• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے ایک ہونے کا مطلب کیا ہے؟

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
روحوں کی واپسی ممکن ہی نہیں

اصل بات یہ ہے کہ وفات کے بعد تمام انسانوں کی روحیں جس دنیا میں چلی جاتی ہیں وہ قطعاً غیر مادی، اور ہماری اس دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ اُس دنیا کے اسباب و قوانین اِس دنیا کے اسباب و قوانین سے بالکل جداا ور مختلف ہیں۔ نہ اِس دنیا کی کوئی مخلوق اُس دنیا کے معاملات میں کوئی مداخلت کر سکتی ہے اور نہ اُس دنیا کی کوئی مخلوق اِس دنیا کے معاملات پر اپنا کوئی اثر ڈال سکتی ہے۔ وفات کے ساتھ ہی بندہ کا مادی دنیا سے تعلق ختم ہو جاتا ہے اور اس کی ’’آخرت‘‘ شروع ہو جاتی ہے۔ اس لئے اس دوسری دنیا کو ’’دنیائے آخرت‘‘ یا ’’اُخروی دنیا‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔

قبر میں بھی بندہ کی رُوح کا اس کے جسم کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے وہ اُخروی دنیا کے قوانین کے مطابق ہی ہوتا ہے، نہ کہ ہماری اس مادی دنیا کے قوانین کے مطابق۔ اسی لئے اس تعلق کے باوجود مردہ، مردہ ہی رہتا ہے، زندہ نہیں ہو جاتا۔ نہ ہمیں اُس کے حال کی کچھ خبر ہوتی ہے کہ اُس پر کیا گزر رہی ہے اور نہ اُسے ہمارے حالات کا کچھ پتہ ہوتا ہے (سوائے اس کے کہ اللہ خود ہی اپنی قدرت سے کچھ اُس کے علم میں لے آئے۔ البتہ خود اُس کے پاس جاننے کی کچھ طاقت نہیں ہوتی)۔ ورنہ اگر روحوں کا اِس دنیا میں آنا اور اِس میں تصرفات کرنا ممکن ہوتا تو وہ اپنے اصل جسموں میں لوٹ کر پہلے کی طرح زندہ انسانوں کے روپ میں واپس آتیں۔ لیکن یہ تمام انسانوں کا متفقہ مشاہدہ ہے کہ کوئی انسان مرنے کے بعد زندہ نہیں ہوتا چاہے وہ نیک ہو یا بد۔ ورنہ آج دنیا میں قبرستان ہی نہ ہوتے۔

چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کو ان کی زندگیوں میں غیبی اختیارات اور قدرتوں کا حامل ماننا جس قدر غلط ہے اس سے کہیں زیادہ غلط اور خطرناک ان کو وفات کے بعد انہی اختیارات کا مالک سمجھنا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
معجزات سے لوگوں کو غلط فہمی

انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ کی قدرت اور اختیارات کو ثابت کرنے کے لئے ان کی زندگیوں سے جتنے واقعات پیش کئے جاتے ہیں ان میں سے کئی ایک بے سند ہوتے ہیں اور باقی واقعات معجزات و کرامات کی قبیل سے ہوتے ہیں۔ جن کے بارے میں پیچھے بیان ہو چکا ہے کہ ایسے واقعات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اِذن اور اختیار سے پیش آتے ہیں اور ان میں انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کے اختیار اور مرضی کا کچھ دخل نہیں ہوتا۔ تاہم کچھ لوگ معجزت و کرامات کے واقعات سے غلطی میں پڑجاتے ہیں اور یہ نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں کہ اللہ نے یقینا اپنے ان بندوں کو ایسی غیبی قوتیں عطا کر رکھی تھیں جن کی مدد سے وہ بعض کاموں کو اسباب کے بغیر سرانجام دے لیا کرتے تھے، یا بعض کاموںمیں اسباب کے پابند نہیں تھے بلکہ اسباب ان کے محکوم تھے۔ اس بناء پر وہ ان ہستیوں کو بعض یا اکثر معاملات میں نفع و نقصان کا مالک سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں وہ خود بخود ان ہستیوں سے اُمّید، خوف اور حد درجہ تعظیم وابستہ کر لیتے ہیں۔

جس کا لازمی نتیجہ پھر یہ نکلتا ہے کہ مصائب اور مشکل حالات میں وہ ان ہستیوں کو پکارنا، ان پر توکل کرنا اور ان سے مدد طلب کرنا، نیز اللہ کی مدد کے لئے ان کا وسیلہ پکڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور اس طرح وہ شرکِ اکبر کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ اس سب کی بنیاد ان کا یہ غلط نظریہ ہوتا ہے کہ اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے (خواہ وہ فوت ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں) جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ یعنی وہ اسباب کے پابند نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ غیب کا علم رکھنے، لوگوں کے دلوں کا حال جان لینے اور ان کی پکاریں سن کر ہر جگہ ان کی مشکل کشائی اور مدد کرنے کی قدرت رکھنے ایسے کاموں کے لئے مادی دنیا میں کوئی سبب نہیں پایا جاتا۔

لہٰذا انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیا اللہ کو ان صفات کا حامل سمجھنے والے اُنہیں اسباب سے بلند ہی مان رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ جو اسباب کا پابند ہوتا ہے وہ اپنی مرضی سے ہر قسم کا کام نہیں کر سکتا۔ اور جو اپنی مرضی سے سب کچھ کر سکتا ہے وہ اسباب کا پابند نہیں ہوتا۔ اور ایسی صرف اللہ کی ذات ہے۔ اور یہی فرق ہے خالق اور مخلوق میں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
عبادت اور اِلٰہ کا مفہوم

مشرکینِ مکہ اور باقی ہر دور کے مشرکین نے ٹھیک یہی غلطی اپنے جھوٹے معبودوں کے بارے میں کی تھی۔ انہوں نے اپنی پسندیدہ ہستیوں کو اسباب سے بلند مان کر انہیں نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہوئے ان سے رغبت، خوف اور اُمید رکھنا شروع کر دیا۔ جس کے نتیجے میں ان کے اندر اُن ہستیوں کے لئے عاجزی، خشیت، تعظیم، توکل اور شوقِ قربت پیدا ہو گیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے معاملات میں ان ہستیوں کو پکارنا، ان سے مدد طلب کرنا اور ان کا وسیلہ پکڑنا شروع کر دیا۔ یہی چیز ہے جو اصل میں عبادت کہلاتی ہے۔ اور جن جن ہستیوں کے لئے یہ اعمال و کیفیات رَوا رکھی جائیں وہ دراصل اِلٰہ یا معبود ہیں۔

اللہ ہی ہے جو، جو چاہے کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ کیونکہ وہی تمام اشیاء اور اسباب کا خالق، مالک اور حاکم ہے۔ صرف اُسی کا حق ہے کہ اس کے لئے عاجزی، ذلت، انکساری، خشیت، خوف، محبت اور اُمید اختیار کی جائے۔ صرف اور ہمیشہ اسی پر توکل رکھتے ہوئے اس کو پکارا جائے، حد درجہ تعظیم کے ساتھ صرف اس سے مدد مانگی جائے اور اس کے پاک ناموں اور صفات کا وسیلہ پکڑا جائے۔ یعنی عبادت ہو تو صرف اللہ کی، کیونکہ صرف وہی اس کے لائق ہے۔ وہی سچا اِلٰہ ہے اور حقیقی معبود ہے۔ باقی تمام ہستیاں جن کی عبادت لوگ اللہ کو چھوڑ کر کرتے ہیں، وہ جھوٹے اِلٰہ اور معبودانِ باطلہ ہیں۔
لَا اِلٰہ اِلا اﷲ
نہیں ہے کوئی اِلٰہ (معبود) اللہ کے سوا …
اللہ کی عبادت کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرنا شرک ہے جس کا مرتکب اسلام سے خارج اور (اگر پکی توبہ نہ کرے تو مرنے کے بعد) دائمی جہنمی ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
زندگی کا اصل اور اولین مقصد

صرف اللہ کو اِلٰہ ماننا، یعنی تمام اقسام کی عبادات (جیسے دعا، پکار، مدد طلب کرنا، نذر، قربانی، ذبیحہ، طواف، قیام، سجدہ وغیرہ) اور عبادات پر مبنی احساسات و کیفیات (مثلاً خوف، امید، توکل، محبت، تعظیم وغیرہ) کو اسی کے لئے خاص کرنا توحید ِاُلُوہیت یا توحید ِعبادت کہلاتا ہے۔ اسی توحید ِعبادت کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام کو وقتاً فوقتاً دنیا میں بھیجا۔ بلکہ انسانوں اور جنوں کو بھی صرف اس لئے پیدا فرمایا کہ وہ توحید ِ عبادت پر عمل و یقین رکھیں۔

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات:۵۶)
’’اور میں نے جن و انس اسی لئے تو پیدا کئے ہیں کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔‘‘
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
کلمہء طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ کا بنیادی مفہوم

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی ہستی (نبی، ولی، جن و انس، شجر، حجر وغیرہ) ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی کسی ایک صفت یا خاصیت میں ذرہ برابر بھی حصہ رکھتی ہو۔ جسے وسائل اور اسباب کے بغیر کائنات کے ایک ذرہ پر بھی معمولی سی قدرت یا اختیار ہو۔ جو ہر وقت، ہر جگہ، ہر چیز کا علم رکھنے والی اور کنٹرول رکھنے والی ہو۔ لوگوں کی سب حاجات پوری کرنا اور مشکلات دور کرنا جس کے بس میں ہو۔

جو دُور و نزدیک ہر جگہ سے لوگوں کی پکاریں سنتی ہو، اور پکارے جانے کے لائق ہو۔ ہر قسم کی نذر ونیاز اور قربانی جس کے نام پر کی جانا اُس کا حق ہو۔ جس کے واسطے اور وسیلے سے دعائیں مانگی جائیں۔ جسے حد درجہ تعظیم دی جائے۔ جس سے بے پناہ محبت، اُمید اور خوف رکھا جائے۔ جس کے حضور قیام، رکوع اور سجدہ ہو۔ قانون بنانا، حکم چلانا اور غیر مشروط و کامل اطاعت جس کا حق ہو۔ سب جس کے بندے اور محتاج ہوں۔ یقینا ایسی کوئی ذات نہیں…۔ ایک اللہ کے سوا۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲکا مطلب یہ ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے آخری رسول، اس کے بندے اور بشر ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی ایک ایک سنت حرف ِ آخر اور ایک ایک حکم واجب الاطاعت ہے۔ ان کے قول و عمل کے مقابلے میں کسی کا قول و عمل ہرگز توجہ کے قابل نہیں ہے۔ اور ان کے ہر قول و عمل کی وہی تعبیر معتبر ہے جو صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ دین کے نام پرکی جانے والی ہر چیز جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ سے ثابت نہ ہو، وہ بدعت، گمراہی اور قابل رد ّ ہے۔

ان عقائد کا حامل اور فاعل ہی کلمہ کے اقرار میں سچا سمجھے جانے کا مستحق اور جنت کا اُمیدوار ہونے کا حقدار ہے۔

------------------- ختم شد -------------------
 
Top