• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے ایک ہونے کا مطلب کیا ہے؟

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
صرف اللہ جو چاہے کر سکتا ہے

البتہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اور جس کے لئے چاہے ، یہ اصول ٹوٹ سکتے ہیں۔ ایک مردہ آدمی صرف اللہ کے اِذن اور چاہنے سے زندہ ہو سکتا ہے۔ اور ایک بوڑھا آدمی یا نومولود بچہ صرف اللہ کے چاہنے سے یکایک جوان ہو سکتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن چونکہ ایسے کام صرف اور صرف اللہ کی قدرت اور اختیار میں ہیں (کیونکہ اسباب صرف اسی کے محکوم ہیں اور وہ ان کے قوانین سے بالا ہے) اس لئے اگر ایسے کسی کام کا کہیں واقع ہونا ثابت ہو جائے تو ان کا کرنے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ماننا چاہیے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اسباب کی پابندی میں تمام انسان یکساں ہیں

اللہ تعالیٰ نے کسی بھی قسم کی مخلوق کے لئے جو اسباب مقرر فرما دیے ہیں، وہ اس مخلوق کے تمام افراد کے لئے یکساں حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ انسانوں کے کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو اسباب طے کر دیے ہیں وہ تمام انسانوں کے لئے ایک جیسے ہیں۔ ان اسباب کو استعمال کرنے کی صلاحیت مختلف انسانوں میں کم زیادہ ضرور ہو سکتی ہے لیکن کوئی انسان ان اسباب سے کسی بھی معاملہ میں بالکل آزاد نہیں رہ سکتا۔ انبیاء علیہم السلام بھی انسان اور بشر تھے۔ وہ کھاتے تھے، پیتے تھے اور بازاروں میں اشیائے ضرورت کی خرید و فروخت کے لئے آتے جاتے تھے۔

انہیں بھی تکالیف اور پریشانیاں محسوس ہوتی تھیں۔ بلکہ سب انسانوں میں سب سے زیادہ تکالیف انبیاء علیہم السلام نے ہی اٹھائی ہیں۔ اگر وہ اسباب کے بغیر زندگی گزارنے کی قوت رکھتے ہوتے، یا اُن پر اپنی مرضی کے مطابق قدرت رکھتے ہوتے تو سب سے پہلے اپنے آپ کو کھانے پینے کی سے آزاد کرتے، اور جن جن اسباب سے ان کو تکالیف پہنچتی تھیں ان کو اپنے سے دور کر دیتے۔ کون ہے جو طاقت رکھنے کے باوجود خواہ مخواہ تکلیفیں اور پریشانیاں اُٹھاتا رہے؟!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اللہ اپنے اختیار کا اظہار کس طرح کرتا ہے؟

البتہ بعض بہت ہی خاص حالات میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے اپنے برگزیدہ بندوں (انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام) سے کچھ ایسے کام کروا دیتا ہے جو دراصل خود ان کی طاقت و اختیار سے باہر ہوتے ہیں، اور دنیا کے عام طبیعی قانون سے ہٹ کر واقع ہوتے ہیں۔ ایسے کام بہت شاذ و نادر ہوتے ہیں اور ان کے ہونے میں ان ہستیوں کی مرضی اور چاہت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ نہ ہی ان ہستیوں کو لازمی طور پر ان اُمور کے ہوجانے کا پہلے سے علم ہوتا ہے۔ ایسے کام اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام سے ظاہر کرائے تو وہ معجزات کہلاتے ہیں۔ اور اگر یہ دیگر نیک ہستیوں سے صادر ہوں تو کرامات کہلاتے ہیں۔ معجزات و کرامات کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی مدد بھی کرتا ہے اور دیگر لوگوں کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ وہ اللہ پر ایمان لے آئیں۔

صرف انہی معجزات پر ایمان رکھنا ضروری ہے جو قرآن اورصحیح احادیث سے ثابت ہوں۔ باقی رہیں کرامات، تو جب تک روایتوں کا سچا ہونا ثابت نہ ہو جائے، کسی کرامت کو بیان نہیں کرنا چاہیے۔ نیز، عمومی طور پر تو کرامات کے وقوع پر یقین رکھا جائے لیکن (خصوصاً موجودہ دور یا ماضی قریب کے) کسی خاص واقعے کی نسبت سے کسی کرامت پر ایمان رکھنا لازمی نہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
معجزات انبیاء کے اختیار میں نہیں ہوتے

معجزہ یا کرامت کاہونا اس بات کی دلیل ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ جس ہستی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر کیا گیا ہے، وہ مادی اسباب کو استعمال کئے بغیر جو چاہے کر سکتی ہے، یا جو سبب جس خاص کام کے لئے بنایا گیا ہے وہ اس کے اندر سے اس کی تأثیر نکال سکتی ہے۔ یا یہ کہ اسباب اس کے محکوم ہیں اور وہ ہستی غیبی اختیارات رکھتی ہے۔

مثلاً آگ کا کام جلانا ہے۔ کوئی بھی شخص، چاہے وہ نبی ہو یا ولی یا عام آدمی، آگ سے جلانے کی تأثیر کوئی اور مادی سبب استعمال کئے بغیر ختم نہیں کر سکتا۔ جو بھی انسان عام حالات میں، کوئی کیمیکل یا مخصوص لباس استعمال کیے بغیر آگے میں داخل ہو گا، آگ اُسے ضرور جلائے گی۔ البتہ معجزہ یا کرامت کا واقع ہونا اس بات کی دلیل ضرور ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے کسی کام کو اس کے اسباب کے بغیر واقع کروا دے یا کسی کام کے لئے موجود سبب میں سے اس کی تأثیر نکال دے۔ مثلاً چاند کا دو ٹکڑے ہو کر دوبارہ جڑ جاناعام حالات میں کسی انتہائی غیر معمولی سبب کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس معجزے کو بغیر کسی سبب کے مشرکینِ مکہ کے سامنے رسول اللہ e پر ظاہر فرمایا۔

اسی طرح آگ کا کام جلانا ہے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا تو وہ اپنی جلانے کی تأثیر کھو بیٹھی اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہو گئی۔

اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی نبی علیہ السلام کو معجزہ پر قادر یا مختار نہیں بنایا ،کہ وہ جب چاہیں اپنی قوم کے سامنے اس کا مظاہرہ کر لیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انبیاء علیہ السلام کے بغیر ہی اپنے معجزات لوگوں پر ظاہر کردیتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت اور طریقہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اس نے ہر قوم میں اپنی عبادت کی دعوت اسی قوم کے کسی فرد کو رسول بنا کربھیجی۔اور ایک بھی حکم بغیر رسول کے نازل نہیں فرمایا۔پس یہ بھی اسی حکمت کا تقاضہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے معجزات کا اظہار اپنے رسولوں کے ذریعے فرمایا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اللہ اپنے اختیارات کسی کو نہیں دیتا

غرض ایک بندہ کی مرضی اور چاہت ہے اور ایک اللہ کی مرضی اور چاہت۔ اور اسی طرح ایک بندہ کی قدرت و اختیار ہے اور ایک اللہ کی قدرت و اختیار۔ اللہ کی قدرت و اختیار اس قدر وسیع ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اسی کا غلام اور محکوم ہے، اور وہ اپنی ہر مرضی اور چاہت پوری کر سکتا ہے۔

اور بندہ خواہ نبی ہو یا ولی، اس کا اختیار اس قدر محدود، بلکہ اس قدر بے اختیار کہ مالک کے طے کردہ اسباب و قوانین کے تحت اسی کی غلامی کا پابند ہے۔ بھلا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو کیا ضرورت کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز پر بھی اپنے کسی بندہ کو ایک ذرہ کے برابر بھی اپنے اختیار کے جیسا اختیار عطا فرمائے؟ اور اگر وہ ایسا کر لیتا تو اس طرح تو پھر وہ اپنی مخلوق کو خود ہی اپنے ساتھ شریک کر لیتا۔

گو ایک چھوٹی سی چیز پر ہی سہی اور ایک ذرہ کے برابر ہی سہی۔! (نعوذ باﷲ)۔ پھر اگر معاذ اللہ کسی ہستی کا ایک ذرہ کے برابر بھی کسی چیز کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کا شریک یا اس کے جیسا ہونا ممکن ہوتا تو پھر اس سے زیادہ ہونے میں بھلا کیا رکاوٹ تھی؟ جب یہ ممکن ہو سکتا تھا تو پھر یہ بھی ممکن ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی ہستی (مثلاً نبی یا ولی) کو کسی چیز کے معاملے میں ’’ہرطرح سے‘‘ اپنے اختیار جیسا اختیار عطا فرما دیتا۔!! پھر جب ایک ’’ایک چیز کے معاملے میں‘‘ کسی مخلوق کو اللہ کی طرف سے اس کے اپنے اختیار جیسا اختیار عطا ہو سکتا تھا تو پھر ’’تمام چیزوں کے معاملے میں‘‘ اسی کے اختیار جیسا اختیار کیوں نہ عطا ہو سکتا تھا؟؟ اس طرح خالق اور مخلوق کے درمیان کیا خاص فرق باقی رہ جاتا؟ پھر اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو لوگوں کے پاس کس چیز کی دعوت دینے کے لئے بھیجتا؟؟

اسباب کو انبیاءعلیہم السلام اور اولیاء کرام کا محکوم سمجھ لینا اور ان میں اللہ کے اختیار جیسے اختیارات (چاہے تھوڑے سے ہی ہوں) مان لینا، یہ سوچ لینے سے جائز اور ممکن نہیں ہو جاتا کہ ان انبیاء علیہم السلام اوراولیاء کو یہ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کیے ہیں، انہوں نے اپنے اندر خود سے تھوڑی پیدا کیے ہیں!! اللہ تعالیٰ بہت بلند اور پاک ہے اس بات سے کہ وہ اپنی کسی مخلوق کو کسی معمولی چیز پر بھی اپنے اختیار جیسا اختیار یا کوئی اور صفت ذرہ برابر بھی عطا فرمائے۔ اور پھر انبیاء علیہم السلام کو بھی بھیج دے کہ وہ لوگوں کو شرک سے بچنے تلقین کریں!! کونسا شرک ہو گا اس کے بعد، جس سے انبیاء علیہم السلام لوگوں کو روکیں گے؟
وَ لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا۔
’’اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘ (الکہف:۲۶)۔
وہی ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے

اللہ تعالیٰ کا اختیار یہی تو ہے کہ زمین و آسمان کی ہر ایک مخلوق خواہ جاندار ہو یا بے جان، ہر طرح سے اللہ کے فرمان کی پابند اور اسی کی محکوم ہے۔ اس کے اختیار کی تو یہ شان ہے کہ وہ کام کو ہوجانے کا حکم فرماتا ہے تو کام ہو کر رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور چاہت ہو اور کام نہ ہو، یہ ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتا، کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ پھر کیا اللہ کے سوا کوئی اور ہستی ایسی ہے جس کی جب بھی، جو بھی چاہت ہو، وہ پوری ہو جائے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
کیا انبیاء کرام جو چاہتے ہیں ہوجاتا ہے؟

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو کون محبوب ہو گا؟ تمام مخلوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ معزز و مکرم بھلا کون ہو گا؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی چاہتیں پوری نہ ہو سکیں۔ صرف وہی خواہشیں پوری ہو سکیں جن کا پورا ہونا خود اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آغازِ نبوت میں چاہا کہ مکہ کے سب لوگ اسلام لے آئیں ۔لیکن تیرہ سال تک دعوت دیتے رہنے کے باوجود مٹھی بھر چند افراد کے سوا کسی نے ایمان قبول نہیں کیا۔ یہاں تک کہ مکہ والوں کی بدسلوکیوں کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔

اگراسباب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محکوم ہوتے یعنی ان کے پاس اللہ کے اختیارات جیسے اختیارات (تھوڑے سے ہی) ہوتے تو پھر مکہ کے تمام لوگ آپe کے خواہش کے مطابق اسلام قبول نہ کر لیتے؟؟ پھر کسی میں ہمت ہوتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کوئی تکلیف پہنچانے کا خیال بھی دل میں لاتا؟؟ پھر طائف کے کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارمار کر زخمی کر دینے کی جرات کر سکتے تھے؟

پھر اُحد اور حنین وغیرہ کے میدانوںمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار سے جنگیں لڑنے کی زحمت اور مشقت اٹھانا پڑتی؟ پھر اُحد کی جنگ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوتے؟ اور مسلمانوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا؟؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تمام زندگی تکالیف اور آزمائشوں میں بسر کرنا پڑتی؟؟؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
نبی کریم نے اختیارات کیوں نہیں استعمال کیے؟

اگر کوئی یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اختیارات تو سب تھے لیکن وہ ان کو تب ہی استعمال کرتے تھے جب اور جہاں اللہ کا حکم ہوتا تھا۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ پھر ایسے اختیار کا کیا فائدہ؟ ایسا اختیار کس کام کا جسے آدمی اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق استعمال ہی نہ کر سکے؟ اور جب شروع سے آخر تک ہمیشہ یوں اللہ ہی کی مرضی اور اس کا حکم چلنا ہے تو پھر اللہ اپنا اختیار کسی کو عطا ہی کیوں فرمائے گا؟مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دین میں ان کی طاقت کی حدود کے مطابق پابند کیا ہے۔ جو جس کام کا زیادہ اہل ہوتا ہے اس پر اس کام کی ذمہ داری بھی زیادہ ہوتی ہے۔

آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر جنگیں لڑے بغیر کفار پر قابو پانے کی طاقت اور اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے استعمال میں کیوں نہ لانے دیتا؟ یا کم از کم جنگ اُحد میں مسلمانوں کو شکست کھاتا دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی غیبی طاقت کے ذریعے کفار کو پسپائی پر تو مجبور کر ہی سکتے تھے! مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقت کبھی کسی کو ایک لمحہ کے لئے بھی عطا نہیں فرمائی۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اختیار صرف اللہ کا ہے

اللہ تعالیٰ اکیلا و تنہا لوگوں کی عبادتوں کا حقدار اور سزوار ہے۔ کیونکہ صرف وہی تمام طاقتوں، اختیارات اور اقتدار کا مالک ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو اپنی جیسی طاقت یا اختیار ذرہ برابر بھی دیا ہوتا تو پھر اس کی عبادت کرنے سے بھی منع نہیں فرماتا۔کیونکہ اس نے اگرکسی کواپنی صفات میں شا مل اورشریک کرنا تھاتو پھراُسے عبادت میں بھی اپنے ساتھ شریک کرواتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی کی معمولی سی عبادت کرنے کو بھی انتہائی سختی سے منع فرمایا ہے۔ اور تمام انبیاء o کو بھی یہی دعوت دینے کے لئے بھیجا ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے جیسا اختیار ذرا سا بھی کسی کو عطا نہیں فرمایا۔

اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ تَبَارَکَ اﷲُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (الأعراف:۵۴)
’’آگاہ رہو :پیدا کرنااور حکم صادر کرنا اُسی کا حق ہے بہت بابرکت ہے اللہ جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّاآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَـِــیّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (یوسف:۴۰)
’’حکومت صرف اللہ کی ہے۔ اُسی نے حکم دیا ہے کہ تم صرف اُس کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا دین ہے۔ مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
کیا وفات کے بعد اختیارات میں اضافہ ممکن ہے؟

بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام اپنی زندگیوں میں نہیں، تو وفات کے بعد ضروربہت سے غیبی اختیارات اور قدرتوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ پھر وہ دور و نزدیک ہر جگہ سے لوگوں کی پکاروں کو سنتے ہیں، ان کی مدد کو حاضر ہوتے ہیں اور مشکل کشائی فرماتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ غرض کئی معاملات میں جس طرح چاہتے ہیں، کرتے ہیں۔ گویا دنیا کے بہت سے اسباب و قوانین ان کے حکم کے غلام بن جاتے ہیں۔

یہ ایک اور نہایت تعجب خیز دعویٰ ہے، جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ اس بات کی تائید قرآن میں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال وغیرہ میں کہیں بھی سرسری طور پر بھی نہیں ملتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں تو قطعاً ایسی بات ارشاد نہیں فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب کسی زندہ شخص کی ملاقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممکن نہیں۔ پھر لوگوں کو عقیدے کے طور پر یہ بات کہاں سے ملی؟ درحقیقت یہ لوگوں کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں جو شیطان نے ان کے دلوں میں ڈال دی ہیں، تاکہ انسانوں کو نجات کی راہ سے دور بھٹکا سکے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
روحوں کو دنیا میں آنے کی ضرورت نہیں

پھر انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام جیسی انتہائی مکرم ہستیوں کی ارواحِ مبارکہ کو اللہ تعالیٰ کے پاس جنتوں میں جو نعمتیں نصیب ہیں اور جو راحتیں میسر ہیں، ان کے ہوتے ہوئے انہیں بھلا کیا ضرورت ہے کہ وہ دوبارہ اس مادی دنیا سے اپنا تعلق قائم کرنے کی فکر فرمائیں؟ اگر کوئی یہ کہے کہ ان انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کی روحوں کا دنیا میں تشریف لانا، ان کی اپنی ضروریات کے لئے تو نہیں ہوتا البتہ وہ اپنے نام لیواؤں اور ماننے والوں کی مدد اور دستگیری کرنے اور انہیں برکات عطا کرنے کے لئے ضرور تشریف لاتے ہیں۔

نیز گنہگار مسلمانوں کی فریادوں اور حاجات کو سن کر وہ انہیں اللہ کے دربار میں پیش بھی فرماتے ہیں، تو پھر ان لوگوں سے سوال یہ ہے کہ نعوذ باللہ کیا اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی پکاریں، دعائیں، التجائیں اور فریادیں خود سننے کا کام چھوڑ رکھا ہے؟؟ اور اس کام کو انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کی روحوں کے حوالے کر رکھا ہے؟؟ وہ، جس کا علم اور اختیار کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے، وہ کیا لوگوں کے حالات اور ان کی مشکلات و پریشانیوں سے ہر وقت آگاہ و باخبر نہیں ہے؟ وہ ،جس کی نگاہ میں ایک گنہگار مسلمان بھی کسی کافر کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہے، اور جو کفار اور اپنے نہ ماننے والوں کو تو بِن مانگے ہی برابر رزق اور نعمتیں دیے جاتا ہے، وہ کیا اپنے ماننے والوں، مسلمانوں کی پکاروں اور التجاؤں کو بھی نہیں سنے گا؟ اور انہیں صرف اُسی سے مانگنے پر بھی عطا نہیں فرمائے گا؟؟

روحیں کسی کی مدد نہیں کر سکتیں

یہ بھی بڑی ہی عجیب بات ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء جو نہ لوگوں کے خالق ہوں اور نہ مالک، جو لوگوں کو نہ پیدا کر سکتے ہوں، نہ انہیں موت دیتے ہوں، اور نہ انہیں رزق دیتے ہوں، بلکہ خود پیدا کئے گئے ہوں، وہ خود اپنی وفات کے بعد تو دُور و نزدیک سے لوگوں کی پکار وں اور التجاؤں کو سن لیتے ہوں، اور ان کی ہر قسم کی مدد کے لئے ہر جگہ، ہر وقت حاضر ہو سکتے ہوں…،لیکن اللہ ربُّ العالمین، جو ہر ایک شے کا تنہا خالق و مالک ہو، جو لوگوں کو پیدا بھی کرتا ہو اور خود ہی اپنے اختیار سے انہیں موت دیتا ہو، جو اکیلا لوگوں کو رزق دیتا ہو اور انہیں کھلاتا پلاتا ہو، جس کے علم اور قدرت نے ہمیشہ سے کائنات کی ہر ایک شے کو ہر آن گھیرے میں لے رکھا ہو…، جو نہایت درجہ مہربان، بخشنے والا، معاف کرنے والا، رحم کرنے والا اور عطا فرمانے والا ہو، اور خود سے مانگے جانے پر بہت ہی خوش ہوتا ہو، … وہ نہ تو اپنے بندوں کی فریادیں اور دعائیں سنے اور نہ مشکل وقت میں، دعا کرنے پر بھی، اپنے بندوں کی مدد و دستگیری فرمائے! بلکہ اس تمام کام کو فوت شدہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء پر چھوڑ دے!!!۔ سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ کیسی نادانی ،جہالت اور سراسر دھوکے اور خسارے کی بات ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔! اللہ انہیں ہدایت دے۔ آمین۔
 
Top