محمد عاصم
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 10، 2011
- پیغامات
- 236
- ری ایکشن اسکور
- 1,027
- پوائنٹ
- 104
عابد الرحمن بھائی آپ ابھی تک میرا نقطہء نظر نہیں سمجھ پائے جو آپ نے ایسا تبصرہ فرمایا ہے کہ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَأَی مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَکْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ فَمِيتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی اپنے امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جوا سے ناپسند ہو تو چاہئے کہ صبر کرے کیونکہ جو آدمی الجماعت سے ایک بالشت بھر بھی جدا ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔:::متفق علیہ:::
اور جبکہ جمہوری سسٹم میں اس کے خلاف اصول پائے جاتے ہیں، ایک حزب اقتدار اور کئی گروپ حزب اختلاف ہوتے ہیں، اسلام میں ایک ہی حزب ہے اور وہ ہے حزب اللہ اور یہی حزب اقتدار ہوتی ہے۔
دوسری یہ بات یاد رکھیں اور اس کو اچھی طرح جان جائیں کہ اگر کسی ملک میں جمہوری نظام رائج ہے اور اس کی پارلیمنٹ میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور وہ ملک میں اسلامی قوانین بھی رائج کر دیتے ہیں مگر نظام یہی جمہوریت کا ہی رکھتے ہیں تو بھی یہ نظام باطل کا باطل ہی رہے گا اسلامی پھر بھی نہیں کہلائے گا کیونکہ اسلام کا جو نظام حیات ہے وہ جمہوریت نہیں بلکہ خلافت ہے جب تک یہ پارلیمنٹ والے اس باطل نظام کو ختم کرکے خلافت کا اعلان نہیں کریں گے اور ایسے شخص کو خلیفہ نہیں بنائیں گے جو خلافت کی ساری شرائط رکھتا ہو تب تک اسلامی نظام نہ بن پائے گا۔
یحیی ولید ابن جابر بسر ابوادریس سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن یمان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ (اکثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی بابت دریافت کرتے رہتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر اور فتنوں کی بابت پوچھا کرتا تھا اس خیال سے کہ کہیں میں کسی شر و فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ ایک روز میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں گرفتار اور شر میں مبتلا تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس بھلائی (یعنی اسلام) سے سرفراز کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی پیش آنے والی ہے؟ فرمایا ہاں! میں نے عرض کیا اس بدی و برائی کے بعد بھلائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! لیکن اس میں کدورتیں ہوں گی۔ میں نے عرض کیا وہ کدورت کیا ہو گی؟ فرمایا کدورت سے مراد وہ لوگ ہیں جو میرے طریقہ کے خلاف طریقہ اختیار کر کے اور لوگوں کو میری راہ کے خلاف راہ بتائیں گے تو ان میں دین بھی دیکھے گا اور دین کے خلاف امور بھی ہیں۔ عرض کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی برائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلائیں گے جو ان کی بات مان لیں گے وہ ان کو دوزخ میں دھکیل دیں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا حال مجھ سے بیان فرمائیے فرمایا وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔ میں نے عرض کیا اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں فرمایا مسلمانوں کی جماعت:::خلافت:::کو لازم پکڑو اور ان کے امام:::خلیفہ:::کی اطاعت کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو۔ (تو کیا کروں) فرمایا تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جا اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آ جائے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:اسلام میں نبوت کی علامتوں کا بیان
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر وبھلائی کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں برائی کے بارے میں اس خوف کی وجہ سے کہ وہ مجھے پہنچ جائے سوال کرتا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم جاہلیت اور شر میں تھے اللہ ہمارے پاس یہ بھلائی لائے تو کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی شر ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے عرض کیا کیا اس برائی کے بعد کوئی بھلائی بھی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اور اس خیر میں کچھ کدورت ہوگی میں نے عرض کیا کیسی کدورت ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری سنت کے علاوہ کو سنت سمجھیں گے اور میری ہدایت کے علاوہ کو ہدایت جان لیں گے تو ان کو پہچان لے گا اور نفرت کرے گا میں نے عرض کیا کیا اس خیر کے بعد کوئی برائی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر جہنم کی طرف بلایا جائے گا جس نے ان کی دعوت کو قبول کرلیا وہ اسے جہنم میں ڈال دیں گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے ان کی صفت بیان فرما دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گےمیں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر یہ مجھے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کی جماعت :::خلافت:::کو اور ان کے امام:::خلیفہ:::کو لازم کرلینا میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی جماعت ہو نہ امام، آپ نے فرمایا پھر ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جانا اگرچہ تجھے موت کے آنے تک درخت کی جڑوں کو کاٹنا پڑے تو اسی حالت میں موت کے سپرد ہو جائے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:کتاب :امارت اورخلافت کا بیان :باب: فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو:::خلیفہ:::کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت :::خلافت:::سے علیحدہ ہوگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جس نے اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے کے نیچے جنگ کی کسی عصبیت:::تعصب:::کی بناء پر غصہ کرتے ہوئے عصبیت کی طرف بلایا یا عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل کردیا گیا تو وہ جاہلیت کے طور پر قتل کیا گیا اور جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک وبد سب کو قتل کیا کسی مومن کا لحاظ کیا اور نہ کسی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا تو وہ میرے دین پر نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
یہ ایک مثال کے طور پر احایث پیش کی ہیں اس طرح کی اور بھی احادیث موجود ہیں کہ جن کو ہم جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتے یا ہمیں ان کی واقعی ہی سمجھ نہیں آتی یا ان احادیث کو ہم اہمیت نہیں دیتے کچھ تو وجہ ہے جو ہم ان کو اگنور کرتے ہیں حالانکہ کہ ان احادیث میں اصل مسئلے:::امت کا آپس میں انتشار و افتراق::: کا حل موجود ہے بس تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے
پہلی بات یہ کہ اسلامی نظام میں ایسا ہرگز نہیں ہے کہ لوگ اپنا خلیفہ خود منتخب کرتے ہیں جیسا کہ جمہوری نظام میں ہوتا ہے بلکہ اسلام کے نظام میں یہ کام اہل حل وعقد کا کام ہے کہ وہ ایسا شخص کا انتخاب کریں جو خلیفہ کی مکمل شرائط رکھتا ہو اس کے بعد عوام نے اس خلیفہ کی سمع و اعطاعت کی بیعت کرنی ہوتی ہے اور یہ کام خوشی نہ خوشی سب کو کرنا ہوتا ہے ، جو اس شخص(خلیفہ) کو پسند کرتا ہے اور جو نہیں کرتا وہ بھی بیعت لازمی کرئے گا اگر نہیں کرتا تو وہ اس فرمانِ رسولﷺ کی ذد میں آ جائے گا کہاسلام بادشاہت کا مخالف ہے اور امارت کا قائل ہے جس کا مطلب ہے مسلمان جس کو بھی اپنا امیر منتخب کرلیں۔یہاں تک تو کسی حد تک جمہوریت اور امارت میں یکسانیت ہے ۔اب یہ عوام کی سمجھ داری ہے کہ وہ کس طرح کے انسان کو منتخب کرتے ہیں انتخاب میں قانونی طور یہ اجازت ہوتی ہے کہ آپ اپنی پسند کا نمائندہ منتخب کریں تو انتخابی غلطی ہماری غلطی ہے کہ ہم بے دین آدمی کو منتخب کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ اسلامی قانون نافذ ہو۔ارے بھائی جان مصلحت سے کام لیجئے ۔پہلے سانچہ بنائے پھر ڈھلائی کیجئے۔ سانچہ بنایا نہیں ڈھلائی شروع کردی ۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَأَی مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَکْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ فَمِيتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی اپنے امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جوا سے ناپسند ہو تو چاہئے کہ صبر کرے کیونکہ جو آدمی الجماعت سے ایک بالشت بھر بھی جدا ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔:::متفق علیہ:::
اور جبکہ جمہوری سسٹم میں اس کے خلاف اصول پائے جاتے ہیں، ایک حزب اقتدار اور کئی گروپ حزب اختلاف ہوتے ہیں، اسلام میں ایک ہی حزب ہے اور وہ ہے حزب اللہ اور یہی حزب اقتدار ہوتی ہے۔
دوسری یہ بات یاد رکھیں اور اس کو اچھی طرح جان جائیں کہ اگر کسی ملک میں جمہوری نظام رائج ہے اور اس کی پارلیمنٹ میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور وہ ملک میں اسلامی قوانین بھی رائج کر دیتے ہیں مگر نظام یہی جمہوریت کا ہی رکھتے ہیں تو بھی یہ نظام باطل کا باطل ہی رہے گا اسلامی پھر بھی نہیں کہلائے گا کیونکہ اسلام کا جو نظام حیات ہے وہ جمہوریت نہیں بلکہ خلافت ہے جب تک یہ پارلیمنٹ والے اس باطل نظام کو ختم کرکے خلافت کا اعلان نہیں کریں گے اور ایسے شخص کو خلیفہ نہیں بنائیں گے جو خلافت کی ساری شرائط رکھتا ہو تب تک اسلامی نظام نہ بن پائے گا۔
بالکل بھائی جان یہ بات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اگر ہم دین خالص پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو ملتِ واحد بننا ہوگا ایک جان بننا ہوگا، ہر کوئی غیر شرعی جماعتوں سے بغاوت کر کے اسلام کے شرعی امیر، خلیفہ، امام، سلطان کے ساتھ ملیں گے تو ہی ہم نبیﷺ کے فرمان کہ امتِ مسلمہ ایک جسم کے مانند ہے بن سکیں گے اس پر کافی عرصہ پہلے کچھ لکھا تھا اس میں سے کچھ آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔یہ بہت کام کی اور سمجھنے کی بات ہے کہ ابھی مسلمانوں نے کوئی امیر منتخب کیا نہیں ۔ اور کئی طرح کی تحریکیں شروع کردیں ۔تو بھائی حضور ﷺ کی تدفین کو موخر کیا گیا امیر بننے تک ۔ تو بھائی ہمیں بھی تمام تحریکوں کو موخر کرنا پڑے گاامیر بننے تک ۔ امیر کے انتخاب سے پہلے تمام تحریکیں غیر اسلامی کہلائیں گی (شرعی طور پر ) اور فساد فی الارض کے زمرے میں آئیں گی۔ نہیں تو آپ بتائیں کہ اس وقت کون امیر ہے کیا خود ساختہ بھی کوئی امیر ہوتا ہے۔ اور کتنے امیر ہوں گے اور میں سمجھتا ہوں آج کی تاریخ میں مسلمانوں میں اتنے امیر ہیں اتنے کسی بھی دور میں نہیں ہوئے تو کیا یہ شرعاً جائز ہیں؟ فتدبر وا یا اولی الابصار اور کلمۃالحق ضالۃ المؤمن (حکمت کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہے) (سنن ابن ماجہ ابواب الزہد باب الحکمۃ :ص ۳۱۷)
یحیی ولید ابن جابر بسر ابوادریس سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن یمان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ (اکثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی بابت دریافت کرتے رہتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر اور فتنوں کی بابت پوچھا کرتا تھا اس خیال سے کہ کہیں میں کسی شر و فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ ایک روز میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں گرفتار اور شر میں مبتلا تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس بھلائی (یعنی اسلام) سے سرفراز کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی پیش آنے والی ہے؟ فرمایا ہاں! میں نے عرض کیا اس بدی و برائی کے بعد بھلائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! لیکن اس میں کدورتیں ہوں گی۔ میں نے عرض کیا وہ کدورت کیا ہو گی؟ فرمایا کدورت سے مراد وہ لوگ ہیں جو میرے طریقہ کے خلاف طریقہ اختیار کر کے اور لوگوں کو میری راہ کے خلاف راہ بتائیں گے تو ان میں دین بھی دیکھے گا اور دین کے خلاف امور بھی ہیں۔ عرض کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی برائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلائیں گے جو ان کی بات مان لیں گے وہ ان کو دوزخ میں دھکیل دیں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا حال مجھ سے بیان فرمائیے فرمایا وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔ میں نے عرض کیا اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں فرمایا مسلمانوں کی جماعت:::خلافت:::کو لازم پکڑو اور ان کے امام:::خلیفہ:::کی اطاعت کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو۔ (تو کیا کروں) فرمایا تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جا اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آ جائے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:اسلام میں نبوت کی علامتوں کا بیان
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر وبھلائی کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں برائی کے بارے میں اس خوف کی وجہ سے کہ وہ مجھے پہنچ جائے سوال کرتا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم جاہلیت اور شر میں تھے اللہ ہمارے پاس یہ بھلائی لائے تو کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی شر ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے عرض کیا کیا اس برائی کے بعد کوئی بھلائی بھی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اور اس خیر میں کچھ کدورت ہوگی میں نے عرض کیا کیسی کدورت ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری سنت کے علاوہ کو سنت سمجھیں گے اور میری ہدایت کے علاوہ کو ہدایت جان لیں گے تو ان کو پہچان لے گا اور نفرت کرے گا میں نے عرض کیا کیا اس خیر کے بعد کوئی برائی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر جہنم کی طرف بلایا جائے گا جس نے ان کی دعوت کو قبول کرلیا وہ اسے جہنم میں ڈال دیں گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے ان کی صفت بیان فرما دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گےمیں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر یہ مجھے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کی جماعت :::خلافت:::کو اور ان کے امام:::خلیفہ:::کو لازم کرلینا میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی جماعت ہو نہ امام، آپ نے فرمایا پھر ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جانا اگرچہ تجھے موت کے آنے تک درخت کی جڑوں کو کاٹنا پڑے تو اسی حالت میں موت کے سپرد ہو جائے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:کتاب :امارت اورخلافت کا بیان :باب: فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو:::خلیفہ:::کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت :::خلافت:::سے علیحدہ ہوگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جس نے اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے کے نیچے جنگ کی کسی عصبیت:::تعصب:::کی بناء پر غصہ کرتے ہوئے عصبیت کی طرف بلایا یا عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل کردیا گیا تو وہ جاہلیت کے طور پر قتل کیا گیا اور جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک وبد سب کو قتل کیا کسی مومن کا لحاظ کیا اور نہ کسی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا تو وہ میرے دین پر نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
یہ ایک مثال کے طور پر احایث پیش کی ہیں اس طرح کی اور بھی احادیث موجود ہیں کہ جن کو ہم جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتے یا ہمیں ان کی واقعی ہی سمجھ نہیں آتی یا ان احادیث کو ہم اہمیت نہیں دیتے کچھ تو وجہ ہے جو ہم ان کو اگنور کرتے ہیں حالانکہ کہ ان احادیث میں اصل مسئلے:::امت کا آپس میں انتشار و افتراق::: کا حل موجود ہے بس تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے