بھائی جان معاملہ یہ ہے کہ امام دارقطنیؒ خود امام محمد کے ضعف کو بھی بیان کیا ہے!
امام دارقطنی رحمہ اللہ کی ہی بات ذہن نشین کر لیں:
سألته عن أبي يوسف صاحب أبي حنيفة فقال: هو أقوى من محمد بن الحسن.
امام دارقطنیؒ نے قاضی ابو یوسفؒ سے متعلق سوال کے پر فرمایا: وہ (قاضی ابو یوسف)، محمد بن الحسن سے قوی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 146 – جلد 01 سؤالات البرقاني للدارقطني رواية الكرجي عنه - أبو بكر بالبرقاني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر
اب یہاں یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ، دیکھو ، دیکھو، امام دارقطنیؒ نے قاضی ابو یوسفؒ کو ثقہ سے بھی ثقہ بیان کیا، یعنی کہ امام محمد کو ثقہ قرار دیا ہے!!
نہیں بھائی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد بن حسنؒ، قاضی ابو یوسفؒ سے بھی زیادہ ضعیف ہیں!! اور اسے دوسرے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ جیسے اردو میں ہم محاورہ بھی استعمال کرتے ہیں کہ اندھوں میں کانا راجا!! اس میں کانے کی تعریف مقصود نہیں ہوتی، بلکہ یہ بتلانا ہوتا ہے کہ ہے تو یہ بھی کانا ہی مگر اندھو ں سے بہر حال بہتر ہے!!
اس عبارت کے یہی معنی درست ہیں، کیونکہ امام دارقطنی، دوسری جگہ فرماتے ہیں:
أبو يوسفَ ومحمدُ بنُ الحسنِ، في حديثِهما ضَعفٌ.
قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن ، ان دونوں کی احادیث میں ضعف ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 281 جلد 01 - سؤالات السلمي للدارقطني - المكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 110 جلد 01 - سؤالات السلمي للدارقطني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر
اور ان دونوں کی احادیث میں ضعف کی وجہ یہ خود ہی ہیں۔ فتدبر!!
مجھے خدشہ ہے کہ اشماریہ بھائی، پھر اٹکل کو گھوڑے دوڑاتے ہوئے یہاں یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ امام الداقطنی ؒ نے قاضی ابو يوسفؒ کو قوی سے بھی قوی ، یعنی ثقہ سے بھی ثقہ قرار دیاہے، اور مجھ سے پھر اصول و قاعدہ کا مطالبہ کریں گے کہ میں نے اسے'' اندھوں میں کانا راجا'' کس اصول وقاعدہ سے قرار دیا ہے؟ اور ممکن ہے کہ وہ انظامیہ کو پکاریں کہ ابن داود نے امام محمد ؒ اور قاضی ابو یوسف ؒ کی شان میں گستاخی کردی ! حالانکہ یہ بات کلام کو سمجھنے والے سے مخفی نہیں ہے، لیکن جن کی مت علم الکلام نے ماردی ہو، اور وہ کلام کو سمجھنے سے قاصر ہوں، ان کی اٹکل کے گھوڑوں کو میں اصطبل میں باندھ ہی دوں تو بہتر ہے؛
تو لیجئے جناب! امام الدارقطنی ؒ خود فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا البرقاني، قَالَ: سألتُ أَبَا الْحَسَن الدَّارَقُطْنِيّ، عَن أبي يوسف صاحب أبي حنيفة، فقال: هُوَ أقوى من مُحَمَّد بْن الْحَسَن.
حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ طَاهِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطبري، قَالَ: سمعتُ أَبَا الْحَسَن الدَّارَقُطْنِيّ سُئل عَن أبي يوسف الْقَاضِي، فَقَالَ:
أعور بين عُميان. وكان القاضي أَبُو عَبْد الله الصيمري حاضرًا فقام فانصرفَ ولم يعد إلى مجلس الدَّارَقُطْنِيّ بعد ذَلِكَ.
ہمیں البرقانی نے خبر دی، کہا کہ مین نے امام الدارقطنی ؒ سے صاحب ابو حنیفہ ؒ قاضی ابو یوسف ؒ کے متعلق سوال کیا، تو امام الدارقطنی ؒ نے فرمایا کہ وہ (قاضی ابو یوسف ؒ) محمد بن الحسن الشیبانی ؒ سے قوی ہیں،
ہم سے القاضی ابو الطیب طاہر بن عبد اللہ الطبری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام الدارقطنی ؒ کو کہتے سنا، جب ان سے قاضی ابو یوسف ؒ سے متعلق سوال کیا گیا، تو امام الدارقطنی ؒ نے فرمایا:
اندھوں کے درمیان کانا۔
وہاں قاضی ابو عبد اللہ الصمیری الحنفی موجود تھے وہ اٹھے اور چلے گئے، اور اس کے بعد امام الدارقطنی کی مجلس میں نہیں آئے!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 381 جلد 16 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 260 جلد 14 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت
یہ بات الْحُسَيْن بن عَلِيّ بن مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَر أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْقَاضِي الصيمري الحنفی (الطبقات السنية في تراجم الحنفية میں انہیں حنفی شمار کیا گیا ہے) نے خود بھی بیان کی ہے:
وسمعته يَقُولُ: حضرت عند أَبِي الْحَسَن الدارقطني، وسمعت منه أجزاء من كتاب «السنن» الذي صنفه. قَالَ: فقرئ عليه حديث غورك السعدي عَنْ جَعْفَر بن مُحَمَّد، الحديث المسند فِي زكاة الخيل، وفي الكتاب غورك ضعيف، فَقَالَ أَبُو الْحَسَن: ومن دون غورك ضعفاء. فقيل الذي رواه عَنْ غورك هو أَبُو يوسف الْقَاضِي، فَقَالَ:
أعور بين عُميان! وكان أَبُو حامد الإسفراييني حاضرا، فَقَالَ: ألحقوا هذا الكلام فِي الكتاب! قَالَ الصيمري: فكان ذلك سبب انصرافي عَنِ المجلس ولم أعد إِلَى أَبِي الْحَسَن بعدها، ثم قَالَ: ليتني لم أفعل، وأيش ضر أبا الْحَسَن انصرافي؟! أو كما قَالَ.
خطیب بغدادی کہتے ہیں میں نے ابو عبد اللہ القاضی الصمیری الحنفی کو کہتے سنا کہ وہ امام الداقطنی کے پاس تھے، اور ان سے ان کی تالیف کردہ کتاب ''السنن'' کے اجزاء سنے، ابو عبد اللہ القاضی الصمیری الحنفی نے کہا، جب میں نے حدیث غورك السعدي عَنْ جَعْفَر بن مُحَمَّد،زکاۃ الخیل سےمتعلق پڑھی، اور کتاب میں تھا کہ غورک ضعیف ہے ، تو امام الدارقطنی ؒ نے فرمایا: اور غورک کے علاوہ باقی بھی تمام ضعفاء ہیں۔ امام الدارقطنی سے کہا گیا کہ غورک سے روایت کرنے والے قاضی ابو یوسف ؒ ہیں، تو امام الدارقطنی ؒ نے کہا:
اندھوں کے درمیان کانا!
ابو حامد الاسفرایینی میں موجود تھے، انہوں نے کہا کہ اس کلام کو کتاب شامل کر لیں! ابو عبد اللہ القاضی الصمیری الحنفی نے کہا کہ اس سبب کے وجہ سے میں نے امام الداقطنی ؒ کی مجلس چھوڑ دی اور اس کے بعد امام الدارقطنی ؒ کے پاس نہیں گیا۔ کاش میں نے یہ نہ کیا ہوتا۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 634 - 635 جلد 08 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 79 جلد 08 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت