اگرآیت
وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ سے مراد علم غیب ہے تو آپ ان آیات کے بارے میں کیا کہیں گے:
وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ [البقرۃ: 151]
وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ [الأنعام: 91]
پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان چیزوں کی خبر دی جن کا تمھیں علم نہیں تھا۔
دوسری آیت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل یہود و نصاریٰ کو ان امور کی تعلیم دی جو انھیں معلوم نہیں تھیں۔
تو اب مجھے بتائیے کہ کیا پوری امت محمدیہ اور بنو اسرائیل کے جملہ افراد عالم الغیب ہیں؟؟
جس طرح یہ آیات امت محمدیہ اور بنو اسرائیل کے غیب جاننے پر دلالت نہیں کرتیں بالکل اسی طرح نبی کریمﷺ کے غیب جاننے پر مذکور آیت کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ اس آیت میں آپﷺ کو اللہ کی طرف سے علم غیب دئیے جانے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ لیکن آپﷺ کو تعلیم کردہ جس علم کا ذکر اس آیت میں ہے، اس میں اس بعض علم غیب کو شامل کرنے سے کوئی مانع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے تعلیم کے ذریعے آپﷺ کو حاصل ہوا۔
آپ جس رسول سے علم غیب منسوب کر رہے ہیں ان کے اپنے الفاظ تو ملاحظہ کیجئے۔ معجم الاوسط میں ہے:
أن النبي صلى الله عليه و سلم مر بنساء من الأنصار في عرس لهن يغنين ... وأهدى لها كبشا ... ... تنحنح في المربد ... ... وزوجك في النادي ... ... ويعلم ما في غد ... ... فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لا يعلم ما في غد إلا الله[المعجم الاوسط : 3401]
یعنی نبی کریمﷺ انصاری خواتین کی ایک شادی میں گئے، جہاں یہ خواتین گانے گا رہی تھیں،گانے کے دوران ایک مصرع میں یہ مضمون بھی تھا کہ نبی کریمﷺ واقف ہیں کہ کل کیا ہوگا یعنی غیب کی باتیں جانتے ہیں۔ یہ سن کر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ غیب کا علم اللہ کے علاہ کوئی نہیں جانتا۔
اگر تفصیل کے ساتھ ان واقعات کو بیان کیا جائے جو کتب احادیث میں نبی کریمﷺ کے غیب دان نہ ہونے پر دال ہیں تو یہ ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ تفہیم کی غرض سے ایک حدیث نقل کر دی ہے اسی پر غور کر لیا جائے تو آسانی کے ساتھ بات سمجھ آ سکتی ہے۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ
عالم الغیب ہونا قرآنی تصریحات کے مطابق اللہ رب العالمین کی صفت ہے، جس میں اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا شریک نہیں اور غیب کی جن باتوں کا علم آپﷺ کو تھا، وہ چونکہ باعلام الہٰی ہونے کے سبب حکماً و حقیقتاً و معناً علم غیب کہے جانے کے لائق نہیں، اس لیے آپﷺ نے اپنی ذات سے مطلقاً عالم الغیب ہونے کے وصف کی نفی کر دی اور اپنی اس طرح کی مدح سرائی و نعت گوئی سے منع کر دیا جس میں اس حد تک مبالغہ آرائی و غلو آمیزی کی گئی ہو کہ اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف باتیں ہونے لگ جائیں۔ [فتح الباری: 9/203]
علمِ غیب مصطفیﷺ عقل کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے بھیجنے کی غرض بتاتے ہوئے فرمایا:
وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُم بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزَىٰ[طٰہ : 134]
’’ اور اگر ہم ان کو پیغمبر (کے بھیجنے) سے پیشتر کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو وہ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے تیرے کلام (واحکام) کی پیروی کرتے۔ ‘‘
مزید فرمایا:
رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ[النساء : 165]
’’ (سب) پیغمبروں کو (خدا نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے (بنا کر بھیجا تھا) تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کو خدا پر الزام کا موقع نہ رہے۔ ‘‘
اب اگر رسول غیب دان ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ فلاں شخص مومن ہو جائے گا۔ اور فلاں کافر ہی رہے گا۔ تو ایسا رسول کبھی تبلیغ کر ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ کفر کی حالت میں مرنے والے کو تبلیغ کرنا ایک کارِ لا حاصل ہے اور جس کا خاتمہ ان رسول کے علم میں ایمان کی حالت میں ہے تو اس کو تبلیغ تحصیل حاصل کا مرتبہ رکھتی ہے۔ رسول تبلیغ اسی صورت میں کر سکتا ہے جب اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی تبلیغ کا انجام کیا ہو گا۔