• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟ عرش پر،آسمان پر یا۔۔۔۔؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
غیر مقلدین اور نام نہاد سلفیوں کے نزدیک ”عرش“ باری تعالیٰ کا مکان اور فوق باری تعالیٰ کی جہت ہے ، دلیل مانگنے پر فوراً مسلم شریف کی حدیث پیش کر دیتے ہیں ، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک باندی سے پوچھا ”أین الله؟“ (الله کہاں ہے؟) جواب میں باندی نے کہا فی السماء (آسمان میں ہے)۔ ( قلت یا رسول الله أفلا أعتقہا قال: ائتنی بھا، فأتیتہ بھا، فقال لہا: این الله؟ قالت: فی السماء․( صحیح مسلم باب تحریم السلام فی الصلاة، رقم الحدیث:1227)

غیر مقلدین اس حدیث سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ”أین“ سے الله کی ذات کے متعلق سوال فرمانا مکان الہی کے ثبوت پر واضح دلیل ہے ، پھر باندی کے جواب فی السماء پر خاموش رہنا بلکہ اسے مومنہ قرار دے کر آزاد کر ادینا اس بات کی دلیل ہے کہ باندی کا جواب درست تھا کہ الله تعالیٰ فی السماء یعنی جہت فوق میں ہے ۔ مذکورہ حدیث کی چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ غیر مقلدین نے جس حدیث کو بنیاد بنا کر اپنے عقیدے کی عمارت کھڑی کی ہے اس کو محدثین نے معلول اور شاذ قرار دیا ہے۔

1... چناں چہ امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبہیقی، ص:422)
2... حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”وفی اللفظ مخالفة کثیرة“ کہ متن حدیث کے لفظ میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ( التلخیص الحبیر:443/3)
3... امام بزار رحمہ الله نے بھی اس حدیث کے اضطراب پر نشان دہی کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ ( کشف الأستار:14/1)
4... علامہ زاہد الکوثری رحمہ الله تعالیٰ نے بھی اس حدیث پر اضطراب کا حکم لگایا ہے ۔ ( ھامش الأسما والصفات:344)
5... نیز حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کتنے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، لیکن کسی سے بھی ”أین“ کا سوال منقول نہیں ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس سوال کا ایمان کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ فقط باندی کا امتحان لینا مقصود تھا کہ مشرک ہے یا موحدہ؟( شرح السیوطی علی مسلم:217/2، رقم الحدیث:537)

خلاصہ یہ کہ ایک معلول اور شاذ روایت سے عقیدے کا استنباط نہیں کیا جاسکتا اور ایسی شاذ روایت کو بنیاد بنا کرا شاعرہ کو گم راہ او ربدعتی کہنا تو سراسر جہالت ہے یا تعصب۔ بالفرض اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا تو پھر ”أین“ کا سوال ذات باری تعالی کے مکان کے لیے نہیں، بلکہ منزلت اور مرتبہ کے لیے ہو گا، یعنی ہمارے الله کامرتبہ کیا ہے ؟ یا یہ کہ الله تعالیٰ کے احکام وأوامر کا مکان کون سا ہے؟ (کذا فی شر ح النووی علی مسلم،298/2، رقم الحدیث:836)

یہ کس نے کہا کہ عرش اللہ کی ذات کو محیط ہے؟؟؟

میرے ناقص علم کی حد کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں!

البتہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہیں:
  1. إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِيُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ‌ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَ‌اتٍ بِأَمْرِ‌هِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ‌ ۗ تَبَارَ‌كَ اللَّـهُ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ ٥٤ ۔۔۔ سورة الأعراف
  2. إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَ‌بُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُ‌ونَ ٣ ۔۔۔ سورة يونس
  3. اللَّـهُ الَّذِي رَ‌فَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ وَسَخَّرَ‌ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ ۖ كُلٌّ يَجْرِ‌ي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَ‌بِّكُمْ تُوقِنُونَ ٢ ۔۔۔ سورة الرعد
  4. الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ ٥ ۔۔۔ سورة طه
  5. الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۚ الرَّ‌حْمَـٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرً‌ا ٥٩ ۔۔۔ سورة الفرقان
  6. اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُ‌ونَ ٤ ۔۔۔ سورة السجدة
  7. هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْ‌ضِ وَمَا يَخْرُ‌جُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُ‌جُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ٤ ۔۔۔ سورة الحديد

عرش کے اوپر کیسے اور کہاں ہیں؟

اس کی کیفیت کا اللہ تعالیٰ کو ہی علم ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور بحث ومباحثہ کرنابدعت ہے:
الاستواء معلوم والكيف مجهول والسؤال عنه بدعة والإيمان به واجب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
خدا تعالی جسم نہیں

نمبر {۰۱} جسم تو اس لئے نہیں کہ جسم بہت سے اجزاء سے مرکب ہوتا ہے اورجو مرکب ہوتا ہے اس کی تحلیل اور تفریق اور تقسیم بھی ممکن ہوتی ہے - اورترکیب و تحلیل اور تفریق و تقسیم الله تعالی کی بارگاہ سے بہت دور ہے.


نمبر {۰۲} نیز ترکیب و تحلیل اور تفریق و تقسیم حدوث کے لوازم میں سے ہے جو قدم اور ازلیت کے منافی ہے.


نمبر {۰۳} نیز جسم طویل اور عریض اور عمیق ہوتا ہوتا ہے اور الله تعالی طول و عرض اور عمق سے پاک اور منزہ ہے.


نمبر {۰۴} نیز جو چیز اجزاء سے مل کر بنتی ہے اول تو وہ اپنی ترکیب میں اجزاء کی محتاج ہوتی ہے اور احتیاج اور خدائی کا جمع ہونا عقلا محال ہے - اور پھر مرکب اپنی بقاء میں اجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور الله احتیاج سے منزہ ہے.


نمبر {۰۵} نیز اجزاء کا وجود ، مرکب اور مجموعہ کے وجود سے مقدم ہوتا ہےاور مجموعہ مرکب موخر ہوتا ہے- پس اگر [معاذالله] خدا تعالی کو جسم مرکب مانا جائے تو خدا تعالی کا اپنی اجزاء ترکیبیہ سے مؤخر ہونا لازم آئے گا
جو اس کی ازلیت اور اولیت اور قدم کے منافی ہے.


نمبر {۰۶} نیز اگر صانع عالم کا جسم ہونا ممکن ہو تو شمن و قمر کا خدا ہونا بھی ممکن ہوگا اور جیسے نصاری حضرت مسیح کے جسم کو خدا اور معبود مانتے ہیں اور بندہ اپنے اوتاروں کو خدا کہتے ہیں تو پھر یہ بھی جائز اور ممکن ہونا اور کرامیہ کہتے ہیں کہ حق تعالی جسم ہے مگر دیگر اجسام کی طرح نہیں اور اہل سنت کے نزدیک حق تعالی پر جسم کا اطلاق درست نہیں.


نمبر {04} خدا کے لئے باپ اور بیٹا ہونا محال اور ناممکن ہے

جب یہ ثابت ہوگیا کہ خدا تعالی کا جسم ہونا ناممکن اور محال ہے تو ثابت ہوگیا کہ خدا نہ کسی کا باپ ہوسکتا ہے اور نہ بیٹا ہوسکتا ہے کیونکہ توالد اور تناسل خاصہ جسمانیت کا ہے اور الله تعالی جسمانیت سے پاک اور منزہ ہے نیز توالد اور تناسل محتاجگی کی دلیل ہے - جیسے اولاد اپنے پیدا ہونے میں ماں باپ کی محتاج ہے - ایسے ہی ماں باپ اپنی خدمت گزاری میں اور نسل کے باقی رہنے میں اولاد کے محتاج ہیں اور الله تعالی احتیاج سے منزہ ہے نیز اولاد ماں باپ کی ہم جنس ہوا کرتی ہے سو اگر کوئی خدا کا بیٹا ہوگا تو خدا کی وحدانیت ختم ہوجائے گی جو ابھی دلائل سے ثابت ہوچکی ہے.



نمبر {05} خدا تعالی عرض نہیں

نمبر {۰۱} اور خدا تعالی کا عرض ہونا اس لئے محال ہے کہ عرض وہ شئے ہے کہجو قائم بالغیر ہو اور اپنے وجود میں دوسرے کی محتاج ہو اور دوسرے کے سہارے سے موجود ہو اور یہ بات خدا تعالی کے لئے ناممکن ہے اس لئے الله تعالی تو قیوم ہے تمام کائنات کے وجود کو قائم رکھنے والا اور ان کی ہستی کو تھامنے والا ہے تمام عالم اسی کے سہارے سے قائم ہے اس لئے اس کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں - سہارے کی ضرورت تو محتاج کو ہوتی ہے - اور وہ صمد ہے یعنی وہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اسی کے محتاج ہیں.



نمبر {۰۲} نیز حق تعالی غنی مطلق ہے کسی امر میں کسی چیز کا محتاج نہیں اور عرض اپنے وجود میں محل کا محتاج ہوتا ہے.


نمبر {۰۳} نیز عرض کا وجود پائیدار نہیں ہوتا اور الله تعالی تو واجب البقاء اور دائم الوجود اور مستحیل العدم ہے ہے جیسا کہ کلام پاک میں ہے [کل من علیها فان ، ویبقی وجه ربك ذوالجلال والاکرام] - {سورۃ الرحمن : آیت نمبر 26 تا 27 پارہ 27]‏‎


نمبر {۰۴} نیز اعراض ہر وقت بدلتے رہتے ہیں اور حق تعالی کی ذات و صفات میں تغیر و تبدل کو کہیں راہ نہیں.


نمبر {06} الله تعالی جوہر نہیں

نمبر {۰۱} اور الله تعالی جوہر اس لئے نہیں ہوسکتا کہ جوہر کے معنی اصل شئے کے ہیں یعنی جو کسی چیز کی اصل ہو اور جواہر فردہ ان اجزاء لطیفہ کو کہتے ہیں جن سے جسم مرکب ہو اور وہ اجزاء جسم کی اصل ہوں اور ظاہر ہے کہ یہ بات الله تعالی کے لئے محال ہے کہ وہ کسی جسم وغیرہ کا جوہر اور اصل اور جز بنے.


نمبر {۰۲} نیز جواہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس پر حرکت اور سکون وارد اورطاری ہوسکے اورلون اور طعم یعنی رنگت اور مزہ کے ساتھ موصوف ہو اور یہسب چیزیں حادث ہیں اور جواہر کے لوازم ہیں اور ظاہر ہے کہ جو چیز حوادث سے خالی نہ ہوسکتی ہو وہ بھی ضرور حادث ہوگی تو جب یہ حوادث جوہر کے لئے لازم ہوں گے تو لامحالہ جوہر بھی حادث ہوگا پس معلوم ہوا کہ الله تعالی جوہر نہیں ہوسکتا اس لئے کہ وہ حوادث اور تغیرات سے پاک اور منزہ ہے.


نمبر {07} خدا تعالی کے لئے کوئی صورت اور شکل نہیں

نمبر {۰۱} نیز الله تعالی کے لئے کوئی صورت اور شکل نہیں - اس لئے کہ صورت اور شکل تو جسم کی ہوتی ہے اور الله تعالی تو صورتوں اور شکلوں کا خالق ہے -"ھو الله خالق الباری المصور".



نمبر {۰۲} نیز صورتیں اور شکلیں حادث میں بدلتی رہتی ہیں.


نمبر {۰۳} نیز جس چیز کے لئے صورت اور شکل ہوتی ہے وہ محدود اور متناہیہوتی ہے ، اور الله تعالی میں کوئی تغیر و تبدل نہیں اور خدا کے لئے کوئی حد اور نہایت نہیں.

صفات متشابہات اور فرقہ مجسمہ کا موقف
فرقہ مجسمہ کے نزدیک الله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسمانیت سے متصف ہے۔

مجسمہ کی عقلی دلیل
فرقہ مجسمہ کی عقلی دلیل تو یہ ہے کہ جب بھی دو موجود فرض کیے جائیں تو وہ د وحال سے خالی نہیں ہوسکتے یا تو دونوں باہم متصل او رملے ہوئے ہوں گے، اس اتصال اور ملاپ کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دونوں کے حدود واطراف آ پس میں ملتے ہوں یا یہ کہ دونوں آپس میں تداخل اور حلول کیے ہوئے ہوں۔

یا دونوں ایک دوسرے سے منفصل اور جدا ہوں گے اور جہت میں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں ہوں گے، اب ہمارے سامنے دو موجود ہیں، ایک عالم ،دوسرا ذات باری تعالیٰ ،ان دونوں میں مذکورہ بالا دو احتمال ہیں، پہلا احتمال اس لیے باطل ہے کہ الله تعالیٰ نہ عالم میں حلول کیے ہوئے ہیں، نہ عالم الله تعالیٰ میں حلول کیے ہوئے ہے، کیوں کہ حال او رمحل ہمیشہ ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور الله تعالیٰ کی ذات کسی چیز کا احتیاج نہیں رکھتی لہٰذا دوسری صورت ہی متعین ہے کہ الله تعالیٰ عالم سے منفصلاور جدا ہے او راس کی جہتِ مخالف میں ہے اور جو چیز جہت میں ہوتی ہے وہ متحیز ہوتی ہے او
رمتحیز جسم ہوتا ہے، لہٰذا الله تعالیٰ جسم ہے۔

مجسمہ کی عقلی دلیل کا جواب
ذات بار ی تعالیٰ جسم کے عیب سے پاک ہے، کیوں کہ جسم ایسی چیزوں کے مجموعے کا نام ہے جو حدوث اور فنا کا تقاضا کرتی ہیں مثلاً ہیئت، مقدار، اجتماع وافتراق۔

باقی آپ نے جو دلیل اور حکم بیان کیا ہے وہ ان دو موجودات کے متعلق ہے جو حسی ہوں ، الله تبارک وتعالی کا وجود غیر محسوس ہے ، اس پر محسوس والا حکم لگانا وہمی ہونے کی دلیل ہے، عقل ودانش کی دنیا میں اس کی کوئی اہمیت نہیں، اہل علم اسے قیاس الغائب علی الشاھد سے تعبیر کرتے ہیں۔(شرح العقائد النسفیة للتفتازانی، ص:46,45)

مجسمہ کی نقلی دلیل او راس کا جواب
مجسمہ نقلی دلائل میں قرآن وحدیث کی وہ نصوص پیش کرتے ہیں جن کے ظاہری الفاظ باری تعالیٰ کے لیے جسمیت او رجہت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں ۔ مثلاً: ﴿وَجَاء رَبُّکَ﴾․ (الفجر:22) ( اور آیا تیرا رب)۔ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی﴾․(طہ:5)(وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا)۔ ﴿یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․(الفتح:10)( الله کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھ کے)۔

جواب… واضح رہے کہ جب باری تعالیٰ کے جسم او رجہت وغیرہ سے پاک ہونے پر دلائل عقلیہ قائم ہوں تو پھر قاعدہ یہ ہے اگر کسی نص کے ظاہری الفاظ کسی ایسی چیز پر دلالت کریں جو خلاف عقل ہے تو اس نص کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے ، بلکہ ایسی نصوص متشابہات کہلاتی ہیں اورمتشابہات کے متعلق اہل سنت والجماعت کا موقف گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
یعنی آپ نے مان لیا کہ آپ منکر حدیث ہے آپ اس حدیث کا کیا کری گی


جنتی حقیقی طور پر اللہ کا دیدار کریں گے

صحیح بخاری
مواقیت الصلوات
باب: نماز عصر کی فضیلت کے بیان میں
حدیث نمبر : 554
حدثنا الحميدي، قال حدثنا مروان بن معاوية، قال حدثنا إسماعيل، عن قيس، عن جرير، قال كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فنظر إلى القمر ليلة ـ يعني البدر ـ فقال " إنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته، فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ". ثم قرأ { وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب}. قال إسماعيل افعلوا لا تفوتنكم.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے ، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے۔ انھوں نے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند پر ایک نظر ڈالی پھر فرمایا کہ تم اپنے رب کو (آخرت میں) اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو اب دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں تم کو کوئی زحمت بھی نہیں ہو گی، پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز (فجر) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز (عصر) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ '' پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔ '' اسماعیل (راوی حدیث) نے کہا کہ (عصر اور فجر کی نمازیں) تم سے چھوٹنے نہ پائیں۔ ان کا ہمیشہ خاص طور پر دھیان رکھو۔
 

اقراء

مبتدی
شمولیت
جنوری 13، 2015
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
صفات متشابہات اور فرقہ مجسمہ کا موقف
فرقہ مجسمہ کے نزدیک الله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسمانیت سے متصف ہے۔

مجسمہ کی عقلی دلیل
فرقہ مجسمہ کی عقلی دلیل تو یہ ہے کہ جب بھی دو موجود فرض کیے جائیں تو وہ د وحال سے خالی نہیں ہوسکتے یا تو دونوں باہم متصل او رملے ہوئے ہوں گے، اس اتصال اور ملاپ کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دونوں کے حدود واطراف آ پس میں ملتے ہوں یا یہ کہ دونوں آپس میں تداخل اور حلول کیے ہوئے ہوں۔

یا دونوں ایک دوسرے سے منفصل اور جدا ہوں گے اور جہت میں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں ہوں گے، اب ہمارے سامنے دو موجود ہیں، ایک عالم ،دوسرا ذات باری تعالیٰ ،ان دونوں میں مذکورہ بالا دو احتمال ہیں، پہلا احتمال اس لیے باطل ہے کہ الله تعالیٰ نہ عالم میں حلول کیے ہوئے ہیں، نہ عالم الله تعالیٰ میں حلول کیے ہوئے ہے، کیوں کہ حال او رمحل ہمیشہ ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور الله تعالیٰ کی ذات کسی چیز کا احتیاج نہیں رکھتی لہٰذا دوسری صورت ہی متعین ہے کہ الله تعالیٰ عالم سے منفصلاور جدا ہے او راس کی جہتِ مخالف میں ہے اور جو چیز جہت میں ہوتی ہے وہ متحیز ہوتی ہے او
رمتحیز جسم ہوتا ہے، لہٰذا الله تعالیٰ جسم ہے۔

مجسمہ کی عقلی دلیل کا جواب
ذات بار ی تعالیٰ جسم کے عیب سے پاک ہے، کیوں کہ جسم ایسی چیزوں کے مجموعے کا نام ہے جو حدوث اور فنا کا تقاضا کرتی ہیں مثلاً ہیئت، مقدار، اجتماع وافتراق۔

باقی آپ نے جو دلیل اور حکم بیان کیا ہے وہ ان دو موجودات کے متعلق ہے جو حسی ہوں ، الله تبارک وتعالی کا وجود غیر محسوس ہے ، اس پر محسوس والا حکم لگانا وہمی ہونے کی دلیل ہے، عقل ودانش کی دنیا میں اس کی کوئی اہمیت نہیں، اہل علم اسے قیاس الغائب علی الشاھد سے تعبیر کرتے ہیں۔(شرح العقائد النسفیة للتفتازانی، ص:46,45)

مجسمہ کی نقلی دلیل او راس کا جواب
مجسمہ نقلی دلائل میں قرآن وحدیث کی وہ نصوص پیش کرتے ہیں جن کے ظاہری الفاظ باری تعالیٰ کے لیے جسمیت او رجہت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں ۔ مثلاً: ﴿وَجَاء رَبُّکَ﴾․ (الفجر:22) ( اور آیا تیرا رب)۔ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی﴾․(طہ:5)(وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا)۔ ﴿یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․(الفتح:10)( الله کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھ کے)۔

جواب… واضح رہے کہ جب باری تعالیٰ کے جسم او رجہت وغیرہ سے پاک ہونے پر دلائل عقلیہ قائم ہوں تو پھر قاعدہ یہ ہے اگر کسی نص کے ظاہری الفاظ کسی ایسی چیز پر دلالت کریں جو خلاف عقل ہے تو اس نص کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے ، بلکہ ایسی نصوص متشابہات کہلاتی ہیں اورمتشابہات کے متعلق اہل سنت والجماعت کا موقف گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
سرچ اور ریسرچ -

آپ کی ریسرچ کیا کہتی اس ویڈیو کے بارے میں


لنک


یہ کس نے کہا کہ عرش اللہ کی ذات کو محیط ہے؟؟؟

میرے ناقص علم کی حد کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں!

البتہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہیں:
  1. إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِيُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ‌ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَ‌اتٍ بِأَمْرِ‌هِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ‌ ۗ تَبَارَ‌كَ اللَّـهُ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ ٥٤ ۔۔۔ سورة الأعراف
  2. إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَ‌بُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُ‌ونَ ٣ ۔۔۔ سورة يونس
  3. اللَّـهُ الَّذِي رَ‌فَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ وَسَخَّرَ‌ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ ۖ كُلٌّ يَجْرِ‌ي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَ‌بِّكُمْ تُوقِنُونَ ٢ ۔۔۔ سورة الرعد
  4. الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ ٥ ۔۔۔ سورة طه
  5. الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۚ الرَّ‌حْمَـٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرً‌ا ٥٩ ۔۔۔ سورة الفرقان
  6. اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُ‌ونَ ٤ ۔۔۔ سورة السجدة
  7. هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْ‌ضِ وَمَا يَخْرُ‌جُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُ‌جُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ٤ ۔۔۔ سورة الحديد

عرش کے اوپر کیسے اور کہاں ہیں؟

اس کی کیفیت کا اللہ تعالیٰ کو ہی علم ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور بحث ومباحثہ کرنابدعت ہے:
الاستواء معلوم والكيف مجهول والسؤال عنه بدعة والإيمان به واجب
آپ کے علماء شاز روایت پیش کر رہیں۔ جب آپ مانتے ہیں کہ اللہ بڑا ہے۔تو اس کو عرش پر ثابت کر نے سے اللہ کر نا گستاخی ہے
 

اقراء

مبتدی
شمولیت
جنوری 13، 2015
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
صفات متشابہات اور فرقہ مجسمہ کا موقف
فرقہ مجسمہ کے نزدیک الله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسمانیت سے متصف ہے۔

مجسمہ کی عقلی دلیل
فرقہ مجسمہ کی عقلی دلیل تو یہ ہے کہ جب بھی دو موجود فرض کیے جائیں تو وہ د وحال سے خالی نہیں ہوسکتے یا تو دونوں باہم متصل او رملے ہوئے ہوں گے، اس اتصال اور ملاپ کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دونوں کے حدود واطراف آ پس میں ملتے ہوں یا یہ کہ دونوں آپس میں تداخل اور حلول کیے ہوئے ہوں۔

یا دونوں ایک دوسرے سے منفصل اور جدا ہوں گے اور جہت میں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں ہوں گے، اب ہمارے سامنے دو موجود ہیں، ایک عالم ،دوسرا ذات باری تعالیٰ ،ان دونوں میں مذکورہ بالا دو احتمال ہیں، پہلا احتمال اس لیے باطل ہے کہ الله تعالیٰ نہ عالم میں حلول کیے ہوئے ہیں، نہ عالم الله تعالیٰ میں حلول کیے ہوئے ہے، کیوں کہ حال او رمحل ہمیشہ ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور الله تعالیٰ کی ذات کسی چیز کا احتیاج نہیں رکھتی لہٰذا دوسری صورت ہی متعین ہے کہ الله تعالیٰ عالم سے منفصلاور جدا ہے او راس کی جہتِ مخالف میں ہے اور جو چیز جہت میں ہوتی ہے وہ متحیز ہوتی ہے او
رمتحیز جسم ہوتا ہے، لہٰذا الله تعالیٰ جسم ہے۔

مجسمہ کی عقلی دلیل کا جواب
ذات بار ی تعالیٰ جسم کے عیب سے پاک ہے، کیوں کہ جسم ایسی چیزوں کے مجموعے کا نام ہے جو حدوث اور فنا کا تقاضا کرتی ہیں مثلاً ہیئت، مقدار، اجتماع وافتراق۔

باقی آپ نے جو دلیل اور حکم بیان کیا ہے وہ ان دو موجودات کے متعلق ہے جو حسی ہوں ، الله تبارک وتعالی کا وجود غیر محسوس ہے ، اس پر محسوس والا حکم لگانا وہمی ہونے کی دلیل ہے، عقل ودانش کی دنیا میں اس کی کوئی اہمیت نہیں، اہل علم اسے قیاس الغائب علی الشاھد سے تعبیر کرتے ہیں۔(شرح العقائد النسفیة للتفتازانی، ص:46,45)

مجسمہ کی نقلی دلیل او راس کا جواب
مجسمہ نقلی دلائل میں قرآن وحدیث کی وہ نصوص پیش کرتے ہیں جن کے ظاہری الفاظ باری تعالیٰ کے لیے جسمیت او رجہت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں ۔ مثلاً: ﴿وَجَاء رَبُّکَ﴾․ (الفجر:22) ( اور آیا تیرا رب)۔ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی﴾․(طہ:5)(وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا)۔ ﴿یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․(الفتح:10)( الله کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھ کے)۔

جواب… واضح رہے کہ جب باری تعالیٰ کے جسم او رجہت وغیرہ سے پاک ہونے پر دلائل عقلیہ قائم ہوں تو پھر قاعدہ یہ ہے اگر کسی نص کے ظاہری الفاظ کسی ایسی چیز پر دلالت کریں جو خلاف عقل ہے تو اس نص کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے ، بلکہ ایسی نصوص متشابہات کہلاتی ہیں اورمتشابہات کے متعلق اہل سنت والجماعت کا موقف گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
سرچ اور ریسرچ -

آپ کی ریسرچ کیا کہتی اس ویڈیو کے بارے میں


لنک


یہ کس نے کہا کہ عرش اللہ کی ذات کو محیط ہے؟؟؟

میرے ناقص علم کی حد کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں!

البتہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہیں:
  1. إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِيُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ‌ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَ‌اتٍ بِأَمْرِ‌هِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ‌ ۗ تَبَارَ‌كَ اللَّـهُ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ ٥٤ ۔۔۔ سورة الأعراف
  2. إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَ‌بُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُ‌ونَ ٣ ۔۔۔ سورة يونس
  3. اللَّـهُ الَّذِي رَ‌فَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ وَسَخَّرَ‌ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ ۖ كُلٌّ يَجْرِ‌ي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَ‌بِّكُمْ تُوقِنُونَ ٢ ۔۔۔ سورة الرعد
  4. الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ ٥ ۔۔۔ سورة طه
  5. الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۚ الرَّ‌حْمَـٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرً‌ا ٥٩ ۔۔۔ سورة الفرقان
  6. اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُ‌ونَ ٤ ۔۔۔ سورة السجدة
  7. هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْ‌ضِ وَمَا يَخْرُ‌جُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُ‌جُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ٤ ۔۔۔ سورة الحديد

عرش کے اوپر کیسے اور کہاں ہیں؟

اس کی کیفیت کا اللہ تعالیٰ کو ہی علم ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور بحث ومباحثہ کرنابدعت ہے:
الاستواء معلوم والكيف مجهول والسؤال عنه بدعة والإيمان به واجب
آپ کے علماء شاز روایت پیش کر رہیں۔ جب آپ مانتے ہیں کہ اللہ بڑا ہے۔تو اس کو عرش پر ثابت کر نے سے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
خدا تعالی جسم نہیں

نمبر {۰۱} جسم تو اس لئے نہیں کہ جسم بہت سے اجزاء سے مرکب ہوتا ہے اورجو مرکب ہوتا ہے اس کی تحلیل اور تفریق اور تقسیم بھی ممکن ہوتی ہے - اورترکیب و تحلیل اور تفریق و تقسیم الله تعالی کی بارگاہ سے بہت دور ہے.


نمبر {۰۲} نیز ترکیب و تحلیل اور تفریق و تقسیم حدوث کے لوازم میں سے ہے جو قدم اور ازلیت کے منافی ہے.


نمبر {۰۳} نیز جسم طویل اور عریض اور عمیق ہوتا ہوتا ہے اور الله تعالی طول و عرض اور عمق سے پاک اور منزہ ہے.



نمبر {۰۴} نیز جو چیز اجزاء سے مل کر بنتی ہے اول تو وہ اپنی ترکیب میں اجزاء کی محتاج ہوتی ہے اور احتیاج اور خدائی کا جمع ہونا عقلا محال ہے - اور پھر مرکب اپنی بقاء میں اجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور الله احتیاج سے منزہ ہے.


نمبر {۰۵} نیز اجزاء کا وجود ، مرکب اور مجموعہ کے وجود سے مقدم ہوتا ہےاور مجموعہ مرکب موخر ہوتا ہے- پس اگر [معاذالله] خدا تعالی کو جسم مرکب مانا جائے تو خدا تعالی کا اپنی اجزاء ترکیبیہ سے مؤخر ہونا لازم آئے گا
جو اس کی ازلیت اور اولیت اور قدم کے منافی ہے.


نمبر {۰۶} نیز اگر صانع عالم کا جسم ہونا ممکن ہو تو شمن و قمر کا خدا ہونا بھی ممکن ہوگا اور جیسے نصاری حضرت مسیح کے جسم کو خدا اور معبود مانتے ہیں اور بندہ اپنے اوتاروں کو خدا کہتے ہیں تو پھر یہ بھی جائز اور ممکن ہونا اور کرامیہ کہتے ہیں کہ حق تعالی جسم ہے مگر دیگر اجسام کی طرح نہیں اور اہل سنت کے نزدیک حق تعالی پر جسم کا اطلاق درست نہیں.


نمبر {04} خدا کے لئے باپ اور بیٹا ہونا محال اور ناممکن ہے

جب یہ ثابت ہوگیا کہ خدا تعالی کا جسم ہونا ناممکن اور محال ہے تو ثابت ہوگیا کہ خدا نہ کسی کا باپ ہوسکتا ہے اور نہ بیٹا ہوسکتا ہے کیونکہ توالد اور تناسل خاصہ جسمانیت کا ہے اور الله تعالی جسمانیت سے پاک اور منزہ ہے نیز توالد اور تناسل محتاجگی کی دلیل ہے - جیسے اولاد اپنے پیدا ہونے میں ماں باپ کی محتاج ہے - ایسے ہی ماں باپ اپنی خدمت گزاری میں اور نسل کے باقی رہنے میں اولاد کے محتاج ہیں اور الله تعالی احتیاج سے منزہ ہے نیز اولاد ماں باپ کی ہم جنس ہوا کرتی ہے سو اگر کوئی خدا کا بیٹا ہوگا تو خدا کی وحدانیت ختم ہوجائے گی جو ابھی دلائل سے ثابت ہوچکی ہے.



نمبر {05} خدا تعالی عرض نہیں

نمبر {۰۱} اور خدا تعالی کا عرض ہونا اس لئے محال ہے کہ عرض وہ شئے ہے کہجو قائم بالغیر ہو اور اپنے وجود میں دوسرے کی محتاج ہو اور دوسرے کے سہارے سے موجود ہو اور یہ بات خدا تعالی کے لئے ناممکن ہے اس لئے الله تعالی تو قیوم ہے تمام کائنات کے وجود کو قائم رکھنے والا اور ان کی ہستی کو تھامنے والا ہے تمام عالم اسی کے سہارے سے قائم ہے اس لئے اس کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں - سہارے کی ضرورت تو محتاج کو ہوتی ہے - اور وہ صمد ہے یعنی وہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اسی کے محتاج ہیں.



نمبر {۰۲} نیز حق تعالی غنی مطلق ہے کسی امر میں کسی چیز کا محتاج نہیں اور عرض اپنے وجود میں محل کا محتاج ہوتا ہے.


نمبر {۰۳} نیز عرض کا وجود پائیدار نہیں ہوتا اور الله تعالی تو واجب البقاء اور دائم الوجود اور مستحیل العدم ہے ہے جیسا کہ کلام پاک میں ہے [کل من علیها فان ، ویبقی وجه ربك ذوالجلال والاکرام] - {سورۃ الرحمن : آیت نمبر 26 تا 27 پارہ 27]‏‎


نمبر {۰۴} نیز اعراض ہر وقت بدلتے رہتے ہیں اور حق تعالی کی ذات و صفات میں تغیر و تبدل کو کہیں راہ نہیں.


نمبر {06} الله تعالی جوہر نہیں

نمبر {۰۱} اور الله تعالی جوہر اس لئے نہیں ہوسکتا کہ جوہر کے معنی اصل شئے کے ہیں یعنی جو کسی چیز کی اصل ہو اور جواہر فردہ ان اجزاء لطیفہ کو کہتے ہیں جن سے جسم مرکب ہو اور وہ اجزاء جسم کی اصل ہوں اور ظاہر ہے کہ یہ بات الله تعالی کے لئے محال ہے کہ وہ کسی جسم وغیرہ کا جوہر اور اصل اور جز بنے.


نمبر {۰۲} نیز جواہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس پر حرکت اور سکون وارد اورطاری ہوسکے اورلون اور طعم یعنی رنگت اور مزہ کے ساتھ موصوف ہو اور یہسب چیزیں حادث ہیں اور جواہر کے لوازم ہیں اور ظاہر ہے کہ جو چیز حوادث سے خالی نہ ہوسکتی ہو وہ بھی ضرور حادث ہوگی تو جب یہ حوادث جوہر کے لئے لازم ہوں گے تو لامحالہ جوہر بھی حادث ہوگا پس معلوم ہوا کہ الله تعالی جوہر نہیں ہوسکتا اس لئے کہ وہ حوادث اور تغیرات سے پاک اور منزہ ہے.


نمبر {07} خدا تعالی کے لئے کوئی صورت اور شکل نہیں

نمبر {۰۱} نیز الله تعالی کے لئے کوئی صورت اور شکل نہیں - اس لئے کہ صورت اور شکل تو جسم کی ہوتی ہے اور الله تعالی تو صورتوں اور شکلوں کا خالق ہے -"ھو الله خالق الباری المصور".



نمبر {۰۲} نیز صورتیں اور شکلیں حادث میں بدلتی رہتی ہیں.


نمبر {۰۳} نیز جس چیز کے لئے صورت اور شکل ہوتی ہے وہ محدود اور متناہیہوتی ہے ، اور الله تعالی میں کوئی تغیر و تبدل نہیں اور خدا کے لئے کوئی حد اور نہایت نہیں.

صفات متشابہات اور فرقہ مجسمہ کا موقف
فرقہ مجسمہ کے نزدیک الله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسمانیت سے متصف ہے۔

مجسمہ کی عقلی دلیل
فرقہ مجسمہ کی عقلی دلیل تو یہ ہے کہ جب بھی دو موجود فرض کیے جائیں تو وہ د وحال سے خالی نہیں ہوسکتے یا تو دونوں باہم متصل او رملے ہوئے ہوں گے، اس اتصال اور ملاپ کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دونوں کے حدود واطراف آ پس میں ملتے ہوں یا یہ کہ دونوں آپس میں تداخل اور حلول کیے ہوئے ہوں۔

یا دونوں ایک دوسرے سے منفصل اور جدا ہوں گے اور جہت میں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں ہوں گے، اب ہمارے سامنے دو موجود ہیں، ایک عالم ،دوسرا ذات باری تعالیٰ ،ان دونوں میں مذکورہ بالا دو احتمال ہیں، پہلا احتمال اس لیے باطل ہے کہ الله تعالیٰ نہ عالم میں حلول کیے ہوئے ہیں، نہ عالم الله تعالیٰ میں حلول کیے ہوئے ہے، کیوں کہ حال او رمحل ہمیشہ ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور الله تعالیٰ کی ذات کسی چیز کا احتیاج نہیں رکھتی لہٰذا دوسری صورت ہی متعین ہے کہ الله تعالیٰ عالم سے منفصلاور جدا ہے او راس کی جہتِ مخالف میں ہے اور جو چیز جہت میں ہوتی ہے وہ متحیز ہوتی ہے او
رمتحیز جسم ہوتا ہے، لہٰذا الله تعالیٰ جسم ہے۔

مجسمہ کی عقلی دلیل کا جواب
ذات بار ی تعالیٰ جسم کے عیب سے پاک ہے، کیوں کہ جسم ایسی چیزوں کے مجموعے کا نام ہے جو حدوث اور فنا کا تقاضا کرتی ہیں مثلاً ہیئت، مقدار، اجتماع وافتراق۔

باقی آپ نے جو دلیل اور حکم بیان کیا ہے وہ ان دو موجودات کے متعلق ہے جو حسی ہوں ، الله تبارک وتعالی کا وجود غیر محسوس ہے ، اس پر محسوس والا حکم لگانا وہمی ہونے کی دلیل ہے، عقل ودانش کی دنیا میں اس کی کوئی اہمیت نہیں، اہل علم اسے قیاس الغائب علی الشاھد سے تعبیر کرتے ہیں۔(شرح العقائد النسفیة للتفتازانی، ص:46,45)

مجسمہ کی نقلی دلیل او راس کا جواب
مجسمہ نقلی دلائل میں قرآن وحدیث کی وہ نصوص پیش کرتے ہیں جن کے ظاہری الفاظ باری تعالیٰ کے لیے جسمیت او رجہت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں ۔ مثلاً: ﴿وَجَاء رَبُّکَ﴾․ (الفجر:22) ( اور آیا تیرا رب)۔ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی﴾․(طہ:5)(وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا)۔ ﴿یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․(الفتح:10)( الله کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھ کے)۔

جواب… واضح رہے کہ جب باری تعالیٰ کے جسم او رجہت وغیرہ سے پاک ہونے پر دلائل عقلیہ قائم ہوں تو پھر قاعدہ یہ ہے اگر کسی نص کے ظاہری الفاظ کسی ایسی چیز پر دلالت کریں جو خلاف عقل ہے تو اس نص کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے ، بلکہ ایسی نصوص متشابہات کہلاتی ہیں اورمتشابہات کے متعلق اہل سنت والجماعت کا موقف گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔

الله تعالى کا ارشاد "يد الله فوق أيديهم" (اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے ) کی تفسیر

( جلد کا نمبر 3، صفحہ 83)



تفسير فرمانِ الہی: يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ﺍﻥ ﻛﮯﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﺍللہ کا ﮨﺎﺗﮫ ﮨﮯ :

عبد العزیز بن عبداللہ بن باز کی طرف سے برادر محترم جناب...کے نام۔ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته. حمد و صلوٰۃ کے بعد!

آپ کے استفتاء کے حوالے سے جو إدارة البحوث العلمية والإفتاء کے نام برقم 3137 بتاريخ 11 / 7 / 1408 هـ ہے جس کی عبارت حسب ذیل ہے: ہم ابو ہیثم تيهان نامی علاقے کی ایک مسجد میں تفسیر کے ايک حلقۂ درس میں تھے، جو کویت میں ایک صلیبی (عيسائي) علاقہ ہے ، مسجد کے إمام صاحب الله تعالى کے اس ارشاد مبارک کی تفسیر کر رہے تھے، ﺍﻥ ﻛﮯﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﺍللہ کا ﮨﺎﺗﮫ ﮨﮯاس نے کہا : کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ کہ "ان پر الله کا احسان ہے " نیز کہا گیا ہے کہ " الله تعالی کی قوت ان کے ساتھ ہے" اور کہا گیا ہے کہ "الله تعالی ان کے حال اور ان کی نیتوں پر مطلع ہے" تو ہمارے دینی بھائیوں میں سے ایک نوجوان نے تقریر کے اختتام پر بات کی اور کہا، آپ کی یہ تفسیر تو اہل سنت و جماعت کے عقیدے کے موافق نھیں ہے، بلکہ یہ تو اشعری لوگوں کا کلام ہے ، اس پر امام صاحب ناراض ہوگئے، اور بولے یہ تو ماوردی اور ابن کثیر کی کتاب میں موجود ہے، تو اس جوان نے اس کا رد کیا، اور بولا یہ امام ابن کثیر کی کتاب میں نہیں ہے، یہ تو ماوردی اشعري کی کتاب میں ہے، جب عوام نے دیکھا کہ شیخ غصہ میں ہیں، تو لوگ بھی طیش میں آگئے، بلکہ بعض نے اس جوان کو یہاں تک کہہ دیا کہ "تم تو عیسائی ہو یا تم بدھ مت کے آدمی ہو"، اگر روک تھام نہ کی گئی ہوتی، تو کچھ لوگ تو اسے مار پیٹ بھی ديتے، اور الله جانتا ہے کہ اس جوان نے مسلمانوں کے عقیدے پر غیرت کی وجہ سے ہی کلام کیا، اور اس لئے بھی کہ وضاحت کو وقت ضرورت سے موخر کرنا درست نہیں ہے. اس نوجوان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں اگر آپ فیصلہ فرمائیں تو عوام اس پر متفق ہوجائے گی. لہٰذا آپ ارشاد فرمائیں اور ہم آپ کے جواب کے منتظر ہیں۔ الله تعالی آپ کو ہماری طرف سے اور تمام مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر سے نوازے۔
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 84)

میں آپ کو واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہم اللہ تبارک و تعالی کے صفت "ید" اور دیگر ان صفات کو بھی ثابت کرتے ہیں، اور اس کا عقیدہ رکھتے ہیں جن کو اللہ تعالی نے اپنی مبارک کتاب میں ذکر فرمایا ہے، یا اس کے رسول حضرت محمد صلى الله عليه وسلم نے اپنی سنت مطہرہ میں ثابت فرمایا ہے، انہیں اللہ تبارک و تعالی کے لئے حقیقی طور پر ثابت کرنا جو اللہ تبارک و تعالی کی عظمت شان اور اس کی بزرگی کے لائق ہے، نہ اس میں کوئی تحريف ہوگی، نہ انہیں بے معنی رکھا جائے گا، نہ اس کی کیفیت کے بارے میں بات کی جائے گی، اور نہ اس کی مثال دی جائے گی.

اور ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی طرح کوئی چیز نہیں ہے، اور وہ سنتا، دیکھتا ہے، ہم ایسی کسی بات کو اللہ تعالی کی ذات سے نفی نہیں کرتے ہیں، جسے اس نے خود اپنے لئے ثابت فرمایا ہے، اور ہم کلام میں تحریف نہیں کرتے ہیں، نہ کیفیت بيان کرتے ہيں، اور نہ اس کی صفات کو مخلوق کی صفات سے تشبیہ دیتے ہیں؛ کیونکہ اللہ سبحانه و تعالی کا نہ کوئی ہم نام ہے، نہ کوئی اس کے برابر ہے، اور نہ کوئی اس کے مد مقابل ہے، اور اللہ سبحانه وتعالى کو اس کی مخلوق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے. جس طرح اس کی ذات حقیقی ہے اور اس کی مخلوق کی ذاتوں کے مشابہ نہیں ہے، اسی طرح اس کی صفات بھی حقیقی ہیں اور اس کی مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں. واضح رہے کہ خالق سبحانه و تعالی کے لئے صفات کو ثابت کرنے سے مخلوق کی صفات سے مشابہت لازم نہیں آتی ہے، اور یہی صحابہ کرام اور تابعین عظام اور سلف صالحین کا مذھب ہے، اور یہی مذہب تینوں بابرکت زمانوں میں رہا، اسی طرح یہی مذہب ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کا ہے، بلکہ آج تک متاخرین میں سے جو ان کے طریقوں پر چلتے ہیں ان کا بھی مذہب ہے.

شيخ الإسلام ابن تیمیہ - رحمه الله - اس بارے میں رقم طراز ہیں کہ کئی لوگوں نے سلف کا اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ صفات باري جل وعلا ظاہر پر ہی رکھے جائیں گے، لیکن کیفیت اور تشبیہ کی نفی کی جائے گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ صفات کے بارے میں گفتگو دراصل ذات کے بارے میں گفتگو کی فرع ہے، اور جو حکم ذات کا ہے وہی حکم فرع کا بھی ہے، اور جو بات ذات میں کہی جائے گی وہی بات فرع میں بھی کہی جائے گی، لہٰذا جب ذات ثابت کرنے سے کیفیت کا اثبات لازم نہیں آتا ہے، تو اسی طرح صفات کو ثابت کرنے سے بھی کیفیت کا اثبات لازم نہیں آتا ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں الله سبحانه و تعالی کے لئے يد [ہاتھ] ہے، اور وہ صفت سمع سے بھی متصف ہے، لیکن ہم ہرگز یہ نہیں کہتے ہیں کہ ید کا معنی قدرت ہے یا سمع کا معنی علم ہے. اس کے بعد انہوں نے اللہ تعالی کے لئے صفت ید کے اثبات پر اللہ تعالی کے ارشادات سے استدلال فرمایا،

چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

ﺍﻭﺭﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﻛﮩﺎ ﻛﮧ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻧﮩﯽ ﻛﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺍﺱ ﻗﻮﻝ ﻛﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻥ ﭘﺮﻟﻌﻨﺖ ﻛﯽ ﮔﺌﯽ،ﺑﻠﻜﮧ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﻛﮭﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺧﺮﭺﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ اور

اللہ تعالى نے ابليس کو فرمایا :

ﺗﺠﮭﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﻛﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻛﺲ ﭼﯿﺰ ﻧﮯ ﺭﻭکا ﺟﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﯿﺎ ؟نیز الله سبحانه وتعالى کا ارشاد ہے : ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯﺟﯿﺴﯽ ﻗﺪﺭ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﯽ ﻛﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﯽ، ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻣﯿﻦ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻛﮯ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻣﭩﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺍﺱﻛﮯ ﺩﺍﮨﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﯿﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 85)

اور فرماتا ہے :

ﺑﮩﺖ ﺑﺎﺑﺮﻛﺖ ﮨﮯ ﻭﮦ ( ﺍللہ ) ﺟﺲ ﻛﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﯽ ﮨﮯ اسی طرح ارشاد ہے : ﺗﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﮭﻼﺋﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ، ﺑﮯ ﺷﻚ ﺗﻮ ﮨﺮ ﭼﯿﺰﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﮨﮯ ۔

اس کے بعد وہ فرماتے ہیں، اس کلام سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کے لئے دو يد ہیں، جو اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہیں، اور دونوں اس کی ذاتی صفت ہیں، جیسا اس کی عظمت شان کے لائق ہے، اور یہ کہ اللہ سبحانه و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے دونوں ید سے پیدا فرمایا، فرشتوں اور ابلیس کو نہیں، اور یہ کہ اللہ سبحانه و تعالی زمین کو پکڑتا ہے، اور وہ اپنے داہنے ہاتھ سے آسمانوں کو لپیٹے گا اور یہ کہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں، اور دونوں کے کھلے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت ہی سخی ہے اور نوازنے والا ہے؛ کیونکہ جود و سخا عموما ہاتھ کھول کر اور دراز کرکے ہی ہوتا ہے، جبکہ جود وسخا کا ترک کبھی ہاتھ کو گردن کی طرف سميٹ کر ہوتا ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے: ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﻧﮧ ﺭﻛﮫ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺍﺳﮯ ﺑﺎﻟﲁ ﮨﯽ ﻛﮭﻮﻝ ﺩﮮ ﻛﮧ ﭘﮭﺮ ﻣﻼﻣﺖ ﻛﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﺭﻣﺎﻧﺪﮦ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺋﮯ ۔

اور یہ عرف عام کی ایک حقیقت ہوگئی جب یہ کہا جائے کہ "وہ کشادہ دست ہے " تو اس سے حقیقی ہاتھ ہی سمجھا جاتا ہے، وہ - رحمه الله تعالى - مزید فرماتے ہیں کہ لفظ "يدين" تثنیہ کے صیغہ کے ساتھ نعمت یا قدرت کے معنی میں کبھی مستعمل نہیں ہوا، کیونکہ صیغہ واحد کا تثنیہ میں استعمال، یا صیغہ تثنیہ کا واحد کے معنی استعمال کا عربوں کی زبان میں کوئی نام و نشان نہیں ہے، جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا، لہٰذا اللہ تعالی کے ارشاد ﺟﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﯿﺎ ۔ کو قدرت کے معنی پر محمول کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ يہ تو ایک ہی صفت ہے، اور ایک کو دو کہنا جائز نہیں ہے، اور اس سے نعمت بھی مراد لینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ کی نعمتیں تو بے شمار ہیں، اور ان بے شمار نعمتوں کو تثنیہ سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے، اس کے بعد وہ - رحمه الله تعالى - الله تعالی کے لئے صفت ید کے اثبات پر احادیث مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں-

اور حضرت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اس حدیث پاک کا حوالہ دیتے ہیں:

انصاف کرنے والے اللہ تعالى کے پاس اسکے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے، اور اسکے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل اور جن کے امور انہیں سونپے گئے ہیں ان میں عدل کرتے ہیں۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روايت کیا ہے۔

اور آپ صلى الله عليه وسلم كا ارشاد :
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 86)

اللہ کا داہنا بھرا ہوا ہے، رات دن کی عطا کرنے سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا، تمہیں اس عطا کے متعلق کیا لگتا ہے جوآسمان و زمین کی تخلیق سے لیکر (اب تک) خرچ کیا،اس سے اللہ کی دائیں ہاتھ ميں جو کچھ ہے اس ميں کوئی کمی نہیں آئی، اور ترازو اسکے دوسرے ہاتھ میں ہے، قیامت كے دن تک بلند کرتا ہے اور نیچے کرتا ہے (بعض لوگوں کو بلند کرے گا اور بعض کو رسوا کرے گا)۔
اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روايت كيا ہے-

اور حضرت أبو سعيد خدری رضي الله عنه سے مروی ہے وہ حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم سے روايت کرتے ہيں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :

قیامت کے دن زمین ایک روٹی کی طرح ہوجائے گی، اور اللہ رب العزت اسے اپنے ہاتھ سے الٹے پلٹے گا، جیساکہ تم میں سے کوئی شخص اپنے دسترخوان پر روٹی الٹ پلٹ کرتا ہے۔

اور صحيح میں ہی حضرت ابن عمر رضي الله عنهما سے مروی ہے وہ حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم سے نقل کرتے ہیں-

آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :

اللہ عزوجل آسمانوں اور زمینوں کو اپنے دونوں ہاتھوں ميں لے گا، اور اپنے ہاتھوں کو بند کرے گا، اور اسے کھولے گا، اور فرمائے گا کہ میں رحمان ہوں، حتی کہ میں نے منبر کی طرف دیکھا کہ وہ نیچے سے ہل رہا تھا، مجھے لگا کہ کہیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیکر نیچے نہ گرجائے. اور ايک روايت ميں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے منبر پر اس آیت کی تلاوت فرمائی : ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯﺟﯿﺴﯽ ﻗﺪﺭ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﯽ ﻛﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﯽ، ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻣﯿﻦ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻛﮯ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻣﭩﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺩﺍﮨﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﯿﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ، ﻭﮦ ﭘﺎﻙ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺗﺮ ﮨﮯ ﮨﺮ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﺟﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ کا ﺷﺮﯾﻚ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرمائے گا: میں الله ہوں، میں جبار ہوں-

اور صحيح میں ہی حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے مروی ہے کہ حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا اللہ زمین کو پکڑے گا اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ سے لپیٹے گا، پھر فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں۔ زمين کے بادشاہ كہاں ہيں؟

اور ایک صحيح حديث میں ہے :

بے شک اللہ تعالی نے جب آدم کو پيدا فرمایا تو ان سے فرمایا {اور اس کے دونوں ہاتھ بند تھے ان دونوں میں سے کسی ایک کو جسے چاہو اختیار کرو}انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اپنے رب کا داہنا ہاتھ اختیار کیا، اور میرے رب کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں، پھر اللہ نے انہیں کھولا تو اس میں آدم اور انکی ذریت تھی۔

اور صحیح میں ہی ہے بے شک اللہ تعالی نے جب مخلوقات کو پیدا فرمایا تو اپنے ہاتھ سے اپنے آپ پر لکھ دیا کہ بے شک میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی نیز صحیح میں ہے بے شک جب آدم اور موسی کا آپس میں بحث مباحثہ ہوگیا، تو آدم نے کہا كہ اے موسی؛ اللہ نے آپ کو اپنے کلام سے ممتاز فرمایا، اور تورات کو آپ کے لئے اپنے ہاتھ سے لکھا، اور موسی نے کہا كہ آپ آدم ہیں جسے اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، اور آپ میں اپنی روح پھونکا ہے۔ ایک دوسری حدیث شریف میں ہے کہ اللہ سبحانه و تعالی نے ارشاد فرمایا : میری عزت و جلال کی قسم جس مخلوق کی میں نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا ہے، اس کی نیک ذریت کو اس (مخلوق ) کی طرح نہیں بناوں گا جسے میں نے کہا کہ ہوجا تو وہ ہوگیا۔

اور سنن میں ایک دوسری حدیث شریف ہے :
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 87)

جب اللہ تعالی نے آدم کو پیدا فرمایا، اور ان کی پشت پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرا، اور آدم سے ان کی ذریت نکالی، اور ارشاد فرمایا: میں نے ان کو جنت کے لئے بنایا ہے، اور یہ جنت والوں كى طرح ہی عمل کریں گے، پھر اپنا دوسرا ہاتھ ان کی پشت پر پھیرا، اور فرمایا: میں نے ان کو جہنم کے لئے بنایا ہے، اور یہ جہنم والوں كى طرح ہی عمل کریں گے۔ شيخ الإسلام - رحمه الله - فرماتے ہیں : "یہ احاديث مبارکہ اور اس طرح کی دیگر احادیث شریف قطعی نصوص ہیں جن میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے، اور امت نے انہیں قبول کیا اور ان کی تصدیق کی" اس کے بعد آپ - رحمه الله تعالى - فرماتے ہیں : "کیا یہ جائز ہے کہ قرآن و حدیث "ہاتھ" کے ذکر سے پر ہو اور اس کی حقیقت مراد نہ ہو "اللہ تعالی نے انہیں اپنے ہاتھ سے بنایا"، اور "اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں" اور "بادشاہت اس کے ہاتھ میں ہے " اور اس طرح کی عبارتیں احادیث مبارکہ میں بے شمار ہیں، پھر کیا یہ جائز ہے کہ حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم اور اہل حل و عقد لوگوں سے یہ بیان نہ فرمائیں کہ اس کلام کی حقیقت یا ظاہر مراد نہیں ہیں، پھر صحابہ کرام کا زمانہ ختم ہونے کے بعد جهم بن صفوان آئے، اور لوگوں کے لئے اس وحی کو بیان کرے جو ان کے نبی کی طرف نازل کی گئی ہے، اور پھر بشر بن غياث اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اس میں اس کی پیروی کرنے لگیں جو منافقت کے الزام میں پھنسے ہیں، یہ کس طرح جائز ہے ہمارے نبی تو ہمیں سب کچھ سکھائیں، یہاں تک کہ بیت الخلاء جانے کا بھی طریقہ سکھادیں، اور اس کے بعد یہ ارشاد فرمائیں کہ میں نے جنت کے قریب کرنے والی کسی بات کو نہیں چھوڑا، لیکن اسے کھول کھول کر بیان کردیا، اور میں تمہیں بالکل روشن راستے پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی اس کے دن کی طرح روشن ہے، اس سے میرے بعد کوئی منحرف نہیں ہوگا لیکن وہی جو ہلاک ہونے والا ہے، یہ سب ہو اور پھر کتاب منزل کو بیان نہ فرمائیں، اور ان کی سنت مطہرہ تو ایسی عبارتوں سے بھری پڑی ہیں، جن کے بارے میں مخالف یہ خیال رکھتا ہے کہ اس کا ظاہر موجب تشبیہ و تجسیم ہے، اور یہ کہ اس کے ظاہر کا عقیدہ رکھنا سراسر گمراہی ہے، اور پھر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بیان نہ فرمائیں، اور اس کی وضاحت نہ کریں، اور پھر یہ کیسے جائز ہے کہ سلف یہ کہتے نظر آئیں کہ انہیں اسی طرح گذار دو جس طرح يہ وارد ہيں، جبکہ اس کا مجازی معنی ہی مراد ہو، اور یہ عرب کو ہی سمجھ میں نہ آئے، یہاں تک کہ فارس اور روم کے لوگ مہاجرین اور انصار کے فرزندوں سے زیادہ عربی زبان کو سمجھنے لگیں . ختم شد . اختصار کے ساتھ ماخوذ از مجموع الفتاوى جـ 6 ص 351 تک ، 373 اور جو ہم نے ذکر کیا ہے اس سے سب کو سمجھ میں آرہا ہے کہ جو اس جوان نے ذکر کیا تھا وہی درست ہے .

ہم اللہ تعالی سے دعاء کرتے ہیں کہ قول و عمل میں حق کی رسائی کی توفیق دے، بے شک وہی سننے والا اور قبول فرمانے والا ہے .

و السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

 

اقراء

مبتدی
شمولیت
جنوری 13، 2015
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
یعنی آپ نے مان لیا کہ آپ منکر حدیث ہے آپ اس حدیث کا کیا کری گی


جنتی حقیقی طور پر اللہ کا دیدار کریں گے

صحیح بخاری
مواقیت الصلوات
باب: نماز عصر کی فضیلت کے بیان میں
حدیث نمبر : 554
حدثنا الحميدي، قال حدثنا مروان بن معاوية، قال حدثنا إسماعيل، عن قيس، عن جرير، قال كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فنظر إلى القمر ليلة ـ يعني البدر ـ فقال " إنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته، فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ". ثم قرأ { وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب}. قال إسماعيل افعلوا لا تفوتنكم.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے ، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے۔ انھوں نے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند پر ایک نظر ڈالی پھر فرمایا کہ تم اپنے رب کو (آخرت میں) اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو اب دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں تم کو کوئی زحمت بھی نہیں ہو گی، پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز (فجر) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز (عصر) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ '' پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔ '' اسماعیل (راوی حدیث) نے کہا کہ (عصر اور فجر کی نمازیں) تم سے چھوٹنے نہ پائیں۔ ان کا ہمیشہ خاص طور پر دھیان رکھو۔
آپ سے جس موضوع پر بات ہو رہی ہے ۔پہلے اس پر بات کر لیں ۔بعد میں اس پر کرنا
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top