• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے ایک ہونے کا مطلب

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
معجزات انبیاء کے اختیار میں نہیں ہوتے:
معجزہ یا کرامت کاہونا اس بات کی دلیل ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ جس ہستی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر کیا گیا ہے، وہ مادی اسباب کو استعمال کئے بغیر جو چاہے کر سکتی ہے، یا جو سبب جس خاص کام کے لئے بنایا گیا ہے وہ اس کے اندر سے اس کی تأثیر نکال سکتی ہے۔ یا یہ کہ اسباب اس کے محکوم ہیں اور وہ ہستی غیبی اختیارات رکھتی ہے۔ مثلاً آگ کا کام جلانا ہے۔ کوئی بھی شخص، چاہے وہ نبی ہو یا ولی یا عام آدمی، آگ سے جلانے کی تأثیر کوئی اور مادی سبب استعمال کئے بغیر ختم نہیں کر سکتا۔ جو بھی انسان عام حالات میں، کوئی کیمیکل یا مخصوص لباس استعمال کیے بغیر آگے میں داخل ہو گا، آگ اُسے ضرور جلائے گی۔ البتہ معجزہ یا کرامت کا واقع ہونا اس بات کی دلیل ضرور ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے کسی کام کو اس کے اسباب کے بغیر واقع کروا دے یا کسی کام کے لئے موجود سبب میں سے اس کی تأثیر نکال دے۔ مثلاً چاند کا دو ٹکڑے ہو کر دوبارہ جڑ جاناعام حالات میں کسی انتہائی غیر معمولی سبب کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس معجزے کو بغیر کسی سبب کے مشرکینِ مکہ کے سامنے رسول اللہ e پر ظاہر فرمایا۔ اسی طرح آگ کا کام جلانا ہے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا تو وہ اپنی جلانے کی تأثیر کھو بیٹھی اور سیدنا ابراہیم u پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہو گئی۔
اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی نبیuکو معجزہ پر قادر یا مختار نہیں بنایا ،کہ وہ جب چاہیں اپنی قوم کے سامنے اس کا مظاہرہ کر لیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انبیاءo کے بغیر ہی اپنے معجزات لوگوں پر ظاہر کردیتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت اور طریقہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اس نے ہر قوم میں اپنی عبادت کی دعوت اسی قوم کے کسی فرد کو رسول بنا کربھیجی۔اور ایک بھی حکم بغیر رسول کے نازل نہیں فرمایا۔پس یہ بھی اسی حکمت کا تقاضہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے معجزات کا اظہار اپنے رسولوں کے ذریعے فرمایا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ اپنے اختیارات کسی کو نہیں دیتا:
غرض ایک بندہ کی مرضی اور چاہت ہے اور ایک اللہ کی مرضی اور چاہت۔ اور اسی طرح ایک بندہ کی قدرت و اختیار ہے اور ایک اللہ کی قدرت و اختیار۔ اللہ کی قدرت و اختیار اس قدر وسیع ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اسی کا غلام اور محکوم ہے، اور وہ اپنی ہر مرضی اور چاہت پوری کر سکتا ہے۔ اور بندہ خواہ نبی ہو یا ولی، اس کا اختیار اس قدر محدود، بلکہ اس قدر بے اختیار کہ مالک کے طے کردہ اسباب و قوانین کے تحت اسی کی غلامی کا پابند ہے۔ بھلا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو کیا ضرورت کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز پر بھی اپنے کسی بندہ کو ایک ذرہ کے برابر بھی اپنے اختیار کے جیسا اختیار عطا فرمائے؟ اور اگر وہ ایسا کر لیتا تو اس طرح تو پھر وہ اپنی مخلوق کو خود ہی اپنے ساتھ شریک کر لیتا۔ گو ایک چھوٹی سی چیز پر ہی سہی اور ایک ذرہ کے برابر ہی سہی۔! (نعوذ باﷲ)۔ پھر اگر معاذ اللہ کسی ہستی کا ایک ذرہ کے برابر بھی کسی چیز کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کا شریک یا اس کے جیسا ہونا ممکن ہوتا تو پھر اس سے زیادہ ہونے میں بھلا کیا رکاوٹ تھی؟ جب یہ ممکن ہو سکتا تھا تو پھر یہ بھی ممکن ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی ہستی (مثلاً نبی یا ولی) کو کسی چیز کے معاملے میں ''ہرطرح سے'' اپنے اختیار جیسا اختیار عطا فرما دیتا۔!! پھر جب ایک ''ایک چیز کے معاملے میں'' کسی مخلوق کو اللہ کی طرف سے اس کے اپنے اختیار جیسا اختیار عطا ہو سکتا تھا تو پھر ''تمام چیزوں کے معاملے میں'' اسی کے اختیار جیسا اختیار کیوں نہ عطا ہو سکتا تھا؟؟ اس طرح خالق اور مخلوق کے درمیان کیا خاص فرق باقی رہ جاتا؟ پھر اللہ تعالیٰ انبیاء o کو لوگوں کے پاس کس چیز کی دعوت دینے کے لئے بھیجتا؟؟
اسباب کو انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کا محکوم سمجھ لینا اور ان میں اللہ کے اختیار جیسے اختیارات (چاہے تھوڑے سے ہی ہوں) مان لینا، یہ سوچ لینے سے جائز اور ممکن نہیں ہو جاتا کہ ان انبیاء o اوراولیاء کو یہ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کیے ہیں، انہوں نے اپنے اندر خود سے تھوڑی پیدا کیے ہیں!! اللہ تعالیٰ بہت بلند اور پاک ہے اس بات سے کہ وہ اپنی کسی مخلوق کو کسی معمولی چیز پر بھی اپنے اختیار جیسا اختیار یا کوئی اور صفت ذرہ برابر بھی عطا فرمائے۔ اور پھر انبیاء علیہم السلام کو بھی بھیج دے کہ وہ لوگوں کو شرک سے بچنے تلقین کریں!! کونسا شرک ہو گا اس کے بعد، جس سے انبیاء o لوگوں کو روکیں گے؟
وَ لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا۔
''اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔'' (الکہف:۲۶)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وہی ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے:
اللہ تعالیٰ کا اختیار یہی تو ہے کہ زمین و آسمان کی ہر ایک مخلوق خواہ جاندار ہو یا بے جان، ہر طرح سے اللہ کے فرمان کی پابند اور اسی کی محکوم ہے۔ اس کے اختیار کی تو یہ شان ہے کہ وہ کام کو ہوجانے کا حکم فرماتا ہے تو کام ہو کر رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور چاہت ہو اور کام نہ ہو، یہ ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتا، کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ پھر کیا اللہ کے سوا کوئی اور ہستی ایسی ہے جس کی جب بھی، جو بھی چاہت ہو، وہ پوری ہو جائے؟
کیا انبیاء کرام جو چاہتے ہیں ہوجاتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو کون محبوب ہو گا؟ تمام مخلوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ معزز و مکرم بھلا کون ہو گا؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی چاہتیں پوری نہ ہو سکیں۔ صرف وہی خواہشیں پوری ہو سکیں جن کا پورا ہونا خود اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آغازِ نبوت میں چاہا کہ مکہ کے سب لوگ اسلام لے آئیں ۔لیکن تیرہ سال تک دعوت دیتے رہنے کے باوجود مٹھی بھر چند افراد کے سوا کسی نے ایمان قبول نہیں کیا۔ یہاں تک کہ مکہ والوں کی بدسلوکیوں کی وجہ سے رسول اللہ e کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔ اگر اسباب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محکوم ہوتے یعنی ان کے پاس اللہ کے اختیارات جیسے اختیارات (تھوڑے سے ہی) ہوتے تو پھر مکہ کے تمام لوگ آپe کے خواہش کے مطابق اسلام قبول نہ کر لیتے؟؟ پھر کسی میں ہمت ہوتی کہ رسول کریم e اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کوئی تکلیف پہنچانے کا خیال بھی دل میں لاتا؟؟ پھر طائف کے کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارمار کر زخمی کر دینے کی جرات کر سکتے تھے؟ پھر اُحد اور حنین وغیرہ کے میدانوںمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار سے جنگیں لڑنے کی زحمت اور مشقت اٹھانا پڑتی؟ پھر اُحد کی جنگ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوتے؟ اور مسلمانوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا؟؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تمام زندگی تکالیف اور آزمائشوں میں بسر کرنا پڑتی؟؟؟
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نبی کریم نے اختیارات کیوں نہیں استعمال کیے؟
اگر کوئی یہ کہے کہ رسول اللہ e کے پاس اختیارات تو سب تھے لیکن وہ ان کو تب ہی استعمال کرتے تھے جب اور جہاں اللہ کا حکم ہوتا تھا۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ پھر ایسے اختیار کا کیا فائدہ؟ ایسا اختیار کس کام کا جسے آدمی اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق استعمال ہی نہ کر سکے؟ اور جب شروع سے آخر تک ہمیشہ یوں اللہ ہی کی مرضی اور اس کا حکم چلنا ہے تو پھر اللہ اپنا اختیار کسی کو عطا ہی کیوں فرمائے گا؟مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دین میں ان کی طاقت کی حدود کے مطابق پابند کیا ہے۔ جو جس کام کا زیادہ اہل ہوتا ہے اس پر اس کام کی ذمہ داری بھی زیادہ ہوتی ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر جنگیں لڑے بغیر کفار پر قابو پانے کی طاقت اور اختیار رسول اللہ e کے پاس ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے استعمال میں کیوں نہ لانے دیتا؟ یا کم از کم جنگ اُحد میں مسلمانوں کو شکست کھاتا دیکھ کر رسول اللہ e اپنی غیبی طاقت کے ذریعے کفار کو پسپائی پر تو مجبور کر ہی سکتے تھے! مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقت کبھی کسی کو ایک لمحہ کے لئے بھی عطا نہیں فرمائی۔
اختیار صرف اللہ کا ہے:
اللہ تعالیٰ اکیلا و تنہا لوگوں کی عبادتوں کا حقدار اور سزوار ہے۔ کیونکہ صرف وہی تمام طاقتوں، اختیارات اور اقتدار کا مالک ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو اپنی جیسی طاقت یا اختیار ذرہ برابر بھی دیا ہوتا تو پھر اس کی عبادت کرنے سے بھی منع نہیں فرماتا۔کیونکہ اس نے اگرکسی کواپنی صفات میں شا مل اورشریک کرنا تھاتو پھراُسے عبادت میںبھی اپنے ساتھ شریک کرواتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی کی معمولی سی عبادت کرنے کو بھی انتہائی سختی سے منع فرمایا ہے۔ اور تمام انبیاء o کو بھی یہی دعوت دینے کے لئے بھیجا ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے جیسا اختیار ذرا سا بھی کسی کو عطا نہیں فرمایا۔
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ تَبَارَکَ اﷲُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (الأعراف:۵۴)
''آگاہ رہو :پیدا کرنااور حکم صادر کرنا اُسی کا حق ہے بہت بابرکت ہے اللہ جو تمام جہانوں کا رب ہے۔''
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّاآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَـِــیّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (یوسف:۴۰)
''حکومت صرف اللہ کی ہے۔ اُسی نے حکم دیا ہے کہ تم صرف اُس کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا دین ہے۔ مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔''
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کیا وفات کے بعد اختیارات میں اضافہ ممکن ہے؟
بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام اپنی زندگیوں میں نہیں، تو وفات کے بعد ضروربہت سے غیبی اختیارات اور قدرتوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ پھر وہ دور و نزدیک ہر جگہ سے لوگوں کی پکاروں کو سنتے ہیں، ان کی مدد کو حاضر ہوتے ہیں اور مشکل کشائی فرماتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ غرض کئی معاملات میں جس طرح چاہتے ہیں، کرتے ہیں۔ گویا دنیا کے بہت سے اسباب و قوانین ان کے حکم کے غلام بن جاتے ہیں۔
یہ ایک اور نہایت تعجب خیز دعویٰ ہے، جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ اس بات کی تائید قرآن میں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں اور صحابہ کرام y کے اقوال وغیرہ میںکہیں بھی سرسری طور پر بھی نہیں ملتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں تو قطعاً ایسی بات ارشاد نہیں فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب کسی زندہ شخص کی ملاقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممکن نہیں۔ پھر لوگوں کو عقیدے کے طور پر یہ بات کہاں سے ملی؟ درحقیقت یہ لوگوں کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں جو شیطان نے ان کے دلوں میں ڈال دی ہیں، تاکہ انسانوں کو نجات کی راہ سے دور بھٹکا سکے۔
روحوں کو دنیا میں آنے کی ضرورت نہیں:
پھر انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام جیسی انتہائی مکرم ہستیوں کی ارواحِ مبارکہ کو اللہ تعالیٰ کے پاس جنتوں میں جو نعمتیں نصیب ہیں اور جو راحتیں میسر ہیں، ان کے ہوتے ہوئے انہیں بھلا کیا ضرورت ہے کہ وہ دوبارہ اس مادی دنیا سے اپنا تعلق قائم کرنے کی فکر فرمائیں؟ اگر کوئی یہ کہے کہ ان انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کی روحوں کا دنیا میں تشریف لانا، ان کی اپنی ضروریات کے لئے تو نہیں ہوتا البتہ وہ اپنے نام لیواؤں اور ماننے والوں کی مدد اور دستگیری کرنے اور انہیں برکات عطا کرنے کے لئے ضرور تشریف لاتے ہیں۔ نیز گنہگار مسلمانوں کی فریادوں اور حاجات کو سن کر وہ انہیں اللہ کے دربار میں پیش بھی فرماتے ہیں، تو پھر ان لوگوں سے سوال یہ ہے کہ نعوذ باللہ کیا اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی پکاریں، دعائیں، التجائیں اور فریادیں خود سننے کا کام چھوڑ رکھا ہے؟؟ اور اس کام کو انبیاء o اور اولیاء کی روحوں کے حوالے کر رکھا ہے؟؟ وہ، جس کا علم اور اختیار کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے، وہ کیا لوگوں کے حالات اور ان کی مشکلات و پریشانیوں سے ہر وقت آگاہ و باخبر نہیں ہے؟ وہ ،جس کی نگاہ میں ایک گنہگار مسلمان بھی کسی کافر کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہے، اور جو کفار اور اپنے نہ ماننے والوں کو تو بِن مانگے ہی برابر رزق اور نعمتیں دیے جاتا ہے، وہ کیا اپنے ماننے والوں، مسلمانوں کی پکاروں اور التجاؤں کو بھی نہیں سنے گا؟ اور انہیں صرف اُسی سے مانگنے پر بھی عطا نہیں فرمائے گا؟؟
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
روحیں کسی کی مدد نہیں کر سکتیں:
یہ بھی بڑی ہی عجیب بات ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء جو نہ لوگوں کے خالق ہوں اور نہ مالک، جو لوگوں کو نہ پیدا کر سکتے ہوں، نہ انہیں موت دیتے ہوں، اور نہ انہیں رزق دیتے ہوں، بلکہ خود پیدا کئے گئے ہوں، وہ خود اپنی وفات کے بعد تو دُور و نزدیک سے لوگوں کی پکار وں اور التجاؤں کو سن لیتے ہوں، اور ان کی ہر قسم کی مدد کے لئے ہر جگہ، ہر وقت حاضر ہو سکتے ہوں...،لیکن اللہ ربُّ العالمین، جو ہر ایک شے کا تنہا خالق و مالک ہو، جو لوگوں کو پیدا بھی کرتا ہو اور خود ہی اپنے اختیار سے انہیں موت دیتا ہو، جو اکیلا لوگوں کو رزق دیتا ہو اور انہیں کھلاتا پلاتا ہو، جس کے علم اور قدرت نے ہمیشہ سے کائنات کی ہر ایک شے کو ہر آن گھیرے میں لے رکھا ہو...، جو نہایت درجہ مہربان، بخشنے والا، معاف کرنے والا، رحم کرنے والا اور عطا فرمانے والا ہو، اور خود سے مانگے جانے پر بہت ہی خوش ہوتا ہو، ... وہ نہ تو اپنے بندوں کی فریادیں اور دعائیں سنے اور نہ مشکل وقت میں، دعا کرنے پر بھی، اپنے بندوں کی مدد و دستگیری فرمائے! بلکہ اس تمام کام کو فوت شدہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء پر چھوڑ دے!!!۔
سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ۔
کیسی نادانی، جہالت اور سراسر دھوکے اور خسارے کی بات ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔! اللہ انہیں ہدایت دے۔ آمین۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
روحوں کی واپسی ممکن ہی نہیں:
اصل بات یہ ہے کہ وفات کے بعد تمام انسانوں کی روحیں جس دنیا میں چلی جاتی ہیں وہ قطعاً غیر مادی، اور ہماری اس دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ اُس دنیا کے اسباب و قوانین اِس دنیا کے اسباب و قوانین سے بالکل جداا ور مختلف ہیں۔ نہ اِس دنیا کی کوئی مخلوق اُس دنیا کے معاملات میں کوئی مداخلت کر سکتی ہے اور نہ اُس دنیا کی کوئی مخلوق اِس دنیا کے معاملات پر اپنا کوئی اثر ڈال سکتی ہے۔ وفات کے ساتھ ہی بندہ کا مادی دنیا سے تعلق ختم ہو جاتا ہے اور اس کی ''آخرت'' شروع ہو جاتی ہے۔ اس لئے اس دوسری دنیا کو ''دنیائے آخرت'' یا ''اُخروی دنیا'' بھی کہا جا سکتا ہے۔ قبر میں بھی بندہ کی رُوح کا اس کے جسم کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے وہ اُخروی دنیا کے قوانین کے مطابق ہی ہوتا ہے، نہ کہ ہماری اس مادی دنیا کے قوانین کے مطابق۔ اسی لئے اس تعلق کے باوجود مردہ، مردہ ہی رہتا ہے، زندہ نہیں ہو جاتا۔ نہ ہمیں اُس کے حال کی کچھ خبر ہوتی ہے کہ اُس پر کیا گزر رہی ہے اور نہ اُسے ہمارے حالات کا کچھ پتہ ہوتا ہے (سوائے اس کے کہ اللہ خود ہی اپنی قدرت سے کچھ اُس کے علم میں لے آئے۔ البتہ خود اُس کے پاس جاننے کی کچھ طاقت نہیں ہوتی)۔ ورنہ اگر روحوں کا اِس دنیا میں آنا اور اِس میں تصرفات کرنا ممکن ہوتا تو وہ اپنے اصل جسموں میں لوٹ کر پہلے کی طرح زندہ انسانوں کے روپ میں واپس آتیں۔ لیکن یہ تمام انسانوں کا متفقہ مشاہدہ ہے کہ کوئی انسان مرنے کے بعد زندہ نہیں ہوتا چاہے وہ نیک ہو یا بد۔ ورنہ آج دنیا میں قبرستان ہی نہ ہوتے۔
چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کو ان کی زندگیوں میں غیبی اختیارات اور قدرتوں کا حامل ماننا جس قدر غلط ہے اس سے کہیں زیادہ غلط اور خطرناک ان کو وفات کے بعد انہی اختیارات کا مالک سمجھنا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
معجزات سے لوگوں کو غلط فہمی:
انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ کی قدرت اور اختیارات کو ثابت کرنے کے لئے ان کی زندگیوں سے جتنے واقعات پیش کئے جاتے ہیں ان میں سے کئی ایک بے سند ہوتے ہیں اور باقی واقعات معجزات و کرامات کی قبیل سے ہوتے ہیں۔ جن کے بارے میںپیچھے بیان ہو چکا ہے کہ ایسے واقعات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اِذن اور اختیار سے پیش آتے ہیں اور ان میں انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کے اختیار اور مرضی کا کچھ دخل نہیں ہوتا۔ تاہم کچھ لوگ معجزت و کرامات کے واقعات سے غلطی میں پڑجاتے ہیں اور یہ نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں کہ اللہ نے یقینا اپنے ان بندوں کو ایسی غیبی قوتیں عطا کر رکھی تھیں جن کی مدد سے وہ بعض کاموں کو اسباب کے بغیر سرانجام دے لیا کرتے تھے، یا بعض کاموںمیں اسباب کے پابند نہیں تھے بلکہ اسباب ان کے محکوم تھے۔ اس بناء پر وہ ان ہستیوں کو بعض یا اکثر معاملات میں نفع و نقصان کا مالک سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں وہ خود بخود ان ہستیوں سے اُمّید، خوف اور حد درجہ تعظیم وابستہ کر لیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ پھر یہ نکلتا ہے کہ مصائب اور مشکل حالات میں وہ ان ہستیوں کو پکارنا، ان پر توکل کرنا اور ان سے مدد طلب کرنا، نیز اللہ کی مدد کے لئے ان کا وسیلہ پکڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور اس طرح وہ شرکِ اکبر کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ اس سب کی بنیاد ان کا یہ غلط نظریہ ہوتا ہے کہ اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے (خواہ وہ فوت ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں) جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ یعنی وہ اسباب کے پابند نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ غیب کا علم رکھنے، لوگوں کے دلوں کا حال جان لینے اور ان کی پکاریں سن کر ہر جگہ ان کی مشکل کشائی اور مدد کرنے کی قدرت رکھنے ایسے کاموں کے لئے مادی دنیا میں کوئی سبب نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیا اللہ کو ان صفات کا حامل سمجھنے والے اُنہیں اسباب سے بلند ہی مان رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ جو اسباب کا پابند ہوتا ہے وہ اپنی مرضی سے ہر قسم کا کام نہیں کر سکتا۔ اور جو اپنی مرضی سے سب کچھ کر سکتا ہے وہ اسباب کا پابند نہیں ہوتا۔ اور ایسی صرف اللہ کی ذات ہے۔ اور یہی فرق ہے خالق اور مخلوق میں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عبادت اور اِلٰہ کا مفہوم:
مشرکینِ مکہ اور باقی ہر دور کے مشرکین نے ٹھیک یہی غلطی اپنے جھوٹے معبودوں کے بارے میں کی تھی۔ انہوں نے اپنی پسندیدہ ہستیوں کو اسباب سے بلند مان کر انہیں نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہوئے ان سے رغبت، خوف اور اُمید رکھنا شروع کر دیا۔ جس کے نتیجے میں ان کے اندر اُن ہستیوں کے لئے عاجزی، خشیت، تعظیم، توکل اور شوقِ قربت پیدا ہو گیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے معاملات میں ان ہستیوں کو پکارنا، ان سے مدد طلب کرنا اور ان کا وسیلہ پکڑنا شروع کر دیا۔ یہی چیز ہے جو اصل میں عبادت کہلاتی ہے۔ اور جن جن ہستیوں کے لئے یہ اعمال و کیفیات رَوا رکھی جائیں وہ دراصل اِلٰہ یا معبود ہیں۔​
اللہ ہی ہے جو، جو چاہے کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ کیونکہ وہی تمام اشیاء اور اسباب کا خالق، مالک اور حاکم ہے۔ صرف اُسی کا حق ہے کہ اس کے لئے عاجزی، ذلت، انکساری، خشیت، خوف، محبت اور اُمید اختیار کی جائے۔ صرف اور ہمیشہ اسی پر توکل رکھتے ہوئے اس کو پکارا جائے، حد درجہ تعظیم کے ساتھ صرف اس سے مدد مانگی جائے اور اس کے پاک ناموں اور صفات کا وسیلہ پکڑا جائے۔ یعنی عبادت ہو تو صرف اللہ کی، کیونکہ صرف وہی اس کے لائق ہے۔ وہی سچا اِلٰہ ہے اور حقیقی معبود ہے۔ باقی تمام ہستیاں جن کی عبادت لوگ اللہ کو چھوڑ کر کرتے ہیں، وہ جھوٹے اِلٰہ اور معبودانِ باطلہ ہیں۔
لَا اِلٰہ اِلا اﷲ ...
نہیں ہے کوئی اِلٰہ (معبود) اللہ کے سوا ...
اللہ کی عبادت کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرنا شرک ہے جس کا مرتکب اسلام سے خارج اور (اگر پکی توبہ نہ کرے تو مرنے کے بعد) دائمی جہنمی ہے۔
زندگی کا اصل اور اولین مقصد: صرف اللہ کو اِلٰہ ماننا، یعنی تمام اقسام کی عبادات (جیسے دعا، پکار، مدد طلب کرنا، نذر، قربانی، ذبیحہ، طواف، قیام، سجدہ وغیرہ) اور عبادات پر مبنی احساسات و کیفیات (مثلاً خوف، امید، توکل، محبت، تعظیم وغیرہ) کو اسی کے لئے خاص کرنا توحید ِاُلُوہیت یا توحید ِعبادت کہلاتا ہے۔ اسی توحید ِعبادت کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام کو وقتاً فوقتاً دنیا میں بھیجا۔ بلکہ انسانوں اور جنوں کو بھی صرف اس لئے پیدا فرمایا کہ وہ توحید ِ عبادت پر عمل و یقین رکھیں۔
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات:۵۶)
''اور میں نے جن و انس اسی لئے تو پیدا کئے ہیں کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔''
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بہت بہت شکریہ ساجد بھائی۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔ یارب العالمین۔
اب تو اس بھائی سے رابطہ کئے ہوئے بھی کافی عرصہ گذر گیا ہے۔
اللہ تعالی اسے بھی اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین
 
Top