- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
پہلا حلقہ
پہلے گروہ کی نظر میں تصویر کی اوّلین نوعیت اور فی زمانہ استعمال کی جانے والی تصاویر میں ماہیت اور طریقہ کے اعتبار سے اگرچہ کچھ فرق بھی پایا جاتا ہو لیکن ان کے حکم میں کوئی فرق نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم1 کی شریعت قیامت تک کے لئے ہے، اور اس میں ہردور کے مسائل کے بارے میں مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تصویر کی حرمت کی وجوہات فوٹو گرافی والی تصویر میں زیادہ بہتر (کاملاً) اور ویڈیو میں انتہائی بہترین (اکملا ً) پائی جاتی ہیں، اس لئے تصویر کے ظاہری پہلو سے ان پر بحث کرنے کی بجائے ان تمام نئی صورتوں کو بھی تصویر قرار دیا جائے گا، بلکہ جوں جوںاس میں تصویری عنصراور خصوصیات کامل تر ہوتی جائیں گی، توں توں اس کی حرمت شدید تر ہوتی جائے گی۔ ان علما کے خیال میں یہ بحث کہ تصویر ہاتھ سے بنائی گئی، یا ظاہری سادہ وجود رکھتی ہے یا نہیں؟ اس کا تعلق نفسِ مسئلہ کی بجائے تمدن کی ترقی سے ہے اور صرف طریقہ مختلف ہونے کی بنا پر تصویر کے حکم میں تبدیلی پیدا کرنا حیلے سازی کے مترادف ہے ، ان چیزوںسے اصل مسئلہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سلسلہ میںان کا استدلال ’نفس تصویرکی خصوصیات‘ اور اس کے لئے عربی لغت میں بولے جانے والا اَلفاظ واِطلاقات سے بھی ہے۔جب ہر نوعیت کی تصویر کو آج تک ’تصویر‘ اور ’صورت‘ سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے تو احادیث میں ’صورت‘، ’مصور‘ اورتصویر کے لئے بولے جانے والے تمام الفاظ دورِ حاضرکی جملہ تصاویر کو بھی شامل ہیں۔
چنانچہ غیرذی روح کی تصویر کی اجازت یا بچیوں کے کھیلنے کے لئے گڑیوں کی اجازت، یا تصویر کو پائوں میں روندنے یا اس کا چہرہ وغیرہ ختم کردینے کے حدیثی استثناء ات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ علماے کرام قرار دیتے ہیں کہ ہر وہ تصویر جس سے کوئی مفید دینی مقصدپورا نہ ہوتا ہو توایسی تصاویرتو لازماً حرام ہیں، لیکن جہاں اس سے کوئی زیادہ مفید (ضروری مقصد) پورا ہوتا ہو جس کا پورا ہونا اس تصویر کے بغیر مشکل ہے تو ایسی صورت میں تصویر جائز ہے۔اس موقف کی دلیل بچیوں کی تربیتی ضرورت کے لئے نبی کریم ﷺ کا حضرت عائشہ کو گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت دینا ہے۔ اس بنا پر اگر مذکورہ بالا صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آیا جائے یا ویڈیو بنائی جائے تو اس صورت میں تصویر کشی وفلم بندی گوارا ہے،جیسا کہ علامہ البانی ؒکا یہی موقف آگے آرہا ہے۔
پہلے گروہ کی نظر میں تصویر کی اوّلین نوعیت اور فی زمانہ استعمال کی جانے والی تصاویر میں ماہیت اور طریقہ کے اعتبار سے اگرچہ کچھ فرق بھی پایا جاتا ہو لیکن ان کے حکم میں کوئی فرق نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم1 کی شریعت قیامت تک کے لئے ہے، اور اس میں ہردور کے مسائل کے بارے میں مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تصویر کی حرمت کی وجوہات فوٹو گرافی والی تصویر میں زیادہ بہتر (کاملاً) اور ویڈیو میں انتہائی بہترین (اکملا ً) پائی جاتی ہیں، اس لئے تصویر کے ظاہری پہلو سے ان پر بحث کرنے کی بجائے ان تمام نئی صورتوں کو بھی تصویر قرار دیا جائے گا، بلکہ جوں جوںاس میں تصویری عنصراور خصوصیات کامل تر ہوتی جائیں گی، توں توں اس کی حرمت شدید تر ہوتی جائے گی۔ ان علما کے خیال میں یہ بحث کہ تصویر ہاتھ سے بنائی گئی، یا ظاہری سادہ وجود رکھتی ہے یا نہیں؟ اس کا تعلق نفسِ مسئلہ کی بجائے تمدن کی ترقی سے ہے اور صرف طریقہ مختلف ہونے کی بنا پر تصویر کے حکم میں تبدیلی پیدا کرنا حیلے سازی کے مترادف ہے ، ان چیزوںسے اصل مسئلہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سلسلہ میںان کا استدلال ’نفس تصویرکی خصوصیات‘ اور اس کے لئے عربی لغت میں بولے جانے والا اَلفاظ واِطلاقات سے بھی ہے۔جب ہر نوعیت کی تصویر کو آج تک ’تصویر‘ اور ’صورت‘ سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے تو احادیث میں ’صورت‘، ’مصور‘ اورتصویر کے لئے بولے جانے والے تمام الفاظ دورِ حاضرکی جملہ تصاویر کو بھی شامل ہیں۔
پہلے گروہ میں بھی آگے علما کی دو قسمیں ہیں، بعض تو وہ ہیں جو احادیث کے ظاہری الفاظ پر انحصارکرتے ہوئے کسی تفصیل اور بحث میں جائے بغیرہر قسم کی تصویر کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ان علما کا رویہ حدیث کے ظاہری الفاظ پر زو ردینے کا ہے کہ ہر ایسی شے جس پر تصویر کا اطلاق کیا جاتا ہے، اس کو حرام سمجھا جائے۔ اسی بنا پر یہ اہل علم حدیث میں وارد لفظ إلا رقمًا في الثوب وغیرہ کو بھی مختلف دلائل کی بنا پر بے جان شے کی تصویر پرہی محمول کرتے ہیں۔ البتہ حدیث میں گڑیوں وغیرہ کے استعمال کے جواز کو حکم تصویر سے مستثنیٰ کہتے ہیں ، او راس جواز کی بنیاد بھی یہی ہے کہ احادیث ِنبویہؐ کے ظاہری متن سے اس کی گنجائش ملتی ہے۔مذاکرہ میں ان راسخ فکر علما کا یہ موقف تھا کہ کسی خارجی غلط وجہ (مثلاً فحاشی اور فسق وفجور) کے بغیر بھی تصویر کی حرمت براہِ راست قائم ہے جس کی وجہ اللہ کی صفت ِخالقیت ومصوریت میں مشابہت ہے اور اس کی احادیث میںانتہائی سنگین وعید آئی ہے۔ البتہ یاد رہے کہ تصویر کی یہ شناعت انہی احادیث کی بنا پر فقط ذی روح اشیا تک ہی محدود ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر ایسے علما تصویر کے مسئلے اور مصداق میں اُصولی طورپر کوئی استثنا پیدا کرنے سے کلی احتراز کرتے ہیں۔
اسی گروہ کے دوسرے علما کا رجحان یہ ہے کہ احادیث کی ظاہری پابندی ایک نہایت قابل تعریف رویہ ہے، لیکن دین میں فقاہت کواللہ تعالیٰ نے باعث ِخیر وبرکت قرار دیا ہے۔چنانچہ صرف الفاظِ حدیث پر ڈیرہ جما دینے کی بجائے ان الفاظ کی علتوں اور حکمتوں پر غور وخوض کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ رویہ فقہاے محدثین سے قریب تر ہے کہ حدیث کی الفاظ کی رعایت رکھتے ہوئے ان میں موجود حکمتوں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔اس استدلال کا منطقی نتیجہ تو یہ ہونا چاہئے کہ ان علما کے ہاں ٹی وی اور میڈیا پر تبلیغ اسلام کے لئے تصویر سازی اور فلم بندی حرام ہو لیکن مذکورہ استدلال کے بعدیہ علما بھی کسی نہ کسی درجہ میں فی زمانہ تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی وغیرہ پر آنے کو جائز یا گوارا ہونے کا ہی فتویٰ دیتے ہیں، اس سلسلے میں ان کا استدلال مریض عورت کا غیرمحرم ڈاکٹر سے علاج کرانا، شناختی کارڈ اور سرکاری دستاویزات وغیرہ تیار کرنے جیسی مثالیں ہیں جن کو پورا کرنا مسلمانوں پر بطورِ اضطرار لازمی ٹھہرتا ہے۔
چنانچہ غیرذی روح کی تصویر کی اجازت یا بچیوں کے کھیلنے کے لئے گڑیوں کی اجازت، یا تصویر کو پائوں میں روندنے یا اس کا چہرہ وغیرہ ختم کردینے کے حدیثی استثناء ات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ علماے کرام قرار دیتے ہیں کہ ہر وہ تصویر جس سے کوئی مفید دینی مقصدپورا نہ ہوتا ہو توایسی تصاویرتو لازماً حرام ہیں، لیکن جہاں اس سے کوئی زیادہ مفید (ضروری مقصد) پورا ہوتا ہو جس کا پورا ہونا اس تصویر کے بغیر مشکل ہے تو ایسی صورت میں تصویر جائز ہے۔اس موقف کی دلیل بچیوں کی تربیتی ضرورت کے لئے نبی کریم ﷺ کا حضرت عائشہ کو گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت دینا ہے۔ اس بنا پر اگر مذکورہ بالا صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آیا جائے یا ویڈیو بنائی جائے تو اس صورت میں تصویر کشی وفلم بندی گوارا ہے،جیسا کہ علامہ البانی ؒکا یہی موقف آگے آرہا ہے۔
گویا پہلے گروہ کے دونوں اہل علم کے موقف میں فرق یہ ہے کہ پہلا موقف اضطرار اور نئے حالات کے جبرکے نتیجے میں پیدا ہورہا ہے جبکہ دوسرے موقف میں گڑیوں کے کھیل، دیگر استثناء ات اور مقاصد ِشریعت سے استدلال کرتے ہوئے یہ گنجائش دی گئی ہے۔ پہلے موقف کی نمائندگی بالترتیب حافظ عبد العزیز علوی، حافظ صلاح الدین یوسف اور مولانا رمضان سلفی کررہے ہیںـ، جیسا کہ ان کے خطابات اور قراردادوں سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے۔ ایسے ہی حالت ِاضطرار کا دوٹوک موقف مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور مولانا رشید میاں تھانوی نے بھی اختیار کیا ہے۔ جبکہ دوسرے موقف کی طرف رجحان مولانا محمد شفیق مدنی اور حافظ عبدالرحمن مدنی کے ہاں پایا جاتا ہے۔ البتہ نتیجہ وفتویٰ ہر دو کے ہاں بہرطور یہی ہے کہ تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنا گوارا یا جائز ہے، اگرچہ تعلیل وتوجیہ میں دونوں کا طریقہ مختلف ہے۔اس طرح بعض علما شریعت کے مقاصد ِعامہیعنی اَخف الضررین ،مصلحت اور سدذریعہ وغیرہ کے تحت اس امر کی گنجائش پیدا کرتے ہیں کہ جب حالات وظروف کے اعتبارسے تبلیغ اسلام کی مصلحت کا یہ تقاضا نظر آئے کہ ٹی وی پر آئے بغیردفاعِ اسلام اور تعبیر دین کا فرض مؤثر طریقہ سے پورا نہیں ہوسکتا تو ایسی صورت میں بھی جدید ذرائع کو استعما ل کرنے کا جواز ہے۔