• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
::: پہلے شک کا جواب:::

اپنے جواب کا آغاز کرتے ہوئے میں اُوپر بیان کیے گئے فتویٰ دینے والوں سے یا اِس فتویٰ کو درست ماننے والوں سے چند سوالات کرتا ہوں ،
بتائیے کہ مکان یعنی جگہ کوئی موجود یعنی وجود والی چیز ہے یا معدوم یعنی بلا وجود ؟
اگر آپ کہیں کہ معدوم ہے تو میں کہتا ہوں کہ """ جِس چیز کا وجود ہی نہیں تو پھر وہ اللہ کے لیے یا کِسی اور کے لیے ثابت کہاں سے ہو گئی ؟ """،
اور اگر آپ یہ کہیں کہ مکان یعنی جگہ وجود والی چیز ہے تو میرا سوال ہے کہ """ کیا اِسکا وجود أزلی ہے یا اِسے عدم سے وجود میں لایا گیا ؟ """،
اگر آپکا جواب ہو کہ """ أزلی ہے """، تو آپ نے اِسے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دِیا ، کیونکہ اللہ ہی اکیلا ہے جو ازل سے ہے اور أبد الابد تک رہے گا ،
اور اگر آپ یہ کہیں کہ مکان یعنی جگہ کو عدم سے وجود میں لایا گیا (اور درست بھی یہی ہے )،
تو میرا سوال ہے کہ """ کیا آپ اِسے مخلوق مانتے ؟ """،
اگر آپ کہیں """نہیں"""،
تو آپ نےپھر اِسے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دِیا کیونکہ اللہ ہی اکیلا خالق ہے اور اُس کے اور اُس کی صفات کے عِلاوہ جو کچھ بھی ہے وہ اُس کی مخلوق ہے ،حتیٰ کہ ہر وہ چیز بھی جو اللہ کے مقرر کردہ طریقوں پرذاتی حد تک یا نسل در نسل خود بڑھتی پھلتی پھولتی نظر آتی ہے وہ بھی بلا شک و شبہ اللہ کی مخلوق ہے ، کہیں کوئی ایسی چیز نہ تھی اور نہ ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی مخلوق نہ ہو ،پس پوری ہی کائنات پر خالق اور مخلوق کے علاوہ کوئی تیسری تقسیم وارد نہیں ہو سکتی ،
اور اگر آپ کہیں کہ ""ہاں مکان یعنی جگہ مخلوق ہے ""(اور درست بھی یہی ہے ) ،
تو میرا سوال ہے کہ """آپ اور میں اور جو کچھ ہم دیکھتے ہیں سب کِسی نہ کِسی مکان یعنی جگہ میں ہیں یعنی وجود در وجود ہیں اور سب ہی مخلوق ہیں ، اور کِسی بھی مخلوق کے موجود باوجود ہونے کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ مکان رکھتی ہو ، پس یہ زمین جِس پر ہم ہیں ایک مخلوق ہے اور اپنے وجود میں ایک وجود میں موجود ہے ، اور جِس وجود میں یہ باوجود ہے وہ وجود ایک مکان ہے جو کہ مخلوق ہے ، اب میرا سوال یہ ہے کہ اِس مخلوق مکان کے بعد کوئی اور مخلوق ہے یا نہیں ؟ """،
اگر آپ کہیں کہ نہیں تو یہ ایسی بات ہے جِس کو آپ خود بھی جھوٹ مانیں گے ، اور اگر کہیں کہ """ ہاں آسمان ہے """،(اور درست بھی یہی ہے )،
لہذا میں آپ کے اِس جواب سے اتفاق کرتا ہوں اور یقیناً آپ بھی اِس بات سے اتفاق کریں گے کہ اس آسمان کے بعد دوسرا آسمان ، پھر تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں پھر چھٹا اور پھر سب سے آخر میں ساتواں آسمان ہے ،
تو میں پوچھتا ہوں کہ"""یہ ساتوں آسمان کِسی مکان میں موجود ہیں یا بلا مکان ؟ """
اگر آپ یہ کہیں کہ بلا مکان تو یہ بات سراسر غلط ہوئی کیونکہ اِس طرح آپ اُن کے معدوم ہونے کا اِقرار کر رہے ہیں ، کیونکہ ہر مخلوق کے موجود با وجود ہونے کے لیے مکان کا ہونا ضروری ہے کوئی مخلوق موجود باوجود نہیں ہو سکتی جب تک کہ اُس کے وجود کےلیے مکان نہ ہو ، جیسا کہ میں نے اُوپر بیان کیا ، لہذا آپ کو یہ ماننا ہی پڑے گا کہ""" ہاں ساتوں آسمان موجود ہیں """۔
تو پھر میرا سوال ہے کہ """ یہ ساتوں آسمان جِس مکان میں موجود ہیں اُس کا نام کیا ہے ؟ """،
شاید آپ کہیں""" اُس مکان کا نام ہے ، خلاء"""،
تو یہ ایسی بات ہے جو کہ اُوپر بیان کئی گئی باتوں کے خلاف ہے کیونکہ """ خلاء """کا معنی ہے """خالی،جہاں کچھ نہ ہو"""،
اب تو علوم الفلکیات والے بھی جدید تحقیقات میں یہ کہتے ہیں کہ آسمانوں میں جس جگہ کو """ خلاء ، Space""" کہا جاتا ہے وہ خِلاء نہیں بلکہ وہاں بھی کچھ فاصلے پر ایسے اجسام پائے جاتے ہیں جو اُس جگہ کو ایک مادے کی شکل دیتے ہیں ،
پس """خِلاء یعنی جہاں کچھ بھی نہ ہو""" اُس کا کوئی وجود ہو نہیں سکتا لہذا بلا شک و شبہ ایسی چیز کو معدوم ہی کہا جائے گا موجود نہیں اور جب موجود نہیں تو مکان نہیں اور مکان نہیں تو اُس میں کِسی وجود کا موجود ہونا ممکن نہیں ،
اور اگر آپ یہ کہیں کہ """ یہ ساتوں آسمان جِس مکان میں موجود ہیں اُسے کائنات کہتے ہیں """،
تو پھر میں یہ پوچھتا ہوں کہ""" کیا اِن ساتوں آسمانوں کے اُوپر بھی کوئی چیز ہے یا کائنات ختم ہو گئی ؟ """،
ممکن ہے کہ آپ لوگوں کی خود ساختہ، مَن گھڑت روایت کی بنا پر یہ کہیں کہ """جی ہاں وہاں کروبیین فرشتے ہیں """،
اگر ایسا ہے تو میں وقتی طور پر آپ کی یہ بات مان کر یہ سوال کروں گا کہ """ اِن نام نہاد کروبیین فرشتوں کے بعد کیا ہے ؟ """،
اور اگر آپ کروبیین فرشتوں کی بات نہیں کرتے اور آپ عرش کے منکر نہیں تو پھر آپ کا جواب ہو گا کہ """ آسمانوں کے بعد عرش ہے """( اور درست بھی یہی ہے )،
تو اس صُورت میں میرا سوال یہ ہے کہ """عرش کے بعد کونسی سی مخلوق ہے ؟ """،
یقیناًٍ اِس کا جواب """ کوئی مخلوق نہیں """کے عِلاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا ،
اور یہ ہی حق ہے ، کائنات کی سب سے بلند ترین چیز اور زمین اور آسمانوں پر محیط عرش اللہ کی آخری مخلوق ہے ﴿وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ:::اللہ کی کرسی (عرش ) نے زمین اور آسمانوں کو گھیر رکھا ہے﴾سُورت البقرہ(2)/ آیت 255،
تو اب غور فرمائیے کہ یہاں تک منطقی اور فلسفیانہ بحث میں یہ بات ثابت ہو چکی کہ مکان عدم سے وجود میں لائی گئی مخلوق ہے ، اور یقینی طور پر یہ ثابت ہو گیا کہ عرش کے بعد کوئی مخلوق نہیں ، لہذا اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوا کہ کائنات ختم ہو گئی ،
اور جب کائنات ہی ختم ہو گئی ، اور کائنات کی اِنتہاء کے بعد مخلوق عدم ہوئی پھر وہاں کِسی مخلوق مکان کا وجود کیسا ؟؟؟
مخلوق ہی ختم ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کےلیے مکان کا ثابت ہونا کیسا ؟؟؟
اور جہاں جِس چیز کا وجود ہی ثابت نہیں ہوتا وہاں معاذ اللہ اُس چیز میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے وجود کے ہونے یا نہ ہونے کی بات کرنا کیسا ؟؟؟
لہذا ، اللہ کے لفط و کرم اور اس کی عطاء کردہ توفیق سے یہ ثابت ہوا کہ کسی منطق اور فلسفے کی زور آزمائی بھی اللہ تعالیٰ کےوجود پاک کے کائنات سے بُلند ہونے کی بنا پر اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کےلیے کوئی مکان یعنی جگہ ثابت نہیں کر پاتی ، یہ محض وسوسہ ہے جو مُسلمانوں کو اُن کے رب کی ذات و صِفات کی پہچان سے گمراہی میں ڈالنے کے لیے اُن کے دِلوں میں بیجا جاتا ہے ۔
(ان سوالات و جوابات کا بنیادی خیال اِمام محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کی ایک محفوظ شدہ گفتگو سے لیا گیا )
فأعتبروا یا اُولیٰ الأبصار ::: اے عقل والو عبرت حاصل کرو

ذرا اِدھر بھی توجہ فرمائیے ، کہ ، اُوپر ذِکر کیے گئے فتوے کا غلط ہونا ثابت ہو چکا اگر وقتی طور پر اِس کو مان بھی لیا جائے کہ یہ کہنے سے کہ اللہ اُوپر ہے ، اللہ کے لیے مکان ثابت ہوتا ہے اور یہ کفر ہے ، تو میں کہتا ہوں کہ اِس طرح اللہ کے لیے ایک مکان ثابت ہوتا ہے ، اور جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے وہ اللہ کے لیے کتنے مکان ثابت کرتے ہیں ؟؟؟
اگر ایک مکان یعنی جگہ ثابت کرنا کفر ہے تو پھر یہ فلسفہ زدہ فتویٰ دینے والے جو اللہ کو ہر جگہ موجود کہتے ہیں اُن پر اُن کے اپنے ہی فتوے کے فلسفے کے اندھیرے میں اتنی جگہوں کی تعداد کے برابر کفر کا یہ فتویٰ لگتا ہے جتنی جگہوں میں یہ اللہ تعالیٰ کو موجود مانتے ہیں ، اور یُوں یہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں کفر کے مرتکب ہوتے ہیں کہ جِس کی گنتی ممکن نہیں ،
ذرا یہ بھی سوچیے کہ اگر یہ درست ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے تو کیا نعوذ باللہ ، اللہ تعالیٰ غسل خانوں ، بیت الخلاء ، زنا کے أڈوں ، شراب کے أڈوں ، جوئے کے ٹھکانوں ، سینما گھروں ، گرجا گھروں ، مندروں اور اِن سے بھی پلید اور گندی جگہوں پر جہاں سراسر حرام اور پلید کام ہوتے ہیں وہاں بھی موجود ہے ؟؟؟
﴿ فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ::: پاک ہے اللہ عرش کا رب ، اُن صفات سے جو یہ لوگ اللہ کے لیے بیان کرتے ہیں ﴾سُورت ا لأنبیاء (21)/آیت 22،
﴿سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ::: آسمانوں اور زمین کا رب ، عرش کا رب اللہ پاک ہے اُن صفات سے جو یہ لوگ اللہ کے لیے بیان کرتے ہیں ﴾سُورت الزُخرف(43)/آیت82،
﴿ سُبحَانَہ ُ و تعالیٰ عَمَّا یَصِفُون َ ::: پاک ہے اللہ ، اور بُلند ہے اُن صفات سے جو یہ لوگ اللہ کے لیے بیان کرتے ہیں ﴾سُورت الأنعام (6)/آیت 100 ،
توجہ فرمایے قارئین کرام کہ کِس قدر گندہ عقیدہ ہے یہ کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور اللہ کی شان میں کتنی بڑی گستاخی ہے ، اگر کوئی یہ کہے کہ """اللہ ایسی جگہوں میں نہیں بلکہ صرف پاک جگہوں میں ہے"""،
تو میں یہ کہوں گا کہ""" اللہ کے ہر جگہ موجود ہونے کی تو کوئی دلیل آپ کے پاس ہے نہیں اب اُس میں سے بھی اس تخصیص یعنی کِسی جگہ ہونے اور کِسی جگہ نہ ہونے کی دلیل کہاں سے لائیں گے ؟؟؟
یہ لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کو اُس کی تمام مخلوق سے الگ ، جُدا اور بلند ماننے والوں پر اپنے فلسفوں کی رَو میں جو یہ الزام دیتے ہیں کہ وہ لوگ اللہ کو""" ایک مکان یعنی جگہ""" میں مان کر کفر کرتے ہیں تو کیا خود یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو ان گنت جگہوں میں موجود قرار دے کر اپنے ہی فسلفے زدہ فتوؤں کے اندھیروں میں ملزمین کی نسبت کہیں زیادہ اور بڑے کفر کرنے والے نہیں بن جاتے ہیں ،ولا حول ولا قوۃ الا باللہ،
اللہ نہ کرے ،کہیں آپ بھی ایسے فتوے دینے دِلوانے یا ماننے والوں میں سے تو نہیں؟؟؟
ان سب سوال و جواب کے بعد اگر کوئی اپنے فلسفے اور اپنی منطق کی غلطی ماننے کی بجائے اُس غلطی کو چھپانے کی کوشش میں ، اُس کی تأویل کرنے کی کوشش میں اگر کوئی یہ کہے کہ """ ہمارے یہ کہنے سے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے ، ہماری مُراد اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عِلم ہے"""،
تو میں کہوں گا کہ """ اگر یہ بات ہے تو بتائیے کہ پھر اللہ پاک کی ذات مبارک اُس کا وجود مبارک کہاں ہے ؟؟؟
اور پھر پورے یقین اور اِیمان کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ""" اس سوال کا حق اور سچ جواب صِرف اور صِرف وہی ہے جو اللہ الاعلیٰ نے اپنے کلام قران شریف میں ، اور اُس کی تفسیر میں اور اس کے علاوہ تاکیدی اور اضافی معلومات کے طور پر اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے ادا کروایا ،جِس کی بہت سی مثالیں سابقہ صفحات میں ذِکر کی جا چُکی ہیں """،
و الحمدُ لِلَّہ ِالذی تَتمُ بنَعمتِہِ الصَّالحَات و اللّہُ وليُّ التُّوفیق ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
دوسرے شک کا جواب

دوسرا شک جِس کا عام طور پر لوگ شکار ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ :::
کہ """ اللہ کو عرش سے اوپرماننے سے اللہ کے لیے ایک سمت کا تعین ہو جاتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کو ایک سمت میں مان لیا جائے تو باقی سمتیں اُس سے غائب ہو جاتی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے شان شایان نہیں بلکہ اللہ کے فرمان ﴿أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ:::بے شک اللہ ہر چیز کا أحاطہ کیے ہوئے ہے﴾سُورت فُصلت(41)/آیت 54،کے خلاف ہے """ ۔
میں نے کچھ دیر پہلے اس شک کا ذِکر کرتے ہوئے کہا تھا """ یہ فلسفہ بھی ان کی جہالت کی دلیل ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہر چیز کو احاطہ کرنے کو معاذ اللہ ، چیزوں کو اللہ پاک کے وجود میں ، یا اُس کے وجود پاک کے ساتھ متصل ہونا سمجھتے ہیں ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی صِفات کی اپنی ذاتی سوچوں کی بنا پر تاویل کرتے کرتے اُن کی تعطیل کر تے ہوئے اُن کے انکار کا شکار ہو جاتے ہیں ، و لاحول و لا قوۃ الا اباللہ """،
اِن شاء اللہ اب اپنی اس بات کی مزید وضاحت کرتا ہوں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک کو ہر جگہ ماننے والوں کی اس مذکورہ بالا فسفلیانہ دلیل کے جواب میں بھی مجھے یہ ہی کہنا پڑتا ہے کہ """رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال ، اُمت کے أئمہ اور عُلماء ربانین رحمہم اللہ و حفظہم کی تعلیمات کو چھوڑ کر ، منطق ، فلسفہ خود ساختہ سوچوں ، چند لفاظی باز لوگوں کی کتابیں پڑھ کر یا اُن کی تقریریں سُن کر قُرآن کو سمجھنے،اور دِین کے مسائل اور معاملات میں حلول اور احکام ایجاد کر لینے کی وجہ سے اِسی قِسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں """،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہر ایک کلمہ گو کو اِس اور ہر ایک گمراہی سے محفوظ رہنے کی ہمت دے ،
آئیے اللہ کو اُس کی تمام تر مخلوق سے الگ ، جُدا اور بُلند نہ ماننے والوں کے اس مذکورہ بالا دوسرے شک کے جواب میں اُمت کے اِماموں رحمہم اللہ کے فرامین کا مطالعہ کرتے ہیں ،
شیخ الاسلام حقاًٍ ، اِمام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں """ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے رب کے بارے میں جِس جِس بات (صفت )کی خبر کی ہے اُس پر اِیمان لانا فرض ہے ، خواہ اُس کا مفہوم ہم جانیں یا نہ جان پائیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی صداقت کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے ، لہذا جو کچھ کتاب اور (صحیح ثابت شُدہ )سُنّت (شریفہ )میں آیا ہے اُس پر اِیمان رکھنا ہر صاحب ِ اِیمان کے لیے فرض ہے ،
اور اِسی طرح جو صفت صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور اُمت کے اِماموں کے اِتفاق کے ساتھ ثابت ہے اُس پر اِیمان رکھنا بھی واجب ہے ، کیونکہ اِن کا اِتفاق کتاب اور سُنّت کے دلائل کی بنیاد پر ہی ہے۔
اور (الفاط کے عام معنی کو بنیاد بنا کر ، اُن کے استعمال میں متکلم کی مُراد جانے بغیر )جِس صفت کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بعد آنے والوں نے اِختلاف کیا ، اُن اِلفاظ کےبارے میں کِسی کے لیے پابندی نہیں کہ وہ اُن الفاظ کی مُراد جانے بغیر اُن کے درست یا نادرست ہونے کی بات ضرور ہی کرے، بلکہ اُسکے لیے جائز ہی نہیں کہ وہ اُن اِلفاط کی مُراد جانے بغیر (اُن صفات کے بارے میں )کچھ بات کرے (جِن صفات کے لیے وہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں، پھر بھی اگر کوئی شخص اللہ کی صِفات کے بارے میں خبر رکھنے والے الفاظ کی کوئی مُراد لے کر بات کرتا ہے ، تو )،
اگر جو مُراد وہ بات کرنے والا لیتا ہے حق ہے تو اُس کی موافقت کی جائے گی اور اگر اُس کی مُراد باطل ہے تو اُس کی مخالفت کی جائے گی اور اگر اُس کی بات اِن دونوں( یعنی حق و باطل )مُراد پر مشتمل ہے تو نہ تو اُس کی بات پوری کی پوری قبول کی جائے گی اور نہ ہی پوری کی پوری رد کی جائے گی جیسا کہ لوگ (اللہ کے بارے میں ) لفظ """ الجھۃ یعنی سمت """ اور """ التحیز یعنی ایک جگہ میں ہونے """ کی مُراد میں مخالفت کا شکار ہوئے ،
پس لفظ """ سمت"""سے کبھی تو اللہ کے عِلاوہ کوئی اور موجود چیز مُراد لی جاتی ہے اور جب ایسا ہو تو یقینا وہ چیز مخلوق ہے ، جیسا کہ اگر لفظ """ سمت """ سے مُراد """عرش یا آسمان لیا جائے """ اور کبھی اِس سے مُراد غیر موجود چیز لی جاتی ہے جیسا کہ جو کائنات کے اُوپر ہے ،
یہ چیز معلوم ہے کہ (اللہ تعالیٰ کے لیے قُرآن و سُنّت میں ) لفظ """ الجھۃ یعنی سمت """ کا کوئی استعمال نہیں ملتا ، نہ تو اس کی تائید کرتا ہوا ، اور نہ ہی مخالفت کرتا ہوا ، جیسا کہ"""العُلُو ، یعنی بلندی """ اور """ الأِستِواء یعنی قائم ہونا ، براجمان ہونا """ اور ’’’ الفَوقِیۃ یعنی اُوپر ہونا """ اور """ العروج اِلیہِ یعنی اللہ کی طرف چڑھنا """ وغیرہ کا صاف ذکر ملتا ہے ،
اور یہ بات بھی یقینی طور پر جانی جا چکی ہے کہ سوائے خالق اور مخلوق کے کہیں کچھ اور موجود نہیں ہے اور خالق سُبحانہ ُ و تعالیٰ اپنی مخلوق سے الگ ہے ، نہ اُس کی مخلوقات میں کوئی چیز اُس کی ذات میں سے ہے ، اور نہ ہی اُس کی ذات میں کوئی چیز اُس کی مخلوقات میں سے ہے ،
پس جو کوئی """ سمت"""کی نفی کرتا ہے اُسے کہا جائے گا کہ """ کیا تم سمت سے مُراد کوئی موجود مخلوق لیتے ہو ، اگر ایسا ہے تو اللہ اِس بات سے پاک ہے کہ وہ اپنی مخلوقات میں سے کِسی کے أندر ہو ، اور اگر تم """ سمت """ سے مُراد کائنات کے بعد لیتے ہو تو یہ درست ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کائنات کے اُوپر ہے اور اپنی تمام تر مخلوق سے الگ اور جدا ہے"""،
اِسی طرح جو یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ ایک """ سمت """ میں ہے تو اُسے جواباً یہ بھی کہا جائے گا کہ """ کیا تُم اپنی اس بات سے یہ مُراد لیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کائنات کے اُوپر ہے ؟ یا تم یہ مُراد لیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کِسی کے اندر ہے ؟ اگر تمہارا جواب پہلی بات ہے تو حق ہے اور اگر دوسری بات ہے تو باطل ہے """
(بحوالہ """ التد مریۃ """ صفحہ 65، تا، 67، محمد بن عودہ کی تحقیق کے ساتھ شرکۃ العبیکان کی چھپی ہوئی )
شیخ الِاسلام حقاً ، اِمام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ وضاحت کے بعد یہ شک باقی نہیں رہتا کہ اللہ کو اُوپر کہنے سے اللہ تعالیٰ کے لیے سِمت کا تعین ہوتا ہے لیکن ، اِس کے بعد بھی اگر کِسی کے ذہن میں یہ شک کروٹیں لیتا رہے تو اُس کے لیے اِمام أبو محمد عبداللہ بن عمر الجوینی رحمہُ اللہ کا ایک بہترین اور عقلی دلیل پر مبنی قول نقل کرتا ہوں جو اُنہوں نے اپنی کتاب """الاِستوا و الفوقیۃ""" میں لکھا :::
""""" اہلِ عِلم نے جو کہا ہے اُس میں کوئی شک نہیں کیونکہ اُن کا کہنا دلیل و برہان سے ثابت ہے ، اور وہ یہ کہ ،،، زمین کائنات کے اوپر والے حصے کے اندر ہے ، اور یہ کہ زمین ایک گیند کی طرح ہے اور تربوز کے اندر تربوز کی طرح آسمان کے اندر ہے ، اور آسمان نے زمین کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے ، اور زمین کا مرکز سب سے نچلی جگہ ہے ، پس اُس کے نیچے جو کچھ آتا ہے اُسے نیچے نہیں کہا جا سکتا بلکہ اُوپر کہا جائے گا جیسا کہ اگر زمین کے مرکز سے کوئی چیز سوراخ کرتے ہوئے کِسی بھی رخ سے باہر کو آئے تو اُس کا سفر اُوپر کی سِمت میں ہی ہوگا (((جیسا کہ اگر کوئی میزائل زمین کے اندر کی طرف داغا جائے ، تو جب تک اُس کا سفر زمین کے مرکز کی طرف ہو گا اُس وقت تک یہی کہا جائے گا کہ یہ نیچے کی طرف جا رہا ہے اور جب وہ مرکز کو پار کر کے دوسری طرف کے سفر میں داخل ہو گا تو کوئی بھی عقل سلیم والا یہ نہیں کہے گا کہ وہ میزائل نیچے کی طرف جارہا ہے بلکہ یہ ہی کہا جائے گا کہ وہ میزائل اُوپر کی طرف جا رہا ہے ))) ،
اِس بات کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر کوئی زمین کی سطح پر مشرق سے مغرب (((یا کِسی بھی ایک سِمت میں ، سِمت تبدیل کیے بغیر ناک کی سِیدھ میں مسلسل )))چلتا رہے تو وہ ساری زمین کا چکر لگا کر وہیں پہنچ جائے گا جہاں سے اُس نے سفر کا آغاز کیا تھا ، اور اِس دوران زمین مسلسل اُس کے نیچے رہے گی اور آسمان اُوپر ، پس آسمان کا وہ حصہ جِسے زمین کے نیچے سمجھا جاتاہے وہ حقیقتانیچے نہیں اُوپر ہے ، لہذا ثابت ہوا کہ آسمان کِسی بھی سِمت سے اپنے حقیقی وجود کے ساتھ زمین کے اُوپر ہے (((کیونکہ زمین اِس کے اندر ہے )))یعنی زمین کِسی بھی سِمت سے آسمان کے نیچے ہے """""۔
اور مزید لکھا کہ """"" اگر ایک مخلوق جِسم یعنی آسمان (((کا معاملہ یوں ہے کہ وہ ))) اپنے وجود کے ساتھ زمین کے اُوپر ہے (((اور اُس کا ہر طرف سے أحاطہ کیے ہوئے ہے )))تو اُس (خالق اللہ سُبحانہ ُ تعالیٰ ) کا معاملہ کیا ہے جِس کے جیسی کوئی چیز نہیں ، اُس کے ہر چیز سے بلند اور محیط ہونے کا معاملہ اُس کی شان کے مطابق ہے((( اُس کی صِفات کو مخلوق کی صِفات کے مطابق نہیں سمجھا جا سکتا ، ایسا کرنا سراسر گمراہی اور آخرت کی تباہی کا سبب ہے)))"""""۔
اُوپر بیان کئی گئی اِن وضاحتوں کے بعد کوئی عقل کا اندھا ہی اِس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ آسمان نے ہر طرف سے زمین کا أحاطہ کر رکھا ہے ، اور آسمان ہر سِمت سے اُوپر اور زمین ہر سِمت سے اُس کے نیچے ہے ،
یہ حقائق اِن اِماموں رحمہم اللہ جمعیاً نے اُس وقت لکھے جب اُن کے پاس ہمارے اِس وقت میں موجود وسائل نہیں تھے ،سُبحان اللہ کہ اب اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو جو وسائل اور عُلوم موجودہ وقت میں میسر کر رکھے ہیں وہ اِن تمام باتوں کی تصدیق کرتے ہیں ،
اِس تصدیق کے بعد یہ جاننے میں کوئی مشکل نہیں رہ جاتی کہ جِس طرح زمین کو ایک آسمان نے اپنے أحاطہ میں لے رکھا اِسی طرح باقی آسمانوں نے ایک کے اُوپر ایک نے اپنے سے نیچے والے کو اپنے أحاطہ میں لے رکھا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ:::اللہ کی کرسی (عرش ) نے زمین اور آسمانوں کو گھیر رکھا ہے﴾سُورت البقرہ(2)/ آیت 255،
تو اب اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اِس کرسی یعنی عرش پر ہے اور اپنی تمام مخلوق سے الگ اور جُدا ہے تو کسی سِمت کا تعین کہاں سے ہو گیا!!!!!!!!
اِن کُنت َ لا تدری فتلک المصیبۃ ::: و اِن کُنت َ تدری فالمصیبۃُ أعظم​
اگر تُم نہیں جانتے تو یہ مُصیبت ہے ::: اور اگر تم جانتے ہو تو یہ اُس سے بھی بڑی مصبیت ہے ،
یعنی جان بوجھ کر أنجان بنتے ہو اور حق سے روگردانی کرتے ہو، اور کرواتے ہو ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
::: تیسرے شک کا جواب :::

تیسرا شک جِس کا عام طور پر لوگ شکار ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ :::
""" اِس طرح اللہ کی مخلوق سے مُشابہت ہو جاتی ہے اور یہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ:::اللہ کےجیسی کوئی چیز نہیں﴾سُورت الشُوریٰ(42)/آیت11"""۔
اس شبہے کا ابتدائی ذِکر کرتے ہوئے چند صفحات قبل میں نے لکھا تھا """ اس آیت مبارکہ کو بھی اپنی ذاتی فِکر کے مطابق سجھنے والوں نے اس کے دُوسرے حصےکی طرف کوئی توجہ کیے بغیر اپنی ذاتی سوچوں اور جہالت زدہ قران فہمی کی بنا پر سمجھا اور حقیقت کے بر عکس مفہوم لے کر اس کی ضد کرنے لگے """
اور اب اِن شاء اللہ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ ،
اگر یہ بات کہنے والے اپنی دلیل کے طور پر پیش کیے جانے والے آیت مبارکہ کے اِس حصے کے بعد آیت شریفہ کو آخر تک پورا پڑھ کر اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر کو سمجھ لیتے تو وہ فلسفہ اُن کو شکار نہ کرپاتا جِس کا یہ شِکار ہوئے ،
اللہ سُبحانہُ و تعالی نے فرمایا ہے ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ:::اللہ کےجیسی کوئی چیز نہیں، اور وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے﴾سُورت الشُوریٰ(42)/ آیت11،
محترم قارئین غور فرمایے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خود یہ بتا رہا ہے کہ اُس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے ،یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اُس کی ایسی صِفات کا ذِکر بھی کر رہا ہے جو نام کی مشابہت کے ساتھ اُس کی مخلوق میں بھی ہیں ، اور اس بات کی وضاحت اپنی صِفات کے ذِکر سے پہلے فرما دی ہے کہ اُس کے جیسی کوئی چیز نہیں ہے ، یعنی صِفات میں ناموں کی مُشابہت صِفات کی کیفیت کی مُشابہت کی دلیل ہر گِز نہیں ،
اِس کے عِلاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے رب کے بارے میں جِس جِس صفت کا ذِکر کیا ہے فلسفہ زدہ ذہنوں نے آیت کے صِرف ایک حصے کو اپنی منطق کے مطابق سمجھ کر اُن سب صفات کا اِنکار کر دِیا اور اُلٹی سیدھی باطل تأویلیں کیں ، اِن کو اور اِن کے پیرو کاروں کو اُمت کے اِماموں نے """معطلۃ """ یعنی """ اللہ کی صِفات کو ختم کرنے والی جماعت """ کا نام دِیا ،
اگر اللہ تعالیٰ کی صفات کا اِنکار یا تأویل کرنے والے یہ سوچ لیتے کہ اللہ تعالیٰ اِس آیت میں پہلے یہ بتا رہا کہ اُس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور پھر یہ بتایا کہ وہ سنتا بھی اور دیکھتا بھی ہے ، تو اِس کا معنیٰ یقینا ًیہ ہے کہ اُس کا سننا اور دیکھنا کِسی مخلوق کے جیسا نہیں ، اِسی طرح اُس کا ہنسنا ، ناراض ہونا ، خوش ہونا ، نیچے اُترنا ، اُس کا چہرہ ، اُس کے ہاتھ ، اُس کی پنڈلی ، اُس کا پاؤں ، سب جو کچھ اُس نے اپنے بارے میں بتایا ہے یا اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بتایا ہے حق ہے اور اُسکی شان کے مطابق ہے یہ ہی مفہوم ہے اللہ کے فرمان مبارک ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ:::اللہ کےجیسی کوئی چیز نہیں، اور وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے﴾ کا ،
یہ ہی ہے وہ مفہوم جو ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات میں ملتا ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اور اُمت کے اِماموں رحمہم اللہ و حفظہم کی تعلیمات میں ملتا ہے ،
مزید اور مکرر وضاحت کے لیے کہتا ہوں :::
ذرا عقل سے سوچا جائے تو صاف سمجھ میں آتا ہے کہ غصہ ، محبت ، ہنسنا ، سننا ، دیکھنا ، وغیرہ یہ تمام صفات خالق نے اپنی مخلوق میں بھی رکھی ہیں ، اور کِسی ایک مخلوق کی صفت کی کیفیت دوسری مخلوق سے نہیں ملتی ،حتیٰ کہ ایک ہی جِنس کی مخلوق کے دو افراد کی ایک ہی صِفت کی کیفیت مختلف ہوتی ہے ،
میرا غصہ ، مُحبت ، ہنسنا ، سُننا ، دیکھنا ، وغیرہ ، آپ کے غُصے ، مُحبت ، ہنسنے ، سُننے ، دیکھنے وغیرہ جیسا نہیں ، اور آپکی یہ صِفات میری صِفات جیسی نہیں ،
اور اِسی طرح ہر ایک اِنسان میں فرق ہے حتیٰ کہ حیوانات میں بھی یہ فرق موجود ہے ، یہ تو بات ہوئی کِسی ایک مخلوق کا دوسری مخلوق سے موازنہ کرنے کی ، اب اگر ایک شخص کی ایک ہی صفت کو دو مختلف حالتوں میں، دو مخلتف نسبتوں سے دیکھا جائے تو وہ بھی ایک جیسی نظر نہیں آتی جیسا کہ ماں سے مُحبت اور بیوی سے مُحبت ایک جیسی نہیں ،بیوی سے مُحبت اور بیٹی اور بہن سے مُحبت ایک جیسی نہیں ہوتی ،
لہذا یہ بات ہر أچھی عقل قبول کرتی ہے کہ ، کوئی سی دو مخلوق میں کِسی ایک صفت کے ہم نام ہونے کی وجہ سے اُن دوصِفات کا صِفات والی شخصیات کا جزوی یا کُلّی طور پر ایک دوسرے جیسا ہونا یا مشابہہ ہونا کسی بھی طور واقع نہیں ہو تا ،
اِنسانوں اور حیوانات کی بہت سی صفات کے نام ایک ہی جیسے ہیں ، جیسا کہ دیکھنا ، سننا ، چلنا ، بھاگنا ، کھانا ، مُحبت ، غصہ ، غیرت اور بے غیرتی وغیرہ ،
لیکن کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ اِنسانوں اور حیوانات میں یہ صفات ایک جیسی ہیں لہذا وہ ایک دوسرے کے مشابہہ ہو گئے ، اور پھر اِس مشابہت کو دور کرنے کے لیے کوئی بھی اِن دونوں مخلوقات میں سے کِسی کی کِسی صفت کا اِنکار نہیں کرتا ،
جب یہ معاملہ مخلوق کا ہے تو خالق کا معاملہ اُس کی شان کے مطابق ہے اور ویسا ہی ہے جیسا کہ اُس نے اُوپر ذِکر کی گئی آیت میں بتایا ہے ،
تو یہ بات بڑی وضاحت سے سمجھ میں آتی ہے کہ دو مختلف چیزوں کا نام ایک جیسا ہونے سے اُن چیزوں کا ایک جیسا ہونا ہر گِز ضروری نہیں ہوتا ، اور دو مختلف صِفات دو مختلف چیزیں ہی ہیں جو ہر صاحبِ صِفت کے مطابق مختلف کیفیت کی حامل ہو جاتی ہیں گو کہ نام ایک ہی جیسا ہوتا ہے ، پس یہ ہی مفہوم ہے اللہ پاک کے فرمان﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ:::اللہ کےجیسی کوئی چیز نہیں، اور وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے﴾کا ،
لہذا اللہ تعالیٰ کی تمام صِفات جو اُس نے خود اور جو اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بتائی ہیں اُن پر بلا چُوں و چَراں اِیمان لانا فرض ہے اور اُن کی کِسی طور کوئی باطل تأویل کرنا ، یا تعطیل کرنا کفر تک لے جانے کے اسباب میں سےہے ،
جیسا کہ کوئی یہ کہے اللہ کے ہاتھ سے مُراد اُس کی قدرت ہے ، یا اللہ کی پنڈلی سے مُراد اُسکی زبردستی ہے ، وغیرہ ، وغیرہ ،
اس قِسم کی باطل تاویلات اکثر کتابوں، بلکہ عام کتابوں میں تو کیا تفسیر اور شرح کی کتابوں میں لکھی ہوئی دِکھائی دیتی ہیں ،ولا حَولَ و لا قُوۃَ اِلا باللَّہ و اِلیہِ اشتکی وھُوَ المُستعان ۔
اُمید ہے کہ ہمارے زیر بحث موضوع پر اتنی بات اِن شاء اللہ کافی ہو گی ، لکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن بات کو مختصر رکھنے کی غرض سے یہیں رُکتا ہوں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کے اور تمام مُسلمانوں کےدِلوں میں سے ضد اور تعصب دور کرے اور حق جاننے ، اُس کے قبول کر کے ہمیشہ اُس پر عمل کرنے،اور اُس کو نشر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
کِسی پڑھنے والے کے دِل و دماغ میں کوئی اور شبہ یا سوال ہو تو میری گذارش ہے کہ کسی جھجک کے بغیر اُس شبہے کو سامنے لائے ، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ گذارش بھی ہے کہ اپنے شک و شبہے ، یا سوال کو سامنے لانے سے پہلے جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا ہے اُس کا بغور اور بار بار مطالعہ کرے عین ممکن ہے کہ اُس کے شک کا جواب پہلے سے ہی اس کتاب میں موجود ہو ۔
و السلام علیکم،طلبگارِ دُعا ، عادِل سُہیل ظفر ۔
۱۵ ذوالقعدہ ۱۴۲۴ ہجری //// JANUARY/2004/07​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مصادر و مراجع

کتاب اللہ العزیز قران کریم ،
کتب السُّنۃ
صحیح البخاری ، صحیح مُسلم ،صحیح ابن حبان ، صحیح ابن خزیمہ،
سُنن ابن ماجہ ، سُنن الترمذی ، سُنن النسائی ، سُنن ابو داؤد،
سُنن الدارمی ، سُنن البھیقی ،سنن الدار قُطنی ،
المستدرک للحاکم، مُسند احمد ،
کتب العقیدۃ و الشروح
"""العلو للعلی الغفار """، امام شمس الدین الذھبی رحمہُ اللہ ،
"""مختصر العلو للعلی الغفار """، امام محمد ناصر الدین الالبانی رحمہُ اللہ ،
"""کتاب العرش """، امام شمس الدین الذھبی ،
"""اجتماع جیوش الاسلامیۃ""" ، امام ابن القیم الجوزیہ۔
"""التدمریۃ """، شیخ الاسلام احمد ابن تیمیہ ۔
"""أثبات الصفۃ العُلو """، اِمام موفق الدین عبداللہ بن أحمد بن قدامہ المقدسی۔
"""الاِستوا و الفوقیۃ"""، اِمام أبو محمد عبداللہ بن عمر الجوینی ۔
""" عقیدہ الطحاویہ """ اِمام ابو جعفر أحمد بن محمد الطحاوی الحنفی۔
""" شرح عقیدہ الطحاویہ """ اِمام صدر الدین محمد بن علاء الدین المعروف ابن ابی عبدالعز الحنفی ۔
""" أعتقاد اہل السُّنۃ"""، اِمام ھبۃ اللہ اللالكائي۔
""" السُنّۃ """ ، اِمام ابو بکر الخلال۔
""" التمھید"""، اِمام أبن عبد البَر ۔
کتب التاریخ و تراجم الرجال
"""تاریخ دمشق"""، امام ابن عساکررحمہُ اللہ ،
"""تاریخ البغداد """، الخطیب البغدادی رحمہُ اللہ،
"""تاریخ اصبھان"""،اِمام ابن مندہ رحمہُ اللہ ،
"""تذکرۃ الحفاظ"""، امام شمس الدین الذھبی رحمہُ اللہ ،
""" سیر الاعلام """،امام شمس الدین الذھبی رحمہُ اللہ ،
""" الوافی بالوفیات"""، للصفدی رحمہُ اللہ ۔

ختم شد
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
اللہ تعالی اپنی ذات کے لحاظ سے "عرش" پر ہے - اور اپنی صفت (خصوصیت) کے لحاظ سے مخلوق کے ساتھ ہے - اور وہ ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ، جیسے اسکو لائق ہے- اور اللہ تعالی اپنی تمام مخلوق سے بلندوبالا ہے - اور وہ اپنی تمام مخلوق کو گھیرے ہوے ہے -
ان تمام صفات کا تذکرہ قرآن کریم اور حدیث مین موجود ہے -
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت و رُشد کے لیےاپنے ایک رسول جبریل علیہ السلام کے ذریعے اپنے دوسرے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر اپنا کلام نازل کیا
بھائی عادل سہیل صاحب کا یہاں "جبرائیل علیہ السلام" کو اللہ کا رسول کہنا کچھ سمجھ نہیں آیا۔اگرچہ "رسول" کا لغوی معنی "بھیجا گیا" یہاں مراد لیں تو ٹھیک ہے ،کیونکہ اس کے دلائل قرآن مجید میں ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام ہی اللہ کے حکم سے قرآن مجید لے کر محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔
قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّۭا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُۥ نَزَّلَهُۥ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ مُصَدِّقًۭا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًۭى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿97﴾
ترجمہ: کہہ دوجو کوئی جبرائیل کا دشمن ہو سواسی نے اتاراہے وہ قرآن اللہ کے حکم سے آپ کے دل پر ان کی تصدیق کرتا ہے جو اس سے پہلے ہیں اور ایمان والوں کے لئے ہدایت اور خوشخبری ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 97)
وَإِنَّهُۥ لَتَنزِيلُ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿192﴾نَزَلَ بِهِ ٱلرُّوحُ ٱلْأَمِينُ ﴿193﴾عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ ٱلْمُنذِرِينَ ﴿194﴾
ترجمہ: اور یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے اسے روح الامین (جبرائیل علیہ السلام) لے کر آیا ہے تیرے دل پر تاکہ تو ڈرانے والوں میں سے ہو (سورۃ الشعراء،آیت192تا194)
لیکن اس سے رسول کے حقیقی معنی لیے جائیں جیسا کہ تحریر میں درج ہے کہ " اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت و رُشد کے لیےاپنے ایک رسول جبریل علیہ السلام کے ذریعے اپنے دوسرے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر اپنا کلام نازل کیا" تو یہ بات ثابت نہیں ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب مرد تھے اور انسان تھے۔
قُل لَّوْ كَانَ فِى ٱلْأَرْضِ مَلَٰٓئِكَةٌۭ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ مَلَكًۭا رَّسُولًۭا ﴿95﴾
ترجمہ: کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے (کہ اس میں) چلتے پھرتے (اور) آرام کرتے (یعنی بستے) تو ہم اُن کے پاس فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیجتے (سورۃ بنی اسرائیل،آیت 95)
وَمَآ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًۭا نُّوحِىٓ إِلَيْهِمْ ۖ فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٧﴾
ترجمہ: اور ہم نے تم سے پہلے بھی تو آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا ان کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھ لو (سورۃ الانبیاء،آیت7)
تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ نے انسانوں پر کوئی بھی فرشتہ رسول بنا کر نہیں بھیجا بلکہ تمام انبیاء و رسل انسانوں میں سے ہی مبعوث فرمائے۔
عبداللہ حیدر بھائی سے گزارش ہے کہ عادل سہیل بھائی کے موقف کی وضاحت کریں۔شکریہ
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
براد مکرم محمد ارسلان!
سورۃ الحج آیت ۷۵ میں ہے:
اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (75)
’’ اﷲ فرشتوں میں سے (بھی) اور انسانوں میں سے (بھی ) رسول منتخب فرما لیتا ہے۔ بیشک اﷲ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘
سورۃ الانفطار میں ہے:
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ
’’بے شک یہ ایک رسول کریم کا قول ہے‘‘
ابن عباس، شعبی، حسن، قتادہ اور ربیع بن انس رحمہم اللہ نے یہاں رسول کریم سے مراد جبریل علیہ السلام کو لیا ہے جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں مذکور ہے۔
فرشتوں میں جو رسول کے منصب کے لیے چنے جاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا پیغام انبیاء تک پہنچاتے ہیں اور انسانوں میں سے منتخب کیے جانے والے رسول اس پیغام کی تبلیغ انسانوں تک کرتے ہیں۔ چچا جان نے اسی لیے جبریل علیہ السلام کے لیے رسول کا لفظ استعمال کیا ہے
والسلام علیکم
 
Top