اللہ اپنے اختیارات کسی کو نہیں دیتا
غرض ایک بندہ کی مرضی اور چاہت ہے اور ایک اللہ کی مرضی اور چاہت۔ اور اسی طرح ایک بندہ کی قدرت و اختیار ہے اور ایک اللہ کی قدرت و اختیار۔ اللہ کی قدرت و اختیار اس قدر وسیع ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اسی کا غلام اور محکوم ہے، اور وہ اپنی ہر مرضی اور چاہت پوری کر سکتا ہے۔
اور بندہ خواہ نبی ہو یا ولی، اس کا اختیار اس قدر محدود، بلکہ اس قدر بے اختیار کہ مالک کے طے کردہ اسباب و قوانین کے تحت اسی کی غلامی کا پابند ہے۔ بھلا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو کیا ضرورت کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز پر بھی اپنے کسی بندہ کو ایک ذرہ کے برابر بھی اپنے اختیار کے جیسا اختیار عطا فرمائے؟ اور اگر وہ ایسا کر لیتا تو اس طرح تو پھر وہ اپنی مخلوق کو خود ہی اپنے ساتھ شریک کر لیتا۔
گو ایک چھوٹی سی چیز پر ہی سہی اور ایک ذرہ کے برابر ہی سہی۔! (نعوذ باﷲ)۔ پھر اگر معاذ اللہ کسی ہستی کا ایک ذرہ کے برابر بھی کسی چیز کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کا شریک یا اس کے جیسا ہونا ممکن ہوتا تو پھر اس سے زیادہ ہونے میں بھلا کیا رکاوٹ تھی؟ جب یہ ممکن ہو سکتا تھا تو پھر یہ بھی ممکن ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی ہستی (مثلاً نبی یا ولی) کو کسی چیز کے معاملے میں ’’ہرطرح سے‘‘ اپنے اختیار جیسا اختیار عطا فرما دیتا۔!! پھر جب ایک ’’ایک چیز کے معاملے میں‘‘ کسی مخلوق کو اللہ کی طرف سے اس کے اپنے اختیار جیسا اختیار عطا ہو سکتا تھا تو پھر ’’تمام چیزوں کے معاملے میں‘‘ اسی کے اختیار جیسا اختیار کیوں نہ عطا ہو سکتا تھا؟؟ اس طرح خالق اور مخلوق کے درمیان کیا خاص فرق باقی رہ جاتا؟ پھر اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو لوگوں کے پاس کس چیز کی دعوت دینے کے لئے بھیجتا؟؟
اسباب کو انبیاءعلیہم السلام اور اولیاء کرام کا محکوم سمجھ لینا اور ان میں اللہ کے اختیار جیسے اختیارات (چاہے تھوڑے سے ہی ہوں) مان لینا، یہ سوچ لینے سے جائز اور ممکن نہیں ہو جاتا کہ ان انبیاء علیہم السلام اوراولیاء کو یہ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کیے ہیں، انہوں نے اپنے اندر خود سے تھوڑی پیدا کیے ہیں!! اللہ تعالیٰ بہت بلند اور پاک ہے اس بات سے کہ وہ اپنی کسی مخلوق کو کسی معمولی چیز پر بھی اپنے اختیار جیسا اختیار یا کوئی اور صفت ذرہ برابر بھی عطا فرمائے۔ اور پھر انبیاء علیہم السلام کو بھی بھیج دے کہ وہ لوگوں کو شرک سے بچنے تلقین کریں!! کونسا شرک ہو گا اس کے بعد، جس سے انبیاء علیہم السلام لوگوں کو روکیں گے؟
وَ لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا۔
’’اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘ (الکہف:۲۶)۔
وہی ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ کا اختیار یہی تو ہے کہ زمین و آسمان کی ہر ایک مخلوق خواہ جاندار ہو یا بے جان، ہر طرح سے اللہ کے فرمان کی پابند اور اسی کی محکوم ہے۔ اس کے اختیار کی تو یہ شان ہے کہ وہ کام کو ہوجانے کا حکم فرماتا ہے تو کام ہو کر رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور چاہت ہو اور کام نہ ہو، یہ ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتا، کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ پھر کیا اللہ کے سوا کوئی اور ہستی ایسی ہے جس کی جب بھی، جو بھی چاہت ہو، وہ پوری ہو جائے؟