محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
اللہ کے حکم پر راضی ہونا اس کی شریعت سے فیصلے کرانا اور ان باتوں کااسلام پر راضی ہونے سے کیا تعلق؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
دین اسلام ان عقائد ،احکام شرائع اور آداب کانام ہے جو محمد ﷺاپنے رب کی طرف سے لائے ہیں اسی بات کو اللہ نے اس آیت میں بیان کیا ہے :(لفظ)اسلام میں یہ بات داخل ہے کہ ایک اللہ کو مانا جائے ۔جو شخص اللہ کو مانتا ہے مگر ساتھ ہی کسی اور کی بھی پیروی کرتا ہے وہ مشرک ہے جواللہ کے آگے جھکتا نہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر کرنے والا ہے ۔اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا اور اس کی عبادت سے تکبر کرنے والا کافر ہے۔ایک اللہ کو تسلیم کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ اس اکیلے کی عبادت کی جائے اس اکیلے کی اطاعت کی جائے یہ ہے وہ دین اسلام جس کے علاوہ کسی اور دین کو اللہ قبول نہیں کرتا اس دین سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے ہر حکم کی اطاعت کی جائے اور جب بھی کوئی حکم مل جائے اسے مان لیا جائے (مجموع الفتاوی:۳/۹۱)۔
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اﷲِ الْاِسْلاَمُ۔(آل عمران:۱۹)
اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے۔
یہی بات اللہ نے اس آیت میں بھی بیان کی ہے :
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا۔(مائدہ۳)
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیاہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین چن لیا ہے ۔
دین پر راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جناب محمد ﷺجو غیبی عقائد،تعبدی شعائر،شرعی احکام اور معاشرتی وسیاسی احکام لائے ہیں ان کو پسند کرنا ان پر راضی ہونا ان میں کوئی فرق نہیں سب اللہ اللہ کی طرف سے ہیں جو اللہ یہ حکم دے رہا ہے :
اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ ٰاتُوا الزَّکٰوۃَ۔(بقرہ:۴۳)
نماز قائم کروزکاۃ ادا کرو۔
وہی اللہ یہ بھی فرمارہا ہے:
وَ اَحَلَّ اﷲُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا۔(بقرہ:۲۷۵)
اللہ نے خرید وفروخت حلال کردیاہے اور سودکو حرام قراردیا ہے۔
اسی اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے :
اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۔(نور:۲)
زانی مرداور زانی عورت میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔
وہی اللہ یہ فرمارہا ہے:
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اﷲِ۔(مائدہ:۳۸)
چور مرد چور عورت کے ہاتھ کاٹ دو ان کے لیے کی سزا کے طور پر یہ اللہ کی طرف سے سزاء ہے۔
وہی اللہ یہ بھی فرمارہاہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُودَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ۔(مائدہ:۵۱)
ایمان والو،یہود ونصاریٰ کو دوست مت بناؤ یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں جو انمیں سے کسی کے ساتھ دوستی کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا ۔
جو اللہ یہ بھی فرمارہا ہے:
وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآئَہُمْ وَاحْذَرْہُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اﷲُ اِلَیْکَ۔(مائدہ:۴۹)
ان کے درمیان اس (دین)کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے آپ پر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں ان سے محتاط رہیں کہ کہیں آپ کو اس (دین)سے ورغلانہ دیں جو اللہ نے آپ پر نازل کیا ہے ۔
یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے آیا ہے اور اس دین کا حصہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول ﷺپرنازل کیا ہے دین اسلام پر ایمان اور اسے پسند کرنے کا تقاضا ہے کہ بلا تفریق اللہ کے تمام احکام پر رضامندی ظاہر کی جائے (انہیں اپنایا جائے )اگرچہ خواہشات کے خلاف ہو۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اسلام کو دین کے طور پر اپنانے کا معنی یہ ہے کہ ان تمام احکامات وتشریعات اور آداب کو ماننا جو اللہ نے قرآن میں نازل کیے ہیں یا اللہ کے رسول ﷺکی قولی یا فعلی سنت سے ثابت ہیں اور یہ کہ جو شخص قول یا فعل سے اللہ کی شریعت کو قبول کرنے سے انکار کردے یا اسے ردّ کردے یا کسی ایک حکم کو ردّ کردے تو وہ دین اسلام کا (ماننے والانہیں بلکہ)منکر ہے۔اگرچہ مسلمان کہلائے ایسے اس کے ظاہری اعمال کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا مثلاً نماز ۔روزہ حج وغیرہ اس لیے کہ اسلام کی کچھ بنیادیں ہیں جن کے بغیر اللہ کے ہاں اسلام قبول نہیں ہوتا ۔ان اہم اصولوں میں سے ایک ہے اللہ کے احکام ،دین اور شریعت پر راضی ہونا انہیں پسند کرنا ۔کوئی بھی گروہ ، قوم یا معاشرہ اگر ان کو ردّ کردے گاانہیں اپنی زندگی میں لاگو نہیں کرے گا اپنی زندگی کے ہر ہر شعبے میں اسے نافذ نہیں کرے گا تو یہ اس کی طرف سے اس بات کا واضح اعلان تصور کیا جائے گا کہ وہ دین اسلام کو پسندنہیں کرتا اللہ کے دین کو پسند کرنے اور اس پر ایمان کی واضح دلیل ہے اس شریعت کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا ۔جب بھی کسی قوم میں اللہ کی شریعت نہیں پائی جائے گی جب ان کی زندگی میں اس کا دین غالب نہیں ہوگا تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہوگی کہ ان لوگوں نے اللہ کے دین کو چھوڑدیاہے چاہے وہ اس کا اظہار زبان حال سے کریں یا زبان قال سے ،زبان حال زبان قال سے زیادہ قوت رکھتی ہے ۔اللہ کے دین پر راضی ہونے کا اور اسے پسند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کوئی حکم کرے کوئی کلام ہو اس کا یامنع کرے تو ان سب کو تسلیم کرے اور دل میں اس حکم سے متعلق کوئی تنگی نہ رہے اسے مکمل طور پر اپنائے اگرچہ دلی خواہشات کے خلاف ہویا اپنے امام ،شیخ اور گروہ کے خلاف ہو(مدار ج السالکین شرح منازل السائرین:۲/۱۱۸)۔