• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیکشن سے مربوط مسائل کا شرعی حل

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
لیکن میں ایک بات جاننا چاہ رہا تھا۔۔۔ اپنی معلومات میں اضافے کی نیت سے
اقتدار بھی اللہ ہی دیتا ہے اور اللہ چاہتا ہے تو چھین لینا ہے۔۔۔
لیکن انبیاء علیہ السلام کی بادشاہت میں اور موجودہ بادشاہت میں کس حد تک مماثلت ہے؟؟؟۔۔۔
یہ جتنی بھی بادشاہت پر قرآنی آیات پیش کی گئی ہیں میں یہ جاننا چاہتا ہوں کے کیا اس سے پہلے خلافت کا تصور تھا؟؟؟۔۔۔
لیکن ہماری شریعت اور باقی انبیاء علیہ السلام کی شریعت میں تو فرق ہے ہمیں حکم ہے كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ بس۔۔۔
لیکن عمل تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی شریعت پر کرنا ہے۔۔۔ کیونکہ اگر معاملہ یہ نہ ہوتا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ سے نبیﷺ یہ ارشاد نہ فرماتے کے اگر آج موسٰی علیہ السلام بھی دنیا میں آجائیں تو اُس وقت تک جنت میں نہیں جائیں گے جب تک میری لائی ہوئی شریعت پر عمل نہیں کرتے (واللہ اعلم)۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خلافت کا نظام دیا تھا۔۔۔
اب اگر ہم ان آیات کو بنیاد بنا کر بادشاہت کو صحیح تسلیم کرلیں تو پھر اُن میں سے تھوڑی تھوڑی شریعت بھی ہوجائے۔۔۔ کیا خیال ہے؟؟؟۔۔۔
تو کیا ہم خود اکملت لکم دینکم کا رد نہیں رہے۔۔۔
ذرا سوچئے!
بھائی میں نے تو صرف ایک گفتگو پوسٹ کی ہے۔ باقی میں قرآن کی کسی آیت کا رد کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ اللہ محفوظ فرمائے آمین
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
تو جب ہمارا نظام خلافت ہی ٹھہرا تو بادشاہت کو ہم کیوں تسلیم کرتے ہیں۔۔۔
حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہت کو ٹھکرا دیا تھا۔۔۔
جب وفات کا وقت آیا تھا تب اللہ نے جبریل علیہ السلام کے ذریعے پیغام دیا تھا۔۔۔
کے بادشاہت اور بعد میں جنت۔۔۔ یا اپنے رب سے ملاقات۔۔۔ تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے ملاقات کو ترجیح دی تھی۔۔۔
تو ہم اس بادشاہت کو نشانے پر نہیں رکھتے؟؟؟۔۔۔ حالانکہ حدیث موجود ہے۔۔۔ جس پر ڈاکٹراسرار کی تقریر موجود ہے۔۔۔ کھاجانے والے ملکویت۔۔۔
اس پر بھی کچھ روشنی ڈالیں۔۔۔
[video=youtube;SYvFITQ6U-0]https://www.youtube.com/watch?v=SYvFITQ6U-0[/video]​
جو بات واضح اور خود روشن ہو اس پر کیا روشنی ڈالنی؟؟
بھائی آپ کی بات ٹھیک ہے اسلام میں ایک ہی نظام شرعی نظام ہے اور وہ ہے خلافت
بادشاہت اسلام کا نظام نہیں ہے اور یہ نظام اسلام کی اساس کے خلاف بھی ہے،
بادشاہ اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے اور وہ ملک و قوم کو اپنی اھواء سے چلاتا ہے اور جمہوریت لوگوں کی اکثریت کی اھواء سے اور جب کہ خلیفہ قرآن و سنت کا پابند ہے اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
مزید آپ نے لکھا ہے کہ
ہندوستان اور جمہوریت:
ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری نظام ہے جس میں مختلف رنگ ونسل کے اور مختلف زبانوں کے بولنے والے،مختلف مذاہب والے ،اورمختلف المسلک افراد رہتے ہیں ۔یہاں کے دستوری آئین کے مطابق سب کو ہرطرح کی آزادی ہے خصوصاً مذہبی آزادی ،اس ملک کی یہ خاص صفت اور خوبی ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے ،ان کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہے ،حتیٰ کے ان کی مذہبی عدالتیں بھی ہیں، جیسا کہ مسلمانوں کی شرعی عدالتیں ،اور جگہ جگہ شرعی دارالافتاء ہیں ،حکومت ان میں کوئی مداخلت نہیں کرتی،غرض کہ ہر انسان خصوصاً مسلمان مسلم ممالک کی بنسبت ،ہندوستان میں زیادہ پر امن اور آزاد ہے۔اور یہاں کا باعزت شہری ہے ، اس ملک کے صدور بھی مسلمان ہوئے ہیں ۔اس اعتبار سے مسلمانوں کا اس ملک کے قوانین سے ہم آہنگ ہوجانے میں کوئی قباحت نہیں۔
میرے ناقص علم کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ خاص تعصب کیا جاتا ہے اور اس کی دلیل بھارت میں آئے رو مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات ہیں جن کا انکار کوئی بھی نہیں کرسکتا ہے ہندؤ بھی مانتے ہیں کہ مسلمانوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے میری کئی ایک ہندوؤں سے بات ہوچکی ہے، آپ نے صرف جمہوریت میں شامل ہونے کے لیئے بھارت خوب تعریف کی ہے مگر بھائی ایک بات یاد رکھیں اگر بھارت حقیقتاً بھی ایسے ہی اوصاف رکھتا ہو تو بھی مسلمان اس ملک کے قوانین سے ہم آہنگ نہیں بن سکتے ہیں کجا یہ کہ وہاں مسلمان انتہائی مظلومیت کی ندگی گزار رہے ہیں خیر آپ یہی بات یاد رکھیں کہ کسی کافر کا خوش مزاج ہونا ہمارے لیئے اس بات کے دروازے نہیں کھول دیتا کہ ہم اس کی ملت کی پیروی کرنے لگیں۔
ووٹ کی شرعی حیثیت اور اکابر علماء کرام:
ہمارے اکا برین علماء کرام میں والدی حضرت مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نوراللہ مرقدہ ، حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ،حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ اور حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ اور عصری علماء کبار میں حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ اور حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مد ظلہ العالی نے الیکشن میں کسی امیدوار کوووٹ دینے کی جو حیثیا ت قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
بھائی جان کوئی کتنا بڑا مرضی مولوی ہو اس کی بات اگر قرآن اور احادیث کی نصوص سے ٹکرائے تو اس کی بات اس کے منہ پر ماری جائے گی اپنائی نہیں جائے گی اگر ہم پھر بھی علماء کی باتوں کو لیں اور قرآن و حدیث کو پسِ پشت ڈال دیں تو ہم بھی پھر انہی میں سے ہو جائیں گے
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ
ان لوگوں (یہود و نصاریٰ )نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے التوبہ : 31
اب اگر ہمارا رویہ بھی ان جیسا ہو گیا تو ہم بھی اس آیت کی ذد میں آ جائیں گے اس لیئے بھائی جان علماء و مشائح کی اعطاعت مشروط ہے قرآن و حدیث کے ساتھ۔
جن علماء نے کافروں کے نظام کو اپنانے کی ترغیب دی ہے اور ایک کفریہ نظام کو اپنایا اسلام کے نظام کو چھوڑا بتائیں ایسے علماء کی کیسے اعطاعت کی جائے؟؟؟
اللہ نے حکم دیا تھا کہ اسلام کے نظام کو سارے باطل اور کفریہ نظاموں پر قائم کرو اگر ہم خود ہی باطل اور کفریہ نظاموں کو قائم کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے تو اسلام کے پاکیزہ اور منزل من اللہ نظام کو کون قائم کرنے آئے گا؟؟؟
بھائی جان نما ز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا نام ہی صرف اسلام ہے اگر ایسا ہی ہے تو مجھے بتائیں کہ اسلام کو باقی ادیان پر کیسے قائم کیا جائے گا؟؟؟
ووٹ بحیثیت مشورہ: ووٹ کی ایک حیثیت مشورہ کی ہے جسکے ذریعہ ایک ووٹر سے یہ مشورہ لیا جاتا ہے کہ یہ امیدوار جو ملکی اقتدار میں شامل ہونے کا خواہش مند ہے کیا اس کا انتخاب ملک قوم وملت کے حق میں مفید رہے گا یا نہیں۔ شریعت کی رو سے جس سے مشورہ لیا جاتا ہے اس کی حیثیت امین کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ ( النساء :۸۵)
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’الْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَن‘‘ (الحدیث) أخرجه أبو داود والترمذي وحسنه وابن ماجه وإسناده صحيح
جس سے مشورہ طلب کیا جائےوہ اس کا امین ہوتا ہے
اس کا مطلب یہ ہےکہ مشورہ دینےوالے کو مشورہ اپنی یا کسی دوسرے کی غرض کو شامل کئے بغیر دینا چاہئے اور اس مشورہ کو بطور امانت اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہئے اور ہر کسی پر اس کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔
کسی بیوقوف کو گمراہ کرنے کے لیئے اچھا حیلہ ہے مگر بھائی جان جو لوگ اسلام کی اساس اور اس کے نظام سے واقف ہیں ان کو آپ کیسے دھوکہ دے سکو گے؟؟؟
یہ باتیں بعد کی ہیں پہلے یہ ثابت کریں کہ آخر یہ جمہوریت جو اسلام کے نظام خلافت کے مقابل ایک نظام ہے کیونکر اسلام ہے؟ جو آپ اس کو قائم کرنے کے لیئے باطل تاویلات پیش کر رہے ہیں؟؟؟
ووٹ کسی قیمت پر مشورہ کی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ یہ جمہوری نظام ووٹ کی گنتی کرتا ہے کہ کس کو زیادہ وصول ہوئے اور کس کو کم جس کو زیادہ ملے وہی حقدار مسند، کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کم ووٹ حاصل کرنے والا حکمرانوں کی لسٹ میں شامل ہوا ہو؟؟؟ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا ناں تو سمجھ لیں یہ مشورہ نہیں تھا بلکہ فیصلہ تھا اگر مشورہ ہوتا تو کبھی کبھی کم تعداد والوں کی بھی مانی جاتی ہے جیسا کہ ہماری ذاتی زندگی میں بھی ہم خود وہ مشورہ اپناتے ہیں جو ہم خود بہتر اور اچھا سمجھیں وہ بےشک ایک ہی بندے کا دیا ہوا مشورہ ہو اور اس کے خلاف دس مشورے بھی ہوں تو ہم ان کو رَد کر دیتے ہیں تو بھائی جان آخر ایسا اس جمہوری نظام میں کیوں نہیں ہوتا اگر یہ مشورہ ہے تو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ نے باقی جو جو ووٹ کو حیثیت دی ہے مثلاً وو ٹ بحیثیت وکالت: وو ٹ بحیثیت شہادت و گواہی: وو ٹ بحیثیت سفارش و شفاعت،،، میرے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ یہ سب باتیں کسی جاہل کے لیئے موجب گمراہی تو ہوسکتیں ہیں میرے لیئے نہیں الحمدللہ،
جمہوریت کو قائم کرنے کے لیئے امریکہ ایک طرف ڈالر دے رہا ہے اور جو ڈالروں سے نہیں مانتے ان کو طاقت سے کچل کر اپنا کفریہ نظام جمہوریت قائم کر رہا ہے اور کہیں پر یہ اپنے ایجنٹوں سے قائم کروا رہا ہے کیونکہ امریکی صدر بش کا میں یہ بیان خود سن اور پڑھ چکا ہوں کہ ہم جمہوریت کو پوری دنیا پر قائم کریں گے اگر یہ اسلامی نظام ہے تو اس کافر کو کیوں اتنی فکر ہے اس کو پوری دنیا پر نافذ کرنے کی؟؟؟ اور اسی بش کے آباؤ اجداد نے خلافت عثمانیہ کو پہلی جنگ عظیم میں ختم کیا تھا اور خلافت کے لاکھوں مربع کلو میٹر علاقے کو چھوٹی چھوٹی سلطنتوں میں تقسیم کر دیا تھا اور تب سے اب تک یہ کافر لوگ مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم ہی کرتے آئے ہیں اب تو ہم لوگ اسلام کے نظام کو ہی بھول گے ہیں اور جمہوریت کے کفریہ نظام کو ہی اسلامی کہہ کر اپنی جان چھوڑا رہے ہیں کہ کہیں ہم کو اسلام کے نظام کو قائم کرنے کے لیئے جان و مال کی قربانی نہ دینی پڑ جائے اسی لیئے اسی کفریہ نظام کو اسلامی بنالو واہ رے دنیا کی محبت تو بھی کمال کی ہو حرام کو حلال اور حلال کو حرام تم ہی کرواتی ہو مگررررر بھائیو یہ زندگی ختم ہونے والی ہے اس کی فکر کریں جو ابدی زندگی ہے یعنی آخرت کی زندگی، اگر ہمارے پاس اسلام کا نظام حیات نہیں تو سمجھ لیں ہم بغیر آنکھوں کے ہی زندگی گزار رہے ہیں بالکل اندھے نہ خود سیدھی راہ پر چل رہے ہیں اور نہ ہی اپنے پیچھے آنے والوں کو چلا رہے ہیں۔
وقت کافی ہو گیا باقی کل ان شاءاللہ
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بادشاہ اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے اور وہ ملک و قوم کو اپنی اھواء سے چلاتا ہے اور جمہوریت لوگوں کی اکثریت کی اھواء سے اور جب کہ خلیفہ قرآن و سنت کا پابند ہے اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔
میں آپ کی بات سے یہ ہی مطلب اخذ کر پایا ہوں کے بلواسطہ نہیں تو بلاواسطہ ملوکیت بھی طاغوت کا ہی نظام ہوا۔۔۔ کیونکہ فیصلے کا اختیار یا اھواء کہہ لیں بادشاہ کی اپنی مرضی سے ہوتے ہیں یعنی قرآن وسنت کے زریں اُصولوں کو بھی اگر پامال کرنا پڑے تو شاید اُسے کوئی عار محسوس نہ ہو۔۔۔ لیکن ایسے میں اُس مجلس شورٰی کو ہم کس نام سے پکاریں گے جو ان فیصلوں پر سرتسلیم خم کردیتی ہے؟؟؟۔۔۔ بڑی معذرت کے ساتھ میں کوئی طعنہ نہیں دے رہا لیکن گجراب میں بیٹھ کر اس طرح کے تبصروں کو ہمدردی تو سمجھا جاسکتا ہے لیکن حقیقت سمجھ کر تسلیم نہیں کرسکتے۔۔۔ کیونکہ یہ وہ مثال ہوگئی کے ایک شخص دریا کے کنارے بیٹھ کر اس کی گہرائی پر تبصرہ کررہا ہو۔۔۔ لیکن صحیح گہرائی وہی بتا سکتا ہے جو دریا میں اتر چکا ہو۔۔۔


شکریہ!
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جمہوریت کو قائم کرنے کے لیئے امریکہ ایک طرف ڈالر دے رہا ہے اور جو ڈالروں سے نہیں مانتے ان کو طاقت سے کچل کر اپنا کفریہ نظام جمہوریت قائم کر رہا ہے اور کہیں پر یہ اپنے ایجنٹوں سے قائم کروا رہا ہے کیونکہ امریکی صدر بش کا میں یہ بیان خود سن اور پڑھ چکا ہوں کہ ہم جمہوریت کو پوری دنیا پر قائم کریں گے اگر یہ اسلامی نظام ہے تو اس کافر کو کیوں اتنی فکر ہے اس کو پوری دنیا پر نافذ کرنے کی؟؟؟ اور اسی بش کے آباؤ اجداد نے خلافت عثمانیہ کو پہلی جنگ عظیم میں ختم کیا تھا اور خلافت کے لاکھوں مربع کلو میٹر علاقے کو چھوٹی چھوٹی سلطنتوں میں تقسیم کر دیا تھا اور تب سے اب تک یہ کافر لوگ مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم ہی کرتے آئے ہیں اب تو ہم لوگ اسلام کے نظام کو ہی بھول گے ہیں اور جمہوریت کے کفریہ نظام کو ہی اسلامی کہہ کر اپنی جان چھوڑا رہے ہیں کہ کہیں ہم کو اسلام کے نظام کو قائم کرنے کے لیئے جان و مال کی قربانی نہ دینی پڑ جائے اسی لیئے اسی کفریہ نظام کو اسلامی بنالو واہ رے دنیا کی محبت تو بھی کمال کی ہو حرام کو حلال اور حلال کو حرام تم ہی کرواتی ہو مگررررر بھائیو یہ زندگی ختم ہونے والی ہے اس کی فکر کریں جو ابدی زندگی ہے یعنی آخرت کی زندگی، اگر ہمارے پاس اسلام کا نظام حیات نہیں تو سمجھ لیں ہم بغیر آنکھوں کے ہی زندگی گزار رہے ہیں بالکل اندھے نہ خود سیدھی راہ پر چل رہے ہیں اور نہ ہی اپنے پیچھے آنے والوں کو چلا رہے ہیں۔وقت کافی ہو گیا باقی کل ان شاءاللہ
میں نے کہیں پڑھا تھا واللہ اعلم کہاں تک درست ہے۔۔۔ اس سلسلے میں اہل علم حضرات رہنمائی فرمائیں۔۔۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے!۔
کہ مومن کو چاہئے کہ وہ برائی میں سے بھی اچھائی کو اپنائے۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔
اگر یہ قول درست ہے تو ایک سوالیہ نشان ہے۔۔۔ جس کی تاویلات بہت سے معاملات میں کی جاسکتی ہیں۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
مزید آپ نے لکھا ہے کہ
اسلام علیکم
بھائی عاصم بڑی خوشی کی بات کہ آپ کے اندر اللہ تعالیٰ نے اسلامی حمیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے اللہ تعالیٰ اور اضافہ فرمائے بھائی میری چند باتوں کا جواب عنایت فرمادیں
(۱) اسلام خلافت کا داعی ہے یا بادشاہت کا
(۲) ہمارے ہاتھوں سے خلافت کیوں کرنکل گئی اور اسکی حفاظت کیوں نہ کرسکیں
(۳)خلافت ختم کرنے میں عربوں کا کیا رول رہا؟
(۴) اب خلافت کس طرح آئے
(۵)اور خلافت کب تک مل جائے گی
(۶) جب تک خلافت حاصل ہوگی اس وقت تک کیا کریں
(۷) جب خلاٖفت واپس آئےگی اس وقت تک کیا مفسدین کو کھلی چھوٹ دیدی جائے کہ مسلمانوں کو بے دین ہونے کا عادی کردیا جائے ۔اور خلافت قائم ہونے کے بعد پھر دوبارہ سے مسلمانوں کو کلمہ پڑھایا جائے گا اور اسلامی تعلیمات دی جائیں گی۔ اس کو طرح سمجھئے کہ ہمارے بچہ اگر بچپن سے ہی اسلامی تعلیمات حاصل کرلیں تو پھر کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ ان کو تبلیغی جماعت میں بھیجا جائے ۔ (تبلیغ پر بحث کرنا مقصود نہیں)
(۸) ہندوستان کے بارے میں اور ھندوستانی مسلمانوں کی فکر نہ کریں آپ صرف پاکستان کی فکر کریں کیوں کہ مملکت خدا داد ہے ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا ہے کیسے رہنا ہے وہ ان کا مسئلہ ہے آپ ہماری فکر نہ کریں
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
میں نے کہیں پڑھا تھا واللہ اعلم کہاں تک درست ہے۔۔۔ اس سلسلے میں اہل علم حضرات رہنمائی فرمائیں۔۔۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے!۔
کہ مومن کو چاہئے کہ وہ برائی میں سے بھی اچھائی کو اپنائے۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔
اگر یہ قول درست ہے تو ایک سوالیہ نشان ہے۔۔۔ جس کی تاویلات بہت سے معاملات میں کی جاسکتی ہیں۔۔۔
بھائی یہ قول حقیقت کے برخلاف ہے کیونکہ ہر بُرائی میں سے اچھائی نہیں نکالی جاسکتی مثلا کہ
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۭ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ۭ

(اے پیغمبر، لوگ) آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ (ان سے) کہہ دیں کہ ان دونوں (چیزوں) میں بڑا گناہ ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے (کچھ) فائدے بھی ہیں مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔ البقرہ : ٢١٩
اب بھائی مجھے ان دونوں برائیوں میں سے اچھائی کوئی اپنا کر دیکھائے!!!
اور میرے لیئے اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہی کافی ہے۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
عابد بھائی آپ کے سوالات کا جواب میں بعد میں دونگا ان شاءاللہ ، پہلے جو سوالات میں نے کیے ہوئے ہیں ان کے جوابات آپ عنایت فرما دیں کیونکہ یہ تھریڈ آپ نے لگایا ہے اور ایک حرام کام کو حلال قرار دیا ہے اب اس حرام کو حلال ثابت کریں وہ بھی صرف قرآن اور صحیح احادیث سے اور آپ لوگوں کے قیاس و اجتہاد کو بھی پیش کرسکتے ہیں مگر وہ قیاس اور اجتہاد اپنے پیچھے قرآن اور صحیح احادیث کے دلائل بھی رکھتے ہوں شکریہ۔
ابھی تو آپ کی باقی ماندہ تحریر کا جواب بھی لکھنا ہے اس لیے میں آپ کے سوالات کے جوابات بعد میں دونگا بلکہ کچھ کا جواب تو اسی فورم پر میرے کچھ تھریڈز میں موجود ہے آپ کو اس کا لنک دے دونگا ان شاءاللہ۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بھائی یہ قول حقیقت کے برخلاف ہے کیونکہ ہر بُرائی میں سے اچھائی نہیں نکالی جاسکتی مثلا کہ

اسی لئے واللہ اعلم لکھ دیا تھا۔۔۔
لیکن شاید آپ اگر اس قول کے رد میں وہ طریقہ اپناتے جو خالص علمی ہے۔۔۔
راوی کی نشاندہی کے ساتھ۔۔۔
جہاں تک بات ہے۔۔۔
وہ جو آیت آپ نے پیش کی ہے۔۔۔
تو بھائی اس پر میں کیا بات کروں۔۔۔ کیونکہ موضوع کسی اور طرف نکل جائے گا۔۔۔
شکریہ!
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عاب بھائی پہلے آپ نے وہ احادیث پیش کی جن میں امارت طلب کرنے والے کو امارت نہ ینے کا حکم ہے اور آپ نے بھی اس کو حرام مانا ہے اور ساتھ ہی اس کی اجازت بھی عنایت فرمادی عجیب بات ہے بھائی اور جس آیت اور حدیث کی دلیل سے دی اس پر میں بھی بات کرنا چاہوں گا۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنِي مُوسَی بْنُ نَجْدَةَ عَنْ جَدِّهِ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ أَبُو کَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ طَلَبَ
قَضَائَ الْمُسْلِمِينَ حَتَّی يَنَالَهُ ثُمَّ غَلَبَ عَدْلُهُ جَوْرَهُ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَمَنْ غَلَبَ جَوْرُهُ عَدْلَهُ فَلَهُ النَّارُ

یزید بن عبدالرحمن ابوکثیر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے
مسلمانوں کے عہدہ قضاءکو طلب کیا حتی کہ اسے پا لیا پھراس کا عدل اس کے ظلم پر غالب آ جائے تو اس کے لئے جنت ہے اور اگر اس کا ظلم اس کے عدل پر غالب آ جائے تو اس کے لئے جہنم ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:کتاب :
فیصلوں کا بیان :باب:قاضی اگر فیصلہ میں غلطی کردے تو اس کا بیان


عابد بھائی آپ اس حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیں اس میں قضاء یعنی قاضی کے عہدہ کی بات ہورہی ہے نہ کہ امیر،گورنر،وزیر مشیر یا خلیفہ کے عہدہ کی مانگ کا ذکر نہیں ہے اور آپ دیکھیں کہ امام
ابوداؤد سلیمان بن اشعث نے اس کو کس باب میں ذکر کیا ہے :::قاضی اگر فیصلہ میں غلطی کردے تو اس کا بیان:::لیکن بھائی آپ اس سے خلافت کی مانگ کوبھی جائز ثابت کررہے ہیں جبکہ اس خلافت یا امیری کی مانگ کی ممانعت صحیح احادیث سے ثابت ہے میں وہ احادیث آپ کی تسلی کے لیے پیش کیے دیتا ہوں آپ خود نوٹ کیجیے گا کہ وہاں کس چیز کی مانگ کی ممانعت ہے۔

حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ لَا تَسْأَلْ
الْإِمَارَةَ فَإِنَّکَ إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ أُکِلْتَ إِلَيْهَا وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا


حضرت عبدالرحمن بن سمرة سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا اے عبدالرحمن!
امارت کا سوال مت کرنا کیونکہ اگر تجھے تیرے سوال کے بعد یہ عطا کر دی گئی تو تم اسکے سپرد کر دیے جاؤ گے اور اگر یہ تجھے مانگے بغیر عطا کی گئی تو تیری اس معاملہ میں مدد کی جائے گی۔

صحیح مسلم:جلد سوم:کتاب:
امارت اورخلافت کا بیان : باب:امارت کے طلب کرنے اور اس کی حرص کرنے سے روکنے کے بیان میں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّکُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَی
الْإِمَارَةِ وَسَتَکُونُ نَدَامَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَنِعْمَ الْمُرْضِعَةُ وَبِئْسَتْ الْفَاطِمَةُ وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُمْرَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَکَمِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَوْلَهُ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب تم امارت(حکومت)کے حریص ہوں گے اور قیامت کے دن تمہیں ندامت ہوگی، پس وہ اچھی دودھ پلانے والی ہے اور بری دودھ چھڑانے والی ہے۔
صحیح بخاری:جلد سوم:باب:
حکومت کی حرص کا مکروہ ہونا

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ بَنِي عَمِّي فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَيْنِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمِّرْنَا عَلَی بَعْضِ مَا وَلَّاکَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَقَالَ الْآخَرُ مِثْلَ ذَلِکَ فَقَالَ إِنَّا وَاللَّهِ لَا نُوَلِّي عَلَی هَذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَهُ وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ
ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور دو آدمی میرے چچا کے بیٹوں میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو ان دو آدمیوں میں سے ایک نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک عطا کئے ہیں ان میں سے کسی ملک کی حکومت ہمارے سپرد کردیں اور دوسرے نے بھی اسی طرح کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم ہم اس کام پر اس کو مامور نہیں کرتے جو اس کا سوال کرتا ہو یا اس کی حرص کرتا ہو۔
صحیح مسلم:جلد سوم:کتاب:
امارت اورخلافت کا بیان : باب:امارت کے طلب کرنے اور اس کی حرص کرنے سے روکنے کے بیان میں


ان سب احادیث کو سامنے رکھیں اور فیصلہ کریں کہ اصل کس چیز سے ممانعت ہے تو بات صاف واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت کی طلب کرنا منع ہے اور اس پر نبی علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ
:::آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم ہم اس کام پر اس کو مامور نہیں کرتے جو اس کا سوال کرتا ہو یا اس کی حرص کرتا ہو:::
اب اس کے بعد کیا گنجائش رہتی ہے؟؟؟؟

اور یوسف علیہ السلام کی بات سے اس کی دلیل نہیں پکڑی جاسکتی ان کی شریعت کے سب اصول ہماری شریعت میں نہیں ہیں اب اس کے بارے میں ہم کو جو حکم نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیں گے اس پر ہی عمل کیا جائے گا اور ہمارے سامنے نبی علیہ السلام کا واضح حکم موجود ہے الحمدللہ اور وہ یہ ہے کہ::: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم ہم اس کام:: امارت:: پر اس کو مامور نہیں کرتے جو اس کا سوال کرتا ہو یا اس کی حرص کرتا ہو:::
اب اس واضح حکم کے ہوتے پہلی شریعت پر عمل کرنا جہالت تو ہوسکتی ہے پر حق نہیں، ہاں جو شریعت ہم کودی گئی اگر اس میں اس بارے خاموشی ہوتی تو اس بات پر عمل کیا جاسکتا تھا۔ لہذا آپ کا یوسف علیہ السلام کی یہ بات پیش کرنا مناسب نہیں تھا۔
 
Top