• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟ ( اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرامین)

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
سوال

عقا ئد کا اثبات جس دلیل سے ہوتا ہے اسکا قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہونا لازمی ہے۔ اس پورے تھریڈ میں جن دلدئل سے آپکے ہم خیالوں نے اپنے عقیدے کو ثابت کرنا چاہا ہے وہ قطعی الدلالت کی شرط پر پورے نہیں۔ لہٰذہ ان سے آپکا عقیدہ اخذ نہیں ہوتا۔
کیوں پورے نہیں اترتے یہ بھی تو بتائیے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
لغوی بحث

دوسری بات آپ نے جو دلیل مسلم شریف کی دی ہے کیا وہ قطعی الثبوت و دلالت ہے یا نہیں؟
آپکی دی ہوئی دلیل نا تو قطعی الثبوت ہے نہ ہی قطعی الدلالت۔۔ قطعی الثبوت اس لئے نہیں کہ جن قواعد سے اسکی قطعیت کا سراغ لگایا جاتا ہے وہ بذاتہ ظنی ہیں۔ اس وجہ سے آپکی خبر مفید ظن ہے اور قطعی الدلالت اس لئے نہیں کہ آپکا عقیدہ یہ ہے آپکا
رب عرش کے اوپر ہے
جبکہ خبر میں لونڈی کا جواب ہے
اس حدیث سے تو آپکا عقیدہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جس کو آپ عرش کے اوپر بتلا رہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تایئد یافتہ جواب کی رو سے وہ آسمان میں ہیں۔
بفرض محال اس حدیث میں فی السماء کو علی السماء کے معنوں میں محمول کر لیا جائے تو بھی آپکے خلاف دلیل بن جاتی ہے نا کے آپکی تا یئد میں۔۔! کیونکہ اس صورت میں لونڈی کا جواب ہوگا
آسمان پر
جبکہ آپ کا عقیدہ عرش کے اوپر کا ہے۔ جیسا کہ انس بھائی لکھ چکے ہیں۔
اخبار آحاد عقیدہ کے ثبوت میں دلیل بن سکتے ہیں یا نہیں اس بارے میں ہم بحث نہیں کریں گے تاکہ موضوع بحث چینج نہ ہوجائے ۔
ہم کہتے ہیں فی یہاں علی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اور علی میں فوق کے معنی خود پائے جاتے ہیں ۔ اس کی تائید قرآن کی آیات ، احادیث رسول ، اقوال سلف اور اقول مفسرین سے بھی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی کی فوقیت کے دلائل انس بھائی نے ذکر کیے ہیں ۔ اس لیے استواء کے متعلق وارد ہونے والی آیات میں علی سے مراد فوق لیتے ہیں۔
حدیث میں بھی علی العرش کی تفصیل فوق العرش سے کی گئی ہے ،دیکھیے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمَّا قَضَى اللَّهُ الخَلْقَ كَتَبَ فِي كِتَابِهِ فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ العَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي»
( صحیح بخاری ، كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ، بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ} [الروم: 27])
مفسرین نے بھی قرآن میں فی السماء کی تفسیر فوق السماء سے فرمائی ہے ۔ اور ان میں وہ مفسرین بھی شامل ہیں جو فوقیت سے معنوی فوقیت مراد لیتے ہیں۔ آپ کی تسکین کے لیے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں ۔ واضح رہے کہ یہاں ہمارا استدلال لغوی ہے ۔ آپ ان اقوال بنیاد پر یہ تسلیم کریں کی فی اور علی فوق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر فوقیت معنوی ہے یا جہتی یہ بحث کی جاسکتی ہے ۔

ثم معنى قوله في الكتاب: (مَنْ فِي السَّمَاءِ) الآية، أي: من فوق السماء على العرش.
(تفسير الإمام الشافعي (3/ 1397)
وقال المحقّقون : معنى قوله: فِي السَّماءِ أي فوق السماء
(تفسير الثعلبي = الكشف والبيان عن تفسير القرآن (9/ 359)
أأمنتم من في السماءيعني من فوق السماء
(تفسير الخازن = لباب التأويل في معاني التنزيل (2/ 473)
أأمنتم من فوق السماء كقوله تعالى: {فسيحوا في الأرض} (التوبة: 2) ، أي: فوقها
(السراج المنير في الإعانة على معرفة بعض معاني كلام ربنا الحكيم الخبير (4/ 345)
قال تعالى: أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّماءِ [الملك: 16] ، يعني من فوق السماء
(تفسير القاسمي = محاسن التأويل (6/ 75)
وَقَالَ الْمُحَقِّقُونَ: أَمِنْتُمْ مَنْ فَوْقَ السَّمَاءِ، كَقَوْلِهِ: فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ
(تفسير القرطبي (18/ 216)
وقال تعالى: {أَأَمِنتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ} [الملك:16]، أي: من فوق السماء.
وهو مذهب السلف قاطبة كما نقله الإمام الذهبي في كتابه (العلو للعلي الغفار).

تفسير القرآن الكريم - المقدم (25/ 8)
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
رہی یہ بات کہ میرا جواب نبی جی صلی اللہ علیہ وسلم کے تایئد یافتہ جواب کےمطابق نہیں۔ حضور والا میرے جواب کے خلاف بھی تو نہیں۔ بلکہ ایک جہت سے اسکی تائید ہی ہے۔
کسی جہت سے اس کی تائید ہوتی ہے ؟
رہی یہ بات کہ میرا جواب نبی جی صلی اللہ علیہ وسلم کے تایئد یافتہ جواب کےمطابق نہیں۔
تو اب آپ نبی صلی اللہ علیہ کے تائید یافتہ جواب کے مطابق جواب دیں۔
ابن جوزی صاحب اللہ کہاں ہیں؟
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا، بھائی سرفراز فیضی صاحب ،
اگر بھائی ابن الجوزی صاحب نے کتاب پڑھ لی ہوتی تو وہ ایسی باتیں نہ لکھتے جو لکھی ہیں ،الحمد للہ میں نے اُس کتاب میں وہ سب دلائل مہیا کیے ہیں جن کا آپ نے یہاں ذکر فرمایا ہے
میں بھائی ابن الجوزی صاحب سے یہ گذارش کرتا ہوں کہ ذرا مجھے یہ سمجھایے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ میں سے ظنی الثبوت ، قطعی الثبوت ، اور قطعی الدلالات کی کیا پہچان ہے ؟ اور اس تقسیم کے کیا دلائل ہیں ؟ کچھ مثالیں بھی پیش کردیں تا کہ مجھ جیسے کو سمجھنے میں آسانی ہو ان شاء اللہ ،
اور اس کے بعد ان شاء اللہ ، بہت کچھ ظاہر ہو گا ، و السلام علیکم ۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
السلام علیکم سرفراز فیضی صاحب!!
بحث کو بے جا طولت دینے سے بہتر ہے کہ پہلے بنیادی نکتہ متعین کیا جائے۔ کسی مدعا کو ثابت کرنے کیلئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور عقائد میں معتبر وہ دلیل ہے جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہو۔ آپ اس اصول سے اتفاق کرتے ہیں؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ کا اس مضمون کے متعلق ایک فتوی نظروں سے گزرا تو سوچا کہ یہاں شئیر کر دوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالی كی صفت نزول كےمتعلق سوالات


ہمارا پروردگار تبارك وتعالی ہر رات جب رات كا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمان دنیا پر نزول فرما كریہ منادی كرتا ہے: كون ہے جو مجھے پكارے تومیں اس كی پكار قبول كروں، كون ہے جو مجھ سے سوال كرے تو میں اسے عطا كروں، كون ہے جو مجھ سے بخشش طلب كرے تو میں اسے بخش دوں؟
1 – كیا اللہ تعالی آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے یا كہ زمین پر ؟
2 – جیسا كہ ایك دوسری حدیث میں آیا ہے كہ اللہ تعالی بادلوں كے سائے میں آتا ہے انسانوں اور جنوں كےعلاوہ صرف بعض حیوانات اسے جانتے ہیں ؟

الحمد للہ :
اول:
جن امور كےمتعلق آپ نےسوال كیا ہے یہ غیبی امور میں سےہیں جن كو انسان صرف وحی ( یعنی كتاب وسنت ) كےذریعہ سے ہی جان سكتا ہے، اور اس میں كوئی شك نہیں كہ نزول كی انتہاء آسمان دنیا ہے نہ كہ زمین، جیسا كہ رسول كریم صلی اللہ علیہ وسلم كی كلام نصا موجود ہے:
( ہمارا پروردگار آسمان دنیا كی طرف نزول فرماتا ہے ) تویہاں نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین كی طرف نہیں كہا.

دوم :
اور آپ نےجو یہ ذكر كیا ہے كہ اللہ تبارك وتعالی بادلوں كےسائے میں آتا ہے اور بعض حیوانات اسے جانتےہیں، متوفر حدیث كی كتابوں میں چھان پھٹك اور تلاش كرنے كےبعد اور اس میدان میں علمی رسوخ ركھنےوالے اہل علم جنہوں اللہ عزوجل كےآسمان دنیا پر نزول كے مسئلہ میں كلام كی ہے ان كےاقوال كی طرف رجوع كرنے كےبعد ہمیں تو كوئی ایسی چیز نہیں ملی جو اس كےثبوت پر دلالت كرتی ہو، اس لیے ہم پر واجب ہے كہ ہم وہی چیز ثابت كریں جو نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت كی ہے كہ اللہ تعالی آسمان دنیا كی طرف نزول فرماتا ہے، اور اس كا نزول ایسا ہے جواس كی عظمت وجلالت كےشایان شان ہے، اس كےعلاوہ كا علم ہم اللہ جل جلالہ كےسپرد كرتے ہیں جس نام پاكیزہ ہیں اور وہ علم و حكمت والا ہے.

لیكن قرآن مجید میں یہ آیا ہے كہ اللہ تعالی قیامت كےروز فیصلہ كے لیے بادلوں كےسائےمیں تشریف لائےگا فرمان باری تعالی ہے:
هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّآ أَن يَأْتِيَهُمُ ٱللَّهُ فِى ظُلَلٍۢ مِّنَ ٱلْغَمَامِ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَقُضِىَ ٱلْأَمْرُ ۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ﴿٢١٠﴾
{كیا لوگوں كواس بات كا انتظار ہے كہ ان كےپاس خود اللہ تعالی بادلوں كے سائے میں آجائے اور فرشتےبھی اور كام انتہاء كو پہنچا دیا جائے، اللہ تعالی ہی كی طرف تمام كام لوٹائے جاتےہیں} (البقرۃ،210)
اور یہ صرف روز قیامت ہی ہے .

اللہ تعالی آپ كو توفیق سےنوازے آپ یہ جان لیں كہ ہمارا یہ ایمان ہے كہ اللہ تعالی اپنی ذات كےساتھ بلند وبالا ہے اور وہ ہی بلند اور عظیم ہے اور ہمارا یہ بھی ایمان ہے كہ اللہ تعالی آسمان دنیا كی طرف نزول فرماتا ہے، توان دونوں میں كوئی منافاۃ یا تناقض اور اختلاف نہیں، كیونكہ علو اللہ تعالی كی ذاتی صفات میں سے جس كا اس سےعلیحدہ ہونا ممكن نہیں، یعنی یہ ممكن نہیں كہ وہ اس سے كسی وقت متصف نہ ہو ، تو ان میں كوئی منافاۃ نہیں ہے.

اول :
اس لیے كہ نصوص اوردلائل نےان دونوں كو جمع كیا ہے اور جیسا كہ معلوم ہے كہ نصوص محال چیز كو نہیں لاتیں.

دوم:
اس لیے كہ اللہ تعالی كی سب صفات میں اس كی مثل كوئی نہیں، تو اللہ تعالی كا نزول مخلوق كےنزول كی طرح نہیں، حتی كہ یہ كہا جائےكہ: یہ اس كےعلو اور بلندی كےمنافی اور اس كےخلاف ہے.

واللہ تعالی اعلم
دیكھیں: كتاب السنۃ لابن ابی عاصم ( 215 ) اور مجموع فتاوی ورسائل الشیخ محمد بن صالح العثیمین .
واللہ اعلم
الاسلام سوال وجواب
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بلاتاویل وبلا تکییف اللہ پاک رب العالمین کا عرش معلی سے آسمان دنیا پر اترنا برحق ہے۔ جس طرح اس کا عرش عظیم پر مستوی ہونا برحق ہے۔ اہل الحدیث کا ازاول تا آخر یہی عقیدہ ہے۔ قرآن مجید کی سات آیات میں اللہ کا عرش پر مستوی ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ آسمان بھی سات ہی ہیں لہذا ان ساتوں کے اوپر عرش عظیم اور اس پر اللہ کا استواءاسی لیے سات آیات میں مذکور ہوا۔
  • پہلی آیت سورۃ اعراف میں ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الاعراف: 54 ) تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ ایام میں آسمان اور زمین کو پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔
  • دوسری آیت سورۃ یونس کی ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سَتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یُدَ بِّرُالاَمرَ ( یونس:3 ) بے شک تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمان کو بنایا اور پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔
  • تیسری آیت سورۃ رعد میں ہے اَللّٰہُ الَّذِی رَفَعَ السَّمٰوٰت بِغَیرِ عَمَدٍ تَرَونَھَاثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الرعد: 2 ) اللہ وہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے اونچے آسمان بنائے جن کو تم دیکھ رہے ہو پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔
  • چوتھی آیت سورۃ طہ میں ہے تَنزِیلاً مِّمَّن خَلَقَ الاَرضَ وَالسَّمٰوٰتِ العُلٰی اَلرَّحمٰنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی ( طہ:19,20 ) یعنی اس قرآن کا نازل کرنا اس کا کام ہے جس نے زمین آسمان کو پیدا کیا پھر وہ رحمن عرش کے اوپر مستوی ہوا۔
  • پانچویں آیت سورہ فرقان میں ہے اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الفرقان: 59 ) وہ اللہ جس نے زمین آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔
  • چھٹی آیت سورۃ سجدہ میں ہے۔ اَللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( السجدہ:4 ) اللہ وہ ہے جس نے زمین آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں بنایا وہ پھر عرش پر قائم ہوا۔
  • ساتویں آیت سورہ حدید میں ہے۔ ھُوَالَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یَعلَمُ مَا یَلِجُ فِی الاَرضِ وَمَا یَخرُجُ مِنھَا وَمَا یَنزِلُ مِنَ السَّمَائِ وَمَا یَعرُجُ فِیھَا وَھُوَ مَعَکُم اَینَ مَا کُنتُم وَاللّٰہُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیر ( الحدید:4 ) یعنی اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمانوں کو بنا یا وہ پھر عرش پر قائم ہوا ان سب چیزوں کو جانتاہے جو زمین میں داخل ہوتی ہیں اور جو کچھ اس سے باہر نکلتی ہیں اور جو چیزیں آسمان سے اترتی ہیں اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتی ہیں وہ سب سے واقف ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو اور اللہ پاک تمہارے سارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
بلاتاویل وبلا تکییف اللہ پاک رب العالمین کا عرش معلی سے آسمان دنیا پر اترنا برحق ہے۔ جس طرح اس کا عرش عظیم پر مستوی ہونا برحق ہے۔ اہل الحدیث کا ازاول تا آخر یہی عقیدہ ہے۔ قرآن مجید کی سات آیات میں اللہ کا عرش پر مستوی ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ آسمان بھی سات ہی ہیں لہذا ان ساتوں کے اوپر عرش عظیم اور اس پر اللہ کا استواءاسی لیے سات آیات میں مذکور ہوا۔
  • پہلی آیت سورۃ اعراف میں ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الاعراف: 54 ) تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ ایام میں آسمان اور زمین کو پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔
  • دوسری آیت سورۃ یونس کی ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سَتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یُدَ بِّرُالاَمرَ ( یونس:3 ) بے شک تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمان کو بنایا اور پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔
  • تیسری آیت سورۃ رعد میں ہے اَللّٰہُ الَّذِی رَفَعَ السَّمٰوٰت بِغَیرِ عَمَدٍ تَرَونَھَاثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الرعد: 2 ) اللہ وہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے اونچے آسمان بنائے جن کو تم دیکھ رہے ہو پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔
  • چوتھی آیت سورۃ طہ میں ہے تَنزِیلاً مِّمَّن خَلَقَ الاَرضَ وَالسَّمٰوٰتِ العُلٰی اَلرَّحمٰنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی ( طہ:19,20 ) یعنی اس قرآن کا نازل کرنا اس کا کام ہے جس نے زمین آسمان کو پیدا کیا پھر وہ رحمن عرش کے اوپر مستوی ہوا۔
  • پانچویں آیت سورہ فرقان میں ہے اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الفرقان: 59 ) وہ اللہ جس نے زمین آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔
  • چھٹی آیت سورۃ سجدہ میں ہے۔ اَللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( السجدہ:4 ) اللہ وہ ہے جس نے زمین آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں بنایا وہ پھر عرش پر قائم ہوا۔
  • ساتویں آیت سورہ حدید میں ہے۔ ھُوَالَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یَعلَمُ مَا یَلِجُ فِی الاَرضِ وَمَا یَخرُجُ مِنھَا وَمَا یَنزِلُ مِنَ السَّمَائِ وَمَا یَعرُجُ فِیھَا وَھُوَ مَعَکُم اَینَ مَا کُنتُم وَاللّٰہُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیر ( الحدید:4 ) یعنی اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمانوں کو بنا یا وہ پھر عرش پر قائم ہوا ان سب چیزوں کو جانتاہے جو زمین میں داخل ہوتی ہیں اور جو کچھ اس سے باہر نکلتی ہیں اور جو چیزیں آسمان سے اترتی ہیں اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتی ہیں وہ سب سے واقف ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو اور اللہ پاک تمہارے سارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔
آپ استواء سے کیا مراد لیتے ہیں؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
آپ استواء سے کیا مراد لیتے ہیں؟
امام بخاری نے امام ابو العالیہ﷫ اور مجاہد﷫ سے اس کا معنیٰ ارتفع اور علا بیان فرمایا ہے، بمعنیٰ: بلند ہونا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی شان کو لائق ہے۔
الاستواء معلوم والكيف مجهول والسؤال عنه بدعة والإيمان به واجب
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
صحیح بخاری میں امام ابو العالیہ﷫ اور مجاہد﷫ نے اس کا معنیٰ ارتفع اور علا بیان کیا ہے، بمعنیٰ: بلند ہونا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی شان کو لائق ہے۔
الاستواء معلوم والكيف مجهول والسؤال عنه بدعة والإيمان به واجب
اور دیگر مقام پر جو ذکر ہے مثلا شا رگ سے قریب ہونا ،زماں ومکاں سے پاک ہونا،اور بندے کے قریب و دور ہونا وغیرہ اس پر آپ کا کیا موقف ہے ،اگر ہو سکے تو اس مسلئے پر کسی کتاب کا لنک دے دے
 
Top