• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(5) اِمام مقاتل بن حیّان النبطی أبو بسطام رحمہ ُ اللہ(تبع تابعی :::تاریخ وفات 150ہجری)
اللہ کے فرمان ﴿ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا،،،،،::: کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمی سرگوشی کریں تو اللہ اُن کے ساتھ چوتھا نہ ہو، اور نہ ہی کبھی پانچ آدمیوں کی سرگوشی ایسی ہوتی ہے کہ اللہ اُن کے ساتھ چھٹا نہ ہو ، اور خواہ اس سے کم کی زیادہ کی سرگوشی ہو یا زیادہ کی سرگوشی ہواللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے ، چاہے لوگ کہیں بھی ہوں اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے ﴾(سورت المجادلۃ/آیت 7)کی تفسیر میں ،
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(6) اِمام التفسیر الضحاک بن مزاحم الہلالی رحمہ ُ اللّہ (تبع تابعی :::تاریخ وفات 106 ہجری) کی طرف سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا {{{اللہ اپنے عرش پر ہے اور اُس کا عِلم اُن(یعنی اُس کی مخلوقات )کے ساتھ ہے }}} اِمام علامہ قاضی أصبہان أبو أحمد العسال اور اِمام ھبۃ اللہ اللالكائي نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ۔
(7) صدقہ أبن المنتصر کہتے ہیں کہ میں نے سلیمان التیمی (سلیمان بن بلال التیمی تبع تابعی :::تاریخ وفات 172 ہجری)سے کو کہتے ہوئے سنا {{{ اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ اللہ کہاں ہے تو میں کہوں گا کہ وہ آسمان پر ہے}}} اِمام الذہبی رحمہ ُ اللہ کی""" مختصر العلو للعلي الغفار """دلیل رقم114، اِمام الالبانی رحمہُُ اللہ کا کہنا ہے کہ(یہ قول)اِمام ھبۃ اللہ اللالكائي نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ۔
(8) الاِمام عبدالرحمٰن بن عَمرو الأوزاعی رحمہ ُ اللہ(تبع تابعی ::: تاریخ وفات 157 ہجری)
کہتے ہیں کہ {{{ہم تابعین کی موجودگی میں بھی یہ ہی کہا کرتے تھے کہ ::: اللہ عز و جلّ اپنے عرش کے اُوپر ہے اور اللہ تعالیٰ کی جو بھی صفات سُنّت شریفہ میں وارد ہوئی ہیں ہم اُن پر (بلا تأویل )اِیمان رکھتے ہیں }}}
اِمام البیہقی نے """الأسماء و الصفات """میں اِمام الحاکم کی روایت سے نقل کیا ۔
(9) ولید بن مُسلم رحمہ ُ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اِمام عبدالرحمٰن بن عَمرو الأوزاعی رحمہ ُ اللہ اور، اِمام مالک بن أنس رحمہ ُ اللہ(تبع تابعی :::تاریخ وفات 179ہجری)اور (10) اِمام سُفیان الثوری رحمہ ُ اللہ(تبع تابعی ::: تاریخ وفات 161ہجری)اور (11) اِمام اللیث بن سعد الفھمی المصری رحمہ ُ اللہ(تبع تابعی:::وفات175 ہجری)رحمہُم اللہ جمعیاً سے اُن أحادیث کے بارے میں پوچھا جِن میں اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا ذِکر ہے تو انہوں نے کہا {{{اِن پر ایسے ہی اِیمان رکھو جیسا کہ أحادیث میں آیا ہے }}}،مختصرالعلو للعلي الغفار ، اِمام الذہبی رحمہ ُ اللہ ۔

انہی اِمام الأوزاعی رحمہ ُ اللہ کا ایک بہت بہترین قول ہے جو کہ اِمام الآجری رحمہ ُ اللہ نے """الشریعۃ """میں روایت کیا ہے ، گو کہ وہ ہمارے اِس موضوع سے براہِ راست متعلق نہیں لیکن اُس کا ذِکر کرنا اِن شاء اللہ تعالیٰ فائدہ مند ہو گا ، اِمام الأوازعی رحمہ ُ اللہ نے فرمایا{{{تم صحابہ اور تابعین کے آثار (اُن کے أقوال و أفعال ) پر قائم رہو خواہ لوگ تمہاری بات کو ٹھکرا دیں ، اور لوگوں کی باتوں سے بچو خواہ وہ اُنہیں کتنا ہی سجائیں بنائیں }}}اِمام الالبانی نے کہا اِس قول کی سند صحیح ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(12) اِمام حَمّاد بن زید بن درھم البصری رحمہ ُ اللَّہ (تبع تابعی::: وفات 179 ہجری)
سلیمان بن حرب رحمہُ اللہ (تبع تابعی ::: تاریخ وفات 224 ہجری)کہتے ہیں کہ میں نے حماد بن زید کو یہ کہتے ہوئے سُنا {{{تابعین اور سُنّت کے اِماموں بلکہ صحابہ ، اور اللہ اور اُس کے رسول اور تمام اِیمان والوں کا کہنا یہ ہی ہے کہ ، اللہ عز وجل آسمان پر ہے اور اپنے عرش کے اُوپر ہے ، اور اللہ اپنے تمام آسمانوں سے اُوپر اور بلند ہے ، اور وہ دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے ، اور اُن کا یہ کہنا قُرآن و حدیث کے دلائل کی بُنیاد پر ہے :::: جبکہ فرقہ جھمیہ والے یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کے اِس باطل قول سے پاک ہے بلکہ اُس کا عِلم ہر وقت ہمارے ساتھ ہے }}}،العَلو للعلي الغفار، اِمام شمس الدین الذہبی ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(13) اِمام محمد بن اِسحاق بن یسار اِمام المغازی (تبع تابعی :::وفات 150 ہجری)،
سلمہ بن فضل کا کہنا ہے کہ محمد بن اِسحاق نے کہا {{{ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں بتایا ہے کہ سب سے پہلے صرف پانی تھا اور اُس کے اوپر اللہ کا عرش تھا اور وہ ذوالجلال والاکرام عرش کے اُوپر تھا ، اپنی تمام مخلوق سے بُلند اور اُس کے اوپر کوئی چیز نہ تھی ، اور اُس کے عِلاوہ کوئی چیز نہ تھی ، پھر اللہ نے روشنی اور أندھیرا بنائے ، پھر دھویں سے ساتوں آسمانوں کی کمان بنائی اور پھر زمین کو بچھایا ، پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا اور اُن کو آپس میں جوڑا اور اُنکی تکمیل دو دِن میں کی ، اور زمین اور آسمانوں کی تخلیق سے سات دِنوں میں فارغ ہوا ، اور پھر پہلے کی طرح اپنے عرش پر قائم ہوگیا }}}، العَلو للعَلي الغفار ،اِمام شمس الدین الذہبی ۔


(14) الاِمام المجاھدعبداللہ بن المبارک رحمہ ُ اللہ (تبع تابعی :::وفات 181 ہجری) (15) الحافظ المحدّث علی بن حسن بن شقیق رحمہ ُ اللَّہ (تبع تابعی ::: وفات 215ہجری)
کہتے ہیں میں عبداللہ بن المبارک سے پوچھا کہ """ ہم اپنے رب کو کیسے پہچانیں ؟ تو اُنہوں نے جواب دِیا {{{ اللہ ساتوں آسمان پر اپنے عرش کے اُوپر ہے ، ہم جہمیہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ اللہ ہر جگہ یہاں زمین پر ہے }}}،الرد علیٰ المریسي ، اِمام الدارمی۔


(16) اِمام أبو معاذ خالد بن سلیمان البلخی رحمہ ُ اللہ (تبع تابعی::: تاریخ وفات 199 ہجری)،
اِمام عُبید اللہ بن سعید أبو قدامہ السرخسی رحمہُ اللہ کا کہنا کہ انہوں نے(اِمام) أبو معاذ(خالد بن سلیمان رحمہُ اللہ ) کو فرغانہ کے مقام پر کہتے ہوئے سنا کہ """ جھم (بن صفوان ، جھمیہ فرقے کا بانی )ترمذ کی گزر گاہ پر تھا اور اُسکی بات چیت بڑی فصاحت والی تھی ، لیکن نہ وہ صاحبِ عِلم تھا اور نہ ہی عِلم والوں کے ساتھ اُسکا اُٹھنا بیٹھنا تھا ، لہذا وہ لوگوں (کو اپنے راستے پر لانے کے لیے اُن )کے ساتھ چکنی چپڑی باتیں کیا کرتا ، لوگوں نے اُسے کہا ::: جِس رب کی تم عِبادت کرتے ہو ہمیں اُسکی صفات بتاو ::: تو وہ (جھم بن صفوان )اپنے گھر میں داخل ہو گیا اور کئی دِن کے بعد باہر نکلا اور لوگوں کو جواب دِیا کہ :::::: وہ جیسے کہ یہ ہوا ہر چیز کے ساتھ ہے ، اور ہر چیز میں ہے اور کوئی چیز اُس سے خالی نہیں :::::: تو أبو معاذ نے کہا {{{ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے ، اللہ تو اپنے عرش پر ہے جیسا کہ خود اللہ نے اپنے بارے میں بتایا ہے }}}"""، العلو للعلي الغفار ، اِمام شمس الدین الذہبی ، الاسماء و الصفات ، اِمام البیہقی ۔


(17) اِمام عبد اللہ بن مَسلمۃ بن قعنب معروف ب القعنبی رحمہ ُ اللہ (وفات 221 ھ )،
بنان بن أحمد رحمہُ اللہ کہتے ہیں کہ اِمام القعنبی رحمہُ اللہ نے جہمی فرقہ کے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ :::: الرحمٰن عَلٰی العَرش أستولیٰ :::: یعنی :::: رحمن عرش پر قابض ہوا :::: تو اِمام القعنبی نے کہا {{{ جو اِس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ رحمٰن عرش پر قائم ہے ، جیسا کہ اب عام لوگ اِس پر یقین نہیں رکھتے تو ایسا کرنے والا جہمی ہے }}}،العلو للعلي الغفار ،اِمام شمس الدین الذہبی ۔


(18) اِمام أبو بکر عبداللہ بن الزبیر الحمیدی مفتی اھل مکہ رحمہ ُ اللہ ( وفات179ہجری)،
بشر بن موسی رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ الحمیدی نے کہا {{{ ہم سُنّت کے أصولوں کو جِس طرح پاتے ہیں اُن پر اُسی طرح قائم ہیں اور وہ یوں ہیں کہ ،، قُرآن و حدیث میں جو کچھ آیا ہے ہم نہ تو اُس میں کوئی کم بیشی کرتے ہیں اور نہ ہی اُس کی کوئی تفسیر کرتے ہیں ، قُرآن و سُنّت جہاں رکتے ہیں ہم بھی وہیں رکتے ہیں ، اور ہم یہ کہتے ہیں کہ رحمٰن اپنے عرش کے اُوپر قائم ہے اور جو ایسا نہیں سمجھتا وہ باطل پرست جہمی ہے }}}،مفصل الاعتقاد ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،


(19) اِمام الری ھشام بن عبید اللہ الرازی الحنفی رحمہ ُ اللہ (وفات 179ہجری)،
علی بن حسن بن یزید السلمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ """ ایک آدمی کو جہمی عقائد کا حامل ہونے کی وجہ سے توبہ کرنے کی مہلت دیتے ہوئے قید کیا گیا ، جب یہ پتہ چلا کہ اس نے توبہ کر لی ہے تو ہشام بن عبیداللہ أمتحان لینے کے لیے اُسکے پاس گئے اور پوچھا {{{ کیا تو اِس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ اپنے عرش کے اُوپر اپنی تمام مخلوق سے جُدا اور الگ ہے}}}،
تو اُس جہمی نے جواب دِیا """ میں نہیں جانتا کہ اللہ کا اپنی مخلوق سے الگ ہونا کیا ہے ؟ """، تو اِمام ہشام رحمہُ اللہ نے کہا {{{ اِسے واپس قید میں ڈال دو اِ س نے ابھی تک توبہ نہیں کی}}} ۔


(20) اِمام مُحمد بن مُصعب العابد شیخ بغداد رحمہ ُ اللہ ( وفات 228 ہجری)،
أبو الحسن محمد بن العطاررحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے محمد بن مصعب العابد رحمہُ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ {{{ اے اللہ جو یہ سمجھتا ہے کہ تو آخرت میں نہ بات کرے گا اور نہ دکھائی دے گا تو وہ صفات کا کافر ہے ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ساتوں آسمانوں سے اُوپر اپنے عرش کے اُوپر ہے ، نہ کہ اُس طرح ہے جیسے کہ تیرے زندیق دشمن کہتے ہیں ( کہ تو ہر جگہ موجود ہے )}}}، السُّنۃ، عبداللہ بن أحمد بن حنبل ، تاریخ البغداد،اِمام الخطیب البغدادی ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(21) اِمام التفسیر حافظ سُنید بن داؤد المصیصی رحمہ ُ اللہ (وفات 226 ہجری) أبو حاتم الرازی ، أبو عمران الطرسوسی سے روایت کرتے ہیں کہ اِن أبو عمران نے اِمام سُنید بن داؤد سے پوچھا """ کیا اللہ عز و جلّ اپنے عرش کے اُوپر اپنی تمام مخلوق سے الگ اور جُدا ہے ؟ """ تو اِمام سُنید بن داؤد نے کہا {{{جی ہاں}}}، العَلو للعَلي الغفار ،اِمام شمس الدین الذہبی ۔


(22) اِمام قتیبۃ بن سعید ، شیخء خراسان رحمہ ُ اللہ ( وفات 240 ہجری)،
أبو العباس السراج کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے قتیبۃ بن سعید کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ {{{ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا رب ساتویں آسمان پر اپنے عرش کے اُوپر ہے جیسا کہ اللہ جل جلالہُ نے خود فرمایا ہے ،الرحمٰن عَلیٰ العَرش أستویٰ:::رحمٰن عرش پر قائم ہے اور یہ قول اسلام اور اہل سُنّت و الجماعت کے اِماموں کا ہے }}}،العَلو للعَلي الغفار، اِمام شمس الدین الذہبی۔



(23) اِمام المحدثین اِمام علی بن المدینی رحمہ ُ اللہ(وفات 234ہجری)
محمد بن الحارث رحمہُ اللہ کہتے ہیں کہ اِمام علی بن المدینی رحمہُ اللہ سے پوچھا گیا """اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں اہلِ جماعت کا کیا قول ہے ؟ """،
تو اُنہوں نے جواب دِیا کہ{{{اہلِ جماعت اِس پر اِیمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں بات بھی کرے گا اور دِکھائی بھی دے گا ، اور بلا شک و شبہ یہ کہ اللہ عزّ و جلّ آسمانوں کے اُوپر اپنے عرش پر قائم ہیں}}}، سابقہ حوالہ ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(24) اِمام اِسحاق بن راھویہ رحمہ ُ اللہ ( وفات 238 ہجری)،
حرب بن اِسماعیل الکرمانی رحمہ ُ اللہ کا کہنا کہ میں نے اِسحاق بن راھویہ رحمہ ُ اللہ سے پوچھا کہ """ اللہ کے قول ﴿ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ:::کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو خفیہ بات کرنے والا خواہ اِس سے کم ہوں یا زیادہ، جہاں کہیں بھی وہ ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے پھر قیامت کے روز وہ ان کو بتا دے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے﴾کی تفسیر ہم کیسے بیان کریں ؟ """ تو اُنہوں نے جواب دِیا کہ(اس کی تفیسر یہ ہے کہ ){{{تم جہاں بھی ہو وہ تمہاری شہ رگ سے زیادہ تمہارے قریب ہے ، اور وہ اپنی تمام مخلوق سے جُدا اور الگ ہے ، اور پھر عبداللہ بن المبارک کا قول ذِکر کیا کہ """ اللہ اپنے عرش پر ہے اپنی تمام مخلوق سے الگ اور جُدا ، اور اِس مسئلے میں سب سے واضح ترین دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے﴿الرحمٰنُ عَلیٰ العرشِ أستویٰ::: رحمٰن عرش پر قائم ہے﴾}}}، السُّنۃ ، اِمام أبو بکر الخلال ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(25) اِمام اِسماعیل بن یحیی المُزنی رحمہ ُ اللہ (وفات 264 ہجری) علی بن عبداللہ الحلوانی کا کہنا ہے کہ ہم نے ابا اِبراہیم المُزنی رحمہ ُ اللہ کو سوالیہ خط لکھا ، جِس کے جواب میں اللہ کی حمد و ثناء اور عقیدے کی باتیں لکھتے ہوئے اُنہوں لکھا {{{ اللہ کی نہ کوئی تشبیہہ ہے نہ کوئی برابری والا ، اور وہ سننے والا ، دیکھنے والا ، عِلم والا اور جاننے والا ہے ، اور اپنے عرش پر بلند ہے اور اپنے عِلم سے اپنی تمام مخلوق کو جانتا ہے ، اور قُرآن اللہ کی طرف سے اللہ کا کلام ہے اللہ کی مخلوق نہیں ہے ، اللہ کے کلمات اللہ کی مخلوق نہیں ہیں ، اور ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ، اور نہ ہی ہمارے رب میں کوئی کمی ہے یا تھی کہ ہم اُسے پورا کریں ، اُسکی صفات مخلوق کی صفات کی مشابہت سے پاک ہیں ،اور وہ اپنے عرش پر اپنی تمام مخلوق سے جُدا الگ اور بلند ہے ،،،،،،،}}}،
:::::: محمد بن أسماعیل الترمذی کا کہنا کہ اُنہوں نے اِمام المزنی رحمہُ اللہ سے سنا کہ {{{ کِسی کی توحید اُس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ یہ جان اور مان نہ لے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفات کے ساتھ اپنے عرش کے اُوپر ہے}}}،
تو میں نے پوچھا """مثلاً کون سی صفات؟ """،
تو اُنہوں نے کہا {{{ سننے ، دیکھنے ، عِلم رکھنے ، خبر رکھنے کی صفات اور دیگر (جو بھی صفات اللہ نے اپنی یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے رب کی بیان کی ہیں وہ سب صفات )}}}،تاریخ أصبھان ،اِمام ابن مندہ ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(26) الاِمام الحافظ محدث الشرق محمد بن اِسحاق ابن مندہ رحمہ ُ اللہ( وفات 395ہجری)کا کہنا ہے {{{ اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفات کے ساتھ جانا پہچانا ہوا ہے غیر معروف نہیں ، اور اس طرح موجود ہے کہ اُس کو محسوس نہیں کیا جاسکتا ، اور وہ اپنی صفات کے ذریعے اِتنا قریب ہے گویا کہ تو اُسے دیکھ رہا ہے لیکن(نگاہوں سے) اُس کا أحاطہ نہیں کیا جا سکتا ، وہ قریب ہے لیکن اپنی مخلوق میں سے کِسی کے ساتھ جُڑا ہوا نہیں ، اور وہ دُور ہے اِس طرح کہ کِسی سے ہٹا ہوا نہیں ،(یعنی اس طرح کہ سب ہی کچھ )دیکھتا اور سُنتا ہے اور سب سے بُلند ہے اور اپنے عرش پر قائم ہے، پس (اِیمان والے )دِل اُسے جانتے ہیں ، لیکن ، عقل اُس کی کیفیت نہیں جان سکتی اور وہ ہر چیز پر قادر ہے }}}، العَلو للعَلي الغفار ،اِمام شمس الدین الذہبی ۔


(27) اِمام حافظ العصر عبید اللہ بن عبدالکریم أبو زرعہ الرازی رحمہ ُ اللہ(وفات264ہجری)محمد بن اِبراہیم ا لأصبہانی رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ أبو زرعہ رحمہُ اللہ سے﴿ الرحمٰنُ عَلیٰ العَرشِ أستویٰ﴾ کی تفسیر پوچھی گئی تو اُن کو غصہ آ گیا اور اُنہوں نے کہا {{{ اِس کی تفسیر بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ تُم اِسے پڑھتے ہو ، اللہ اپنے عرش کے اُوپر ہے اور اِسکا عِلم ہر جگہ ہے ، اور جو اِس کے عِلاوہ کچھ اور کہتا ہے تو اُس پر اللہ کی لعنت ہو}}}، العلو للعلي الغفار ،اِمام شمس الدین الذہبی ۔


(28) الاِمام الحافظ عثمان بن سعید الدارمی رحمہ ُ اللہ(وفات280 ہجری)،
اپنی کتاب """ النقض علیٰ بشر المریسي """میں لکھتے ہیں {{{مسلمانوں کا اِس بات پر اِتفاق ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے آسمانوں سے اُوپر اپنے عرش کے اُوپر ہے }}}،
اور لکھا {{{بے شک اللہ عرش کے اُوپر ہے اور وہ عرش کے اُوپر سے سُنتا ہے ، اُس کی مخلوق میں سے کِسی کی سرسراہٹ بھی اُس سے چھپی نہیں رہتی ، اور نہ کوئی چیز مخلوق کو اللہ سے چھپا سکتی ہے }}}،


(29) اِمام أبو زکریا یحیی بن عمار السجستانی رحمہ ُ اللہ(وفات 422 ہجری)،
اپنی مُختصر کتاب میں لکھا {{{ ہم فرقہ جہمیہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ، اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور ہر چیز کے ساتھ جُڑا ہوا ہے پس ہم نہیں جانتے ( کہ کِس وقت ) وہ کہاں ہے ؟ ،
بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ """ اللہ تعالیٰ کی ذات اپنے عرش کے اُوپر ہے اور اُس کا عِلم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور اُسکا عِلم اور سماعت اور بصارت ہر چیز کو جانتی ہیں اور ہر چیز پر حاوی ہیں ، اور یہ ہی اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿،،،،، وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ:::اور وہ تُم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اللہ تُم لوگوں کے ساتھ ہے ، اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ دیکھتا ہے﴾ کا معنی ہے اور ہم یہ ہی کہتے ہیں کیونکہ یہ ہی بات اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کہی ہے }}}، کتاب العرش ، امام شمس الدین الذھبی ، اجتماع جیوش الاسلامیہ ، امام ابن القیم الجوزیہ۔


(30) شیخ الصوفیہ أبو منصور معمر بن زیاد بن أحمد رحمہ ُ اللہ(وفات 395 ہجری)،
أبی القاسم الطبرانی سے روایت ہے کہ اِمام معمر بن زیاد رحمہُ اللہ نے کہا {{{ میں اپنے ساتھیوں کو اِس بات کی وصیت کرتا ہوں جو کہ سُنّت میں ہے اور جِس پر اہلِ حدیث اور اہلِ تصوف و معرفت کا اِتفاق ہے اور وہ یہ ہے کہ ؛ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر قائم ہے اور اِس (صفت) کی کیفیت ہم نہیں جانتے ، لہذا نہ تو اِسے کِسی سے تشبیہہ دیتے ہیں اور نہ ہی اِسکی کوئی تأویل کرتے ہیں ، کیونکہ قائم ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن اللہ کے لیے اِسکی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ، اور یہ کہ بے شک اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق سے جدا اور الگ ہے اور اُسکی تمام مخلوق اُس سے جدا اور الگ ہے ، پس خالق اور مخلوق میں نہ کوئی حلول ہے ، نہ اِک دُوجے کے ساتھ لگنا ہے اور نہ ہی اِک دُوجے سے جُڑنا ہے ، اور اللہ سُنتا ہے ، دیکھتا ہے ، عِلم رکھتا ہے ، سب کچھ جانتا ہے ، بات کرتا ہے ، خوش ہوتا ہے ناراض ہوتا ہے ، پسند کرتا ہے ، ہنستا ہے ، اور قیامت والے دِن اپنے بندوں کے سامنے مُسکراتا ہوا آئے گا ، اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے نزول (یا کِسی بھی صفت ) کا اِنکار کرے وہ گمراہ اور بدعتی ہے }}}، العَلو للعَلي الغفار ،اِمام شمس الدین الذہبی ۔
اس عقیدے کی توثیق کے بارے میں أئمہ کرام رحمہم اللہ کے تو اتنے فرامین ہیں کہ ایک اگر سب ہی کو نقل کرنے لگوں تو ایک اچھی خاصی موٹی کتاب بن جائے، لیکن قارئین کرام کی ذہنی و قلبی حاضری برقرار رکھنے کے لیے میں صرف ایک اور عظیم القدر اور معروف اِمام صاحب رحمہُ اللہ کے دو قول ذِکر کرتے ہوئے """اقوالء أئمہ """ کا باب بند کروں گا ، اور اِن شاء اللہ اُس کے بعد شکوک و شُبہات کے جوابات کا باب کھولوں گا ،


(31) الاِمام الحافظ أحمد بن عبدا للہ بن أحمد أبو نعیم الأصبھا نی رحمہ ُ ا للہ (وفات 430 ہجری) ،
اپنی کتاب """ الأعتقاد """ میں لکھتے ہیں {{{ ہمارا راستہ وہ ہی جو سلف (الصالح ، یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین و تبع تابعین رحہم اللہ ) کا تھا یعنی کتاب اور سُنّت اور اجماعِ اُمت والا راستہ ، اور اُن کا عقیدہ یہ ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفات کے ساتھ اُس طرح ہی مکمل ہے جیسا کہ وہ ہمیشہ سے تھا ، اُس کی صفات میں نہ کوئی کمی ہے اور نہ ہی کوئی تبدیلی ، ہمیشہ کی طرح وہ اپنے عِلم کے ساتھ عالِم ہے ، اپنی بصارت کے ساتھ بصیر ہے ، اپنی سماعت کے ساتھ سمیع ہے ، بات کرتے ہوئے بولتا ہے ، پھر وہ ہر چیز کو عدم سے وجود میں لایا ، اور یہ کہ قُرآن اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ تمام کتابیں اللہ کا کلام ہیں ، اور اللہ کا کلام اُس کی مخلوق نہیں ہے ، اور یہ کہ قُرآن ہر لحاظ سے یعنی پڑھے جانے ، سُنے جانے ، محفوظ حالت میں ، لکھی ہوئی حالت میں ، لپٹی ہوئی حالت میں ، ہر لحاظ سے اللہ کا کلام ہے ،حقیقی طور پر نہ کہ کوئی حکایت ہے اور نہ ہے کوئی تأویل ، اور جب ہم اُسے پڑھتے ہیں تو وہ ہمارے اِلفاظ میں بھی اللہ کا کلام ہی ہیں اور اور غیر مخلوق ہی ہیں ، اور ( قُرآن کو مخلوق قرار دینے کے لیے )الفاظ کا فلسفہ فرقہ جہمیہ کی طرف سے آیا ہے اور یہ کہ جو قُران کو کِسی بھی لحاظ سے کِسی بھی طور مخلوق کہتا ہے وہ سلف الصالح ( یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین و تبع تابعین رحہم اللہ) کے نزدیک جہمی ہے اور جہمی کو سلف (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین و تبع تابعین رحہم اللہ ) کافر جانتے تھے }}}،
سلف الصالح(یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین و تبع تابعین رحہم اللہ ) کے عقائد کو بیان کرتے ہوئے اِمام أبو نعیم الاصبھانی رحمہ ُ اللہ مزید لکھتے ہیں کہ {{{ اور وہ اُن تمام أحادیث پر یقین رکھتے تھے اور اُن کو بیان کیا کرتے تھے جِن أحادیث میں عرش کا ہونا ثابت ہے اور اللہ کا عرش کے اُوپر قائم ہونا ثابت ہے ، اور وہ اللہ کے عرش پر قائم ہونے کو بغیر کِسی کیفیت کے مانتے تھے اور اِس کو ثابت کرتے تھے ، اور یہ عقیدہ رکھتے تھے اللہ اپنی تمام سے الگ اور جدا ہے اور اُسکی تمام مخلوق اُس سے الگ اور جدا ہے ، نہ تو وہ کِسی کے ساتھ جُڑتا ہے اور نہ ہی کِسی میں حل ہوتا ہے ، اور وہ اپنے آسمانوں سے اُوپر اپنے عرش پر قائم ہے }}}،
اِمام أبو نعیم الاصبہانی رحمہ ُ اللہ نے اِن تمام باتوں پر سلف الصالح (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین و تبع تابعین رحہم اللہ )کا متفق ہونے کا ذِکر کیا اِسی لیے میں اِس بات کو سب سے آخر میں لایا ہوں ،
اور اس لیے بھی کہ ہو سکتا ہے کِسی پڑھنے والے کے دِل میں یہی خیال آئے کہ جِن بزرگوں کے أقوال میں نے ذِکر کیے ہیں اُن میں سے حدیث کے معروف اِماموں میں سے کوئی بھی نہیں تو عرض یہ ہے کہ تمام تر أئمہ حدیث کی کتابوں میں وہ تمام احادیث موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کو ثابت کرتی ہیں ،
اِن اِماموں کا اپنی کتابوں میں اِن أحادیث کو موضوع کے مطابق عنوان بنا کر ذِکر کرنا محض پنساری کی طرح جڑی بوٹیاں ڈھیر کرنا نہیں ہے جیسا کہ أکثر مذھبی تاجر لوگوں کو اپنے تقلیدی دھندے میں پھانسنے اور پھانسے رکھنے کے لیے کہتے ہیں ، بلکہ اُنکی فقہ اور عقیدے کا أظہار ہے کہ جیسے اُنہوں نے اپنی کتابوں میں مختلف عنوان مقرر کر کے اُن عناوین کے مطابق أحادیث لکھی ہیں اُس سے اُنکی فقہ کی گہرائی اور وسعت کا ہر أچھی عقل کو صاف پتہ چلتا ہے ، بہر حال اِس وقت میری گفتگو کا موضوع یہ نہیں ،اِس کے بارے میں اِن شاء اللہ پھر کسی وقت بات کروں گا ،
یہاں تک سلف الصالح(یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین و تبع تابعین رحہم اللہ )کے أقوال ذِکر کرنے کے بعد اب اِن شاء اللہ اپنے اِس موضوع کے بارے میں پائے جانے والے فلسفیانہ اور منطقی شبہات کا جواب دیتا ہوں ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
شکوک و شبہات

اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہر جگہ موجود کہنے والوں اور اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی دیگر صِفات کی تأویل یا اُن کا اِنکار کرنے والوں کا سب بڑا مسئلہ قُرآن کو سمجھنے کے لیے منطق ، فلسفہ ،صرف لُغت ، اپنی آراء اور سابقہ اُمتوں کی کہانیوں وغیرہ کو اپنانا ہے میں نے آغاز میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ::: (ہم نے پہلے رسولوں کو بھی)روشن دلائل اور کتابیں (دے کر بھیجا ، اور) ہم نے یہ ذِکر (قُرآن ) آپ کی طرف نازل کیا ہے تا کہ لوگوں کی طرف جو نازل کیا گیا ہے آپ اُسے صاف کھول کھول کر بیان فرما دیں ،،، شاید کہ وہ غور و فِکر کریں ﴾سُورت النحل(16) /آیت 44، ذِکر کیا تھا ، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور أحکامات کے بیان و تفسیر کی ذمہ داری اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دی ہے اور اپنا کلام رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف نازل کرنے کا سبب ہی یہ بتایا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اُس کو بیان کریں ، اور یہ اللہ تعالیٰ کی سُنّت ہے کہ ہمیشہ اپنے رسولوں کے ذریعے ہی اپنے أحکام کو نازل کیا ہے تا کہ اُن کی تفسیر و بیان اللہ کے رسول کریں اور اپنی اپنی قوم کو سمجھائیں ، اور ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تمام أقوام کی طرف بھیجے گئے اور آخری پیغام کے ساتھ بھیجے گئے پس قُرآن کو سمجھنے کے لیے ہمیں صرف قُرآن اور صحیح حدیث تک ہی محدود رہنا چاہئیے ، اور أحادیث کی تفسیر اور شرح کےلیے صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کے أقوال و أفعال تک ،
جب مسلمانوں نے اِن ذرائع کو ترک کر دِیا اور قُرآن و سُنّت کو اپنی اپنی عقل اور اپنے اپنے مزاج ، اور منطق ، فلسفہ ، اور محض لغت کے قواعد (گرائمر )کے مطابق سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا تو اِس قِسم کے باطل عقائد دِلوں اور ذہنوں میں دِاخل ہوئے اور پھر اِن لوگوں پر اللہ اور اہل اِیمان کے ازلی دُشمن ، اللہ کی لعنت پائے ہوئے شیطان کی مہربانی سے وقتا ً فوقتاً اِن باطل عقائد کو طرح طرح کی نئی فلسفیانہ گرہیں لگتی رہی ہیں ، اور لگتی رہتی ہیں ، کیونکہ یہ اُس کا کام ہے جِس کے لیے اُس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک مہلت مانگ رکھی ہے ، پس اُمت طرح طرح کے شبہات و شکوک کا شکار ہوتی گئی ،
الحمدُ للہ کہ جِس نے اپنے دِین کی حفاظت کے لیے ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کیے جو باطل کو باطل ثابت کرتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ حق کو حق ثابت کرتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایسا ہی کریں گے کیونکہ اپنے نازل کردہ کلام کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے لی ہے ﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ:::بے شک ہم نے ہی یہ ذِکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اِس کی حفاظت کرنے والے ہیں﴾سُورت الحجر(15)/آیت 9،
اور حق کو حق کہنے والوں کی ہمیشہ موجودگی کی ضمانت اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دی ہے ﴿لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِى أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ﴾ اِس سے ملتی جلتی کئی أحادیث ہیں جِن کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ﴿ میری اُمت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا رہے گا جو حق کے ساتھ ظاہر ہو گا اور حق کے لیے لڑتا رہے گا ، اور اُن کی مخالفت کرنے والے اُنہیں قیامت تک جھکا نہیں سکیں گے ﴾ صحیح البُخاری /کتاب الاعتصام بالکتاب و السُنّۃ /باب 10 ، صحیح مُسلم /کتاب الامارۃ /باب 53،
پس ہم اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مقرر کردہ منہج پر قائم رہتے ہوئے ہی اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین کو سمجھتے ہیں اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ،
علم الکلا م، منطق اور فلسفہ زدہ باتوں کی دینی مسائل میں کوئی وقعت نہیں ہوتی لیکن چونکہ ایسی باتیں اکثر شیطان کے لیے مؤثر جھانسے کا کام دیتی ہیں ، لہذا اس انداز ء کلام کے پہلو سے اتمام حجت کے لیے میں اُن شکوک و شبہات کا جواب بھی دے رہا ہوں جو شکوک و شبہات ہمارے اس موضوع سے متعلق پھیلائے تے ہیں ،
ہمارے اِس وقت زیرِ مطالعہ موضوع کے بارے میں جو شبہات عام طور پر ذھنوں میں پائے جاتے ہیں اُن کا شکار ہونے والے لوگ اُن شبہات کا اِظہار کچھ اِن اِلفاط میں کرتے ہیں :::
( 1 ) کہتے ہیں """ اللہ کو اُوپر (یعنی عرش )پر مانا جائے تو اللہ تعالیٰ کے لیے مکان (یعنی کوئی جگہ )ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ کفر ہے """ ۔
گو کہ کفر کے اِس فتوے کی اُنکے پاس کوئی دلیل نہیں سوائے منطق اور فلسفہ زدہ باتوں کے، لیکن بُرا ہو جہالت پر مبنی اِس ضد اور تعصب کا کہ جو اپنے کلمہ گو مسلمان بھائی بہنوں کو کافر کہلوا دیتا ہے ،
( 2 ) اور کہا جاتا ہے کہ """ اللہ کو عرش سے اوپرماننے سے اللہ کے لیے ایک سمت کا تعین ہو جاتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کو ایک سمت میں مان لیا جائے تو باقی سمتیں اُس سے غائب ہو جاتی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے شان شایان نہیں بلکہ اللہ کے فرمان ﴿أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ:::بے شک اللہ ہر چیز کا أحاطہ کیے ہوئے ہے﴾سُورت فُصلت(41)/آیت 54،کے خلاف ہے """ ۔
یہ فلسفہ بھی ان کی جہالت کی دلیل ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہر چیز کو احاطہ کرنے کو معاذ اللہ ، چیزوں کو اللہ پاک کے وجود میں ، یا اُس کے وجود پاک کے ساتھ متصل ہونا سمجھتے ہیں ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی صِفات کی اپنی ذاتی سوچوں کی بنا پر تاویل کرتے کرتے اُن کی تعطیل کر تے ہوئے اُن کے انکار کا شکار ہو جاتے ہیں ، و لاحول و لا قوۃ الا اباللہ ،
( 3 ) اور کہا جاتا ہے کہ """ اِس طرح اللہ کی مخلوق سے مُشابہت ہو جاتی ہے اور یہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ:::اللہ کےجیسی کوئی چیز نہیں﴾سُورت الشُوریٰ(42)/آیت11"""۔
اس آیت مبارکہ کو بھی اپنی ذاتی فِکر کے مطابق سجھنے والوں نے اس کے دُوسرے حصےکی طرف کوئی توجہ کیے بغیر اپنی ذاتی سوچوں اور جہالت زدہ قران فہمی کی بنا پر سمجھا اور حقیقت کے بر عکس مفہوم لے کر اس کی ضد کرنے لگے ،
سابقہ صفحات میں اِن شبہات کے باطل ہونے کے أتنے دلائل ذِکر کیے جا چکے ہیں جو اِن شاء اللہ کافی سے بھی زیادہ ہیں لیکن پھر بھی اُن دِلوں اور دِماغوں کے لیے جو عِلم الکلام ،منطق اور فلسفہ وغیرہ کے جھانسے میں حق سے دُور ہیں اور حق کو پرکھنے کے لیے ان چیزوں کو کسوٹی بناتے ہیں ، ایسے دِلوں اور دِماغوں کے لیے اب اِن شاء اللہ اِن مذکورہ بالا شکوک وشبہات کا کچھ منطقیانہ اور فلسفیانہ جواب دیتا ہوں تا کہ قارئین کرام پر اللہ تعالیٰ کے حُکم سے اور اُس کی رضا کے ساتھ اِن شبہات کی حقیقت بالکل واضح ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ ان سب کو ان شکوک و شبہات کے چُنگل سے آزاد فرما کر حق قُبُول کرنے والوں میں سے بنا دے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
شکوک و شبہات کا جواب

سابقہ حصہ میں جِن شکوک وشبہات کا ذِکر کیا گیا اُن میں سے پہلا شبہ یہ ہے کہ:::
( 1 ) کہتے ہیں """ اللہ کو اُوپر (یعنی عرش )پر مانا جائے تو اللہ تعالیٰ کے لیے مکان (یعنی کوئی جگہ )ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ کفر ہے """ ۔
گو کہ کفر کے اِس فتوے کی فتویٰ دینے والوں کے پاس قُرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ، جی ہاں اُن کے دلائل فقط منطق اور فلسفہ زدہ باتیں ہیں ، اِن باتوں پر اُن کے أعتماد کی وجہ صرف یہ ہی کہ اُنہوں نے قُرآن و حدیث کو اپنی عقل اور مزاج کے مطابق سمجھا ، چند تراجم اور کچھ گمراہ کُن تشریحات پڑھ کر خود کو قران اور حدیث پر حُکم لگانے والے سمجھ بیٹھے ، پس گُمراہ ہوئے اور گمراہی کا ذریعہ بنے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دِین کو اُسی طرح سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے جِس طرح اُس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر نازل کیا اور اُسی پر ہمارا عمل ہو اور اُسی پر ہمارا خاتمہ ہو ۔
 
Top