• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے قبل ان اقوال کی استنادی حیثیت بھی واضح کردی جائے جنہیں امام ذہبی رحمہ اللہ نے مذکورہ اقتباس میں پیش کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔

امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کی جرح ثابت ہے

امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر یحیی بن سعید رحمہ اللہ کی جوجرح نقل کی ہے وہ ثابت ہے گذشتہ مراسلات میں اس کی صحیح سندیں پیش کی جاچکی ہیں۔
رہی امام ابن معین رحمہ اللہ سے نقل کردہ توثیق تو:

امام یحیی بن معین رحمہ اللہ سے جرح کا قول بھی منقول ہے

امام ابن معین نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جرح بھی کر رکھی ہے ، ثبوت ملاحظہ ہو:

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن عثمان قال سمعت يحيى بن معين وسئل عن أبي حنيفة قال كان يضعف في الحديث [ضعفاء العقيلي 4/ 284 واسنادہ صحیح]۔

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا بن رزق أخبرنا هبة الله بن محمد بن حبش الفراء حدثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة قال سمعت يحيى بن معين وسئل عن أبي حنيفة فقال كان يضعف في الحديث [تاريخ بغداد 13/ 450 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثنا على بن احمد بن سليمان ثنا بن أبى مريم قال سألت يحيى بن معين عن أبى حنيفة قال لا يكتب حديثه،[الكامل في الضعفاء 7/ 6 واسنادہ صحیح]۔

ایک ہی امام سے متعارض اقوال کی صورت میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا موقف


جمع وتطبیق

امام ذہبی رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے بعض مقامات پر یہ صراحت کررکھی ہے کہ ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا ، ذیل میں امام ذہبی کی یہ صراحت ملاحظہ ہو:
امام حاکم رحمہ اللہ نے ایک راوی ’’ خارجة بن مصعب الخراسانی‘‘ کی توثیق کی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ وضاحت کیا کہ اس توثیق سے مراد یہ ہے کہ اس راوی سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
وَقَالَ الحَاكِمُ: هُوَ فِي نَفْسِهِ ثِقَةٌ -يَعْنِي: مَا هُوَ بِمُتَّهَمٍ-.[سير أعلام النبلاء 7/ 327]۔

معلوم ہوا کہ بعض ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا اور امام ابن معین رحمہ اللہ کی توثیق ابی حنیفہ بشرط ثابت اسی معنی میں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ خود امام ابن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف فی الحدیث قرار دے رکھا ہے جیساکے حوالے پیش کئے جاچکے ہیں۔


تساقط قولین

ہماری نظر میں امام ابن معین سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف ہی ثابت ہے جیساکہ اوپرتفصیل پیش کی گئی اس کے برخلاف توثیق ثابت نہیں ہے ، جس کی وضاحت آگے آرہی ہے لیکن جو حضرات توثیق کا قول ثابت مانیں انہیں امام ذہبی رحمہ اللہ ہی کے پیش کردہ درج ذیل اصول پر غور کرنا چاہئے۔

عبدالرحمن بن ثابت بن الصامت.عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام يصلى في بنى عبد الاشهل، وعليه كساء ملتف به، يقيه برد الحصا. رواه عنه إبراهيم بن إسماعيل بن أبى حبيبة.قال البخاري: لم يصح حديثه.وقال ابن حبان: فحش خلافه للاثبات فاستحق الترك.وقال أبو حاتم الرازي: ليس عندي بمنكر الحديث، ليس بحديثه بأس.قلت: وروى عنه ابنه عبدالله، وذكره أيضا ابن حبان في الثقات فتساقط قولاه.[ميزان الاعتدال موافق رقم 2/ 552]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے امام ذہبی رحمہ اللہ کا اصول معلوم ہوا کہ ایک ہی راوی سے متعلق اگر کسی ایک ناقد کے دوطرح کے اقوال ہوں تو دونوں اقوال ساقط ہوجائیں گے ۔
دریں صورت خود امام ذہبی رحمہ اللہ کی نظرمیں بھی امام ابن معین رحمہ اللہ کے دونوں قسم کے اقوال مردود ہوگئے۔




امام یحیی بن معین رحمہ اللہ سے توثیق ابی حنیفہ ثابت نہیں

اوپر متعددطرق سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کی ہے ، اس کے برخلاف امام یحیی بن معین سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جو توثیق نقل کی جاتی ہے وہ قطعا ثابت نہیں ، لہذا امام ذہبی رحمہ اللہ کا بھی یہ اصول ہے کہ بے سند جرح کا کوئی اعتبار نہیں ، لہٰذا جب یہ معلوم ہوگیا کہ امام یحیح بن معین رحمہ اللہ سے توثیق ثابت نہیں ہے تو امام ذھبی رحمہ اللہ کی کتاب میں اس کے نقل ہونے سے یہ بات قابل قبول نہیں ہوسکتی ، جیسا کہ خود مناقب ابی حنیفہ کے محقق نے بھی بلاتامل ان تمام روایا ت کو مردود قرار دیا ہے جو اس کے دعوی کے مطابق بسندصحیح ثابت نہیں ۔

اب ذیل ان روایا ت کا جائز ہ پیش خدمت ہے:

ابن صلت ، کذاب کی روایت

امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا التنوخي حدثنا أبي حدثنا محمد بن حمدان بن الصباح حدثنا احمد بن الصلت الحماني قال سمعت يحيى بن معين وهو يسأل عن أبي حنيفة أثقة هو في الحديث قال نعم ثقة ثقة كان والله أورع من أن يكذب وهو أجل قدرا من ذلك [تاريخ بغداد 13/ 450 واسنادہ موضوع]۔

امام یحیی بن معین سے اس قول کا ناقل ’’احمد بن الصلت بن المغلس أبو العباس الحماني وقيل احمد بن محمد بن الصلت ويقال احمد بن عطية‘‘ ہے۔
یہ کذاب و وضاع راوی ہے مدح ابی حنیفہ میں یہ شخص جھوٹی روایات بنا بنا کر ائمہ کی طرف منسوب کی کیا کرتا تھا ، اس کے بارے میں ائمہ فن کی گواہیاں ملاحظہ ہوں:

امام خطیب بغدادی جنہوں نے مدح ابی حنیفہ میں‌ اس کی روایات نقل کی ہیں‌ وہ خود اس کذاب ووضاح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حدث بأحاديث أكثرها باطلة هو وضعها.ويحكى أَيْضًا عَنْ بشر بْن الحارث، ويحيى بْن معين، وعلي ابن المديني، أخبارا جمعها بعد أن صنعها فِي مناقب أَبِي حنيفة.[تاريخ بغداد ت بشار 5/ 338]۔

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وما رأيت في الكذابين أقل حياء منه وكان ينزل عند أصحاب الكتب يحمل من عندهم رزما فيحدث بما فيها وباسم من كتب الكتاب باسمه فيحدث عن الرجل الذي اسمه في الكتاب ولا بالي ذلك الرجل متى مات ولعله قد مات قبل ان يولد منهم من ذكرت ثابت الزاهد وعبد لصمد بن النعمان ونظراؤهما وكان تقديري في سنه لما رأيته سبعين سنة أو نحوه وأظن ثابت الزاهد قد مات قبل العشرين بيسير أو بعده بيسير وعبد الصمد قريب منه وكانوا قد ماتوا قبل ان يولد بدهر [الكامل في الضعفاء 1/ 199]۔

امام دارقطنی فرماتے ہیں:
فضائل أبى حنيفة ۔۔۔ موضوع كله كذب وضعه احمد بن المغلس الحماني [تاريخ بغداد 4/ 209 وسندہ صحیح]۔

امام ابونعیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت أبو العباس الحماني يروي عن بن أبي أويس والقعنبي وعن شيوخ لم يلقهم بالمشاهير والمناكير لا شيء [الضعفاء للأصبهاني ص: 65]۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كَانَ يضع الْحَدِيث [المجروحين لابن حبان 1/ 153]۔


امام أبو الفتح بن أبي الفوارس فرماتے ہیں:
ابْن مغلس كَانَ يضع [تاريخ بغداد ت بشار 5/ 338 وسندہ صحیح]۔

امام سبط ابن العجمی فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحماني كذاب وضاع[الكشف الحثيث ص: 53]۔

امام أبو الحسن على بن محمد بن العراق الكناني فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحمانى وضاع[تنزيه الشريعة المرفوعة 1/ 33]۔


امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
احمد بن الصلت بن المغلس الحماني قبيل الثلاثمائةمتهم وهو احمد بن محمد بن الصلت[المغني في الضعفاء للذهبي ص: 19]۔
میزان میں فرماتے ہیں:
هالك ،[ميزان الاعتدال 1/ 105]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحمد بن الصلت الحماني هو أحمد بن محمد بن الصلت هالك [لسان الميزان 1/ 188]۔


ابن صلت کذاب کی دوسری روایت


امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا الصيمري أخبرنا عمر بن إبراهيم المقرئ حدثنا مكرم بن احمد حدثنا احمد بن عطية قال سئل يحيى بن معين هل حدث سفيان عن أبي حنيفة قال نعم كان أبو حنيفة ثقة صدوقا في الحديث والفقه مأمونا على دين الله قلت احمد بن الصلت هو احمد بن عطية وكان غير ثقة [تاريخ بغداد 13/ 450 اسناہ موضوع]۔

اس روایت میں بھی اصل ناقل ابن الصلت ہے جس کا تعارف اوپر پیش کیا جاچکاہے۔

ابن سعد العوفی ، ضعیف کی روایت

امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا بن رزق حدثنا احمد بن علي بن عمرو بن حبيش الرازي قال سمعت محمد بن احمد بن عصام يقول سمعت محمد بن سعد العوفي يقول سمعت يحيى بن معين يقول كان أبو حنيفة ثقة لا يحدث بالحديث إلا ما يحفظ ولا يحدث بما لا يحفظ [تاريخ بغداد 13/ 449 واسنادہ ضعیف]۔

اس قول کا ناقل ’’محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد بن جنادة أبو جعفر العوفي‘‘ ہے۔
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
وكان لينا في الحديث [تاريخ بغداد 5/ 322]۔

امام حاکم فرماتے ہیں:
ومثال ذلك في الطبقة السادسة من المحدثين ۔۔۔ محمد بن سعد العوفي ۔۔۔۔۔۔فجميع من ذكرناهم في هذا النوع بعد الصحابة والتابعين فمن بعدهم قوم قد اشتهروا بالرواية ولم يعدوا في الطبقة الأثبات المتقنين الحفاظ والله أعلم [معرفة علوم الحديث ص: 337]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
محمد بن سعد العوفي عن يزيد وروح لينه الخطيب [المغني في الضعفاء للذهبي ص: 20]۔

اس روایت میں ایک دوسرا راوی ’’محمد بن احمد بن عصام‘‘ ہے۔
اس کے حالات نامعلوم ہیں۔


ابن محرز، مجہول کی روایت

امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
قرأت على البرقاني عن محمد بن العباس الخزاز حدثنا احمد بن مسعدة الفزاري حدثنا جعفر بن درستويه حدثنا احمد بن محمد بن القاسم بن محرز قال سمعت يحيى بن معين يقول كان أبو حنيفة لا بأس به وكان لا يكذب وسمعت يحيى يقول مرة أخرى أبو حنيفة عندنا من أهل الصدق ولم يتهم بالكذب ولقد ضربه بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا[تاريخ بغداد 13/ 449 واسنادۃ ضعیف]۔

اس قول کا ناقل ’’ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز البغدادی‘‘ ہے۔
اس کے حالات بھی نا معلوم ہیں۔


عباس دوری رحمہ اللہ کی روایت

امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا القاضي أبو الطيب طاهر بن عبد الله المطيري حدثنا علي بن إبراهيم البيضاوي أخبرنا احمد بن عبد الرحمن بن الجارود الرقي حدثنا عباس بن محمد الدوري قال سمعت يحيى بن معين يقول وقال له رجل أبو حنيفة كذاب قال كان أبو حنيفة أنبل من أن يكذب كان صدوقا إلا أن في حديثه ما في حديث الشيوخ [تاريخ بغداد 13/ 449 واسنادہ ضعیف]۔

اس روایت میں ’’احمد بن عبد الرحمن بن الجارود الرقي‘‘ ہے۔
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
كل رجاله مشهورون معروفون بالصدق الا بن الجارود فإنه كذاب [تاريخ بغداد مؤافق 2/ 247]۔

امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقال أحمد بن عبد الرحمن بن الجارود، وهو كذاب[تاريخ الإسلام للذهبي 14/ 309 وانظر:المغني في الضعفاء:21]

اورمیزان میں فرماتے ہیں:
ومن بلاياه: حدثنا هلال بن العلاء، حدثنا محمد بن مصعب، حدثنا الأوزاعي، عن ابن لمنكدر، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: جمال الرجل فصاحة لسانه.[ميزان الاعتدال 1/ 116]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی لسان المیران میں اس پر شدیر جروح نقل کی ہیں اور کوئی دفاع نہیں کیا ہے۔ [لسان الميزان 1/ 213]۔


صالح بن محمد الاسدی رحمہ اللہ کی روایت

امام مزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَال صالح بن محمد الأسدي الحافظ : سمعت يحيى بن مَعِين يقول : كان أبو حنيفة ثقة في الحديث [تهذيب الكمال مع حواشيه ليوسف المزي 29/ 424 ، لایعرف اسنادہ]۔

یہ قول بے سند ہے لہٰذا بے سود ہے ۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
دیوان الضعفاء والمتروکین اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ۔


دیوان الضعفاء کے محقق نے کماحقہ اس کا تعارف کرادیا ہے قارئین دیوان الضعفاء کا مقدمہ ڈاؤن لوڈ کرلیں اور اسے ایک بارمکمل پڑھیں، خصوصا اس کتاب کا صفحہ نمبر ٨ اور صفحہ نمبر١١ پڑھیں ، اس کتاب کی پوری تفصیلات اس میں مل جائے گی ذیل میں ہم مختصر وضاحت کرتے ہیں:

دیوان الضعفاء کے تعلق سے تین باتیں واضح ہونی چاہئے ۔

  • ١: دیوان الضعفاء للذھبی نامی کتاب کا ثبوت ۔
  • ٢:دیوان الضعفاء للذہبی کے موجودہ نسخہ کی صحت نسبت۔
  • ٣:دیوان الضعفاء میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ کا وجود۔


دیوان الضعفاء للذھبی نامی کتاب کا ثبوت


یہ بات قطعی ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس نام سے اس کتاب کی تالیف کی ہے اس کے دلائل ملاحظہ ہو:

امام ذہبی رحمہ اللہ :
خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی ایک کتاب میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ انہوں نے نے دیوان الضعفاء نامی کتاب لکھی ہے ، چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسی کتاب کا جو ذیل لکھا ہے اس میں صاف اعلان کرتے ہیں:
هذا ذيل علي کتابي ديوان الضعفاء التقطته من عدة تواليف [ذيل ديوان الضعفاء: مقدمه ص15].

علامہ تاج الدين عبد الوهاب بن تقي الدين السبكي المتوفى: 771فرماتے ہیں:
وَالْمِيزَان فِي الضُّعَفَاء وَهُوَ من أجل الْكتب ،وَالْمُغني فِي ذَلِك ،وكتابا ثَالِثا فِي ذَلِك ،[طبقات الشافعية الكبرى للسبكي 9/ 104]۔

علامہ يوسف بن تغري بردي، الحنفي، المتوفى: 874ھ نے لکھتے ہیں:
من توالیفہ ’’المغنی‘‘ فی الضعفاء مختصر ومختصر آخر قبلہ [المنهل الصافي بحوالہ مقدمہ دیوان الضعفاء ص:٨]۔

محمد بن عبد الرحمن السخاوي المتوفى: 902ھ فرماتے ہیں:
كما إن للذهبي في الضعفاء مختصراً سماه المغني وآخر سماه الضعفاء المتروكين وذيل عليه[الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ ص: 221]۔

علامہ محمّد بن محمّد بن عبد الرزّاق الحسيني، الزَّبيدي المتوفى: 1205 کی شہادت:
آپ اپنی مشہورکتاب تاج العروس میں فرماتے ہیں:
قُلْتُ: وأوْرَدَهُ الذَّهَبِيُّ فِي دِيوان الضُّعفاءِ [تاج العروس 22/ 177]۔
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
وَرَأَيْت فِي ديوَان الضُّعَفاءِ للحافظِ الذَّهَبيّ وَهُوَ مُسَوَّدةٌ بخطِّه مَا نصُّه: عبد الرَّحْمَن بن بَهْمَان تابعيٌّ مجهولٌ [تاج العروس 15/ 39]۔
ایک تیسرے مقام پر فرماتے ہیں:
قلت: ورَأَيْتُه فِي دِيوانِ الضُّعَفاءِ للحافِظِ الذَّهَبِي هَكَذَا بمُعْجَمَتَيْن وَهِي نُسخَة المُصَنِّفِ ومُسَوَّدَتُه [تاج العروس 27/ 114]۔

علامہ محمد بن جعفر بن إدريس،الكتاني المتوفى: 1345 فرماتے ہیں:
وكتاب المغني في الضعفاء وبعض الثقات للذهبي في مجلد يحكم على كل رجل بالأصح فيه بكلمة واحدة وهو نفيس جدا وللسيوطي عليه ذيل وللذهبي أيضا ديوان الضعفاء[الرسالة المستطرفة لبيان مشهور كتب السنة المشرفة ص: 210]۔

ایک دوسرے مقام پرخود جمشیدصاحب کا اعتراف

بطور مثال ایک نمونہ لیں۔ معمر بن راشد نے اسماعیل بن شروس الصنعانی کے بارے میں کہا کان یثبج الحدیث یعنی وہ حدیث کوٹھیک طورسے ادانہیں کرتاتھا۔ ابن عدی کے یہاں وہ تحریف ہوکر بن گیاکان یضع الحدیث،اس کو حافظ ذہبی نے میزان میں اسی طورپر نقل کیاکان یضع الحدیث پھر اس کو مغنی اوردیوان الضعفاء میں لکھا کذاب،اوربعد والوں نے اسی کواختیار کیا۔
قارئیں غور فرمائیں کہ جمشیدصاحب نے اپنی اس تحریر میں بالجزم کہاہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے’’ دیوان الضعفاء‘‘ میں ایسا لکھا، لیکن اس وقت تک شاید جمشید صاحب کو اس بات کا علم نہ تھا کہ اسی کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ بھی موجود ہے اس معلومات سے قبل آنجاب کے نزدیک یہ کتاب مستند تھی مگر جوں ہی انہیں یہ بتایا گیا کہ اسی کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ بھی موجود ہے یہ معلوم ہوتے ہی موصوف نے یک قلم اس کتاب کی صحت ہی پر سوال اٹھا دیا!!!!!!
اب اس سے ہم کیا سمجھیں قارئین خود فیصلہ کریں۔



دیوان الضعفاء کے موجودہ نسخہ کی صحت نسبت


اس بات میں بھی ذرا شک نہیں ہے کہ دیوان الضعفاء کا موجودہ نسخہ امام ذھبی رحمہ اللہ ہی کا ہے اوریہ بات بھی کتاب کے محقق نے بخوبی واضح کردی ہے معلوم نہیں جمشیدصاحب نے اس سے کیوں نظرپوشی کرلی ، بہرحال عرض ہے کہ اس کتاب کے ناسخ ایک معروف و مشہور محدث ، اوراجازہ کی حیثیت سے امام ذھبی رحمہ اللہ کے شاگردہیں ، اور اس کتاب کو ڈائرکٹ امام ذہبی رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں جیساکہ مخطوطہ کے اخیر میں ان کا نام صاف لکھا ہواہے جس کی فوٹو کاپی محقق نے د ے رکھی ہے۔
دریں صورت تو امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف اس کتاب کی نسبت میں ذرا بھی شک نہیں ہے بلکہ یہ چیز تو اس کتاب کی خصوصیات میں شامل ہے جیساکہ کتاب کے محقق ان باتوں کی وضاحت کے بعد لکھتے ہیں:
بالاطلاع علي الصورة الفوتوغرافية للصفحة الأخيرة من هذالکتاب أدرکنا أن الناسخ هو-حماد بن عبدالرحيم بن علي بن حميد الدين أبوالبقا ء بن الجمال بن العلاء بن الفخر المارديني الأصل - المصري الوطن الحنفي المذهب، وهو المعروف کسفله بابن الترکماني وهو تلميذ الذهبي بالاجازة ومن الأئمة الأعلام المشهورين بهذالفن وطلبه کماجاء في ضوء الامع.
وهذه ميزة أخري من ميزات هذا الکتاب فنحمدالله حمدا کثيرا علي ماانعم به وتفضل
[ديوان الضعفاء: مقدمه ص16].


علامہ تقی الدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حماد بن عبد الرحيم بن علي بن عثمان بن إبراهيم بن مصطفى المارديني حميد الدين الحنفي المعروف بابن التركماني.سمع على الجمال محمد بن محمد محمد بن نباتة الأديب بعض السيرة وعلى ناصر الدين محمد بن إسماعيل بن جهبل المحمدين من معجم ابن جميع.واسمع من مشايخ عصره ثم طلب بنفسه من القلانسي وطبقته.وأجاز له الحافظ الذهبي ومن في عصره.
ومات في سنة تسع عشرة وثمان مائة بالقاهرة ومولده سنة خمس وأربعين وسبعمائة.
[ذيل التقييد في رواة السنن والأسانيد 1/ 519]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"حماد بن عبد الرحيم بن علي بن عثمان بن إبراهيم بن مصطفي المارديني الحنفي حميد الدين بن جمال الدين بن قاضي القضاء علاء الدين. ولد سنة ٧٤٥ وأجاز له الذهبي ومن كان في ذلك العصر في استدعاء كتب فيه اسمه سنة سبع وأربعين" ثم قال: "وكان شديد المحبة للحديث وأهله ولمحبته فيه كتب كثيرا من تصانيفه كتغليق التعليق وتهذيب التهذيب ولسان الميزان وغير ذلك ومات سنة ٨١٩" ا.ھ۔[معجم الحافظ ابن حجر، بحوالہ حاشیہ لحظ الألحاظ بذيل طبقات الحفاظ 1/ 82]۔

حافظ تقي الدين بن فهد المكي لکھتے ہیں:
وبالقاهرة المحدث حميد الدين حماد بن عبد الرحيم بن علي بن عثمان بن التركماني المصري الحنفي[ لحظ الألحاظ بذيل طبقات الحفاظ1/ 173]۔

امام سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حماد بن عبد الرحيم بن علي بن عثمان بن إبراهيم بن مصطفى بن سليمان حميد الدين أبو البقاء بن الجمال بن العلا بن الفخر المارديني الأصل المصري الحنفي ويعرف كسلفه بابن التركماني وهو حفيد قاضي الحنفية العلاء مختصر ابن الصلاح وصاحب التصانيف واسمه عبد الحميد ولكنه بحماد أشهر. ولد في رمضان سنة خمس وأربعين وسبعمائة وأسمع من مشايخ عصره ثم طلب بنفسه فسمع من القلانسي والجمال ابن نباتة وناصر الدين محمد بن إسماعيل بن جهبل ومظفر الدين بن العطار والطبقة؛ وقرأ بنفسه وكتب الطباق ولازم القيراطي، وكتب عنه أكثر شعره ودونه في الديوان الذي كان ابتدأه لنفسه ثم رحل إلى دمشق فسمع بها وأكثر من المسموع في البلدين ومن مسموعه على ابن نباتة أشياء من نظمه وبعض السيرة لابن هشام وعلي القلانسي نسخة إسماعيل بن جعفر بسماعه من ابن الطاهري وابن أبي الذكر بسماعه من ابن المقير وأجازه الآخر من القطيعي وعلي ابن جهبل المحمدين من معجم ابن جميع أنابه ابن القواس ومن شيوخه أيضاً المحب الخلاطي وأحمد بن محمد العسقلاني ولكن قيل إنه لما رحل لدمشق كتب السماع وأنه سمع قبل الوصول واعتذر عن ذلك بالاسراع؛ ولذا كان الحافظ الهيثمي يقع فيه وينهى عن الأخذ عنه؛ قال شيخنا والظاهر انه انصلح بأخرة وأجاز له الذهبي والعز بن جماعة. قال شيخنا ولازم السماع حتى سمع معنا على شيوخنا وقد خرج لبعض المشايخ يعني عبد الكريم حفيد القطب الحلبي وسمعت منه من شعر القيراطي؛ وكان شديد المحبة للحديث وأهله ولمحبته فيه كتب كثيراً من تصانيفي كتعليق التعليق وتهذيب التهذيب، ولسان الميزان وغير ذلك ورأس في الناس مدة لستوته، وكانت بيده وظائف جمة فلا زال ينزل عنها شيئاً فشيئاً إلى أن افتقر وقلت ذات يده فكان لعزة نفسه يتكسب بالنسخ بحيث كتب الكثير جداً ولا يتردد إلى القضاة، وقد أحسن إليه الجلال البلقيني على يد شيخنا قال فما أظنه وصل لبابة؛ وخطه سريع جداً لكنه غير طائل لكثرة سقمه وعدم نقطه وشكله، ولا زال يتقهقر إلى أن انحط مقداره لما كان يتعاطاه؛ وساء حاله وقبحت سيرته، حتى مات مقلاً ذليلاً بعد أن أضر بأخرة في طاعون سنة تسع عشرة بالقاهرة، وحدث أخذ عنه الأئمة كشيخنا وأورده في معجمه دون أنبائه وروى لنا عنه جماعة كالزين رضوان والموفق الأبي وحدثني بشيء من نظم ابن نباتة بواسطته. وذكره المقريزي في عقوده.[الضوء اللامع 2/ 82، ]۔


کتاب کے محقق نے امام سخاوی کی کتاب الضوء الامع سے ناسخ کا مکمل ترجمہ مختصرا پیش کیا ہے ملاحظہ ہو مقدمہ دیوان الضعفاء صفحہ ١٠ ، ١١۔


دیوان الضعفاء میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ کا وجود۔


جب یہ معلوم ہوگیا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب دیوان الضعفاء ایک ثابت شدہ کتاب ہے اور موجودہ نسخہ بھی مستند ہے تو عرض ہے کہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکر موجود ہے، کتاب اور نسخہ کے ثابت ہونے کے بعد اس کے الحاق کا بچکانہ دعوی کرنا محض تعصب اور اندھی عقیدت ہے، اور علم وتحقیق کی دنیا میں اس قسم کے پھسپھسے دعوے بے حقیت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مضحکہ خیزبھی ہیں ۔
میزان الاعتدلال میں تو احناف نے یہ عذرلنگ پیش کیا کہ بعض نسخوں میں یہ ترجمہ نہیں ہے اس لئے یہ الحاقی ہے لیکن کیا دیوان الضعفاء کے کسی دوسرے نسخے میں بھی امام صاحب کا ترجمہ غائب ہے ؟؟؟؟؟؟

نیز اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ میں جوبات نقل ہوئی ہے وہ ائمہ فن سے ثابت ہے اوران کی اپنی کتاب میں موجود ہے لہٰذا اس پہلو سے بھی اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ۔

نیز امام ذہبی رحمہ اللہ کی یہ کتاب’’دیوان الضعفاء ‘‘ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الضعفاء والمتروكين‘‘ کا اختصار ہے۔
امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وابن الجوزي واختصره الذهبي بل وذيل عليه في تصنيفين [الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ ص: 221] ۔

خود امام ذھبی بھی لکھتے ہیں:
أبو الفرج بن الجوزى كتابا كبيرا في ذلك كنت اختصرته أولا، ثم ذيلت عليه ذيلا بعد ذيل.[ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 2]۔

اب دیوان الضعفاء جس اصل کتاب ’’الضعفاء والمتروكين‘‘ لابن الجوزی کا اختصار ہے اس اصل کتاب میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ موجود ہے بلکہ وہ اصل عبارت بھی موجود ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے مختصرا دیوان میں درج کیا ہے ۔
سب سے پہلے دیوان کی عبارت ملاحظہ ہو:
النعمان الامام رحمه الله. قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله احاديث صالحة وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث کثير الغلط علي قلة روايته وقال ابن معين: لا يکتب حديثه [ديوان الضعفاء والمتروکين، ص:٤١١ ، ٤١٢]۔

اب اصل کتاب ’’الضعفاء والمتروكين‘‘ لابن الجوزی کی عبارت ملاحظہ ہو:

النعمان بن ثابت أبو حنيفة قال سفيان الثوري ليس بثقة وقال يحيى بن معين لا يكتب حديثه وقال مرة اخرى هو انبل من ان يكذب وقال النسائي ليس بالقوي في الحديث وهو كثير الغلط والخطأ على قلة روايته وقال النضر بن شميل هو متروك الحديث وقال ابن عدي عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله احاديث صالحة وليس من اهل الحديث [الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي 3/ 163]۔

قارئین ذرا ٹھنڈے دل سے دونوں کتاب کی عبارتوں کا موازنہ کریں امام ذہبی رحمہ اللہ نے اختصار کے ساتھ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی کتاب سے جو نقل کیا ہے وہ حرف بحرف اصل کتاب میں موجود ہے۔

ان تمام حقائق کے بعد بھی اگر کوئی انکار کرے تو قارئین سمجھ جائے ایسا شخص کس قدرمظلوم ہے ۔


لطیفہ :
لطف تو یہ ہے کہ اس کتاب کے ناسخ ایک معروف مشہور حنفی عالم ہیں آخرانہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کیا دشمنی تھی کہ انہوں نے اس کتاب میں مستقل ان کے ترجمہ کا اضافہ کردیا؟؟؟؟؟ ایک حنفی عالم کی طرف سے اس کتاب کا نسخ اس بات کا قوی سے قوی تر ثبوت ہے کہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ الحاقی نہیں ہے ۔




جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
دیوان الضعفاء میں ترجمہ امام ابوحنیفہ کے وجود پر
ایک اور زبردست شہادت


علامہ زين الدين ،عبد الرؤوف المناوي القاهري المتوفى: 1031ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والنعمان بن ثابت إمام أورده الذهبي في الضعفاء وقال: قال ابن عدي ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله أحاديث صالحة[فيض القدير 1/ 399]۔

قارئیں اگر دیوان الضعاء کی طرف مراجعت کریں گے تو اس میں یہی عبارت حرف بحرف موجود ملے گی، والحمدللہ۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امام ذہبی رحمہ اللہ کی کسی ایک ہی کتاب میں تضعیف رواۃ کی چند مثالیں


جمشید صاحب نے اگلے مراسلات میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ امام ابوحنیفہ کی تضعیف امام ذہبی رحمہ اللہ کی صرف ایک ہی کتاب میں ملتی ہے ہے لہذا یہ مشکوک ہے ، اول تو یہ بات ہی غلط ہے کہ امام ابوحنیفہ کی تضعیف امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتابوں میں سے صرف ایک کتاب میں ملتی ہے ، بلکہ صرف مجھ کم علم کی معلومات کے مطابق امام ذہبی رحمہ اللہ کی چار کتابوں (میزان ، مغنی ، دیوان الضعفاء اور مناقب ابی حنیفہ) میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعف موجود ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
لیکن اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی صرف ایک ہی کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف موجود ہے تو اس بنا پر اس کتاب موجود تضعیف کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ دوسری کتب میں موجود نہیں ہے!!! آج تک کسی نے یہ اصول پیش نہیں کیا ہے !!!
قارئین خود غورکریں کہ ایک ہی مصنف کی ہرکتاب میں اگر ہربات کا ہونا ضروی ہے تو بھلا بتلائیں کہ پھر مصنف کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ پھر اسی چیز کو دوسری کتابوں میں بھی دہرائے ، ایک مصنف جب کئی کتب لکھتا ہے تو اس کا فائدہ ہی یہی ہوتا ہے کہ اس کتاب کچھ مزید باتیں ہیں جودوسری کتب میں نہیں ۔

مثال کے طور پر امام ذہبی رحمہ اللہ نے ضعفاء پر تین کتابیں لکھی ہیں ۔
  • ١: ميزان الاعتدال في نقد الرجال۔
  • ٢:المغني في الضعفاء للذهبي ۔
  • ٣:ديوان الضعفاء والمتروكين۔

لیکن ان تینوں کتا بوں میں بعض ایسے رواۃ کا ذکر ہے جو بقیہ دو کتابوں میں نہیں ۔
صرف یہی نہیں بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی چند دیگرکتب میں بعض ایسے رواۃ کی تضعیف مذکور ہے جن کی تضعیف مذکورہ تینوں کتابوں میں سے کسی میں بھی مذکور نہیں ۔
ذیل میں ہم ایسی چند مثالیں پیش کرتے ہیں جن میں کسی راوی کے تعلق سے امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف سے تضعیف کا ذکر امام ذہبی رحمہ اللہ کی کسی خاص کتاب میں ہی ملتا ہے ، لیکن آج تک کسی نے ان کا انکار نہیں کیا ملاحظہ ہو:

پہلی مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ تاریخ الاسلام میں فرماتے ہیں:
قُلْتُ: أَكْثَرُ مَنْ يَرْوِي عَنْهُ ثِقَاتٌ فِيمَا عَلِمْتُ، لَكِنِ الْحَارِثَ بْنَ وَجِيهٍ وَنَابِتَةَ ضُعَّفَا.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 489]۔
اس کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’نابتہ نامی راوی ‘‘ کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ کی دوسری کسی کتاب میں اس تضعیف کا ہونا تو دور کی بات سرے سے اس کا تذکرہ ہی نہیں ہے ۔

دوسری مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’تاریخ الاسلام ‘‘ میں فرماتے ہیں:
شَيْطَانُ الطَّاقِ، هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي طَرِيفَةَ الْبَجَلِيُّ، أَبُو جَعْفَرٍ الْكُوفِيُّ الْمُتَكَلِّمُ الْمُعْتَزِلِيُّ الشِّيعِيُّ الْمُبْتَدِعُ،[تاريخ الإسلام ت بشار 4/ 652]۔
اس راوی کا تذکرہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے (ذات النقاب في الألقاب41) میں بھی کیا ہے مگر ضعفاء والی کتابوں میں مجھے اس کا ذکر نہیں ملا۔

تیسری مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ’’ تنقیح‘‘ میں فرماتے ہیں:
عن المنهال بن الجراح ، عن حبيب بن نجيح ، عن عبادة بن نسيٍّ ، عن معاذ بن جبل ' أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمره حين وجهه إلى اليمن أن لا يأخذ من الكسر شيئاً حتَّى يبلغ أربعين درهماً ؛ فإذا بلغت أربعين درهماً ، فخذ منها درهماً ' قال الدارقطنيُّ : المنهالُ متروكٌ [تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق 1/ 340]۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے’’منهال‘‘ کی تٍضعیف ذکر کی ہے ، لیکن اس کاتذکرہ بھی ہمیں امام ذہبی کی ضعفاء والی کتابوں میں نہیں ملا۔


چوتھی مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ تاریخ الاسلام میں فرماتے ہیں:
وقد روى عنه أبو بكر بن العربي الإمام صحيح البخاري، بروايته عن الحفصي، فيما حكى ابن الحداد الفاسي، ولم يكن هذا بثقة، فالله أعلم.[تاريخ الإسلام للذهبي 35/ 128]۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن الحداد الفاسی کو غیرثقہ کہا ہے ، لیکن اس کا تذکرہ بھی ہمیں امام ذہبی کی ضعفاء والی کتابوں میں نہیں ملا۔

پانچویں مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ سیر میں فرماتے ہیں:
ثُمَّ قَالَ الخَطِيْبُ: أَنْبَأَنَا الحَسَنُ بنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنْبَأَنَا الحَسَنُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ يَحْيَى العَلَوِيُّ، حَدَّثَنِي جَدِّي يَحْيَى بنُ الحَسَنِ بنِ عُبَيْدِ اللهِ بنِ الحُسَيْنِ بنِ عَلِيِّ بنِ الحُسَيْنِ، قَالَ:كَانَ مُوْسَى بنُ جَعْفَرٍ يُدْعَى: العَبْدَ الصَّالِحَ؛ مِنْ عِبَادتِه وَاجْتِهَادِه.رَوَى أَصْحَابُنَا: أَنَّهُ دَخَلَ مَسْجِدَ رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَسَجَدَ سَجْدَةً فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، فَسُمِعَ وَهُوَ يَقُوْلُ فِي سُجُوْدِه: عَظُمَ الذَّنْبُ عِنْدِي، فَلْيَحْسُنِ العَفْوُ مِنْ عِنْدِكَ، يَا أَهْلَ التَّقْوَى، وَيَا أَهْلَ المَغْفِرَةِ.فَجَعَلَ يُرَدِّدُهَا حَتَّى أَصْبَحَ.وَكَانَ سَخِيّاً، كَرِيْماً، يَبلُغُه عَنِ الرَّجُلِ أَنَّهُ يُؤذِيْه، فَيَبعَثُ إِلَيْهِ بِصُرَّةٍ فِيْهَا أَلفُ دِيْنَارٍ، وَكَانَ يَصُرُّ الصُّرَرَ بِثَلاَثِ مائَةِ دِيْنَارٍ، وَأَرْبَعِ مائَةٍ، وَمائَتَيْنِ، ثُمَّ يَقسِمُهَا بِالمَدِيْنَةِ، فَمَنْ جَاءتْه صُرَّةٌ، اسْتَغنَى.حِكَايَةٌ مُنْقَطِعَةٌ، مَعَ أَنَّ يَحْيَى بنَ الحَسَنِ مُتَّهَمٌ.[سير أعلام النبلاء 6/ 271]۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے یحیی بن الحسن کو متہم قراردیا ہے ، لیکن اس کاتذکرہ بھی ہمیں امام ذہبی کی ضعفاء والی کتابوں میں نہیں ملا۔

چھٹی مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ دیوان میں فرماتے ہیں:
اسماعیل بن محمدبن مجمع ، قال ابن معین ہو وابوہ ضعیفان[دیوان الضعفاء:ص ٣٧]۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے محمدبن مجمع کی تٍضعیف ذکر کی ہے ، لیکن اس کاتذکرہ بھی ہمیں امام ذہبی کی ضعفاء والی بقیہ دو کتابوں میں نہیں ملا۔

ساتویں مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ تلخیص میں ’’محمد بن عبيد بن أبي صالح‘‘ والی سند پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
على شرط مسلم كذا قال يعني الحاكم قلت ومحمد بن عبيد لم يحتج به مسلم وقال أبو حاتم ضعيف[المستدرك على الصحيحين للحاكم مع التلخیص: 2/ 216]۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے محمدبن مجمع کی تٍضعیف ذکر کی ہے ، لیکن اس کاتذکرہ بھی ہمیں امام ذہبی کی ضعفاء والی کتابوں میں نہیں ملا۔

آٹھویں مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ علو میں ’’ابوکنانہ محمد بن الاشرس الانصاری‘‘ والی سند پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فأما عن أم سلمة فلا يصح لأن أبا كنانة ليس بثقة وأبو عمير لا أعرفه [العلو للعلي الغفار ص: 81]۔
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’ابوکنانہ محمد بن الاشرس الانصاری‘‘ کو غیرثقہ کہا ہے ، لیکن اس کا تذکرہ بھی ہمیں امام ذہبی کی ضعفاء والی کتابوں میں نہیں ملا۔

تنبیہ :
میزان و مغنی میں أبو عبد الله محمد بن اشرس السلمي نيسابوري نام کا جو راوی ہے وہ دوسرا ہے ۔
امام خطیب فرماتے ہیں:
محمد بن أشرس اثنان أحدهما محمد بن أشرس ابن عمرو القتباني الكوفي ۔۔۔ ۔۔۔ والآخر محمد بن أشرس ابن موسى أبو عبدالله السلمي النيسابوري[المتفق والمفترق للخطيب البغدادي 3/ 229]۔


ان مثالوں میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایسے رواۃ کی تضعیف ذکر کی ہے جن رواۃ کی تضعیف کو خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی ضعفاء والی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اب تک کسی نے ان مخصوص کتابوں کی تضعیفات کا انکار نہیں کیا ہے۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
المغنی میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف کا وجود۔



اس کے بعد کفایت اللہ صاحب نے دیوان الضعفاء والمتروکون کاحوالہ دیاہے ہم اس کابھی جائزہ لیتے ہیں۔
دیوان الضعفاء والمتروکون میں حافظ ذہبی کی یہ عبارت ہے۔جیساکہ کفایت اللہ صاحب نے نقل کیاہے ۔
النعمان الامام رحمه الله. قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله احاديث صالحة وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث کثير الغلط علي قلة روايته وقال ابن معين: لا يکتب حديثه [ديوان الضعفاء والمتروکين، ص:٤١١ ، ٤١٢]۔
لیکن اس عبارت کے حافظ ذہبی کی جانب مستند ہونے میں کئی شکوک وشبہات ہیں۔
1:حافظ ذہی کی کتابوں میں سے ایک المغنی فی الضعفاء ہے۔اس کتاب میں انہوں نے میزان الاعتدال کی طرح ہرمتکلم فیہ راوی کاذکر کیاہے خواہ کتناہی ثقہ وغیرہ کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اسی کتاب میں اپنے منہج کے بارے میں لکھتے ہیں۔
لم اذکر بنداراوامثالہ فی کتابی للین فیہ عندی،ولکن لئلا یتعقب علی فیھم ،فیقول قائل،فیھم مقال (المغنی فی الضعفاء رقم 5387)باوجود یکہ اس میں ثقات ائمہ کاذکر کیاگیاہے اس میں امام ابوحنیفہ کاتذکرہ نہیں ہے۔
2:یہ کتاب حافظ ذہبی کے آخری عہد کی کتابوں میں سے ہے۔جیساکہ اس کتاب کے محقق نورالدین عتر لکھتے ہیں۔
انہانسخت وقوبلت علی المولف فی اواخرحیاتہ سنہ738کماھومثبت بخطہ رحمہ اللہ فھی تمثل الوضع الاخیر للکتاب الذی ارتضاہ المولف فان الذہبی انہی تبیضہ سنہ720ثم شرع بعدہ فی کتابہ میزان الاعتدال وفرغ من تبیضہ سنہ728
یہ کتاب حافظ ذہبی پر 737کو پڑھی گئی ۔یہ کتاب حافظ ذہبی کے اپنے قلم سے لکھے گئے نسخہ سے حافظ سفاقسی نے نقل کیاہے اورخود مولف کے سامنے پڑھ کر تصدیق حاصل کی ۔ اسی نسخہ سے یہ کتاب لکھی گئی ہے اس کتاب میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کاتذکرہ نہیں ہے۔
۔

اس کا اصل جواب تو اوپر دیا جاچکا ہے کہ اس میں امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف سے کسی راوی کا درج نہ کرنا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ان کی دوسری کتاب میں بھی اس کا وجود نہیں ہوتا ، متعدد رواۃ کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی دوسری کتب میں ضعیف قرار دیا ہے لیکن مغنی میں ان کا نام ونشان تک نہیں جیساکہ چند مثالیں اوپر پیش کی گئی ہیں ، اس کے باوجود بھی آج تک کسی نے دعوی نہیں کیا کہ جن رواۃ کی تضعیف مغنی میں نہیں ہے امام ذہبی رحمہ اللہ کی دیگر کتب میں ان کا ترجمہ الحاقی ہے ۔
ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب مغنی میں بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف منقول اور اور آج تک کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے ، ملاحظہ ہو:

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إسماعيل بن حماد بن النعمان بن ثابت ،قال ابن عدي ثلاثتهم ضعفاء [المغني في الضعفاء للذهبي ص: 37]۔
یعنی اسماعیل اور ان کے والد حماد اور ان کے والد ابوحنیفہ نعمان بن ثابت ، ان سب کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ تینوں ضعیف تھے۔

قارئین آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ایک ہی جملہ میں پورے خاندان باپ ، بیٹے اور پوتے تینوں کو ضعیف قرار دیا ہے اور امام ذہبی رحمہ نے برضاء و رغبت اس جملے کو اپنی اسی کتاب ضعفاء میں نقل کردیا ہے، اس لئے یہ کہنا کہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر نہیں محض قارئین کو دھوکہ دینا ہے۔

واضح رہے کہ اس کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کی تضعیف کو مستقل الگ ذکر نہیں کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کتاب میں دوسرے رواۃ کے ترجمہ کے بضمن موجود ان کی تضعیف سے نظر پوشی کرلی جائے اور بے دھڑک کہہ دیائے کہ اس کتاب میں امام صاحب کا ذکر ہی نہیں ۔

امام ذہبی رحمہ اللہ نے کئی رواۃ سے متعلق یہ طرز عمل اپنایا ہے کہ ان کی تضعیف کو مستقل الگ سے ذکر نہیں کیا ہے لیکن دیگر رواۃ کے ضمن میں ان کی تضعیف کردی ہے اس کی چندمثالیں ملاحظہ ہوں:

پہلی مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ میزان میں ’’ سعيد بن زرعة‘‘ کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
سعيد بن زرعة [ ت ].عن ثوبان في حب الدنيا.وعنه حسن ابن همام - مجهولان. [ميزان الاعتدال موافق رقم 2/ 136]۔

قارئین غورکریں کہ اس ترجمہ کے بضمن امام ذہبی رحمہ اللہ حسن بن ہمام کو بھی مجہول بتلارہے ہیں لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس پوری کتاب میں ’’حسن بن ہمام ‘‘ کا تذکرہ الگ سے کہیں نہیں ذکر کیا ہے اور میرے ناقص مطالعہ کی حدتک کسی دوسری کتاب میں بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیاہے۔ لیکن کیا یہ نہیں کہا جائے گا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس راوی کو میزان میں ’’مجہول‘‘ بتلایا ہے؟؟؟؟؟؟

دوسری مثال:
امام ذہبی رحمہ اللہ دیوان میں فرماتے ہیں:
اسماعیل بن محمدبن مجمع ، قال ابن معین ہو وابوہ ضعیفان[دیوان الضعفاء:ص ٣٧]۔
اس ترجمہ کے بضمن بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے محمدبن مجمع کے لئے بھی امام ابن معین رحمہ اللہ سے تضعیف نقل کی ہے اور اسے منظور فرمایاہے ، ، لیکن اس پوری کتاب میں کہیں بھی اس کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیا ہے، اور میرے ناقص مطالعہ کی حدتک کسی دوسری کتاب میں بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیاہے۔ لیکن کیا یہ نہیں کہا جائے گا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس راوی کو دیوان میں ’’ضعیف‘‘ بتلایا ہے؟؟؟؟؟؟

تیسری مثال:
خود اسی کتاب مغنی ہی کو دیکھ لیں اس میں امام ذہبی رحمہ اللہ ’’عبدالله بن غزوان‘‘ کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عبد الله بن غزوان عن عمرو بن سعد هو وشيخه مجهولان[المغني في الضعفاء للذهبي ص: 33]۔

اس ترجمہ کے بضمن بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے عمروبن سعد کو ’’مجہول‘‘ کہا ہے ، لیکن اس پوری کتاب میں کہیں بھی اس کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیا ہے، اور میرے ناقص مطالعہ کی حدتک کسی دوسری کتاب میں بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیاہے۔ لیکن کیا یہ نہیں کہا جائے گا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس راوی کو مغنی میں ’’مجہول‘‘ بتلایا ہے؟؟؟؟؟؟

چوتھی مثال:
اسی کتاب مغنی میں امام ذہبی رحمہ اللہ ’’حريش بن يزيد‘‘ کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حريش بن يزيد عن جعفر بن محمد وعنه ابنه محمد قال الدارقطني هما ضعيفان [المغني في الضعفاء للذهبي ص: 73]۔

اس ترجمہ کے بضمن بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے محمدبن حريش بن يزيد کے لئے بھی امام دارقطنی رحمہ اللہ سے تضعیف نقل کی ہے اور اسے منظور فرمایاہے ، ، لیکن اس پوری کتاب میں کہیں بھی اس کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیا ہے، اور میرے ناقص مطالعہ کی حدتک کسی دوسری کتاب میں بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا ترجمہ الگ سے پیش نہیں کیاہے۔ لیکن کیا یہ نہیں کہا جائے گا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس راوی کو مغنی میں ’’ضعیف‘‘ بتلایا ہے؟؟؟؟؟؟

ان مثالوں سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کبھی کبھی دوسرے رواۃ کے تراجم کے بضمن بھی کسی راوی کی تضعیف کرتے ہیں اور اس کتاب مغنی میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام بوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے ، اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ذھبی رحمہ اللہ کی کتاب مغنی میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف موجود ہے۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
میزان الاعتدلال میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف


جمشیدصاحب لکھتے ہیں:
اسی طرح حافظ ذہبی کی ضعفاء پر لکھی گئی مشہور عالم کتاب میزان الاعتدال میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں ہے جیساکہ اس کے دلائل میں اپنے مضمون مین دے چکاہوں۔
ہم کہتے ہیں یہ بات درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا نہ صرف یہ کہ میزان میں تذکرہ ہے بلکہ میزان میں دوجگہ پر ان کی تضعیف بھی منقول ہے ان دوجگہوں میں سے ایک مقام کی عبارت کو بعض احناف الحاقی قرار دیتے ہیں ، اس پر تفصیل آگے آئے گی لیکن میزان ہی میں دوسرے مقام پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جو تضعیف موجود ہے ، اس کا انکار آج تک کسی نے نہیں کیا ہے نہ احناف نے نہ کسی اورنے !!
اس لئے ہم سب سے پہلے قارئین کے سامنے میزان سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف پیش کرتے ہیں:

امام ذہبی رحمہ اللہ میزان میں لکھتے ہیں:
إسماعيل بن حماد بن النعمان بن ثابت الكوفى. عن أبيه. عن جده. قال ابن عدى: ثلاثتهم ضعفاء. [ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 226]۔
یعنی اسماعیل اور ان کے والد حماد اور ان کے والد ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی ، ان سب کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ تینوں ضعیف تھے۔

قارئین آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ایک ہی جملہ میں پورے خاندان باپ ، بیٹے اور پوتے تینوں کو ضعیف قرار دیا ہے اور امام ذہبی رحمہ نے برضاء و رغبت اس جملے کو اپنی کتاب میزان میں نقل کردیا ہے، اس لئے یہ کہنا کہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر نہیں محض قارئین کو دھوکہ دینا ہے۔

واضح رہے کہ اس کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کی تضعیف کو مستقل الگ سے بھی ذکر کیا ہے جسے احناف الحاقی کہتے ہیں لیکن اگر بفرض محال وہ عبارت الحاقی ہے تو اس کے باجود بھی اس عبارت میں جسے ہم نے دوسری جگہ سے پیش کیا ہے اس میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف موجود ہے ۔
لہذا اگر جدلا مان لیا جائے کہ امام صاحب کاترجمہ علیحدہ طور پر میزان میں نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کتاب میں دوسرے رواۃ کے ترجمہ کے بضمن موجود ان کی تضعیف سے نظر پوشی کرلی جائے اور بے دھڑک کہہ دیائے کہ اس کتاب میں امام صاحب کا ذکر ہی نہیں ۔

امام ذہبی رحمہ اللہ نے کئی رواۃ سے متعلق یہ طرز عمل اپنایا ہے کہ ان کی تضعیف کو مستقل الگ سے ذکر نہیں کیا ہے لیکن دیگر رواۃ کے ضمن میں ان کی تضعیف کردی ہے اس کی چندمثالیں گذشتہ مراسلہ میں پیش کی جاچکی ہے ۔



جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مستقل ترجمہ


میزان میں ایک مقام پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف تو موجود ہے جس کا انکار آج تک کسی نے نہیں کیا لیکن اسی میزان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف ان کے مستقل ترجمہ کے ساتھ موجود ہے،

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
النعمان بن ثابت [ت، س] بن زوطى، أبو حنيفة الكوفي.إمام أهل الرأى.ضعفه النسائي من جهة حفظه، وابن عدي، وآخرون.وترجم له الخطيب في فصلين من تاريخه، واستوفى كلام الفريقين معدليه ومضعفيه.[ميزان الاعتدال 4/ 265]۔

اس عبارت پر بعض حضرات کا اعتراض ہے کہ یہ الحاقی ہے لیکن اس کی کوئی مستنددلیل اب تک پیش نہیں کی گئی ہے ،محض شبہات اٹھائے گئے ہیں جن کی حقیقت آگے بیان ہوگی یہاں ہم چند ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ میزان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ الحاقی نہیں ہے۔

اولا:
خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے مقدمہ میں اشارہ دے دیا ہے کہ اس کتاب میں امام حنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ پورے انصاف کے ساتھ ہوگا ، امام ذہبی رحمہ اللہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
وكذا لا أذكر في كتابي من الأئمة المتبوعين في الفروع أحدا لجلالتهم في الإسلام وعظمتهم في النفوس، مثل أبي حنيفة، والشافعي، والبخاري، فإن ذكرت أحدا منهم فأذكره على الإنصاف
[ميزان الاعتدال 1/ 3]۔

خط کشیدہ الفاظ پر دھیان دیں اس میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ اگرکسی کا ذکر کروں گا تو پورے انصاف کے ساتھ کروں ، یہ عبارت اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ اسی کتاب میں ائمہ متبوعین میں سے میں سے کسی نہ کسی کا تذکرہ لازمی طور پر ہوگا، ورنہ امام ذہبی رحمہ اللہ اس استثناء کی بات کرتے ہی نہیں بلکہ صاف کہہ دیتے ائمہ متبوعین میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں کروں گا، لیکن چونکہ امام ذھبی رحمہ اللہ کو ائمہ متبوعین میں سے کسی کا تذکرہ کرنا تھا اس لئے اس استثناء کو ذکر دیا۔
اب جب ہم میزان کے تمام نسخوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ائمہ متبوعین میں سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ دوسرے امام کا کسی بھی نسخہ میں نام ونشان نہیں بلکہ صرف امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ ہی کا تذکرہ ملتاہے اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہیں کہ یہی وہ امام ہیں جن کا ذکرکرنے کے لئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنے کلام میں استثناء پیش کیا تھا ، اوراپنی اس بات کے مطابق واقعی امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کتاب میں امام صاحب کاتذکرہ کیاہے، اورکمال انصاف سے کام لیتے ہیں ہوئے ان کے ضعیف الحفظ کے بارے میں اقوال نقل کئے ہیں ، اور دیگر اقوال کے بارے میں صرف اشارہ کردیا ہے کیونکہ مقصود امام صاحب کو ضعیف الحفظ بتلانا تھا جو مبنی برانصاف بات ہے ۔
رہے ان کے فضائل ومناقب تو یہ اس کتاب کا موضوع نہ تھا اس لئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ نہ کیا ۔

ثانیا:
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’دیوان الضعفاء ‘‘ میں امام کی تضعیف جس انداز میں ذکر کی بعینہ اسی کا خلاصہ اس کتاب میں مذکور ہے، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عبارت امام ذہبی رحمہ اللہ ہی کی ہے۔
دیوان الضعفاء کی عبارت یہ ہے:
النعمان الامام رحمه الله. قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله احاديث صالحة وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث کثير الغلط علي قلة روايته وقال ابن معين: لا يکتب حديثه [ديوان الضعفاء والمتروکين، ص:٤١١ ، ٤١٢]۔
اورمیزان کی عبارت یہ ہے:
النعمان بن ثابت [ت، س] بن زوطى، أبو حنيفة الكوفي.إمام أهل الرأى.ضعفه النسائي من جهة حفظه، وابن عدي، وآخرون.وترجم له الخطيب في فصلين من تاريخه، واستوفى كلام الفريقين معدليه ومضعفيه.[ميزان الاعتدال 4/ 265]۔

دونوں عبارتوں کے خط کشیدہ حصہ پر غور کریں معنوی طور پر بالکل یکسانیت ہے۔
معلوم ہوا کہ میزان میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسی بات کو مختصرا پیش کیا ہے جسے وہ ’’دیوان الضعفاء ‘‘ میں پیش کرچکے ہیں، لہذا یہ عبارت امام ذہبی رحمہ اللہ ہی کی ہے۔

ثالثا:
علامہ ابن الوزير، محمد بن إبراهيم بن علي بن المرتضى بن المفضل الحسني القاسمي المتوفى: 840 ھ فرماتے ہیں:
وقد أشار الذّهبي إلى الاعتذار عن ذكر الإمام أبي حنيفة وأمثاله, وإلى أنّه لا قدح عليه بما ذكر فيه من الاختلاف, فقال في خطبة ((الميزان)) : ((وكذا لا أذكر من الأئمة /المتبوعين في الفروع أحداً لجلالتهم في الإسلام, وعظمتهم في النّفوس, فإن ذكرت أحداً منهم فأذكره على الإنصاف, وما يضرّه ذلك عند الله, ولا عند النّاس, إنّما يضر الإنسان الكذب, والإصرار على كثرة الخطأ, والتّجرّي على تدليس الباطل, فإنّه خيانة وجناية, فالمرء المسلم يطبع على كلّ شيء إلا الخيانة والكذب)). انتهى كلامه.[الروض الباسم في الذب عن سنة أبي القاسم - صلى الله عليه وسلم - 2/ 325]۔

اس عبارت میں علامہ ابن الوزیر رحمہ اللہ کی طرف سے صاف اشارہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے میزان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ پیش کیاہے ورنہ وہ عذر کی بات نہ کرتے ، یہ بھی ایک زبردست ثبوت ہے کہ میزان میں امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ کا ترجمہ موجود ہے ۔

رابعا:
اب تک میزان کی جتنی طبعات ہوئی ہیں سب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ موجود ہے حالانکہ سب کے محقق الگ الگ ہیں اورکسی ایک بھی محقق نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ الحاقی ہے ، انڈیا کے قدیم طباعت میں صرف یہ ہوا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ کو حاشیہ پر رکھ دیا گیا لیکن یہاں بھی یہ دعوی نہیں کیا گیا کہ یہ ترجمہ الحاقی ہے بلکہ صرف یہ کہا گیا کہ:
لما لم تکن هذه الترجمة في نسخة وکانت في أخري أوردتها علي الحاشية [بحوالہ تحقیق الکلام:١٤٤]

یعنی اس قدیم محقق کے سامنے بھی میزان کے دومخطوطے تھے اور ان میں سے ایک میں متن کے اندر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ موجود تھا لیکن اس محقق نے اصول سے روگردانی کرتے ہوئے زبردستی اس ترجمہ کو حاشہ پرڈال دیا ، حالانکہ امام ابوحنیفہ کے تراجم کی طرح اوربھی بہت سے تراجم دوسرے نسخہ میں نہ تھے لیکن ان تراجم کو حاشیہ پرنہ ڈالا۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
شیخ عبدالفتاح ابوغدہ فرماتے ہیں 1382ہجری میں مجھے مغرب جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں کے خزانہ عامہ میں(129ق) میزان الاعتدال کا ناقص نسخہ ہے جوحافظ ذہبی کا لکھاہواہے۔جو عثمان بن مقسم البری سے شروع ہوکر آخرکتاب تک ہے۔
اس نسخہ کے حواشی میں بہت سارے زیادات اورحواشی ہیں جو ہرصفحہ پر موجود ہیں یہاں تک کہ بعض صفحات میں زیادات اورحواشی تہائی اورچوتھائی صفحہ کے قریب تک پہنچ جاتے ہیں ۔پوری اصل کتاب ایک خط میں ہے جب کہزیادات اورحواشی الگ الگ خطوں میں لکھے گئے ہیں۔یہ الحاقات اورحواشی کتاب کے چاروں طرف ہیں۔اس نسخہ میں ایسابھی ہے کہ اپنی جانب سے کسی صفہ وغیرہ کو بیچ میں داخل کرکے کچھ لوگوں نے حواشی لکھے ہیں جس کو شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے اوراق مدرجہ سے تعبیر کیاہے۔اصل نسخہ کے آخری ورق پر بہت ساری قرائتوں کیتاریخ اوراس نسخہ سے دیگر جو نسخے نقل کئے گئے ہیں ان کا اظہار ہے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ نسخہ مولف پر کئی مرتبہ پڑھاگیا اوراصل نسخہ سے دیگر لوگوں نے مقابلہ کرکے نقل بھی کیاہے۔ان میں سے چند کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔
انھاہ کتابۃًومعارضۃ داعیالمولفہ عبداللہ المقریزی فی سنۃ تسع وعشرین وسبع ماءۃ
انھاہ کتابۃ ومعارضۃ ابوبکربن السراج داعیالمولفہ فی سنۃ ثلاث وثلاثین وسبع ماءۃ
فرغہ نسخامرۃ ثانیۃ داعیالمولفہ ابوبکر بن السراج عفااللہ عنہ فی سنۃ تسع وثلاثین وسبع ماءۃ
اب کچھ تذکرہ امام ذہبی پر اس نسخہ کے قرات کئے جانے کا ۔
قرات جمیع ھذالمیزان وہوسفران علی جامعہ سیدنا شیخ الاسلام الذھبی ابقاہ اللہ تعالی،فی مجالس آخرھا یوم السبت ثانی عشر شھررمضان سنۃ ثلاث واربعین وسبع ماءۃ بالمدرسۃ الصدریہ بدمشق وکتب سعید بن عبداللہ الدہلی عفااللہ عنہ
قرآت جمیع ھذاالکتاب علی جامعہ شیخناشیخ الاسلام ۔۔۔الذھبی فسح اللہ فی مدتہ ،فی مجالس آخرھا یوم الجمعۃ ثانی عشر رجب الفرد سنۃ خمس واربعین وسبع ماءۃ بمنزلۃ فی الصدریہ،رحم اللہ واقفھا بدمشق المححروسۃ،وکتبہ علی بن عبدالمومن بن علی الشافعی البعلبکی حامداًومصلیاًعلی النبی وآلہ مسلماً
قرات جمیع کتاب میزان الاعتدال فی نقدالرجال وماعلی الھوامش من التخاریج والحواشی والملحقات بحسب التحریر والطاقۃ والتؤدۃ علی مصنفہ شیخناالام العلامۃ ۔۔۔الذھبی فسح اللہ فی مدتہ فی مواعید طویلۃ وافق آخرھا یوم الاربعاء العشرین میں شہر رمضان المعظم فی سنۃ سبع واربعین وسبع ماءۃ فی الصدریہ بدمشق ،واجاز جمیع مایرویہ وکتب محمد(بن علی الحنفی)بن عبداللہ۔۔۔۔۔۔
جیساکہ دیکھاجاسکتاہے کہ یہ حافظ ذہبی پر ان کے اآخری ایام میں علی الاطلاق پڑھاگیاہے اوراس میں امام ابوحنیفہ کاتذکرہ نہیں ہے۔
ان تمام باتوں سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض نسخوں میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ نہیں ہے لیکن یہ چیز اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی امام ذھبی رحمہ اللہ نے اپنی اس تصنیف میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ کو شامل نہیں مانا ہے۔

قارئین درج ذیل نکات پرغورکریں :

اولا:
بعض نسخوں میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تراجم کی طرح اوربھی بہت سے رواۃ کے تراجم ساقط ہیں توکیا یہ دعوی کردیا جائے کہ ان رواۃ کا ترجمہ بھی الحاقی ہے ؟؟ اب تک کسی نے ایسی بات نہیں کہی ہے پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ ہی کے ساتھ ایسا رویہ کیوں ؟؟؟
ثانیا:
کتابوں میں نسخوں کا اختلاف عام بات ہے اورایک نسخہ کے نقص کو دوسرے نسخہ سے پورا کرنا تحقیق کا اصول ہے خود احناف بھی اس اصول کومانتے ہیں ، جس کی چندمثالیں علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے تحقیق الکلام میں پیش کی ہے اور عبدالحیی لکنوی کے اس دعوی کا رد کیا ہے کہ میزان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ الحاقی ہے، قارئین تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں تحقیق الکلام فی وجوب القراۃ خلاف الامام :ص ١٤٤،١٤٥



جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
میزان میں ترجمہ امام ابوحنفیہ کے الحاق پر کچھ مزید شبہات اور ان کارد


بعض حضرات امام سخاوی کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں:
وَأَبِي زَكَرِيَّا السَّاجِيِّ، وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْحَاكِمِ وَأَبِي الْفَتْحِ الْأَزْدِيِّ وَأَبِي عَلِيِّ بْنِ السَّكَنِ وَأَبِي الْفَرَجِ بْنِ الْجَوْزِيِّ، وَاخْتَصَرَهُ الذَّهَبِيُّ، بَلْ وَذَيَّلَ عَلَيْهِ فِي تَصْنِيفَيْنِ وَجَمَعَ مُعْظَمَهُمَا فِي مِيزَانِهِ فَجَاءَ كِتَابًا نَفِيسًا عَلَيْهِ مُعَوَّلُ مَنْ جَاءَ بَعْدَهُ، مَعَ أَنَّهُ تَبِعَ ابْنَ عَدِيٍّ فِي إِيرَادِ كُلِّ مَنْ تُكُلِّمَ فِيهِ وَلَوْ كَانَ ثِقَةً، وَلَكِنَّهُ الْتَزَمَ أَنْ لَا يَذْكُرَ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ وَلَا الْأَئِمَّةِ الْمَتْبُوعِينَ [فتح المغيث بشرح ألفية الحديث 4/ 348]
عرض ہے کہ اس عبارت میں امام سخاوی رحمہ اللہ امام ذہبی کی کتاب میزان کے مشمولات پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ میزان کے مقدمہ میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے کتاب کا جومنہج بتایا ہے اس کی طرف مختصرا اشارہ کررہے ہیں ملون الفاظ پر غورکریں ، اورپہلے بتایا جاچکا ہے کہ مقدمہ کی اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے استثناء بھی ذکر کیا ہے۔

بعض حضرت درج ذیل دوعبارتیں مزید پیش کرتے ہیں:
امام عراقی المتوفى: 806 رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والسَّاجيُّ، وابنُ حِبَّانَ، والدَّارَقطنيُّ، والأزديُّ، وابنُ عَدِيٍّ؛ ولكنَّهُ ذكرَ في كتابِهِ الكاملِ كلَّ مَنْ تُكُلِّمَ فيهِ، وإنْ كانَ ثقةً، وتَبِعَهُ على ذلكَ الذَّهبيُّ في الميزانِ، إلاَّ أنَّهُ لَمْ يذكرْ أحداً منَ الصحابةِ والأئمةِ المتبوعينَ، وفاتهُ جماعةٌ، ذيَّلْتُ عليهِ ذيلاً في مجلدٍ[شرح التبصرة والتذكرة ألفية العراقي 2/ 324]،
امام سیوطی لمتوفى: 911 فرماتے ہیں:
وَالدَّارَقُطْنِيِّ، وَغَيْرِهَا، كَكِتَابِ السَّاجِيِّ، وَابْنِ حِبَّانَ، وَالْأَزْدِيِّ، وَالْكَامِلِ لِابْنِ عَدِيٍّ.إِلَّا أَنَّهُ ذَكَرَ كُلَّ مَنْ تُكُلِّمَ فِيهِ وَإِنْ كَانَ ثِقَةً، وَتَبِعَهُ عَلَى ذَلِكَ الذَّهَبِيُّ فِي الْمِيزَانِ، إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ، وَالْأَئِمَّةِ الْمَتْبُوعِينَ، وَفَاتَهُ جَمَاعَةٌ، ذَيَّلَهُمْ عَلَيْهِ الْحَافِظُ أَبُو الْفَضْلِ الْعِرَاقِيُّ فِي مُجَلَّدٍ.[تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 2/ 890]۔
قارئین دونوں عبارتوں کا موازنہ کریں تو صاف معلوم ہوگا کہ امام سیوطی نے دراصل امام عراقی ہی کی بات نقل کردی ہے ، بہرحال ان عبارتوں سے متعلق بھی ظن غالب یہی ہے کہ ان اہل علم نے امام ذہبی رحمہ اللہ کے مقدمہ والی بات کاخلاصہ پیش کیا ہے نہ کہ کتاب کے مشمولات پر کوئی تبصرہ کیا ہے ، اور پہلے وضاحت کی جاچکی ہے مقدمہ کی اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے استثناء بھی ذکر کیا ہے۔
بالفرض مان لیا جائے کہ ان اہل علم نے کتاب کے مشمولات پر بات کی ہے تو انہوں نے اپنے پاس موجود ان نسخوں کی بنیاد پر یہ بات کی ہے جن میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ نہیں ہے، لیکن چونکہ دیگرنسخوں میں یہ بات ثابت ہے لہٰذا ان علماء کا ان نسخوں سے مطلع نہ ہونا ان کے غیر معتبرہونے کی دلیل نہیں ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
اب ذراجائزہ لیتے ہیں کہ دیوان الضعفاء والمتروکین کے نسخہ کاکیاحال ہے۔ تومیرے سامنے جو نسخہ ہے وہ دارالقلم سے شائع ہواہے۔اس تحقیق اورفہرست بنانےاورنگرانی کاکام علماء کی ایک جماعت نے کیاہے۔
اس کا مقدمہ فضیلۃ الشیخ خلیل المیس نے لکھاہے۔ اب ہم مقدمہ میں دیکھتے ہیں کہ صاحب تقدمہ نگار نے اس کے نسخوں کی کیاوضاحت کی ہے اور وہ کتنے موثوق بہ ہیں۔
اولا اس کے محققین یامقدمہ نگار نے اس کے نسخوں کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے ۔صرف اتنالکھاہے
فھذادیوان الضعفاء والمتروکین یضاف الی قائمۃ مصنفات الذہبی المطبوعۃ ۔۔۔وینحم الی مجموعۃ التاریخ لرجال الحدیث ذباعن سنۃ االرسول الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
یہ دیوان الضعفاء والمتروکین ہے جو حافظ ذہبی کی تصنیفات کی جانب منسوب ہے اوررسول کریم کی سنت سے دفاع کی خاطر لکھی گئی تاریخ رجال کی کتابوں میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ کسی نے کچھ نہیں لکھاہے۔
محترم شاید آپ نے محقق کا پورا مقدمہ سرے سے پڑھا ہی نہیں ، میں نے محقق کے مقدمہ کا لنک مراسلہ نمبر ١٢ میں دے رکھا ہے اسے ایک بار بغور پڑھ لیں نیزاس تعلق سے آپ کی تسلی کے لئے مراسلہ نمبر١٢ اور ١٣ میں میں قدرے تفصیل پیش کردی گئی ہے۔


کفایت اللہ صاحب سے ایک سوال!
حافظ ابن تیمیہ کی حدت وشدت کے سوال پر توآنجناب نے ذیل تاریخ الاسلام پر سوال اٹھادیاتھا۔اوراس کی صحت کو مشکوک ٹھہرایاتھا محض احتمالات کی بنیاد پر جوکہ غلط تھے اوریہاں امام ابوحنیفہ جرح کی بات ہے تواب کتاب کی صحت اورنسبت کی وثاقت پر کوئی سوال نہیں ،کوئی اعتراض نہیں ۔اللہ اللہ !لیکن اس کے باوجود ہم امام ابوحنیفہ کی جانب سے غلط باتوں کادفاع کریں تو مقلد اورمتعصب ہوجائیں اورآپ ابن تیمیہ کی ثابت شدہ باتوں کا انکار کریں تو متبع اورمحقق قرارپائیں۔
احتمالات کی بنیاد پر ؟؟
میں نے جن بنیادوں پر اس نسخہ کو غیر معتبربتایا تھا اس سے ذیل میں پیش کرتاہوں، قارئین پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا یہ احتمالات ہیں؟؟؟
اس کتاب کے ناسخ عبد القادر بن عبد الوهاب بن عبد المؤمن القرشي ہیں،ان کی پیدائش ٨٣٧ھ ہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ کی وفات ٧٤٨ھ میں ہوئی ہے، لہذا ظاہر ہے کہ ناسخ کو سند پیش کرنی ہوگی ، اورناسخ نے اپنی سند بیان کرتے ہوئے کہا ہے :
بسم الله الرحمن الرحيم، اللهم صل على أشرف خلقك سيدنا محمد وآله وسلم، أخبرني غير واحد مشافهة وكتابة، عن الإمام الحافظ الكبير شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز رحمة الله تعالى عليه؛ قال: هذا مجلد ملحق " تاريخ الإسلام " شبه الذيل عليه۔

یہ سند کئی لحاظ سے محل نظر ہے :
اولا:
یہ غیر واحد کون ہیں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، لہذا اس ضمیمہ کی نسبت امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف محل نظر ہے۔
ثانیا:
٢: ناسخ کے مجہول شیوخ اسے امام ذہبی سے نقل کرتے ہیں اور ناسخ کے شیوخ کو امام ذہبی کی معاصرت حاصل نہیں ہے لہذا ناسخ کے شیوخ اور امام ذہبی کے مابین انقطاع ہے اور اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ ناسخ کے شیوخ نے وجادۃ روایت کیا ہے۔
ثانیا:
اس کتاب میں ہے :
ابن السباك عالم بغداد، الإمام تاج الدين علي بن سنجر بن السبالك..... توفي رحمه الله تعالى في سنة خمسين وسبعمائة ببغداد، رحمه الله تعالى وإيانا (ذيل تاريخ الإسلام:ص:494-495)
غورکرنے کی بات ہے کہ امام ذہبی خود ٧٤٨ھ میں اس دنیا سے چلے گئے اور اس کتاب میں لکھ رہے ہیں کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ھ میں ہوئی !!!
واضح رہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ہجری میں ہوئی ہے ، چنانچہ امام تقی الدین الفاسی فرماتے ہیں:
علي بن سنجر بن السباك البغدادي تاج الدين عالم بغداد الحنفي، وسمع من الرشيد بن ابي القاسم من "صحيح البخاري"۔۔۔۔۔توفي سنة خمسين وسبعمائة
[ذيل التقييد في رواة السنن والأسانيد 2/ 193]

سوال یہ ہے کہ جب ابن السماک کی وفات سے دو سال قبل خود امام ذھبی اس دنیا سے چلے گئے تو پھر انہوں نے اپنی موت کے بعد مرنے والے کی تاریخ وفات کیسے لکھ دی؟؟؟؟
غورفرمائیں کہ پہلی بنیاد یہ ہے کہ ناسخ کے شیوخ مجہول ہیں !
کیا یہ بے بنیاد بات ہے ، اسے بے بنیاد کہنے کے لئے آپ پر لازم ہے کہ ناسخ کے شیوخ کا نام پیش کریں ، کتنی عجیب بات ہے کہ سندمیں مجہول شیوخ ہیں ،اب ان کا ترجمہ پیش کرنے کے بجائے بڑے ہی دھڑلے کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ یہ احتمال ہے ؟؟؟
دوسری بنیاد یہ کے ناسخ کے شیوخ کوئی بھی ہوں بہرحال انہیں امام ذہبی رحمہ اللہ کی معاصرت حاصل نہیں ہے ، اب ایک ہی صورت بنتی ہے کہ ان شیوخ نے وجادۃ روایت کیا ہو لیکن یہ ماننے کے لئے ہمیں اہل فن سے اس چیزکی صراحت درکار ہے کہ ان شیوخ نے وجادۃ روایت کیا ہے ۔
ورنہ صرف امکان کی بناپر وجادۃ روایت کرنے کافیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے ، اگر ایسا ہوتا تو پھر تو شاید ہی کوئی سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف قرار پائے کیونکہ ہرانقطاع پر کہا جاسکتا ہے کہ یہاں وجادۃ روایت ہے ، لہٰذا وجادۃ روایت کا بھی ثبوت ہونا چاہے۔
اس بات کا بھی موصوف نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
تیسری نمبر پرایک داخلی شہادت پیش کی گئی تھی جو بہت واضح ہے ، صرف اس پر موصوف نے کچھ لب کشائی کی ہے جس کا جواب ابن تیمہ والے تھریڈ میں انہیں مل جائے گا۔
بہرحال جن اصل دو بنیادوں پر اس نسخہ کو غیر معتبر بتلایا گیا تھا اس کا کوئی جواب موصوف کی طرف سے نہیں آیا۔
واضح رہے کہ ہم اس بات کے منکر نہیں ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ کتاب لکھی ہے یہ بات ہمیں تسلیم ہے لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس کتاب کا مستندمخوطہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے ، اور موجودہ نسخہ غیر معتبر ہے ، اگر کوئی بھی موجودہ نسخہ کی سند کوصحیح ثابت کردے یا کوئی دوسرا معتبرنسخہ پیش کردے تو ہم اس نسخہ کو معتبرماننے میں ایک لمحہ کا بھی توقف نہیں کریں گے۔


آپ نے میزان الاعتدال اورالمغنی فی الضعفاء میں دیکھ لیاکہ امام ابوحنیفہ کاذکر وہاں نہیں ہے حالانکہ وہاں ہوناچاہئے
اورہم نے بھی قارئین کو دکھا دیا کہ ان دونوں کتابوں میں امام ابوحنیفہ کا ذکر ہے۔

کیونکہ حافظ ذہبی کے پیش نظر استعیاب مقصود ہے خواہ متکلم فیہ راوی واقعتاًاورنفس الامر میں ثقہ صدوق اورامام ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں امام علی بن مدینی تک کا تذکرہ موجود ہے اورالمغنی میں بھی بہت سارے حفاظ حدیث اورثقہ روات موجود ہیں لیکن موجود نہیں ہیں توامام ابوحنیفہ ۔
ہم نے اوپر متعدد مثالوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کتابوں میں بہت سے ضعیف رواۃ کا تذکرہ نہیں ہے ، اور ایسا بھی نہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ ان کے ضعف سے آگاہ نہ ہوں ، بلکہ خود امام ذہبی رحمہ اللہ بعض رواۃ کو اپنی دیگر کتابوں میں ٍضعیف قرار دے رکھا ہے مگر میزان یا مغنی میں ان کا تذکرہ نہیں۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top