شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ کا اس مضمون کے متعلق ایک فتوی نظروں سے گزرا تو سوچا کہ یہاں شئیر کر دوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی كی صفت نزول كےمتعلق سوالات
ہمارا پروردگار تبارك وتعالی ہر رات جب رات كا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمان دنیا پر نزول فرما كریہ منادی كرتا ہے: كون ہے جو مجھے پكارے تومیں اس كی پكار قبول كروں، كون ہے جو مجھ سے سوال كرے تو میں اسے عطا كروں، كون ہے جو مجھ سے بخشش طلب كرے تو میں اسے بخش دوں؟
1 – كیا اللہ تعالی آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے یا كہ زمین پر ؟
2 – جیسا كہ ایك دوسری حدیث میں آیا ہے كہ اللہ تعالی بادلوں كے سائے میں آتا ہے انسانوں اور جنوں كےعلاوہ صرف بعض حیوانات اسے جانتے ہیں ؟
الحمد للہ :
اول:
جن امور كےمتعلق آپ نےسوال كیا ہے یہ غیبی امور میں سےہیں جن كو انسان صرف وحی ( یعنی كتاب وسنت ) كےذریعہ سے ہی جان سكتا ہے، اور اس میں كوئی شك نہیں كہ نزول كی انتہاء آسمان دنیا ہے نہ كہ زمین، جیسا كہ رسول كریم صلی اللہ علیہ وسلم كی كلام نصا موجود ہے:
( ہمارا پروردگار آسمان دنیا كی طرف نزول فرماتا ہے ) تویہاں نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین كی طرف نہیں كہا.
دوم :
اور آپ نےجو یہ ذكر كیا ہے كہ اللہ تبارك وتعالی بادلوں كےسائے میں آتا ہے اور بعض حیوانات اسے جانتےہیں، متوفر حدیث كی كتابوں میں چھان پھٹك اور تلاش كرنے كےبعد اور اس میدان میں علمی رسوخ ركھنےوالے اہل علم جنہوں اللہ عزوجل كےآسمان دنیا پر نزول كے مسئلہ میں كلام كی ہے ان كےاقوال كی طرف رجوع كرنے كےبعد ہمیں تو كوئی ایسی چیز نہیں ملی جو اس كےثبوت پر دلالت كرتی ہو، اس لیے ہم پر واجب ہے كہ ہم وہی چیز ثابت كریں جو نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت كی ہے كہ اللہ تعالی آسمان دنیا كی طرف نزول فرماتا ہے، اور اس كا نزول ایسا ہے جواس كی عظمت وجلالت كےشایان شان ہے، اس كےعلاوہ كا علم ہم اللہ جل جلالہ كےسپرد كرتے ہیں جس نام پاكیزہ ہیں اور وہ علم و حكمت والا ہے.
لیكن قرآن مجید میں یہ آیا ہے كہ اللہ تعالی قیامت كےروز فیصلہ كے لیے بادلوں كےسائےمیں تشریف لائےگا فرمان باری تعالی ہے:
هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّآ أَن يَأْتِيَهُمُ ٱللَّهُ فِى ظُلَلٍۢ مِّنَ ٱلْغَمَامِ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَقُضِىَ ٱلْأَمْرُ ۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ﴿٢١٠﴾
{كیا لوگوں كواس بات كا انتظار ہے كہ ان كےپاس خود اللہ تعالی بادلوں كے سائے میں آجائے اور فرشتےبھی اور كام انتہاء كو پہنچا دیا جائے، اللہ تعالی ہی كی طرف تمام كام لوٹائے جاتےہیں} (البقرۃ،210)
اور یہ صرف روز قیامت ہی ہے .
اللہ تعالی آپ كو توفیق سےنوازے آپ یہ جان لیں كہ ہمارا یہ ایمان ہے كہ اللہ تعالی اپنی ذات كےساتھ بلند وبالا ہے اور وہ ہی بلند اور عظیم ہے اور ہمارا یہ بھی ایمان ہے كہ اللہ تعالی آسمان دنیا كی طرف نزول فرماتا ہے، توان دونوں میں كوئی منافاۃ یا تناقض اور اختلاف نہیں، كیونكہ علو اللہ تعالی كی ذاتی صفات میں سے جس كا اس سےعلیحدہ ہونا ممكن نہیں، یعنی یہ ممكن نہیں كہ وہ اس سے كسی وقت متصف نہ ہو ، تو ان میں كوئی منافاۃ نہیں ہے.
اول :
اس لیے كہ نصوص اوردلائل نےان دونوں كو جمع كیا ہے اور جیسا كہ معلوم ہے كہ نصوص محال چیز كو نہیں لاتیں.
دوم:
اس لیے كہ اللہ تعالی كی سب صفات میں اس كی مثل كوئی نہیں، تو اللہ تعالی كا نزول مخلوق كےنزول كی طرح نہیں، حتی كہ یہ كہا جائےكہ: یہ اس كےعلو اور بلندی كےمنافی اور اس كےخلاف ہے.
واللہ تعالی اعلم
دیكھیں: كتاب السنۃ لابن ابی عاصم ( 215 ) اور مجموع فتاوی ورسائل الشیخ محمد بن صالح العثیمین .
واللہ اعلم
الاسلام سوال وجواب