امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں
پہلے یہ نقطہ طے کرلیں کہ بحث کا موضوع یہ ہے کہ کیاامام ذہبی نے امام ابوحنیفہ کو ضعیف قراردیاہے۔ اس لئے اس میں جوبھی بات ہوگی حافظ ذہبی کے اعتبار سے ہی ہوگی۔دوسروں کے اعتبار سے نہیں ہوگی اورہمیں امید ہے کہ کوئی دوسراشخص بھی اس میں خلط مبحث نہ کرے گا اورجوکوئی یہ بات کرے وہ علم اوراعتماد کے ساتھ بات کرے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حافظ ذہبی امام ابوحنیفہ کے بہت مرتبہ شناس ہیں اوران کا بہت عقیدت اوراحترام کے ساتھ ذکر کرتے ہین امام صاحب کے مناقب پر کتاب بھی لکھی ہے اورجہاں کہیں امام صاحب کا تذکرہ کیاہے پوری عقیدت اورمحبت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔
پہلی مثال لیتے ہیں تذکرۃ الحفاظ کی۔ یہ بات کفایت اللہ صاحب کی بالکل صحیح ہے کہ تذکرۃ الحفاظ میں بہت سے ضعیف حفاظ کابھی تذکرہ ہے جس پر شاکر ذیب فیاض الخوالدۃ نے باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے الرواۃ الذین ترجم لھم الذہبی فی تذکرۃ الحفاظ وحکم علیھم بالضعف فی کتبہ الضعفاء واسباب ذلک اوراس کتاب میں ان تمام رواۃ کاجائزہ لیاہے جس کوانہوں نے تذکرۃ الحفاظ میں ذکر کیاہے اورپھرانہی حفاظ کاذکراپنی ضعفاء کی کتاب میں کیاہے۔ لہذا عمرومعاویہ صاحب کااستدلال غلط ہے ۔
اس اہم فرق کو نگاہ میں رکھیں۔حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں جن حضرات کاذکر کیاہے ۔اس کے ترجمہ میں جیساکہ دیکھاجاسکتاہے حافظ ذہبی نے خود ان کے ضعف اورکذب کی تصریح کردی ہے جیساکہ کفایت اللہ صاحب کے مراسلوں میں دیکھاجاسکتاہے۔ اس کے برعکس کفایت اللہ صاحب یادوسرے حضرات خوردبین لگاکر دیکھیں ۔تذکرۃ الحفاظ میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کے تذکرہ میں کوئی ضعف یاکذب یاکسی دوسرے نامناسب امر کابیان ہے؟
دوسری کتاب جہاں تک معین المحدثین کا ذکر ہے۔ اس میں ہم چلیں اس سے صرف نظرکرلیتے ہیں کہ صرف ثقہ راویوں کاذکر نہیں ہے لیکن کم ازکم اتناتوثابت ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ حفاظ حدٰیث کی صف میں ہیں۔ اورجولوگ امام ابوحنیفہ کو قلیل الحدیث کہتے ہیں وہ جہالت وسفاہت کامظاہرہ اورمجاہرہ دونوں کررہے ہیں۔ میرے خیال سے اتنی بات ماننے میں کفایت اللہ صاحب کوبھی کوئی عذر نہ ہوگا۔
آگے بڑھتے ہیں۔مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ کی جانب ۔
فصل فی الاحتجاج بحدیثہکفایت اللہ صاحب نے اپنی من پسند باتیں نقل کرلی ہیں اورجوباتیں ان کی پسند کی نہیں تھی اسے چھوڑدیاہے ۔یہ انکی تحریر کاعیب ہے جس سے بچناچاہئے کہ جیساکہ حافظ ذہبی نے خود میزان الاعتدال میں ابن جوزی کے بارے میں کہاہے کہ ان کی کتاب کا عیب یہ ہے کہ وہ جارحین کے اقوال نقل کردیتے ہین اورمعدلین کے اقوال نقل نہیں کرتے۔آئیے ذرادیکھیں کہ کفایت اللہ صاحب نے علم اورتحقیق اورانصاف پسندی کاکس قدرخیال رکھاہے۔ہم حافظ ذہبی کی پوری بات نقل کرتے ہیں۔
اختلفو فی حدیثیہ علی قولین فمنھم من قبلہ وراہ حجۃ ومنھم من لینہ لکثرۃ غلطہ فی الحدیث لیس الا
قال علی بن المدینی : قیل لیحیی بن سعید القطان کیف کان حدیث ابی حنیفۃ قال:لم یکن بصاحب حدیث
قلت: لم یصرف الامام ھمتہ لضبط الالفاظ والاسناد ،وانماکانت ھمتہ القران والفقہ ،وکذلک حال کل من اقبل علی فن فانہ یقصر عن غیرہ
ومن ثم لینوا حدیث جماعۃ من ائمۃ القراء کحفص،وقالون،وحدیث جماعۃ من الفقہاء کابن ابی لیلی ،وعثمان البتی،وحدیث جماعۃ من الزہاد کفرقد السبخی،وشقیق البلخی ،وحدیث جماعۃ من النحاۃ ،وماذاک لضعف فی عدالۃ الرجل،بل لقلۃ اتقانہ للحدیث،ثم ھوانبل من ان یکذب
وقال ابن معین فیمارواہ عنہ صالح بن محمد جزرۃ وغیرہ،ابوحنیفہ ثقہ ،
وقال احمد بن محمد بن القاسم بن محرز،عن یحیی بن معین: لاباس بہ۔وقال ابوداؤد السجسستانی:رحم اللہ مالکاکان اماما،رحم اللہ اباحنیفہ کان اماما۔
یہ ہے آپ کے سامنے حافظ ذہبی کی پوری عبارت ۔آپ اس کو سامنے رکھیں اورکفایت اللہ نے جولکھاہے اورپھردیکھیں انہوں نے کیاچھوڑااورکیانقل کیاہے۔امام ابوحنیفہ کی احادیث سے احتجاج کے بارے میں فصل
ان کی احادیث کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے دوقول ہیں۔ بعض نے ان کی احادیث کوقبول کیاہے اوران کو حجت تسلیم کیاہے اوران میں سے بعض نے ان کو لین قراردیاہے اوراس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کی احادیث میں کثرت سے غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔
میں کہتاہوں کہ امام (ابوحنیفہ)نے حدیث کے الفاظ اوراسناد کے ضبط کی جانب توجہ نہیں دی اس کی پوری توجہ قران اورفقہ کی جانب تھی اورایساحال ہراس شخص کاہوتاہے جوکسی فن کی جانب متوجہ ہوتاہے تو وہ دوسرے سے قاصر رہتاہے اوراسی میں سے یہ ہے کہ ائمہ جرح وتعدیل نے ائمہ قرات میں سے حفص اورقالون کو لین(ایک گونہ ضعیف)قراردیااورفقہاء کی ایک جماعت جیسے ابن ابی لیل عثمان البتی کو لین قراردیا اورزہاد کی ایک جماعت فرقد السنجی،شقیق البلخی کو حدیث میں لین قراردیااورنحویوں کی ایک جماعت کو حدیث میں لین قراردیا۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کی عدالت میں کوئی کمزوری تھی بلکہ حدیث کی پختگی میں قلت تھی پھر وہ اس سے پاک تھے کہ وہ جھوٹ بیان کریں۔
صالح بن محمد جزرہ اوردوسروں نے ابن معین سے نقل کیاہے کہ امام ابوحنیفہ ثقہ تھے۔
احمد بن محمد قاسم بن محرز نے یحیی بن معین سے امام ابوحنیفہ کے بارے میں نقل کیاہے ۔کوئی حرج نہیں۔اورامام ابوداؤد السجستانی کہتےہیں اللہ امام مالک پر حم کرے وہ امام تھے اللہ امام ابوحنیفہ پر رحم کرے کہ وہ امام تھے
حافظ ذہبی کاآدھاادھوراکلام نقل کرنے کے بعد کفایت اللہ صاحب بڑے طرے سے کہتے ہیں۔
اس کلام میں جواستدلال کی خامیاں ہیں ان پر ہم صرف لاحول ہی پڑھ سکتے ہینکفایت اللہ
تو عرض ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بے شک اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بعض خوبیوں کا ذکر ہے ، لیکن جب روایت حدیث کی بات آئی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کتاب میں بھی دو ٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ امام صاحب راویت حدیث میں معتبر نہیں ہیں بلکہ یہاں تک صراحت کی ہے کہ یہ ان کافن ہی نہیں ہے ، اس میں وہ مشغول ہی نہیں ہوئے ۔
حافظ ذہبی نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کااختلاف نقل کیاہے۔اولااس قول کو نقل کیاہے کہ امام ابوحنیفہ حدیث میں لین تھے۔
اس کے بعد حافظ ذہبی نے اس کی توجیہہ بیان کی ہے کہ اگر وہ لین ہیں تواس کی وجہ کیاہوسکتی ہے۔انہوں نے بیان کیاکہ امام صاحب نے اپنی پوری توجہ حفظ اسناد والفاظ حدیث کی جانب نہیں دی اسی لئے یہ غلطیاں واقع ہوئیں ان حضرات کے خیال کے مطابق جوامام ابوحنیفہ کو لین قراردیتے ہیں ۔پھر اس کی مثالیں نقل کیں کہ دیگر ائمہ قرات اورفقہاء کوبھی اسی سبب سے محدثین نے لین قراردیاہے۔
یہاں پر حافظ ذہبی نے دوٹوک فیصلہ نقل کردیاہے کہ امام صاحب اوردیگر فقہاء زہاد کی عدالت میں کوئی کلام نہیں ہے اب اس پر مقبل جیسے لوگوں کو شرم آنی چاہئے جونشرالصحیفۃ جیسی کتاب لکھتاہے۔
اس کے بعد آخر میں (اورآخری کلام ہی عمومامصنف کی مراد سمجھی جاتی ہے)حافظ ذہبی نے یحیی بن معین اورامام ابوداؤد سے امام ابوحنیفہ کی توثیق نقل کی ہے۔
اس سے صاف واضح ہے کہ حافظ ذہبی نے قلۃ اتقان فی الحدیث اورعدم توجہ کی بات کہی ہے وہ دراصل امام صاحب کے جارحین کے لئے بطور عذر کہی ہے نہ کہ خود حافظ ذہبی امام صاحب کو ضعیف فی الحدیث سمجھتے ہیں۔اس کی مزید وضاحت آگے بیان ہوگی۔