حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی درج بالا بات تذکرۃ الحفاظ سے نقل کی ہے ملاحظہ ہو:لیکن روایات نعیم بن حماد کے بارے میں جو ابتدا میں اشیاء ذکر کی ہیں ان میں سے اکثر علامہ ذہبیؒ نے سیر میں ذکر کی ہیں اور اس کے بعد جو انہوں نے حکم لگایا ہے وہ میں نے ذکر کر دیا ہے ان کے حوالے سے۔ آپ کے مولوی صاحب کی تحقیق سے میں ذہبیؒ کی تحقیق کو زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔
میں نے لنک بھی دیا تھامیں نہیں جانتا کہ یہ کن کی کتاب ہے۔
kitabosunnat.com/kutub-library/imam-bukhari-par-baaz-aitarazat-ka-jaiza
اس کے لیے کافی وقت درکار ہے جو میرے پاس نہیں ہےایک تو امیجز نہیں لگائیے۔ یونیکوڈ میں تحریر کریں تاکہ میں اس کا اقتباس بھی لے سکوں اور اسے اصل مقامات پر تلاش بھی کر سکوں۔
جزاک اللہ خیر ابن قدمہ بھائحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی درج بالا بات تذکرۃ الحفاظ سے نقل کی ہے ملاحظہ ہو:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
هذا حديث منكر لا أصل له من حديث رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا شاهد ولم يأت به عن سفيان سوى نعيم وهو مع إمامته منكر الحديث[تذكرة الحفاظ للذهبي: 2/ 419]۔
یعنی امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں منکرالحدیث کہنے کے ساتھ ساتھ تذکرۃ الحفاظ میں بھی نقل کیا ہے ، اوریہ کتاب مطبوع ودستیاب ہے۔
لیکن اس کے باوجود بھی اصل مرجع کا حوالہ دینےکے بجائے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے واسطہ یہ قول نقل کیاجارہا ہے ، شاید اس کا مقصد اس حقیقت پر پردہ ڈالنا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں تذکرۃ الحفاظ میں بھی نقل کیا ہے۔
دراصل امام ابوحنیفہ کاذکربھی امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں کیاہے اور بعض لوگ اسی بات کو ابوحنیفہ کی توثیق سمجھتے ہیں اگر یہ اصول درست ہے تو اس اصول کے تحت نعیم بن حماد بھی ثقہ ہیں کیونکہ ان کا ذکر بھی امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں کیا ہے۔
یہ تو ایک الزامی بات ہے اصل جواب یہ ہے کہ نعیم بن حماد رحمہ اللہ منکرالحدیث نہیں ہیں بلکہ ثقہ ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ ہیں بہت سارے محدثین نے انہیں ثقہ کہا ہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ ثقہ ہی ہیں کیونکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب ’’من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث‘‘ میں کیا ہے دیکھئے :[من تكلم فيه وهو موثق ت الرحيلي ص: 516]
رہا تذکرۃ الحفاظ میں امام ذہبی کا منکرالحدیث کہنا تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے منکرالحدیث عام معنی میں نہیں کہا ہے بلکہ اس سے مراد فقط یہ ہے کہ ان کی بعض احادیث میں نکارت ہے ۔
جیساکہ دیگر مقامات پر انہوں پوری صراحت کے ساتھ یہ وضاحت کی ہے مثلا عبر میں کہا:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
نعيم بن حماد الخزاعي المروزي الفرضي الحافظ أحد علماء الأثر سمع أبا حمزة السكري وهشيما وطبقتهما وصنف التصانيف وله غلطات ومناكير مغمورة في كثرة ما روى[العبر في خبر من غبر 1/ 405]
لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ ثقہ یا کم ازکم حسن الحدیث ہی ہیں۔واللہ اعلم۔
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-نعيم-بن-حماد-منكر-الحديث-تھے.16787/
امام ذہبیؒ کا ان کے بارے میں صریح قول ہے جو میں نے ما قبل میں سیر کے حوالے سے عرض بھی کیا ہے:حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی درج بالا بات تذکرۃ الحفاظ سے نقل کی ہے ملاحظہ ہو:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
هذا حديث منكر لا أصل له من حديث رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا شاهد ولم يأت به عن سفيان سوى نعيم وهو مع إمامته منكر الحديث[تذكرة الحفاظ للذهبي: 2/ 419]۔
یعنی امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں منکرالحدیث کہنے کے ساتھ ساتھ تذکرۃ الحفاظ میں بھی نقل کیا ہے ، اوریہ کتاب مطبوع ودستیاب ہے۔
لیکن اس کے باوجود بھی اصل مرجع کا حوالہ دینےکے بجائے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے واسطہ یہ قول نقل کیاجارہا ہے ، شاید اس کا مقصد اس حقیقت پر پردہ ڈالنا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں تذکرۃ الحفاظ میں بھی نقل کیا ہے۔
دراصل امام ابوحنیفہ کاذکربھی امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں کیاہے اور بعض لوگ اسی بات کو ابوحنیفہ کی توثیق سمجھتے ہیں اگر یہ اصول درست ہے تو اس اصول کے تحت نعیم بن حماد بھی ثقہ ہیں کیونکہ ان کا ذکر بھی امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں کیا ہے۔
یہ تو ایک الزامی بات ہے اصل جواب یہ ہے کہ نعیم بن حماد رحمہ اللہ منکرالحدیث نہیں ہیں بلکہ ثقہ ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ ہیں بہت سارے محدثین نے انہیں ثقہ کہا ہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ ثقہ ہی ہیں کیونکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب ’’من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث‘‘ میں کیا ہے دیکھئے :[من تكلم فيه وهو موثق ت الرحيلي ص: 516]
رہا تذکرۃ الحفاظ میں امام ذہبی کا منکرالحدیث کہنا تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے منکرالحدیث عام معنی میں نہیں کہا ہے بلکہ اس سے مراد فقط یہ ہے کہ ان کی بعض احادیث میں نکارت ہے ۔
جیساکہ دیگر مقامات پر انہوں پوری صراحت کے ساتھ یہ وضاحت کی ہے مثلا عبر میں کہا:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
نعيم بن حماد الخزاعي المروزي الفرضي الحافظ أحد علماء الأثر سمع أبا حمزة السكري وهشيما وطبقتهما وصنف التصانيف وله غلطات ومناكير مغمورة في كثرة ما روى[العبر في خبر من غبر 1/ 405]
لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ ثقہ یا کم ازکم حسن الحدیث ہی ہیں۔واللہ اعلم۔
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-نعيم-بن-حماد-منكر-الحديث-تھے.16787/
اور ان صفحات کو پڑھنے کے لیے بھی کافی وقت درکار ہے جو میرے پاس نہیں (ابتسامہ)۔اس کے لیے کافی وقت درکار ہے جو میرے پاس نہیں ہے
امام ذہبی نے کاشف میں کہا : الحافظ ، مختلف فيه ، امتحن فمات محبوسا بسامراءامام ذہبیؒ کا ان کے بارے میں صریح قول ہے جو میں نے ما قبل میں سیر کے حوالے سے عرض بھی کیا ہے:
قُلْتُ: لاَ يَجُوْزُ لأَحَدٍ أَنْ يَحْتَجَّ بِهِ
"میں کہتا ہوں: کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان سے دلیل پکڑے۔"
اس صریح قول کی موجودگی میں تاویلات کر کے انہیں ذہبی کے نزدیک ثقہ ثابت کرنا میرا خیال ہے کہ کوئی بہتر چیز نہیں ہے۔
قال يوسف بن عبد الله الخوارزمي: سألت أحمد بن حنبل، عن نعيم بن حماد. فقال: لقد كان من الثقات. «الكامل» (1959)قال ابْن حَمَّاد قَالَ غيره كَانَ يضع الحديث فِي تقوية السنة وحكايات عن العلماء فِي ثلب أبي حنيفة مزورة كذب.
الکامل 8۔251 ط العلمیۃ
امام ذہبی نے کاشف میں کہا : الحافظ ، مختلف فيه ، امتحن فمات محبوسا بسامراء
ایک مشہور اصول ہے کہ جرح مفسر تعدیل سے راجح ہوتی ہے۔ اور ذہبی کی جرح مفسر ہے۔قال يوسف بن عبد الله الخوارزمي: سألت أحمد بن حنبل، عن نعيم بن حماد. فقال: لقد كان من الثقات. «الكامل» (1959)