آخری گروہ کا دوسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے اصل کے اعتبار سے ہی اس مسئلہ کو شرعاً جائز قرار دیا ہے، اور وہ پاکستان میں جاوید احمد غامدی صاحب کا ادارہ ’المورد‘ہے جو اصلاً ہی اس بنا پر تصویر کو فی ذاتہ جائز بلکہ مرغوب ومطلوب قرار دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جمال کو پسند کرتے ہیں۔یہ لوگ قرآنِ کریم کی آیت میں حضرت سلیمانؑ کے واقعہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں کہ حضرت سلیمان کے لئے تو ایک فعل جائز ہو اور قرآن اس کو جائز قرار دے، لیکن شریعت ِمحمدیؐ میں آکر یہ پسندیدہ ’فعلِ تشکر‘ مذموم ٹھہر جائے،
(حالانکہ حضرت سلیمان کے تماثیل کے بارے میں علماء کا یہ موقف ہے کہ وہ بے جان اشیاء کی تماثیل تھیں یا ان کی اجازت صرف ان کی شریعت تک محدود تھیں احادیث میں واضح طور پر بکثرت آجانے اور نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام کو تصویریں مٹانے کے مشن پر متعدد بار بھیجنے سے شریعت محمدیﷺ کا موقف اس بارے بالکل واضح اور بین ہے اب کیا بہن بھائیوں کی آپس میں شادی وغیرہ کو بھی کیا محض اسی بنا پر آج گوارا کرلیا جائے)
اور احادیث میں ان کی حرمت اور شناعت کا بیان آجائے۔
زیادہ مناسب ہے کہ اس موقف کو تیسرے کی بجائے مستقل چوتھے گروہ کے طورپر سمجھا جائے کیونکہ غامدی حلقہ ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر اورمجسّموں کو بھی جائز قرار دیتا ہے۔ چنانچہ تصویر کی حرمت کے مروّ جہ شرعی موقف پر شدید تنقید کرتے ہوئے غامدی حلقہ تصویرکی حرمت کو خالصتاً خارجی وجوہات پر موقوف ٹھہراتا اور احادیث میں بیان کردہ حرمت و شناعت کو ان خارجی وجوہات کے حوالے سے ہی مخصوص قرار دیتا نظر آتا ہے۔ تجدد پسندوں کا یہ طبقہ ایسا ہے جو ہر نوعیت کی تصویر کو براہِ راست مطلوب قرار دیتا ہے۔ ان کا مجسمہ سازی کے بارے میں بھی یہی موقف ہے بلکہ وہ اس سلسلے میں ذی روح اور غیر ذی روح میں بھی کوئی فرق نہیں کرتے۔
ان کی نظر میں فی زمانہ تصویرشرک کی بجائے معلومات کو بآسانی منتقل کرنے او ریادداشت کو محفوظ رکھنے کی خاطر استعما ل ہورہی ہے جو ایک تمدنی ضرورت ہے، جس کی اسلام میں اس کی کوئی ممانعت موجود نہیں۔فن مصوری کے بارے میں ایک سوال پر ان کا جواب ملاحظہ فرمائیے:
’’وہ فن جس پر شرعاً کوئی اعتراض نہیں… قرآنِ مجید اس پر کوئی تنقید نہیں کرتا بلکہ سلیمان علیہ السلام کے اس فن سے فائدہ اُٹھانے کو اللہ کا فضل قرار دیتے ہوئے اس پر شکر بجا لانے کو کہتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ فن اپنے اندرایسی شرافت رکھتا ہے کہ اسے کوئی بھی مسلمان اختیا رکرے۔‘‘(’تصویر کا مسئلہ‘ از محمد رفیع مفتی: ص ۹۶)
بہرحال اس آخری گروہ کا موقف بھی یہ ہے کہ ٹی وی پر آنا شرعی حوالے سے کوئی ناپسندیدہ امر نہیں بلکہ شریعت کے حکم ممانعت میں ہرتصویر سرے سے داخل ہی نہیں۔