کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے قبل ان اقوال کی استنادی حیثیت بھی واضح کردی جائے جنہیں امام ذہبی رحمہ اللہ نے مذکورہ اقتباس میں پیش کیا ہے یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر یحیی بن سعید رحمہ اللہ کی جوجرح نقل کی ہے وہ ثابت ہے گذشتہ مراسلات میں اس کی صحیح سندیں پیش کی جاچکی ہیں۔
رہی امام ابن معین رحمہ اللہ سے نقل کردہ توثیق تو:
امام ابن معین نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جرح بھی کر رکھی ہے ، ثبوت ملاحظہ ہو:
امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن عثمان قال سمعت يحيى بن معين وسئل عن أبي حنيفة قال كان يضعف في الحديث [ضعفاء العقيلي 4/ 284 واسنادہ صحیح]۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا بن رزق أخبرنا هبة الله بن محمد بن حبش الفراء حدثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة قال سمعت يحيى بن معين وسئل عن أبي حنيفة فقال كان يضعف في الحديث [تاريخ بغداد 13/ 450 واسنادہ صحیح]۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثنا على بن احمد بن سليمان ثنا بن أبى مريم قال سألت يحيى بن معين عن أبى حنيفة قال لا يكتب حديثه،[الكامل في الضعفاء 7/ 6 واسنادہ صحیح]۔
امام ذہبی رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے بعض مقامات پر یہ صراحت کررکھی ہے کہ ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا ، ذیل میں امام ذہبی کی یہ صراحت ملاحظہ ہو:
امام حاکم رحمہ اللہ نے ایک راوی ’’ خارجة بن مصعب الخراسانی‘‘ کی توثیق کی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ وضاحت کیا کہ اس توثیق سے مراد یہ ہے کہ اس راوی سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
وَقَالَ الحَاكِمُ: هُوَ فِي نَفْسِهِ ثِقَةٌ -يَعْنِي: مَا هُوَ بِمُتَّهَمٍ-.[سير أعلام النبلاء 7/ 327]۔
معلوم ہوا کہ بعض ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا اور امام ابن معین رحمہ اللہ کی توثیق ابی حنیفہ بشرط ثابت اسی معنی میں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ خود امام ابن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف فی الحدیث قرار دے رکھا ہے جیساکے حوالے پیش کئے جاچکے ہیں۔
ہماری نظر میں امام ابن معین سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف ہی ثابت ہے جیساکہ اوپرتفصیل پیش کی گئی اس کے برخلاف توثیق ثابت نہیں ہے ، جس کی وضاحت آگے آرہی ہے لیکن جو حضرات توثیق کا قول ثابت مانیں انہیں امام ذہبی رحمہ اللہ ہی کے پیش کردہ درج ذیل اصول پر غور کرنا چاہئے۔
عبدالرحمن بن ثابت بن الصامت.عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام يصلى في بنى عبد الاشهل، وعليه كساء ملتف به، يقيه برد الحصا. رواه عنه إبراهيم بن إسماعيل بن أبى حبيبة.قال البخاري: لم يصح حديثه.وقال ابن حبان: فحش خلافه للاثبات فاستحق الترك.وقال أبو حاتم الرازي: ليس عندي بمنكر الحديث، ليس بحديثه بأس.قلت: وروى عنه ابنه عبدالله، وذكره أيضا ابن حبان في الثقات فتساقط قولاه.[ميزان الاعتدال موافق رقم 2/ 552]۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے امام ذہبی رحمہ اللہ کا اصول معلوم ہوا کہ ایک ہی راوی سے متعلق اگر کسی ایک ناقد کے دوطرح کے اقوال ہوں تو دونوں اقوال ساقط ہوجائیں گے ۔
دریں صورت خود امام ذہبی رحمہ اللہ کی نظرمیں بھی امام ابن معین رحمہ اللہ کے دونوں قسم کے اقوال مردود ہوگئے۔
اوپر متعددطرق سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کی ہے ، اس کے برخلاف امام یحیی بن معین سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جو توثیق نقل کی جاتی ہے وہ قطعا ثابت نہیں ، لہذا امام ذہبی رحمہ اللہ کا بھی یہ اصول ہے کہ بے سند جرح کا کوئی اعتبار نہیں ، لہٰذا جب یہ معلوم ہوگیا کہ امام یحیح بن معین رحمہ اللہ سے توثیق ثابت نہیں ہے تو امام ذھبی رحمہ اللہ کی کتاب میں اس کے نقل ہونے سے یہ بات قابل قبول نہیں ہوسکتی ، جیسا کہ خود مناقب ابی حنیفہ کے محقق نے بھی بلاتامل ان تمام روایا ت کو مردود قرار دیا ہے جو اس کے دعوی کے مطابق بسندصحیح ثابت نہیں ۔
اب ذیل ان روایا ت کا جائز ہ پیش خدمت ہے:
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا التنوخي حدثنا أبي حدثنا محمد بن حمدان بن الصباح حدثنا احمد بن الصلت الحماني قال سمعت يحيى بن معين وهو يسأل عن أبي حنيفة أثقة هو في الحديث قال نعم ثقة ثقة كان والله أورع من أن يكذب وهو أجل قدرا من ذلك [تاريخ بغداد 13/ 450 واسنادہ موضوع]۔
امام یحیی بن معین سے اس قول کا ناقل ’’احمد بن الصلت بن المغلس أبو العباس الحماني وقيل احمد بن محمد بن الصلت ويقال احمد بن عطية‘‘ ہے۔
یہ کذاب و وضاع راوی ہے مدح ابی حنیفہ میں یہ شخص جھوٹی روایات بنا بنا کر ائمہ کی طرف منسوب کی کیا کرتا تھا ، اس کے بارے میں ائمہ فن کی گواہیاں ملاحظہ ہوں:
امام خطیب بغدادی جنہوں نے مدح ابی حنیفہ میں اس کی روایات نقل کی ہیں وہ خود اس کذاب ووضاح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حدث بأحاديث أكثرها باطلة هو وضعها.ويحكى أَيْضًا عَنْ بشر بْن الحارث، ويحيى بْن معين، وعلي ابن المديني، أخبارا جمعها بعد أن صنعها فِي مناقب أَبِي حنيفة.[تاريخ بغداد ت بشار 5/ 338]۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وما رأيت في الكذابين أقل حياء منه وكان ينزل عند أصحاب الكتب يحمل من عندهم رزما فيحدث بما فيها وباسم من كتب الكتاب باسمه فيحدث عن الرجل الذي اسمه في الكتاب ولا بالي ذلك الرجل متى مات ولعله قد مات قبل ان يولد منهم من ذكرت ثابت الزاهد وعبد لصمد بن النعمان ونظراؤهما وكان تقديري في سنه لما رأيته سبعين سنة أو نحوه وأظن ثابت الزاهد قد مات قبل العشرين بيسير أو بعده بيسير وعبد الصمد قريب منه وكانوا قد ماتوا قبل ان يولد بدهر [الكامل في الضعفاء 1/ 199]۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں:
فضائل أبى حنيفة ۔۔۔ موضوع كله كذب وضعه احمد بن المغلس الحماني [تاريخ بغداد 4/ 209 وسندہ صحیح]۔
امام ابونعیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت أبو العباس الحماني يروي عن بن أبي أويس والقعنبي وعن شيوخ لم يلقهم بالمشاهير والمناكير لا شيء [الضعفاء للأصبهاني ص: 65]۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كَانَ يضع الْحَدِيث [المجروحين لابن حبان 1/ 153]۔
امام أبو الفتح بن أبي الفوارس فرماتے ہیں:
ابْن مغلس كَانَ يضع [تاريخ بغداد ت بشار 5/ 338 وسندہ صحیح]۔
امام سبط ابن العجمی فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحماني كذاب وضاع[الكشف الحثيث ص: 53]۔
امام أبو الحسن على بن محمد بن العراق الكناني فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحمانى وضاع[تنزيه الشريعة المرفوعة 1/ 33]۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
احمد بن الصلت بن المغلس الحماني قبيل الثلاثمائةمتهم وهو احمد بن محمد بن الصلت[المغني في الضعفاء للذهبي ص: 19]۔
میزان میں فرماتے ہیں:
هالك ،[ميزان الاعتدال 1/ 105]۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحمد بن الصلت الحماني هو أحمد بن محمد بن الصلت هالك [لسان الميزان 1/ 188]۔
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا الصيمري أخبرنا عمر بن إبراهيم المقرئ حدثنا مكرم بن احمد حدثنا احمد بن عطية قال سئل يحيى بن معين هل حدث سفيان عن أبي حنيفة قال نعم كان أبو حنيفة ثقة صدوقا في الحديث والفقه مأمونا على دين الله قلت احمد بن الصلت هو احمد بن عطية وكان غير ثقة [تاريخ بغداد 13/ 450 اسناہ موضوع]۔
اس روایت میں بھی اصل ناقل ابن الصلت ہے جس کا تعارف اوپر پیش کیا جاچکاہے۔
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا بن رزق حدثنا احمد بن علي بن عمرو بن حبيش الرازي قال سمعت محمد بن احمد بن عصام يقول سمعت محمد بن سعد العوفي يقول سمعت يحيى بن معين يقول كان أبو حنيفة ثقة لا يحدث بالحديث إلا ما يحفظ ولا يحدث بما لا يحفظ [تاريخ بغداد 13/ 449 واسنادہ ضعیف]۔
اس قول کا ناقل ’’محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد بن جنادة أبو جعفر العوفي‘‘ ہے۔
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
وكان لينا في الحديث [تاريخ بغداد 5/ 322]۔
امام حاکم فرماتے ہیں:
ومثال ذلك في الطبقة السادسة من المحدثين ۔۔۔ محمد بن سعد العوفي ۔۔۔۔۔۔فجميع من ذكرناهم في هذا النوع بعد الصحابة والتابعين فمن بعدهم قوم قد اشتهروا بالرواية ولم يعدوا في الطبقة الأثبات المتقنين الحفاظ والله أعلم [معرفة علوم الحديث ص: 337]۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
محمد بن سعد العوفي عن يزيد وروح لينه الخطيب [المغني في الضعفاء للذهبي ص: 20]۔
اس روایت میں ایک دوسرا راوی ’’محمد بن احمد بن عصام‘‘ ہے۔
اس کے حالات نامعلوم ہیں۔
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
قرأت على البرقاني عن محمد بن العباس الخزاز حدثنا احمد بن مسعدة الفزاري حدثنا جعفر بن درستويه حدثنا احمد بن محمد بن القاسم بن محرز قال سمعت يحيى بن معين يقول كان أبو حنيفة لا بأس به وكان لا يكذب وسمعت يحيى يقول مرة أخرى أبو حنيفة عندنا من أهل الصدق ولم يتهم بالكذب ولقد ضربه بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا[تاريخ بغداد 13/ 449 واسنادۃ ضعیف]۔
اس قول کا ناقل ’’ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز البغدادی‘‘ ہے۔
اس کے حالات بھی نا معلوم ہیں۔
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا القاضي أبو الطيب طاهر بن عبد الله المطيري حدثنا علي بن إبراهيم البيضاوي أخبرنا احمد بن عبد الرحمن بن الجارود الرقي حدثنا عباس بن محمد الدوري قال سمعت يحيى بن معين يقول وقال له رجل أبو حنيفة كذاب قال كان أبو حنيفة أنبل من أن يكذب كان صدوقا إلا أن في حديثه ما في حديث الشيوخ [تاريخ بغداد 13/ 449 واسنادہ ضعیف]۔
اس روایت میں ’’احمد بن عبد الرحمن بن الجارود الرقي‘‘ ہے۔
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
كل رجاله مشهورون معروفون بالصدق الا بن الجارود فإنه كذاب [تاريخ بغداد مؤافق 2/ 247]۔
امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقال أحمد بن عبد الرحمن بن الجارود، وهو كذاب[تاريخ الإسلام للذهبي 14/ 309 وانظر:المغني في الضعفاء:21]
اورمیزان میں فرماتے ہیں:
ومن بلاياه: حدثنا هلال بن العلاء، حدثنا محمد بن مصعب، حدثنا الأوزاعي، عن ابن لمنكدر، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: جمال الرجل فصاحة لسانه.[ميزان الاعتدال 1/ 116]۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی لسان المیران میں اس پر شدیر جروح نقل کی ہیں اور کوئی دفاع نہیں کیا ہے۔ [لسان الميزان 1/ 213]۔
امام مزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَال صالح بن محمد الأسدي الحافظ : سمعت يحيى بن مَعِين يقول : كان أبو حنيفة ثقة في الحديث [تهذيب الكمال مع حواشيه ليوسف المزي 29/ 424 ، لایعرف اسنادہ]۔
یہ قول بے سند ہے لہٰذا بے سود ہے ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کی جرح ثابت ہے
امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر یحیی بن سعید رحمہ اللہ کی جوجرح نقل کی ہے وہ ثابت ہے گذشتہ مراسلات میں اس کی صحیح سندیں پیش کی جاچکی ہیں۔
رہی امام ابن معین رحمہ اللہ سے نقل کردہ توثیق تو:
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ سے جرح کا قول بھی منقول ہے
امام ابن معین نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جرح بھی کر رکھی ہے ، ثبوت ملاحظہ ہو:
امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن عثمان قال سمعت يحيى بن معين وسئل عن أبي حنيفة قال كان يضعف في الحديث [ضعفاء العقيلي 4/ 284 واسنادہ صحیح]۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا بن رزق أخبرنا هبة الله بن محمد بن حبش الفراء حدثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة قال سمعت يحيى بن معين وسئل عن أبي حنيفة فقال كان يضعف في الحديث [تاريخ بغداد 13/ 450 واسنادہ صحیح]۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثنا على بن احمد بن سليمان ثنا بن أبى مريم قال سألت يحيى بن معين عن أبى حنيفة قال لا يكتب حديثه،[الكامل في الضعفاء 7/ 6 واسنادہ صحیح]۔
ایک ہی امام سے متعارض اقوال کی صورت میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا موقف
جمع وتطبیق
امام ذہبی رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے بعض مقامات پر یہ صراحت کررکھی ہے کہ ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا ، ذیل میں امام ذہبی کی یہ صراحت ملاحظہ ہو:
امام حاکم رحمہ اللہ نے ایک راوی ’’ خارجة بن مصعب الخراسانی‘‘ کی توثیق کی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ وضاحت کیا کہ اس توثیق سے مراد یہ ہے کہ اس راوی سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
وَقَالَ الحَاكِمُ: هُوَ فِي نَفْسِهِ ثِقَةٌ -يَعْنِي: مَا هُوَ بِمُتَّهَمٍ-.[سير أعلام النبلاء 7/ 327]۔
معلوم ہوا کہ بعض ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا اور امام ابن معین رحمہ اللہ کی توثیق ابی حنیفہ بشرط ثابت اسی معنی میں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ خود امام ابن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف فی الحدیث قرار دے رکھا ہے جیساکے حوالے پیش کئے جاچکے ہیں۔
تساقط قولین
ہماری نظر میں امام ابن معین سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف ہی ثابت ہے جیساکہ اوپرتفصیل پیش کی گئی اس کے برخلاف توثیق ثابت نہیں ہے ، جس کی وضاحت آگے آرہی ہے لیکن جو حضرات توثیق کا قول ثابت مانیں انہیں امام ذہبی رحمہ اللہ ہی کے پیش کردہ درج ذیل اصول پر غور کرنا چاہئے۔
عبدالرحمن بن ثابت بن الصامت.عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام يصلى في بنى عبد الاشهل، وعليه كساء ملتف به، يقيه برد الحصا. رواه عنه إبراهيم بن إسماعيل بن أبى حبيبة.قال البخاري: لم يصح حديثه.وقال ابن حبان: فحش خلافه للاثبات فاستحق الترك.وقال أبو حاتم الرازي: ليس عندي بمنكر الحديث، ليس بحديثه بأس.قلت: وروى عنه ابنه عبدالله، وذكره أيضا ابن حبان في الثقات فتساقط قولاه.[ميزان الاعتدال موافق رقم 2/ 552]۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے امام ذہبی رحمہ اللہ کا اصول معلوم ہوا کہ ایک ہی راوی سے متعلق اگر کسی ایک ناقد کے دوطرح کے اقوال ہوں تو دونوں اقوال ساقط ہوجائیں گے ۔
دریں صورت خود امام ذہبی رحمہ اللہ کی نظرمیں بھی امام ابن معین رحمہ اللہ کے دونوں قسم کے اقوال مردود ہوگئے۔
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ سے توثیق ابی حنیفہ ثابت نہیں
اوپر متعددطرق سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کی ہے ، اس کے برخلاف امام یحیی بن معین سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جو توثیق نقل کی جاتی ہے وہ قطعا ثابت نہیں ، لہذا امام ذہبی رحمہ اللہ کا بھی یہ اصول ہے کہ بے سند جرح کا کوئی اعتبار نہیں ، لہٰذا جب یہ معلوم ہوگیا کہ امام یحیح بن معین رحمہ اللہ سے توثیق ثابت نہیں ہے تو امام ذھبی رحمہ اللہ کی کتاب میں اس کے نقل ہونے سے یہ بات قابل قبول نہیں ہوسکتی ، جیسا کہ خود مناقب ابی حنیفہ کے محقق نے بھی بلاتامل ان تمام روایا ت کو مردود قرار دیا ہے جو اس کے دعوی کے مطابق بسندصحیح ثابت نہیں ۔
اب ذیل ان روایا ت کا جائز ہ پیش خدمت ہے:
ابن صلت ، کذاب کی روایت
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا التنوخي حدثنا أبي حدثنا محمد بن حمدان بن الصباح حدثنا احمد بن الصلت الحماني قال سمعت يحيى بن معين وهو يسأل عن أبي حنيفة أثقة هو في الحديث قال نعم ثقة ثقة كان والله أورع من أن يكذب وهو أجل قدرا من ذلك [تاريخ بغداد 13/ 450 واسنادہ موضوع]۔
امام یحیی بن معین سے اس قول کا ناقل ’’احمد بن الصلت بن المغلس أبو العباس الحماني وقيل احمد بن محمد بن الصلت ويقال احمد بن عطية‘‘ ہے۔
یہ کذاب و وضاع راوی ہے مدح ابی حنیفہ میں یہ شخص جھوٹی روایات بنا بنا کر ائمہ کی طرف منسوب کی کیا کرتا تھا ، اس کے بارے میں ائمہ فن کی گواہیاں ملاحظہ ہوں:
امام خطیب بغدادی جنہوں نے مدح ابی حنیفہ میں اس کی روایات نقل کی ہیں وہ خود اس کذاب ووضاح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حدث بأحاديث أكثرها باطلة هو وضعها.ويحكى أَيْضًا عَنْ بشر بْن الحارث، ويحيى بْن معين، وعلي ابن المديني، أخبارا جمعها بعد أن صنعها فِي مناقب أَبِي حنيفة.[تاريخ بغداد ت بشار 5/ 338]۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وما رأيت في الكذابين أقل حياء منه وكان ينزل عند أصحاب الكتب يحمل من عندهم رزما فيحدث بما فيها وباسم من كتب الكتاب باسمه فيحدث عن الرجل الذي اسمه في الكتاب ولا بالي ذلك الرجل متى مات ولعله قد مات قبل ان يولد منهم من ذكرت ثابت الزاهد وعبد لصمد بن النعمان ونظراؤهما وكان تقديري في سنه لما رأيته سبعين سنة أو نحوه وأظن ثابت الزاهد قد مات قبل العشرين بيسير أو بعده بيسير وعبد الصمد قريب منه وكانوا قد ماتوا قبل ان يولد بدهر [الكامل في الضعفاء 1/ 199]۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں:
فضائل أبى حنيفة ۔۔۔ موضوع كله كذب وضعه احمد بن المغلس الحماني [تاريخ بغداد 4/ 209 وسندہ صحیح]۔
امام ابونعیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت أبو العباس الحماني يروي عن بن أبي أويس والقعنبي وعن شيوخ لم يلقهم بالمشاهير والمناكير لا شيء [الضعفاء للأصبهاني ص: 65]۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كَانَ يضع الْحَدِيث [المجروحين لابن حبان 1/ 153]۔
امام أبو الفتح بن أبي الفوارس فرماتے ہیں:
ابْن مغلس كَانَ يضع [تاريخ بغداد ت بشار 5/ 338 وسندہ صحیح]۔
امام سبط ابن العجمی فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحماني كذاب وضاع[الكشف الحثيث ص: 53]۔
امام أبو الحسن على بن محمد بن العراق الكناني فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحمانى وضاع[تنزيه الشريعة المرفوعة 1/ 33]۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
احمد بن الصلت بن المغلس الحماني قبيل الثلاثمائةمتهم وهو احمد بن محمد بن الصلت[المغني في الضعفاء للذهبي ص: 19]۔
میزان میں فرماتے ہیں:
هالك ،[ميزان الاعتدال 1/ 105]۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحمد بن الصلت الحماني هو أحمد بن محمد بن الصلت هالك [لسان الميزان 1/ 188]۔
ابن صلت کذاب کی دوسری روایت
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا الصيمري أخبرنا عمر بن إبراهيم المقرئ حدثنا مكرم بن احمد حدثنا احمد بن عطية قال سئل يحيى بن معين هل حدث سفيان عن أبي حنيفة قال نعم كان أبو حنيفة ثقة صدوقا في الحديث والفقه مأمونا على دين الله قلت احمد بن الصلت هو احمد بن عطية وكان غير ثقة [تاريخ بغداد 13/ 450 اسناہ موضوع]۔
اس روایت میں بھی اصل ناقل ابن الصلت ہے جس کا تعارف اوپر پیش کیا جاچکاہے۔
ابن سعد العوفی ، ضعیف کی روایت
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا بن رزق حدثنا احمد بن علي بن عمرو بن حبيش الرازي قال سمعت محمد بن احمد بن عصام يقول سمعت محمد بن سعد العوفي يقول سمعت يحيى بن معين يقول كان أبو حنيفة ثقة لا يحدث بالحديث إلا ما يحفظ ولا يحدث بما لا يحفظ [تاريخ بغداد 13/ 449 واسنادہ ضعیف]۔
اس قول کا ناقل ’’محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد بن جنادة أبو جعفر العوفي‘‘ ہے۔
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
وكان لينا في الحديث [تاريخ بغداد 5/ 322]۔
امام حاکم فرماتے ہیں:
ومثال ذلك في الطبقة السادسة من المحدثين ۔۔۔ محمد بن سعد العوفي ۔۔۔۔۔۔فجميع من ذكرناهم في هذا النوع بعد الصحابة والتابعين فمن بعدهم قوم قد اشتهروا بالرواية ولم يعدوا في الطبقة الأثبات المتقنين الحفاظ والله أعلم [معرفة علوم الحديث ص: 337]۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
محمد بن سعد العوفي عن يزيد وروح لينه الخطيب [المغني في الضعفاء للذهبي ص: 20]۔
اس روایت میں ایک دوسرا راوی ’’محمد بن احمد بن عصام‘‘ ہے۔
اس کے حالات نامعلوم ہیں۔
ابن محرز، مجہول کی روایت
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
قرأت على البرقاني عن محمد بن العباس الخزاز حدثنا احمد بن مسعدة الفزاري حدثنا جعفر بن درستويه حدثنا احمد بن محمد بن القاسم بن محرز قال سمعت يحيى بن معين يقول كان أبو حنيفة لا بأس به وكان لا يكذب وسمعت يحيى يقول مرة أخرى أبو حنيفة عندنا من أهل الصدق ولم يتهم بالكذب ولقد ضربه بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا[تاريخ بغداد 13/ 449 واسنادۃ ضعیف]۔
اس قول کا ناقل ’’ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز البغدادی‘‘ ہے۔
اس کے حالات بھی نا معلوم ہیں۔
عباس دوری رحمہ اللہ کی روایت
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
أخبرنا القاضي أبو الطيب طاهر بن عبد الله المطيري حدثنا علي بن إبراهيم البيضاوي أخبرنا احمد بن عبد الرحمن بن الجارود الرقي حدثنا عباس بن محمد الدوري قال سمعت يحيى بن معين يقول وقال له رجل أبو حنيفة كذاب قال كان أبو حنيفة أنبل من أن يكذب كان صدوقا إلا أن في حديثه ما في حديث الشيوخ [تاريخ بغداد 13/ 449 واسنادہ ضعیف]۔
اس روایت میں ’’احمد بن عبد الرحمن بن الجارود الرقي‘‘ ہے۔
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
كل رجاله مشهورون معروفون بالصدق الا بن الجارود فإنه كذاب [تاريخ بغداد مؤافق 2/ 247]۔
امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقال أحمد بن عبد الرحمن بن الجارود، وهو كذاب[تاريخ الإسلام للذهبي 14/ 309 وانظر:المغني في الضعفاء:21]
اورمیزان میں فرماتے ہیں:
ومن بلاياه: حدثنا هلال بن العلاء، حدثنا محمد بن مصعب، حدثنا الأوزاعي، عن ابن لمنكدر، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: جمال الرجل فصاحة لسانه.[ميزان الاعتدال 1/ 116]۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی لسان المیران میں اس پر شدیر جروح نقل کی ہیں اور کوئی دفاع نہیں کیا ہے۔ [لسان الميزان 1/ 213]۔
صالح بن محمد الاسدی رحمہ اللہ کی روایت
امام مزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَال صالح بن محمد الأسدي الحافظ : سمعت يحيى بن مَعِين يقول : كان أبو حنيفة ثقة في الحديث [تهذيب الكمال مع حواشيه ليوسف المزي 29/ 424 ، لایعرف اسنادہ]۔
یہ قول بے سند ہے لہٰذا بے سود ہے ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔