ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
لفظ ((مولیٰ )) کی تحقیقإِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ
سورہ التحریم : 4
اس آیت میں لفظ مولاہ حقیقی مدد گا ر یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے بھی آیا ہے اور مجازی مدد گار جیسے جبریل علیہ السلام ، صالح مومینن جیسے حضرت علی اور فرشتوں کے لئے بھی آیا ہے
یہی مولاہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لئے اور حضرت علی کے لئے فرمایا ہے
من كنتُ مولاهُ فعليٌّ مولاهُ
الراوي : عبدالله بن عباس المحدث : الألباني
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 4/336 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح على شرط الشيخين
قرآن و حدیث سے معلوم ہوا کہ حقیقی مدد گار کے لفظ مولاهاستعمال کیا جائے اور مجازی مدد گار کے لئے بھی لفظ مولاهاستعمال کیا جائے تو یہ دونوں جائز ہیں باقی اللہ بہتر جانتا ہے
امید ہے قرآن و حدیث کو ماننے کے دعویٰ دار قرآن حدیث کے اس فیصلے کو دل وجان سے قبول فرمالیں گے
القرآن : يَومَ لا يُغنى ((مَولًى)) عَن ((مَولًى)) شَيـًٔا وَلا هُم يُنصَرونَ {44:41}
جس دن کوئی ((دوست)) کسی ((دوست)) کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کو مدد ملے گی
ذٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ ((مَولَى)) الَّذينَ ءامَنوا وَأَنَّ الكٰفِرينَ لا ((مَولىٰ)) لَهُم {47:11}
یہ اس لئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا ((کارساز)) ہے اور کافروں کا کوئی ((کارساز)) نہیں.
الحدیث :
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں یمن میں جہاد کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک تھا مجھے ان کی طرف سے سختی کا سامنا ہوا لہٰذا جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شان میں کوتاہی کی میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کا رنگ تبدیل ہو رہا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بریدہ ! کیا مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے زیادہ حق نہیں ہے ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جس کا محبوب ہوں تو علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں ۔
[مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 2941 (67970)]
قرآن و حدیث اور لغت عرب میں ”مولیٰ“ کے کئی معنی ہیں: رب‘ مالک‘ مدد گار‘ کارساز‘ آقا‘ سردار‘ آزاد کرنے والا‘ غلام‘ آزاد کردہ غلام اور دوست وغیرہ۔ مفسرین کا اصول ہے کہ: ”القرآن یفسر بعضہ بعضاً“کہ قرآن کریم کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ علماء کرام عربی گرامر کے اصول و قواعد کی روشنی میں ہر لفظ کا معنی‘ مفہوم اور مصداق وہی متعین کرتے ہیں جو اس مقام کے مناسب ہوتا ہے۔ بے شک حقیقی مولیٰ اللہ تعالیٰ ہے‘ اور کمال ولایت اسی کو زیبا ہے‘ جس معنی میں اللہ تعالیٰ کو ”مولیٰ“ کہا جاتا ہے‘ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو ”مولیٰ“ یا ”مولانا“کہنا جائز نہیں‘ لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے غیر اللہ کو مولیٰ کہنا جائز ہے‘ کیونکہ قرآن و حدیث میں یہ لفظ اللہ کے علاوہ دوسروں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے مثلاً: قرآن کریم میں ارشاد ہے:
۱:۔ ”ولکل جعلنا موالی مماترک الوالدان والاقربون۔ (النساء:۳۳) ترجمہ:۔”اور ہر کسی کے لئے ہم نے مقرر کردیئے ہیں وارث اس مال کے کہ چھوڑ مرے ماں باپ اور قرابت والے۔“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے میت کے ورثاء کو ”موالی“ فرمایا ہے‘ جو ”مولیٰ“ کی جمع ہے :وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَآ اَبْكَمُ لَا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰي مَوْلٰىهُ ۙ اَيْنَـمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْرٍ ۭهَلْ يَسْتَوِيْ هُوَ ۙ وَمَنْ يَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ ۔ “ (النحل:76) ترجمہ:۔”اور بتائی اللہ نے ایک دوسری مثال دو مرد ہیں ایک گونگا‘ کچھ کام نہیں کرسکتا اور وہ بھاری اپنے صاحب پر جس طرف اس کو بھیجے نہ کرکے لائے کچھ بھلائی۔“ اس آیت میں غلام کے مالک کو ”مولیٰ“ کہا گیا ہے۔ :۔ ”انی خفت الموالی من ورائی وکانت امرأتی عاقراً۔“ (مریم:۵)
ترجمہ:۔ ”اور میں ڈرتا ہوں اپنے بھائی بندوں سے اپنے پیچھے اور عورت میری بانجھ ہے۔“ اس آیت میں اپنے قرابت داروں کو ”موالی“ کہا گیا ہے جو ”مولیٰ“ کی جمع ہے۔ :۔ ”فان لم تعلموا آباء ہم فاخوانکم فی الدین وموالیکم۔“ (الاحزاب:۵) ترجمہ:۔ ”پھر اگر نہ جانتے ہو ان کے باپ کو تو تمہارے بھائی ہیں دین میں اور رفیق ہیں۔“ اس آیت میں وہ مسلمان بھائی جن کے والد کا علم نہیں‘ ان کو مولیٰ یعنی دوست کہہ کر بلانے کا حکم ہے۔ :۔”مأواکم النار ہی مولاکم وبئس المصیر۔“ (الحدید:۱۵)
ترجمہ:۔”تم سب کا گھر دوزخ ہے وہی ہے رفیق تمہاری اور بُری جگہ جاپہنچے۔“ اس آیت میں کافروں سے کہا گیا کہ دوزخ کی آگ تمہارا ”مولی“ یعنی رفیق ہے۔ ۶:۔’فان اللہ ہو مولاہ وجبریل وصالح المومنین‘ والملائکة یعد ذالک ظہیر۔“ (التحریم:۴) ترجمہ:۔”تو اللہ ہے اس کا رفیق اور جبرئیل اور نیک بخت ایمان والے اور فرشتے اس کے پیچھے مددگار ہیں۔“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ‘ حضرت جبریل اور نیک مسلمانوں کو پیغمبرِ اسلام کا مولیٰ یعنی دوست فرمایا گیا ہے‘ ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو مولا‘ یا مولانا کہنا صحیح اور درست ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو ”مولا“ اور ”مولانا“ فرمایا ہے‘ جیسا کہ کئی احادیث مبارکہ اس پر شاہد ہیں بہر حال حقیقی مولیٰ اللہ تعالیٰ ہے‘ اور کمال ولایت اسی کو زیبا ہے‘ جس معنی میں اللہ تعالیٰ کو ”مولیٰ“ کہا جاتا ہے‘ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو ”مولیٰ“کہنا جائز نہیں‘ لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے غیر اللہ کو مولیٰ کہنا جائز ہے لفظ مولٰی احادیث مبارکہ کی روشنی ۱:۔ ”عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: مولی القوم من انفسہم۔“ (بخاری‘ ج:۲‘ص:۱۰۶۴) ترجمہ: ۔”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قوم کا آزاد کردہ غلام اسی قوم کا شمار ہوگا۔“ اس حدیث میں قوم کے آزاد کردہ غلام کو ”مولی“ کہا گیا ہے۔ ۲:۔ ”کان سالم مولی ابی حذیفة رضی اللہ عنہ یؤم المہاجرین الاولین واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔“ (ایضاً) ترجمہ: ”سالم جو ابو حذیفة رضی اللہ عنہ کے غلام تھے‘ مہاجرین اولین اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی امامت کراتے تھے۔“ اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت سالم رضی اللہ عنہ کو ”مولیٰ ابی حذیفہ“ کہا ہے۔ :۔ امام بخاری رح نے باب مناقب بلال ابن رباح مولی ابی بکر کے عنوان سے باب قائم کیا ہے۔ دیکھیئے (بخاری‘ ج:۱‘ ص:۵۳۰) حامی، دوست اور غلام کے معنوں کو چھوڑ کر اس لفظ کے باقی سارے معنی و مفہوم صرف اللہ ہی کے لائق ہیں۔ اور اس کے بندوں کو ان معنوں میں اس نام سے پکارنا حقیقی شرک ہے۔ قرآن میں بھی مولیٰ انہی معنوں میں اللہ نے اپنے لئے استعمال کیا ہے۔ اور حامی اور دوست کے معنوں میں یا "ماتحت الاسباب مددگار" کے معنوں میں غیر اللہ کے لیے بھی "مولیٰ" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ درحقیقت یہ صرف معنی کی بحث ہے جو حدیث انہوں یہاں پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من كنت مولاه فعلي مولاه [جس کا میں مولیٰ ، علی رضی اللہ عنہ اس کا مولیٰ یہاں پر بھی مولیٰ کا مطلب نہ رب ہے، نہ آقا، نہ مالک، نہ مافوق الاسباب مدد کرنے والا، نہ دستگیر بلکہ یہاں پر بھی مولیٰ کا لفظ صرف مخلص دوست کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھے گا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ضرور محبت رکھے گا ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا: ”انت اخونا ومولانا۔“ (بخاری ج:۱‘ ص:۵۲۸) یعنی آپ ہمارے بھائی اور آزاد کردہ غلام ہیں۔ عن سليمان بن يسار أن عبد الله بن عباس وأبا سلمة بن عبد الرحمن بن عوف اختلفا في المرأة تنفس بعد وفاة زوجها بليال فقال أبو سلمة إذا وضعت ما في بطنها فقد حلت للأزواج وقال ابن عباس آخر الأجلين فجا أبو هريرة فقال أنا مع ابن أخي يعني أبا سلمة فبعثوا کريبا مولی عبد الله بن عباس إلی أم سلمة زوج النبي صلی الله عليه وسلم يسألها عن ذلک فجاهم فأخبرهم أنها قالت ولدت سبيعة الأسلمية بعد وفاة زوجها بليال فذکرت ذلک لرسول الله صلی الله عليه وسلم فقال قد حللت فانکحي من شت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے اس عورت کی عدت میں اختلاف کیا جو پندرہ دن کے بعد اپنے خاوند کے مرنے کے بعد بچہ جنے ابوسلمہ نے کہا جب وہ بچہ جنے تو اس کی عدت گزر گئی اور عبداللہ بن عباس نے کہا نہیں دونوں عدتوں میں جو دور ہو وہاں تک انتظار کرے اتنے میں ابوہریرہ آئے انہوں نے کہا کہ میں اپنے بھائی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں پھر ان سب لوگوں نے اس مسئلے کو پوچھنے کے واسطے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کریب کو بھیجا جو عبداللہ بن عباس کے مولٰی تھے انہوں نے کہا کہ سبیعہ اسلمیہ اپنے خاوند کے مرنے کے بعد چند روز کے بعد جنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا آپ نے فرمایا تو حلال ہوگئی جس سے چاہے نکاح کرے۔ یہاں بھی مولٰی کا لفظ ہے یہی حدیث صحیح مسلم:جلد دوم موطا امام مالک:جلد اول سنن نسائی:جلد دوم پر موجود ہے رہی یہ بات کہ اس لفظ کا مطلب آقا وغیرہ کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحیح مسلم کی ایک روایت میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو مولیٰ (بمعنی آقا) کہنے سے منع فرمایا ہے۔ ولا يقل العبد لسيده مولاى ... فإن مولاكم الله عز وجل (غلام اپنے آقا کو مولیٰ نہ کہے ۔۔۔ کیونکہ تمہارا مولیٰ اللہ عز وجل ہے ۔)
===================
علیؓ مولىٰ کا صحیح مطلب :
علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رح (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں :
"چچازاد، آزاد کرنے والے، آزاد ہونے والے، کاروباری ساجھی، معاہدہ کرنے والے، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو ((مولىٰ)) کہتے ہیں. نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((من كنت مولاه فعلي مولاه)) ترجمہ : "جس کا میں دوست ہوں اس کا علیؓ بھی دوست ہے" . یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے، وہ حضرت علیؓ سے بھی محبت رکھے، ثعلب کہتے ہیں : رافضیوں (شیعہ) کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علیؓ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوۓ ہیں، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علیؓ خرید و فروخت کرتے تھے، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟؟؟ مذکورہ حدیث میں لفظ مولا، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں.[تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر : ٤٢/٢٣٨، وسندہ صحیح]
Last edited: