محترم آپ ایک ایسے گروہ کی تکفیر یعنی قادیانی کو مسلم حکمرانوں اور اداروں کی تکفیر سے خلط ملط کر رہے ہیں۔ آپ میری طرف سے جس کو مرضی قادیانی کی طرح مرتد قرار دے دیں ، بھلا مجھے کیا اعتراض ہوگا، لیکن آپ قادیانی جیسی تکفیر کے لئے وہی راہ اختیار کرنا لازم ہے، جس سے گزر کر قادیانی مرتد بنے۔ تب ا
جو کہ میری ناقص معلومات کے مطابق کہیں بھی پورا نہیں کیا گیا۔
اور رہا آپ کا دوسرا سوال ، تو معذرت کے ساتھ ، اس میں کچھ تفصیل ہے ، میں استفادہ عام کے لئے پیش کیٗے دیتا ہوں۔ ان شاء اللہ
اہل السنۃ کے ہاں مسئلہ تکفیر میں اصول و ضوابط کا التزام اور اس مسئلہ میں کلام کے اہل لوگوں کی وضاحت اچھی طرح کر دی گئی ہے ۔
مگر آج کل تکفیری لوگ ( جو لوگوں کی بلا دلیل وغیر منصفانہ تکفیر کر تے ہیں ) دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئی بھی معیّن تکفیر کر سکتا ہے ( یعنی کسی معیّن مسلمان کو کافر قرار دینا) اور تکفیر کرنے کے بعد اس کو معاشرہ میں واضح کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں اور اس چیز کا انکار کرتے ہیں کہ تکفیر معیّن صرف جید علماءاور فقہاء کا کام ہے ۔
تکفیری یہ کیوں کہتے ہیں ؟اس لیے کہ جن کی وہ تکفیر کر رہے ہوتے ہیں مثلا معین حکمران وغیرہ علماء اہل السنۃ ( جن سے خود تکفیری حضرا ت عقیدہ ، تفسیر اور فقہ لیتے ہیں ) وہ ان حکمرانوں کی معین تکفیر نہیں کر رہے ہوتے ۔
یہاں سے یہ مسئلہ تکفیر فتنہ کی شکل اختیار کرتا ہے کہ اگر آجکل علماء اہل السنۃ حکمرانوں کی تکفیر معین نہیں کرتے تو یہ تکفیر ی حضرات اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں اب یہ کام ان پر اور ہر عام آدمی پر لازم ہے کہ چاہے وہ تکفیر معین کے اصول وضوابط جانے یا نہ جانے وہ اس کا مکلف ہو یا نہ ہو ( یقیناً مکلف تو اہل علم ہی ہیں ) وہ لوگوں کو کافر قرار دے گا خاص طور پر حکمرانوں کو معین کر کے ،لہذا بغیر علم اور آگاہی کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنا انکا پسندیدہ مشغلہ ٹھہرا !!
کسی خاص شخص کی تکفیر کو ن کرے گا اور کن شروط و قیود پر کرے گا ؟ ایک قابل و ضاحت مسئلہ ہے مگر تکفیری حضرات اس مسئلہ کو کبھی واضح نہیں کرتے مقصد صاف ہے تاکہ وہ اس پر خطر کام کو اس طرح مسخ کریں کہ لوگ انہیں حق پر اور اہل السنہ کے علماءکو حقیر و گمراہ جانیں ۔
یہ عام عادت ہے کہ تکفیری حضرات لوگوں کی نظر میں اہل علم کی اتنی تحقیر کر دیتے ہیں کہ لوگ اس مسئلہ میں الجھ جاتے ہیں ۔
وہ لوگ جن کی تکفیر کی جا سکتی ہے وہ مختلف ہیں اسی طرح جو تکفیر کرنے کا حق رکھتے ہیں وہ بھی مختلف ہیں ۔یہ بات ہم آنے والی سطورمیں سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں واضح کریں گے انشا ءاللہ ۔
تکفیر کے لحاظ سے :
1۔ کچھ لوگ وہ ہیں کہ جن کی تکفیر کا حق صرف اور صرف علماء کو ہے اور کسی عامی کو یادینی علم و حکمت سے کورے شخص کو نہیں ۔
2۔ اور کچھ لوگ وہ ہیں جن کی ہر مسلمان تکفیر کر سکتا ہے بلکہ ہر مسلمان پر انکی تکفیر کرنا لازم ہے ۔
آئیے ہم اس مسئلہ کو تفصیلاً واضح کرتے ہیں ۔
تکفیر کے لحاظ سے لوگ دو گروہوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں
اول: اصل کافر
دوم : اسلام سے ارتدار اختیار کرنے والا
یعنی جس مسلمان کو علماء و اہل قضاء متفقہ طور پر مرتد قرار نہ دے چکے ہوں ، انکی تکفیر ہر عامی نہیں کرسکتا ، ہاں البتہ جن کی تکفیر علماء اور اہل قضہ کر چکے ہوں ، انہیں ب مسلمان کافر و مرتد قرار و پکار سکتے ہیں ، مثلا قادیانی وغیرہ
یہ کام محض اہل علم کا ہے ۔ ہم اس میں چھیڑ چھاڑ کے اہل نہیں ! یہ میدان ہمارا ( عوام الناس اور عام اہل علم کا ) نہیں ہے ۔
میں امید کرتا ہوں اب ٓپکی پریشانی ختم ہوجائے گی ان شاء اللہ
آپ کی پوسٹ کا شکریہ -
محترم میں بھی اوروں کی طرح قادیانیوں کو کافر ہی تسلیم کرتا ہوں - لیکن قرآن میں الله کا ارشاد ہے
کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ سوره المائدہ ٨
اے ایمان والو! الله کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو انصاف کرو یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے اور الله سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو بے شک الله اس سے خبردارہے
یہاں پر الله ایمان والوں سے فرما رہا ہے کہ ہر حالت میں انصاف کی گواہی دینے والے بنو - اس آیات میں الله نے علماء حق نہیں بلکہ پوری امّت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ جو بھی معاملا ہو چاہے وہ کسی کی تکفیر ہی کیوں نہ ہو انصاف سے کام لو -
یعنی کوئی بھی کسی گروہ سے تعلق رکھتا ہو چاہے حکمران ہوں یا عام آدمی یا خود علماء - اگر اس کے عقائد و ا عمال قرآن و سنّت سے متصادم ہونگے - تو ہر حالت میں اس پر کفر واجب ہو جائے گا- اور اس کو کافر کہنا یا سمجھنا ہمارے ایمان کا حصّہ ہو گا -
دوسری بات یہ کہ آپ جانتے ہیں کہ حکمرانوں کے گروہ پر کفر کا فتویٰ لگانے میں بیرونی عوامل بھی شامل ہوتے ہیں -مثال کے طور پر جانب داری مالی فائدہ ، حکمرانوں کا خوف ، ذاتی فائدہ ، مسلک ایک ہونا وغیرہ - سوال ہے کہ ایسی صورت میں ہم کس طرح علماء حق پر ا عتبار کر سکتے ہیں -میں یہ بھی نہیں کہ رہا کہ اس معاملے میں ہر عامی کے فتویٰ پر بھی ا عتبار کیا جائے - لیکن جب ایک حاکم الله کی شریعت و احکامات کی کھلی خلاف ورزی شروع کردے تو تو قرآن و سنّت کا ا د نی فہم رکھنے والا مسلمان بھی یہ سمجھ جاتا ہے-کہ یہ حکمران کفر کی حد پر پہنچ چکا ہے - تو اس کو کافر قرار دینے میں کیا چیز مانع ہے-
مثال کے طور پر ہمارے ایک گورنر نے ایک عیسائی گستاخ رسول صل الله علیہ وسلم کی پشت پناہی کی تو سواے چند ایک نام نہاد علماء کے تمام عوام بغیر کسی فتوے کے اس بات پر متفق تھی کہ یہ گورنر کافر ہے اور اس کی نماز جنازہ پڑھنی جائز نہیں- یہاں معاملہ اجماع کے فیصلے پر نہیں بلکہ تمام عامی بھی اس پر بغیر کسی فتوے کے متفق ہو گئے کہ گورنر کفر کا مرتکب ہوا ہے -
میری ان حکمرانوں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں کہ میں ان کو کافر قرار دینے میں اپنا سارا وقت صرف کردوں - میرا یہ کہنا ہے کہ جب کوئی حکمران وہی باطل عقیدے یا عمل کا حامل ہو جو دوسرے لوگ یا گروہ رکھتے ہوں تو اس کو اسی صف میں کیوں نہ کھڑا کیا جا سکے جس کا وہ مستحق ہے -
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس فورم کے کچھ جذباتی ممبرز ٹی ٹی پی اور طالبان کے تو اتنے مخالف ہیں کہ بغیر کسی تحقیق اور جید علما ء کے فتوے یا اجماع کے فیصلے کے بغیر ان کو "خارجی " یعنی اسلام سے خارج ثابت کرنے پے تلے ہوے ہیں - لیکن جب بات حکمرانوں پر تکفیر کی ہوتی ہے تو کہنا شروع ہوجاتے ہیں کہ ہم اس وقت تک ان کی تکفیر نہیں کر سکتے جب تک کہ علماء حق ان کی تکفیر پر مجتمع نا ہو جائیں -
جب کہ الله تو تمام ایمان والوں سے فرما رہا ہے کہ ہر معاملے میں انصاف سے کام لو -یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے
اگر کوئی بات بری لگی تو معزرت -