شکوک و شبہات
اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہر جگہ موجود کہنے والوں اور اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی دیگر صِفات کی تأویل یا اُن کا اِنکار کرنے والوں کا سب بڑا مسئلہ قُرآن کو سمجھنے کے لیے منطق ، فلسفہ ،صرف لُغت ، اپنی آراء اور سابقہ اُمتوں کی کہانیوں وغیرہ کو اپنانا ہے میں نے آغاز میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿
بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ::: (ہم نے پہلے رسولوں کو بھی)روشن دلائل اور کتابیں (دے کر بھیجا ، اور) ہم نے یہ ذِکر (قُرآن ) آپ کی طرف نازل کیا ہے تا کہ لوگوں کی طرف جو نازل کیا گیا ہے آپ اُسے صاف کھول کھول کر بیان فرما دیں ،،، شاید کہ وہ غور و فِکر کریں ﴾سُورت النحل(16) /آیت 44، ذِکر کیا تھا ، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور أحکامات کے بیان و تفسیر کی ذمہ داری اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دی ہے اور اپنا کلام رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف نازل کرنے کا سبب ہی یہ بتایا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اُس کو بیان کریں ، اور یہ اللہ تعالیٰ کی سُنّت ہے کہ ہمیشہ اپنے رسولوں کے ذریعے ہی اپنے أحکام کو نازل کیا ہے تا کہ اُن کی تفسیر و بیان اللہ کے رسول کریں اور اپنی اپنی قوم کو سمجھائیں ، اور ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تمام أقوام کی طرف بھیجے گئے اور آخری پیغام کے ساتھ بھیجے گئے پس قُرآن کو سمجھنے کے لیے ہمیں صرف قُرآن اور صحیح حدیث تک ہی محدود رہنا چاہئیے ، اور أحادیث کی تفسیر اور شرح کےلیے صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کے أقوال و أفعال تک ،
جب مسلمانوں نے اِن ذرائع کو ترک کر دِیا اور قُرآن و سُنّت کو اپنی اپنی عقل اور اپنے اپنے مزاج ، اور منطق ، فلسفہ ، اور محض لغت کے قواعد (گرائمر )کے مطابق سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا تو اِس قِسم کے باطل عقائد دِلوں اور ذہنوں میں دِاخل ہوئے اور پھر اِن لوگوں پر اللہ اور اہل اِیمان کے ازلی دُشمن ، اللہ کی لعنت پائے ہوئے شیطان کی مہربانی سے وقتا ً فوقتاً اِن باطل عقائد کو طرح طرح کی نئی فلسفیانہ گرہیں لگتی رہی ہیں ، اور لگتی رہتی ہیں ، کیونکہ یہ اُس کا کام ہے جِس کے لیے اُس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک مہلت مانگ رکھی ہے ، پس اُمت طرح طرح کے شبہات و شکوک کا شکار ہوتی گئی ،
الحمدُ للہ کہ جِس نے اپنے دِین کی حفاظت کے لیے ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کیے جو باطل کو باطل ثابت کرتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ حق کو حق ثابت کرتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایسا ہی کریں گے کیونکہ اپنے نازل کردہ کلام کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے لی ہے ﴿
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ:::بے شک ہم نے ہی یہ ذِکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اِس کی حفاظت کرنے والے ہیں﴾سُورت الحجر(15)/آیت 9،
اور حق کو حق کہنے والوں کی ہمیشہ موجودگی کی ضمانت اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دی ہے ﴿
لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِى أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ﴾ اِس سے ملتی جلتی کئی أحادیث ہیں جِن کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ﴿ میری اُمت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا رہے گا جو حق کے ساتھ ظاہر ہو گا اور حق کے لیے لڑتا رہے گا ، اور اُن کی مخالفت کرنے والے اُنہیں قیامت تک جھکا نہیں سکیں گے ﴾ صحیح البُخاری /کتاب الاعتصام بالکتاب و السُنّۃ /باب 10 ، صحیح مُسلم /کتاب الامارۃ /باب 53،
پس ہم اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مقرر کردہ منہج پر قائم رہتے ہوئے ہی اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین کو سمجھتے ہیں اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ،
علم الکلا م، منطق اور فلسفہ زدہ باتوں کی دینی مسائل میں کوئی وقعت نہیں ہوتی لیکن چونکہ ایسی باتیں اکثر شیطان کے لیے مؤثر جھانسے کا کام دیتی ہیں ، لہذا اس انداز ء کلام کے پہلو سے اتمام حجت کے لیے میں اُن شکوک و شبہات کا جواب بھی دے رہا ہوں جو شکوک و شبہات ہمارے اس موضوع سے متعلق پھیلائے تے ہیں ،
ہمارے اِس وقت زیرِ مطالعہ موضوع کے بارے میں جو شبہات عام طور پر ذھنوں میں پائے جاتے ہیں اُن کا شکار ہونے والے لوگ اُن شبہات کا اِظہار کچھ اِن اِلفاط میں کرتے ہیں :::
( 1 ) کہتے ہیں """ اللہ کو اُوپر (یعنی عرش )پر مانا جائے تو اللہ تعالیٰ کے لیے مکان (یعنی کوئی جگہ )ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ کفر ہے """ ۔
گو کہ کفر کے اِس فتوے کی اُنکے پاس کوئی دلیل نہیں سوائے منطق اور فلسفہ زدہ باتوں کے، لیکن بُرا ہو جہالت پر مبنی اِس ضد اور تعصب کا کہ جو اپنے کلمہ گو مسلمان بھائی بہنوں کو کافر کہلوا دیتا ہے ،
( 2 ) اور کہا جاتا ہے کہ """ اللہ کو عرش سے اوپرماننے سے اللہ کے لیے ایک سمت کا تعین ہو جاتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کو ایک سمت میں مان لیا جائے تو باقی سمتیں اُس سے غائب ہو جاتی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے شان شایان نہیں بلکہ اللہ کے فرمان ﴿
أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ:::بے شک اللہ ہر چیز کا أحاطہ کیے ہوئے ہے﴾سُورت فُصلت(41)/آیت 54،کے خلاف ہے """ ۔
یہ فلسفہ بھی ان کی جہالت کی دلیل ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہر چیز کو احاطہ کرنے کو معاذ اللہ ، چیزوں کو اللہ پاک کے وجود میں ، یا اُس کے وجود پاک کے ساتھ متصل ہونا سمجھتے ہیں ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی صِفات کی اپنی ذاتی سوچوں کی بنا پر تاویل کرتے کرتے اُن کی تعطیل کر تے ہوئے اُن کے انکار کا شکار ہو جاتے ہیں ، و لاحول و لا قوۃ الا اباللہ ،
( 3 ) اور کہا جاتا ہے کہ """ اِس طرح اللہ کی مخلوق سے مُشابہت ہو جاتی ہے اور یہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ:::اللہ کےجیسی کوئی چیز نہیں﴾سُورت الشُوریٰ(42)/آیت11"""۔
اس آیت مبارکہ کو بھی اپنی ذاتی فِکر کے مطابق سجھنے والوں نے اس کے دُوسرے حصےکی طرف کوئی توجہ کیے بغیر اپنی ذاتی سوچوں اور جہالت زدہ قران فہمی کی بنا پر سمجھا اور حقیقت کے بر عکس مفہوم لے کر اس کی ضد کرنے لگے ،
سابقہ صفحات میں اِن شبہات کے باطل ہونے کے أتنے دلائل ذِکر کیے جا چکے ہیں جو اِن شاء اللہ کافی سے بھی زیادہ ہیں لیکن پھر بھی اُن دِلوں اور دِماغوں کے لیے جو عِلم الکلام ،منطق اور فلسفہ وغیرہ کے جھانسے میں حق سے دُور ہیں اور حق کو پرکھنے کے لیے ان چیزوں کو کسوٹی بناتے ہیں ، ایسے دِلوں اور دِماغوں کے لیے اب اِن شاء اللہ اِن مذکورہ بالا شکوک وشبہات کا کچھ منطقیانہ اور فلسفیانہ جواب دیتا ہوں تا کہ قارئین کرام پر اللہ تعالیٰ کے حُکم سے اور اُس کی رضا کے ساتھ اِن شبہات کی حقیقت بالکل واضح ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ ان سب کو ان شکوک و شبہات کے چُنگل سے آزاد فرما کر حق قُبُول کرنے والوں میں سے بنا دے ۔