کفایت اللہ صاحب نے دعویٰ کیاہے کہ چارکتابوں میں امام ابوحنیفہ کی تضعیف منقول ہے۔
یعنی مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ،دیوان الضعفاء والمتروکین،المغنی فی الضعفاء اورمیزان الاعتدال
اول الذکر دوکتابوں کوچھوڑدیتے ہیں کیونکہ مناقب ابی حنیفہ کے جس موہوم جملہ سے ان کااستدلال ہے وہ تام نہیں ہے۔اوردیوان الضعفاء والمتروکین کی سند کفایت اللہ صاحب کے معیار پر صحیح نہیں۔
رہ گیاالمغنی فی الضعفاء اورمیزان الاعتدال ۔دیکھتے ہیں کہ ا س میں کفایت اللہ نے کس جملہ سے استدلال کیاہے۔
آئیے ان کے دعوے کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ علم اورتحقیق پر مبنی ہے یامحض خوش گمانی اوربدگمانی کی ترکیب اورامتزاج واختلاط سے اس کی تخلیق کی گئی ہے۔
المغنی میں حافظ ذہبی اسماعیل کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔
إِسْمَاعِيل بن حَمَّاد بن النُّعْمَان بن ثَابت قَالَ ابْن عدي ثَلَاثَتهمْ ضعفاء
میزان الاعتدال میں عبارت حافظ ذہبی نے امام ابوحنیفہ کے پوتے اسماعیل کے بارے میں لکھاہے۔
إسماعيل بن حماد بن النعمان بن ثابت الكوفى. عن أبيه. عن جده. قال ابن عدى: ثلاثتهم ضعفاء. [ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 226]۔
اس کے بعد انہوں نے کچھ ایسے تراجم پیش کئے ہیں جہاں ایک راوی کے ضمن میں دوسرے راوی پر کلام کیاگیاہے اوراس سے دلیل اخذ کی گئی ہے۔
کفایت اللہ یہ دلیل پیش کرکے لکھتے ہیں۔
لہذا اگر جدلا مان لیا جائے کہ امام صاحب کاترجمہ علیحدہ طور پر میزان میں نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کتاب میں دوسرے رواۃ کے ترجمہ کے بضمن موجود ان کی تضعیف سے نظر پوشی کرلی جائے اور بے دھڑک کہہ دیائے کہ اس کتاب میں امام صاحب کا ذکر ہی نہیں ۔
اس شبہ کاجواب یہ ہے کہ
1:حقیقت یہ ہے کہ ابن عدی کی اسماعیل بن حماد کے بارے میں دوطرح کے قول ہوتے ایک میں علیحدہ کلام کیاجاتااوردوسرے میں تینوں کو ساتھ ملاکر اور اس کے بعد حافظ ذہبی اس نقد کو اختیار کرتے جس میں تینوں پر کلام ہے تویہ ایک قوی وجہ ہوتی کہ حافظ ذہبی کے نزدیک بھی تینوں ضعیف ہیں لیکن جب مسئلہ یہ ہے اورصورت حال یہ ہے کہ ابن عدی کا اسماعیل بن حماد کے بارے میں صرف ایک ہی نقد ہے جس میں تینوں شامل ہیں۔ تواسماعیل بن حماد کے ذکر مین ابن عدی کاقول نقل کرتے وقت تینوں کا ذکر نہ کیاجائے توکیاکیاجائے۔
2: اگرمعاملہ ایساہی ہوتاتواس کے برعکس حافظ ذہبی امام ابوحنیفہ کو مستقل ذکر کرتے اوراس کے ضمن میں حماد اوراسماعیل کوضعیف قراردیتے ۔اس کے بجائے اسماعیل کے ذکر میں حماد اورامام ابوحنیفہ کو ضمناذکر کرنابیل کے آگے بنڈی چلاناہے۔
3:اگراسماعیل کے تذکرہ میں ضمنی طورپر امام ابوحنیفہ کانام آجانے سے ضعف ثابت ہوتاہے اوریہ حافظ ذہبی کا قول ہوتاہے توپھرعراقی ،سخاوی اورسیوطی اتنے کم فہم نہ تھے کہ ایسی بات نہ سمجھ سکتے اوربے دھڑک یہ بات کہہ دیتے انہوں نے میزان الاعتدال میں ائمہ متبوعین کاذکر نہیں کیاہے۔
4:یہ بات مشہور عالم ہے کہ حافظ ابن حجرنے لسان المیزان میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں کیا۔اگرمحض اسماعیل کے بارے میں ابن عدی کے قول مین ضمناامام ابوحنیفہ کانام آنے سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کتاب مین ان کا تذکرہ ہے توپھرابن عدی کایہ قول تو لسان المیزان 1/399)میں بھی موجود ہے۔
"إسماعيل" 3 بن حماد بن النعمان بن ثابت الكوفي عن أبيه عن جده قال ابن عدي ثلاثتهم ضعفاء
اوراگراس سے یہی سمجھ میں آتاتوپھر البانی جیسے لوگ امام ابوحنیفہ کی تضعیف پر یہ دلیل نہ ڈھونڈتے کہ حافظ ابن حجر نے تقریب میں صرف فقیہہ مشہور کہاہے۔
ولذلك لم يزد الحافظ ابن حجر في " التقريب " على قوله في ترجمته: فقيه مشهور! .
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ 1/572)
کچھ دیگر کلمات توثیق ذکر نہیں کئے ۔بلکہ وہ دھڑلے سے کہہ رہے ہوتے کہ امام ابوحنیفہ کا تذکرہ لسان المیزان میں اسماعیل کے تذکرہ میں موجود ہے اوریہ بات اس کیلئے کافی ہے کہ وہ حافظ ابن حجر کی نگاہ مین ضعیف ہیں۔
5:مقبل الوادعی نے بھی نشرالصحیفۃ میں ابن عدی کے امام ابوحنیفہ پر جرح کے سلسلہ میں صرف اسی کلام کو نقل کیاہے جہاں ابن عدی نے امام ابوحنیفہ پر ہی کلام کیاہے ۔اوراس مقام سے تعرض تک نہیں کیاجہاں اسماعیل کے ضمن میں امام ابوحنیفہ پر کلام موجود ہے۔
6:اورصرف البانی ہی کیوں ۔تقریباہرغیرمقلد عالم اس قول کی دہائی دے رہاہوتااورکثرت استعمال سے یہ جملہ پامال ہوگیاہوتالیکن خوردبین لے کر ڈھونڈنے سے بھی یہ ملنامشکل ہے کہ کسی عالم نے اسماعیل کے ذکر میں امام ابوحنیفہ کے ضمنی تذکرہ کو دلیل ضعیف بنایاہو۔یہ صرف کفایت اللہ کی اپنی اپج اورذہنی اخترا ع ہے۔دوسری بات جتنے بھی راویوں کا تذکرہ کفایت اللہ صاحب نے کیاہے ان میں اورامام ابوحنیفہ میں بعدالمشرقین ہے۔
7: امام ابوحنیفہ کی شہرت اورجلالت علمی جس کو حافظ ذہبی کہیں الامام الاعظم توکہیں عالم العراق سے یاد کرتے ہیں۔ ان مجہول اورمتروک راویوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتی۔
آپ اگراردو ادب میں ہندوستان کے شاعروں پر کوئی کتاب لکھتے ہیں توکسی خطے کے غیرمعروف اورغیرمعیاری شاعروں کو دوسرے شاعروں کے حالات مین ضمنی طورپر بیان کرسکتے ہیں لیکن میروغالب جیسے شاعروں کوآپ کسی دوسرے کے ضمن میں بیان کردیں اسے کوئی بھی قبول نہیں کرے گا اوراگرکہیں ان کا تذکرہ کسی مناسبت سے کسی دوسرے غیرمعیاری شاعر کے تذکرہ میں آگیاہوگا مثلاوہ اس کاشاگردہو یااسی شہر کارہنے والاہویاکچھ اورتواس کو کوئی بھی اس کی دلیل نہیں بنائے گا میروغالب بھی غیرمعیاری شاعر ہیں کیونکہ فلاں غیرمعیاری شاعر کے تذکرہ میں ضمنی طورپر ان کانام آیاہے۔بالخصوص اس وقت جب کہ آپ نے مستقل طورپر بڑے شعراء کے طورپر ان کا تعارف بھی کرایاہو۔
بعینہ دیکھیں تویہی حالت امام ابوحنیفہ کی ہے۔امام ابوحنیفہ کو حافظ ذہبی
تذکرۃ الحفاظ مین ذکر کرتے ہیں۔
سیر اعلام النبلاء میں ذکر کرتے ہیں
تاریخ الاسلام میں ذکرکرتے ہیں۔
تذہیب التہذیب میں ذکرکرتے ہیں۔ اگرامام ابوحنیفہ ضعیف ہیں توالمغنی میں بھی مستقل تذکرہ کرتے اورمیزان الاعتدال میں بھی مستقل تذکرہ کرتے
8: یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ اگرمحض ضمنی تذکرہ ضعف کیلئے کافی ہوتاتوہمارے مہربانوں کو مستقل ترجمہ الحاق کرنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑتی؟لیکن چونکہ اس سے مطلب حاصل نہیں ہورہاتھالہذا مستقل ترجمہ تخلیق کرکے الحاق کیاگیا۔لیکن جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔اورجلد ہی اسکا کذب ہونابھی واضح ہوگیا۔شاید یہی وجہ ہے کہ البانی نے بھی تضعیف کے موقع پر میزان کاحوالہ نہیں دیابلکہ دیوان الضعفاء والمتروکین کاحوالہ دیاہے۔اگرمیزان میں مستقل ترجمہ کاثبوت البانی کے نزدیک ہوتاتووہ اولامیزان کاہی حوالہ دیتے کیونکہ جتنی مشہور ،متداول اورمصنف سے ثابت یہ کتاب ہے دیوان الضعفاء والمتروکین نہیں ہے۔
میزان الاعتدال میں الحاقی ترجمہ پر ایک بحث
کفایت اللہ صاحب میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کے مستقل ترجمہ پر کئی نکات کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔ہم فردافرداان کاجائزہ لیتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ میزان علم پر یہ کہاں تک ثابت ہوتے ہیں۔
اولا:
بعض نسخوں میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تراجم کی طرح اوربھی بہت سے رواۃ کے تراجم ساقط ہیں توکیا یہ دعوی کردیا جائے کہ ان رواۃ کا ترجمہ بھی الحاقی ہے ؟؟ اب تک کسی نے ایسی بات نہیں کہی ہے پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ ہی کے ساتھ ایسا رویہ کیوں ؟؟؟
ثانیا:
کتابوں میں نسخوں کا اختلاف عام بات ہے اورایک نسخہ کے نقص کو دوسرے نسخہ سے پورا کرنا تحقیق کا اصول ہے خود احناف بھی اس اصول کومانتے ہیں ، جس کی چندمثالیں علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے تحقیق الکلام میں پیش کی ہے اور عبدالحیی لکنوی کے اس دعوی کا رد کیا ہے کہ میزان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ الحاقی ہے، قارئین تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں تحقیق الکلام فی وجوب القراۃ خلاف الامام :ص ١٤٤،١٤٥
کفایت اللہ صاحب کا سوال یہ ہے کہ تراجم کی کتابوں میں عموماایساہوتاہے کہ بعض نام رہ جاتے ہیں بعض نسخوں میں بعض نام زیادہ ہوتے ہیں تواس کو الحاق کی دلیل نہیں بناناچاہئے۔بلکہ اس کو بعض نسخوں کی کمی وزیادتی مانناچاہئے۔
سوال معقول ہے۔
جواب یہ ہے کہ عام روات کے سلسلہ میں یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے۔لیکن ہرراوی کے بارے میں اسی نظریہ کااظہار نہیں کیاجاسکتا۔عام روات کے سلسلہ میں اتنی زیادہ کھوج پڑتال کوئی نہیں کرتا۔ کھوج پڑتال ہوتی ہے توصرف بڑے ناموں کے بارے میں۔
اگرکسی مشہور محدث مثلاامام بخاری یاکسی دوسرے کاضعفاء مین ذکر آئے تومحقق کو اولایقین نہیں آئے گا۔ ثانیاوہ نسخہ کی صداقت کو دیکھے گا۔ثالثا وہ مصنف کی تمام تحریروں کو یکجاکرے گا۔اس کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچے گا۔ جب کہ یہ چیزیں عام روات کے ساتھ نہیں برتی جاتی ۔یہ ایسی محسوس اورمشاہد بات ہے کہ کوئی بھی شخص جس کا تحقیق سے تعلق ہے انکار نہیں کرسکتا۔
اس کی ایک مثال دیکھیں۔
زغل العلم حافظ ذہبی کی کتاب نہیں ہے۔کیوں کہ اس میں ابن تیمیہ کاتذکرہ بصورت ذم موجود ہے؟صرف یہی چیز غیرمقلدین کیلئے کافی ہوجاتی ہے کہ وہ اس کتاب کا ہی انکار کردیں۔
تاریخ الاسلام کی آخری جلد حافظ ذہبی کی نہیں ہے کیوں ؟صرف اس لئے کہ اس میں ابن تیمیہ کاتذکرہ موجود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگرکفایت اللہ صاحب خود اپنے گریبان میں تھوڑی دیر جھانک کر غورکرتے توانہیں اس سوال کا نہایت معقول جواب سمجھ میں آجاتا۔
غیرمقلدین کے مقابل ہم نے بڑاصبروضبط برتاہے کہ پوری کتاب کا انکار نہیں کیابلکہ دلائل کی بنیاد پر اورایسے دلائل جو ناقابل تردید ہیں اس کی بنیاد پر دعویٰ کیاہے کہ امام ابوحنیفہ کا ترجمہ الحاقی اورزائد ہے۔اس کی مزید تفصیل ہم آگے عرض کرنے والے ہیں۔
میزان الاعتدال کے نسخوں پر ایک بحث
ایک مصنف کتاب لکھتاہے تراجم اورروات پر۔
اس کے ایک ترجمہ پر اختلاف ہے کہ آیامصنف نے ہی اس کو لکھاہے یاپھر کسی نے بعد میں داخل کردیاہے۔چونکہ لوگوں کو امام ابوحنیفہ سے خداواسطے کابغض رہاہے اس لئے انہوں نے دوسرے مصنفین پر بھی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاریخ وتراجم کی کتابوں میں یہ موجود ہے کہ صاحب سفرالسعادۃ والقاموس کی جانب بھی لوگوں نے اپنے جی سے ایک کتاب لکھ کر منسوب کردی جس میں امام ابوحنیفہ پر طعن وتعریض موجود تھی جب اس کے بارے میں صاحب سفرالسعادۃ سے پوچھاگیاتوانہوں نے صاف انکار کردیااوراس کے جلانے کا حکم دے دیا۔
اب اسی کتاب کا ایک ایسانسخہ دستیاب ہوتاہے جومصنف کے بالکل آخری دنوں میں اس پر پڑھاگیاہے۔اوراس میں وہ مختلف فیہ نام یاترجمہ موجود نہیں ہے توکیامحض یہ نسخہ ہی اس اختلاف کو ختم نہیں کردیتا۔کہ چلو مان لیاکہ مصنف نے اپنے کسی نسخہ میں یہ ترجمہ لکھاہوگا۔ لیکن آخری نسخہ جومصنف پر پڑھاگیااورپڑھنے والے بھی حافظ حدیث ہیں اس میں وہ ترجمہ موجود نہیں ہے تویہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہوناچاہئے کہ اگرمصنف نے کسی نسخہ میں وہ ترجمہ لکھابھی ہوگاتوبعد میں اس سے رجوع کرلیاہوگا۔
کفایت اللہ صاحب کو چاہئے کہ وہ ایسے تمام نسخے جس میں امام ابوحنیفہ کاتذکرہ موجود ہے کی صحت اورمصنف پر کب پڑھاگیااس تعلق سے تمام معلومات ہمیں اس تھریڈ میں پیش کردیں جیساکہ ہم نے ان نسخوں کے تعلق سے تحقیقی بات پیش کی ہے کہ مصنف پر کب کب پڑھاگیااس سے ہی دودھ کا دودھ اورپانی کاپانی ظاہر ہوجائے گا اورحق وباطل واضح ہوکر سامنے آجائے گا۔
اگران کو اس ترجمہ کو صحیح ماننے پر اصرار ہے تومحض اتناکردیں کہ
قرات جمیع کتاب میزان الاعتدال فی نقدالرجال وماعلی الھوامش من التخاریج والحواشی والملحقات بحسب التحریر والطاقۃ والتؤدۃ علی مصنفہ شیخناالام العلامۃ ۔۔۔الذھبی فسح اللہ فی مدتہ فی مواعید طویلۃ وافق آخرھا یوم الاربعاء العشرین میں شہر رمضان المعظم فی سنۃ سبع واربعین وسبع ماءۃ فی الصدریہ بدمشق ،واجاز جمیع مایرویہ وکتب محمد(بن علی الحنفی)بن عبداللہ۔۔۔۔۔۔
اس تاریخ کے بعد والا کوئی ایسانسخہ میزان الاعتدال کا ہمیں پیش کردیں جومصنف پر پڑھاگیاہواوراس میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ موجود ہو۔اگر وہ یہ سب نہیں کرسکتے توانہیں مان لیناچاہئے کہ میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا مستقل ترجمہ کی بات اولاتوبے بنیاد ہے اورتنازلاًانتہائی مرجوح ہے۔