• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟ عرش پر،آسمان پر یا۔۔۔۔؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نیٹ کی دنیا کے مناظر بس کاپی پیسٹ سے مناظرہ کرتے ہیں ۔
ایک میٹر لمبی پوسٹ کسی مقلد کے ہاں سے اٹھا کر یہاں پھینک دی ،،
بھئی میں نےامام اشعری کی کتاب پیش کی تھی اس کا جواب براہ راست چاہیئے ،ہم دوسروں کا مواد پڑھنا گوارہ نہیں کرتے ۔
اگر خود جواب نہیں آتا ،تو کسی عالم کو بلاو
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
آسمان پر لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ اللہ صرف آسمان پر ہی ہے۔اور جگہ نہیں ہے
آپ نے شاہد الیاس گھمن صاب کی ویڈو نہیں دیکھی اس میں انہوں نے اس مسلہ پر مکمل بات کی ہے

سرچ اور ریسرچ -

آپ کی ریسرچ کیا کہتی اس ویڈیو کے بارے میں


لنک


 

اقراء

مبتدی
شمولیت
جنوری 13، 2015
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
نیٹ کی دنیا کے مناظر بس کاپی پیسٹ سے مناظرہ کرتے ہیں ۔
ایک میٹر لمبی پوسٹ کسی مقلد کے ہاں سے اٹھا کر یہاں پھینک دی ،،
بھئی میں نےامام اشعری کی کتاب پیش کی تھی اس کا جواب براہ راست چاہیئے ،ہم دوسروں کا مواد پڑھنا گوارہ نہیں کرتے ۔
اگر خود جواب نہیں آتا ،تو کسی عالم کو بلاو
(ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء)
13 = وقال إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري (324 هـ) ما نصه : " كان الله ولا مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان، وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بلا مكان ومن غير احتياج إلى العرش والكرسي. نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقلا عن القاضي أبي المعالي الجويني.[تبيين كذب المفتري (ص/ 150).]
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میری دی ہو ویڈو کا جواب دیا نہیں ۔آگے مزید دلیلیں دی دی اس کا مطلب ہے ۔کہ تمھاری معراج والی دلیل غلط ثابت ہوگی ہے
ان آیات کا ترجمہ کر دے

ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ ٱلرَّحْمَٰنُ فَسْـَٔلْ بِهِۦ خَبِيرًۭا



ٱلرَّحْمَٰنُ عَلَى ٱلْعَرْشِ ٱسْتَوَىٰ



إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٰتٍۭ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ



إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
 

اقراء

مبتدی
شمولیت
جنوری 13، 2015
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
اس آیت کا ترجمہ کر دے

ٱ
لَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ ٱلرَّحْمَٰنُ فَسْـَٔلْ بِهِۦ خَبِيرًۭا
آپ میرے سادہ سے سوال کا جواب دیں عرش بڑا ہے ۔ یا اللہ
رئیس المناظرین ، متکلم اسلام ، وکیل احناف ، ترجمان اہلسنت حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا کہ میں مکہ سے مدینہ جا رہا تھا ۔ راستہ میں غیرمقلدین شرارتیں کر رہے تھے ، بس میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ روضہ پاک کی زیارت کی نیت نہ کرنا مسجد نبوی کی نیت کرنا ۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا : یہ آپ کو گمراہ کررہے ہیں آپ روضہ پاک کی ہی نیت کریں مسجد میں تو جانا ہی جانا ہے ۔ وہ حضرات مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله کی طرف دیکھنے لگے ۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا کہ لوگ مکہ سے مدینہ کیوں جاتے ہیں ایک لاکھ کا ثواب چھوڑ کر پچاس ہزار کا ثواب لینے کے لئے؟ یہ کوئی عقل مندی تو نہیں کہ اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ کو حاصل کیا جائے وہ بھی اتنا لمبا سفر کرکے اور اتنے پیسے لگا کر ، یہ اتنا نقصان کیوں کرتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ وہاں کوئی ایسی چیز ضرور ہے جو بیت الله میں بھی نہیں ہے ، جس کی شان بیت الله سے بھی بڑھ کر ہے ۔ ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ وہ خاک پاک جو جسد اطہر سے مس کر رہی ہے وہ درجہ میں عرش اعظم اور بیت الله دونوں سے بڑھ کر ہے ۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا :کوئی یہ نہ سمجھے کہ خدا سے مصطفی کے مکان کو بلند کردیا ہے اس لئے کہ خدا لامکان ہے ، اگر خدا کا مکان ہوتا تو ہم اسے مصطفیٰ کے مکان سے اعلیٰ سمجھتے ، لیکن چونکہ خدا لامکان ہے اس لئے جتنے مکان والے ہیں ان میں سب سے زیادہ شان مصطفی کے مکان کی ہے ۔ ایک غیرمقلد جلدی سے بولا "الرحمٰن علی العرش استویٰ" الله کا بھی مکان ہے عرش اعظم - حضرت محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے جواب ميں فرمایا : آپ کو مکان ، مکین کا معنی بھی آتا ہے؟ مکان ہمیشہ مکین سے بڑا ہوتا ہے اسی لئے تو آدمی اس کے اندر بیٹھتا ہے ۔ کیا عرش خدا تعالیٰ سے بڑا ہے اور وہ خدا کو گھیرے ہوئے ہے؟ غیرمقلد نے کہا : بے شک عرش بڑا ہے ۔ حضرت نے جواب میں فرمایا : پھر تو نماز کے شروع میں ’’الله اکبر‘‘ کیوں کہتا ہے ’’العرش اکبر‘‘ کیوں نہیں کہتا؟ جب تو الله اکبر سے نماز شروع کرتا ہے پھر تو بڑا بے ایمان ہے کہ تجھے الله سے بھی بڑی چیز مل گئی ہے پھر بھی تو الله اکبر ہی کہتا ہے ۔ وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا.
 

اقراء

مبتدی
شمولیت
جنوری 13، 2015
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
غیر مقلدین اور نام نہاد سلفیوں کے نزدیک ”عرش“ باری تعالیٰ کا مکان اور فوق باری تعالیٰ کی جہت ہے ، دلیل مانگنے پر فوراً مسلم شریف کی حدیث پیش کر دیتے ہیں ، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک باندی سے پوچھا ”أین الله؟“ (الله کہاں ہے؟) جواب میں باندی نے کہا فی السماء (آسمان میں ہے)۔ ( قلت یا رسول الله أفلا أعتقہا قال: ائتنی بھا، فأتیتہ بھا، فقال لہا: این الله؟ قالت: فی السماء․( صحیح مسلم باب تحریم السلام فی الصلاة، رقم الحدیث:1227)

غیر مقلدین اس حدیث سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ”أین“ سے الله کی ذات کے متعلق سوال فرمانا مکان الہی کے ثبوت پر واضح دلیل ہے ، پھر باندی کے جواب فی السماء پر خاموش رہنا بلکہ اسے مومنہ قرار دے کر آزاد کر ادینا اس بات کی دلیل ہے کہ باندی کا جواب درست تھا کہ الله تعالیٰ فی السماء یعنی جہت فوق میں ہے ۔ مذکورہ حدیث کی چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ غیر مقلدین نے جس حدیث کو بنیاد بنا کر اپنے عقیدے کی عمارت کھڑی کی ہے اس کو محدثین نے معلول اور شاذ قرار دیا ہے۔

1... چناں چہ امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبہیقی، ص:422)
2... حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”وفی اللفظ مخالفة کثیرة“ کہ متن حدیث کے لفظ میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ( التلخیص الحبیر:443/3)
3... امام بزار رحمہ الله نے بھی اس حدیث کے اضطراب پر نشان دہی کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ ( کشف الأستار:14/1)
4... علامہ زاہد الکوثری رحمہ الله تعالیٰ نے بھی اس حدیث پر اضطراب کا حکم لگایا ہے ۔ ( ھامش الأسما والصفات:344)
5... نیز حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کتنے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، لیکن کسی سے بھی ”أین“ کا سوال منقول نہیں ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس سوال کا ایمان کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ فقط باندی کا امتحان لینا مقصود تھا کہ مشرک ہے یا موحدہ؟( شرح السیوطی علی مسلم:217/2، رقم الحدیث:537)

خلاصہ یہ کہ ایک معلول اور شاذ روایت سے عقیدے کا استنباط نہیں کیا جاسکتا اور ایسی شاذ روایت کو بنیاد بنا کرا شاعرہ کو گم راہ او ربدعتی کہنا تو سراسر جہالت ہے یا تعصب۔ بالفرض اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا تو پھر ”أین“ کا سوال ذات باری تعالی کے مکان کے لیے نہیں، بلکہ منزلت اور مرتبہ کے لیے ہو گا، یعنی ہمارے الله کامرتبہ کیا ہے ؟ یا یہ کہ الله تعالیٰ کے احکام وأوامر کا مکان کون سا ہے؟ (کذا فی شر ح النووی علی مسلم،298/2، رقم الحدیث:836)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
آپ میرے سادہ سے سوال کا جواب دیں عرش بڑا ہے ۔ یا اللہ
رئیس المناظرین ، متکلم اسلام ، وکیل احناف ، ترجمان اہلسنت حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا کہ میں مکہ سے مدینہ جا رہا تھا ۔ راستہ میں غیرمقلدین شرارتیں کر رہے تھے ، بس میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ روضہ پاک کی زیارت کی نیت نہ کرنا مسجد نبوی کی نیت کرنا ۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا : یہ آپ کو گمراہ کررہے ہیں آپ روضہ پاک کی ہی نیت کریں مسجد میں تو جانا ہی جانا ہے ۔ وہ حضرات مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله کی طرف دیکھنے لگے ۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا کہ لوگ مکہ سے مدینہ کیوں جاتے ہیں ایک لاکھ کا ثواب چھوڑ کر پچاس ہزار کا ثواب لینے کے لئے؟ یہ کوئی عقل مندی تو نہیں کہ اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ کو حاصل کیا جائے وہ بھی اتنا لمبا سفر کرکے اور اتنے پیسے لگا کر ، یہ اتنا نقصان کیوں کرتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ وہاں کوئی ایسی چیز ضرور ہے جو بیت الله میں بھی نہیں ہے ، جس کی شان بیت الله سے بھی بڑھ کر ہے ۔ ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ وہ خاک پاک جو جسد اطہر سے مس کر رہی ہے وہ درجہ میں عرش اعظم اور بیت الله دونوں سے بڑھ کر ہے ۔ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے فرمایا :کوئی یہ نہ سمجھے کہ خدا سے مصطفی کے مکان کو بلند کردیا ہے اس لئے کہ خدا لامکان ہے ، اگر خدا کا مکان ہوتا تو ہم اسے مصطفیٰ کے مکان سے اعلیٰ سمجھتے ، لیکن چونکہ خدا لامکان ہے اس لئے جتنے مکان والے ہیں ان میں سب سے زیادہ شان مصطفی کے مکان کی ہے ۔ ایک غیرمقلد جلدی سے بولا "الرحمٰن علی العرش استویٰ" الله کا بھی مکان ہے عرش اعظم - حضرت محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب رحمه الله نے جواب ميں فرمایا : آپ کو مکان ، مکین کا معنی بھی آتا ہے؟ مکان ہمیشہ مکین سے بڑا ہوتا ہے اسی لئے تو آدمی اس کے اندر بیٹھتا ہے ۔ کیا عرش خدا تعالیٰ سے بڑا ہے اور وہ خدا کو گھیرے ہوئے ہے؟ غیرمقلد نے کہا : بے شک عرش بڑا ہے ۔ حضرت نے جواب میں فرمایا : پھر تو نماز کے شروع میں ’’الله اکبر‘‘ کیوں کہتا ہے ’’العرش اکبر‘‘ کیوں نہیں کہتا؟ جب تو الله اکبر سے نماز شروع کرتا ہے پھر تو بڑا بے ایمان ہے کہ تجھے الله سے بھی بڑی چیز مل گئی ہے پھر بھی تو الله اکبر ہی کہتا ہے ۔ وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا.
میں نے آپ سے ان آیات کا ترجمہ پوچھا ہے - بس آپ ان کا ترجمہ بتا دے
 

اقراء

مبتدی
شمولیت
جنوری 13، 2015
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
عمبرین صاحبہ میں نے آپ سے ایک دلیل مانگی تھی کہ آپ اللہ کا وجودماننے سے انکاری ھو لھذا اپنے اس عقیدہ پر ایک دلیل تو دے دو صرف ایک دلیل
خدا تعالی جسم نہیں

نمبر {۰۱} جسم تو اس لئے نہیں کہ جسم بہت سے اجزاء سے مرکب ہوتا ہے اورجو مرکب ہوتا ہے اس کی تحلیل اور تفریق اور تقسیم بھی ممکن ہوتی ہے - اورترکیب و تحلیل اور تفریق و تقسیم الله تعالی کی بارگاہ سے بہت دور ہے.


نمبر {۰۲} نیز ترکیب و تحلیل اور تفریق و تقسیم حدوث کے لوازم میں سے ہے جو قدم اور ازلیت کے منافی ہے.



نمبر {۰۳} نیز جسم طویل اور عریض اور عمیق ہوتا ہوتا ہے اور الله تعالی طول و عرض اور عمق سے پاک اور منزہ ہے.


نمبر {۰۴} نیز جو چیز اجزاء سے مل کر بنتی ہے اول تو وہ اپنی ترکیب میں اجزاء کی محتاج ہوتی ہے اور احتیاج اور خدائی کا جمع ہونا عقلا محال ہے - اور پھر مرکب اپنی بقاء میں اجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور الله احتیاج سے منزہ ہے.


نمبر {۰۵} نیز اجزاء کا وجود ، مرکب اور مجموعہ کے وجود سے مقدم ہوتا ہےاور مجموعہ مرکب موخر ہوتا ہے- پس اگر [معاذالله] خدا تعالی کو جسم مرکب مانا جائے تو خدا تعالی کا اپنی اجزاء ترکیبیہ سے مؤخر ہونا لازم آئے گا
جو اس کی ازلیت اور اولیت اور قدم کے منافی ہے.


نمبر {۰۶} نیز اگر صانع عالم کا جسم ہونا ممکن ہو تو شمن و قمر کا خدا ہونا بھی ممکن ہوگا اور جیسے نصاری حضرت مسیح کے جسم کو خدا اور معبود مانتے ہیں اور بندہ اپنے اوتاروں کو خدا کہتے ہیں تو پھر یہ بھی جائز اور ممکن ہونا اور کرامیہ کہتے ہیں کہ حق تعالی جسم ہے مگر دیگر اجسام کی طرح نہیں اور اہل سنت کے نزدیک حق تعالی پر جسم کا اطلاق درست نہیں.


نمبر {04} خدا کے لئے باپ اور بیٹا ہونا محال اور ناممکن ہے


جب یہ ثابت ہوگیا کہ خدا تعالی کا جسم ہونا ناممکن اور محال ہے تو ثابت ہوگیا کہ خدا نہ کسی کا باپ ہوسکتا ہے اور نہ بیٹا ہوسکتا ہے کیونکہ توالد اور تناسل خاصہ جسمانیت کا ہے اور الله تعالی جسمانیت سے پاک اور منزہ ہے نیز توالد اور تناسل محتاجگی کی دلیل ہے - جیسے اولاد اپنے پیدا ہونے میں ماں باپ کی محتاج ہے - ایسے ہی ماں باپ اپنی خدمت گزاری میں اور نسل کے باقی رہنے میں اولاد کے محتاج ہیں اور الله تعالی احتیاج سے منزہ ہے نیز اولاد ماں باپ کی ہم جنس ہوا کرتی ہے سو اگر کوئی خدا کا بیٹا ہوگا تو خدا کی وحدانیت ختم ہوجائے گی جو ابھی دلائل سے ثابت ہوچکی ہے.


نمبر {05} خدا تعالی عرض نہیں


نمبر {۰۱} اور خدا تعالی کا عرض ہونا اس لئے محال ہے کہ عرض وہ شئے ہے کہجو قائم بالغیر ہو اور اپنے وجود میں دوسرے کی محتاج ہو اور دوسرے کے سہارے سے موجود ہو اور یہ بات خدا تعالی کے لئے ناممکن ہے اس لئے الله تعالی تو قیوم ہے تمام کائنات کے وجود کو قائم رکھنے والا اور ان کی ہستی کو تھامنے والا ہے تمام عالم اسی کے سہارے سے قائم ہے اس لئے اس کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں - سہارے کی ضرورت تو محتاج کو ہوتی ہے - اور وہ صمد ہے یعنی وہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اسی کے محتاج ہیں.


نمبر {۰۲} نیز حق تعالی غنی مطلق ہے کسی امر میں کسی چیز کا محتاج نہیں اور عرض اپنے وجود میں محل کا محتاج ہوتا ہے.


نمبر {۰۳} نیز عرض کا وجود پائیدار نہیں ہوتا اور الله تعالی تو واجب البقاء اور دائم الوجود اور مستحیل العدم ہے ہے جیسا کہ کلام پاک میں ہے [کل من علیها فان ، ویبقی وجه ربك ذوالجلال والاکرام] - {سورۃ الرحمن : آیت نمبر 26 تا 27 پارہ 27]‏‎


نمبر {۰۴} نیز اعراض ہر وقت بدلتے رہتے ہیں اور حق تعالی کی ذات و صفات میں تغیر و تبدل کو کہیں راہ نہیں.


نمبر {06} الله تعالی جوہر نہیں

نمبر {۰۱} اور الله تعالی جوہر اس لئے نہیں ہوسکتا کہ جوہر کے معنی اصل شئے کے ہیں یعنی جو کسی چیز کی اصل ہو اور جواہر فردہ ان اجزاء لطیفہ کو کہتے ہیں جن سے جسم مرکب ہو اور وہ اجزاء جسم کی اصل ہوں اور ظاہر ہے کہ یہ بات الله تعالی کے لئے محال ہے کہ وہ کسی جسم وغیرہ کا جوہر اور اصل اور جز بنے.


نمبر {۰۲} نیز جواہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس پر حرکت اور سکون وارد اورطاری ہوسکے اورلون اور طعم یعنی رنگت اور مزہ کے ساتھ موصوف ہو اور یہسب چیزیں حادث ہیں اور جواہر کے لوازم ہیں اور ظاہر ہے کہ جو چیز حوادث سے خالی نہ ہوسکتی ہو وہ بھی ضرور حادث ہوگی تو جب یہ حوادث جوہر کے لئے لازم ہوں گے تو لامحالہ جوہر بھی حادث ہوگا پس معلوم ہوا کہ الله تعالی جوہر نہیں ہوسکتا اس لئے کہ وہ حوادث اور تغیرات سے پاک اور منزہ ہے.


نمبر {07} خدا تعالی کے لئے کوئی صورت اور شکل نہیں


نمبر {۰۱} نیز الله تعالی کے لئے کوئی صورت اور شکل نہیں - اس لئے کہ صورت اور شکل تو جسم کی ہوتی ہے اور الله تعالی تو صورتوں اور شکلوں کا خالق ہے -"ھو الله خالق الباری المصور".


نمبر {۰۲} نیز صورتیں اور شکلیں حادث میں بدلتی رہتی ہیں.


نمبر {۰۳} نیز جس چیز کے لئے صورت اور شکل ہوتی ہے وہ محدود اور متناہیہوتی ہے ، اور الله تعالی میں کوئی تغیر و تبدل نہیں اور خدا کے لئے کوئی حد اور نہایت نہیں.


صفات متشابہات اور فرقہ مجسمہ کا موقف
فرقہ مجسمہ کے نزدیک الله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسمانیت سے متصف ہے۔

مجسمہ کی عقلی دلیل
فرقہ مجسمہ کی عقلی دلیل تو یہ ہے کہ جب بھی دو موجود فرض کیے جائیں تو وہ د وحال سے خالی نہیں ہوسکتے یا تو دونوں باہم متصل او رملے ہوئے ہوں گے، اس اتصال اور ملاپ کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دونوں کے حدود واطراف آ پس میں ملتے ہوں یا یہ کہ دونوں آپس میں تداخل اور حلول کیے ہوئے ہوں۔

یا دونوں ایک دوسرے سے منفصل اور جدا ہوں گے اور جہت میں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں ہوں گے، اب ہمارے سامنے دو موجود ہیں، ایک عالم ،دوسرا ذات باری تعالیٰ ،ان دونوں میں مذکورہ بالا دو احتمال ہیں، پہلا احتمال اس لیے باطل ہے کہ الله تعالیٰ نہ عالم میں حلول کیے ہوئے ہیں، نہ عالم الله تعالیٰ میں حلول کیے ہوئے ہے، کیوں کہ حال او رمحل ہمیشہ ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور الله تعالیٰ کی ذات کسی چیز کا احتیاج نہیں رکھتی لہٰذا دوسری صورت ہی متعین ہے کہ الله تعالیٰ عالم سے منفصلاور جدا ہے او راس کی جہتِ مخالف میں ہے اور جو چیز جہت میں ہوتی ہے وہ متحیز ہوتی ہے او
رمتحیز جسم ہوتا ہے، لہٰذا الله تعالیٰ جسم ہے۔

مجسمہ کی عقلی دلیل کا جواب
ذات بار ی تعالیٰ جسم کے عیب سے پاک ہے، کیوں کہ جسم ایسی چیزوں کے مجموعے کا نام ہے جو حدوث اور فنا کا تقاضا کرتی ہیں مثلاً ہیئت، مقدار، اجتماع وافتراق۔

باقی آپ نے جو دلیل اور حکم بیان کیا ہے وہ ان دو موجودات کے متعلق ہے جو حسی ہوں ، الله تبارک وتعالی کا وجود غیر محسوس ہے ، اس پر محسوس والا حکم لگانا وہمی ہونے کی دلیل ہے، عقل ودانش کی دنیا میں اس کی کوئی اہمیت نہیں، اہل علم اسے قیاس الغائب علی الشاھد سے تعبیر کرتے ہیں۔(شرح العقائد النسفیة للتفتازانی، ص:46,45)

مجسمہ کی نقلی دلیل او راس کا جواب
مجسمہ نقلی دلائل میں قرآن وحدیث کی وہ نصوص پیش کرتے ہیں جن کے ظاہری الفاظ باری تعالیٰ کے لیے جسمیت او رجہت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں ۔ مثلاً: ﴿وَجَاء رَبُّکَ﴾․ (الفجر:22) ( اور آیا تیرا رب)۔ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی﴾․(طہ:5)(وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا)۔ ﴿یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․(الفتح:10)( الله کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھ کے)۔

جواب… واضح رہے کہ جب باری تعالیٰ کے جسم او رجہت وغیرہ سے پاک ہونے پر دلائل عقلیہ قائم ہوں تو پھر قاعدہ یہ ہے اگر کسی نص کے ظاہری الفاظ کسی ایسی چیز پر دلالت کریں جو خلاف عقل ہے تو اس نص کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے ، بلکہ ایسی نصوص متشابہات کہلاتی ہیں اورمتشابہات کے متعلق اہل سنت والجماعت کا موقف گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top