• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الله کے سوا کوئی غیب جاننے والا نہیں!! - گرافکس

عبد الوکیل

مبتدی
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
142
ری ایکشن اسکور
604
پوائنٹ
0
صحيح مسلم - كتاب الفتن وأشراط الساعة - ‏باب إخبار النبي (ص) فيما يكون إلى قيام الساعة

‏2892 - وحدثني : ‏ ‏يعقوب بن إبراهيم الدورقي ‏ ‏وحجاج بن الشاعر ‏ ‏جميعاًًً ‏ ‏، عن ‏ ‏أبي عاصم ‏ ‏قال : ‏ ‏حجاج ‏ ، حدثنا : ‏ ‏أبو عاصم ‏ ، أخبرنا : ‏ ‏عزرة بن ثابت ‏ ، أخبرنا : ‏ ‏علباء بن أحمر ‏ ‏، حدثني : ‏ ‏أبو زيد يعني عمرو بن أخطب ‏ ‏قال : ‏ صلى بنا رسول الله ‏ (ص) ‏ ‏الفجر وصعد المنبر فخطبنا حتى حضرت الظهر فنزل فصلى ثم صعد المنبر فخطبنا حتى حضرت العصر ثم نزل فصلى ثم صعد المنبر فخطبنا حتى غربت الشمس فأخبرنا بما كان وبما هو كائن فأعلمنا أحفظنا.


اللهم اهدنا الصراط المستقيم
جب تک دل کے یقین سے ہدایت کی دعا نہ کی جائے ظاہری الفاظ اثر نہیں دکھا سکتے
جناب کو یہ تو علم ہو گا کہ نبیﷺ نے یہ تمام خبریں اللہ کی طرف سے وحی کے بعد دیں تو پھر بھی اشکال موجود ہے حالانکہ قرآن کریم کے واضح الفاظ ہیں
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾
سورۃ النجم
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
جناب کو یہ تو علم ہو گا کہ نبیﷺ نے یہ تمام خبریں اللہ کی طرف سے وحی کے بعد دیں تو پھر بھی اشکال موجود ہے حالانکہ قرآن کریم کے واضح الفاظ ہیں
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾
سورۃ النجم
تو پهر جهگڑا لفظی ہے حقیقت پر دونوں متفق ہیں
 

samisain

مبتدی
شمولیت
جنوری 05، 2013
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
0
وماھو الالغیب بضنین
اور یہ غیب بتانے میں بخیل نہیں۔
 

samisain

مبتدی
شمولیت
جنوری 05، 2013
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
0
علم غیب مصطفی ﷺ عقل کی روشنی میں
آیت "وعلمک مالم تکن تعلم"ترجمہ:اے محبوب!اللہ تعالیٰ نے تمہیں سکھادیا جو تم نہیں جانتے تھے۔
جلالین شریف میں اس آیت کی تفسیر آی من الاحکام والغیب کی گئی یعنی اللہ نے رسول کو سکھادیا۔کیا کیا سکھادیا احکام سکھادیئے اور غیب سکھادیا۔سکھانے والاخدا اور سیکھنے والے مصطفےﷺ۔کیا مصطفے سے زیادہ باصلاحیت اور ذی استعداد کوئی ہے اور ان کا سکھانے والا وہ رب عظیم ہے جس نے آدم علیہ السلام کو سکھایا تو سارے فرشتے حیرت زدہ رہ گئے۔یہ سکھانے والا وہ ہے۔جس نے انسان کی برتری کو فرشتوں سے منوالیا۔اب سیکھنے والارسول عربی جیسا اور سکھانے والاقادر مطلق تو اس رب قدیر کو غیب کی بات بتانے سے کون سی بات روک سکتی ہے؟
علم غیب:
معقولات کی بات ختم ہوئی اب منقولات کی طرف چلئے اور رسول کائنات کی قوت قدسیہ کا جلوہ دیکھئے۔
حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں۔غزوہ خندق کا موقع ہے ایک چٹان ہے جو توڑے نہیں توڑا جاتا۔سرکاردو عالمﷺتک خبر پہنچی۔سرکار تشریف لائےپہلی ضرب لگائی چٹان کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔اس وقت سرکار ﷺنےنعرہ بلند کیا۔
اللہاکبراعطیت مفاتیح الشام ترجمہ: اللہ کے لیے بڑائی ہے مجھے شام کی کنجیاں عطا کردی گئی۔
اس کے بعد جب دوسری ضرب لگائی تو دوسرا حصہ نکل گیا تو سرکارﷺ فرماتے ہیں۔
اللہ اکبر انّی اعطیت مفاتیح الفارس ترجمہ: اللہ کے لیے بڑائی ہے فارس کی کنجیاں بھی مجھے دی گئیں۔
اور جب تیسری ضرب لگائی تو وہ پتھر چور چور ہوگیااور سرکارﷺ نے فرمایا:
اللہ اکبر انّی اعطیت مفاتیح الیمن ترجمہ: اللہ کے لیے بڑائی ہے مجھے یمن کی بھی کنجیاں دی گئی ہیں۔
اللہ اکبر! وہ زمانہ مسلمانوں کے لیے بظاہر تنگ دستی اور بے سروسامانی کا زمانہ تھا،نہ لشکر نہ سازوسامان۔اس پر بھی سرکارﷺ کا یہ ارشاد تو معلوم ہوا کہ سرکارمادی قوت کے بھروسے نہیں بول رہے تھے بلکہ غیب کی خبر دے رہے تھے کہ اے اسلام کی بے سروسامانی دیکھنے والو!زمانہ آنے والا ہے۔جب سب کچھ تاج وتخت ہمارے غلاموں کے قدموںمیں ہوں گے۔ہمارا مستقبل بڑاروشن ہے۔
تفسیر البیان میں اس آیت کریمہ"ویکون الرسول علیکم شھیداً"کی تشریح وتفسیر دیکھیں!یہ نہ سمجھ سکو تو شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی علیہ الرحمہ کی تفسیر عزیزی دیکھیں۔
روح البیان: "شھادہ الرسول علیھم اطلاعہ علی مرتبۃ کل متّدّین بدینہ وھویعریف ذنوبھم وحقیقۃ ایمانہم واعمالھم وحسناتھم وسیاتھم واخلاصھم ونفاقھم وغیرذالک بنورالحق"
رسول(ﷺ)ہر دین دار کے دین کے مرتبے کو پہچانتے ہیں۔ مطلع ،باخبرہیں اور رسول جن جن پر گواہ ہوں گے،ان گناہوں کو بھی دیکھ رہے ہیں،ان کے اعمال کو بھی دیکھ رہے ہیں،اور صرف دیکھنے کی بات نہیں کی ہے بلکہ "یعرف"پہچان رہے ہیں۔اب مشاہدے کا کیا ذکر؟معرفت کا معاملہ ہے۔
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225

اترجمہ: اللہ کے لیے بڑائی ہے مجھے شام کی کنجیاں عطا کردی گئی۔
انتظامیاں سے درخواست ہے اسیے ڈلیٹ کر دیں یا درست کر دیں بہت شکریہ اگر موصوف دیکھیں تو وہ خو د ہی اسیے درست کر دے اور الفاظ کو دیکھ کر لکھا کریں
 

samisain

مبتدی
شمولیت
جنوری 05، 2013
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
0
شکریہ

علم غیب مصطفی ﷺ عقل کی روشنی میں
آیت "وعلمک مالم تکن تعلم"ترجمہ:اے محبوب!اللہ تعالیٰ نے تمہیں سکھادیا جو تم نہیں جانتے تھے۔
جلالین شریف میں اس آیت کی تفسیر آی من الاحکام والغیب کی گئی یعنی اللہ نے رسول کو سکھادیا۔کیا کیا سکھادیا احکام سکھادیئے اور غیب سکھادیا۔سکھانے والاخدا اور سیکھنے والے مصطفےﷺ۔کیا مصطفے سے زیادہ باصلاحیت اور ذی استعداد کوئی ہے اور ان کا سکھانے والا وہ رب عظیم ہے جس نے آدم علیہ السلام کو سکھایا تو سارے فرشتے حیرت زدہ رہ گئے۔یہ سکھانے والا وہ ہے۔جس نے انسان کی برتری کو فرشتوں سے منوالیا۔اب سیکھنے والارسول عربی جیسا اور سکھانے والاقادر مطلق تو اس رب قدیر کو غیب کی بات بتانے سے کون سی بات روک سکتی ہے؟
علم غیب:
معقولات کی بات ختم ہوئی اب منقولات کی طرف چلئے اور رسول کائنات کی قوت قدسیہ کا جلوہ دیکھئے۔
حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں۔غزوہ خندق کا موقع ہے ایک چٹان ہے جو توڑے نہیں توڑا جاتا۔سرکاردو عالمﷺتک خبر پہنچی۔سرکار تشریف لائےپہلی ضرب لگائی چٹان کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔اس وقت سرکار ﷺنےنعرہ بلند کیا۔
اللہاکبراعطیت مفاتیح الشام ترجمہ: اللہ کے لیے بڑائی ہے مجھے شام کی کنجیاں عطا کردی گئی۔
اس کے بعد جب دوسری ضرب لگائی تو دوسرا حصہ نکل گیا تو سرکارﷺ فرماتے ہیں۔
اللہ اکبر انّی اعطیت مفاتیح الفارس ترجمہ: اللہ کے لیے بڑائی ہے فارس کی کنجیاں بھی مجھے دی گئیں۔
اور جب تیسری ضرب لگائی تو وہ پتھر چور چور ہوگیااور سرکارﷺ نے فرمایا:
اللہ اکبر انّی اعطیت مفاتیح الیمن ترجمہ: اللہ کے لیے بڑائی ہے مجھے یمن کی بھی کنجیاں دی گئی ہیں۔
اللہ اکبر! وہ زمانہ مسلمانوں کے لیے بظاہر تنگ دستی اور بے سروسامانی کا زمانہ تھا،نہ لشکر نہ سازوسامان۔اس پر بھی سرکارﷺ کا یہ ارشاد تو معلوم ہوا کہ سرکارمادی قوت کے بھروسے نہیں بول رہے تھے بلکہ غیب کی خبر دے رہے تھے کہ اے اسلام کی بے سروسامانی دیکھنے والو!زمانہ آنے والا ہے۔جب سب کچھ تاج وتخت ہمارے غلاموں کے قدموںمیں ہوں گے۔ہمارا مستقبل بڑاروشن ہے۔
تفسیر البیان میں اس آیت کریمہ"ویکون الرسول علیکم شھیداً"کی تشریح وتفسیر دیکھیں!یہ نہ سمجھ سکو تو شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی علیہ الرحمہ کی تفسیر عزیزی دیکھیں۔
روح البیان: "شھادہ الرسول علیھم اطلاعہ علی مرتبۃ کل متّدّین بدینہ وھویعریف ذنوبھم وحقیقۃ ایمانہم واعمالھم وحسناتھم وسیاتھم واخلاصھم ونفاقھم وغیرذالک بنورالحق"
رسول(ﷺ)ہر دین دار کے دین کے مرتبے کو پہچانتے ہیں۔ مطلع ،باخبرہیں اور رسول جن جن پر گواہ ہوں گے،ان گناہوں کو بھی دیکھ رہے ہیں،ان کے اعمال کو بھی دیکھ رہے ہیں،اور صرف دیکھنے کی بات نہیں کی ہے بلکہ "یعرف"پہچان رہے ہیں۔اب مشاہدے کا کیا ذکر؟معرفت کا معاملہ ہے۔
بہت شکر گزار ہوں کہ میری ٹائپنگ مسٹیک سے آگاہ کرنے پر کوشش کہ آئندہ ایسی کوئی مسٹیک نہ کروں اور ساتھ فورم کی انتظامیہ کا بھی کہ انہوں نے میری اس تحریر کو بھی صحیح کیا۔بہت شکر گزار ہوں آپ سب کا۔
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
اگرآیت وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ سے مراد علم غیب ہے تو آپ ان آیات کے بارے میں کیا کہیں گے:
وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ [البقرۃ: 151]
وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ [الأنعام: 91]
پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان چیزوں کی خبر دی جن کا تمھیں علم نہیں تھا۔
دوسری آیت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل یہود و نصاریٰ کو ان امور کی تعلیم دی جو انھیں معلوم نہیں تھیں۔
تو اب مجھے بتائیے کہ کیا پوری امت محمدیہ اور بنو اسرائیل کے جملہ افراد عالم الغیب ہیں؟؟
جس طرح یہ آیات امت محمدیہ اور بنو اسرائیل کے غیب جاننے پر دلالت نہیں کرتیں بالکل اسی طرح نبی کریمﷺ کے غیب جاننے پر مذکور آیت کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ اس آیت میں آپﷺ کو اللہ کی طرف سے علم غیب دئیے جانے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ لیکن آپﷺ کو تعلیم کردہ جس علم کا ذکر اس آیت میں ہے، اس میں اس بعض علم غیب کو شامل کرنے سے کوئی مانع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے تعلیم کے ذریعے آپﷺ کو حاصل ہوا۔
آپ جس رسول سے علم غیب منسوب کر رہے ہیں ان کے اپنے الفاظ تو ملاحظہ کیجئے۔ معجم الاوسط میں ہے:
أن النبي صلى الله عليه و سلم مر بنساء من الأنصار في عرس لهن يغنين ... وأهدى لها كبشا ... ... تنحنح في المربد ... ... وزوجك في النادي ... ... ويعلم ما في غد ... ... فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لا يعلم ما في غد إلا الله[المعجم الاوسط : 3401]
یعنی نبی کریمﷺ انصاری خواتین کی ایک شادی میں گئے، جہاں یہ خواتین گانے گا رہی تھیں،گانے کے دوران ایک مصرع میں یہ مضمون بھی تھا کہ نبی کریمﷺ واقف ہیں کہ کل کیا ہوگا یعنی غیب کی باتیں جانتے ہیں۔ یہ سن کر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ غیب کا علم اللہ کے علاہ کوئی نہیں جانتا۔
اگر تفصیل کے ساتھ ان واقعات کو بیان کیا جائے جو کتب احادیث میں نبی کریمﷺ کے غیب دان نہ ہونے پر دال ہیں تو یہ ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ تفہیم کی غرض سے ایک حدیث نقل کر دی ہے اسی پر غور کر لیا جائے تو آسانی کے ساتھ بات سمجھ آ سکتی ہے۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ
عالم الغیب ہونا قرآنی تصریحات کے مطابق اللہ رب العالمین کی صفت ہے، جس میں اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا شریک نہیں اور غیب کی جن باتوں کا علم آپﷺ کو تھا، وہ چونکہ باعلام الہٰی ہونے کے سبب حکماً و حقیقتاً و معناً علم غیب کہے جانے کے لائق نہیں، اس لیے آپﷺ نے اپنی ذات سے مطلقاً عالم الغیب ہونے کے وصف کی نفی کر دی اور اپنی اس طرح کی مدح سرائی و نعت گوئی سے منع کر دیا جس میں اس حد تک مبالغہ آرائی و غلو آمیزی کی گئی ہو کہ اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف باتیں ہونے لگ جائیں۔ [فتح الباری: 9/203]
علمِ غیب مصطفیﷺ عقل کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے بھیجنے کی غرض بتاتے ہوئے فرمایا:
وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُم بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِهِ لَقَالُوا رَ‌بَّنَا لَوْلَا أَرْ‌سَلْتَ إِلَيْنَا رَ‌سُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزَىٰ[طٰہ : 134]
’’ اور اگر ہم ان کو پیغمبر (کے بھیجنے) سے پیشتر کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو وہ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے تیرے کلام (واحکام) کی پیروی کرتے۔ ‘‘
مزید فرمایا:
رُّ‌سُلًا مُّبَشِّرِ‌ينَ وَمُنذِرِ‌ينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّ‌سُلِ[النساء : 165]
’’ (سب) پیغمبروں کو (خدا نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے (بنا کر بھیجا تھا) تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کو خدا پر الزام کا موقع نہ رہے۔ ‘‘
اب اگر رسول غیب دان ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ فلاں شخص مومن ہو جائے گا۔ اور فلاں کافر ہی رہے گا۔ تو ایسا رسول کبھی تبلیغ کر ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ کفر کی حالت میں مرنے والے کو تبلیغ کرنا ایک کارِ لا حاصل ہے اور جس کا خاتمہ ان رسول کے علم میں ایمان کی حالت میں ہے تو اس کو تبلیغ تحصیل حاصل کا مرتبہ رکھتی ہے۔ رسول تبلیغ اسی صورت میں کر سکتا ہے جب اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی تبلیغ کا انجام کیا ہو گا۔
 

samisain

مبتدی
شمولیت
جنوری 05، 2013
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
0
اس آیتِ مبارکہ کا ترجمہ اور اس کی تفسیر بھی بیان فرمائیں تو نوازش ہوگی۔

وَمَا ھُوَ اَلَالغَیبِ بِضَنِین
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
وَمَا ھُوَ اَلَالغَیبِ بِضَنِین
سمی سائیں صاحب (مجھے آپ کا نام یہی سمجھ آیا اگر میں نے غلط سمجھا تو معذرت)! قرآنی آیات لکھتے وقت احتیاط سے کام لیجئے۔ اوپر بھی آپ نے غلطی کی ہے اب قرآنی آیت لکھنے میں بھی غلطی کر دی ہے۔
درست آیت اس طرح ہے:
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو احکام و فرائض آپ کو بتلائے جاتے ہیں ان میں سے کوئی بات آپ اپنے پاس نہیں رکھتے بلکہ فریضہ رسالت کی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ہر بات اور ہر حکم لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
سمی سائیں صاحب (مجھے آپ کا نام یہی سمجھ آیا اگر میں نے غلط سمجھا تو معذرت)! قرآنی آیات لکھتے وقت احتیاط سے کام لیجئے۔ اوپر بھی آپ نے غلطی کی ہے اب قرآنی آیت لکھنے میں بھی غلطی کر دی ہے۔
درست آیت اس طرح ہے:
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو احکام و فرائض آپ کو بتلائے جاتے ہیں ان میں سے کوئی بات آپ اپنے پاس نہیں رکھتے بلکہ فریضہ رسالت کی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ہر بات اور ہر حکم لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء عمران بھائی
آج کل بہت سارے لوگ کلمة الحق ارید بہ باطل کا مصداق بنے ہوئے ہیں، قرآن مجید کی آیات پیش کرتے ہیں اور مطلب اپنی مرضی کا لیتے ہیں اور پھر لوگوں کو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ دیکھ ہم بھی قرآن سے بات کر رہے ہیں۔
آج ضرورت ہے کہ قرآن مجید کی صحیح تفسیر ان لوگوں کو بتائی جائے۔ اسی طرح ایک اور آیت کی بھی وضاحت کر دیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قَدْ جَآءَكُم مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ‌ۭ وَكِتَـٰبٌ مُّبِينٌ ﴿١٥۔۔۔سورۃ المائدہ
بریلوی لوگ کہتے ہیں کہ اس آیت میں "نُورٌ‌ۭ" سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہ نور ہیں۔ تو اس بات کا انہیں کیا جواب دیا جائے؟
 
Top