• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابن تیمیہؒ نے تاتاریوں کی تکفیر اور ان کے خلاف قتال کیوں کیا؟

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
محترمہ امن کشف صاحبہ آپکو میری تحریر میں جہاں تضاد نظر آئے اسے بیان کرنے کی بجائے یہاں اس کے اقتباسات پیش کیئے جائیں، انصاف کا ےقاضہ یہی ہے اور فورم پر یہ آپشن بھی موجود ہے بہنا!

باقی آپ نے لکھا::



محترمہ آپ کی کم علمی پر حیف ہے،

آپ سے درخواست ہے کہ دیوبند علماء کے عقائد بریلیوں والی ہی ہیں ، مزید تحقیق کے لئے آپ کی خدمت میں چند ایک حوالہ جات اور یہ ایک لنک حاضر ہے۔

عقائد علماء دیوبند


مردے قبروں کے اندر سے کلام والہام کرتے ہیں!!!



اہل قبور سے علم کا حاصل ہونا اور مشورہ کا جواب ملنا ممکن ہے ۔




ديوبنديوں کا عقيدہء تحريف قرآن



قبر سے مرید کو روزانہ پیسےملتے رہے!


جی محترمہ ،مزید جاننے کے لئے ، دیو بند کے عقائد اور بریلویوں کی جانب سے اپنے عم عقیدہ بھائیوں دیوبندیوں سے کیا گیا ایک شکوہ اس کتاب زلزلہ میں بھی پڑھ لیں کہ تم ہم ہو ہم تم ہیں ، مگر پھر یہ بیگانگی کیوں؟؟؟

اور اگر مزید دلائل کی ضرورت ہو تو، حقیقت دیوبندیت کا مطالعہ آپ کی آنکھین کھولنے کے لئے کافی ہیں اگر ان پر تقلید کی پٹی نہیں بندھ چکی تو۔

وما علینا الا البلاغ المبین
جزاک اللہ خیرا حضرت علی ولی اب کیا آپ یہ بتانا گوارہ کریں گے کہ جن عقائد کو آپ نے پیش کیا ہے وہ قرآن و حدیث سے مطابقت رکھتے ہیں یا قرآن وحدیث اور جن سلفی علماء کی آپ بات کرتے ہیں اُن کے عقائد کے سریحی خلاف ہیں مجھے بے چینی سے آپ کے جواب کا انتظار ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جواد بھائی ، میں حیران ہوں کہ آپ نے اس تفصیلی جواب کے بعد وہ بات کی ، جو اس جواب میں بار بار مذکور ہے۔ عجیب، لگتا ہے یا تو آپ نے پڑھا ہی نہیں اور اگر پڑھا ہے تو سمجھا ہی نہیں، اور اگر سمجھ لیا ہے تو قبول کرنے سے انکاری ہو، اس کے جواب میں بلا دلیل ، اپنے فہم کے بل بوتے پر آپ منہج ترتیب دینے کی لاحاصل کوشش کی ہے۔

آپ نے لکھا::


یہ ایمان کا حصہ محترم تب ہوگا، جب علماء اہل السنہ اس شخص یا گروہ کے ارتداد یا کافر ہونے کا متفقہ فتوی دے دیں ، اور میں نے اپے موقف کے حق میں کبار سلفی علماء کے حوالہ جات پیش کیئے،

مگر آپ نے ، وہی ہاتھ رکھا ہے، کہ آپ نے جو دعوی کیا ، اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی؟؟؟
محترم میں نے آپ کی تحریر کو پڑھا بھی ہے اور سمجھا بھی ہے -

لیکن آپ نے جن اہل السنہ و آئمہ کی مثالیں پیش کی ہیں ان میں اور ہمارے آج کہ علماء میں زمین و آسمان کا فرق ہے - وہ آئمہ وقت حکمرانوں کے خلافف کوئی فتویٰ دیتے وقت یہ چیز ملحوظ خاطر نہیں رکھتے تھے کہ اس کا نتیجہ ان کی پھانسی یا جیل کی صورت میں نکلے گا -وہ حق و باطل کے خلاف کھڑے ہونے میں پس و پیش نہیں کرتے تھے- وہ قرآن و حدیث کا صحیح فہم رکھنے والے انسان تھے-

جب کہ آج کے علماء کی اکثریت نفس پرستی کا شکار اور حکمرانوں کے وظیفہ خور بنی ہوئی ہے - اور جیسا ام کشف صاحبہ نے بھی فرمایا کہ ہمارے ہان تو علماء آپس میں دست و گریبان ہیں اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے میں لگے ہوے ہیں ایسی صورت میں ان پر کس طرح اعتبا ر کیا جائے - ان علماء کی اکثریت کا حال تو یہ ہے کہ جمہوریت جیسے کفریہ نظام کو باطل قرار دینے کے بجایے خود اس کفریہ نظام کا آ لہ کار بنے ہوے ہیں - تو پھر ان کے فتووں پر اعتبا ر کس طرح ممکن ہے ؟؟؟
ایسی صورت میں اپنا ایمان بچانے کے لئے ہمیں خود حالات کا جائزہ لے قرآن و سنّت کی رہنمائی میں ان حکمرانوں کو کافر قرار دینا پڑے گا - یہ انتظار کیے بغیر کہ کہ علماء ان کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جواد بھائی نے تحریر کیا ::


بھائی لگ رہا ہے آپ کو شاید تکفیر مسلم میں ، کفر عملی اور کفر اعتقادی کا فرق معلوم نہیں؟

بھائی اگر کوئی شخص یا حکمران یا علماء کوئی کفریہ کام کریں ، تو اس شخص پر یا گروہ پر کفر کا حکم نہیں لگائین گے ، بلکہ اس کفریہ عمل پر حکم لگائین گے۔

یعنی اگر قبروں کو سجدہ کرنا شرک ہے، اور اگر "زید" قبروں کو سجدہ کر رہا ہے تو ہم کہیں گے کہ زید نے شرکیہ کام کیا، یہ نہیں کہیں گے زید مشرک ہوگیا۔ کیونکہ کسی شخص یا گروہ کو مختص کر کے اس شخص پر حکم لگانا علماء و مفتیان کا کام ہے، اور وہ اسکے لئے تکفیر مسلم کے اصول وضوابط جوکہ قرآن و سنت اور فہم سلف صالحین سے ثابت ہیں، کو اپلائے کیا جائے گا۔ اس شخص یا گروہ کو اپنی صفائی کا موقع دیا جائے گا، پھر اس شخص یا گروہ کو جب علماء کافر اور مشرک قرار دیں گے اور علماء کی جماعت اس پر متفق ہوجائے گی، تب ایسے شخص یا گروہ کو کافر و مشرک سمجھنا اور پکارنا اور اس کا پرچار کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہوگا، علاوہ ازیں ہم اس کفریہ و شرکیہ عمل کی تردید اور مذمت کریں گے کہ جس میں کوئی شخص ملوث ہو، چاہیے وہ حکمران ہو، عام آدمی ہوں ، یا مدارس میں قال اللہ و قال الرسول کے خلاف خود ساختہ دین کی تعلیم دینے والئ ہوں۔

جزاک اللہ خیرا
محترم یہ منطق میری سمجھ سے باہر ہے کہ اگر کوئی شرکیہ یا کفریہ عمل کرتا ہے تو صرف اس شخص پر یا گروہ پر کفر کا حکم نہیں لگائین گے ، بلکہ اس کے کفریہ عمل پر حکم لگائین گے؟؟؟۔

جب ایک شخص نے کفر کیا یا شرک کیا تو وہ مشرک ہی ہوا - چاہے ایک مرتبہ کیا یا کئی مرتبہ کفر یا شرک کیا - جیسے ایک شخص جب نماز پڑھتا ہے تو ہم اس کو نمازی کہتے ہیں - تو پھر کفر کرنے والے کو کافر کیوں نہیں که سکتے -؟؟ میرے بھائی کفر کا فتویٰ چاہے کسی جماعت یا گروہ پر ہو یا کسی فرد پر اس کے ظاہر پر لگایا جاتا ہے- با طن کو دیکھ کر نہیں -

اگر آپ کا پیش کردہ اصول یعنی ("تکفیر مسلم کے اصول وضوابط جوکہ قرآن و سنت اور فہم سلف صالحین سے ثابت ہیں، کو اپلائے کیا جائے گا۔ اس شخص یا گروہ کو اپنی صفائی کا موقع دیا جائے گا، پھر اس شخص یا گروہ کو جب علماء کافر اور مشرک قرار دیں گے اور علماء کی جماعت اس پر متفق ہوجائے گی، تب ایسے شخص یا گروہ کو کافر و مشرک سمجھنا اور پکارنا اور اس کا پرچار کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہوگا)" کو اگر صحیح مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ:

کیا ہمارے علماء ایک ہندو، عیسائی، یہودی پر بھی یہی اصول اپلائی کرتے ہیں کہ ان کو کافر ثابت کرنے سے پہلے ان کو صفائی کا موقع دیتے ہیں؟؟؟ - انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے ان کو بھی صفائی کا موقعہ دیا جانا چاہیے - کیا ہم ایک شخص کو صرف اس بنا پر کافر قرار دے دیں کہ وہ ایک غیر مسلم گھرانے میں پیدا ہوا -- اب یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ کس پر حق واضح ہوا اور کس پر نہیں -؟؟؟

یاد رہے- ہمارے علماء نے ان غیر مسلموں کی تکفیر بھی ظاہر پر ہی کی ہے نا کہ با طن پر -
 

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
محترم علی ولی صاحب غیرمتعلق کا بٹن دبا کر آپ پوچھے گئے سوال سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتے لہذا اُسی برق رفتاری کا مظاہرہ کیجئے جو ابتدا میں تھا میں آپ کے جواب کا انتظار کررہی ہوں تاکہ جو اشکال میرے ذہن میں موجود ہیں وہ دور ہوں
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
محمد جواد بھائی نے لکھا::

محترم یہ منطق میری سمجھ سے باہر ہے کہ اگر کوئی شرکیہ یا کفریہ عمل کرتا ہے تو صرف اس شخص پر یا گروہ پر کفر کا حکم نہیں لگائین گے ، بلکہ اس کے کفریہ عمل پر حکم لگائین گے؟؟؟۔
کمال ہوگئی جناب ،،
یہ میری منطق نہیں سلف صالحین کا منہج و موقف ہے۔

لگتا ہے آپ نے ابن قیم رحمہ اللہ کی اس مسئلے پر بحث کا مطالعہ نہیں ، اس لئے ایسی بات کیں، چلیں کوئی بات نہیں ، میں یہاں پیش کیا دیتا ہوں ،

شاید کے اتر جائےدل میں تیرے یہ بات:

کفر عملی اور اعتقادی کی تفصیل از امام ابن القیم رحمہ اللہ


تکفیر کا دو سرا مسئلہ جسے سلفی علماء نے شدت سے نمایاں کیاہے وہ یہ

اصول ہے کہ کفر بعض صورتوں میں اعتقادی اور ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا ہوتا ہے
اور
بعض صورتوں میں یہ صرف کفریہ فعل ہوتا ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا

اگرچہ اس فعل کے مرتکب کے لیے کتاب وسنت میں کفر یا کافر کا لفظ ہی کیوں نہ وارد ہواہے۔ دوسری قسم یعنی کفر عملی سے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں کافی دقیق اور لطیف بحثیں کی ہیں جن کا خلاصہ ہم یہاں کر رہے ہیں۔ پہلی قسم یعنی اعتقادی کفر میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے لہذا ہم اس کی تفصیل یہاں نہیں بیان کر رہے ہیں۔
پہلا نکتہ
امام صاحب نے کفر کی دو قسمیں بیان کی ہیں: ایک کفر اعتقادی جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے اور دوسرا کفر عملی۔کفر عملی کو انہوں نے مزید دو قسموں میں تقسیم کیا ہے : ایک وہ کفر عملی ہے جو ایمان کی ضد ہو یعنی اس کفر عملی اور ایمان کا اجتماع ممتنع اور ناممکن ہو اور دوسرا وہ کفر عملی ہے جو ایمان کی ضد نہ ہو یعنی اس کا اور ایمان کا اجتماع ممکن ہو۔پہلی قسم کے کفر عملی کے بارے سلف صالحین کا موقف یہ ہے کہ یہ ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے جبکہ دوسری قسم کا کفر عملی ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث اور سبب نہیں ہے لیکن امام صاحب یہ بات بھی واضح کرتے ہیں کہ دوسری قسم کے کفریہ فعل کا مرتکب عملی کافر ضرور کہلائے گا کیونکہ جسے اللہ اور اس کے رسول نے کافر کہا ہو تو اسے کافر کہنے میں کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے بشرطیکہ جس معنی میں اللہ اور اس کے رسول نے اس کو کافر کہا ہے اسی معنی میں اس کو کافر کہا جا رہا ہو ۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' وھھنا أصل آخر وھو الکفر نوعان : کفر عمل وکفر جحود وعناد. فکفر الجحود : أن یکفر بما علم أن الرسول جاء بہ من عند اللہ جحودا وعنادامن أسماء الرب وصفاتہ وأفعالہ وأحکامہ وھذا الکفر یضاد الایمان من کل وجہ.وأما کفر العمل : فینقسم ا لی ما یضاد الایمان والی ما لا یضادہ فالسجود للصنم والاستھانة بالمصحف وقتل النبی وسبہ یضاد الایمان وأما الحکم بغیر ما أنزل اللہ وترک الصلاة فھو من الکفر العملی قطعا ولایمکن أن ینفی عنہ اسم الکفر بعد أن أطلقہ اللہ ورسولہ علیہ فالحاکم بغیر ما أنزل اللہ کافر وتارک الصلاة کافر بنص الرسول ولکن ھو کفر عمل ولایطلق علیھما اسم کافر وقد نفی رسول اللہ الایمان عن الزانی والسارق وشارب الخمر وعمن لایأمن جارہ بوائقہ وذا نفی عنہ اسم الیمان فھو کافر من جھة العمل وانتفی عنہ کفر الجحود والاعتقاد وکذلک قولہ لاترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض فھذا کفر عمل وکذلک قولہ من أتی کاھنا فصدقہ أو امرأة فی دبرھا فقد کفر بما أنزل علی محمد وقولہ ا ذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بھا أحدھما...وھذا التفصیل ھو قول الصحابة الذین ھم أعلم الأمة بکتاب اللہ وبالاسلام والکفر ولوازمھما فلاتتلقی ھذہ المسائل لا عنھم فن المتاخرین لم یفھموا مرادھم فانقسموا فریقین فریقا اخرجوا من الملة بالکبائر وقضوا اصحابھا بالخلود فی النار وفریقا جعلوھم مؤمنین کاملی الایمان فھؤلاء غلوا وھؤلاء جفوا وھدی اللہ أھل السنة للطریقة المثلی والقول الوسط الذی ھو فی المذاھب کالاسلام فی الملل فھا ھنا کفر دون کفر ونفاق دون نفاق وشرک دون شرک وفسوق دون فسوق وظلم دون ظلم.'' (الصلاة وحکم تارکھا' فصل فی نوعی الکفر: ص٧٢ تا٧٤' دار ابن حزم' بیروت)
'' اور یہاں ایک اور بنیادی اصول بھی ہے اور وہ یہ کہ کفر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک عملی کفر اور دوسرا انکار اور دشمنی کا کفر۔ پس کفر انکار یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے اسماء، صفات، افعال اوراحکام میں سے کسی ایسی شیء کا سرکشی اور ہٹ دھرمی سے انکار کر دے کہ جس کے بارے اسے علم ہو کہ اللہ کے رسول وہ شیء اللہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں۔ یہ ایسا کفر ہے جو ہر پہلو سے ایمان کے منافی ہے۔ جہاں تک کفر عملی کا معاملہ ہے تو یہ بھی دو قسم پر ہےایک یہ کہ وہ یعنی عملی کفرایمان کے منافی ہو اور دوسرا یہ کہ وہ ایمان کے منافی نہ ہو۔ پس بت کو سجدہ کرنا، قرآن مجید کی اہانت کرنا، نبی کو قتل کرنا یا اس کو گالی دینا ایسا کفر عملی ہے جو اس کے ایمان کے منافی ہے جبکہ ماأنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنا اور نماز کو چھوڑ دینا قطعی طور پر کفر عملی ہے اور ایسے کفرکو اللہ اور اس کے رسول کے کفر کہنے کے بعد بھی کفر نہ کہنا ممکن نہیں ہے۔ پس ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا کافر ہے اور نماز کو ترک کرنے والابھی اللہ کے رسول کی نص کے مطابق کافر ہے لیکن یہ عملی کفر ہے اور ان پر کافر حقیقی کے اسم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اللہ کے رسول نے زانی، چور، شراب نوشی کرنے والے اور پڑوسی کو ایذا پہنچانے والے سے ایمان کی نفی کی ہے۔ پس جب آپ نے ایمان کی نفی کر دی تو ایسا شخص عملی اعتبار سے کافر ہے لیکن اس میں انکار اور اعتقاد کا کفر نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول کا قول کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا اور ایک دوسرے کی گردنیں نہ اڑانے لگ جانا بھی کفر عملی کی مثال ہے۔ اسی طرح آپ کا قول کہ جو کسی کاہن کے پاس آیا اور اس نے اس کی تصدیق کی یا اس نے اپنی بیوی سے دبر میں مباشرت کی تو اس نے اس شریعت کا انکار کیا جو محمد عربی پر نازل کی گئی ہے۔ اسی طرح آپ کا قول کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو کہے :اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے یعنی یا تو جسے کہا جا رہا ہے وہ کافر ہے اور اگر وہ کافر نہیں ہے تو کہنے والا کافر ہو جاتا ہے تو یہ بھی کفر عملی ہی ہے...(کفر کے بارے )یہی تفصیل ان صحابہ کے اقوال میں موجود ہے جو امت میں اللہ کی کتاب، اسلام، کفر اور اس کے لوازمات کے بارے سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ پس تم یہ مسائل صرف انہی سے حاصل کرو کیونکہ متاخرین ان کی مراد کو نہ سمجھ سکے اور دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ۔ ایک فریق نے کبیرہ گناہ کی بنیاد پر لوگوں کو ملت اسلامیہ سے خارج اور دائمی جہنمی قرار دینا شروع کر دیا اور دوسرے گروہ نے گناہ کبیرہ کے مرتکبین کو مومن کامل کہا۔ پس پہلا گروہ غالی ہے اور دوسرا ظالم ہے۔ پس اللہ تعالی نے اپنے مثالی طریقہ اور معتدل قول کی طرف اہل سنت والجماعت کی رہنمائی فرمائی جیسا کہ متفرق مذاہب میں اسلام کا مقام ہے۔ اور یہ معتدل قول یہ ہے کہ یہاں کفر اکبر سے چھوٹا کفر یعنی کفر اصغر بھی ہے اور نفاق اکبر یعنی اعتقادی نفاق سے چھوٹا نفاق یعنی نفاق عملی بھی موجود ہے اور شرک اکبر چھوٹا شرک یعنی شرک اصغر بھی ہے اور گناہ کبیرہ سے چھوٹا گناہ یعنی صغیرہ بھی ہے اور ظلم اکبر سے چھوٹا ظلم بھی موجود ہے۔''
دوسرا نکتہ
کفر عملی سے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس اصول کوبھی اچھی طرح واضح کیا ہے کہ ایک شخص میں کفر اور ایمان اور توحید اور شرک جمع ہو سکتی ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں :
'' وھھنا أصل آخر وھو أن الرجل قد یجتمع فیہ کفر وایمان وشرک وتوحید تقوی وفجور نفاق وایمان ھذا من أعظم أصول أھل السنة وخالفھم فیہ غیرھم من أھل البدع کالخوارج والمعتزلة والقدریة ومسألة خروج أھل الکبائر من النار وتخلیدھم فیھا مبنیة علی ھذا الأصل وقد دل علیہ القرآن والسنة والفطرة وجماع الصحابة. قال تعالی ومایؤمن أکثرھم باللہ ا لا وھم مشرکون فأثبت لھم ایمانا بہ سبحانہ مع الشرک قال تعالی قالت الأعرب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا أسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم وان تطیعوا اللہ ورسولہ لا یلتکم من أعمالکم شیئاا ن اللہ غفور رحیم فأثبت لھم اسلاما وطاعة اللہ ورسولہ مع نفی الایمان عنھم.''(أیضاً : ص٧٨)
'' یہاں ایک اور بنیادی اصول بھی واضح رہنا چاہیے کہ کسی شخص میں کفر اور ایمان، شرک اور توحید، تقوی اور فسق وفجور، نفاق اور ایمان اکٹھا ہو سکتا ہے۔ یہ اہل سنت کے اصولوں میں سے ایک بہت اہم اصول ہے جبکہ اہل بدعت میں سے خوارجیوں، معتزلہ اور قدریہ وغیرہ میں اس اصول میں اہل سنت کی مخالفت کی ہے۔ کبیرہ گناہ کے مرتکبین کا جہنم سے نکلنا یا جہنم میں دائمی طور پر رہنے کا اختلاف اس اصولی اختلاف کا نتیجہ ہے ۔ اہل سنت کے اس اصول کی دلیل قرآن، سنت، اجماع اور فطرت ہے۔اللہ کا فرمان ہے: اکثر لوگ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں وہ اس کے ساتھ [کسی نہ کسی نوع کا] شرک بھی کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالی نے ان کے لیے شرک کے ساتھ ایمان کا بھی اثبات کیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے: بدوؤں نے یہ کہا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، آپ ان سے کہہ دیں کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم یہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا ہے اور ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو گے تو اللہ تعالی تمہارے اعمال[کے اجر و ثواب ] میں سے کچھ کمی نہ کرے گا، بے شک اللہ تعالی معاف کرنے والا رحیم ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے بدوؤں کے لیے اسلام کا اثبات کیا ہے اور ان کی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو بھی قبول کیا ہے جبکہ ساتھ ہی ان کے ایمان کی بھی نفی کر دی ہے۔ ''
تیسرا نکتہ
کفر عملی سے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے یہ اصول بھی بیان کیا ہے کہ بعض اوقات ایک شخص میں ایمان کی کوئی شاخ ہوتی ہے لیکن اس کو مؤمن نہیں کہا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض اوقات ایک شخص میں کفر کی کوئی قسم پائی جاتی ہے لیکن اس پر لفظ کافر کا اطلاق نہیں ہوتاہے کیونکہ اسم الفاعل کا اطلاق اس صورت میں ہوتا ہے جبکہ کوئی شخص کثرت سے وہ کام کر تا ہو جیساکہ لفظ ضارب کااطلاق یا اس کے غالب اجزاء اور پہلوؤں کا احاطہ کرنے والا ہو جیساکہ لفظ عالم کا اطلاق ۔امام صاحب فرماتے ہیں:
'' ھنا أصل آخر وھو أنہ لایلزم من قیام شعبة من شعب الایمان بالعبد أن یسمی مؤمنا وان کان ما قام بہ ا یمانا ولا من قیام شعبة من شعب الکفر بہ أن یسمی کافرا وان کان ما قام بہ کفرا کما أنہ لا یلزم من قیام جزء من أجزاء العلم بہ أن یسمی عالما ولا من معرفة بعض مسائل الفقہ والطب أن یسمی فقیھا ولاطبیبا ولایمنع ذلک شعبہ الایمان ایمانا شعبة النفاق نفاقا وشعبة الکفر کفرا وقد یطلق علیہ الفعل کقولہ فمن ترکھا فقد کفر ومن حلف بغیر اللہ فقد کفر ... فمن صدر منہ خلة من خلال الکفر فلا یستحق اسم کافر علی الطلاق وکذا یقال من ارتکب محرما نہ فعل فسوقا ونہ فسق بذلک المحرم ولایلزمہ اسم فاسق لا بغلبة ذلک علیہ.''(أیضاً : ص٨٠)
'' یہاں ایک اور اصول بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان کی شاخوں میں سے کسی شاخ پر قائم ہو تو لازم نہیں ہے کہ اس پر لفظ مومن صادق آئے۔ اگرچہ جس چیز کے ساتھ وہ کھڑاہو وہ ایمان ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کفرکی شاخوں میں سے کسی شاخ کے ساتھ کھڑا ہے تو لازم نہیں ہے کہ اسے کافر کہا جائے، اگرچہ جس کے ساتھ وہ کھڑا ہو وہ کفر ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ اگر کسی شخص کو علم کے اجزاء میں سے ایک جزء حاصل ہو جائے تو اسے عالم نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح اگر کسی کو فقہ یا علم طب کے بعض مسائل کی معرفت ہو تو اس سے وہ فقیہ یا طبیب نہیں بن جاتا۔لیکن یہ قاعدہ اور اصول اس بات میں مانع نہیں ہے کہ ہم اس شخص میں ایمان کی شاخ کو ایمان، نفاق کی شاخ کو نفاق اور کفر کی شاخ کو کفر کا نام دیں یعنی اسم الفاعل کا نام اس وقت دیا جائے گا جبکہ کوئی شخص اس فعل کو بار بار کرنے والا ہو یا اس کی جمیع اجزاء کا احاطہ کرنے والا ہو۔ بعض اوقات اس پر صرف فعل کا اطلاق ہو گا جیسا کہ آپ نےفرمایا جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی اس نے کفر کیایعنی کفریہ فعل کیا ہے اور اس میں ایمان کی شاخوں کے ساتھ ساتھ کفر کی ایک شاخ بھی وجود میں آ گئی ہے۔اور جس نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی تو اس نے کفر کیا...پس جس سے کفر کی صفات میں سے کوئی صفت صادر ہو تو اس کو مطلق طور پر کافر کہنا جائز نہیں ہے۔ہاں! مقید طور پر کافر مجازی یا کافر عملی کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جس نے کوئی حرام کام کیا تو اس نے اس حرام کام کے ارتکاب کی وجہ سے فسق و فجورتو کیاہے لیکن اس پر فاسق کے لفظ کا اطلاق درست نہیں ہے الا یہ کہ وہ اس حرام کام کو کثرت سے کرے ۔''
چوتھا نکتہ
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے عملی کفر کا یہ اصول بھی واضح کیا ہے کہ کتاب وسنت میں جن افعال کے مرتکبین کے اسلام یا ایمان کی نفی کی گئی ہے تو ہم بھی ان کے اسلام اور ایمان کی نفی کریں یعنی ہم انہیں مومن یا مسلم نہیں کہیں گے اور اس سے ہماری مراد ان کی تکفیر نہیں ہے بلکہ شرع کی اتباع میں ہم ایسا کریں گے اگرچہ ان اشخاص میں ایمان یا اسلام کی دوسری شاخیں موجود ہوں گی اور اس وجہ سے ان کو کافر حقیقی نہیں قرار دیا جائے گا ۔
امام صاحب فرماتے ہیں:
'' وھکذا الزانی والسارق والشارب والمنتھب لایسمی مؤمنا وان کان معہ ایمان کما أنہ لایسمی کافرا وان کان ما أتی بہ من خصال الکفر وشعبہا ذ المعاصی کلھا شعب من شعب الکفر کما أن الطاعات کلھا من شعب الایمان.أن سلب الایمان من تارک الصلاة أولی من سلبہ عن مرتکب الکبیرة وسلب اسم الاسلام عنہ أولی من سلبہ عمن لم یسلم المسلمون من لسانہ ویدہ فلا یسمی تارک الصلاة مسلما ولامؤمنا وان کان شعبة من شعب الاسلام والیمان.''(أیضاً : ص٨٠۔٨١)
'' اسی طرح کا معاملہ زانی، چور، شرابی اور لٹیرے وغیرہ کا بھی ہےیعنی ان پر ان ناموں کا اطلاق اسی وقت درست ہو گا جب ان سے یہ افعال کثرت سے صادر ہوں اور اگر کبھی کبھار ہوں تو پھر یہ تو کہا جائے گا کہ فلاں نے زنا کیا یا چوری کی یا ڈاکہ ڈالا یا شراب پی لیکن انہیں زانی، شرابی، ڈاکو یا چور نہیں کہا جائے گا۔ پس ان یعنی چور، زانی، شرابی اور لٹیرے کو نہ تو مومن کہا جائے گا (کیونکہ اللہ کے رسول نے حدیث میں ان کے مومن ہونے کی نفی ہے)۔اگرچہ ان کے پاس ایمان موجود بھی ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں کافر کہاجائے گا اگرچہ جن افعال کا انہوں نے ارتکاب کیا ہے وہ کفر کے قسموں میں سے ایک قسم ہیں کیونکہ تمام کے تمام گناہ کفر کی مختلف شاخیں ہیں اور تمام قسم کی اطاعتیں ایمان کی شاخیں ہیں۔گناہ کبیرہ کے مرتکبین سے ایمان کی نفی کے مقابلہ میں (جیسا کہ زانی ، شرابی اور چور سے ایمان کی نفی کی گئی ہے)تارک صلاة سے ایمان کی نفی کرنا بالأولی ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ نہ ہوں، سے اسلام کی نفی کے مقابلہ میں(جیسا کہ حدیث میں ثابت ہے) تارک صلاة سے اسلام کی نفی کرنا بالأولی ثابت ہوتی ہے۔ پس تارک صلاة کونہ تو مومن کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی مسلمان، اگرچہ وہ ایمان اور اسلام کی شاخوں میں سے بعض شاخوں پر قائم ہوتا ہو۔''
پانچواں نکتہ
جب کتاب وسنت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ایک شخص میں ایمان اور کفر اور توحید اور شرک اکھٹی ہو سکتی ہے تو کیا کسی شخص کو روز آخرت عملی کفر کی موجودگی میں اس کا ایمان یا عملی شرک کی موجودگی میں اس کی توحید کام دے گی ؟ اس بارے امام ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اس کی دو قسمیں بنتی ہیں۔
اگرتو کسی شخص کا عملی کفر ایسا ہے جو بقیہ ایمان کے لیے شرط کا درج نہیں رکھتا ہے تو بقیہ ایمان اس کو آخرت میں فائدہ دے گا اور اگر تو اس کا عملی کفر بقیہ ایمان کے لیے شرط کا درجہ رکھتا ہے تو اس کا بقیہ ایمان آخرت میں اس کے لیے نفع بخش نہ ہو گا۔
اس کو اس مثال سے یوں سمجھیں کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا اور کفریہ فعل کا مرتکب ہوتا ہے تو کیا اسے اس کے روزوں یا صدقہ و زکوة وغیرہ جسے دوسرے نیک اعمال کا فائدہ ہو گا یا کوئی حکمران ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ہے اور عملی طور پر کافر ہے تو کیا اسے اس کے نماز روزے کا اجر وثواب ملے گا یا ایک شخص مسجد میں جا کر پانچ وقت نماز بھی پڑھتا ہے اور مندر میں جا کر بت کے سامنے ماتھا بھی ٹیکتا ہے تو کیا اس کی نماز اس کے لیے نفع بخش ہو گی یا ایک شخص نماز روزہ تو کرتا ہے لیکن اللہ کے نبی کو گالی بھی دیتا ہے تو کیا اس کا نماز روزہ اس کے کام آئے گا ؟ اس بارے امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' نعم یبقی أن یقال فھل ینفعہ ما معہ من الایمان فی عدم الخلود فی النار فیقال ینفعہ ان لم یکن المتروک شرطا فی صحة الباقی واعتبارہ وان کان المتروک شرطا فی اعتبار الباقی لم ینفعہ ولھذا لم ینفع الایمان باللہ ووحدانیتہ وأنہ لا لہ لا اللہ ھو من أنکر رسالة محمد ولا تنفع الصلاة من صلاھا عمدا بغیر وضوء فشعب الایمان قد یتعلق بعضھا ببعض تعلق المشروط بشرطہ وقد لا یکون کذلک.''(أیضاً : ص٨١)
'' پس اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تارک صلاة کے پاس جو ایمان ہے وہ اسے دائمی جہنمی بنانے میں مانع ہو گا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تارک صلاة کا وہ ایمان اس کے دائمی جہنمی ہونے میں رکاوٹ بن سکتا ہے بشرطیکہ جس فعل کو وہ ترک کر رہا ہے(مثلا ً نماز)وہ بقیہ ایمان کی صحت کے لیے شرط اور معتبر نہ ہو ۔ اگر تو جس فعل کو وہ ترک کر رہا ہے(مثلا ً نبی کا اقرار کرنا)وہ بقیہ ایمان کے معتبر ہونے میں شرط ہو تو پھر بقیہ ایمان اس کو فائدہ نہ دے گا۔ پس یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے محمد کی نبوت کا انکار کر دیا تو اسے ایمان باللہ اور اللہ کی توحید یا لا الہ الا اللہ کچھ فائدہ نہ دے گا(کیونکہ یہاں اس نے ایک ایسے فعل یعنی محمد کی رسالت کے اقرار کو ترک کیا ہے جو ایسا کفر ہے جو اس کے بقیہ ایمان کے لیے بھی ایک معتبر شرط کی حیثیت رکھتا تھا لہذا شرط کے مفقود ہونے سے مشروط یعنی بقیہ ایمان بھی مفقود ہو گیا لہذا بقیہ ایمان قابل فائدہ نہ رہا)۔اسی طرح اس شخص کو اس نماز کوئی فائدہ نہ دے گی جو جانتے بوجھتے بغیر وضو کے نماز پڑھتا ہے ۔ پس ایمان کی شاخوں میں بعض کا بعض سے تعلق بعض اوقات شرط اور مشروط کا ہوتا ہے اور بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا۔''
 

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
محترمہ امن کشف صاحبہ آپکو میری تحریر میں جہاں تضاد نظر آئے اسے بیان کرنے کی بجائے یہاں اس کے اقتباسات پیش کیئے جائیں، انصاف کا ےقاضہ یہی ہے اور فورم پر یہ آپشن بھی موجود ہے بہنا!

باقی آپ نے لکھا::



محترمہ آپ کی کم علمی پر حیف ہے،

آپ سے درخواست ہے کہ دیوبند علماء کے عقائد بریلیوں والی ہی ہیں ، مزید تحقیق کے لئے آپ کی خدمت میں چند ایک حوالہ جات اور یہ ایک لنک حاضر ہے۔
عقائد علماء دیوبند

مردے قبروں کے اندر سے کلام والہام کرتے ہیں!!!
اہل قبور سے علم کا حاصل ہونا اور مشورہ کا جواب ملنا ممکن ہے ۔
ديوبنديوں کا عقيدہء تحريف قرآن
قبر سے مرید کو روزانہ پیسےملتے رہے!
جی محترمہ ،مزید جاننے کے لئے ، دیو بند کے عقائد اور بریلویوں کی جانب سے اپنے عم عقیدہ بھائیوں دیوبندیوں سے کیا گیا ایک شکوہ اس کتاب زلزلہ میں بھی پڑھ لیں کہ تم ہم ہو ہم تم ہیں ، مگر پھر یہ بیگانگی کیوں؟؟؟

اور اگر مزید دلائل کی ضرورت ہو تو، حقیقت دیوبندیت کا مطالعہ آپ کی آنکھین کھولنے کے لئے کافی ہیں اگر ان پر تقلید کی پٹی نہیں بندھ چکی تو۔
وما علینا الا البلاغ المبین
اہل علم کے نزدیک تکفیر معین کیلئے لازمی شرط قیام حجت کا اہتمام ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ ججت کتاب وسنت کے ابلاغ سے پوری ہوجاتی ہے قیام حجت کی تفصیلات کے بیان میں ایک جگہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں شرک ایک ایسا جرم ہے کہ اگر کسی شخص سے سرزد ہوجائے اور اُس شخص پر حجت تمام ہوجائے تو اُسے قتل کردیا جائے گا جبکہ وہ شرک سے تائب ہونے پر تیار نہ ہو، جس طرح اہل شرک سے جہاد کرنا اور انہیں قتل کرنا واجب ہے اُسی طرح حجت کے تمام ہونے کے بعد فرد بھی واجب القتل ہوتا ہے اگر شرک کا مرتکب پہلے اہل اسلام میں سے تھا تو اُسے مسلمانوں کے قبروستان میں دفن نہیں کیا جائے گا، نہ اُس کی نماز جنازہ ہی پڑھی جائے گی اگر معلوم ہوا کہ وہ ایسے فعل یا قول کے مبنی برشرک ہونے سے ہی جاہل تھا اور اسے علم حاصل ہونے کا موقع بھی نہیں ملا تھا اور اس پر یہ بات کھل ہی نہ سکی کہ وہ بعینہ وہ اقوال یا افعال کررہا ہے کہ جن کو مٹانے کے لئے نبی علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے اور اسی وجہ سے اہل شرک کے خلاف جہاد کرتے رہے تھے اگر صورت حال یہی ہو تو ایسے جاہل پر تکفیر کا حکم نہیں لگا جائے (تاآنکہ اس پر حجت قائم نہ ہوجائے) ہاں اگر کتاب وسنت کے ذریعے حجت تمام ہوجاتی ہے اور وہ پھر بھی اپنے قول یا فعل پر مصر رہتا ہے تو پھر شریعت کی مخالفت کہ بہ موجب قتل یا اس سے کم جو بھی اہل علم سزا تجویز کریں گے وہ اُس کا سزاوار سمجھا جائے گا (جامع الوسائل)

اللہ تعالٰی کے اسماء وصفات کے جو فرقے یا افراد منکر ہیں (یاد رہے اُن فرقوں کی بات ہورہی ہے جو اسلام میں شمار ہوتے ہیں) جیسے اللہ صفت عُلوُ کا انکار ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے نبی کی بتلائی ہوئی بات کو جھٹلا رہا ہے جو اصل میں تو کفر لازم کرتا ہے لیکن قاعدہ یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر کفر کہنے والا کافر بھی ہوجائے کیونکہ کافر ہونے کئلئے حجت کا اس طور پر پورا ہونا ضروری ہے کہ جس کے بعد اہل علم اُس جیسے شخص کی تکفیر کردیتے ہوں دراصل حجت تمام ہونے کے بعد ہی تکفیر کا حکم لاگو ہوتا ہے (مجموع الفتاوٰی)

تو بریلوی اور دیوبندیوں سے کیا کریں ولی اللہ یہ بتادیں۔
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
اہل علم کے نزدیک تکفیر معین کیلئے لازمی شرط قیام حجت کا اہتمام ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ ججت کتاب وسنت کے ابلاغ سے پوری ہوجاتی ہے قیام حجت کی تفصیلات کے بیان میں ایک جگہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں شرک ایک ایسا جرم ہے کہ اگر کسی شخص سے سرزد ہوجائے اور اُس شخص پر حجت تمام ہوجائے تو اُسے قتل کردیا جائے گا جبکہ وہ شرک سے تائب ہونے پر تیار نہ ہو، جس طرح اہل شرک سے جہاد کرنا اور انہیں قتل کرنا واجب ہے اُسی طرح حجت کے تمام ہونے کے بعد فرد بھی واجب القتل ہوتا ہے اگر شرک کا مرتکب پہلے اہل اسلام میں سے تھا تو اُسے مسلمانوں کے قبروستان میں دفن نہیں کیا جائے گا، نہ اُس کی نماز جنازہ ہی پڑھی جائے گی اگر معلوم ہوا کہ وہ ایسے فعل یا قول کے مبنی برشرک ہونے سے ہی جاہل تھا اور اسے علم حاصل ہونے کا موقع بھی نہیں ملا تھا اور اس پر یہ بات کھل ہی نہ سکی کہ وہ بعینہ وہ اقوال یا افعال کررہا ہے کہ جن کو مٹانے کے لئے نبی علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے اور اسی وجہ سے اہل شرک کے خلاف جہاد کرتے رہے تھے اگر صورت حال یہی ہو تو ایسے جاہل پر تکفیر کا حکم نہیں لگا جائے (تاآنکہ اس پر حجت قائم نہ ہوجائے) ہاں اگر کتاب وسنت کے ذریعے حجت تمام ہوجاتی ہے اور وہ پھر بھی اپنے قول یا فعل پر مصر رہتا ہے تو پھر شریعت کی مخالفت کہ بہ موجب قتل یا اس سے کم جو بھی اہل علم سزا تجویز کریں گے وہ اُس کا سزاوار سمجھا جائے گا (جامع الوسائل)
اللہ تعالٰی کے اسماء وصفات کے جو فرقے یا افراد منکر ہیں (یاد رہے اُن فرقوں کی بات ہورہی ہے جو اسلام میں شمار ہوتے ہیں) جیسے اللہ صفت عُلوُ کا انکار ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے نبی کی بتلائی ہوئی بات کو جھٹلا رہا ہے جو اصل میں تو کفر لازم کرتا ہے لیکن قاعدہ یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر کفر کہنے والا کافر بھی ہوجائے کیونکہ کافر ہونے کئلئے حجت کا اس طور پر پورا ہونا ضروری ہے کہ جس کے بعد اہل علم اُس جیسے شخص کی تکفیر کردیتے ہوں دراصل حجت تمام ہونے کے بعد ہی تکفیر کا حکم لاگو ہوتا ہے (مجموع الفتاوٰی)
تو بریلوی اور دیوبندیوں سے کیا کریں ولی اللہ یہ بتادیں۔
الحمد اللہ رب العالمین۔
اللہ نے حق کو ام کشف صاحبہ آپ کی زبان پر جاری کر دیا۔
فتنہ تکفیر میں افراط و تفریط افراد کے لئے نوشتہ دیوار۔۔۔

محترمہ میں آپ لا ممنون ہوں کہ آپ نے انصاف پسندی سے کام لیا۔۔۔

آپ کو معلوم ہے نا کہ ہمارے حکمران بھی بریلوی اور دیوبندی ہی ہیں، :)

جو قاعدہ آپ نے اوپر بیان کیا ، یہی میرا موقف و منہج ہے۔ اور یہی راست بات ہے جو آپ کو سمجح آئی مگر زرا گھوما پھرا کر۔

جزاک اللہ خیرا۔۔
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
آصف مغل بھائی مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میرے تجربہ میں کافی اضافہ ہو گیا ہے۔ الحمد اللہ

یہ سب آپ کی دعائین ہیں ۔۔ ؛)
 

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
الحمد اللہ رب العالمین۔
اللہ نے حق کو ام کشف صاحبہ آپ کی زبان پر جاری کر دیا۔
فتنہ تکفیر میں افراط و تفریط افراد کے لئے نوشتہ دیوار۔۔۔
ولی صاحب حجت کا احتمال ہوا ہے بریلویوں اور دیوبندیوں پر جن پر آپ نے دھواں دار تحریر میں اعتراضات اور اُن کے عقائد سے منسوب مواد فراہم کئے تھے تو جب ان کے عقائد جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تو کس بنیاد پر عدالت نے ان علماء کی آراء پر قادیانیوں کو کافر قرار دیا، کیا پاکستان کی کسی عدالت نے ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا جس سے یہ ثابت ہو کے ٹی ٹی پی خوارج کا گروہ ہے بقول آپ نے کے قادیانوں پر
مجھے حیرت ہے کہ آپ کیوں دانستہ طور پر اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ قادیانی کے مرتد و کافر یا زندیق ہونے پر علماء اہل السنہ کا اتفاق ہوچکا ہے اور ان پر تکفیر المعین کی تمام شروط و موانع برسر عدالت پورے اور زائل کیئے جاچکے ہیں۔ اور اہل علم اور اہل قضاء انکے ارتداد کی تصدیق کر چکے لہذا انکے مرتد اور زندیق ہونے میں کسی بھی مکتبہ فکر کے کسی بھی پیروکار کو کوئی شک نہیں الحمداللہ ،
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے خلق کے قرآن کا فتنہ جنہوں نے کھڑا کیا تھا اُن کی تکفیر کی تھی کہیں تو ثبوت پیش کردیتی ہوں لہذا میرے سوال کا جواب دیجئے کہ آپ نے بریلویوں اور دیوبندی حضرات کے عقائد پر جو گل پاشی کی تھی کیا وہ عقائد اہل سلف کے منہج سے مطابقت رکھتے ہیں اگر رکھتے ہیں تو ذرا مجھے دلائل دکھائیں اور اگر نہیں رکھتے ہیں تو پھر خلق قرآن کا فتنہ تو بدعت میں شمار ہوتا ہے مگر امام صاحب نے ایسے افراد کی تکفیر کیوں کی

اور جہاں تک بات ہے اہل علم اور اہل قضاء کی تو یہ بھی آپ جیسے ہی نام نہاد ولی ہونگے انتسامۃ
لہذا جب تک موقف کو صحیح طرح سمجھ نہیں جائیں تکبیریں پڑھنا نہ شروع کردیا کیجئے ورنہ اس خبط روش کو لوگ مزح کے طور پر لیں گے جیسے ابوبصیر کا اس موضوع میں بے فضول مخل ہونا بالکل اُسی طرح کے "بےگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ"
 
Top