• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی اور بندہ کے تعلق پر کچھ سوال اور الجھن!

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ور حمتہ اللہ !

اللہ تعالی بندے کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔انسان بھی اپنی مشکلات اور مسائل کے لیے اللہ سے رجوع کرتا ہے ، دین کے دیگر سلیقوں کے ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دعا کرنے کے ڈھنگ بھی سکھائے ہیں۔جیسے دعا میں تکلف اختیار کرنے کی ممناعت یا دعا میں عجلت کا مظاہرہ کرنا ۔۔۔لیکن مجھے اس پر ایک سوال ہے کہ کیا ہمیں اللہ تعالی سے کچھ کھل کر مانگنا چاہیئے یا بہتری کی دعا کرتے جائیں جبکہ اس چیز کی تمنا ہمارے دل میں موجود ہو۔۔۔اگر نہ مانگے تو اللہ تعالی کےسوا کس سے مانگے۔۔۔اور جب مانگے تو وہ کیا معلوم کہ ہمارے لیے درست نہ ہو۔۔۔حدیث کے مطابق اللہ تعالی بندے کو مانگنے اور سوال کرنے کی تلقین کرتا ہے۔کیا ہم ان دونوں صورتوں کا درست استعمال نہیں کر رہے ؟ جب ہم بہتری کا سوال کرتے ہیں تو ہم اللہ کو چوائس کیوں دیتے ہیں ؟ حالانکہ اللہ تعالی مانگنے کا حکم دیتا ہے۔

کوئی سمجھ نہ سکے تو دوبارہ کوشش کروں گی۔ان شاء اللہ۔۔۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ایک سوال ہے کہ کیا ہمیں اللہ تعالی سے کچھ کھل کر مانگنا چاہیئے یا بہتری کی دعا کرتے جائیں
اس سوال کا جواب دعائے استخارہ میں موجود ہے۔

اَللهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِيْرُكَ بِعِلْمِكَ وَ أَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَ أَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيْمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَ لَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ، اَللّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِّيْ فِيْ دِيْنِيْ وَ مَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِىْ فَاقْدُرْهُ لِيْ وَ يَسِّرْهُ لِيْ ، ثُمَّ بَارِكْ لِيْ فِيْهِ ۔ وَ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِّيْ فِيْ دِيْنِيْ وَ مَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ وَ اقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِهِ ۔

ترجمہ: اے اللہ ميں تجھ سے بھلائى طلب كرتا ہوں تيرے علم كے ذريعے سے، اور تجھ سے طاقت مانگتا ہوں تيرى طاقت كے ذريعے سے، اور تجھ سے سوال كرتا ہوں تيرے فضل عظيم كا ، اس ليے كہ تو طاقت ركھتا ہے اور ميں طاقت نہیں ركھتا، اور تو جانتا ہے اور ميں نہیں جانتا ، اور تو جاننے والا ہے تمام غيبوں كا ۔اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ بےشك يہ كام بہتر ہے ميرے ليے ميرے دين ميں اور ميرے معاش ميں اور ميرے انجام كار ميں تو تو اس كو ميرے ليے مقدر كر دے۔ اور اسے ميرے ليے آسان فرما دے، پھر ميرے ليے اس ميں بركت ڈال دے۔ اور اگر تو جانتا ہے كہ بے شك يہ كام ميرے ليےبرا ہے ميرے دين ميں اور ميرے معاش ميں اور ميرے انجام كار ميں، تو تو اس كو پھیر دے مجھ سے اور مجھ كو پھیر دے اس سے ، اور مقدر كر دے ميرے ليے بھلائى ، جہاں بھی وہ ہو ، پھر مجھے اس پر راضى كر دے۔

(صحيح البخاري، كتاب التہجد، باب ما جاء في التطوع مثنى مثنى، حديث 1162)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
لیکن مجھے اس پر ایک سوال ہے کہ کیا ہمیں اللہ تعالی سے کچھ کھل کر مانگنا چاہیئے یا بہتری کی دعا کرتے جائیں جبکہ اس چیز کی تمنا ہمارے دل میں موجود ہو۔۔۔اگر نہ مانگے تو اللہ تعالی کےسوا کس سے مانگے
اللہ ہی سے مانگے ،کیونکہ :فرمان نبوی علی صاحبہا الصلاۃ والسلام ہے :
’’ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ» قال الترمذی : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ "
جب کچھ مانگنا ہو تو اللہ ہی مانگو ، اور جب بھی مدد کی طلب ہو ،تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو ،اور یقین رکھو! کہ ساری امت تجھے کوئی نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی،
سوائے اتنے نفع کے جو پہلے اللہ نے تیرے لئے لکھ رکھا ہے ،اور سارے لوگ تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں۔۔تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ،سوائے اس نقصان کے جو اللہ تعالی نے تیرے لئے لکھا ہوا ہے۔۔قلمیں (مقدر ،نصیب لکھ کر )خشک ہو چکیں ،اور صحیفے بند )‘‘
اور اللہ عزوجل خود فرماتا ہے :
’’ وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (34)ابراهيم
اور جو کچھ بھی تم نے اللہ سے مانگا وہ اس نے تمہیں دیا۔ اور اگر اللہ کی نعمتیں گننا چاہو تو کبھی ان کا حساب نہ رکھ (لگا )سکو گے۔ یقیناً انسان تو ہے ہی حد درجہ بےانصاف اور بڑا ناشکرا‘‘ سورہ ابراہیم

بندے کی طلب اور خواہش (شریعت کے لحاظ سے ) تین قسم کی ہوتی ہے ۔یا۔ ہوسکتی ہے ؛
(۱) ضروری حوائج :جن کے بغیر گزارا مشکل ۔۔یا۔۔ناممکن ہوتا ہے ؛

(۲) ایسی خواہشات جو مباح کے زمرہ میں آتی ہوں ۔جن میں اکثر آسائش کا درجہ

رکھتی ہیں ۔اپنی گاڑی ۔بڑا مکان ۔یا کوئی خاص جاب ۔یا۔ سٹیٹس ۔اور کسی خاص رشتے اور تعلق کی طلب۔۔وغیرہ جو شرعاً ممنوع نہ ہو ۔

(۳) تیسری وہ خواہشات جو شرعاً منع ہیں ؛

اب ایک مومن کیلئے فیصلہ کرنا آسان ہے کہ اسکی خواہش ،طلب کس زمرے میں آتی ہے ؛
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اللہ ہی سے مانگے ،کیونکہ :فرمان نبوی علی صاحبہا الصلاۃ والسلام ہے :
’’ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ» قال الترمذی : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ "
جب کچھ مانگنا ہو تو اللہ ہی مانگو ، اور جب بھی مدد کی طلب ہو ،تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو ،اور یقین رکھو! کہ ساری امت تجھے کوئی نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی،
سوائے اتنے نفع کے جو پہلے اللہ نے تیرے لئے لکھ رکھا ہے ،اور سارے لوگ تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں۔۔تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ،سوائے اس نقصان کے جو اللہ تعالی نے تیرے لئے لکھا ہوا ہے۔۔قلمیں (مقدر ،نصیب لکھ کر )خشک ہو چکیں ،اور صحیفے بند )‘‘
اور اللہ عزوجل خود فرماتا ہے :
’’ وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (34)ابراهيم
اور جو کچھ بھی تم نے اللہ سے مانگا وہ اس نے تمہیں دیا۔ اور اگر اللہ کی نعمتیں گننا چاہو تو کبھی ان کا حساب نہ رکھ (لگا )سکو گے۔ یقیناً انسان تو ہے ہی حد درجہ بےانصاف اور بڑا ناشکرا‘‘ سورہ ابراہیم

بندے کی طلب اور خواہش (شریعت کے لحاظ سے ) تین قسم کی ہوتی ہے ۔یا۔ ہوسکتی ہے ؛
(۱) ضروری حوائج :جن کے بغیر گزارا مشکل ۔۔یا۔۔ناممکن ہوتا ہے ؛

(۲) ایسی خواہشات جو مباح کے زمرہ میں آتی ہوں ۔جن میں اکثر آسائش کا درجہ

رکھتی ہیں ۔اپنی گاڑی ۔بڑا مکان ۔یا کوئی خاص جاب ۔یا۔ سٹیٹس ۔اور کسی خاص رشتے اور تعلق کی طلب۔۔وغیرہ جو شرعاً ممنوع نہ ہو ۔

(۳) تیسری وہ خواہشات جو شرعاً منع ہیں ؛

اب ایک مومن کیلئے فیصلہ کرنا آسان ہے کہ اسکی خواہش ،طلب کس زمرے میں آتی ہے ؛
اسحاق بھائی۔طلب ، خواہش ممنوع کے زمرے میں نہیں آتی۔لیکن کیا معلوم کہ وہ ہمارے لیے درست نہ ہو اور ہم اسے مانگتے جائیں یا استخارہ کی صورت میں مانگنا چاہیئے ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اسحاق بھائی۔طلب ، خواہش ممنوع کے زمرے میں نہیں آتی۔لیکن کیا معلوم کہ وہ ہمارے لیے درست نہ ہو اور ہم اسے مانگتے جائیں یا استخارہ کی صورت میں مانگنا چاہیئے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بندہ آپ کی درج ذیل عبارت کا مطلب نہیں سمجھ سکا :
طلب ، خواہش ممنوع کے زمرے میں نہیں آتی۔لیکن کیا معلوم کہ وہ ہمارے لیے درست نہ ہو اور ہم اسے مانگتے جائیں یا استخارہ کی صورت میں مانگنا چاہیئے ؟
 
Last edited:

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اگرجو دعا ہمارے لئے اس دنیا میں درست یعنی بھلائی والی نہ ہو مثلا کوئی یہ دعاکرے کہ یا اللہ مجھے اچھے کپڑے عطاء فرما لیکن اللہ کو معلوم ہے کہ اگر ہمیں اچھے کپڑے عطاء کئے گئے تو ہم مغرور ہوجائے گے اور اللہ ہمارے ساتھ بھلائی کا اردہ بھی رکھتا ہے تو اس دعا کی قبولیت اس دنیا میں نہیں فرماتا بلکہ آخرت میں اس کا صلہ عطاء فرمائے گا
دعاؤں کے بدلے میں جو کچھ مومن کو آخرت میں دیا جائے گا، اسے دیکھ کر وہ تمنا کرے گا کہ کاش دنیا میں اس کی کوئی بھی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بندے کی طلب اور خواہش (شریعت کے لحاظ سے ) تین قسم کی ہوتی ہے ۔یا۔ ہوسکتی ہے ؛

(۱) ضروری حوائج :جن کے بغیر گزارا مشکل ۔۔یا۔۔ناممکن ہوتا ہے ؛

(۲) ایسی خواہشات جو مباح کے زمرہ میں آتی ہوں ۔جن میں اکثر آسائش کا درجہ

رکھتی ہیں ۔اپنی گاڑی ۔بڑا مکان ۔یا کوئی خاص جاب ۔یا۔ سٹیٹس ۔اور کسی خاص رشتے اور تعلق کی طلب۔۔وغیرہ جو شرعاً ممنوع نہ ہو ۔

(۳) تیسری وہ خواہشات جو شرعاً منع ہیں ؛

اب ایک مومن کیلئے فیصلہ کرنا آسان ہے کہ اسکی خواہش ،طلب کس زمرے میں آتی ہے ؛
شیخ ان تینوں چیزوں کی وضاحت تفصیل سے کر دے -
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
وعلیکم السلام
کیا آپ کو لگتا ہے کہ اگر آپ اپنی ماں سے کچھ طلب کریں گی تو وہ منع کرے گی؟ الله تو اپنے بندوں سے ماں سے کئی گنا زیادہ محبت کرتا ہے، بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ الله سے ہر چھوٹی بڑی چیز مانگنا بہت اچھی بات ہے،
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
وعلیکم السلام
کیا آپ کو لگتا ہے کہ اگر آپ اپنی ماں سے کچھ طلب کریں گی تو وہ منع کرے گی؟ الله تو اپنے بندوں سے ماں سے کئی گنا زیادہ محبت کرتا ہے، بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ الله سے ہر چھوٹی بڑی چیز مانگنا بہت اچھی بات ہے،

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر ضرورت اللہ ہی سے مانگنی چاہئے ، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ ہی سے مانگے۔ (ترمذی عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر ضرورت اللہ ہی سے مانگنی چاہئے ، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ ہی سے مانگے۔ (ترمذی عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
3604/8- حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ الأَشْعَثِ السِّجْزِيُّ، حَدَّثَنَا قَطَنٌ الْبَصْرِيُّ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا حَتَّى يَسْأَلَ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَنَسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶) (ضعیف)
(اس روایت کا مرسل (بدون ذکر انس) ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اس کے راوی ''قطن بن نسیر'' روایت میں غلطیاں کرجاتے تھے، یہ انہی کی غلطی ہے کہ مرفوعا روایت کردی ہے ملاحظہ ہو: الضعیفۃ رقم: ۱۳۶۲)
۳۶۰۴/۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے ہر ایک اپنی ساری حاجتیں اور ضرورتیں اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ اگر ٹوٹ جائے تو اسے بھی اللہ ہی سے مانگے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- کئی اور راویوں نے یہ حدیث جعفر بن سلیمان سے اور جعفر نے ثابت بنانی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، لیکن اس روایت میں انس رضی اللہ عنہ کے واسطہ کا ذکر نہیں ہے (یعنی مرسلاً روایت کی ہے جوآگے آرہی ہے)۔


3604/ 9- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ حَتَّى يَسْأَلَهُ الْمِلْحَ، وَحَتَّى يَسْأَلَهُ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ" وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ قَطَنٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶) (ضعیف)۳۶۰۴/م۹- ثابت بنانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے ہرایک اپنی ضرورت اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ نمک اوراپنے جوتے کا ٹوٹا ہوا تسمہ بھی اسی سے طلب کرے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ روایت قطن کی مذکورہ روایت سے جسے وہ جعفر بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح ہے (یعنی: اس کا مرسل ہونا زیادہ صحیح ہے)۔
 
Top