محمد جواد بھائی نے لکھا::
کمال ہوگئی جناب ،،
یہ میری منطق نہیں سلف صالحین کا منہج و موقف ہے۔
لگتا ہے آپ نے ابن قیم رحمہ اللہ کی اس مسئلے پر بحث کا مطالعہ نہیں ، اس لئے ایسی بات کیں، چلیں کوئی بات نہیں ، میں یہاں پیش کیا دیتا ہوں ،
شاید کے اتر جائےدل میں تیرے یہ بات:
میرا موقف :
کفر کے لفظی معنی ہیں - حق کا انکار کرنے والا -جب کوئی مسلمان الله کے نازل کردہ احکامات کا عملی یا اعتقادی طور پر انکار کرتا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے - مثال کے طور پر اگر ایک شخص اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے شراب پی لیتا ہے لیکن شراب کو حرام سمجھتا ہے تو وہ کفر کی کی حد پر نہیں پہنچتا کیوں کہ ابھی زرہ برابر ایمان اس میں موجود ہے باوجود اس کے کہ وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے - لیکن اگر کوئی مسلمان جس نے زندگی بھر شراب کو کبھی ہاتھ بھی نہ لگایا ہو اور وہ شراب کو حلال کہے یا سمجھے تو وہ قرآن و سنّت کے متفقہ اصول کے تحت کافر ہو جائے گا - کیوں کہ وہ قرآن کے احکمات کی صریح نص سے انکار کا مرتکب ہوا ہے -ایسے احکمات جو الله اور اس کے رسول صل الله علیہ وسلم کی تکذیب یا اہانت یا گستاخی پر مبنی ہوں ان میں نیت کا احتمال نہیں -جیسے کوئی الله کو گلی دے مگر اس کو غلط بھی سمجھتا ہو یا نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی گستاخی کرے چاہے دل سے اس کو برا جانتا ہو تب بھی وہ کافر ہو جائے گا- یا مذاق میں وہ بات کہے جو الله اور اس کے رسول پر تہمت ہو-
قرآن میں الله کا ارشاد ہے -
يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ.(التوبۃ:۷۴)
''اپنے قول پر اﷲ کی قسم کھاتے ہیں اور البتہ تحقیق انھوں نے کفریہ بات کہی ہے۔''
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ oلا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً(توبہ)
''(اے محمدﷺ)کہہ دیجئے ،کیا اﷲ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ تم مذاق کرتے ہو،معذرت نہ کرو تحقیق تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے ہو،ہم اگر ایک گروہ کو معاف کریں گے تو دوسرے کو عذاب بھی دیں گے۔
لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لا انْفِصَامَ لَهَا.(البقرۃ:۲۵۶)
''پس جو طاغوت کا کفر کرے اور اﷲ پر ایمان لائے حقیقت میں اس نے مضبوط رسی کو تھام لیا جو ٹوٹنے والی نہیں۔''
ان آیات سے یہ بات واضح ہے کہ ایمان کی تکمیل کا لئے یہ ضروری ہے پہلے طاغوت کا انکار کرے ورنہ دوسری صورت میں اس کا شمار کافروں میں ہو گا- چاہے وہ ١٠٠ مرتبہ کہے کہ میں مسلمان ہوں -
اگر کفر سے مراد صرف دل کا اعتقاد ہوتا تو نبی کریم صل الله علیہ وسلم کسی مشرک یا یہودی یا عیسائی کو اپنے پاس سے کافر نا قرار دے پاتے -
کیوں کہ جو بھی کفریہ قول یا عمل کا اظہارکرے گا ہم اُسے محض اس کے قول اور عمل کی وجہ سے کافر کہیں گے جبکہ دلی اعتقاد توصرف اﷲ ہی جانتا ہے۔
نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے فرمایا:
(انی لم أبعث لأشق عن قلوب الناس) (بخاری:۴۰،۶۰)
'' میں اس لئے نہیں بھیجا گیا کہ لوگوں کے دل چیرکو دیکھتا رہوں۔''
اس کے خلاف دعوٰی کرنے والااصل علم غیب کا مدعی ہے اوراور علم غیب کا مدعی بلاشک جھوٹا ہے۔ اﷲ نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ اہل کتاب حق کو پہچانتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اللہ حق ہے اورمحمد الله کے رسول حق ہیں ۔ مگر اپنی زبانوں سے اس کے برعکس اظہار کرتے ہیں اﷲ نے بھی انہیں صرف اسی بات پرکافر کہا جس کا انہوں نے اپنی زبانوں اور افعال سے اظہار کردیا ۔(کتاب الفصل:۳/۲۵۹)
اﷲ نے فرمایا:
وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ.(النمل )
''جب ان تک ہماری آیات روشن کردینے والی وضاحت کرنے والی آگئیں توکہنے لگے یہ توکھلا جادو ہے۔اور انھوں نے ان کا انکار کیا ظلم اورتکبر میں جبکہ ان کے نفس ان پر مطمئن تھے۔''
مزید ﷲ فرماتا ہے کہ :
يَقُولُونَ بِأَفْواهِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ.(آل عمران:۱۷۶)
''اپنے منہ سے ایسی بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔''
يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ.(التوبۃ: ۷۴)
'' اپنے قول پر اللہ کی قسم کھاتے ہیں اور البتہ تحقیق انھوں نے کفریہ بات کہی ہے اور کافر ہوئے ہیں مسلمان ہونے کے بعد۔''
یہ بات نص قرآنی سے ثابت ہوگئی کہ جو کوئی کلمہ کفر کہے گا تو اس نے اسلام کے بعد کفر کیا ،اوریہ بھی ثابت ہوا کہ جو اعتقادِ ایمانی رکھے اورکلمۂ کفر کہے تو وہ اﷲ کے ہاں بھی قرآن کی دلیل سے کافرہوا -
حکمران اس کفر کی واضح تصویر ہیں - جو اگر چہ ظاہری طور پر تو مسلمان ہیں لیکن اپنے کفریہ اعمال ہی کی بنا پر کافر قرار پاتے ہیں - جب کہ قرآن کی رو سے الله کے نازل کردہ احکمات ہم پر واضح ہو چکے ہیں اور اس پر قرآن و سنّت کے دلائل ہمارے سامنے موجود ہیں تو ان پر غیر الله کے قانون کو ترجیح دینا صریح کفر بن جاتا ہے - جس کا ارتکاب ہمارے حکمران بغیر کسی پس و پیش کے کرتے ہیں -
والسلام -