يُحِبُّوْنَہ: "اللہ ان کو محبوب ہو گا۔"
دوسری خوبی جس کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اللہ سے ٹوٹ کر محبت کریں گے۔ ان کا اللہ سے جذباتی تعلق ہو گا۔ حقیر چیزوں کی محبت کرو تو اللہ بہترین قدردانی کرتا ہے جبکہ دنیا کی محبت تو رلاتی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں ان کے لیئے دنیاوی محبتیں کمزروری نہیں بنتیں۔ اللہ کی محبت کے آگے دوسری تمام محبتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ اللہ کی محبت قربانی مانگتی بھی ہے اور قربانی دینا بھی سکھاتی ہے۔ دنیا کے تمام رشتوں کی محبت ، اللہ کی محبت کے تابع ہونی چاہیے۔ بندہ جب اللہ سے نہیں مانگتا تو اللہ ناراض ہوتا ہے اور بندہ جب لوگوں سے مانگتا ہے تو لوگ ناراض ہوتے ہیں۔ انسان جب اللہ سے محبت کرت اہے تو اللہ اس سے اتنا ہی قریب ہو جاتا ہے ۔ اس کے برعکس انسان جتنا حُبِ دنیا کا شکار ہوتا ہے اتنی ہی دنیا اس سے دور بھاگتی ہے ۔ ایک دفعہ جب اللہ کی محبت انسان کے دل میں آجاتی ہے تو پھر دنیا کی محبتیں اس کے پیروں کی بیٹری نہیں بنتی۔
اللہ سے تعلق جڑنا بڑے اعزاز کی بات ہے ۔ جس طرح ہم اپنے شجرہ نسب پر ناز کرتے ہیں، اس سے زیادہ ہمیں اللہ تعالی سے اپنے تعلق پر ناز اور فخر کرنا چاہیے ۔ اللہ کا عاجز بندہ بن جانا، اللہ کا بن جانا، ی ایک بہت خوبصورت رشتہ ہے۔
دنیا میں جب کوئی کسی کا ہوجاتا ہے تو اس کی کیا کیفیت اور کیسی حالت ہوتی ہے؟
اسی کو راضی کرنے کی فکر ہوتی ہے اسی کی طرف دھیان رہتا ہے۔
اس سے شدت سے محبت کرت اہے۔
دل چاہتا ہے کہ بہانے بہانے سے اس کا ذکر کیا جائے۔
اس کی پسند کے کام کیئے جائیں۔
اس کی پسند کا حال حلیہ بنایا جائے۔
اس کی ناراضگی سے بھی ڈر لگتا ہے۔
بھاگ بھاگ کر، دوڑ دوڑ کر اس کے کام کرنے کا جی چاہتا ہے۔
ہر وقت اس کی صورت نگاہوں میں گردش کرتی رہتی ہے۔
تہنائی ہو یا مجلس ، ہر جگہ اسی کا تصور ہوتا ہے۔
جس سے محبت ہوتی ہے جی چاہتا ہے کچھ بھی کریںاس کی توجہ ہماری طرف ہو جائے۔
ایسی محبت اپنے رب سے کر کے تو دیکھئے دنیا کے تمام محبوب دھوکہ دینے کی سلاحیت رکھتے ہیں، ناقدرے ہیں، بے پرواہ ہیں۔ محت کرنے کے لائق صرف اور صرف ہمارا رَب ہے ۔ اس سے محبت کر کے تو انسان دیکھے، وہ کیسے ہماری قدردانی کرے گا؟
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۰ۭ
ترجمہ: "اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں،"(سورۃ البقرۃ: 165)
مقابلہ بازی تو ہم نے دنیا میں مال ، اولاداور شہرت کے لیئے بہت کی ، کبھی اللہ کی محبت اور توجہ حاصل کرنے کے لئے بھی آپس میں مقابلہ کیجیے۔
اگر ہمارے ملک کا صدر ہمیں اپنا دعوت نامہ بھیجے تو ہمارے دل کی کیا حالت ہوگی؟ ہم تو خوشی سے پھولے نہ سمائیں گے ۔ مگر جب اللہ تعالی ہمیں پانچ وقت نماز کے لیے بُلاتا ہے تو ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔
جیسا کہ قرآن میں آتا ہے:
مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۰ۭ
ترجمہ:" ان (کافروں) نے اﷲ کی قدر نہ کی جیسی اس کی قدر کرنا چاہئے تھی۔ "(سورۃ الحج: 74)
جبکہ ایک مومن کا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے؟
ابوامامہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس نے اللہ کے لئے دوستی کی اور اللہ کے لئےدُشمنی کی اور اللہ کے لئے دیا اور اللہ کے لئے روک کر رکھا اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔"(بخاری)
یہ انسان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ انسانوں سے اللہ کے لیئے محبت کرے۔ لیکن اگر اللہ کی محبت کے بجائے باقی چیزوں کی محبت پر حاوی ہے تو پھر اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے قدم نہیں اٹھیں گے ۔ اگر ہمیں اللہ کی محبت چاہیئے تو اس کے لئے کچھ نہ کچھ تو جہاد کرنا ہو گا ورنہ ہر محبت کی محبت چاہیئے تو اس کے لئے کچھ نہ کچھ تو جہاد کرنا ہو گا ورنہ ہر محبت پائوں کی بیڑی بنے گی، ہر محبت مجبوری بنے گی ، ہر محبت ہمیں رُلائے گی ، غم کا شکار کرے گی۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم دوسروں کی محبت کو اللہ کی محبت کے نیچے رکھیں۔ پھر دیکھیں انسان کے اندر کیسی جہاد کی روح آتی ہے۔
ورنہ محض اللہ سے اپنی دُعائیں قبول کروانے کے لئے تو اللہ سے محبت کریں لیکن جب اللہ تعالی کا حکم ماننے کی بات آئے تو ایک حکم بھی نہ مانیں تو یاد رکھیں ایسی خود غرض محبت بے روح اور بے برکت ہو گی۔