• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیکٹرونک میڈیا پر تصویرکا شرعی حکم ؛ تقابلی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دیارِ سعودیہ کے سب سے معتبر اور محترم مفتی شیخ محمد بن ابراہیم آلِ شیخ فرماتے ہیں:
ومن أعظم المنکرات تصویر ذوات الأرواح واتخاذہا واستعمالہا ولا فرق بین المجسّدۃ وما في الأوراق مما أُخِذَ بالآلۃ
’’بدترین گناہوں میں سے ذی روح کی تصویر بھی ہے کہ اس کو بنایا اوراستعمال کیا جائے۔ اس سلسلے میں مجسم اور کاغذوں پر آلاتِ تصویر سے لی جانے والی تصاویر میں کوئی فرق نہیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایک اور عرب عالم شیخ ولید بن راشد سعیدان اس استدلال کی تردید یوں کرتے ہیں:
إنما المعتبر في ذلک کلہ وجود الصورۃ لذوات الأرواح وإن اختفلت وسیلۃ إنتاجہا والجُہد الذي یبذل فیہا، وقد تقرَّر في القواعد أن الحکم یدور مع علتہ وجودًا وعدمًا۔ (حکم التصویر الفوتوغرافي: ۲۳)
’’فوٹوگرافی میں اعتبار ذی روح کی تصویر کے وجود کاہی کیا جائے گا، باوجودیکہ اس کے حصول کا اُسلوب اوراس پر صرف کردہ محنت مختلف نوعیت کی ہو۔ فقہ کے قواعد میں یہ امرمسلمہ ہے کہ شرعی حکم اپنی علت کے وجود او رعدم وجود کے ساتھ ہی مربوط رہتا ہے۔‘‘
بہر حال ان جوابی دلائل کا مطالعہ ان کی کتب میں کیا جاسکتا ہے ، جہاں اس موقف کی پوری تردید بھی موجود ہے۔ مذاکرہ میں حافظ محمد زبیر نے اس موقف کی طرف اشارہ کیا تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آخری گروہ کا دوسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے اصل کے اعتبار سے ہی اس مسئلہ کو شرعاً جائز قرار دیا ہے، اور وہ پاکستان میں جاوید احمد غامدی صاحب کا ادارہ ’المورد‘ہے جو اصلاً ہی اس بنا پر تصویر کو فی ذاتہ جائز بلکہ مرغوب ومطلوب قرار دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جمال کو پسند کرتے ہیں۔یہ لوگ قرآنِ کریم کی آیت میں حضرت سلیمانؑ کے واقعہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں کہ حضرت سلیمان کے لئے تو ایک فعل جائز ہو اور قرآن اس کو جائز قرار دے، لیکن شریعت ِمحمدیؐ میں آکر یہ پسندیدہ ’فعلِ تشکر‘ مذموم ٹھہر جائے،
(حالانکہ حضرت سلیمان کے تماثیل کے بارے میں علماء کا یہ موقف ہے کہ وہ بے جان اشیاء کی تماثیل تھیں یا ان کی اجازت صرف ان کی شریعت تک محدود تھیں احادیث میں واضح طور پر بکثرت آجانے اور نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام کو تصویریں مٹانے کے مشن پر متعدد بار بھیجنے سے شریعت محمدیﷺ کا موقف اس بارے بالکل واضح اور بین ہے اب کیا بہن بھائیوں کی آپس میں شادی وغیرہ کو بھی کیا محض اسی بنا پر آج گوارا کرلیا جائے)
اور احادیث میں ان کی حرمت اور شناعت کا بیان آجائے۔
زیادہ مناسب ہے کہ اس موقف کو تیسرے کی بجائے مستقل چوتھے گروہ کے طورپر سمجھا جائے کیونکہ غامدی حلقہ ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر اورمجسّموں کو بھی جائز قرار دیتا ہے۔ چنانچہ تصویر کی حرمت کے مروّ جہ شرعی موقف پر شدید تنقید کرتے ہوئے غامدی حلقہ تصویرکی حرمت کو خالصتاً خارجی وجوہات پر موقوف ٹھہراتا اور احادیث میں بیان کردہ حرمت و شناعت کو ان خارجی وجوہات کے حوالے سے ہی مخصوص قرار دیتا نظر آتا ہے۔ تجدد پسندوں کا یہ طبقہ ایسا ہے جو ہر نوعیت کی تصویر کو براہِ راست مطلوب قرار دیتا ہے۔ ان کا مجسمہ سازی کے بارے میں بھی یہی موقف ہے بلکہ وہ اس سلسلے میں ذی روح اور غیر ذی روح میں بھی کوئی فرق نہیں کرتے۔
ان کی نظر میں فی زمانہ تصویرشرک کی بجائے معلومات کو بآسانی منتقل کرنے او ریادداشت کو محفوظ رکھنے کی خاطر استعما ل ہورہی ہے جو ایک تمدنی ضرورت ہے، جس کی اسلام میں اس کی کوئی ممانعت موجود نہیں۔فن مصوری کے بارے میں ایک سوال پر ان کا جواب ملاحظہ فرمائیے:
’’وہ فن جس پر شرعاً کوئی اعتراض نہیں… قرآنِ مجید اس پر کوئی تنقید نہیں کرتا بلکہ سلیمان علیہ السلام کے اس فن سے فائدہ اُٹھانے کو اللہ کا فضل قرار دیتے ہوئے اس پر شکر بجا لانے کو کہتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ فن اپنے اندرایسی شرافت رکھتا ہے کہ اسے کوئی بھی مسلمان اختیا رکرے۔‘‘(’تصویر کا مسئلہ‘ از محمد رفیع مفتی: ص ۹۶)
بہرحال اس آخری گروہ کا موقف بھی یہ ہے کہ ٹی وی پر آنا شرعی حوالے سے کوئی ناپسندیدہ امر نہیں بلکہ شریعت کے حکم ممانعت میں ہرتصویر سرے سے داخل ہی نہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نتیجہ و ثمرہ
مذکورہ بالا تینوں گروہوں کے جہاں مسئلہ تصویر پر موقف باہم مختلف ہیں، وہاں اس مسئلہ کے جواز کے لئے ہر صاحب ِعلم نے اپنے اپنا اُسلوبِ استدلال اختیا رکیا ہے۔ایسا تو ضرور ہوا کہ کوئی شخصیت کھلے بندوں اس معاملہ کو جائز قرار دے رہی ہے اور کوئی مجبوری واضطرار یا حالات کے جبر کے نام پر بادلِ نخواستہ اس ضرورت کو تسلیم کررہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر موقف کے استدلال اور توجیہ سے نتائج میں بھی خاطر خواہ فرق واقع ہوتا ہے، چنانچہ
پہلے گروہ کے موقف ِاضطرار یا اخف الضررین کے مطابق سنگین حالات میں تصویر کی گنجائش نکالی جائے گی اور وہ بھی بادلِ نخواستہ۔ جبکہ پہلے گروہ کے دوسرے موقف کے مطابق گڑیوں کے کھیل سے استدلال کرتے ہوئے یا مقاصد عامہ کے تحت ایسی تمدنی ضروریات کے لئے تصویر کی اجازت ہوگی جن کا حصول شریعت میں اصلاً جائز ہو۔
دوسرے گروہ کے مطابق تصویر تو حرام ہے لیکن وصف ِدوام نہ ہونے کے سبب وہ ٹی وی اور ویڈیو کو حرمت ِتصویر سے نکال لیتے ہیں۔ اس لئے ان کے ہاں ٹی وی ، ویڈیو اور ڈیجیٹل کیمرہ کو حسب ِخواہش استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جبکہ تیسرے گروہ کے ہاں فوٹوگرافی تصویر کا مصداق ہی نہیں، اس لئے صرف وہی تصویر حرام ہے جو ہاتھ سے بنائی جائے۔ چنانچہ تصویر بنانے اور فلم وویڈیو کی کھلی اجازت ہے، بلکہ آخری موقف کے مطابق تو یہ مطلوب شے ہے۔ بہرطوراَب آپ ان تقاریر کو خود بھی ملاحظہ فرمائیے ۔
پروگرام کے آخر میں متفقہ طورپر منظور کی گئی قرارداد حسب ِذیل ہے:
’’ملی مجلس شرعی کے زیراہتمام اس کے مستقل ارکان اور جملہ مکاتب ِفکر کے علماے کرام کا یہ وسیع تر اجلاس اس رائے کا اظہار کرتاہے کہ اسلام کا حیات آفریں پیغام دوسروں تک جلد اور مؤثر انداز میں پہنچانے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیوں اور پروپیگنڈے کے ازالے کے لیے علماے کرام کو ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا چاہیے اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے ایسے تعمیری، اصلاحی اور تعلیمی پروگرام بھی تیار کیے جانے چاہئیں جو شرعی منکرات سے پاک ہوں، اسلامی دعوت واصلاح اور تبلیغ کے لیے مفید ہوں اور جن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناجائز اور مکروہ پروپیگنڈے کاتدارک ہوتاہو۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جامعہ سلفیہ، فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی صاحب نے اس قرارداد پر اپنے قلم سے یہ اضافہ کیا اور اس پر اپنے دستخط ثبت کئے کہ
’’ میڈیا پر جو تصاویر آتی ہیں، ان کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہوئے إلا من أکرہ وقلبہ مطمئن کے پیش نظرمیڈیا سے دفاعِ اسلام درست ہے۔‘‘
اس موقع پر مولانا حافظ صلاح الدین یوسف نے بھی ایک تحریربطورِ قرار داد تیار کی تھی جو پیش تو نہ کی جاسکی، البتہ معلومات اور موقف کے اظہار کے لئے اس کا مسودہ ملاحظہ فرمائیے:
’’اہل سنت کے تینوں مکاتب ِفکر اہلحدیث،دیوبندی اور بریلوی علماء کاایک اجتماع جامعہ اسلامیہ، جوہرٹاؤن لاہور میں بتاریخ ۱۳؍اپریل ۲۰۰۸ء کو منعقد ہوا۔موضوع تھا:
تبلیغ ودعوت کے لئے الیکٹرانک میڈیا(ٹی وی،انٹرنیٹ وغیرہ)کااستعمال جائز ہے یا نہیں؟
تمام علما نے اپنی اپنی رائے کااظہار کیا اور اس مؤقف پر تقریباً تمام علما نے اتفاق ظاہر کیا کہ
تصویر کی حرمت قطعی اور ابدی ہے، اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں۔
تصویر ہاتھ سے بنی ہوئی ہو یا کیمرے کے ذریعے سے، دونوں میں کوئی فرق نہیں اور دونوں ہی یکساں طور پر حرام ہیں۔
آج کل بعض لوگ دینی رہنماؤں،بزرگوںاور پیروں کی تصویریں فریم کراکر دکانوںاور گھروں میں آویزاں کرتے ہیں، اسی طرح بعض علماء اور نعت خوانوں کی تصاویر پر مبنی اشتہارات عام شائع ہورہے ہیں، یہ سب ناجائز اور حرام ہیں۔
تاہم ٹی وی وغیرہ پر لادینیت کی جو یلغار ہے، اس کے سدباب کے لیے علما کے تبلیغی پروگراموں میں حصہ لینے کی اسی طرح گنجائش ہے جیسے شناختی کارڈاور پاسپورٹ وغیرہ کے لیے بامر مجبوری تصویر کا جواز ہے۔‘‘
آخر میں سعودی عرب کی دائمی فتویٰ کونسل کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیے:
’’النہي عن التصویر عام دون نظر إلی الآلۃ والطریقۃ التي یکون بہا التصویر۔ أما التلفزیون فیحرم ما فیہ من غناء أو موسیقي وتصویر وعرض صور ونحو ذلک من المنکرات ویُباح ما فیہ من محاضرات إسلامیۃ ونشرات تجاریۃ أو سیاسیۃ ونحو ذلک مما لم یرد في الشرع منعہ وإذا غلب شرہ علی خیرہ کان الحکم للغالب‘‘
’’تصویر کی حرمت عام ہے، چاہے آلہ یا کسی بھی طریقہ سے تصویر لی جائے۔ البتہ ٹی وی پر گانے، موسیقی اور تصاویر جیسی منکرات حرام ہیں،لیکن اسلامی لیکچر، تجارتی اور سیاسی خبریں جن کی شریعت میں ممانعت وارد نہیں، جائز ہیں۔البتہ جب اِن کا شر خیر پر غالب آ جائے تو اعتبار غالب کا ہوگا۔ ‘‘ (فتاوٰی اللجنۃ الدائمۃ:۱؍۶۷۴، فتویٰ نمبر: ۵۸۰۶)
مذکورہ بالا قراردادوں اور فتاویٰ سے یہ بات البتہ کھل کر واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ حالات میں تصویر کی حرمت کی بنا پر ٹی وی مذاکروں مباحثوں میں شرکت نہ کرناشرعی طورپر کوئی وزن نہیں رکھتا۔ کیونکہ پاکستان کے جملہ مکاتب ِفکر کے علما نے تبلیغ اسلام کے لئے تصویر کو گوارا یا جائز سمجھنے پر اتفاق کیا ہے، البتہ کسی انتظامی مشکل یا ٹی وی پروگرام کی نوعیت و ترتیب کے پیش نظر اس سے وقتی طورپر ضرور گریز کیا جاسکتا ہے۔ علما کو نہ صرف اس حوالے سے مزید کوششیں بروے کار لاتے ہوے اپنے تجربہ واستدلال کو کام میں لانا چاہئے بلکہ دیگر ایسے ذرائع جن کے بارے میں کسی قسم کی حرمت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ان تک بھی اپنی دعوت کو وسیع کرنا چاہئے مثلاً ایف ایم ریڈیو چینل اور انٹرنیٹ وغیرہ۔
یاد رہے کہ موجودہ متفقہ فتویٰ کا محرک وہ صورتحال ہے جس نے ٹی وی پر چینلوں کی کثرت کے حوالے سے جنم لیا ہے، اس کا شافی وکافی جواب اُسی مقام پر ہی دیا جاسکتا ہے جہاں سے یہ فتنہ پیدا ہورہا ہے۔ علما کے روایتی ذرائعِ دعوت ،منبر ومحراب اور رسائل وجرائد سے نئے پیدا ہونے والے فکری انتشار کا مداوا ممکن نہیں۔ فی الوقت علما کے منصب ِتبلیغ دین کے حوالے سے یہ المناک صورتحال درپیش ہے کہ عوام کے دینی رجحانات وتصورات مسخ کئے جارہے ہیں، اس لئے اس کا شافی جواب ہرصورت دیا جانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ علما کو اپنے فرائضِ منصبی کو مزید بہتر طورپرپورا کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور فرمائے ۔
۔۔۔تمت بالخیر۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top