السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس میں پہلا سکین "مجموعہ رسائل عقیدہ " کے تیسرے حصہ کا ہے ،
https://archive.org/details/MajmouaRasialEAqeeda3/page/n103
محولہ بالا عبارت حاشیہ سمیت یونیکوڈ میں پیش ہے ، جس سے بات واضح ہوجائے گی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفات الہیہ میں تفویض اور تاویل:
صفات الہیہ کے مسئلے میں صرف دو قول ہیں۔ ایک قول ہے تفویض کے ساتھ تسلیم کرنا (1)
مذهب سلف کا ہے اور یہی حق، سچ اور راجح ہے۔ امام مالکؒ نے فرمایا تھا : " اللہ تعالی کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے تعلق سوال کرنا بدعت ہے۔"
دوسرا قول تاویل ہے۔ یہ طریقہ خلف کا ہے، جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ تاویل دراصل تکذیب کی ایک شاخ اور فرع ہے۔ ایک جماعت نے اللہ تعالی کے قرب و معیت کی تاویل علم، قدرت اور احاطے کے ساتھ کیا ہے۔ سو یہ آیات متشابہ ہیں، ان میں غور و خوض کرنا بے سود ہے، جب کہ آیات استوامحكمات ہیں۔ لہذا ایک مومن کے لائق یہ ہے کہ وہ سب صفات الہیہ پر ایمان لائے اور ان کی کیفیت میں غور وفکر کرنے سے احتراز کرے اور سلف کے منہج سے تجاوز کرنے کو جائز نہ سمجھے "۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حاشیہ :
(1)یہ و صفات باری تعالی کے ضمن میں تفویض کا اطلاق دو معانی پر ہوتا ہے؛
(1)
تفویض المعنى والكيفية: یعنی صفات باری تعالی کے اثبات میں قرآن و حدیث میں جو الفاظ مذکور ہیں (جیسے استوا، وجه، بدیع، بصر وغیرہ) ہم ان کا معنی جانتے ہیں نہ اس کی کیفیت ہی کا علم رکھتے ہیں۔
(2)
تفويض الكيفية دون المعنی: یعنی صفات باری تعالی کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ کا معنی ومفہوم تو واضح اور معلوم ہے، لیکن ہم ان کی کیفیت سے ناواقف ہیں، جیسے امام مالکؒ کا فرمان ہے کہ
"الاستواء معلوم،والكيف مجهول» یعنی استوا کا معنی ومفہوم تو معلوم اور واضح ہے لیکن اس کی کیفیت و ماہیت مجہول ہے۔ *
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اول الذکر معنی کے اعتبار سے تفویض کا عقیدہ ائمہ سلف اور اہل سنت کا عقیدہ نہیں، بلکہ یہ اشاعرہ اور اہل بدعت کا عقیدہ ہے، کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالی نے صفات کے ضمن میں جو الفاظ ذکر کیے ہیں، کوئی بھی ان کے معنی سے آگاہ نہیں، نہ رسول اللہ کا ، نہ صحابہ کرام اور نہ سلف امت۔ گویا یہ الفاظ عبث اور بے فائده ہی ذکر کیے گئے ہیں، جن کا کوئی معنی و مطلب اورمقصود نہ تھا۔ اس بیان و توضیح سے اس نظریے کا بدیہی البطلان ہونا معلوم ہو جا تا ہے۔
مزید برآں ائمہ سلف سے صفات باری تعالی کے معانی سے متعلق صریح نصوص وارد ہوئی ہیں، جیسے استوا کا معنی ارتفاع اور علو ثابت ہوتا ہے لیکن ان کی کیفیت کا علم نہیں۔ اہل سنت اگرچہ صفات باری تعالی کا اثبات کرتے ہیں، لیکن وہ تشبیہ کا کلیۃً انکار کرتے ہیں، کیونکہ فرمان باری تعالی ہے: (
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ) الشورٰ 11، اس آیت کریمہ میں جہاں تشبیہ وتمثیل کی نفی کی گئی ہے، وہاں اللہ تعالی کے لیے صفا ت سمع و بصر کا اثبات بھی کیا گیا ہے، جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ صفات کے اثبات سے تشبیہ اور تمثیل لازم نہیں آتی۔
الغرض اول الذکر معنی کے اعتبار سے تفویض کو ائمہ سلف کا عقیدہ قرار دینا درست نہیں، البتہ ثانی الذکر معنی کے اعتبار سے عقیدہ سلف پرتفویض کا اطلاق درست ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ ایسے مشتبہ الفاظ کے استعمال سے گریز کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔