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ، إذا صلى الفجر لم يقم من مجلسه حتى يقول : اللهم إني أسألك علما نافعا ، وعملا متقبلا ، ورزقا طيبا ، يكررها ثلاثا . فقال : يرويه موسى بن أبي عائشة ، واختلف عنه ؛ فرواه شاذان ، عن الثوري ، عن موسى بن أبي عائشة , عن عبد الله بن شداد ، عن أم سلمة ، قاله أحمد بن إدريس المخرمي ، عن شاذان.وغيره يرويه ، عن الثوري ، عن موسى بن أبي عائشة ، عن مولى لأم سلمة ، عن أمسلمة ، رحمها الله ، وكذلك قال عمرو بن سعيد بن مسروق ، ورقبة بن مصقلة ، عن موسى بن أبي عائشة ، وهو الصواب.

حدثنا الحسين بن إسماعيل المحاملي ، قال : حدثنا أحمد بن إدريس المخرمي ، قال : حدثنا شاذان ، قال : حدثنا سفيان الثوري ، عن موسى بن أبي عائشة ، عن عبد الله بن شداد ، عن أم سلمة ، قالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ، إذا صلى الفجر لم يقم من مجلسه حتى يقول : اللهم إني أسألك علما نافعا ، وعملا متقبلا ، ورزقا طيبا يكررها ثلاث مرات ، لم يقل فيه : عن عبد الله بن شداد ، غير المخرمي ، عن شاذان .[علل الدارقطني 15/ 220]

ھ :

سفیان ثوری کی موخر الذکر روایت سے مبہم راوی کی تعین نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سفیان ثوری ہی کی ایک دوسری روایت میں مبہم راوی کی تعین میں (عبداللہ بن شداد) کے بجائے (سفینہ) کا نام مذکورہے ،اب سوال یہ ہے کہ مبہم راوی کی تعین میں سفیان ثوری کی کس روایت پراعتماد کیا جائے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہماری نظر میں یہ دونوں روایتیں مردو د ہیں پہلی روایت کی حقیقت واضح کی جاچکی ہے اوردوسری روایت کے بارے میں تفصیل آرہی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سفیان ثوری کے تیسرے استاذ: منصور رحمہ اللہ

سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اپنے اس استاذ سے بھی مذکورہ حدیث کو دو طرح روایت کیا ہے:

اول:

امام ابوبکراسماعیلی رحمہ اللہ نے کہا:
أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُفَيْرٍ الْأَنْصَارِيُّ بِبَغْدَادَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَامِرٍ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ النُّعْمَانِ، يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ السَّلَامِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ رِزْقًا طَيِّبًا، وَعِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا"[معجم أسامي شيوخ أبي بكر الإسماعيلي (2/ 624) واخرجه ايضا الطبراني في المعجم الصغير (2/ 36) و ابو نعيم في أخبار أصبهان (1/ 464) و ابو علي الحداد في معجم مشائخه (515) من طريق ابراهيم بن عامر به]


یہ روایت بھی ضعیف ہے اس میں کئی علتیں ہیں:



الف:

سفیان ثوری سے کئی رواۃ نے یہ سند بیان کی ہے مگر نعمان کے علاوہ کسی نے بھی سفیان سے اوپر یہ سند بیان نہیں کی ہے لہذا یہ راویت شاذ ہے ۔

ب:

شعبی کا سماع ام سلمہ سے ثابت نہیں ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام ابن المدینی کی کتاب العلل سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقال ابن المديني في العلل لم يسمع من زيد بن ثابت ولم يلق أبا سعيد الخدري ولا أم سلمة

[تهذيب التهذيب 20/ 32]

دوم:

امام طبرانی رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْفَرَجِ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ سَفِينَةَ مَوْلًى لِأُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ[ المعجم الكبير للطبراني (23/ 305)]


یہ روایت بھی ضعیف ہے اس میں بھی کئی علتین ہیں:


الف:

سفیان سے اس روایت کو نقل کرنے والا راوی إسماعيل بن عَمْرو بن نجيح البَجَليّ بھی ضعیف ہے:


امام ابن عدی رحمہ اللہ نے کہا:
وهو ضعيف[الكامل في الضعفاء 1/ 322]


امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا:
إسماعيل بن عمرو البجلي الأصبهاني، ضعيف.[كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني ص: 5]


امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے کہا:
ضعيف الحديث [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 2/ 190]


بالخصوص سفیان ثوری سے اس کی مرویات زیادہ ہی ضعیف ہوتی ہیں ، امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وإسماعيل بْن نجيح هو إسماعيل بْن عمرو بْن نجيح البجلي، نسب في الرواية إلى جده، وهو صاحب غرائب ومناكير عَنْ سفيان الثوري وعن غيره.[تاريخ بغداد 1/ 336]

اوراس کی یہ روایت سفیان ثوری ہی سے ہے۔

ب:

سفیان ثوری سے کئی رواۃ نے یہ سند بیان کی ہے جیساکہ گذشتہ سطورمیں تفصیل پیش کی گئی مگر کسی نے بھی سفیان سے اوپر یہ سند بیان نہیں کی ہے لہذا یہ راویت شاذ ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
حدیث مذکورکے ایک شاہد کاجائزہ


امام طبرانی نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا أَبُو كُرَيْبٍ، ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَا: ثنا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي عُمَرَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ [ الدعاء للطبراني (ص: 213)]

امام طبرانی کی کتاب الدعاء میں حدیث مذکور کے بعد یہ سندموجود ہے اوربعض اہل علم نے اسے حدیث مذکور کاشاہدتسلیم کرلیا ہے لیکن ہماری نظرمیں یہ روایت شاہد ہرگز نہیں بن سکتی ،اس کی کئی وجوہات ہیں:

الف:
یہ روایت بھی ضعیف ہے، اس میں ابوعمرمجہول ہے۔

ب:
متعدد ناقدین نے صراحت کی ہے کہ ابوعمرسے صرف اورصرف ایک ہی حدیث مروی ہے اوروہ ہے ذهب أهل الدثور بالأجور ...والی حدیث ۔۔۔۔۔۔

امام برقانی رحمہ اللہ نے کہا:
وسئل عن اسم أبي عمر الصيني ، فقال : لا يعرف ، ولا روي عنه غير هذا الحديث.( یعنی حدیث : ذهب أهل الدثور بالأجور ... )[علل الدارقطني 6/ 215]

امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے کہا:
لا نعرفه الا برواية حديث واحد عن أبى الدرداء عن النبي صلى الله عليه و سلم سبقنا الأغنياء بالدنيا والآخرة يصلون كما نصلى ويصومون كما نصوم الحديث ولا يسمى [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 9/ 407]ْ

معلوم ہواکہ ابوعمرسے زیرتحقیق روایت مروی ہی نہیں ہے کیونکہ اہل فن کے بقول اس نے صرف ایک ہی حدیث کی روایت کی ہے اور وہ ذهب أهل الدثور بالأجور ...والی روایت ہے ۔
لہذا امام طبرانی کی کتاب الدعاء میں یہ سند سہوادرج ہوگئی ہے ۔
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام طبرانی نے ذهب أهل الدثور بالأجور ...والی حدیث کواپنی اسی کتاب الدعاء میں جہاں راویت کیا ہے ، تو اس کے فورا بعد بعینہ اسی سند کووہاں بھی پیش کیا ہے ملاحظہ ہو:

اقتباس:
710 - حَدَّثَنَا يُوسُفُ الْقَاضِي، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّمَّارُ، ثنا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، قَالَا: ثنا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي عُمَرَ الصِّينِيِّ، قَالَ: كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا نَزَلَ بِهِ ضَيْفٌ قَالَ: أَمُقِيمٌ فَنُسَرِّحُ أَمْ ظَاعِنٌ فَنَعْلِفُ؟ فَإِذَا قَالَ: ظَاعِنٌ قَالَ: مَا أَجِدُ لَكَ شَيْئًا خَيْرًا مِمَّا قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَهَبَ الْأَغْنِيَاءُ بِالصَّدَقَةِ وَالْجِهَادِ وَنَحْوِ ذَلِكَ، قَالَ: «أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ جِئْتُمْ بِأَفْضَلَ مِمَّا يَجِيءُ بِهِ أَحَدٌ مِنْهُمْ، تُسَبِّحُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتُكَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ»

711 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا أَبُو كُرَيْبٍ، ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَا: ثنا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي عُمَرَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ
[الدعاء للطبراني ص: 226]


غورکریں کہ اما م طبرانی رحمہ اللہ نے اپنی اسی کتا ب الدعاء میں یہاں ذهب أهل الدثور بالأجور ...والی حدیث کے بعد جو سند پیش کی ہے وہ حرف بحرف وہی ہے جو اسی کتاب الدعاء میں زیرتحقیق روایت کے بعد بھی درج ہےملاحظہ ہو:
اقتباس:

669 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًى لِأُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا صَالِحًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا»

670 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا أَبُو كُرَيْبٍ، ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَا: ثنا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي عُمَرَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ [الدعاء للطبراني ص: 213]


غورکریں کہ اسی کتاب میں ایک ہی سند بعینہ دومقام پر ہے اوردونوں مقامات پرایک حرف کا بھی فرق نہیں ہے۔
اورناقدین کے اقوال پیش کئے جاچکے ہیں کہ ابوعمر نے صرف ایک ہی حدیث روایت کی ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ مذکورہ سند جو حرف بحرف امام طبرانی کی کتاب میں دو مقام پر درج ہوگئی ہے یہ سہوا ہواہے۔
اورحقیقت میں اس کاایک ہی جگہ درج کیا جاناصحیح ہے اوروہ ہے ذهب أهل الدثور بالأجور ...والی حدیث کے بعد، کیونکہ اہل فن کے بقول اس نے صرف اورصرف یہی روایت بیان کی ہے۔

معلوم ہوا کہ زیرتحقیق حدیث کے اس شاہد کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

خلاصہ بحث یہ کہ مذکورہ دعا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے باسند صحیح ثابت نہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت درست نہیں ، واللہ اعلم۔
 
Top