کفر عملی اور اعتقادی کی تفصیل از امام ابن القیم رحمہ اللہ
تکفیر کا دو سرا مسئلہ جسے سلفی علماء نے شدت سے نمایاں کیاہے وہ یہ
اصول ہے کہ کفر بعض صورتوں میں اعتقادی اور ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا ہوتا ہے
اور
بعض صورتوں میں یہ صرف کفریہ فعل ہوتا ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا
اگرچہ اس فعل کے مرتکب کے لیے کتاب وسنت میں کفر یا کافر کا لفظ ہی کیوں نہ وارد ہواہے۔ دوسری قسم یعنی
کفر عملی سے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں کافی دقیق اور لطیف بحثیں کی ہیں جن کا خلاصہ ہم یہاں کر رہے ہیں۔ پہلی قسم یعنی اعتقادی کفر میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے لہذا ہم اس کی تفصیل یہاں نہیں بیان کر رہے ہیں۔
پہلا نکتہ
امام صاحب نے کفر کی دو قسمیں بیان کی ہیں: ایک کفر اعتقادی جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے اور دوسرا کفر عملی۔کفر عملی کو انہوں نے مزید دو قسموں میں تقسیم کیا ہے : ایک وہ کفر عملی ہے جو ایمان کی ضد ہو یعنی اس کفر عملی اور ایمان کا اجتماع ممتنع اور ناممکن ہو اور دوسرا وہ کفر عملی ہے جو ایمان کی ضد نہ ہو یعنی اس کا اور ایمان کا اجتماع ممکن ہو۔پہلی قسم کے کفر عملی کے بارے سلف صالحین کا موقف یہ ہے کہ یہ ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے جبکہ دوسری قسم کا کفر عملی ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث اور سبب نہیں ہے لیکن امام صاحب یہ بات بھی واضح کرتے ہیں کہ دوسری قسم کے کفریہ فعل کا مرتکب عملی کافر ضرور کہلائے گا کیونکہ جسے اللہ اور اس کے رسول نے کافر کہا ہو تو اسے کافر کہنے میں کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے بشرطیکہ جس معنی میں اللہ اور اس کے رسول نے اس کو کافر کہا ہے اسی معنی میں اس کو کافر کہا جا رہا ہو ۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' وھھنا أصل آخر وھو الکفر نوعان : کفر عمل وکفر جحود وعناد. فکفر الجحود : أن یکفر بما علم أن الرسول جاء بہ من عند اللہ جحودا وعنادامن أسماء الرب وصفاتہ وأفعالہ وأحکامہ وھذا الکفر یضاد الایمان من کل وجہ.وأما کفر العمل : فینقسم ا لی ما یضاد الایمان والی ما لا یضادہ فالسجود للصنم والاستھانة بالمصحف وقتل النبی وسبہ یضاد الایمان وأما الحکم بغیر ما أنزل اللہ وترک الصلاة فھو من الکفر العملی قطعا ولایمکن أن ینفی عنہ اسم الکفر بعد أن أطلقہ اللہ ورسولہ علیہ فالحاکم بغیر ما أنزل اللہ کافر وتارک الصلاة کافر بنص الرسول ولکن ھو کفر عمل ولایطلق علیھما اسم کافر وقد نفی رسول اللہ الایمان عن الزانی والسارق وشارب الخمر وعمن لایأمن جارہ بوائقہ وذا نفی عنہ اسم الیمان فھو کافر من جھة العمل وانتفی عنہ کفر الجحود والاعتقاد وکذلک قولہ لاترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض فھذا کفر عمل وکذلک قولہ من أتی کاھنا فصدقہ أو امرأة فی دبرھا فقد کفر بما أنزل علی محمد وقولہ ا ذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بھا أحدھما...وھذا التفصیل ھو قول الصحابة الذین ھم أعلم الأمة بکتاب اللہ وبالاسلام والکفر ولوازمھما فلاتتلقی ھذہ المسائل لا عنھم فن المتاخرین لم یفھموا مرادھم فانقسموا فریقین فریقا اخرجوا من الملة بالکبائر وقضوا اصحابھا بالخلود فی النار وفریقا جعلوھم مؤمنین کاملی الایمان فھؤلاء غلوا وھؤلاء جفوا وھدی اللہ أھل السنة للطریقة المثلی والقول الوسط الذی ھو فی المذاھب کالاسلام فی الملل فھا ھنا کفر دون کفر ونفاق دون نفاق وشرک دون شرک وفسوق دون فسوق وظلم دون ظلم.'' (الصلاة وحکم تارکھا' فصل فی نوعی الکفر: ص٧٢ تا٧٤' دار ابن حزم' بیروت)
'' اور یہاں ایک اور بنیادی اصول بھی ہے اور وہ یہ کہ کفر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک عملی کفر اور دوسرا انکار اور دشمنی کا کفر۔ پس کفر انکار یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے اسماء، صفات، افعال اوراحکام میں سے کسی ایسی شیء کا سرکشی اور ہٹ دھرمی سے انکار کر دے کہ جس کے بارے اسے علم ہو کہ اللہ کے رسول وہ شیء اللہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں۔ یہ ایسا کفر ہے جو ہر پہلو سے ایمان کے منافی ہے۔ جہاں تک کفر عملی کا معاملہ ہے تو یہ بھی دو قسم پر ہےایک یہ کہ وہ یعنی عملی کفرایمان کے منافی ہو اور دوسرا یہ کہ وہ ایمان کے منافی نہ ہو۔ پس بت کو سجدہ کرنا، قرآن مجید کی اہانت کرنا، نبی کو قتل کرنا یا اس کو گالی دینا ایسا کفر عملی ہے جو اس کے ایمان کے منافی ہے جبکہ ماأنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنا اور نماز کو چھوڑ دینا قطعی طور پر کفر عملی ہے اور ایسے کفرکو اللہ اور اس کے رسول کے کفر کہنے کے بعد بھی کفر نہ کہنا ممکن نہیں ہے۔ پس ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا کافر ہے اور نماز کو ترک کرنے والابھی اللہ کے رسول کی نص کے مطابق کافر ہے لیکن یہ عملی کفر ہے اور ان پر کافر حقیقی کے اسم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اللہ کے رسول نے زانی، چور، شراب نوشی کرنے والے اور پڑوسی کو ایذا پہنچانے والے سے ایمان کی نفی کی ہے۔ پس جب آپ نے ایمان کی نفی کر دی تو ایسا شخص عملی اعتبار سے کافر ہے لیکن اس میں انکار اور اعتقاد کا کفر نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول کا قول کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا اور ایک دوسرے کی گردنیں نہ اڑانے لگ جانا بھی کفر عملی کی مثال ہے۔ اسی طرح آپ کا قول کہ جو کسی کاہن کے پاس آیا اور اس نے اس کی تصدیق کی یا اس نے اپنی بیوی سے دبر میں مباشرت کی تو اس نے اس شریعت کا انکار کیا جو محمد عربی پر نازل کی گئی ہے۔ اسی طرح آپ کا قول کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو کہے :اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے یعنی یا تو جسے کہا جا رہا ہے وہ کافر ہے اور اگر وہ کافر نہیں ہے تو کہنے والا کافر ہو جاتا ہے تو یہ بھی کفر عملی ہی ہے...(کفر کے بارے )یہی تفصیل ان صحابہ کے اقوال میں موجود ہے جو امت میں اللہ کی کتاب، اسلام، کفر اور اس کے لوازمات کے بارے سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ پس تم یہ مسائل صرف انہی سے حاصل کرو کیونکہ متاخرین ان کی مراد کو نہ سمجھ سکے اور دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ۔ ایک فریق نے کبیرہ گناہ کی بنیاد پر لوگوں کو ملت اسلامیہ سے خارج اور دائمی جہنمی قرار دینا شروع کر دیا اور دوسرے گروہ نے گناہ کبیرہ کے مرتکبین کو مومن کامل کہا۔ پس پہلا گروہ غالی ہے اور دوسرا ظالم ہے۔ پس اللہ تعالی نے اپنے مثالی طریقہ اور معتدل قول کی طرف اہل سنت والجماعت کی رہنمائی فرمائی جیسا کہ متفرق مذاہب میں اسلام کا مقام ہے۔ اور یہ معتدل قول یہ ہے کہ یہاں کفر اکبر سے چھوٹا کفر یعنی کفر اصغر بھی ہے اور نفاق اکبر یعنی اعتقادی نفاق سے چھوٹا نفاق یعنی نفاق عملی بھی موجود ہے اور شرک اکبر چھوٹا شرک یعنی شرک اصغر بھی ہے اور گناہ کبیرہ سے چھوٹا گناہ یعنی صغیرہ بھی ہے اور ظلم اکبر سے چھوٹا ظلم بھی موجود ہے۔''
دوسرا نکتہ
کفر عملی سے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس اصول کوبھی اچھی طرح واضح کیا ہے کہ ایک شخص میں کفر اور ایمان اور توحید اور شرک جمع ہو سکتی ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں :
'' وھھنا أصل آخر وھو أن الرجل قد یجتمع فیہ کفر وایمان وشرک وتوحید تقوی وفجور نفاق وایمان ھذا من أعظم أصول أھل السنة وخالفھم فیہ غیرھم من أھل البدع کالخوارج والمعتزلة والقدریة ومسألة خروج أھل الکبائر من النار وتخلیدھم فیھا مبنیة علی ھذا الأصل وقد دل علیہ القرآن والسنة والفطرة وجماع الصحابة. قال تعالی ومایؤمن أکثرھم باللہ ا لا وھم مشرکون فأثبت لھم ایمانا بہ سبحانہ مع الشرک قال تعالی قالت الأعرب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا أسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم وان تطیعوا اللہ ورسولہ لا یلتکم من أعمالکم شیئاا ن اللہ غفور رحیم فأثبت لھم اسلاما وطاعة اللہ ورسولہ مع نفی الایمان عنھم.''(أیضاً : ص٧٨)
'' یہاں ایک اور بنیادی اصول بھی واضح رہنا چاہیے کہ کسی شخص میں کفر اور ایمان، شرک اور توحید، تقوی اور فسق وفجور، نفاق اور ایمان اکٹھا ہو سکتا ہے۔ یہ اہل سنت کے اصولوں میں سے ایک بہت اہم اصول ہے جبکہ اہل بدعت میں سے خوارجیوں، معتزلہ اور قدریہ وغیرہ میں اس اصول میں اہل سنت کی مخالفت کی ہے۔ کبیرہ گناہ کے مرتکبین کا جہنم سے نکلنا یا جہنم میں دائمی طور پر رہنے کا اختلاف اس اصولی اختلاف کا نتیجہ ہے ۔ اہل سنت کے اس اصول کی دلیل قرآن، سنت، اجماع اور فطرت ہے۔اللہ کا فرمان ہے: اکثر لوگ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں وہ اس کے ساتھ [کسی نہ کسی نوع کا] شرک بھی کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالی نے ان کے لیے شرک کے ساتھ ایمان کا بھی اثبات کیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے: بدوؤں نے یہ کہا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، آپ ان سے کہہ دیں کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم یہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا ہے اور ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو گے تو اللہ تعالی تمہارے اعمال[کے اجر و ثواب ] میں سے کچھ کمی نہ کرے گا، بے شک اللہ تعالی معاف کرنے والا رحیم ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے بدوؤں کے لیے اسلام کا اثبات کیا ہے اور ان کی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو بھی قبول کیا ہے جبکہ ساتھ ہی ان کے ایمان کی بھی نفی کر دی ہے۔ ''
تیسرا نکتہ
کفر عملی سے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے یہ اصول بھی بیان کیا ہے کہ بعض اوقات ایک شخص میں ایمان کی کوئی شاخ ہوتی ہے لیکن اس کو مؤمن نہیں کہا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض اوقات ایک شخص میں کفر کی کوئی قسم پائی جاتی ہے لیکن اس پر لفظ کافر کا اطلاق نہیں ہوتاہے کیونکہ اسم الفاعل کا اطلاق اس صورت میں ہوتا ہے جبکہ کوئی شخص کثرت سے وہ کام کر تا ہو جیساکہ لفظ ضارب کااطلاق یا اس کے غالب اجزاء اور پہلوؤں کا احاطہ کرنے والا ہو جیساکہ لفظ عالم کا اطلاق ۔امام صاحب فرماتے ہیں:
'' ھنا أصل آخر وھو أنہ لایلزم من قیام شعبة من شعب الایمان بالعبد أن یسمی مؤمنا وان کان ما قام بہ ا یمانا ولا من قیام شعبة من شعب الکفر بہ أن یسمی کافرا وان کان ما قام بہ کفرا کما أنہ لا یلزم من قیام جزء من أجزاء العلم بہ أن یسمی عالما ولا من معرفة بعض مسائل الفقہ والطب أن یسمی فقیھا ولاطبیبا ولایمنع ذلک شعبہ الایمان ایمانا شعبة النفاق نفاقا وشعبة الکفر کفرا وقد یطلق علیہ الفعل کقولہ فمن ترکھا فقد کفر ومن حلف بغیر اللہ فقد کفر ... فمن صدر منہ خلة من خلال الکفر فلا یستحق اسم کافر علی الطلاق وکذا یقال من ارتکب محرما نہ فعل فسوقا ونہ فسق بذلک المحرم ولایلزمہ اسم فاسق لا بغلبة ذلک علیہ.''(أیضاً : ص٨٠)
'' یہاں ایک اور اصول بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان کی شاخوں میں سے کسی شاخ پر قائم ہو تو لازم نہیں ہے کہ اس پر لفظ مومن صادق آئے۔ اگرچہ جس چیز کے ساتھ وہ کھڑاہو وہ ایمان ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کفرکی شاخوں میں سے کسی شاخ کے ساتھ کھڑا ہے تو لازم نہیں ہے کہ اسے کافر کہا جائے، اگرچہ جس کے ساتھ وہ کھڑا ہو وہ کفر ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ اگر کسی شخص کو علم کے اجزاء میں سے ایک جزء حاصل ہو جائے تو اسے عالم نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح اگر کسی کو فقہ یا علم طب کے بعض مسائل کی معرفت ہو تو اس سے وہ فقیہ یا طبیب نہیں بن جاتا۔لیکن یہ قاعدہ اور اصول اس بات میں مانع نہیں ہے کہ ہم اس شخص میں ایمان کی شاخ کو ایمان، نفاق کی شاخ کو نفاق اور کفر کی شاخ کو کفر کا نام دیں یعنی اسم الفاعل کا نام اس وقت دیا جائے گا جبکہ کوئی شخص اس فعل کو بار بار کرنے والا ہو یا اس کی جمیع اجزاء کا احاطہ کرنے والا ہو۔ بعض اوقات اس پر صرف فعل کا اطلاق ہو گا جیسا کہ آپ نےفرمایا جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی اس نے کفر کیایعنی کفریہ فعل کیا ہے اور اس میں ایمان کی شاخوں کے ساتھ ساتھ کفر کی ایک شاخ بھی وجود میں آ گئی ہے۔اور جس نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی تو اس نے کفر کیا...پس جس سے کفر کی صفات میں سے کوئی صفت صادر ہو تو اس کو مطلق طور پر کافر کہنا جائز نہیں ہے۔ہاں! مقید طور پر کافر مجازی یا کافر عملی کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جس نے کوئی حرام کام کیا تو اس نے اس حرام کام کے ارتکاب کی وجہ سے فسق و فجورتو کیاہے لیکن اس پر فاسق کے لفظ کا اطلاق درست نہیں ہے الا یہ کہ وہ اس حرام کام کو کثرت سے کرے ۔''
چوتھا نکتہ
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے عملی کفر کا یہ اصول بھی واضح کیا ہے کہ کتاب وسنت میں جن افعال کے مرتکبین کے اسلام یا ایمان کی نفی کی گئی ہے تو ہم بھی ان کے اسلام اور ایمان کی نفی کریں یعنی ہم انہیں مومن یا مسلم نہیں کہیں گے اور اس سے ہماری مراد ان کی تکفیر نہیں ہے بلکہ شرع کی اتباع میں ہم ایسا کریں گے اگرچہ ان اشخاص میں ایمان یا اسلام کی دوسری شاخیں موجود ہوں گی اور اس وجہ سے ان کو کافر حقیقی نہیں قرار دیا جائے گا ۔
امام صاحب فرماتے ہیں:
'' وھکذا الزانی والسارق والشارب والمنتھب لایسمی مؤمنا وان کان معہ ایمان کما أنہ لایسمی کافرا وان کان ما أتی بہ من خصال الکفر وشعبہا ذ المعاصی کلھا شعب من شعب الکفر کما أن الطاعات کلھا من شعب الایمان.أن سلب الایمان من تارک الصلاة أولی من سلبہ عن مرتکب الکبیرة وسلب اسم الاسلام عنہ أولی من سلبہ عمن لم یسلم المسلمون من لسانہ ویدہ فلا یسمی تارک الصلاة مسلما ولامؤمنا وان کان شعبة من شعب الاسلام والیمان.''(أیضاً : ص٨٠۔٨١)
'' اسی طرح کا معاملہ زانی، چور، شرابی اور لٹیرے وغیرہ کا بھی ہےیعنی ان پر ان ناموں کا اطلاق اسی وقت درست ہو گا جب ان سے یہ افعال کثرت سے صادر ہوں اور اگر کبھی کبھار ہوں تو پھر یہ تو کہا جائے گا کہ فلاں نے زنا کیا یا چوری کی یا ڈاکہ ڈالا یا شراب پی لیکن انہیں زانی، شرابی، ڈاکو یا چور نہیں کہا جائے گا۔ پس ان یعنی چور، زانی، شرابی اور لٹیرے کو نہ تو مومن کہا جائے گا (کیونکہ اللہ کے رسول نے حدیث میں ان کے مومن ہونے کی نفی ہے)۔اگرچہ ان کے پاس ایمان موجود بھی ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں کافر کہاجائے گا اگرچہ جن افعال کا انہوں نے ارتکاب کیا ہے وہ کفر کے قسموں میں سے ایک قسم ہیں کیونکہ تمام کے تمام گناہ کفر کی مختلف شاخیں ہیں اور تمام قسم کی اطاعتیں ایمان کی شاخیں ہیں۔گناہ کبیرہ کے مرتکبین سے ایمان کی نفی کے مقابلہ میں (جیسا کہ زانی ، شرابی اور چور سے ایمان کی نفی کی گئی ہے)تارک صلاة سے ایمان کی نفی کرنا بالأولی ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ نہ ہوں، سے اسلام کی نفی کے مقابلہ میں(جیسا کہ حدیث میں ثابت ہے) تارک صلاة سے اسلام کی نفی کرنا بالأولی ثابت ہوتی ہے۔ پس تارک صلاة کونہ تو مومن کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی مسلمان، اگرچہ وہ ایمان اور اسلام کی شاخوں میں سے بعض شاخوں پر قائم ہوتا ہو۔''
پانچواں نکتہ
جب کتاب وسنت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ایک شخص میں ایمان اور کفر اور توحید اور شرک اکھٹی ہو سکتی ہے تو کیا کسی شخص کو روز آخرت عملی کفر کی موجودگی میں اس کا ایمان یا عملی شرک کی موجودگی میں اس کی توحید کام دے گی ؟ اس بارے امام ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اس کی دو قسمیں بنتی ہیں۔
اگرتو کسی شخص کا عملی کفر ایسا ہے جو بقیہ ایمان کے لیے شرط کا درج نہیں رکھتا ہے تو بقیہ ایمان اس کو آخرت میں فائدہ دے گا اور اگر تو اس کا عملی کفر بقیہ ایمان کے لیے شرط کا درجہ رکھتا ہے تو اس کا بقیہ ایمان آخرت میں اس کے لیے نفع بخش نہ ہو گا۔
اس کو اس مثال سے یوں سمجھیں کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا اور کفریہ فعل کا مرتکب ہوتا ہے تو کیا اسے اس کے روزوں یا صدقہ و زکوة وغیرہ جسے دوسرے نیک اعمال کا فائدہ ہو گا یا کوئی حکمران ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ہے اور عملی طور پر کافر ہے تو کیا اسے اس کے نماز روزے کا اجر وثواب ملے گا یا ایک شخص مسجد میں جا کر پانچ وقت نماز بھی پڑھتا ہے اور مندر میں جا کر بت کے سامنے ماتھا بھی ٹیکتا ہے تو کیا اس کی نماز اس کے لیے نفع بخش ہو گی یا ایک شخص نماز روزہ تو کرتا ہے لیکن اللہ کے نبی کو گالی بھی دیتا ہے تو کیا اس کا نماز روزہ اس کے کام آئے گا ؟ اس بارے امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' نعم یبقی أن یقال فھل ینفعہ ما معہ من الایمان فی عدم الخلود فی النار فیقال ینفعہ ان لم یکن المتروک شرطا فی صحة الباقی واعتبارہ وان کان المتروک شرطا فی اعتبار الباقی لم ینفعہ ولھذا لم ینفع الایمان باللہ ووحدانیتہ وأنہ لا لہ لا اللہ ھو من أنکر رسالة محمد ولا تنفع الصلاة من صلاھا عمدا بغیر وضوء فشعب الایمان قد یتعلق بعضھا ببعض تعلق المشروط بشرطہ وقد لا یکون کذلک.''(أیضاً : ص٨١)
'' پس اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تارک صلاة کے پاس جو ایمان ہے وہ اسے دائمی جہنمی بنانے میں مانع ہو گا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تارک صلاة کا وہ ایمان اس کے دائمی جہنمی ہونے میں رکاوٹ بن سکتا ہے بشرطیکہ جس فعل کو وہ ترک کر رہا ہے(مثلا ً نماز)وہ بقیہ ایمان کی صحت کے لیے شرط اور معتبر نہ ہو ۔ اگر تو جس فعل کو وہ ترک کر رہا ہے(مثلا ً نبی کا اقرار کرنا)وہ بقیہ ایمان کے معتبر ہونے میں شرط ہو تو پھر بقیہ ایمان اس کو فائدہ نہ دے گا۔ پس یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے محمد کی نبوت کا انکار کر دیا تو اسے ایمان باللہ اور اللہ کی توحید یا لا الہ الا اللہ کچھ فائدہ نہ دے گا(کیونکہ یہاں اس نے ایک ایسے فعل یعنی محمد کی رسالت کے اقرار کو ترک کیا ہے جو ایسا کفر ہے جو اس کے بقیہ ایمان کے لیے بھی ایک معتبر شرط کی حیثیت رکھتا تھا لہذا شرط کے مفقود ہونے سے مشروط یعنی بقیہ ایمان بھی مفقود ہو گیا لہذا بقیہ ایمان قابل فائدہ نہ رہا)۔اسی طرح اس شخص کو اس نماز کوئی فائدہ نہ دے گی جو جانتے بوجھتے بغیر وضو کے نماز پڑھتا ہے ۔ پس ایمان کی شاخوں میں بعض کا بعض سے تعلق بعض اوقات شرط اور مشروط کا ہوتا ہے اور بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا۔''