• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کو اوپر نہ ماننے والے بدعتی حنفی ہیں

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
اللہ کو اوپر نہ ماننے والے بدعتی حنفی ہیں

تحریر : محمد سلمان شیخ

جیسا کہ سب کو معلوم ہے دیوبندیو نے عقائد میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منہ ہی نہیں کیا اس وجہ سے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ وہی ہے جو اہل حدیث کا ہے اور دیوبندیو کا عقیدہ وہ ہے جو بدعتی اور گمراہ فرقوں کا ہے اس لیے انہوں نے عقائد میں امام ابوحنیفہ کی ماننے کا انکار کر دیا اور کہا ہم امام ابوحنیفہ کی صرف فروع میں تقلید کرتے ہیں عقائد میں نہیں، یعنی ان کے نزدیک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے عقائد درست نہیں،

فقہ اکبر جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے اس میں اللہ کی اسماء و صفات کے بارے وہی عقائد منقول ہیں جو اہل حدیث کے ہیں ،

اسی طرح امام ابن العز حنفی رحمہ اللہ نے عقیدہ طحاویہ کی شرح لکھی اس میں بھی سارے وہی عقائد ہیں جو اہل حدیث کے ہیں اور یہ سارے عقائد دیوبندیہ کے عقائد کے خلاف ہیں،

اللہ پاک اوپر ہے نہ کہ ہر جگہ اس بارے سلف صالحین کے اقوال نقل کرتے ہوئے امام ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب بعض ایسے افراد (دیوبندی بریلوی) ہیں جو علو (اللہ کے اوپر ہونے) کی حقیقت کا انکار کرتے ہیں، ان کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی، کیونکہ امام صاحب کی طرف منسوب معتزلیوں اور ان کے علاوہ دیگر(بدعتی) لوگوں کی ایک جماعت ہے جو ان کے بہت سارے عقائد کا انکار کرتی ہے"

FB_IMG_1654558250780.jpg

FB_IMG_1654558255804.jpg


امام ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ کے بیان سے واضح ہوا کہ خود کو حنفی کہلوانے والے بدعتیو (دیوبندیہ بریلویہ) وغیرہ کی ایک جماعت ہے جو اللہ کے اوپر ہونے کا انکار کرتی ہے جو کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ ہے اور اسی طرح ان کے بہت سے عقائد کا انکار کرتی ہے یہ نام نہاد حنفی منہ لگانے کے لائق نہیں۔
 

احمدشریف

مبتدی
شمولیت
اپریل 21، 2022
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
12
سنن ابو داؤد:
کتاب: نماز کے احکام ومسائل
(باب: مسجد میں تھوکنے کی کراہت)

سیدنا ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ ﷺ نے قبلہ رخ کی دیوار پر دیکھا کہ اس پر بلغم لگا ہوا ہے تو آپ ﷺ لوگوں پر ناراض ہوئے۔ پھر اسے کھرچ ڈالا۔ سیدنا عبداللہ ؓ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ پھر آپ ﷺ نے زعفران منگوایا اور اس پر لگایا اور فرمانے لگے: ”جب تم نماز پڑھتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے ہوتا ہے، لہٰذا کوئی شخص اپنے سامنے نہ تھوکے۔“
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
جب تم نماز پڑھتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے ہوتا ہے

صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ رخ دیوار پر تھوک دیکھی تو اسے کھرچ ڈالا اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم نماز میں ہوتے ہو تو اپنے رب سے سرگوشی کرتے ہو جبکہ وہ تمہارے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ اللہ عزوجل نماز میں نمازی کے چہرے کے سامنے ہوتے ہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اللہ عزوجل نمازی اور قبلے کے درمیان ہوتے ہیں تو یہ الفاظ حدیث کے راوی حمید کا اضافہ ہے کہ حمید نے یہ الفاظ "او" یعنی لفظ شک کے ساتھ بیان کیے ہیں جبکہ دوسری روایات سے ثابت شدہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ عزوجل نماز کی حالت میں نمازی کے چہرے کے سامنے ہوتے پیں۔

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ اگر کسی کو نماز کی حالت میں تھوکنا ہی ہے تو اپنے دائیں طرف بھی نہ تھوکے بلکہ بائیں طرف پاؤں کے نیچے تھوک لے۔ تو نمازی کو سامنے اور دائیں طرف تھوکنے سے منع کیا گیا ہے جبکہ بائیں طرف کی اجازت دی گئی ہے لہذا نماز کی حالت میں قبلہ رخ تھوکنا منع ہے۔ لیکن نماز کے علاوہ میں کیا قبلہ رخ تھوکا جا سکتا ہے تو اس میں فقہاء کا اختلاف ہے اور راقم کی رائے اس بارے یہی ہے کہ ممانعت صرف نماز میں ہے جبکہ غیر نماز میں جواز ہے کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ فاینما تولوا فثم وجہ اللہ کہ تم جس طرف بھی رخ کرو تو اسی طرف اللہ عزوجل ہے۔ لہذا ممانعت کی وجہ مسجد اور نماز ہے۔

رہی یہ کہ بات کہ اللہ عزوجل عرش پر ہے تو یہ بات قرآن مجید میں سات مقامات پر بیان ہوئی ہے لہذا اس کا انکار یا تاویل، قرآن مجید میں تحریف کے قائمقام ہے اور اس کی تفصیل ہم نے اپنی کتاب "وجود باری تعالی" کے تیسرے باب میں بیان کر دی ہے۔ اور جو اس روایت میں کہا گیا ہے کہ اللہ عزوجل نمازی کے سامنے ہوتا ہے تو اس میں اور قرآن مجید کے بیان میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دونوں میں جمع ممکن ہے۔ سورج ہمارے سامنے بھی ہوتا ہے اور ہم سے اوپر بھی یعنی جہت علو میں۔ لہذا اللہ عزوجل کا عرش پر ہونا اور سامنے ہونا ایک دوسرے کے منافی نہیں ہے۔

دوسرا یہ کہ اگر اس حدیث کو اللہ عزوجل کے ہر جگہ موجود ہونے کی دلیل بنایا جائے تو یہ درست نہیں ہے کہ حدیث خود کہہ رہی ہے کہ وہ سامنے ہوتا ہے یعنی تمہارے بائیں یا پاؤں کے نیچے نہیں ہوتا، اسی لیے تو بائیں اور پاؤں کے نیچے تھوکنے کی اجازت دی ہے لہذا یہ اعتراض باقی نہیں رہتا کہ عرش پر اللہ کو ماننے سے اللہ عزوجل محدود ہو جاتا ہے۔ جو عرش پر اللہ عزوجل کو اس شبہے سے نہیں مانتے، کیا وہ یہ مانتے ہیں کہ اللہ عزوجل ان کے پاؤں کے نیچے ہے؟ اگر نہیں تو انہوں نے بھی اللہ عزوجل کے لیے مکان مان لیا ہے۔ اور حق اس مسئلے میں وہی ہے کہ جو قرآن مجید نے بیان کیا ہے کہ وہ عرش کے اوپر ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ اور "پر ہونے" اور "اوپر ہونے" میں بھی بہت فرق ہے۔

✍ ڈاکٹر حافظ محمد زبیر
 

احمدشریف

مبتدی
شمولیت
اپریل 21، 2022
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
12
صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ رخ دیوار پر تھوک دیکھی تو اسے کھرچ ڈالا اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم نماز میں ہوتے ہو تو اپنے رب سے سرگوشی کرتے ہو جبکہ وہ تمہارے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ اللہ عزوجل نماز میں نمازی کے چہرے کے سامنے ہوتے ہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اللہ عزوجل نمازی اور قبلے کے درمیان ہوتے ہیں تو یہ الفاظ حدیث کے راوی حمید کا اضافہ ہے کہ حمید نے یہ الفاظ "او" یعنی لفظ شک کے ساتھ بیان کیے ہیں جبکہ دوسری روایات سے ثابت شدہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ عزوجل نماز کی حالت میں نمازی کے چہرے کے سامنے ہوتے پیں۔

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ اگر کسی کو نماز کی حالت میں تھوکنا ہی ہے تو اپنے دائیں طرف بھی نہ تھوکے بلکہ بائیں طرف پاؤں کے نیچے تھوک لے۔ تو نمازی کو سامنے اور دائیں طرف تھوکنے سے منع کیا گیا ہے جبکہ بائیں طرف کی اجازت دی گئی ہے لہذا نماز کی حالت میں قبلہ رخ تھوکنا منع ہے۔ لیکن نماز کے علاوہ میں کیا قبلہ رخ تھوکا جا سکتا ہے تو اس میں فقہاء کا اختلاف ہے اور راقم کی رائے اس بارے یہی ہے کہ ممانعت صرف نماز میں ہے جبکہ غیر نماز میں جواز ہے کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ فاینما تولوا فثم وجہ اللہ کہ تم جس طرف بھی رخ کرو تو اسی طرف اللہ عزوجل ہے۔ لہذا ممانعت کی وجہ مسجد اور نماز ہے۔

رہی یہ کہ بات کہ اللہ عزوجل عرش پر ہے تو یہ بات قرآن مجید میں سات مقامات پر بیان ہوئی ہے لہذا اس کا انکار یا تاویل، قرآن مجید میں تحریف کے قائمقام ہے اور اس کی تفصیل ہم نے اپنی کتاب "وجود باری تعالی" کے تیسرے باب میں بیان کر دی ہے۔ اور جو اس روایت میں کہا گیا ہے کہ اللہ عزوجل نمازی کے سامنے ہوتا ہے تو اس میں اور قرآن مجید کے بیان میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دونوں میں جمع ممکن ہے۔ سورج ہمارے سامنے بھی ہوتا ہے اور ہم سے اوپر بھی یعنی جہت علو میں۔ لہذا اللہ عزوجل کا عرش پر ہونا اور سامنے ہونا ایک دوسرے کے منافی نہیں ہے۔

دوسرا یہ کہ اگر اس حدیث کو اللہ عزوجل کے ہر جگہ موجود ہونے کی دلیل بنایا جائے تو یہ درست نہیں ہے کہ حدیث خود کہہ رہی ہے کہ وہ سامنے ہوتا ہے یعنی تمہارے بائیں یا پاؤں کے نیچے نہیں ہوتا، اسی لیے تو بائیں اور پاؤں کے نیچے تھوکنے کی اجازت دی ہے لہذا یہ اعتراض باقی نہیں رہتا کہ عرش پر اللہ کو ماننے سے اللہ عزوجل محدود ہو جاتا ہے۔ جو عرش پر اللہ عزوجل کو اس شبہے سے نہیں مانتے، کیا وہ یہ مانتے ہیں کہ اللہ عزوجل ان کے پاؤں کے نیچے ہے؟ اگر نہیں تو انہوں نے بھی اللہ عزوجل کے لیے مکان مان لیا ہے۔ اور حق اس مسئلے میں وہی ہے کہ جو قرآن مجید نے بیان کیا ہے کہ وہ عرش کے اوپر ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ اور "پر ہونے" اور "اوپر ہونے" میں بھی بہت فرق ہے۔

✍ ڈاکٹر حافظ محمد زبیر
ابو دائود کی اس حدیث کا مفہوم آپ نے پیش نہیں کیا۔ اس میں صاف لفظوں میں لکھاہوا ہے۔

”جب تم نماز پڑھتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے ہوتا ہے، لہٰذا کوئی شخص اپنے سامنے نہ تھوکے۔“
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
ابو دائود کی اس حدیث کا مفہوم آپ نے پیش نہیں کیا۔
اس حدیث میں جو بیان ہوا ہے
”جب تم نماز پڑھتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے ہوتا ہے، لہٰذا کوئی شخص اپنے سامنے نہ تھوکے۔“
یہی بات صحیح البخاری کی حدیث میں بھی بیان ہوئی ہے لیکن اس کے آگے ہی زرا تفصیل ہے کہ :

إن ربه بينه وبين القبلة، فلا يبزقن احدكم قبل قبلته، ولكن عن يساره او تحت قدميه
کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص (نماز میں اپنے) قبلہ کی طرف نہ تھوکے۔ البتہ بائیں طرف یا اپنے قدموں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔

[صحیح البخاری حدیث نمبر: 405]

اب آپ نے کہا ہے کہ :
حدیث کا مفہوم آپ نے پیش نہیں کیا۔ اس میں صاف لفظوں میں لکھاہوا ہے۔

”جب تم نماز پڑھتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے ہوتا ہے
حافظ زبير على زئی اس تعلق سے فرماتے ہیں :

اس کے سامنے اللہ ہوتا ہے۔“ سے مراد ”اس کے سامنے اللہ کا قبلہ ہوتا ہے۔‏‏‏‏“ دیکھئے: [معالم السنن للخطابي 124/1]
لہٰذا اس حدیث سے معتزلہ کا یہ استدلال غلط اور باطل ہے کہ اللہ ہر جگہ بذاتہ موجود ہے کیونکہ اگر یہ بات صحیح ہوتی تو پھر کپڑے پر اور قدموں کے نیچے بھی تھوکنا جائز نہ ہوتا حالانکہ یہ بالاجماع جائز ہے۔ [التمهيد 157/14، نيز ديكهئے ح 460]


[موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 205]
 

احمدشریف

مبتدی
شمولیت
اپریل 21، 2022
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
12
اس حدیث میں جو بیان ہوا ہے


یہی بات صحیح البخاری کی حدیث میں بھی بیان ہوئی ہے لیکن اس کے آگے ہی زرا تفصیل ہے کہ :

إن ربه بينه وبين القبلة، فلا يبزقن احدكم قبل قبلته، ولكن عن يساره او تحت قدميه
کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص (نماز میں اپنے) قبلہ کی طرف نہ تھوکے۔ البتہ بائیں طرف یا اپنے قدموں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔

[صحیح البخاری حدیث نمبر: 405]

اب آپ نے کہا ہے کہ :


حافظ زبير على زئی اس تعلق سے فرماتے ہیں :

اس کے سامنے اللہ ہوتا ہے۔“ سے مراد ”اس کے سامنے اللہ کا قبلہ ہوتا ہے۔‏‏‏‏“ دیکھئے: [معالم السنن للخطابي 124/1]
لہٰذا اس حدیث سے معتزلہ کا یہ استدلال غلط اور باطل ہے کہ اللہ ہر جگہ بذاتہ موجود ہے کیونکہ اگر یہ بات صحیح ہوتی تو پھر کپڑے پر اور قدموں کے نیچے بھی تھوکنا جائز نہ ہوتا حالانکہ یہ بالاجماع جائز ہے۔ [التمهيد 157/14، نيز ديكهئے ح 460]


[موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 205]
اللہ عرش پر ہے
اللہ نماز پڑہنے والے کے سامنے ہے۔
جواب، قیاس، تاویل پر دیا جا رہا ہے۔ کوئ ٹھوس جواب قرآن و سنت سے نہیں مل رہا ہے۔
لیکن اس عقیدہ پر جنگ عظیم برپا ہے۔!!!
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
جواب، قیاس، تاویل پر دیا جا رہا ہے۔ کوئ ٹھوس جواب قرآن و سنت سے نہیں مل رہا ہے۔
نص قطعی سے اس پر دلائل موجود ہے قیاس و تاویل کی تو ضرورت ہی نہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ﴾ (الاعراف:٥٤)
’’
بے شک تمھارا رب اللہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر بلند ہوا۔‘‘

﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ﴾ (یونس:٣)
’’بے شک تمھارا رب اللہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر بلند ہوا۔‘‘

﴿ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَ‌فَعَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا ۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْ‌شِ﴾ (الرعد:٢)
’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بغیر ستونوں کے، جنھیں تم دیکھتے ہو، پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔‘‘

﴿الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ﴾ (طہ:۵)
’’وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا۔‘‘

﴿ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْ‌شِ﴾ (الفرقان:٥٩)
’’وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ، چھ دنوں میں پیدا کیا ، پھر عرش پر بلند ہوا۔‘‘

﴿ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْ‌شِ﴾ (السجدہ:٤)
’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمين اور ان دونوں کے درمیان كی ہر چیز کو چھ دنوں میں پیدا کیا ، پھروہ عرش پر بلند ہوا۔‘‘

﴿هوالَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ﴾ (الحديد:٤)
’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔‘‘

سید محب اللہ شاہ راشدی فرماتے ہیں :

ان تمام آیات میں اللہ تعالیٰ کا عرش عظیم پر مستوی ہونا واضح طور پر ثابت ہے اور اللہ تعالیٰ کا عرش پر استوی اس کی صفت ہے اور اللہ کی صفات کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین ، تبع تابعین اور سلف صالحین کا یہی مسلک ہے۔
(فتاویٰ راشدیہ، ص : ٦٦۴)

کوئ ٹھوس جواب قرآن و سنت سے نہیں مل رہا ہے۔
لیکن اس عقیدہ پر جنگ عظیم برپا ہے۔!!!
قرآن کی اتنی آیات اس عقیدہ پر دلالت کر رہی ہے کہ اللہ عرش پر بلند ہے اس سے بڑھ کر ٹھوس دلیل آپ کو کیا چاہئے بلکہ تمام اہل السنۃ کا یہی عقیدہ ہے اہل السنۃ کے درمیان اس عقیدہ پر جنگ برپا نہیں نہ ہی کوئی اختلاف ہے۔ صرف جہمیہ ، قدریہ اور معتزلہ جیسے گمراہ فرقے اس عقیدہ میں اختلاف کرتے ہیں اور یہ باطل عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ میں ہے!!!

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقالت الجہمیّۃ والقدریّۃ والمعتزلۃ : ہو بکلّ مکان ۔
"جہمیہ ، قدریہ اور معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ میں ہے۔"
(تفسیر القرطبی : ٥/٣٧٩)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وکلّ من قال : إنّ اللّٰہ بذاتہ فی کلّ مکان فہو مخالف للکتاب والسنّۃ وإجماع ہذہ الأمّۃ وأئمّتہا ، مع مخالفتہ لما فطر اللّٰہ علیہ عبادہ ، ولصریح المعقول ، وللأدلّۃ الکثیرۃ ، وہؤلاء یقولون أقوالا متناقضۃ ۔
"جو شخص بھی یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ ہے، وہ قرآن و سنت اور امت ِ مسلمہ کے علماء اور ائمہ دین کے اجماع کا مخالف ہے۔ ساتھ ساتھ وہ اس فطرت کی بھی مخالفت کرتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کیا ہے۔ ایسا شخص صریح عقلی دلائل اور دیگر بہت سی دلیلوں کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ ایسے لوگ متناقض باتیں کرتے ہیں۔"
(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٥/٢٣٠)


اللہ نماز پڑہنے والے کے سامنے ہے۔
اس میں یہ بیان ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے نماز پڑہنے والے کے سامنے ہو۔

اس کے سامنے اللہ ہوتا ہے۔“ سے مراد ”اس کے سامنے اللہ کا قبلہ ہوتا ہے۔‏‏‏‏“ دیکھئے: [معالم السنن للخطابي 124/1]
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی سے اللہ کی ذات کے متعلق پوچھا((أين الله؟)) اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا:( فِي السَّمَاءِ) آسمان پر ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس لونڈی کے مالک سے فرمایا:(أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ) اسے آزاد کردو کیونکہ یہ ایمان والی ہے۔ (صحیح مسلم :۵۳۷)
 

احمدشریف

مبتدی
شمولیت
اپریل 21، 2022
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
12
نص قطعی سے اس پر دلائل موجود ہے قیاس و تاویل کی تو ضرورت ہی نہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ﴾ (الاعراف:٥٤)
’’
بے شک تمھارا رب اللہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر بلند ہوا۔‘‘

﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ﴾ (یونس:٣)
’’بے شک تمھارا رب اللہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر بلند ہوا۔‘‘

﴿ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَ‌فَعَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا ۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْ‌شِ﴾ (الرعد:٢)
’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بغیر ستونوں کے، جنھیں تم دیکھتے ہو، پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔‘‘

﴿الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ﴾ (طہ:۵)
’’وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا۔‘‘

﴿ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْ‌شِ﴾ (الفرقان:٥٩)
’’وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ، چھ دنوں میں پیدا کیا ، پھر عرش پر بلند ہوا۔‘‘

﴿ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْ‌شِ﴾ (السجدہ:٤)
’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمين اور ان دونوں کے درمیان كی ہر چیز کو چھ دنوں میں پیدا کیا ، پھروہ عرش پر بلند ہوا۔‘‘

﴿هوالَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ﴾ (الحديد:٤)
’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔‘‘

سید محب اللہ شاہ راشدی فرماتے ہیں :

ان تمام آیات میں اللہ تعالیٰ کا عرش عظیم پر مستوی ہونا واضح طور پر ثابت ہے اور اللہ تعالیٰ کا عرش پر استوی اس کی صفت ہے اور اللہ کی صفات کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین ، تبع تابعین اور سلف صالحین کا یہی مسلک ہے۔
(فتاویٰ راشدیہ، ص : ٦٦۴)



قرآن کی اتنی آیات اس عقیدہ پر دلالت کر رہی ہے کہ اللہ عرش پر بلند ہے اس سے بڑھ کر ٹھوس دلیل آپ کو کیا چاہئے بلکہ تمام اہل السنۃ کا یہی عقیدہ ہے اہل السنۃ کے درمیان اس عقیدہ پر جنگ برپا نہیں نہ ہی کوئی اختلاف ہے۔ صرف جہمیہ ، قدریہ اور معتزلہ جیسے گمراہ فرقے اس عقیدہ میں اختلاف کرتے ہیں اور یہ باطل عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ میں ہے!!!

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقالت الجہمیّۃ والقدریّۃ والمعتزلۃ : ہو بکلّ مکان ۔
"جہمیہ ، قدریہ اور معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ میں ہے۔"
(تفسیر القرطبی : ٥/٣٧٩)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وکلّ من قال : إنّ اللّٰہ بذاتہ فی کلّ مکان فہو مخالف للکتاب والسنّۃ وإجماع ہذہ الأمّۃ وأئمّتہا ، مع مخالفتہ لما فطر اللّٰہ علیہ عبادہ ، ولصریح المعقول ، وللأدلّۃ الکثیرۃ ، وہؤلاء یقولون أقوالا متناقضۃ ۔
"جو شخص بھی یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ ہے، وہ قرآن و سنت اور امت ِ مسلمہ کے علماء اور ائمہ دین کے اجماع کا مخالف ہے۔ ساتھ ساتھ وہ اس فطرت کی بھی مخالفت کرتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کیا ہے۔ ایسا شخص صریح عقلی دلائل اور دیگر بہت سی دلیلوں کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ ایسے لوگ متناقض باتیں کرتے ہیں۔"
(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٥/٢٣٠)




اس میں یہ بیان ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے نماز پڑہنے والے کے سامنے ہو۔



جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی سے اللہ کی ذات کے متعلق پوچھا((أين الله؟)) اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا:( فِي السَّمَاءِ) آسمان پر ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس لونڈی کے مالک سے فرمایا:(أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ) اسے آزاد کردو کیونکہ یہ ایمان والی ہے۔ (صحیح مسلم :۵۳۷)
ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے، اصول ہے کہ امتی کا قول یا فعل حجت نہیں۔
اور عقیدہ کے سنجیدہ اور نازک معاملہ میں اب تک صرف امتی کے اقوال ہی پیش ہو رہے ہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عربی سمجھتی نہیں، اردو سے سمجھنا نہیں چاہتے ۔
 

احمدشریف

مبتدی
شمولیت
اپریل 21، 2022
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
12
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عربی سمجھتی نہیں، اردو سے سمجھنا نہیں چاہتے ۔
یہ عقیدہ کا معاملہ ہے۔
صحابہ میں اور تابعین میں ہمیں اس کی بحث نظر نہیں آتی، اور کہیں جنگ و جدال نظر آتا ہے کہ اللہ کہاں ہے!
نمازی کے آگے اللہ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر بس تاویلیں ہیں رہ گئیں۔
 
Top