• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی کے لئے لفظ "جسم" استعمال کرنا کیسا ہے ؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس میں پہلا سکین "مجموعہ رسائل عقیدہ " کے تیسرے حصہ کا ہے ،
https://archive.org/details/MajmouaRasialEAqeeda3/page/n103

محولہ بالا عبارت حاشیہ سمیت یونیکوڈ میں پیش ہے ، جس سے بات واضح ہوجائے گی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفات الہیہ میں تفویض اور تاویل:
صفات الہیہ کے مسئلے میں صرف دو قول ہیں۔ ایک قول ہے تفویض کے ساتھ تسلیم کرنا (1)
مذهب سلف کا ہے اور یہی حق، سچ اور راجح ہے۔ امام مالکؒ نے فرمایا تھا : "
اللہ تعالی کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے تعلق سوال کرنا بدعت ہے۔"
دوسرا قول تاویل ہے۔ یہ طریقہ خلف کا ہے، جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ تاویل دراصل تکذیب کی ایک شاخ اور فرع ہے۔ ایک جماعت نے اللہ تعالی کے قرب و معیت کی تاویل علم، قدرت اور احاطے کے ساتھ کیا ہے۔ سو یہ آیات متشابہ ہیں، ان میں غور و خوض کرنا بے سود ہے، جب کہ آیات استوامحكمات ہیں۔ لہذا ایک مومن کے لائق یہ ہے کہ وہ سب صفات الہیہ پر ایمان لائے اور ان کی کیفیت میں غور وفکر کرنے سے احتراز کرے اور سلف کے منہج سے تجاوز کرنے کو جائز نہ سمجھے "۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حاشیہ :
(1)یہ و صفات باری تعالی کے ضمن میں تفویض کا اطلاق دو معانی پر ہوتا ہے؛
(1) تفویض المعنى والكيفية: یعنی صفات باری تعالی کے اثبات میں قرآن و حدیث میں جو الفاظ مذکور ہیں (جیسے استوا، وجه، بدیع، بصر وغیرہ) ہم ان کا معنی جانتے ہیں نہ اس کی کیفیت ہی کا علم رکھتے ہیں۔
(2)تفويض الكيفية دون المعنی: یعنی صفات باری تعالی کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ کا معنی ومفہوم تو واضح اور معلوم ہے، لیکن ہم ان کی کیفیت سے ناواقف ہیں، جیسے امام مالکؒ کا فرمان ہے کہ "الاستواء معلوم،والكيف مجهول» یعنی استوا کا معنی ومفہوم تو معلوم اور واضح ہے لیکن اس کی کیفیت و ماہیت مجہول ہے۔ *
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اول الذکر معنی کے اعتبار سے تفویض کا عقیدہ ائمہ سلف اور اہل سنت کا عقیدہ نہیں، بلکہ یہ اشاعرہ اور اہل بدعت کا عقیدہ ہے، کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالی نے صفات کے ضمن میں جو الفاظ ذکر کیے ہیں، کوئی بھی ان کے معنی سے آگاہ نہیں، نہ رسول اللہ کا ، نہ صحابہ کرام اور نہ سلف امت۔ گویا یہ الفاظ عبث اور بے فائده ہی ذکر کیے گئے ہیں، جن کا کوئی معنی و مطلب اورمقصود نہ تھا۔ اس بیان و توضیح سے اس نظریے کا بدیہی البطلان ہونا معلوم ہو جا تا ہے۔
مزید برآں ائمہ سلف سے صفات باری تعالی کے معانی سے متعلق صریح نصوص وارد ہوئی ہیں، جیسے استوا کا معنی ارتفاع اور علو ثابت ہوتا ہے لیکن ان کی کیفیت کا علم نہیں۔ اہل سنت اگرچہ صفات باری تعالی کا اثبات کرتے ہیں، لیکن وہ تشبیہ کا کلیۃً انکار کرتے ہیں، کیونکہ فرمان باری تعالی ہے: ( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ) الشورٰ 11، اس آیت کریمہ میں جہاں تشبیہ وتمثیل کی نفی کی گئی ہے، وہاں اللہ تعالی کے لیے صفا ت سمع و بصر کا اثبات بھی کیا گیا ہے، جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ صفات کے اثبات سے تشبیہ اور تمثیل لازم نہیں آتی۔
الغرض اول الذکر معنی کے اعتبار سے تفویض کو ائمہ سلف کا عقیدہ قرار دینا درست نہیں، البتہ ثانی الذکر معنی کے اعتبار سے عقیدہ سلف پرتفویض کا اطلاق درست ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ ایسے مشتبہ الفاظ کے استعمال سے گریز کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم شیخ اصل سوال میرا تاویل کے متعلق تھا جس کو میں نے یہاں ابھی پیش کیا ہے
محترم شیخ نواب صاحب رحمہ اللہ کی اس عبارت کی ذرا وضاحت کر دیں ۔
اپنی کتابالاحتواء علی مسئله الاستواء ص ۱۰ میں فرماتے ہیں :
یہاں معیت سے علمی معیت مراد ہے ۔۔۔۔ یہ مطلب بیان کرنا مفسرین کے نذدیک تفسیر ہے نہ کہ تاویل۔
اور مجموعہ رسائل عقیدہ ص ۱۰۳ میں فرماتے ہیں :
تاویل تکذیب کی ایک شاخ اور فرع ہے ۔ ایک جماعت نے اللہ تعالی کے قرب اور معیت کی تاویل علم و قدرت اور احاطے کے ساتھ کی ہے ۔
جزاکم اللہ خیرا یا شیخ محترم
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
اصل سوال میرا تاویل کے متعلق تھا جس کو میں نے یہاں ابھی پیش کیا ہے
یاد رکھیں تاویل کے بنیادی اصطلاحی معنی میں اہل علم کے دو طبقے ہیں :
(1) پہلا سلف کا طبقہ ۔۔ (2) دوسرا خلف یا متاخرین ، اورمتکلمین کا طبقہ
یہاں فورم پر محترمہ بیٹی@بنت نعیم یونس کے مراسلوں سے اقتباس پیش ہے ؛
تاویل:
یہ لفظ ''اول یوول تاویلا'' باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے لغوی معنی رجوع کرنے کے ہیں ۔
اصطلاحی تعریف:
تاویل کی تعریف میں متقدمیں ومتاخرین کا اختلاف ہے ۔
متقدمین کی تعریف :
متقدمین سے دو تعریفیں منقول ہیں :
1-
''تاویل اور تفسیر دونوں مترادف ہیں ۔ ''
یعنی جو تعریف تفسیر کی ہے وہی تاویل کی ہے ۔ ان مفسرین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے:
وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ۔۔۔۔۔۔۔﴿٧﴾(آل عمران )

'' حالانکہ ان (محکمات اور متشابہات) کا مفہوم اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا ''۔
'' کسی کلام سے جو مفہوم اخذ کیاگیا ہوا سے تاویل کہتے ہیں ''...
ــــــــــــــــــــــــــ

متاخرین کی تعریف :
((ھو صرف اللفظ عن المعنی الراجح الی المعنی المرجوح لدلیل یقترن بہ )) ( التفسیر والمفسرون: ۱۸/۱)
'' کسی دلیل کے پیش نظر لفظ کےراجح معنی کو ترک کر کے مرجوح معنی مرادلے لینا تاویل کہلاتا ہے ۔''
نوٹ : اصول فقہ اور اختلا فی مسائل میں تاویل کا معنی متاخرین والا مراد لیا جاتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاویل کے اصطلاحی و سلفی مفہوم کی تفصیل وقت طلب امر ہے ،
لیکن فی الحال تاویل کے یہ دو مفہوم سمجھ لیں تو ہوسکتا ہے نواب صاحب کا کلام سمجھنا آسان ہوجائے !
اور اگر ذوق طلب ہو تو الاتقان فی علوم القرآن کا متعلقہ باب بغور ملاحظہ کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
اپنی کتابالاحتواء علی مسئله الاستواء ص ۱۰ میں فرماتے ہیں :
یہاں معیت سے علمی معیت مراد ہے ۔۔۔۔ یہ مطلب بیان کرنا مفسرین کے نذدیک تفسیر ہے نہ کہ تاویل۔
اور مجموعہ رسائل عقیدہ ص ۱۰۳ میں فرماتے ہیں :
تاویل تکذیب کی ایک شاخ اور فرع ہے ۔ ایک جماعت نے اللہ تعالی کے قرب اور معیت کی تاویل علم و قدرت اور احاطے کے ساتھ کی ہے ۔
دوسرے اقتباس میں تاویل کی مذمت بیان کی ہے، اعتراض یہ ہوتا ہے کہ تم بھی تو معیت کی تاویل کرتے ہو؟ تو انہوں نے پہلے میں صراحت سے کہا ہے کہ ہم جو معیت کا معنی بیان کرتے ہیں، وہ تاویل ہے ہی نہیں، بلکہ تفسیر ہے۔
لہذا نواب صاحب کی بات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
(ہاں البتہ معیت میں جس معنی کو تفسیر و تشریح کہا جاتا ہے، کیا وہ واقعتا تاویل نہیں ہے؟ اس حوالے سے میں اپنی رائے عرض کرچکا ہوں۔ تاویل وتفویض وغیرہ مسائل کو میں جتنا سمجھ سکا تھا، وہ یہاں لکھ دیا ہے۔
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اللہ تعالی کے اسماء و صفات توقیفی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی طرف سے اس کے لئے کوئی لفظ استعمال نہیں کریں گے، قرآن و حدیث میں اللہ کے لئے جسم کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے اس لئے اس کا استعمال اللہ کے لئے درست نہیں ہے، لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ اس لفظ کو بنیاد بناکر اس کے ہاتھ، پیر یا آنکھ وغیرہ جو صفات اللہ کے لئے قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ان کا انکار کر دیا جائے؟ اہل سنت والجماعات اللہ کی تمام صفات کو ان کے حقیقی معنی میں ثابت کرتے ہیں لیکن ان کی کیفیات کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں اور ان کے پیچھے اپنے آپ کو نہیں لگاتے .
الله رب العزت کی بعض صفات ایسی ہیں کی ان کی مناسب تاویل ضروری ہیں ورنہ دوسری صورت میں تجسیم کا خطرہ ہے-

جیسے کہ قرآن کی میں الله کی صفات بیان کیں گئیں ہیں ید الله ، وجھہ الله ، یا آیت وھو معکم این ما کنتم وغیرہ -

امام نوویؒ فرماتے ہیں:

اور جمہور متکلمین کا یہ کہنا ہے کہ حسب موقع تاویل کرکے وہ معنی لیئے جائیں جو اللہ تعالٰی کی شان کے لائق ہوں“۔
(شرح صحیح مسلم للنوي ج 17)

یہ عقیدہ کہ صفات کو بغیر تاویل کے اس کی ظاہری حالت پر لیا جائے گا حقیقت میں بعض ائمہ حنابلہ کا ہے -

البانی الرد على المفوضة میں کہتے ہیں:

أن عقيدة السلف تحمل آيات على ظاهرها دون تأويل ودون تشبيه
سلفی عقیدہ ہے کہ آیات کو ظاہر پر ہی لیا جائے گا بغیر تاویل و تشبہ کے

مزید کہتے ہیں کہ:
بعض كتب الأشاعرة كا لحافظ ابن حجر وهو من حيث الأصول والعقيدة أشعري

بعض الأشاعرة کی کتب میں ہے جیسے ابن حجر کی کتب اور وہ اصول میں أشعري عقیدہ پر ہیں (یعنی صفات کی تاویل کرتے ہیں)-

عرب کے ایک عالم حسن بن سلمان نے ایک کتاب الردود والتعقبات لکھی جس میں ان کے مطابق امام نووی صفات میں صحیح عقیدہ نہیں رکھتے تھے –اسی طرح ان کے مطابق ابن حجر بھی عقیدہ صفات میں متذبذب تھے-

سعودی کمیٹی نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ:

ابن جوزی اور نووی اور ابن حجر اور ان کے جیسوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اللہ تعالی کی بعض صفات کی تاویل کو اصلی معنی سے پھیر دیا ... انہوں نے غلطی کی ہے صفات کے نصوص کی تاویل کرکے اور امت کے اسلاف اور اہل سنت کی مخالفت کی-

ابن تیمیہ مجموع الفتاوی میں لکھتے ہیں-

میں ابن تیمیہ کہتا ہوں : اس میں نز اع نہیں ہے میں اس کو مانتا ہوں کہ یہاں (الله کے چہرہ) الوجه سے مراد قبلہ ہے کیونکہ لغت عرب میں چہرہ سے مراد جہت ہوتی ہے-

یعنی البانی کے موقف کہ "آیات و صفات کو ان کے ظاہر پر ہی لیا جائے" اس کے برخلاف ابن تیمیہ "الوجه" کے معنی یہاں قبلہ لے رہے ہیں (یعنی تاویل کررہے ہیں)-

امام بخاری نے صحیح البخاری میں سورہ قصص کی تفسیر میں لکھا ہے کہ:

كُلُّ شَىۡءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجۡهَهٗ‌ؕ سوره القصص ٨٨
ہر چیز ہلاک ہو جائے گی سوائے اس کے چہرے کے –

یعنی سوائے اس کی بادشاہت کے اور کہتے ہیں سوائے اس کے جو الله کی رضا کے لئے ہوں - (یعنی تاویل کرتے ہیں) -

امام ابن تیمیہ کے نزدیک الوجه کے معنی قبلہ ہیں اور امام بخاری کے نزدیک بادشاہت ہے-

لہٰذا آپ کا یہ کہنا "اہل سنت والجماعات اللہ کی تمام صفات کو ان کے حقیقی معنی میں ثابت کرتے ہیں لیکن ان کی کیفیات کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں اور ان کے پیچھے اپنے آپ کو نہیں لگاتے" یہ بظاھر صحیح موقف نہیں- (واللہ اعلم)-

آئمہ میں صفات باری تعالیٰ میں کافی اختلاف رہا ہے
 
شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
قرآنی آیات میں یا تو آیت صفات میں سے هو گی یا نهیں جب ایسا هو گا تو پهر بات مختلف هو جائے گی. اور پهر اس میں تفسیر کو بعض نے تاویل سمجھ لیا.
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
الله رب العزت کی بعض صفات ایسی ہیں کی ان کی مناسب تاویل ضروری ہیں ورنہ دوسری صورت میں تجسیم کا خطرہ ہے-

جیسے کہ قرآن کی میں الله کی صفات بیان کیں گئیں ہیں ید الله ، وجھہ الله ، یا آیت وھو معکم این ما کنتم وغیرہ -

امام نوویؒ فرماتے ہیں:

اور جمہور متکلمین کا یہ کہنا ہے کہ حسب موقع تاویل کرکے وہ معنی لیئے جائیں جو اللہ تعالٰی کی شان کے لائق ہوں“۔
(شرح صحیح مسلم للنوي ج 17)

یہ عقیدہ کہ صفات کو بغیر تاویل کے اس کی ظاہری حالت پر لیا جائے گا حقیقت میں بعض ائمہ حنابلہ کا ہے -

البانی الرد على المفوضة میں کہتے ہیں:

أن عقيدة السلف تحمل آيات على ظاهرها دون تأويل ودون تشبيه
سلفی عقیدہ ہے کہ آیات کو ظاہر پر ہی لیا جائے گا بغیر تاویل و تشبہ کے

مزید کہتے ہیں کہ:
بعض كتب الأشاعرة كا لحافظ ابن حجر وهو من حيث الأصول والعقيدة أشعري

بعض الأشاعرة کی کتب میں ہے جیسے ابن حجر کی کتب اور وہ اصول میں أشعري عقیدہ پر ہیں (یعنی صفات کی تاویل کرتے ہیں)-

عرب کے ایک عالم حسن بن سلمان نے ایک کتاب الردود والتعقبات لکھی جس میں ان کے مطابق امام نووی صفات میں صحیح عقیدہ نہیں رکھتے تھے –اسی طرح ان کے مطابق ابن حجر بھی عقیدہ صفات میں متذبذب تھے-

سعودی کمیٹی نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ:

ابن جوزی اور نووی اور ابن حجر اور ان کے جیسوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اللہ تعالی کی بعض صفات کی تاویل کو اصلی معنی سے پھیر دیا ... انہوں نے غلطی کی ہے صفات کے نصوص کی تاویل کرکے اور امت کے اسلاف اور اہل سنت کی مخالفت کی-

ابن تیمیہ مجموع الفتاوی میں لکھتے ہیں-

میں ابن تیمیہ کہتا ہوں : اس میں نز اع نہیں ہے میں اس کو مانتا ہوں کہ یہاں (الله کے چہرہ) الوجه سے مراد قبلہ ہے کیونکہ لغت عرب میں چہرہ سے مراد جہت ہوتی ہے-

یعنی البانی کے موقف کہ "آیات و صفات کو ان کے ظاہر پر ہی لیا جائے" اس کے برخلاف ابن تیمیہ "الوجه" کے معنی یہاں قبلہ لے رہے ہیں (یعنی تاویل کررہے ہیں)-

امام بخاری نے صحیح البخاری میں سورہ قصص کی تفسیر میں لکھا ہے کہ:

كُلُّ شَىۡءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجۡهَهٗ‌ؕ سوره القصص ٨٨
ہر چیز ہلاک ہو جائے گی سوائے اس کے چہرے کے –

یعنی سوائے اس کی بادشاہت کے اور کہتے ہیں سوائے اس کے جو الله کی رضا کے لئے ہوں - (یعنی تاویل کرتے ہیں) -

امام ابن تیمیہ کے نزدیک الوجه کے معنی قبلہ ہیں اور امام بخاری کے نزدیک بادشاہت ہے-

لہٰذا آپ کا یہ کہنا "اہل سنت والجماعات اللہ کی تمام صفات کو ان کے حقیقی معنی میں ثابت کرتے ہیں لیکن ان کی کیفیات کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں اور ان کے پیچھے اپنے آپ کو نہیں لگاتے" یہ بظاھر صحیح موقف نہیں- (واللہ اعلم)-

آئمہ میں صفات باری تعالیٰ میں کافی اختلاف رہا ہے
تاویل اگر صحیح معنوں کے ذریعے کی جائے تو یہ جائز ہے اور اگر باطل معنوں کے ذریعے ہو تو باطل ہے، اللہ کی تمام صفات یا بعض کو اس شبہ کی وجہ سے کہ" اس سے تجسیم لازم آتی ہے" باطل تاویل کی خراد مشین پر چڑھا دینا بالکل غلط ہے آپ کہتے ہیں "بعض صفات کی تاویل کرنا ضروری ہے کیونکہ ان سے تجسیم کا خطرہ ہے" اس کی کوئی دلیل آپ کے پاس ہے؟ کیا صحابہ کرام نے ان بعض صفات کی وہ تاویلات کی ہیں جس کے آپ قائل ہیں؟ میں کہتا ہوں تجسیم کا خطرہ تو اللہ کی ذات ماننے سے بھی پیدا ہوتا ہے، آپ کی نظر میں ایسی کوئی ذات ہے جو بلا جسم کے ہو؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات ہے تو اس کی کیفیت بیان کیجئے خیال رہے جو بھی بات کہیں اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کم از کم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ہو بقیہ موہوم عقلی باتیں قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ عقل کا کوئی اعتبار نہیں ہر انسان کی عقل الگ الگ ہے اب سے کچھ سال پہلے لوگوں کی عقل یہ کہتی تھی کہ زمین چپٹی ہے اب عقل یہ کہتی ہے زمیں گول ہے ڈارون کی عقل یہ کہتی ہے انسان پہلے بندر تھا دھیرے دھیرے اس میں ترقی ہوتی آئی ہے.......... انتہا اس لئے دین کے معاملے میں عقل فیصل نہیں ہے بلکہ اس کے لئے دلیل صریح کی ضرورت ہے اور جب آپ اس کی ذات کی کیفیت بیان نہیں کر سکتے تو کیا اس کی ذات کی بھی تاویلات فاسدہ کی جائیں گی؟ عربی میں جو چیزیں جسم نہیں ہیں مثلاً آگ، ہوا وغیرہ آج کی سائنس نے ان کے بھی جسم ثابت کر دئیے ہیں، بخاری شریف میں کئی جگہ" وجہ اللہ "آیا ہے کیا امام بخاری نے ہر جگہ اس لفظ کا یہی(بادشاہت) معنی لیا ہے؟ اگر نہیں تو آپ نے غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ میرے محترم بھائی امام بخاری رحمہ اللہ آیت کا وہ مفہوم نہیں لے رہے ہیں جو آپ سمجھانا چاہ رہے ہیں اگر یہی مفہوم ان کے یہاں ہوتا تو صرف اسی آیت کا یہ مفہوم بیان نا کرتے بلکہ ہر جگہ اس کی وضاحت کرتے یا پھر کوئی ایسا قاعدہ کلیہ بیان کر دیتے جس سے یہ معلوم ہو جاتا کہ اس طرح کی آیات میں یہی قاعدہ لاگو ہو رہا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ایسا نہیں کیا، پھر امام بخاری نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں امام بخاری نے ایسا اس لئے کیا ہے تاکہ کوئی عقل سے کورا یہ نا کہہ سکے اور اعتراض نا کر سکے کہ صرف اس کا چہرہ ہی بچے گا اور نعوذ باللہ اس کی دیگر صفات یا اس کی بادشاہت فنا ہوجائیں گی، اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی ایک اور تفسیر بھی اسی جگہ بیان کی ہے جس کو آپ نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا میرے محترم یہ آیت کریمہ ایسے ہی ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا "الحج عرفة" یعنی حج تو عرفہ ہے، اور اس کی تفسیر پورے ارکان حج سے کر دی جائے کیونکہ اس سے بھی کسی کور مغز کو یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اب حج صرف وقوف عرفہ ہی ہے باقی احرام تلبیہ طواف سعی وغیرہ کا حج سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ ایسے ہی یہاں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے کیا ہے اور آیت میں سب سے اشرف چیز کا ذکر اس کی بزرگی کے پیش نظر کیا گیا ہے جیسے "الحج عرفہ" میں ہے اس وضاحت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ امام بخاری کی اس تفسیر کو تاویل کا نام دینا بالکل غلط ہے، ہاں یہ بات آپ کی اپنی جگہ درست ہے ائمہ میں صفات کو لیکر کافی اختلاف پایا جاتا ہے لیکن یہ اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب یونانی وغیرہ فلسفے عربی میں منتقل ہوئے صحابہ کے دور میں اس میں کوئی اختلاف نہیں تھا کسی صحابی سے تاویلات فاسدہ کا ظہور نہیں ہوا ہے اور نا انہوں نے اللہ کے لئے باطل معنی ثابت کئے ہیں، یہ تو ان مؤولین کی غلط بیانی اور بہتان تراشی ہے کہ وہ غلط معنی کو اہل سنت کی طرف منسوب کرتے ہیں اور پھر اس کی تردید کرتے ہیں! علامہ ابن تیمیہ کی طرف جو بات کہی گئ ہے اس کا حوالہ ہو عربی عبارت کے ساتھ تو اس پر بھی کچھ کہا جا سکتا ہے ویسے اس سے متعلق بھی یہی بات عمومی طور پر کہی جا سکتی ہے جو امام بخاری کے متعلق کہی گئی، واللہ اعلم بالصواب
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
تاویل اگر صحیح معنوں کے ذریعے کی جائے تو یہ جائز ہے اور اگر باطل معنوں کے ذریعے ہو تو باطل ہے، اللہ کی تمام صفات یا بعض کو اس شبہ کی وجہ سے کہ" اس سے تجسیم لازم آتی ہے" باطل تاویل کی خراد مشین پر چڑھا دینا بالکل غلط ہے آپ کہتے ہیں "بعض صفات کی تاویل کرنا ضروری ہے کیونکہ ان سے تجسیم کا خطرہ ہے" اس کی کوئی دلیل آپ کے پاس ہے؟ کیا صحابہ کرام نے ان بعض صفات کی وہ تاویلات کی ہیں جس کے آپ قائل ہیں؟ میں کہتا ہوں تجسیم کا خطرہ تو اللہ کی ذات ماننے سے بھی پیدا ہوتا ہے، آپ کی نظر میں ایسی کوئی ذات ہے جو بلا جسم کے ہو؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات ہے تو اس کی کیفیت بیان کیجئے خیال رہے جو بھی بات کہیں اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کم از کم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ہو بقیہ موہوم عقلی باتیں قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ عقل کا کوئی اعتبار نہیں ہر انسان کی عقل الگ الگ ہے اب سے کچھ سال پہلے لوگوں کی عقل یہ کہتی تھی کہ زمین چپٹی ہے اب عقل یہ کہتی ہے زمیں گول ہے ڈارون کی عقل یہ کہتی ہے انسان پہلے بندر تھا دھیرے دھیرے اس میں ترقی ہوتی آئی ہے.......... انتہا اس لئے دین کے معاملے میں عقل فیصل نہیں ہے بلکہ اس کے لئے دلیل صریح کی ضرورت ہے اور جب آپ اس کی ذات کی کیفیت بیان نہیں کر سکتے تو کیا اس کی ذات کی بھی تاویلات فاسدہ کی جائیں گی؟ عربی میں جو چیزیں جسم نہیں ہیں مثلاً آگ، ہوا وغیرہ آج کی سائنس نے ان کے بھی جسم ثابت کر دئیے ہیں، بخاری شریف میں کئی جگہ" وجہ اللہ "آیا ہے کیا امام بخاری نے ہر جگہ اس لفظ کا یہی(بادشاہت) معنی لیا ہے؟ اگر نہیں تو آپ نے غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ میرے محترم بھائی امام بخاری رحمہ اللہ آیت کا وہ مفہوم نہیں لے رہے ہیں جو آپ سمجھانا چاہ رہے ہیں اگر یہی مفہوم ان کے یہاں ہوتا تو صرف اسی آیت کا یہ مفہوم بیان نا کرتے بلکہ ہر جگہ اس کی وضاحت کرتے یا پھر کوئی ایسا قاعدہ کلیہ بیان کر دیتے جس سے یہ معلوم ہو جاتا کہ اس طرح کی آیات میں یہی قاعدہ لاگو ہو رہا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ایسا نہیں کیا، پھر امام بخاری نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں امام بخاری نے ایسا اس لئے کیا ہے تاکہ کوئی عقل سے کورا یہ نا کہہ سکے اور اعتراض نا کر سکے کہ صرف اس کا چہرہ ہی بچے گا اور نعوذ باللہ اس کی دیگر صفات یا اس کی بادشاہت فنا ہوجائیں گی، اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی ایک اور تفسیر بھی اسی جگہ بیان کی ہے جس کو آپ نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا میرے محترم یہ آیت کریمہ ایسے ہی ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا "الحج عرفة" یعنی حج تو عرفہ ہے، اور اس کی تفسیر پورے ارکان حج سے کر دی جائے کیونکہ اس سے بھی کسی کور مغز کو یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اب حج صرف وقوف عرفہ ہی ہے باقی احرام تلبیہ طواف سعی وغیرہ کا حج سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ ایسے ہی یہاں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے کیا ہے اور آیت میں سب سے اشرف چیز کا ذکر اس کی بزرگی کے پیش نظر کیا گیا ہے جیسے "الحج عرفہ" میں ہے اس وضاحت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ امام بخاری کی اس تفسیر کو تاویل کا نام دینا بالکل غلط ہے، ہاں یہ بات آپ کی اپنی جگہ درست ہے ائمہ میں صفات کو لیکر کافی اختلاف پایا جاتا ہے لیکن یہ اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب یونانی وغیرہ فلسفے عربی میں منتقل ہوئے صحابہ کے دور میں اس میں کوئی اختلاف نہیں تھا کسی صحابی سے تاویلات فاسدہ کا ظہور نہیں ہوا ہے اور نا انہوں نے اللہ کے لئے باطل معنی ثابت کئے ہیں، یہ تو ان مؤولین کی غلط بیانی اور بہتان تراشی ہے کہ وہ غلط معنی کو اہل سنت کی طرف منسوب کرتے ہیں اور پھر اس کی تردید کرتے ہیں! علامہ ابن تیمیہ کی طرف جو بات کہی گئ ہے اس کا حوالہ ہو عربی عبارت کے ساتھ تو اس پر بھی کچھ کہا جا سکتا ہے ویسے اس سے متعلق بھی یہی بات عمومی طور پر کہی جا سکتی ہے جو امام بخاری کے متعلق کہی گئی، واللہ اعلم بالصواب
محترم - میرا بھی تو یہی موقف ہے جو آپ کہہ رہے ہیں کہ: "تاویل اگر صحیح معنوں کے ذریعے کی جائے تو یہ جائز ہے اور اگر باطل معنوں کے ذریعے ہو تو باطل ہے، - فرقہ معتزلہ بھی اسماء و صفات کی باطل تاویلات پر ہی گمراہ ہوے- لیکن وہ خود یہ سمجھتے رہے کہ وہ حق پر ہیں- اگر وہ کوئی مناسب تاویلات کرتے تو گمراہ نہ ہوتے- جیسا کہ شارح مسلم امام نووی کا قول ہے کہ "جمہور متکلمین کا یہ کہنا ہے کہ حسب موقع تاویل کرکے وہ معنی لیئے جائیں جو اللہ تعالٰی کی شان کے لائق ہوں"-

آپ نہ فرمایا کے "صحابہ کے دور میں اس میں کوئی اختلاف نہیں تھا کسی صحابی سے تاویلات فاسدہ کا ظہور نہیں ہوا ہے اور نا انہوں نے اللہ کے لئے باطل معنی ثابت کئے ہیں"- وجہ اس کی یہ تھی کہ نبی کریم یا اصحاب کرام کے دور میں اسماء و صفات سے متعلق قرآن کی آیات ان ہی کی زبان میں نازل ہوئیں اور آپ صل الله علیہ کی احادیث بھی انہی کی اپنی زبان میں تھیں- اصحاب کرام قرآن کریم کی آیات اور نبی کریم کے اقوال کے مجازی اور حقیقی معنی کو اچھی طرح سمجھتے تھے- اگر معنی میں کوئی اشکال ہوتا تو وہ اسی وقت آپ سے پوچھ لیتے تھے کہ فلاں آیت یا آپ کے قول کا کیا مطلب ہے- اس لیے جب کبھی بھی ان کے سامنے ایسی آیات قرانی یا حدیث قدسی آتی جن میں الله رب العزت کی صفات متشابہات سے متعلق بات ہوتی تو فوراً سمجھ جاتے کہ اس کا کیا مطلب یا کے مقصد ہے- مثال کے طور پر جب ہم اردو بولنے والے کہتے ہیں کہ "آہستہ بولو دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں" - تو اردو بولنے والا ہر شخص سمجھ جاتا ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے- یعنی کہ آہستہ بولو کہ کوئی سن نہ لے- اب کوئی اس کا یہ مطلب اخذ نہیں کرتا کہ دبواروں کے حقیقی کان ہوتے ہیں- نہ کوئی یہ کہتا ہے کہ دیواروں کے کان تو ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان کی کیفیت کا نہیں پتا کہ وہ کیسے ہیں وغیرہ- یہی معامله نبی کریم یا اصحاب کرام کے دور میں اسماء و صفات سے متعلق تھا - اصحاب رسول اچھی طرح سمجھتے تھے کہ نبی کریم کے اقوال یا قرانی آیات کا اصل مدعا کیا ہے-اس لئے انہوں نے ان پر کلام نہیں کیا-

پہلی صدی کے اوائل میں جب جہمیہ و معتزلہ اپنے باطل عقائد لے کر اٹھے تو اسماء و صفات میں نزاع پیدا ہوگیا- جو محدثین و آئمہ ان کی مخالفت میں میدان میں تھے انھیں مجبوراً ان صفات کی مناسب تاویلات کرنی پڑیں جیسے امام بخاری نے سوره القصص کے تفسیر میں "وجہ اللہ" کی تاویل بادشاہت سے کی سے کی- جیسا کہ آپ بھی فرما رہے ہیں کہ (امام بخاری نے ایسا اس لئے کیا ہے تاکہ کوئی عقل سے کورا یہ نا کہہ سکے اور اعتراض نا کر سکے کہ صرف اس کا چہرہ ہی بچے گا اور نعوذ باللہ اس کی دیگر صفات یا اس کی بادشاہت فنا ہوجائیں گی)- اصل میں بعد کے ادوار میں آئمہ محدثین میں مجازی و حقیقی معنی میں نزاع پیدا ہوا - اور یہی چیز آئمہ میں بعض اسماء و صفات میں اختلاف کا باعث بنی-

یہ بھی حقیقت ہے کہ رد الجھمیہ و معتزلہ میں بعض محدثین غلو کا شکار ہوے اور حدیث قدسی یا قرانی آیات کے مجازی معنی پر صفات کو محمول کرنے کے بجاے انہوں نے ان کے حقیقی مطالب پر ہی بس کردیا - جس کے نتیجے میں المشبہ اور المجسمہ نے جنم لیا -جیھمیہ کے رد میں بعض آئمہ اس حد تک گئے کہ انہوں نے الله رب العزت کی ذات کو مخلوق پر قیاس کرنا شروع کر دیا- اس بنا پر امّت میں گمراہ کن نظریات نے جنم لیا - قاضی ابی یعلیٰ ان روایات کو صحیح کہتے رہے جن میں الله کے بالوں اور داڑھی مونچھ کے بغیر چہرہ کا ذکر تھا- بعض آئمہ نے عرش کو ایک ٹھوس چیز ثابت کرنے کی کوشش کی اور ضعیف روایات کا سہارا لے کر یہ عقیدہ پھیلایا کہ قیامت کے دن الله رب العزت محمّد صل الله علیہ و آ له وسلم کو اپنے ساتھ بٹھائے گا - یعنی الله تعالیٰ عرش پر مستوی نہیں بلکہ انسانوں کی مثل اس پر بیٹھا ہوا ہے- چھٹی صدی میں ابن الجوزی کو احساس ہوا کہ یہ نظریات عقائد میں گمراہی کا سبب ہیں اس بنا پر انھوں نے کتاب دفع المشبہ لکھی جس میں المشبہ اور المجسمہ کا شد و مد سے رد کیا گیا-

بہر حال کہنے کا مقصد یہ کہ ہم اہل حدیث آجکل اپنے اکابرین کی غیر ارادی تقلید میں غلطاں ہیں- جب اپنے اکابرین کے غلط عقائد پر بات آتی ہے تو ان کے دفاع میں جان کی بازی لگا دیتے ہیں - لیکن اپنے مسالک کے مخالف آئمہ و محدثین کی کوئی صحیح بات بھی قابل قبول نہیں ہوتی- مشھور مقولہ ہے کہ "یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے- بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے"-

علامہ ابن تیمیہ کی طرف جو بات کہی گئ ہے اس کا حوالہ عربی عبارت کے ساتھ اس لنک میں موجود ہے-

مجموعة الفتاوى لشيخ الإسلام ابن تيمية - ج 6 - الأسماء والصفات 2

https://books.google.com.pk/books?id=R8dHCwAAQBAJ&pg=PT12&lpg=PT12&dq=فیها+ذکر+الوجه+؟++مجموع+الفتاوی&source=bl&ots=NL9AYQdh90&sig=ACfU3U3QqlRZiFo2uHn5qMDOoYip_NSG3w&hl=en&sa=X&ved=2ahUKEwjiqfDtl-3gAhXCjqQKHTlpC-sQ6AEwAHoECAMQAQ#v=onepage&q=فیها ذکر الوجه ؟ مجموع الفتاوی&f=false

الله سب کو ہدایت دے (آمین)-
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
محترم - میرا بھی تو یہی موقف ہے جو آپ کہہ رہے ہیں کہ: "تاویل اگر صحیح معنوں کے ذریعے کی جائے تو یہ جائز ہے اور اگر باطل معنوں کے ذریعے ہو تو باطل ہے، - فرقہ معتزلہ بھی اسماء و صفات کی باطل تاویلات پر ہی گمراہ ہوے- لیکن وہ خود یہ سمجھتے رہے کہ وہ حق پر ہیں- اگر وہ کوئی مناسب تاویلات کرتے تو گمراہ نہ ہوتے- جیسا کہ شارح مسلم امام نووی کا قول ہے کہ "جمہور متکلمین کا یہ کہنا ہے کہ حسب موقع تاویل کرکے وہ معنی لیئے جائیں جو اللہ تعالٰی کی شان کے لائق ہوں"-

آپ نہ فرمایا کے "صحابہ کے دور میں اس میں کوئی اختلاف نہیں تھا کسی صحابی سے تاویلات فاسدہ کا ظہور نہیں ہوا ہے اور نا انہوں نے اللہ کے لئے باطل معنی ثابت کئے ہیں"- وجہ اس کی یہ تھی کہ نبی کریم یا اصحاب کرام کے دور میں اسماء و صفات سے متعلق قرآن کی آیات ان ہی کی زبان میں نازل ہوئیں اور آپ صل الله علیہ کی احادیث بھی انہی کی اپنی زبان میں تھیں- اصحاب کرام قرآن کریم کی آیات اور نبی کریم کے اقوال کے مجازی اور حقیقی معنی کو اچھی طرح سمجھتے تھے- اگر معنی میں کوئی اشکال ہوتا تو وہ اسی وقت آپ سے پوچھ لیتے تھے کہ فلاں آیت یا آپ کے قول کا کیا مطلب ہے- اس لیے جب کبھی بھی ان کے سامنے ایسی آیات قرانی یا حدیث قدسی آتی جن میں الله رب العزت کی صفات متشابہات سے متعلق بات ہوتی تو فوراً سمجھ جاتے کہ اس کا کیا مطلب یا کے مقصد ہے- مثال کے طور پر جب ہم اردو بولنے والے کہتے ہیں کہ "آہستہ بولو دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں" - تو اردو بولنے والا ہر شخص سمجھ جاتا ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے- یعنی کہ آہستہ بولو کہ کوئی سن نہ لے- اب کوئی اس کا یہ مطلب اخذ نہیں کرتا کہ دبواروں کے حقیقی کان ہوتے ہیں- نہ کوئی یہ کہتا ہے کہ دیواروں کے کان تو ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان کی کیفیت کا نہیں پتا کہ وہ کیسے ہیں وغیرہ- یہی معامله نبی کریم یا اصحاب کرام کے دور میں اسماء و صفات سے متعلق تھا - اصحاب رسول اچھی طرح سمجھتے تھے کہ نبی کریم کے اقوال یا قرانی آیات کا اصل مدعا کیا ہے-اس لئے انہوں نے ان پر کلام نہیں کیا-

پہلی صدی کے اوائل میں جب جہمیہ و معتزلہ اپنے باطل عقائد لے کر اٹھے تو اسماء و صفات میں نزاع پیدا ہوگیا- جو محدثین و آئمہ ان کی مخالفت میں میدان میں تھے انھیں مجبوراً ان صفات کی مناسب تاویلات کرنی پڑیں جیسے امام بخاری نے سوره القصص کے تفسیر میں "وجہ اللہ" کی تاویل بادشاہت سے کی سے کی- جیسا کہ آپ بھی فرما رہے ہیں کہ (امام بخاری نے ایسا اس لئے کیا ہے تاکہ کوئی عقل سے کورا یہ نا کہہ سکے اور اعتراض نا کر سکے کہ صرف اس کا چہرہ ہی بچے گا اور نعوذ باللہ اس کی دیگر صفات یا اس کی بادشاہت فنا ہوجائیں گی)- اصل میں بعد کے ادوار میں آئمہ محدثین میں مجازی و حقیقی معنی میں نزاع پیدا ہوا - اور یہی چیز آئمہ میں بعض اسماء و صفات میں اختلاف کا باعث بنی-

یہ بھی حقیقت ہے کہ رد الجھمیہ و معتزلہ میں بعض محدثین غلو کا شکار ہوے اور حدیث قدسی یا قرانی آیات کے مجازی معنی پر صفات کو محمول کرنے کے بجاے انہوں نے ان کے حقیقی مطالب پر ہی بس کردیا - جس کے نتیجے میں المشبہ اور المجسمہ نے جنم لیا -جیھمیہ کے رد میں بعض آئمہ اس حد تک گئے کہ انہوں نے الله رب العزت کی ذات کو مخلوق پر قیاس کرنا شروع کر دیا- اس بنا پر امّت میں گمراہ کن نظریات نے جنم لیا - قاضی ابی یعلیٰ ان روایات کو صحیح کہتے رہے جن میں الله کے بالوں اور داڑھی مونچھ کے بغیر چہرہ کا ذکر تھا- بعض آئمہ نے عرش کو ایک ٹھوس چیز ثابت کرنے کی کوشش کی اور ضعیف روایات کا سہارا لے کر یہ عقیدہ پھیلایا کہ قیامت کے دن الله رب العزت محمّد صل الله علیہ و آ له وسلم کو اپنے ساتھ بٹھائے گا - یعنی الله تعالیٰ عرش پر مستوی نہیں بلکہ انسانوں کی مثل اس پر بیٹھا ہوا ہے- چھٹی صدی میں ابن الجوزی کو احساس ہوا کہ یہ نظریات عقائد میں گمراہی کا سبب ہیں اس بنا پر انھوں نے کتاب دفع المشبہ لکھی جس میں المشبہ اور المجسمہ کا شد و مد سے رد کیا گیا-

بہر حال کہنے کا مقصد یہ کہ ہم اہل حدیث آجکل اپنے اکابرین کی غیر ارادی تقلید میں غلطاں ہیں- جب اپنے اکابرین کے غلط عقائد پر بات آتی ہے تو ان کے دفاع میں جان کی بازی لگا دیتے ہیں - لیکن اپنے مسالک کے مخالف آئمہ و محدثین کی کوئی صحیح بات بھی قابل قبول نہیں ہوتی- مشھور مقولہ ہے کہ "یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے- بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے"-

علامہ ابن تیمیہ کی طرف جو بات کہی گئ ہے اس کا حوالہ عربی عبارت کے ساتھ اس لنک میں موجود ہے-

مجموعة الفتاوى لشيخ الإسلام ابن تيمية - ج 6 - الأسماء والصفات 2

https://books.google.com.pk/books?id=R8dHCwAAQBAJ&pg=PT12&lpg=PT12&dq=فیها+ذکر+الوجه+؟++مجموع+الفتاوی&source=bl&ots=NL9AYQdh90&sig=ACfU3U3QqlRZiFo2uHn5qMDOoYip_NSG3w&hl=en&sa=X&ved=2ahUKEwjiqfDtl-3gAhXCjqQKHTlpC-sQ6AEwAHoECAMQAQ#v=onepage&q=فیها ذکر الوجه ؟ مجموع الفتاوی&f=false

الله سب کو ہدایت دے (آمین)-
میرے پیارے بھائی! آپ کہتے ہیں کہ " میرا بھی تو یہی موقف ہے جو آپ کہہ رہے ہیں" پھر آپ نے میری عبارت نقل کی ہے اگر بات یہی ہے جو آپ کہہ رہے ہیں تو پھر اختلاف کس بات کا؟ اور مجھے یا آپ کو جواب الجواب کی نوبت کیوں آئی ؟ اس لئے میں کہتا ہوں کہ میرا موقف وہ نہیں ہے جو آپ کا ہے آپ مطلقاً ید، أصابع اور وجہ وغیرہ کی تاویل کر رہے ہیں جیسا کہ أصابع الرحمن کے تعلق سے اس ضمن میں آپ کا موقف نظر سے گذرا اگر آپ کا یہی موقف ہوتا جو میرا ہے تو آپ إبن تیمیہ اور ابن قیم رحمہما اللہ کے اقوال سے تجسیم کو ان کی طرف منسوب نا کرتے، جیسا کہ آپ نے إبن تیمیہ رحمہ اللہ سے "وجہ" سے متعلق صحیح تاویل نقل کی حالانکہ اس میں بھی آپ نے ٹھوکر کھائی ہے اگر آپ إبن تیمیہ رحمہ اللہ کی نقل کردہ تفسیر کو سیاق و سباق اور انصاف کے ساتھ پڑھتے تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ اس جگہ إبن تیمیہ رحمہ اللہ کا جو موقف ہے یہی وہ موقف ہے جو ان سے پہلے مجاہد اور شافعی رحمہما اللہ کا بھی رہا ہے اور اس سے اللہ کی صفت وجہ کی تاویل جو تعطیل تک لے جاتی ہے ہرگز لازم نہیں آتی، إبن القيم کی" صواعق مرسلہ" میں بھی تاویل کی دو قسمیں تاویل صحیح اور تاویل فاسد موجود ہے اس کے باوجود آپ ان ائمہ کے اقوال سے تجیسیم کے خطرے کا اظہار کر رہے ہیں، میرے محترم! معتزلہ ہی کیوں اشاعرہ ماتریدیہ وغیرہ فرقے جو سات، آٹھ صفات کو چھوڑ کر بقیہ صفات کی تاویل کر رہے ہیں یہ باطل تاویل کیوں نہیں ہے؟ تاویل کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب حقیقی معنی مراد لینے میں قباحت ہو، اللہ کے لئے ان صفات کی کیفیت بیان کئے بغیر ثابت کرنا غلط کیسے ہو گیا؟ اگر صفات کا اطلاق اللہ کے لئے غلط ہے تو یہ ذو معنی الفاظ قرآن و حدیث میں کثرت سے استعمال کرنا اور کہیں بھی اس کی وضاحت نا کرنا قرآن و حدیث کی کونسی بلاغت ہے؟
امام نووی رحمہ اللہ کی عبارت اپنی جگہ درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ طے کون کریگا کہ یہ تاویل ذات الہ کی شان کے لائق ہے اور یہ نہیں؟ آپ جس سے تجسیم کا خطرہ محسوس کر رہے ہیں ائمہ سلف کو اس میں تجسیم نظر نہیں آتی، اگر ان صفات (ید وجہ اذن اور عین وغیرہ) کے ثبوت سے تجسیم لازم آتی ہے لیکن آپ کوئی ایسی ذات بھی نہیں بتاتے جو سنتی ہو دیکھتی ہو قدرت و ارادہ رکھتی ہو لیکن جسم نا رکھتی ہو؟ آپ ایسی کوئی ذات بھی نہیں بتاتے جو بلا جسم کے پائی جاتی ہو؟ ایسی صورت میں آپ کی بات کیسے مانی جا سکتی ہے؟ ہمارے اسلاف، صحابہ نے کبھی بھی ان صفات کے ثبوت سے وہ موہوم تجسیم سمجھی ہی نہیں جو آپ ان کی طرف منسوب کرنا چاہ رہے ہیں بلکہ وہ تو لفظ تجسیم اور جسم کے استعمال کو ہی اللہ کے لئے بدعت قرار دے رہے ہیں؟ امام نووی رحمہ اللہ کی جس عبارت کا ترجمہ آپ نے کیا ہے اس کی عربی عبارت مل جائے تو کیا ہی بہتر ہو!
اسماء و صفات سے متعلق صحابہ کے درمیان اختلافات نا ہونے کی وجہ وہ نہیں جو آپ بتلا رہے ہیں اگر وجہ وہی ہوتی تو پھر دیگر مسائل میں بھی ان کے درمیان اختلاف نا ہوتا کیونکہ ان کی زبان عربی تھی اور عربی محاورات پر ان کو کمانڈ تھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کئی مسائل میں ان کے درمیان اختلاف ہوا جیسے حج تمتع کے جواز اور عدم جواز ،بنو قریظہ میں عصر کی نماز کی ادائیگی شب معراج میں رویت باری تعالیٰ وغیرہا اور مزے کی بات یہ ہے کہ صحابہ میں رویت باری تعالیٰ کے متعلق جو لوگ رویت کی نفی کر رہے ہیں وہ یہ کہہ کر مخالفین کی تردید نہیں کر رہے ہیں کہ رویت باری ممکن نہیں ہے بلکہ آخرت میں رویت باری تعالیٰ کی نفی ان میں سے کسی سے منقول نہیں ہے، کاش آپ ایک دو مثالیں بھی نقل کر دیتے جن میں صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صفات کے متعلق استفسار کیا ہو! مجھے حیرت ہوتی ہے آپ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے اردو محاورے کا بھی غلط مفہوم دے رہے ہیں آپ کا کہنا " آہستہ بولو دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں" اور اس کے بعد جو مطلب آپ سمجھا رہے ہیں وہ صفات الہی کی بحث میں پیش کرنا بالکل غلط ہے، غلطی یہ ہے کہ آپ اللہ حی قیوم جو خود زندہ ہے اور ساری زندگیاں اس کے قبضے میں ہیں، کی صفات کو بے جان دیوار پر قیاس کر رہے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ "یعنی آہستہ بولو کہ کوئی سن نا لے اب کوئی اس کا یہ مطلب أخذ کرتا کہ دیواروں کے حقیقی کان ہوتے ہیں........." میرے محترم بھائی آپ نے مانا کہ دیوار کا سننا محاورہ ہے اصل میں سنتے کان ہیں کیا آپ اسی بات پر قائم رہتے ہوئے اللہ کے لئے صفت اذن یعنی کان کا اقرار کرتے ہیں یا اللہ کے سننے کا انکار کرتے ہیں یا کوئی ایسی ذات بتلاتے ہیں جو بلا کان کے سنتی بھی ہو؟
میرے محترم بھائی! ایسا نہیں ہے کہ اسماء و صفات میں اختلاف پہلی صدی میں ہوا بلکہ یہ تو پہلے ہی سے یہود وغیرہ کے یہاں وہی عقائد پائے جاتے تھے جو جہمیہ، معتزلہ وغیرہ کے تھے جب مسلمانوں کی کثرت ہوئی اور اسلام عرب سے نکلکر عجم میں آیا اور عجمی مسلمان ہوئے تو ان میں سے بعض یہ باطل نظریات بھی اپنے ساتھ لائے اور پھر یونانی اور ہندی فلسفہ عربی زبان میں منتقل ہوا تو بہت سارے نو مسلم اس سے متاثر ہوئے اور جب وہ اس فلسفہ کا کاٹ نا کر سکے تو انہوں نے تاویل کے راستے میں عافیت سمجھی اور اس طرح سے اشاعرہ ماتریدیہ وغیرہ فرق کا وجود ہوا جبکہ محدثین کی جماعت اپنے موقف پر قائم رہی جس کی پاداش میں ان کو سختیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، رہی بات امام بخاری کی تاویل کی تو حقیقت یہ ہے کہ آپ ان کے منشا کو سمجھ ہی نہیں پائے آپ نے میری ادھوری بات کو نقل کرکے یہ ثابت کرنے کی ناروا کوشش کی ہے کہ امام بخاری بھی مؤولین کی جماعت میں سے ہیں جبکہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے کوئی بھی انصاف پسند سورہ قصص کی اس آیت میں "وجہ" کی جو تفسیر امام بخاری کر رہے ہیں اس سے یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ وہ اللہ کی صفت وجہ کا انکار کر رہے ہیں اچھا آپ مجھے یہ بتائیں کیا اللہ کی بادشاہت جس کو امام بخاری کی طرف منسوب کر کے آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اللہ کی ذات کے علاوہ ہے یا دونوں ایک ہیں؟ اگر دونوں الگ الگ ہیں تو اس آیت کی رو سے اللہ کی ذات فنا ہوگی یا نہیں؟ اگر جواب اس کا یہ ہے کہ اس کی ذات بھی فانی ہے تو یہ صریح کفر ہے اور اگر جواب یہ کہ اس کی ذات کو فنا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو کوئی ایسی آیت بتلائیں جس سے اس کی ذات کے فانی ہونے کی نفی ہوتی ہو؟ کیوں کہ وجہ سے تو آپ اس کی بادشاہت لیتے ہیں؟ اور اگر بادشاہت اور اس کی ذات دونوں ایک ہی ہیں تو پھر تو وہی بات ہو گئی آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے، کہ آپ جسم سے بھاگ رہے تھے اب تو پوری باڈی ( بادشاہ وزیر اور عرش وغیرہ وغیرہ) کو ہی ثابت کر دیا فیاللعجب!
اصل بات یہ ہے کہ آپ اللہ کی صفات کو لیکر کنفرم ہی نہیں ہیں نا آپ نے آیت کا مطلب سمجھا ہے اور نا ہی امام بخاری کی تفسیر کو میں نے اس کی مختصر وضاحت اپنی اس سے پہلے والی پوسٹ میں مثال کے ساتھ کی ہے اگر ممکن ہو تو ایک دفعہ غور کر لیں
یہ حقیقت ہے کہ جہمیہ اور معتزلہ کی تردید میں بعض علماء نے "رد البدعة ببدعة مثلها" کے راستے کو اپنایا اور انہوں نے اللہ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے مشابہ قرار دے دیا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اگر کوئی غلط راہ اپنائے تو اس کے مقابلے میں ہم بھی غلط راہ اپنا لیں؟ مگر اشاعرہ و ماتریدیہ وغیرہ نے یہی کیا، اہل سنت ہمیشہ إفراط و تفریط سے دور رہے ہیں وہ نا تو اللہ کی صفات کی تشبیہ بیان کرتے ہیں اور نا ان کی باطل معنی کے ذریعے تاویل کرکے انکار کرتے ہیں بلکہ اللہ کی صفات کو بلا تشبیہ بلا تکییف اور بلا تاویل اس کے لیے ثابت کرتے ہیں یہی مامون راستہ ہے، رہی بات ضعیف اور موضوع روایات کی تو وہ تو فروعات میں جب معتبر نہیں تو پھر عقائد میں ان کا اعتبار کیسے ہو سکتا ہے؟ پہلے زمانے میں وسائل نا ہونے کی وجہ سے روایات کی صحت و ضعف میں اختلاف رہا ہے اور اس کی بنیاد پر کسی نے خلاف واقع کوئی بات کہی تو ہم ان کے بارے میں حسن ظن ہی رکھیں گے البتہ ہم ان کی تقلید کے پابند نہیں ہیں، ہمیشہ سے اہل الحدیث کا یہی اصول رہا ہے ان پر اکابر کی تقلید کا الزام محض الزام ہے اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ و ائمہ محدثین سے لیکر ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد رشید ابن القيم تک اور ان کے بعد سے امیر صنعانی اور ان کے شاگرد رشید علامہ شوکانی رحمہم اللہ اجمعین تک اور ان کے بعد سے اب تک ہمیشہ جزوی اختلاف رہا ہے اس کے باوجود اہل حدیث کو اکابر کی تقلید کا طعنہ دینا محض غلط ہے اللہ ہمیں نیک سمجھ دے آمین یا رب
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
48
nice sharing amazing one keep sharing thanks really appreciated
 
Top