• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

النصر الربانی فی ترجمہ محمد بن الحسن الشیبانی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
زبیر علی زئی کے رد میں اس کتاب کو پڑھیں، بہت مفصل اور معقول انداز میں زبیر علی زئی کے شبہات کو رد کیاگیاہے۔
https://archive.org/details/ToseeqESahibeen
کتاب مفصل ہے ، لیکن مؤصل نہیں ، اور معقول احناف کے نزدیک ہے ، اصول جرح و تعدیل کے مطابق غیر معقول ہی ہے ۔
لکھا ہے کہ جرح غیر مفسر قابل قبول نہیں ہوتی ، فضول بات ہے ۔ جب اقوال آپس میں متعارض ہوں ، تب مفسر و غیر مفسر کی ترجیح کی بات تو آتی ہے ، سرے سے جرح کی قبولیت کے لیے ’ تفسیر ‘ کی شرط ، جرح و تعدیل سے ناواقفیت کی بین دلیل ہے ۔
اسی طرح فقہی اختلاف ، کلام الاقران ، عقیدے وغیرہ کے اختلاف والی درست باتوں کا غلط مطلب لیا گیا ہے ۔ فیصل خان صاحب نے کتاب کی ابتدا میں جو اصول بیان کیے ہیں ، ان اصولوں کے مطابق صاحبین کیا ، پوری دنیا میں شاید ہی کوئی بندہ مجروح قرار پائے ۔
خیر جنہیں زبیر علی زئی صاحب کی کتابوں سے پریشانی ہوئی ہے ، ان کے لیے یہ کتاب واقعتا دوائے شافی ثابت ہوسکتی ہے ، لیکن علمی میدان میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ یہ ائمہ کرام فقہی مقام و مرتبہ رکھتے تھے ، لیکن حدیث میں ان کی قدر و منزلت محدثین کے اصولوں کے مطابق ہی پرکھی جائے گی ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
، لیکن علمی میدان میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ یہ ائمہ کرام فقہی مقام و مرتبہ رکھتے تھے ، لیکن حدیث میں ان کی قدر و منزلت محدثین کے اصولوں کے مطابق ہی پرکھی جائے گی ۔
علمی میدان میں اس کی کوئی حیثیت نہ ہونا بھی غیر مقلدین حضرات ہی کے نزدیک ہے،ورنہ معقول انسانوں کے نزدیک کتاب بہت بہتر ہے،جرح کا مطلب یہ بھی نہیں ہوتا کہ کسی نے بھی الم غلم جوکچھ بھی لکھ دیاہے، سب کچھ قابل تسلیم ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
علمی میدان میں اس کی کوئی حیثیت نہ ہونا بھی غیر مقلدین حضرات ہی کے نزدیک ہے،ورنہ معقول انسانوں کے نزدیک کتاب بہت بہتر ہے،جرح کا مطلب یہ بھی نہیں ہوتا کہ کسی نے بھی الم غلم جوکچھ بھی لکھ دیاہے، سب کچھ قابل تسلیم ہے۔
لیکن علم جرح و تعدیل جسے مسخ کیا گیا ہے ، اسے یقینا آپ بھی غیرمقلدیت کہہ کر رد کرنا پسند نہیں کریں گے ۔
کتاب میں بیان کیے گئے ، اصولوں کو صاحبین کے دفاع سے ہٹا کر دیکھ لیں ، فن جرح و تعدیل کے حوالے سے غلط نظر آئیں گے ۔
خیر بات لمبا کرنے کی ضرورت نہیں ، خلاصتا یہ بات بالکل درست ہے کہ ہمیں آپ کی بات سے اتفاق نہیں اور آپ کو ہماری بات سے ، ہر ایک کے نزدیک درست وہی ہے ، جو ان کے موقف کے حق میں بہتر ہے ۔
 
شمولیت
اگست 12، 2017
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
3
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اللہ خیر کرے!
علم الحدیث کے نئے نرالے اصول کشید کیئے جارہے ہیں!
امام نسائی رحمہ اللہ کی جرح کو رفع کرنے کا خوب قاعدہ نکالا ہے کہ اما نسائی رحمہ اللہ کی جرح کا اعتبار ہی نہیں!
حضرت یہ نرالے اصول ہم نےنہیں آپ کے بزرگ عالم صاحب خیر الکلام نے بیان کئےہیں
 

اٹیچمنٹس

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امام نسائیؒ متشدد تھے اور متشدد کی جرح کا اعتبار نہیں ہوتا
صاحب خیر الکلام نے یہ نہیں لکھا، جو آپ کا کلام ہے؛
آپکا کلام یہ ہے:
حضرت یہ نرالے اصول ہم نےنہیں آپ کے بزرگ عالم صاحب خیر الکلام نے بیان کئےہیں
صاحب خیر الکلام کی عبارت یہ ہے:
''جہاں کہیں جرح و تعدیل میں آئمہ سے اس قسم کا اختلاف وارد ہو تو اس میں اسی طرح تطبیق دینی چاہئے۔ جرح کرنے والا اگر متعنت اور متشدد ہو تو اس کی توثیق تو معتبر ہے مگر جرح معتبر نہیں۔ علامہ ذہبی نے میزان میں لکھا ہے کہ یحییٰ بن سعید متشدد ہے۔
متشددین میں ابو حاتم، نسائی، ابن معین، ابن قطان کو بھی شمار کرتے ہیں۔''

اسکین آپ نے خودلگا دیا ہے!
یہاں اس صورت میں جرح معتبر نہ ہونے کی بات ہے جب ائمہ جرح وتعدیل کا کسی پر جرح و تعدیل کا اختلاف ہو، یعنی کہ معتدلین کی توثیق کے مقابلہ میں متشددین کی جرح مقبول نہیں!
آور آپ کا یہ کہنا:
امام نسائیؒ متشدد تھے اور متشدد کی جرح کا اعتبار نہیں ہوتا
یہ بات صاحب خیر الکلام نے نہیں کہی!
لہٰذا صاحب خیر الکلام پر اس کی تہمت دہرنے سے باز رہیں!
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
الم غلم :) کیا لکھا ہے بھائی؟ ذرا بتائیں!!!
اگرآپ شاملہ استعمال کرتے ہیں تواس کے سرچ کے پہلے خانہ میں’’تکلم ‘‘لکھیں اور دوسرے خانہ میں ’’بلاحجۃ‘‘اس کے بعد تراجم وتاریخ کے زمرہ کو نشان زد کرکے سرچ کریں، ایک طویل فہرست راویان حدیث کی آجائے گی جن کے بارے میں لکھاہوگا،تکلم بلاحجۃ،بغیر کسی دلیل کے ان میں یاان پرجرح اورکلام کیاگیاہے اسی کو الم غلم سے تعبیر کیاگیاہے۔
ایک تو ہر شخص اس لائق نہیں ہوتاکہ اس کی بات جرح قراردی جائے ۔
دوسرے لائق جرح شخص کی بھی ہربات جرح نہیں ہوتی ۔
بقیہ تفصیل فرصت ملنے پر
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہاں اس صورت میں جرح معتبر نہ ہونے کی بات ہے جب ائمہ جرح وتعدیل کا کسی پر جرح و تعدیل کا اختلاف ہو، یعنی کہ معتدلین کی توثیق کے مقابلہ میں متشددین کی جرح مقبول نہیں!
امام نسائیؒ کو قول کے بالکل متصل پہلے علامہ ذہبیؒ نے دارقطنیؒ کا یہ قول تحریر فرمایا ہے:
وقال الدَّارَقُطْنيّ: لا يستحق محمد عندي التَّرْكَ.

تو کیا یہ اختلاف جرح و تعدیل والی بات یہاں لگے گی؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امام نسائیؒ کو قول کے بالکل متصل پہلے علامہ ذہبیؒ نے دارقطنیؒ کا یہ قول تحریر فرمایا ہے:
وقال الدَّارَقُطْنيّ: لا يستحق محمد عندي التَّرْكَ.

تو کیا یہ اختلاف جرح و تعدیل والی بات یہاں لگے گی؟
اول تو امام نسائی کے علاوہ بھی دیگر محدثین سے محمد بن الحسن الشیبانی پر جرح ثابت ہے، اور ان میں معتدلین بھی ہیں، لہٰذا امام نسائی کی جرح معتدلین کی توثیق کے مقابلہ میں!
دوم کہ امام دارقطنی نے بھی یہاں محمد بن الحسن الشیبانی کی توثیق نہیں کی، بلکہ امام دارقطنی نے بھی محمد بن حسن الشیبانی کو ضعیف ہی قرار دیا ہے!
ایک تھریڈ میں اسی پر آپ سے گفتگو ہوئی تھی!
اس سے اقتباس پیش کرتا ہوں:
تیسری جرح ہے ان پر کذاب ہونے کی تو اس جرح کی مضبوطی تو دیکھیے کہ امام ابو الحسن دارقطنی باوجود اپنی شدت کے ان کے بارے میں اسی جرح کو نقل کر کے کہتے ہیں کہ میں تو ان کو چھوڑے جانے کا مستحق نہیں سمجھتا۔
قال البَرْقانِيّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة، فقال: قال يحيى بن معين كذاب، وقال فيه أحمد، يعني ابن حنبل نحو هذا.
قال أبو الحسن الدَّارَقُطْنِيّ: وعندي لا يستحق الترك.
موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله (2۔566 ط عالم الکتب)
سألته عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة رحمه الله, فقال: قال يحي بن معين كذاب, وقال فيه أحمد يعني بن حنبل نحو هذا, قال أبو الحسن: وعندي لا يستحق الترك.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 130 - 131 جلد01 سؤالات البرقاني للدارقطني رواية الكرجي عنه - أبو بكر بالبرقاني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر
بالکل یہ بات سؤالات البرقانی للدارقطنی میں موجود ہیں؛ لیکن اس سے امام محمد کی توثیق کہا ثابت ہوتی ہے، یہاں امام دارقطنی نے صرف اتنا بیان کیا ہے کہ امام دارقطنی کے نزدیک امام محمد بالکل ہی ترک کئے جانے کے مستحق نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام محمد کی امام مالک سے کی گئی روایات دوسرے طرق سے ، یعنی دوسرے روایوں سے ثابت ہے، لہٰذا ان کی وہ روایات تسلیم کی جائیں تو اس میں حرج نہیں، لیکن اس سے امام محمد کا فی نفسہ ثقہ ہونا ثابت نہیں ہوتا! اس کا ثبوت آپ نے خود نقل کیا ہے، ابھی آگے آرہا ہے!! وگرنہ تو امام محمد نہ صرف ترک کئے جانے کے مستحق ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کے!!
بھائی جان معاملہ یہ ہے کہ امام دارقطنیؒ خود امام محمد کے ضعف کو بھی بیان کیا ہے!
امام دارقطنی رحمہ اللہ کی ہی بات ذہن نشین کر لیں:
سألته عن أبي يوسف صاحب أبي حنيفة فقال: هو أقوى من محمد بن الحسن.
امام دارقطنیؒ نے قاضی ابو یوسفؒ سے متعلق سوال کے پر فرمایا: وہ (قاضی ابو یوسف)، محمد بن الحسن سے قوی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 146 – جلد 01 سؤالات البرقاني للدارقطني رواية الكرجي عنه - أبو بكر بالبرقاني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر

اب یہاں یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ، دیکھو ، دیکھو، امام دارقطنیؒ نے قاضی ابو یوسفؒ کو ثقہ سے بھی ثقہ بیان کیا، یعنی کہ امام محمد کو ثقہ قرار دیا ہے!!
نہیں بھائی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد بن حسنؒ، قاضی ابو یوسفؒ سے بھی زیادہ ضعیف ہیں!! اور اسے دوسرے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ جیسے اردو میں ہم محاورہ بھی استعمال کرتے ہیں کہ اندھوں میں کانا راجا!! اس میں کانے کی تعریف مقصود نہیں ہوتی، بلکہ یہ بتلانا ہوتا ہے کہ ہے تو یہ بھی کانا ہی مگر اندھو ں سے بہر حال بہتر ہے!!
اس عبارت کے یہی معنی درست ہیں، کیونکہ امام دارقطنی، دوسری جگہ فرماتے ہیں:
أبو يوسفَ ومحمدُ بنُ الحسنِ، في حديثِهما ضَعفٌ.
قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن ، ان دونوں کی احادیث میں ضعف ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 281 جلد 01 - سؤالات السلمي للدارقطني - المكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 110 جلد 01 - سؤالات السلمي للدارقطني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر

اور ان دونوں کی احادیث میں ضعف کی وجہ یہ خود ہی ہیں۔ فتدبر!!
مجھے خدشہ ہے کہ اشماریہ بھائی، پھر اٹکل کو گھوڑے دوڑاتے ہوئے یہاں یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ امام الداقطنی ؒ نے قاضی ابو يوسفؒ کو قوی سے بھی قوی ، یعنی ثقہ سے بھی ثقہ قرار دیاہے، اور مجھ سے پھر اصول و قاعدہ کا مطالبہ کریں گے کہ میں نے اسے'' اندھوں میں کانا راجا'' کس اصول وقاعدہ سے قرار دیا ہے؟ اور ممکن ہے کہ وہ انظامیہ کو پکاریں کہ ابن داود نے امام محمد ؒ اور قاضی ابو یوسف ؒ کی شان میں گستاخی کردی ! حالانکہ یہ بات کلام کو سمجھنے والے سے مخفی نہیں ہے، لیکن جن کی مت علم الکلام نے ماردی ہو، اور وہ کلام کو سمجھنے سے قاصر ہوں، ان کی اٹکل کے گھوڑوں کو میں اصطبل میں باندھ ہی دوں تو بہتر ہے؛
تو لیجئے جناب! امام الدارقطنی ؒ خود فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا البرقاني، قَالَ: سألتُ أَبَا الْحَسَن الدَّارَقُطْنِيّ، عَن أبي يوسف صاحب أبي حنيفة، فقال: هُوَ أقوى من مُحَمَّد بْن الْحَسَن.
حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ طَاهِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطبري، قَالَ: سمعتُ أَبَا الْحَسَن الدَّارَقُطْنِيّ سُئل عَن أبي يوسف الْقَاضِي، فَقَالَ: أعور بين عُميان. وكان القاضي أَبُو عَبْد الله الصيمري حاضرًا فقام فانصرفَ ولم يعد إلى مجلس الدَّارَقُطْنِيّ بعد ذَلِكَ.
ہمیں البرقانی نے خبر دی، کہا کہ مین نے امام الدارقطنی ؒ سے صاحب ابو حنیفہ ؒ قاضی ابو یوسف ؒ کے متعلق سوال کیا، تو امام الدارقطنی ؒ نے فرمایا کہ وہ (قاضی ابو یوسف ؒ) محمد بن الحسن الشیبانی ؒ سے قوی ہیں،
ہم سے القاضی ابو الطیب طاہر بن عبد اللہ الطبری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام الدارقطنی ؒ کو کہتے سنا، جب ان سے قاضی ابو یوسف ؒ سے متعلق سوال کیا گیا، تو امام الدارقطنی ؒ نے فرمایا: اندھوں کے درمیان کانا۔
وہاں قاضی ابو عبد اللہ الصمیری الحنفی موجود تھے وہ اٹھے اور چلے گئے، اور اس کے بعد امام الدارقطنی کی مجلس میں نہیں آئے!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 381 جلد 16 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 260 جلد 14 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت

یہ بات الْحُسَيْن بن عَلِيّ بن مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَر أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْقَاضِي الصيمري الحنفی (الطبقات السنية في تراجم الحنفية میں انہیں حنفی شمار کیا گیا ہے) نے خود بھی بیان کی ہے:
وسمعته يَقُولُ: حضرت عند أَبِي الْحَسَن الدارقطني، وسمعت منه أجزاء من كتاب «السنن» الذي صنفه. قَالَ: فقرئ عليه حديث غورك السعدي عَنْ جَعْفَر بن مُحَمَّد، الحديث المسند فِي زكاة الخيل، وفي الكتاب غورك ضعيف، فَقَالَ أَبُو الْحَسَن: ومن دون غورك ضعفاء. فقيل الذي رواه عَنْ غورك هو أَبُو يوسف الْقَاضِي، فَقَالَ: أعور بين عُميان! وكان أَبُو حامد الإسفراييني حاضرا، فَقَالَ: ألحقوا هذا الكلام فِي الكتاب! قَالَ الصيمري: فكان ذلك سبب انصرافي عَنِ المجلس ولم أعد إِلَى أَبِي الْحَسَن بعدها، ثم قَالَ: ليتني لم أفعل، وأيش ضر أبا الْحَسَن انصرافي؟! أو كما قَالَ.
خطیب بغدادی کہتے ہیں میں نے ابو عبد اللہ القاضی الصمیری الحنفی کو کہتے سنا کہ وہ امام الداقطنی کے پاس تھے، اور ان سے ان کی تالیف کردہ کتاب ''السنن'' کے اجزاء سنے، ابو عبد اللہ القاضی الصمیری الحنفی نے کہا، جب میں نے حدیث غورك السعدي عَنْ جَعْفَر بن مُحَمَّد،زکاۃ الخیل سےمتعلق پڑھی، اور کتاب میں تھا کہ غورک ضعیف ہے ، تو امام الدارقطنی ؒ نے فرمایا: اور غورک کے علاوہ باقی بھی تمام ضعفاء ہیں۔ امام الدارقطنی سے کہا گیا کہ غورک سے روایت کرنے والے قاضی ابو یوسف ؒ ہیں، تو امام الدارقطنی ؒ نے کہا: اندھوں کے درمیان کانا!
ابو حامد الاسفرایینی میں موجود تھے، انہوں نے کہا کہ اس کلام کو کتاب شامل کر لیں! ابو عبد اللہ القاضی الصمیری الحنفی نے کہا کہ اس سبب کے وجہ سے میں نے امام الداقطنی ؒ کی مجلس چھوڑ دی اور اس کے بعد امام الدارقطنی ؒ کے پاس نہیں گیا۔ کاش میں نے یہ نہ کیا ہوتا۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 634 - 635 جلد 08 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 79 جلد 08 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اول تو امام نسائی کے علاوہ بھی دیگر محدثین سے محمد بن الحسن الشیبانی پر جرح ثابت ہے، اور ان میں معتدلین بھی ہیں، لہٰذا امام نسائی کی جرح معتدلین کی توثیق کے مقابلہ میں!
دوم کہ امام دارقطنی نے بھی یہاں محمد بن الحسن الشیبانی کی توثیق نہیں کی، بلکہ امام دارقطنی نے بھی محمد بن حسن الشیبانی کو ضعیف ہی قرار دیا ہے!
ایک تھریڈ میں اسی پر آپ سے گفتگو ہوئی تھی!
اس سے اقتباس پیش کرتا ہوں:
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
و "عندی لا یستحق الترک" کے بارے میں آپ یہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ "
یہاں امام دارقطنی نے صرف اتنا بیان کیا ہے کہ امام دارقطنی کے نزدیک امام محمد بالکل ہی ترک کئے جانے کے مستحق نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام محمد کی امام مالک سے کی گئی روایات دوسرے طرق سے ، یعنی دوسرے روایوں سے ثابت ہے، لہٰذا ان کی وہ روایات تسلیم کی جائیں تو اس میں حرج نہیں"
کیا آپ اس مراد کو دارقطنیؒ کے الفاظ سے ثابت کر سکتے ہیں؟ کیوں کہ جو روایات کذاب رواۃ کی بھی دیگر صحیح طرق سے ثابت ہوں وہ تو تسلیم ہوتی ہی ہیں، اس میں امام محمد کی کیا خصوصیت ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
و "عندی لا یستحق الترک" کے بارے میں آپ یہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ "
یہاں امام دارقطنی نے صرف اتنا بیان کیا ہے کہ امام دارقطنی کے نزدیک امام محمد بالکل ہی ترک کئے جانے کے مستحق نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام محمد کی امام مالک سے کی گئی روایات دوسرے طرق سے ، یعنی دوسرے روایوں سے ثابت ہے، لہٰذا ان کی وہ روایات تسلیم کی جائیں تو اس میں حرج نہیں"
کیا آپ اس مراد کو دارقطنیؒ کے الفاظ سے ثابت کر سکتے ہیں؟ کیوں کہ جو روایات کذاب رواۃ کی بھی دیگر صحیح طرق سے ثابت ہوں وہ تو تسلیم ہوتی ہی ہیں، اس میں امام محمد کی کیا خصوصیت ہے؟
امام دارقطنی کے اپنے کلام کو ہی پڑھ لیں!
انہوں نے خود امام محمد بن الحسن الشیبانی کو ضعیف کہا ہے، لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ امام دارقطنی نے یہاں امام محمد بن الحسن الشیبانی کی توثیق نہیں کی!
رہی بات کہ کذاب راوة کی روایات دیگر صحیح طرق سے ثابت ہوں ، تو وہ تسلیم ہوتی ہے، اس میں امام محمد کی کیا خصوصیت ہے؟
تو بلکل جناب! امام محمد کی یہاں کوئی خصوصیت نہیں، یہ صرف معلوماتی ہے، کہ امام محمد کی امام مالک سے روایات، دیگر طرق سے بھی ثابت ہیں!
 
Last edited:
Top