• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
اس لطیفہ بلکہ کثیفہ کو دیکھ کر ہم محوحیرت ہیں کہ دل کو پیٹیں یاجگر کو روئیں اورکہیں سے سعودی ریال کا انتظام ہوجائے تونوحہ گرکوبھی رکھ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

وقاص

مبتدی
شمولیت
نومبر 06، 2012
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
17
کیا امام ذہبی رحمه الله نے [میزان] میں


امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کو ضعیف قرار دیا ہے؟

تنبیه : میں شروع میں کسی مقام پر عرض کرچکا ہوں کہ امام ذہبی رحمه الله نے امام ابو حنیفه رحمه الله کی "میزان" میں جو تضعیف کی ہے اس کے متعلق میں کسی جگہ پر تحقیق کروں گا ، لہذا آخر میں اس وعدہ کو پورا کرکے جواب ختم کرتا ہوں - "میزان الاعتدال" جلد ثالث کے صفحہ 237 میں امام صاحب کے بارے میں یہ عبارت ہے "النعمان بن ثابت بن زوطی ابو حنیفة الکوفی امام اھل الرای ضعفه النسائی من جهة حفظه وابن عدی و آخرون ورجم له الخطیب فی فصلین من تاریخه و استوفی کلام الفریقین معدلیه و مضعفیه اھ"یہ وہ عبارت ہے کہ جس کی وجہ سے غیر مقلدین زمانہ خصوصآ مؤلف رسالہ[الجرح علی ابی حنیفه] بہت کچھ کود پھاند کرتے ہیں کہ ذہبی نے امام صاحب کو ضعیف کہا ہے اور امام صاحب کی تضعیف "میزان" میں موجود ہے ، لیکن ناظرین جس وقت تحقیق و تنقیح کی جاتی ہے اس وقت حق ، حق اور باطل ، باطل ہوکر رہتا ہے - غور سے ملاحظہ فرمائیں کہ یہ ترجمہ امام صاحب کا "میزان"میں کسی دشمن و معاند نے لاحق کردیا ہے خود امام ذہبی کا نہیں ہے - اس کی دلیل روشن یہ ہے کہ امام ذہبی نے میزان الاعتدال" کے دیباچہ میں تصریح کی ہے کہ میں ائمہ متبوعین کو اس کتاب میں ذکر نہیں کروں گا چناچہ فرماتےہیں "وما کان فی کتاب البخاری وابن عدی و غیرھما من الصحابة فانی اسقطهم لجلالة الصحابة رضی الله عنه ولا اذکرھم فی ھذا المصنف اذا کان الضعف انما جاء من جهة الرواۃ الیهم وکذا لا اذکرھم فی کتابی من الائمة المتبوعین فی الفروع احدا لجلالتهم فی الاسلام وعظمتهم فی النفوس مثل ابی حنیفة و الشافعی و البخاری اھ" [میزان جلد اول ص 3]ترجمہ : کتاب بخاری اور ابن عدی وغیرہ میں جو صحابہ کرام رضی الله عنهم کا بیان ہے میں اپنی اس کتاب میں ان کی جلالت شان کی وجہ سے ذکر نہ کروں گا کیونکہ روایت میں جو ضعف پیدا ہوتا وہ ان کے نیچے کے روات کی وجہ سےنہ صحابہ کرام رضی الله عنهم کی وجہ سے ، لہذا ان کے تراجم ساقط کردیئے - اسی طرح ائمہ کو بھی اس کتاب میں ذکر نہ کروں گا جن کے مسائل فرعیہ اجتہادیہ میں تقلید و اتباع کی جاتی ہے ، جیسے امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام بخاری رحمهم الله علیهم ، کیونکہ یہ حضرات اسلام میں جلیل القدر بڑے مرتبے والے ہیں - ان کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے، لہذا ان کے ذکر سے کچھ فائدہ نہیں ، دوسری دلیل یہ ہے کہ امام ذہبی نےاپنی عادت کے مطابق امام کی کنیت بھی "باب الکنی" میں نہیں ذکر کی

علامہ عراقی نے "شرح الفیۃ الحدیث" میں اور امام جلال الدین سیوطی نے"تدریب الراوی" میں بھی اقرار کرلیا ہے کہ امام ذہبی نے صحابہ کرام رضی الله عنهم اور ائمہ متبوعین کو "میزان" میں ذکر نہیں کیا "الا انه لم یذکر احدا من الصحابة و الائمة المتبوعین اھ" [التعلیق الحسن ص 88 ، اثار السنن] غرض ان جملہ امور سے یہ ثابت ہوا کہ یہ ترجمہ امام ذہبی نے امام صاحب کا نہیں لکھا بلکہ کسی متعصب نے لاحق کردیا ہے ، لہذا اس کا اعتبارنہیں - نیز "میزان" کے صحیح نسخوں میں یہ عبارت موجود ہی نہیں – بعض نسخوں کے حاشیہ پر یہ عبارت پائی جاتی ، اب اس کو متن میں داخل کردیا ہے "قلت ھذہ الترجمة لم توجد فی النسخ الصحیحة من المیزان واماما یوجد علی ھوامش النسخ المطبوعة نقلا عن بعض النسخ المکتوبة فانما ھو الحاق من بعض الناس وقد اعتذر الکاتب و علق علیه ھذہ العبادۃ و لما لم تکن ھذہ الترجمة فی نسخة و کانت فی اخری اوردتھا علی الحاشیة اھ" [التعلیق الحسن جلد اول ص 88] اسی بناء پر کہ یہ ترجمہ الحاقیہ ہے کاتب نے بھی عذر بیان کیا اورحاشیہ پر لکھ دیا کہ بعض نسخوں میں یہ ترجمہ نہیں ہے اور بعض میں ہے اس لئے اس کو میں حاشیہ پر لکھے دیتا ہوں - غرض ان جملہ امور سے یہ ثابت ہےکہ یہ ترجمہ الحاقیہ ہے ، صاحب "میزان" کا نہیں "فهذه العبارات تنادی باعلی صوت ان تزجمة الامام علی مافی بعض النسخ الحاقية جدا اھ" [التعلیق الحسن ص 88]

پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمه الله ثقہ ، عادل ، ضابطہ ،متقن ، حافظ حدیث ، متقی ، ورع ، امام ، مجتہد ، زاہد ، تابعی ، عالم ، متعبد ہیں - ان کے زمانہ میں ان کے برابر کا عالم ، عامل ، فقیہ ، عبادت گزار کوئی دوسرا نہ تھا ، کوئی جرح مفسر نقادان رجال سے ان کے حق میں ثابت نہیں - ابن عدی ، دارقطنی وغیرہ متعصبین کی جرح مع مبہم ہونے کے مقبول نہیں - دشمنوں اور حاسدوں کے اقوال کا اعتبار نہیں ، جو اوراق گزشتہ میں مفصل معلوم ہورہا ہے اور ہوتا رہیں گا - والحمد لله اولا وآخرا و الصلوۃ والسلام علی رسوله محمد و اله و صحبه و اتباعه دائما ابدا

کشف الغمة بسراج الامة - ترجمہ [امام اعظم ابو حنیفہ رحمه الله اورمتعرضین] صفحہ نمبر 108 تا 109

تالیف :: فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی سید مھدی حسن صاحب شاہ جہانپوری رحمه الله

سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند

----------------------------------------------------------
امام ذهبی اور قبور اولیاء سے تبرک ؟؟؟
هند وپاک کے نام نهاد اهل حدیث جماعت کا علمی حدود اربعہ صرف اردو زبان کی کتابوں تک محدودهے، اور امت مسلمہ کا علمی ذخیره عربی زبان میں هے اور یہ لوگ سلف کے اس علمی ذخیرے سے با لکل نابلد هیں اس لیے یہ لوگ عربی زبان کے مشہور مقولہ ،، اَلنّاسُ اَعداءُ لّماَ جَهِلواُ ،، یعنی لوگ جس چیز سے جاهل هوتے هیں اس کے دشمن هوتے هیں ، کے پورے مصداق هیں ۰

مثال کے طور پر یہ لوگ علماء دیوبند کی اردو کتب سے کوئ بات لے کر اس پر شرک وبدعت کا حکم لگا دیتے هیں ، اور اپنے زعم میں بڑے خوش هوتے هیں کہ هم نے بڑا کما ل کردیا اور علماء دیوبند کا شرک ثابت کر دیا ، اس ضمن میں اِن کا ایک مشهور وسوسہ یہ هے کہ علماء دیوبند صالحین کے قبور سے فیض وتبرک کے قائل هیں اور یہ شرک هے ؟

اس بارے میں عالم اسلام کے ایک معروف و مستند امام کا ایک حوالہ ذکر کروں گا اور اس کا جواب اهل حدیث حضرات کے ذمہ چہوڑتا هوں ؟؟؟

اور وه امام هیں ابو عبد الله شمس الدین الذهبی رح چهٹی اور ساتویں صدی هجری کے بزرگ هیں ، علم حدیث اور علم جرح وتعدیل کے مستند امام اور معتبر مورخ اسلام هیں ،حا فظ ابن کثیر اپنی کتاب ، البدایہ ، میں فرماتے هیں کہ شیوخ حدیث اور حفاظ حدیث کا اما م ذهبی کے اوپر خا تمہ هو گیا ۰ اور علامہ سیوطی ، تذکره الحفاظ ، کے ذیل میں لکهتے هیں کہ اب تمام محدثین چار4 آدمیوں کے عیال هیں یعنی اتباع کرتے هیں اور وه چار یہ هیں ، حا فظ المِزّی ، حافظ ذهبی ، حافظ العراقی ، حافظ ابن حجر .

اور امام ذهبی نے امت اسلامیہ کے لیئے ایک گراں قدر علمی ذخیره چهوڑا هے جس سے نہ طا لب مستغنی هو سکتا هے اور نہ عا لم۰

یہ تو امام ذهبی کا مختصر سا تعا رف تها اب میں ان کی اصل بات نقل کرتا هوں ،
امام ذهبی رح اپنی کتا ب ، سیر اعلام النبلاء ،ج 9 ص 344 ، پر فرماتے هیں
وعن ابراهیم الحربی ، قال ۰ قبر معروف ( الکرخی ) التریاق المجرب ۰
یعنی ابراهیم حربی فرما تے هیں کہ مشهور صوفی بزرگ معروف کرخی کی قبر مجرب تریاق هے ؟؟؟

آگے امام ذهبی اس با ت کی تا ئید کرتے هوئے فرما تے هیں

(يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ، كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اتَّفَقَ، اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي).

یعنی امام حربی کی مراد یہ هے کہ معروف کرخی کی قبر کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول هوتی هے ،کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول هوتی هے ،جیسا کہ سحری کے وقت ،اور فرض نمازوں کے بعد ،اور مساجد میں ،بلکہ مضطر آدمی کی دعا هر جگہ قبول هو تی هے الخ

امام ابراهیم حربی نے معروف کرخی کی قبر کو مکا ن مبارک سمجها اور اسی بات کو امام ذهبی نے ثابت کها اور ان کی تائید کی ۰

کیا ان دونوں اماموں کا یہ قول توحید وسنت کے منافی هے ؟؟؟

باقی امام ابراهیم الحربی کون هیں ؟ تو یہ اما م ذهبی کی زبا نی سنیئے ، (هُوَ: الشَّيْخُ، الإِمَامُ، الحَافِظُ، العَلاَّمَةُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ إِسْحَاقَ بنِ إِبْرَاهِيْمَ بنِ بَشِيْرٍ البَغْدَادِيُّ، الحَرْبِيُّ، صَاحِبُ التَّصَانِيْفِ). سير أعلام النبلاء ۰۰

اور ابراهیم الحربی کی یہ با ت خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں ،اور قاضی عیاض مالکی نے اپنی کتا ب ،ترتیب المدارک ، میں بهی نقل کی اور فرما یا ، وكان ملازماً للسنّة، نافراً من البدعة ، یعنی سنت پر عمل کرنے والے اور بدعت سے نفرت کرنے وا لے تهے ،قاضی عیاض فرماتے هیں کہ ابراهیم حربی نے یہ وصیت کی تهی ، وادفنّي عند قبر معروف، فإنها بُقعة مباركة). یعنی مجهے معروف کرخی کی قبر کے پا س دفن کیا جائے کیونکہ وه ایک مبا رک جگہ هے ؟؟؟

یه میں نے ایک حوالہ ذکر کیا هے مزید تفصیل کیلیئے دیکهیئے اما م ذهبی کی ، سیر اعلام النبلاء ، اور تذکرہ الحفاظ ،

ویسے اس با ت کا مشهور جواب تو نام نهاد اهل حدیث جما عت کا یہ هو گا کہ هم امام ذهبی وغیره کے مقلد نهیں هیں ، هم کتاب وسنت کو ماننے والے هیں ، لیکن علما ء دیوبند کی کتب میں اس طرح کی با ت دیکهہ کر فورا شرک وبدعت کا حکم لگا دیتے هیں ، وهی بات اما م ذهبی یا دیگر آئمہ کهیں تو صرف یہ جواب کہ هم ان کے مقلد نهیں ، چہ معنی دارد ؟؟؟

-------------------------------------------------------

صوفیہ کرام کے یهاں یہ طریقہ هے کہ سلسلہ تصوف میں داخل هونے والے آدمی کو ایک خاص قسم کا ، جُبّہ ، پہناتے جس کو ، خِرقَہ صوفیہ یا خِرقہ تصوف کہتے هیں ، عالم اسلام کے مستند عالم، محدثین کے امام ، علم جرح وتعدیل میں امت مسلمہ کا مرجع ، تاریخ اسلام کے معتمد عالم ، حافظ شمس الدین الذهبی رح فرماتے هیں کہ ، مجهے همارے شیخ محدث زاهد ضیاء الدین عیسی بن یحیی الانصاری نے قاهره میں ،خرقہ تصوف ، پہنایا ، اور انهوں نے فرمایا کہ مجهے یہ ،خرقہ تصوف ، شیخ شهاب الدین سُہَروَردِی نے مکہ مکرمہ میں اپنے چچا ابو نجیب کی طرف سے پہنا یا تها الخ ( دیکهیئے امام ذهبی کی کتاب سیر اعلام النبلاء ج 22 ص 377 )

تصوف کو شرک اور صوفیہ کرام کے تمام سلاسل اور طرق کو بدعت وگمراهی کهنے والے کس منہ سے امام ذهبی رح کا نام لیں گے یا ان کی کتابوں سے استفاده کریں گے ؟ کیونکہ امام ذهبی رح عملی طور پر تصوف کے سلسلہ میں داخل هوئے اور خود اس کا اعلان کیا ، کیا اس بدعت کے ارتکاب کے بعد بهی امام ذهبی رح کی کوئ بات قابل قبول هو سکتی هے ؟ کیا توحید وسنت کا کوئ علمبردار هے جو امام ذهبی رح کی اس بدعت سے لوگوں کو خبردار کرے ؟
کیا تصوف صرف علماء دیوبند کے پاس شرک وبدعت هے وهی تصوف ابن تیمیہ ابن القیم اور ذهبی وغیرهم علماء کے پاس توحید وسنت بن جاتاهے؟
اصل بات اور حقیقت یہ هے کہ نام نهاد اهل حدیث فرقہ کی پوری تحریک کا خلاصہ دو چیزیں هیں ، 1 ایک مخصوص مسلک کی مخالفت اور وه مسلک حقہ علماء دیوبند کا هے ، 2 ایک مخصوص مذهب کی مخالفت اور وه مذهب حنفیہ هے ۰ عوام الناس کو قرآن وسنت کا نام لے کر بلایا جاتا هے اور پهر ان کو یہی دو باتیں سکهائ جاتی هیں ۰ هدانا الله وایاهم الی السواء السبیل
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اس وضاحت کے بعد کہ محدثین کی امام ابوحنیفہ پر جرح کی کیاکیانوعیت اورحیثیت ہے۔اس کے تذکرہ کی کیازیادہ ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کثرت طاعنین وجارحین کو بنیاد بنایاجائے ۔ویسے بھی تھریڈ کاموضوع حافظ ذہبی کانقطہ نظر ہے کہ نہ دیگرمحدثین کی بات ۔
کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں۔
یہ کل دس محدثین کے حوالہ پیش خدمت یہ تمام کے تمام امام صاحب سے کثرت حدیث دانی کی نفی کررہے ہیں اس فہرست میں ام ابن معین بھی ہیں جو جمشید صاحب کے بقول حنفی ہیں انہوں نے بھی صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ’’لم يكن في الحديث بشيء ‘‘ اب ایک حنفی محدث اور وہ بھی عظیم الشان محدث کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کیا دشمنی تھی کہ انہوں نے صاف لفظوں میں امام صاحب سے حدیث دانی میں مہارت کی نفی کردی !!!
یہ دس حوالے جیسے تھے قارئین نے ان کی حیثیت ملاحظہ کرلی۔کہ کچھ حوالہ جات ایسے ہیں جہاں دور دور تک قلت حدیث وروایت کا مفہوم نہیں ہےلیکن کفایت اللہ صاحب نے خود ساختہ مفہوم پیداکیاہے۔کچھ حوالہ جواب میں قلیل الروایہ کالفظ موجود ہے لیکن روایت اورنفس علم الگ الگ شے ہیں۔ دونوں ایک نہیں۔ علم حدیث کی اصطلاح میں اس کو تحمل اوراداء سے بھی تعبیرکیاجاتاہے۔امام ابوحنیفہ اداء کے لحاظ سے قلیل الروایہ ہیں تواس سے تحمل کے لحاظ سے کثیرالروایۃ ہونے کی نفی کیسے ہوجاتی ہے۔

جمشیدصاحب نے امام صاحب کو قلیل الحدیث کہنے والوں کےحق میں جو سخت زبان استعمال کی ہے کیا اس کی زد میں یہ اجلہ محدثین نہیں آتے ؟؟؟ پھر یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ امام صاحب کوقلیل الحدیث مان لینے میں کیا ان کی توہیں ہے؟؟؟ اس سے قبل والے مراسلے میں قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بہت سارے محدثین کو قلیل الحدیث بھی کہا ہے مگر ان کی جلالت شان اور ان کی عظمت و منقبت کو تسلیم بھی کیا ہے ، لہٰذا امام صاحب کو قلیل الحدیث مان لینے سے امام صاحب کی شان میں کوئی گستاخی نہیں ہے۔
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہین اورہاتھ میں تلوار بھی نہیں

حقیقت یہ ہے کہ خود محدثین میں سے بعض نے جس طرح اورجیسی زبان امام ابوحنیفہ کے حق میں استعمال کی ہے۔ اس سے میری یہ سخت کلامی لاکھ درجے بہتر ہے۔غیرمقلد امام ابوحنیفہ کے حق میں جس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ اس سے میری یہ بات بہت بہترشائستہ اورمہذبانہ ہے؟خودکفایت اللہ صاحب نے ابن تیمیہ والے تھریڈ میں جس طرح یہ گلفشانی کی ہے

اجلہ محدثین کے بالقابل آج کے نام نہاد مصلحین وشرفاء کی باتیں ہماری نظر میں جانوروں کی نجس وپلید لید سے بھی بدترہیں جس طرح اجلہ محدثین کے نظرمیں ابوحنیفہ کے اقوال جانوروں کی گندگی کے مانند نجس و خبیث ہیں ۔
اوراس کی زد میں جس طرح قدیم وجدید تمام علماء کو معرض طعن وتنقید بنایاگیاہے جس کی کچھ مثال یہاں ملاحظہ ہوں
http://www.kitabosunnat.com/forum/مکالمہ-197/کیا-شیخ-الاسلام-ابن-تیمہ-رحمہ-اللہ-کے-مزاج-میں-شدت-تھی-9011/index10.html#post59913
کیاہماری سخت کلامی کفایت اللہ صاحب کی مذکورہ تلخ کلامی سے بھی زیادہ قابل نقد ہے؟اگرانصاف اورایمان سے غیرمقلدین کی اپنی سخت کلامی اورتلخ زبانی کی روشنی میں جائزہ لیاجائے تومیری بات بہت سہل اورقابل برداشت ہوگی؟کفایت اللہ صاحب ذرا اپنے دستخط کے اشعار ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں شاید افاقہ ہو۔
۔
اگر آپ یہ کہیں امام صاحب ایک بڑے امام تھے ، فقیہ تھے ، نیک تھے ، بزرگ تھے ، دین کی خدمت میں ان کی نیت مخلصانہ تھی ، انہوں نے دین کی خدمت میں اپنی پوری زندگی صرف کردی وغیر وغیرہ تو یقینا مجھے ان باتوں سے اختلاف نہیں ہوگا۔
آپ کے ساتھ مسئلہ یہی ہے کہ آپ کسی موقف پر قائم نہیں رہتے۔کسی صاحب کی تحریر پڑھی تھی کہ کچھ لوگ اپناقول یوں بدلتے ہین جیسے کہ وہ لباس بدل رہے ہوں اورکفایت اللہ صاحب تھریڈ بدلنے کے ساتھ اپنانقطہ نظر اورزاویہ فکر بھی بدل دیتے ہیں اورکبھی کبھی تو تھریڈ تک بدلنے کی زحمت محسوس نہیں کرتی اورایک ہی تھریڈ میں صنعت تضاد کاگل کھلانے لگتے ہیں۔یہ ان کے استاد محترم زبیر علی زئی کااثرلگتاہے وہ بھی کہیں صحت سند پر زوردیتے ہیں اورکہیں چوردروازہ تلاش کرلیتے ہیں۔

لیکن میدان حدیث میں ان کا مقام کیا ہے ؟ اس سلسلے میں اسی میدان کے جلیل القدر محدثین نے جو گواہیاں دی ہیں ہم ان کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتے ۔
میدان حدیث میں ان کے علمی فقہی مقام ومرتبہ کوجاننے کیلئے اگروسعت چشم وقلب سے کام لیاجائے تو کوئی مشکل نہیں لیکن جب دل میں ایک نقطہ نظرطے کرلیاجائے توپھرمشکلات کی عظیم خلیج حائل ہوجاتی ہے۔محدثین کی گواہیوں کااگرانسان ٹھنڈے دل کے ساتھ جائزہ لے اوریہ طے کرنے بیٹھے کہ اس میں کتنی گواہیاں اہل والرائے واہل الحدیث کے معرکہ کارزار سے متاثر ہیں تواس کو صحیح نتیجے تک پہنچنے میں دیرنہیں ہوگی ۔لیکن اگرکسی نے طے کرلیاہے کہ فلاں گروپ نے جوکچھ کہاہے وہ حق وصداقت کاآخری معیار ہے توپھرساری بحث یہیں ختم ہوجاتی ہے؟جلیل القدر محدثین سے دونوں طرح کی باتیں منقول ہیں صرف ایک طرفہ بات منقول نہیں ہے۔لہذا دونوں کو قلب ونظرمیں جگہ دینی چاہئے۔

مناقب ابی حنیفہ کی عبارت کادرست مفہوم

حقیقت یہ ہے کہ کچھ چیزیں اگرچہ ہوتی سیدھی سادھی ہوتی ہیں لیکن اپنے نظریات کو منطبق کرنے کیلئے جب کھینچ تان کی جاتی ہے تو سیدھی سادھی عبارتیں بھی فلسفیانہ پیچیدگیوں کو مات دینے لگتی ہیں اوراس کے باوجود بھی جب بات نہیں ہے توادھر ادھرکی ازکار رفتہ تاویلات سے جہاں معنی کو آباد کیاجاتاہے۔حالانکہ اگرفکرونظرمیں تھوڑی سے غیرجانبداری کو جگہ دی جائے تومعاملہ لاینحل نہیں رہتابلکہ آسانی سے سلجھ جاتاہے۔
حافظ ذہبی کی عبارت ایک مرتبہ پڑھ قارئین ملاحظہ کرلیں۔

فصل في الاحتجاج بحديثه
اختلفوا في حديثه على قولين، فمنهم من قبله ورآه حجة، ومنهم من لينه لكثرة غلطه في الحديث ليس إلا.
قال علي بن المديني: قيل ليحيى بن سعيد القطان: كيف كان حديث أبي حنيفة؟ قال: " لم يكن بصاحب حديث۔
قلت: لم يصرف الإمام همته لضبط الألفاظ والإسناد، وإنما كانت همته القرآن والفقه، وكذلك حال كل من أقبل على فن، فإنه يقصر عن غيره , من ثم لينوا حديث جماعة من أئمة القراء كحفص، وقالون وحديث جماعة من الفقهاء كابن أبي ليلى، وعثمان البتي، وحديث جماعة من الزهاد كفرقد السنجي، وشقيق البلخي، وحديث جماعة من النحاة، وما ذاك لضعف في عدالة الرجل، بل لقلة إتقانه للحديث، ثم هو أنبل من أن يكذب "۔
وقال ابن معين فيما رواه عنه صالح بن محمد جزرة وغيره: أبو حنيفة ثقة،
وقال أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز، عن يحيى بن معين لا بأس به
وقال أبو داود السجستاني: «رحم الله مالكا كان إماما، رحم الله أبا حنيفة كان إماما»
کفایت اللہ صاحب کامانناہے کہ اس عبارت میں حافظ ذہبی نے امام ابوحنیفہ پر جرح کی ہے۔اس کی کئی وجہیں انہوں نے بیان کی ہیں۔
1:حافظ ذہبی نے اس قول سے اختلاف نہیں کیاجب کہ ان کی عادت ایسے مواقع پر اختلاف کرنے کی ہے۔
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں
اس کے بعد امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس دوسرے قول کی تردید بالکل نہیں کی ہے جب کہ امام ذہبی کا معمول ہے کہ ایسے مواقع پر غیر درست جروح کو رد کردیتے ہیں ،
ایک مثال ملاحظہ ہو:
إبراهيم بن خالد أبو ثور الكلبى.أحد الفقهاء الاعلام.وثقه النسائي والناس.
وأما أبو حاتم فتعنت، وقال: يتكلم بالرأى فيخطئ ويصيب، ليس محله محل المسمعين في الحديث.
فهذا غلو من أبى حاتم، سامحه الله.
[ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 29]۔

لیکن یہاں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کے قول سے ہرگز اختلاف نہیں کیا ہے بلک اس کی تائید کرتے ہوئے اس کی وجہ بھی بتادی ہے کہ امام صاحب کی توجہ اس جانب تھی ہی نہیں جس کے سبب وہ حدیث میں مضبوطی لانے سے قاصر تھے پھر اس قسم کے اور لوگوں کی مثالیں دی ہیں جو حدیث کی طرف مکمل توجہ نہ دینے کے سبب لین الحدیث ہوگئے، اس سے صاف ظاہر ہے امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک امام ابوحنیفہ لین الحدیث و ضعیف الحدیث تھے۔
کفایت اللہ صاحب کے الفاظ میں ہی سوال ہے کہ کیایہ کوئی قاعدہ کلیہ ہے کہ وہ ایسے مواقع پر اپنانقطہ نظرواضح کرہی دیاکرتے ہیں یاخاموشی سے گزرجاتے ہیں۔اب غیرمقلدین میں سے بیشترحضرات کاخیال یہ ہے کہ مستدرک علی الصحیحین للحاکم میں حافظ ذہبی کا سکوت کرنارضامندی کی علامت نہیں ہے؟خوداسی کتاب میں کئی ایسے مواقع ہیں جہاں حافظ ذہبی نے تردیدی باتیں ذکر نہیں کی ہیں۔ بقول آنجناب کہ کذابین سے روایت نقل کی ہے۔توکیاحافظ ذہبی نے ان روات سے روایت نقل کرکے اپنانقطہ نظرواضح کیا؟

آپ نے چونکہ ایک مثال دینے کی زحمت گوارافرمائی ہے لہذا ایک مثال ہماری جانب سے بھی قبول کریں۔ اسی کتاب میں امام ابویوسف کے ترجمہ میں احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں۔
سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: «كَانَ أَبُو يُوسُفَ مُنْصِفًا فِي الْحَدِيثِ، فَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، فَكَانَا مُخَالِفَيْنِ لِلأَثَرِ»
(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ ص93)
اب سوال یہ ہے کہ کیاامام ابوحنیفہ اورامام محمد حافظ ذہبی کے نزدیک مخالفین اثر ہیں ؟اس کا جواب نفی میں ہونے کے باوجود دیکھئے انہوں نے کوئی تردید نہیں کی۔

امام ابویوسف حافظ ذہبی کے نزدیک ثقہ راوی ہیں۔ باوجود اس کے انہوں نے امام ابویوسف کے ترجمہ میں ان کی تضعیف کنندگان کی تردید نقل نہیں کی۔
ویسے مثالیں ڈھونڈنے سے بہت ساری مل جائیں گی لیکن ہم اتنے پر ہی اکتفاء کرتے ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اقوال کی استنادی حیثیت پر بحث موضوع سے خارج

کفایت اللہ صاحب نے آگےچل کر ابن معین کے اقوال پر استنادی لحاظ سے بحث کی ہے۔اگرچہ اس پر ہم بھی بحث کرسکتے ہین اوربتاسکتے ہیں کہ ابن محرز کے اقوال کو تمام ائمہ جرح وتعدیل نے قبول کیاہے اوراس سلسلے میں ابن محرز پر کوئی جرح نہیں کی ہے اوریہی ابن محرز کی سب سے بڑی توثیق ہے۔ اگرابن محرز کے نقل کردہ اقوال ناقابل قبول ہوتے توکسی ایک کوتوکسی ایک جگہ اس کی تصریح کرنی چاہئے تھی۔لیکن بعد کے تمام جرح وتعدیل پر لکھنے والوں نے ابن محرز کے اقوال کو برضاروغبت قبول کیاہےا ورنقل کیاہے اس سے زیادہ اورکیاچاہئے۔

اسی طرح صالح الجزرہ پربھی بحث کی جاسکتی ہے کہ حافظ مزی نے اس کوجزم کے صیغہ کے ساتھ نقل کیاہے اورحافظ مزی مقدمہ میں کہہ چکے ہیں کہ جس کی سند درست ہوگی اس کو میں جزم کے صیغہ کے ساتھ نقل کروں گا۔اب وہ سند ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن مزی کے ساتھ ضرورتھی ۔
لیکن اس سب سے گریز کرناصرف اس لئے مقصود ہے کہ بحث کا موضوع حافظ ذہبی کی نگاہ میں ہے ۔اورحافظ ذہبی نے جن اقوال کو جزم کے ساتھ نقل کیاہے ہم بھی انہیں جزم اورثقاہت کے ساتھ ہی تسلیم کریں گے۔کیونکہ یہ موضوع کا تقاضہ ہے۔
کفایت اللہ صاحب کی پہلی تاویل یہ ہے کہ ابن معین کی توثیق توثیق اصطلاحی نہیں ہےاوراس سلسلے میں انہوں نے کچھ نقول پیش کئے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگاکہ جب ابن تیمیہ والے تھریڈ میں ناچیز نے حافظ ابن حجر کا حوالہ دیاتھاتوکفایت اللہ صاحب کاکہناتھا
جمشید صاحب کے اس جملے سے لگتاہے کہ موصوف نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو جومتشدد بتلایا ہے ، وہ ان کا اپنا اجتہاد ہے جو ان کے مطالعہ کا نتیجہ ہے ، بلکہ دوسری جگہ پر جمشید صاحب نے اس کی صراحت بھی کردی ہے لکھتے ہیں:لیکن بعض قرائن کی بنا پر ہمیں اس پر یقین کرنے میں تامل ہورہا ہے ، اور اس کے برعکس ہمیں یہی لگ رہا ہے کہ آن جناب کی مذکورہ رائے ان کے اجتہاد اور مطالعہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس سلسلےمیں موصوف اپنے اسلاف کی تقلید کررہے ہیں۔
کہتے ہیں چاہ کن راچاہ درپیش ۔
جس طورپر انہوں نے مجھے سابق میں کہاتھابعینہ ویسے ہی کہاجاسکتاہے
کفایت اللہ صاحب کے اس جملہ سے لگتاہے کہ موصوف نے توثیق اصطلاحی کا نہ ہوناجوبیان کیاہے وہ ان کااپنااجتہاد ہے اس کی وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ انہوں نے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا۔لیکن اس کے ماننے میں ہمیں سخت تامل ہے اورہمیں دلائل کی بنیاد پر یہی لگتاہے کہ یہ توثیق اصطلاحی کے نہ ہونے کی بات ان کی اپنی اپچ نہیں بلکہ دوسرے کی بوئی ہوئی فصل کاٹنے کی کوشش ہے اوروہ اس سلسلے میں البانی اورمقبل الوادعی جیسوں کی تقلید کررہے ہیں۔
البانی کاحوالہ
والحقيقة أن رأى ابن معين كان مضطربا في الإمام، فهو تارة يوثقه، وتارة يضعفه كما في هذا النقل، وتارة يقول فيما يرويه ابن محرز عنه في " معرفة الرجال " (1 / 6 / 1) : كان أبو حنيفة لا بأس به، وكان لا يكذب، وقال مرة أخرى: أبو حنيفة عندنا من أهل الصدق، ولم يتهم بالكذب.ومما لا شك فيه عندنا أن أبا حنيفة من أهل الصدق، ولكن ذلك لا يكفي ليحتج بحديثه حتى ينضم إليه الضبط والحفظ، وذلك مما لم يثبت في حقه رحمه الله
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ 1/665)
مقبل الوادعی کاحوالہ
فهذا أبو زكرياء يحيى بن معين إمام الجرح والتعديل صح عنه توثيقه وصح عنه الطعن فيه، والذي يظهر لي أنه يفسر كلامه بكلامه، فقد سئل عنه فقال: هو أنبل من أن يكذب، وقد جرحه كما سيأتي في ترجمته بالسند الصحيح، فجرحه له من أجل رأيه وتخليطه في الحديث، وتوثيقه من أجل أنه لا يكذب.
(نشرالصحیفۃ ص4)
لیکن ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمیں کسی پر رد اس اعتبار سے نہیں کرناہے کہ فلاں نے یہ بات کہی ہے یافلاں نے۔ ہمیں توبات اورکلام کو دیکھناہے صحیح ہے توقبول کرناہے اورغلط ہے تورد کرناہے چاہے بات کفایت اللہ صاحب کی ہو یاپھر البانی اورمقبل الوادعی کی۔

کفایت اللہ البانی اورمقبل الوادعی اس سلسلے میں متفق ہیں کہ یہاں توثیق اصطلاحی مراد نہیں ہے بلکہ توثیق لغوی اورصلاح وصدق مراد ہے۔

کفایت اللہ کا موقف ان دونوں سے ان معنوں میں مختلف ہے کہ وہ دونوں ابن معین کی امام ابوحنیفہ کے سلسلے میں توثیق کو ثابت شدہ مانتے ہیں۔

پھر البانی توامام صاحب کو ضعیف فی الحدیث مان کر فقہ میں اونچے درجہ کا فقیہہ مانتے ہیں جب کہ مقبل الوادعی امام صاحب کی مدح وثناء کو ہدم السنۃ سے تعبیر کرتے ہیں اوراسی سے قریب ترموقف کفایت اللہ کابھی ہے لیکن بے چارے کھل کر اظہار نہیں کرپاتے شاید گھبرارہے ہوں۔

پھرمقبل الوادعی اورالبانی کاکلام تومطلق ہے اورکفایت اللہ صاحب کاکلام مناقب ابی حنیفۃ کی عبارت کے تناظر اورسیاق میں ہے دیکھنایہ ہے کہ وہ سیاق وسباق کی حد میں کہاں تک درست ثابت ہوتاہے۔

کفایت اللہ کی تاویل اوراس کی غلطی

کفایت اللہ صاحب ابن معین کی توثیق کے سلسلے میں یہ تاویل کرتے ہیں
یہاں کا سیاق دیکھ لیں تو وہ بھی اسی بات پر دلالت کرتاہے چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف کرنے کے بعد توثیق کی جوبات نقل کی ہے اس کی شروعات ان لفظوں سے ہوتی ہے :
ثم هو أنبل من أن يكذب۔۔۔
یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جھوٹ بولنے سے پاک ہیں ۔پھر اس کے بعد فورا ابن معین سے توثیق نقل کی ہے اس سیاق سے صاف ظاہر ہے کہ مابعد کی عبارت میں امام صاحب کی جو توثیق منقول ہے وہ توثیق غیر اصطلاحی ہے
اس سے آگے بڑھ کر وہ لکھتے ہیں
امام ذہبی رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے بعض مقامات پر یہ صراحت کررکھی ہے کہ ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا ، ذیل میں امام ذہبی کی یہ صراحت ملاحظہ ہو:
امام حاکم رحمہ اللہ نے ایک راوی ’’ خارجة بن مصعب الخراسانی‘‘ کی توثیق کی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ وضاحت کیا کہ اس توثیق سے مراد یہ ہے کہ اس راوی سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
وَقَالَ الحَاكِمُ: هُوَ فِي نَفْسِهِ ثِقَةٌ -يَعْنِي: مَا هُوَ بِمُتَّهَمٍ-.[سير أعلام النبلاء 7/ 327]۔

معلوم ہوا کہ بعض ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا اور امام ابن معین رحمہ اللہ کی توثیق ابی حنیفہ بشرط ثابت اسی معنی میں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ خود امام ابن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف فی الحدیث قرار دے رکھا ہے جیساکے حوالے پیش کئے جاچکے ہیں۔
کفایت اللہ صاحب کی ساری عرض ومعروضات کاخلاصہ یہ ہے کہ ابن معین کی توثیق توثیق اصطلاحی نہیں ہے بلکہ توثیق عرفی اورلغوی ہے یعنی کسی شخص کے صالح اورسچے ہونے کی بناء پر اس کو ثقہ کہہ دیااگرچہ وہ ضبط واتقان کی صفت سے متصف نہ ہو۔
اب ذراہم بھی سیاق کلام کاجائزہ لے لیتے ہیں کہ اس سے کیامراد ہوسکتاہے؟
حافظ ذہبی ابتداء میں کہتے ہیں
فصل في الاحتجاج بحديثه اختلفوا في حديثه على قولين:
فمنهم :
من قبله ورآه حجة۔
ومنهم :
من لينه لكثرة غلطه في الحديث ليس إلا۔

ام ابوابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث سے احتجاج کا بیان ، آپ کی حدیث سے احتجاج کے سلسلے میں محدثین کے دو قول ہیں:
پہلا قول:
ابوحنیفہ
مقبول اور حجت
ہیں۔
دوسراقول:
ابوحنیفہ لین الحدیث ہیں کیونکہ حدیث میں یہ بکثرت غلطی کرتے تھے صرف اسی وجہ سے۔
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امام یحیی بن سعیدالقطان سے پوچھا گیا کہ ابوحنیفہ کی حدیث کسی ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا :ابوحنیفہ حدیث والے نہ تھے ۔

اب یہ توواضح ہے کہ انہوں نے اولاان کاقول بیان کیاجنہوں نے امام ابوحنیفہ کو لین قراردیاہے۔اوراس سلسلے میں علی بن مدینی سے یحیی بن سعید القطان کا قول نقل کیاہے۔
اس کے بعد انہوں نے ان کا قول بیان کیاہے جنہوں نے ان کی حدیث کو قبول کیاہے اورروایت حدیث کے سلسلے میں ان کو حجت تسلیم کیاہے۔
واضح رہے کا حجت ثقہ سے بھی زیادہ متقن افراد کیلئے استعمال کیاجاتاہے۔
حافظ سخاوی شرح الالفیہ میں تحریر کرتے ہیں
وَالْحجّة اقوى من الثِّقَة
(الرفع والتکمیل 155)
اس کے بعد اس سلسلے میں کہ جن لوگوں نے ان کی مرویات کو قبول اوران کو روایت حدیث میں حجت تسلیم کیاہے۔ ابن معین کا قول نقل کرتے ہیں
وقال ابن معين فيما رواه عنه صالح بن محمد جزرة وغيره: أبو حنيفة ثقة،
وقال أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز، عن يحيى بن معين لا بأس به


توکیااتنی صاف اورواضح عبارت کے باوجود بھی ابن معین کی امام ابوحنیفہ کی توثیق کو توثیق غیراصطلاحی سمجھناچاہئے ؟
اپھر حافظ ذہبی نے بذات خود جوبات کہی ہے کہ محدثین کا ایک گروہ ان کی حدیث کو قبول کرتاہے اورروایت حدیث میں ان کوحجت سمجھتاہے اس لحاظ سے اس توثیق کواسی توثیق کے معنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے جوعمومی طورپر رائج ہے۔
اگریہ سامنے کی بات کفایت اللہ صاحب اپنی نگاہوں میں رکھتے تو اتنی دور بھٹکنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ توثیق سے کون سی توثیق مراد ہے۔انہوں نے خواہ مخواہ زحمت کی۔گزارش یہ ہے کہ کسی عبارت پر ہی کماحقہ غورفرمالیاکریں توبہت ساری زحمت اورریفرنس وحوالوں کی کثرت کی محنت سے بچ جائیں گے۔کیونکہ اگرنفس عبارت سے مسئلہ حل ہورہاہوتوپھر کیاضرورت ہے کہ ہم اپنی بات کو اقوال کی کثرت سےگرانبارکریں۔
حافظ ذہبی کایہ کہنا
فمنهم :
من قبله ورآه حجة

اوراس ضمن میں ابن معین کا قول پیش کرناکفایت اللہ صاحب کی اس سلسلے میں کی گئی تمام تاویلات کو پادرہواکردیتاہے ثقاہت سے فلاں بات مراد ہے اورصدوق سے فلاں چیز مراد ہے۔

میراخیال ہے کہ اس وضاحت سے آئینہ کی طرح یہ بات صاف ہوگئی ہےکہ ابن معین کی جوتوثیق ذہبی نےنقل کی ہے۔اس سے کون سی توثیق مراد ہے۔توثیق اصطلاحی یاغیراصطلاحی۔

اگرچہ ہمارے لئے یہ اس پر بحث کرنے کا بہت موقع ہے کہ ابن محرز کی روایت عن ابن معین جس کوتمام ائمہ جرح وتعدیل نے بناایک لفظ بھی اس کی جہالت پر تنقید کئے قبول کیاہے۔یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ کفایت اللہ ابن محرز کومجہول ثابت کرکے اس کورد کرناتاویل بارد ہے جس کی کسی بھی ماقبل کے عالم سے تائید اورتصدیق نہیں ہوتی ہے۔
اسی طرح صالح جزرہ کی روایت اگرہمارے سامنے نہیں ہے لیکن مزی کے سامنے ضرورہوگی۔اب ہمارے لئے صرف اس سند کانہ ہونا اس کی وجہ نہیں بنتاکہ ہم اپنے عدم علم کو مزی کے علم پر حجت قراردے دیں۔کیونکہ مزی نے مقدمہ میں کہاہے کہ جس کو وہ توثیق کے ساتھ نقل کریں گے۔اس کی سند ان کے نزدیک لاباس بہ ہے۔اورجس کو وہ مجہول صیغہ کے ساتھ نقل کریں گے اس کی سند ضعیف ہے۔
ولم نذكر إسناد كل قول من ذلك فيما بيننا وبين قائله خوف التطويل.
وقد ذكرنا من ذلك الشئ بعد الشئ لئلا يخلو الكتاب من الإسناد على عادة من تقدمنا من الأئمة في ذلك.
وما لم نذكر إسناده فيما بيننا وبين قائله: فما كان من ذلك بصيغة الجزم، فهو مما لا نعلم بإسناده عن قائله المحكي ذلك عنه بأسًا، وما كان منه بصيغة التمريض، فربما كان في إسناده إلى قائله ذلك نظر
(تہذیب الکمال للمزی1/135)

اس کے علاوہ تفصیلی طورپر اس پر طویل بحث کی جاسکتی ہے لیکن اسکاکوئی فائدہ اس لئے نہیں ہے کہ بات موضوع کی حدود سے آگے بڑھ جائے گی جب کہ موضوع حافظ ذہبی کی نگاہ تک محدود ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اب ذرا مناقب ابی حنیفہ کی عبارت پر بھی کچھ بحث کرلیتے ہیں۔
اصل زیر بحث عبارت یہ ہے
قلت: لم يصرف الإمام همته لضبط الألفاظ والإسناد، وإنما كانت همته القرآن والفقه، وكذلك حال كل من أقبل على فن، فإنه يقصر عن غيره , من ثم لينوا حديث جماعة من أئمة القراء كحفص، وقالون وحديث جماعة من الفقهاء كابن أبي ليلى، وعثمان البتي، وحديث جماعة من الزهاد كفرقد السنجي، وشقيق البلخي، وحديث جماعة من النحاة، وما ذاك لضعف في عدالة الرجل، بل لقلة إتقانه للحديث،
میں جیساکہ کہہ چکاہوں کہ یہ حافظ ذہبی کی اپنی بات نہیں ہے یعنی یہ ان کاذاتی خیال نہیں ہے۔یہ صرف امام ابوحنیفہ کے جارحین کی جرح کا سبب بیان کیاگیاہے۔اگریہ ان کا ذاتی خیال ہوتاتوپھردیگرکتابوں میں بھی ہمیں اس کی جھلک نظرآتی۔
مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ نامی کتاب تاریخ الاسلام سے قبل لکھی گئی ہے۔اس کی وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں لکھاہے۔
قُلْتُ: وَأَخْبَارُ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَمَنَاقِبُهُ لا يَحْتَمِلُهَا هَذَا التَّارِيخُ فَإِنِّي قَدْ أَفْرَدْتُ أَخْبَارَهُ فِي جُزْءَيْنِ.
(تاریخ الاسلام ص9/313)
اس کتاب میں وہ امام ابوحنیفہ کی توثیق اس طورپر ذکر کرتے ہیں
وَقَالَ صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ [1] وَغَيْرُهُ: سَمِعْنَا ابْنَ مَعِينٍ يَقُولُ: أَبُو حَنِيفَةَ ثِقَةٌ [2] .وَرَوَى أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحْرِزٍ عَنِ ابْنِ مَعِينٍ قَالَ: لا بَأْسَ بِهِ، لَمْ يُتَّهَمْ بِالْكَذِبِ، لَقَدْ ضَرَبَهُ يَزِيدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ هُبَيْرَةَ عَلَى الْقَضَاءِ فَأَبَى أَنْ يَكُونَ قَاضِيًا۔وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ: رَحِمَ اللَّهُ مَالِكًا، كَانَ إِمَامًا، رَحِمَ اللَّهُ الشَّافِعِيَّ، كَانَ إِمَامًا، رَحِمَ اللَّهُ أَبَا حَنِيفَةَ، كَانَ إِمَامًا، سَمِعَ هَذَا ابْنُ دَاسَةٍ مِنْهُ.
(تاریخ الاسلام 9/307)
اس میں قابل غوربات یہ ہے کہ انہوں نے مناقب ابی حنیفہ میں امام ابوحنیفہ امام ابوحنیفہ کی مرویات کو قبول کرنے اوران کو حجت تسلیم کرنے والوں کاجوکلام ذکر کیاتھاوہ تقریباپورے کا پوراذکرکردیاگیاہے۔اگرکچھ ذکر نہیں کیاگیاہے تووہ صرف اورصرف یحیی بن سعید القطان کا تضعیف والاقول ہے۔
اس کی وجہ صرف یہ ہے مناقب ابی حنیفہ میں ان ان کے سامنے صرف سیرت امام ابوحنیفہ ہے اوران کو امام ابوحنیفہ کے تعلق سے تمام باتیں پیش کرنی تھیں۔ اب یہ حقیقت ہے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ پر کلام ہواہے لہذا اس اعتبار سے انہوں نے مضعفین کا قول نقل کیاہے جب کہ تاریخ الاسلام میں ان کو اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف اہم باتیں ذکر کرنی ہیں لہذا انہوں نے صرف وہی باتیں ذکرکیں جوان کے نزدیک راجح ہے ۔

یہیں باتیں سیر اعلام النبلاء میں بھی ہیں۔
قَالَ مُحَمَّدُ بنُ سَعْدٍ العَوْفِيُّ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ:
كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً، لاَ يُحَدِّثُ بِالحَدِيْثِ إِلاَّ بِمَا يَحْفَظُه، وَلاَ يُحَدِّثُ بِمَا لاَ يَحْفَظُ.
وَقَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً فِي الحَدِيْثِ.
وَرَوَى: أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ القَاسِمِ بن مُحْرِزٍ، عَنِ ابْنِ مَعِيْنٍ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ لاَ بَأْسَ بِهِ.
وَقَالَ مَرَّةً: هُوَ عِنْدَنَا مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ، وَلَمْ يُتَّهَمْ بِالكَذِبِ، وَلَقَدْ ضَرَبَه ابْنُ هُبَيْرَةَ عَلَى القَضَاءِ، فَأَبَى أَنْ يَكُوْنَ قَاضِياً.
(سیر اعلام النبلاء6/395)

حقیقت یہ ہے کہ چاہے سیر ہو یاتاریخ الاسلام ۔انہوں نے روات پر بہت ساراکلام کیاہے۔ اگران تمام روات کو اکٹھاکیاجائے جس پر انہوں نے سیر اعلام النبلاء اورتاریخ الاسلام میں جرح وتعدیل کے ائمہ کے اقوال ازباب تعدیل وتجریح نقل کئے ہیں تواس کیلئے کئی جلدیں درکار ہوں گی ۔
اگران کی رائے اورخیال میں امام ابوحنیفہ ضعیف راوی ہوتے توجس طرح انہوں نے دیگر روات پر کلام کیاہے۔امام ابوحنیفہ کے سلسلے میں بھی ائمہ جرح وتعدیل کے جرح والے اقوال نقل کرتے ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسانہیں ہے ۔

یہی حال تذکرۃ الحفاظ کابھی ہے کہ وہاں بھی امام ابوحنیفہ کے سلسلے میں توثیق کے اقوال ضرور ہیں لیکن تجریح کاکوئی قول نہیں ہے۔

یہ تین مثالیں ہمیں یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ انہوں نے مناقب ابی حنیفہ میں جوکچھ قلت کے بعد کہاہے وہ ان کی اپنی رائے اوراپناخیال نہیں ہے کیونکہ اگرایساہوتاتواس کی بازگشت اورگونج ہمیں تینوں کتابوں میں سنائی دیتی بالخصوص جہاں انہوں نے توثیق کے اقوال نقل کئے ہیں تضعیف کے بھی اقوال نقل کرتے ۔

دوسرے یہ کہناکہ اس سے صرف صالحیت اورامانت یامختصر لفظوں میں عدالت مراد ہے حفظ وضبط نہیں ۔خواہ مخواہ کی بات ہےکیونکہ اس سلسلے میں دوسرے اتنے اقوال انہوں نے ذکر کردیئے ہیں کہ ابن معین کے مذکورہ قول کی کوئی خاص حاجت نہیں رہ جاتی۔
اسی طرح جب ایک جگہ مناقب ابی حنیفہ میں انہوں نے واضح کردیاکہ ابن معین کاکلام ازقبیل قبول وحجت ہے۔
فمنهم :
من قبله ورآه حجة

توپھربقیہ جگہ پربھی اسی کا اطلاق ہوگابشرطیکہ اس کے مخالف کوئی دلیل ذکر کی جائے۔
اس کی ایک قوی دلیل یہ ہے کہ اگر لم یصرف سے یہ مراد ہوتاکہ امام ابوحنیفہ ذہبی کے نزدیک ضعیف ہیں توپھر غیرمقلدین اس کو اتنااچھالتے کہ کہ ان کی کوئی بھی کتاب اس کے ذکر سے خالی نہیں ہوتی۔جیساکہ میزان کا الحاقی ترجمہ ان کے کتابوں میں بہت زیادہ ملتاہے۔

یاجس طرح البانی اورمقبل الوادعی اوراس قبیل کے لوگوں کے نزدیک امام صاحب کی عدم ثقاہت کیلئے یہ دلیل بہت ہوجاتی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے ذکر میں تقریب میں حافظ ابن حجر نے صرف فقیہہ مشہور کہاہے ۔اسی طرح حافظ ذہبی کی جانب سے بھی اس عبارت کا سینکڑوں بار تکراراوراعادہ کیاجاتا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسانہیں ہے۔اوریہی خود بڑی بات ہے۔
خداکرے کہ یہ بات کفایت اللہ صاحب کی سمجھ میں آجائے۔

دیوان الضعفاء اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ

جن حضرات نے ابن تیمیہ والاتھریڈ پڑھاہوگا۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کفایت اللہ صاحب کااس باب میں کیاموقف ہے اورکس طرح انہوں نے تاریخ الاسلام کی آخری جلد کا محض اس لئے انکار کردیاکہ کتاب سے مصنف تک سند میں مجہول روات ہیں۔لیکن دیوان الضعفاء والمتروکین میں سامنے کی باتوں کو نظرانداز کرکے ادھر ادھر سے توثیق ڈھونڈنے لگے۔
اس سلسلے میں کچھ ملاحظات ،ملاحظہ ہوں۔
1:زیر نظرکتاب دیوان الضعفاء والمتروکین امام ذہبی سے روایت کرنے والاامام ذہبی کا باضابطہ اورسماع کا شاگرد نہیں بلکہ اجازۃ شاگرد ہے۔ ظاہرسی بات ہے کہ اگرچہ ہم سماع اوراجازت میں بہت فرق ہے۔موصوف کاایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے بعض محدثین سے سماع کے حصول سے قبل ان سے روایت کرنے لگے۔یہی وجہ رہی ہے کہ حافظ ہیثمی ان سے روایت کرنے کیلئے دوسرے کوبھی منع کرتے تھے۔

2:شاگرد مذکور کی کسی نے توثیق نہیں کی یعنی ضبط کے اعتبار سے ان کاکیاحال تھایہ کسی نے بھی بیان نہیں کیاہے؟اگرکفایت اللہ صاحب کے پاس کوئی شہادت ہے کہ وہ ضبط کے اعتبار سے بہت اچھے تھے یاوہ ثقہ وصدوق وغیرہ تھے توپیش کریں جیساکہ انہوں نے امام ابن تیمیہ کے تعلق سے بعض پر اسی قبیل سے جرح کیاہے اوران کے کلام کورد کیاہے۔

3: خط صاف نہیں تھاسخاوی لکھتے ہیں کہ ان کااملاء بہت خراب ہواکرتاتھااوروہ حروف کی شکلیں واضح نہیں کرتے تھے اوراس پر نقطے بھی نہیں لگاتے تھے۔ وخطه سريع جداً لكنه غير طائل لكثرة سقمه وعدم نقطه وشكله(الضوء اللامع ص2/82)

4: موصوف کی سیرت عمر کے آخری پڑاؤمیں خراب ہوگئی تھی۔ سخاوی نے اسکی تفصیل توپیش نہیں کیاہے لیکن انداز بیان سے معلوم ہوتاہے کہ یہ خرابی ازقبیل دیانت ودینداری تھی۔سخاوی مختصرالکھتے ہیں۔ وساء حاله وقبحت سيرته، حتى مات مقلاً ذليلاً(الضوء اللامع ص2/82)

5:تحقیق کا جوطریقہ کار ہے اس کے لحاظ سے دیکھیں تویہ کوئی بعید نہیں ہے کہ جب موصوف کاخط انتہائی بگڑاہواہواورحروف کی شکلیں درست نہ ہوں اوراس پر نقطے بھی نہ ہوں تومحقق اس کتاب کی جانب رجوع کرتاہے جس کے بارے میں مصنف نے وضاحت کردی ہو کہ وہ فلاں سابق کتاب پر یہ کتاب لکھ رہاہے۔ حافظ ذہبی نے واضح کردیاہے کہ ان کی یہ کتاب ابن جوزی کی کتاب سے ماخوذ ہے توکوئی بعید نہیں محقق نے ابن جوزی کی کتاب کی عبارت کو یہاں اٹھاکر نقل کردیاہو۔

6: یہ قطعامعلوم نہیں ہے کہ موصوف نے یہ کتاب کب لکھی۔سیرت خراب ہونے سے قبل یابعد میں۔اورجب یہ معلوم نہیں ہے توپھر کیسے اس پر وہ شخص اعتماد کرلے جس کا موقف یہ ہو کہ سند صحیح ہونی چاہئے۔

اگرکفایت اللہ صاحب واقعتاچاہتے ہیں کہ اس کتاب کی نسبت حافظ ذہبی کی جانب درست مانی جائے تواپنے موقف کے اعتبار سے ان تمام سوالات کے جوابات دے دیں ان کی بات تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی عذرنہیں ہوگا۔انشاء اللہ۔

ہماراموقف


کتاب کواگرمنسوب تسلیم کربھی لیاجائے توبھی اس سے بات نہیں بنے گی ہم اپنی بات کو مفصل اورمدلل طورپر آخر میں پیش کریں گے کہ اگریہ مانابھی جائے کہ دیوان الضعفاء والمتروکین حافظ ذہبی کی ہے اوراس میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ ہے پھر بھی کفایت اللہ صاحب کا مدعاثابت نہیں ہوگا۔
کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں
جب یہ معلوم ہوگیا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب دیوان الضعفاء ایک ثابت شدہ کتاب ہے اور موجودہ نسخہ بھی مستند ہے تو عرض ہے کہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکر موجود ہے، کتاب اور نسخہ کے ثابت ہونے کے بعد اس کے الحاق کا بچکانہ دعوی کرنا محض تعصب اور اندھی عقیدت ہے، اور علم وتحقیق کی دنیا میں اس قسم کے پھسپھسے دعوے بے حقیت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مضحکہ خیزبھی ہیں ۔
میزان الاعتدلال میں تو احناف نے یہ عذرلنگ پیش کیا کہ بعض نسخوں میں یہ ترجمہ نہیں ہے اس لئے یہ الحاقی ہے لیکن کیا دیوان الضعفاء کے کسی دوسرے نسخے میں بھی امام صاحب کا ترجمہ غائب ہے ؟؟؟؟؟؟
عرض یہ ہے کہ کفایت اللہ صاحب کے اصول پر توقطعاثابت نہیں ہوا۔ صرف اتناثابت ہوسکتاہے کہ ایک کتاب اس نام کی حافظ ذہبی کی ہے لیکن اس کاکوئی مستند نسخہ جس کی سند صحیح ہو یاکسی نسخہ کے استناد کیلئے کفایت اللہ صاحب جو معیار قائم کرتے ہیں اس پر دیوان الضعفاء والمتروکین قطعاثابت نہیں ہوتی۔
مجھے اپنی غلطی تسلیم کرکے خوشی ہوگی۔کفایت اللہ صاحب صرف اتناکردیں کہ اس تعلق سے جو6سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ان کے جوابات ہمیں مرحمت فرمادیں۔تاکہ ہم بھی قائل ہوجائیں
ایں کارازتوآید ومرداں چنیں کنند​
لیکن ہم جانتے ہیں کہ این خیلے دشوار است اور

نہ خنجر اٹھے گانہ تلوار ان سے
یہ بازومیرے آزمائے ہوئے ہیں

نیز اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ میں جوبات نقل ہوئی ہے وہ ائمہ فن سے ثابت ہے اوران کی اپنی کتاب میں موجود ہے لہٰذا اس پہلو سے بھی اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ۔
ائمہ فن ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں لیکن ہماراموضوع ائمہ فن نہیں بلکہ حافظ ذہبی کانکتہ نگاہ ہے۔
لطف تو یہ ہے کہ اس کتاب کے ناسخ ایک معروف مشہور حنفی عالم ہیں آخرانہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کیا دشمنی تھی کہ انہوں نے اس کتاب میں مستقل ان کے ترجمہ کا اضافہ کردیا؟؟؟؟؟ ایک حنفی عالم کی طرف سے اس کتاب کا نسخ اس بات کا قوی سے قوی تر ثبوت ہے کہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ الحاقی نہیں ہے ۔
کفایت اللہ صاحب سوال کرتے ہیں کہ حنفی عالم کو امام ابوحنیفہ سے کیادشمنی ہوسکتی ہے ۔گزارش ہے کہ یہ ساء حالہ وقبحت سیرتہ کابھی توشاخسانہ ہوسکتاہے۔اس پر بھی تھوڑی دیرٹھہرکرغورکرلیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کفایت اللہ صاحب نے دعویٰ کیاہے کہ چارکتابوں میں امام ابوحنیفہ کی تضعیف منقول ہے۔
یعنی مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ،دیوان الضعفاء والمتروکین،المغنی فی الضعفاء اورمیزان الاعتدال
اول الذکر دوکتابوں کوچھوڑدیتے ہیں کیونکہ مناقب ابی حنیفہ کے جس موہوم جملہ سے ان کااستدلال ہے وہ تام نہیں ہے۔اوردیوان الضعفاء والمتروکین کی سند کفایت اللہ صاحب کے معیار پر صحیح نہیں۔
رہ گیاالمغنی فی الضعفاء اورمیزان الاعتدال ۔دیکھتے ہیں کہ ا س میں کفایت اللہ نے کس جملہ سے استدلال کیاہے۔
آئیے ان کے دعوے کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ علم اورتحقیق پر مبنی ہے یامحض خوش گمانی اوربدگمانی کی ترکیب اورامتزاج واختلاط سے اس کی تخلیق کی گئی ہے۔
المغنی میں حافظ ذہبی اسماعیل کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔
إِسْمَاعِيل بن حَمَّاد بن النُّعْمَان بن ثَابت قَالَ ابْن عدي ثَلَاثَتهمْ ضعفاء
میزان الاعتدال میں عبارت حافظ ذہبی نے امام ابوحنیفہ کے پوتے اسماعیل کے بارے میں لکھاہے۔
إسماعيل بن حماد بن النعمان بن ثابت الكوفى. عن أبيه. عن جده. قال ابن عدى: ثلاثتهم ضعفاء. [ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 226]۔
اس کے بعد انہوں نے کچھ ایسے تراجم پیش کئے ہیں جہاں ایک راوی کے ضمن میں دوسرے راوی پر کلام کیاگیاہے اوراس سے دلیل اخذ کی گئی ہے۔
کفایت اللہ یہ دلیل پیش کرکے لکھتے ہیں۔
لہذا اگر جدلا مان لیا جائے کہ امام صاحب کاترجمہ علیحدہ طور پر میزان میں نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کتاب میں دوسرے رواۃ کے ترجمہ کے بضمن موجود ان کی تضعیف سے نظر پوشی کرلی جائے اور بے دھڑک کہہ دیائے کہ اس کتاب میں امام صاحب کا ذکر ہی نہیں ۔
اس شبہ کاجواب یہ ہے کہ
1:حقیقت یہ ہے کہ ابن عدی کی اسماعیل بن حماد کے بارے میں دوطرح کے قول ہوتے ایک میں علیحدہ کلام کیاجاتااوردوسرے میں تینوں کو ساتھ ملاکر اور اس کے بعد حافظ ذہبی اس نقد کو اختیار کرتے جس میں تینوں پر کلام ہے تویہ ایک قوی وجہ ہوتی کہ حافظ ذہبی کے نزدیک بھی تینوں ضعیف ہیں لیکن جب مسئلہ یہ ہے اورصورت حال یہ ہے کہ ابن عدی کا اسماعیل بن حماد کے بارے میں صرف ایک ہی نقد ہے جس میں تینوں شامل ہیں۔ تواسماعیل بن حماد کے ذکر مین ابن عدی کاقول نقل کرتے وقت تینوں کا ذکر نہ کیاجائے توکیاکیاجائے۔

2: اگرمعاملہ ایساہی ہوتاتواس کے برعکس حافظ ذہبی امام ابوحنیفہ کو مستقل ذکر کرتے اوراس کے ضمن میں حماد اوراسماعیل کوضعیف قراردیتے ۔اس کے بجائے اسماعیل کے ذکر میں حماد اورامام ابوحنیفہ کو ضمناذکر کرنابیل کے آگے بنڈی چلاناہے۔

3:اگراسماعیل کے تذکرہ میں ضمنی طورپر امام ابوحنیفہ کانام آجانے سے ضعف ثابت ہوتاہے اوریہ حافظ ذہبی کا قول ہوتاہے توپھرعراقی ،سخاوی اورسیوطی اتنے کم فہم نہ تھے کہ ایسی بات نہ سمجھ سکتے اوربے دھڑک یہ بات کہہ دیتے انہوں نے میزان الاعتدال میں ائمہ متبوعین کاذکر نہیں کیاہے۔

4:یہ بات مشہور عالم ہے کہ حافظ ابن حجرنے لسان المیزان میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں کیا۔اگرمحض اسماعیل کے بارے میں ابن عدی کے قول مین ضمناامام ابوحنیفہ کانام آنے سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کتاب مین ان کا تذکرہ ہے توپھرابن عدی کایہ قول تو لسان المیزان 1/399)میں بھی موجود ہے۔

"إسماعيل" 3 بن حماد بن النعمان بن ثابت الكوفي عن أبيه عن جده قال ابن عدي ثلاثتهم ضعفاء
اوراگراس سے یہی سمجھ میں آتاتوپھر البانی جیسے لوگ امام ابوحنیفہ کی تضعیف پر یہ دلیل نہ ڈھونڈتے کہ حافظ ابن حجر نے تقریب میں صرف فقیہہ مشہور کہاہے۔
ولذلك لم يزد الحافظ ابن حجر في " التقريب " على قوله في ترجمته: فقيه مشهور! .
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ 1/572)
کچھ دیگر کلمات توثیق ذکر نہیں کئے ۔بلکہ وہ دھڑلے سے کہہ رہے ہوتے کہ امام ابوحنیفہ کا تذکرہ لسان المیزان میں اسماعیل کے تذکرہ میں موجود ہے اوریہ بات اس کیلئے کافی ہے کہ وہ حافظ ابن حجر کی نگاہ مین ضعیف ہیں۔
5:مقبل الوادعی نے بھی نشرالصحیفۃ میں ابن عدی کے امام ابوحنیفہ پر جرح کے سلسلہ میں صرف اسی کلام کو نقل کیاہے جہاں ابن عدی نے امام ابوحنیفہ پر ہی کلام کیاہے ۔اوراس مقام سے تعرض تک نہیں کیاجہاں اسماعیل کے ضمن میں امام ابوحنیفہ پر کلام موجود ہے۔

6:اورصرف البانی ہی کیوں ۔تقریباہرغیرمقلد عالم اس قول کی دہائی دے رہاہوتااورکثرت استعمال سے یہ جملہ پامال ہوگیاہوتالیکن خوردبین لے کر ڈھونڈنے سے بھی یہ ملنامشکل ہے کہ کسی عالم نے اسماعیل کے ذکر میں امام ابوحنیفہ کے ضمنی تذکرہ کو دلیل ضعیف بنایاہو۔یہ صرف کفایت اللہ کی اپنی اپج اورذہنی اخترا ع ہے۔دوسری بات جتنے بھی راویوں کا تذکرہ کفایت اللہ صاحب نے کیاہے ان میں اورامام ابوحنیفہ میں بعدالمشرقین ہے۔

7: امام ابوحنیفہ کی شہرت اورجلالت علمی جس کو حافظ ذہبی کہیں الامام الاعظم توکہیں عالم العراق سے یاد کرتے ہیں۔ ان مجہول اورمتروک راویوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتی۔
آپ اگراردو ادب میں ہندوستان کے شاعروں پر کوئی کتاب لکھتے ہیں توکسی خطے کے غیرمعروف اورغیرمعیاری شاعروں کو دوسرے شاعروں کے حالات مین ضمنی طورپر بیان کرسکتے ہیں لیکن میروغالب جیسے شاعروں کوآپ کسی دوسرے کے ضمن میں بیان کردیں اسے کوئی بھی قبول نہیں کرے گا اوراگرکہیں ان کا تذکرہ کسی مناسبت سے کسی دوسرے غیرمعیاری شاعر کے تذکرہ میں آگیاہوگا مثلاوہ اس کاشاگردہو یااسی شہر کارہنے والاہویاکچھ اورتواس کو کوئی بھی اس کی دلیل نہیں بنائے گا میروغالب بھی غیرمعیاری شاعر ہیں کیونکہ فلاں غیرمعیاری شاعر کے تذکرہ میں ضمنی طورپر ان کانام آیاہے۔بالخصوص اس وقت جب کہ آپ نے مستقل طورپر بڑے شعراء کے طورپر ان کا تعارف بھی کرایاہو۔

بعینہ دیکھیں تویہی حالت امام ابوحنیفہ کی ہے۔امام ابوحنیفہ کو حافظ ذہبی تذکرۃ الحفاظ مین ذکر کرتے ہیں۔ سیر اعلام النبلاء میں ذکر کرتے ہیں تاریخ الاسلام میں ذکرکرتے ہیں۔ تذہیب التہذیب میں ذکرکرتے ہیں۔ اگرامام ابوحنیفہ ضعیف ہیں توالمغنی میں بھی مستقل تذکرہ کرتے اورمیزان الاعتدال میں بھی مستقل تذکرہ کرتے

8: یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ اگرمحض ضمنی تذکرہ ضعف کیلئے کافی ہوتاتوہمارے مہربانوں کو مستقل ترجمہ الحاق کرنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑتی؟لیکن چونکہ اس سے مطلب حاصل نہیں ہورہاتھالہذا مستقل ترجمہ تخلیق کرکے الحاق کیاگیا۔لیکن جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔اورجلد ہی اسکا کذب ہونابھی واضح ہوگیا۔شاید یہی وجہ ہے کہ البانی نے بھی تضعیف کے موقع پر میزان کاحوالہ نہیں دیابلکہ دیوان الضعفاء والمتروکین کاحوالہ دیاہے۔اگرمیزان میں مستقل ترجمہ کاثبوت البانی کے نزدیک ہوتاتووہ اولامیزان کاہی حوالہ دیتے کیونکہ جتنی مشہور ،متداول اورمصنف سے ثابت یہ کتاب ہے دیوان الضعفاء والمتروکین نہیں ہے۔
میزان الاعتدال میں الحاقی ترجمہ پر ایک بحث
کفایت اللہ صاحب میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کے مستقل ترجمہ پر کئی نکات کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔ہم فردافرداان کاجائزہ لیتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ میزان علم پر یہ کہاں تک ثابت ہوتے ہیں۔

اولا:

بعض نسخوں میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تراجم کی طرح اوربھی بہت سے رواۃ کے تراجم ساقط ہیں توکیا یہ دعوی کردیا جائے کہ ان رواۃ کا ترجمہ بھی الحاقی ہے ؟؟ اب تک کسی نے ایسی بات نہیں کہی ہے پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ ہی کے ساتھ ایسا رویہ کیوں ؟؟؟

ثانیا:

کتابوں میں نسخوں کا اختلاف عام بات ہے اورایک نسخہ کے نقص کو دوسرے نسخہ سے پورا کرنا تحقیق کا اصول ہے خود احناف بھی اس اصول کومانتے ہیں ، جس کی چندمثالیں علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے تحقیق الکلام میں پیش کی ہے اور عبدالحیی لکنوی کے اس دعوی کا رد کیا ہے کہ میزان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ الحاقی ہے، قارئین تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں تحقیق الکلام فی وجوب القراۃ خلاف الامام :ص ١٤٤،١٤٥
کفایت اللہ صاحب کا سوال یہ ہے کہ تراجم کی کتابوں میں عموماایساہوتاہے کہ بعض نام رہ جاتے ہیں بعض نسخوں میں بعض نام زیادہ ہوتے ہیں تواس کو الحاق کی دلیل نہیں بناناچاہئے۔بلکہ اس کو بعض نسخوں کی کمی وزیادتی مانناچاہئے۔
سوال معقول ہے۔
جواب یہ ہے کہ عام روات کے سلسلہ میں یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے۔لیکن ہرراوی کے بارے میں اسی نظریہ کااظہار نہیں کیاجاسکتا۔عام روات کے سلسلہ میں اتنی زیادہ کھوج پڑتال کوئی نہیں کرتا۔ کھوج پڑتال ہوتی ہے توصرف بڑے ناموں کے بارے میں۔
اگرکسی مشہور محدث مثلاامام بخاری یاکسی دوسرے کاضعفاء مین ذکر آئے تومحقق کو اولایقین نہیں آئے گا۔ ثانیاوہ نسخہ کی صداقت کو دیکھے گا۔ثالثا وہ مصنف کی تمام تحریروں کو یکجاکرے گا۔اس کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچے گا۔ جب کہ یہ چیزیں عام روات کے ساتھ نہیں برتی جاتی ۔یہ ایسی محسوس اورمشاہد بات ہے کہ کوئی بھی شخص جس کا تحقیق سے تعلق ہے انکار نہیں کرسکتا۔
اس کی ایک مثال دیکھیں۔
زغل العلم حافظ ذہبی کی کتاب نہیں ہے۔کیوں کہ اس میں ابن تیمیہ کاتذکرہ بصورت ذم موجود ہے؟صرف یہی چیز غیرمقلدین کیلئے کافی ہوجاتی ہے کہ وہ اس کتاب کا ہی انکار کردیں۔
تاریخ الاسلام کی آخری جلد حافظ ذہبی کی نہیں ہے کیوں ؟صرف اس لئے کہ اس میں ابن تیمیہ کاتذکرہ موجود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگرکفایت اللہ صاحب خود اپنے گریبان میں تھوڑی دیر جھانک کر غورکرتے توانہیں اس سوال کا نہایت معقول جواب سمجھ میں آجاتا۔
غیرمقلدین کے مقابل ہم نے بڑاصبروضبط برتاہے کہ پوری کتاب کا انکار نہیں کیابلکہ دلائل کی بنیاد پر اورایسے دلائل جو ناقابل تردید ہیں اس کی بنیاد پر دعویٰ کیاہے کہ امام ابوحنیفہ کا ترجمہ الحاقی اورزائد ہے۔اس کی مزید تفصیل ہم آگے عرض کرنے والے ہیں۔


میزان الاعتدال کے نسخوں پر ایک بحث​


ایک مصنف کتاب لکھتاہے تراجم اورروات پر۔
اس کے ایک ترجمہ پر اختلاف ہے کہ آیامصنف نے ہی اس کو لکھاہے یاپھر کسی نے بعد میں داخل کردیاہے۔چونکہ لوگوں کو امام ابوحنیفہ سے خداواسطے کابغض رہاہے اس لئے انہوں نے دوسرے مصنفین پر بھی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاریخ وتراجم کی کتابوں میں یہ موجود ہے کہ صاحب سفرالسعادۃ والقاموس کی جانب بھی لوگوں نے اپنے جی سے ایک کتاب لکھ کر منسوب کردی جس میں امام ابوحنیفہ پر طعن وتعریض موجود تھی جب اس کے بارے میں صاحب سفرالسعادۃ سے پوچھاگیاتوانہوں نے صاف انکار کردیااوراس کے جلانے کا حکم دے دیا۔

اب اسی کتاب کا ایک ایسانسخہ دستیاب ہوتاہے جومصنف کے بالکل آخری دنوں میں اس پر پڑھاگیاہے۔اوراس میں وہ مختلف فیہ نام یاترجمہ موجود نہیں ہے توکیامحض یہ نسخہ ہی اس اختلاف کو ختم نہیں کردیتا۔کہ چلو مان لیاکہ مصنف نے اپنے کسی نسخہ میں یہ ترجمہ لکھاہوگا۔ لیکن آخری نسخہ جومصنف پر پڑھاگیااورپڑھنے والے بھی حافظ حدیث ہیں اس میں وہ ترجمہ موجود نہیں ہے تویہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہوناچاہئے کہ اگرمصنف نے کسی نسخہ میں وہ ترجمہ لکھابھی ہوگاتوبعد میں اس سے رجوع کرلیاہوگا۔

کفایت اللہ صاحب کو چاہئے کہ وہ ایسے تمام نسخے جس میں امام ابوحنیفہ کاتذکرہ موجود ہے کی صحت اورمصنف پر کب پڑھاگیااس تعلق سے تمام معلومات ہمیں اس تھریڈ میں پیش کردیں جیساکہ ہم نے ان نسخوں کے تعلق سے تحقیقی بات پیش کی ہے کہ مصنف پر کب کب پڑھاگیااس سے ہی دودھ کا دودھ اورپانی کاپانی ظاہر ہوجائے گا اورحق وباطل واضح ہوکر سامنے آجائے گا۔

اگران کو اس ترجمہ کو صحیح ماننے پر اصرار ہے تومحض اتناکردیں کہ

قرات جمیع کتاب میزان الاعتدال فی نقدالرجال وماعلی الھوامش من التخاریج والحواشی والملحقات بحسب التحریر والطاقۃ والتؤدۃ علی مصنفہ شیخناالام العلامۃ ۔۔۔الذھبی فسح اللہ فی مدتہ فی مواعید طویلۃ وافق آخرھا یوم الاربعاء العشرین میں شہر رمضان المعظم فی سنۃ سبع واربعین وسبع ماءۃ فی الصدریہ بدمشق ،واجاز جمیع مایرویہ وکتب محمد(بن علی الحنفی)بن عبداللہ۔۔۔۔۔۔
اس تاریخ کے بعد والا کوئی ایسانسخہ میزان الاعتدال کا ہمیں پیش کردیں جومصنف پر پڑھاگیاہواوراس میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ موجود ہو۔اگر وہ یہ سب نہیں کرسکتے توانہیں مان لیناچاہئے کہ میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا مستقل ترجمہ کی بات اولاتوبے بنیاد ہے اورتنازلاًانتہائی مرجوح ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ہم نے اپنی یہ بات کہ میزان الاعتدال کےوہ نسخے جو مصنف سے قریبی عہد کے لوگوں کے پاس تھے اس میں بھی امام ابوحنیفہ پر کا تذکرہ نہیں ہے اس پر حافظ عراقی، سیوطی اورسخاوی کے کلام سے استشہاد پیش کیاتھاکہ انہوں نے تصریح کی ہے اس میں ائمہ متبوعین کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔
اس کی کیاتاویل کفایت اللہ صاحب کرتے ہیں دیکھتے چلیں
بعض حضرات امام سخاوی کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں:
وَأَبِي زَكَرِيَّا السَّاجِيِّ، وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْحَاكِمِ وَأَبِي الْفَتْحِ الْأَزْدِيِّ وَأَبِي عَلِيِّ بْنِ السَّكَنِ وَأَبِي الْفَرَجِ بْنِ الْجَوْزِيِّ، وَاخْتَصَرَهُ الذَّهَبِيُّ، بَلْ وَذَيَّلَ عَلَيْهِ فِي تَصْنِيفَيْنِ وَجَمَعَ مُعْظَمَهُمَا فِي مِيزَانِهِ فَجَاءَ كِتَابًا نَفِيسًا عَلَيْهِ مُعَوَّلُ مَنْ جَاءَ بَعْدَهُ، مَعَ أَنَّهُ تَبِعَ ابْنَ عَدِيٍّ فِي إِيرَادِ كُلِّ مَنْ تُكُلِّمَ فِيهِ وَلَوْ كَانَ ثِقَةً، وَلَكِنَّهُ الْتَزَمَ أَنْ لَا يَذْكُرَ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ وَلَا الْأَئِمَّةِ الْمَتْبُوعِينَ [فتح المغيث بشرح ألفية الحديث 4/ 348]
عرض ہے کہ اس عبارت میں امام سخاوی رحمہ اللہ امام ذہبی کی کتاب میزان کے مشمولات پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ میزان کے مقدمہ میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے کتاب کا جومنہج بتایا ہے اس کی طرف مختصرا اشارہ کررہے ہیں ملون الفاظ پر غورکریں ، اورپہلے بتایا جاچکا ہے کہ مقدمہ کی اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے استثناء بھی ذکر کیا ہے۔
احناف کو تاویل کا طعنہ دینے والے مطلب برآری کیلئے ایسی تاویل کرتے ہیں کہ جس سے علم اورتحقیق توایک طرف خود مصنف بھی حیران رہ جائے کہ اچھامیں نے توایساسوچاتک نہیں تھامیراذہن نہیں کیاگیا۔یہ نئے مجتہدین میری عبارت میں جس معنی کاثمر اورپھل جمع کررہے ہیں اس کا بیج تومیں نے بویاہی نہیں ۔
اقبال نے سچ کہاہے

ولے تاویل شاں درحیرت انداخت
خداوجبرئیل ومصطفے را​

احناف پر تاویل کاالزام اہل الرائے کی تہمت لگتی ہی رہی ہے لیکن وہ لوگ جو احناف کو متہم کرتے ہیں وہ کیوں تاویل کابازارگرم کئے ہوئے ہیں۔

مجھ کو توسکھادی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دورکے ملاہیں کیوں ننگ مسلمانی​

کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں۔

حافظ نے شرط ٹھہرایاتھاکہ وہ ائمہ متبوعین کا ذکر نہیں کریں گے اورنام لے کر یہ بات کہی تھی کہ جیسے امام ابوحنیفہ امام شافعی اوربخاری وغیرہ۔
یہ کہناکہ سخاوی ذہبی کی کتاب میزان کے مشمولات پر بات نہیں کررہے ہین بلکہ منہج کی طرف مختصرااشارہ کررہے ہیں محض تحکم اورسینہ زوری ہے۔اس کیلئے دلیل چاہئے ۔جب کہ عبارت بڑی واضح اورصاف ہے کہ وہ مشمولات پر ہی گفتگو کررہے ہیں۔ ذراعبارت کا ترجمہ کردوں تاکہ دیگر قارئین بھی سمجھ سکیں۔
وَأَبِي زَكَرِيَّا السَّاجِيِّ، وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْحَاكِمِ وَأَبِي الْفَتْحِ الْأَزْدِيِّ وَأَبِي عَلِيِّ بْنِ السَّكَنِ وَأَبِي الْفَرَجِ بْنِ الْجَوْزِيِّ، وَاخْتَصَرَهُ الذَّهَبِيُّ، بَلْ وَذَيَّلَ عَلَيْهِ فِي تَصْنِيفَيْنِ وَجَمَعَ مُعْظَمَهُمَا فِي مِيزَانِهِ فَجَاءَ كِتَابًا نَفِيسًا عَلَيْهِ مُعَوَّلُ مَنْ جَاءَ بَعْدَهُ، مَعَ أَنَّهُ تَبِعَ ابْنَ عَدِيٍّ فِي إِيرَادِ كُلِّ مَنْ تُكُلِّمَ فِيهِ وَلَوْ كَانَ ثِقَةً، وَلَكِنَّهُ الْتَزَمَ أَنْ لَا يَذْكُرَ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ وَلَا الْأَئِمَّةِ الْمَتْبُوعِينَ [فتح المغيث بشرح ألفية الحديث 4/ 348]
(ضعیف رواۃ پر کتاب تصنیف کرنے والوں میں)ابوزکریاالساجی،ابوعبداللہ الحاکم ،ابوالفتح الازدی اورابوعلی ابن السکن اورابوالفرج ابن الجوزی ہیں۔ابن جوزی کی کتاب کاذہبی نے اختصار کیا۔اورصرف اختصارہی نہیں کیابلکہ اس پر بطورذیل دومزید کتابیں لکھیں اوران تمام کابیشتر حصہ میزان الاعتدال میں جمع کردیا۔اس طورپر میزان الاعتدال ضعیف رواۃ کے سلسلہ میں ایک بہترین کتاب کے طورپر وجودپذیر ہوئی اوربعد والوں نے اسی پر بھروسہ کیاہے۔ذہبی نے میزان الاعتدال میں ابن عدی کے طریقہ کار کی پیروی کی ہے کہ اس میں ہرایسے شخص کو ذکر کیاہے جس پر کلام ہواہے اگرچہ وہ ثقہ ہی کیوں نہ ہو۔لیکن اس کے ساتھ انہوں نے اس کی پابندی کی ہے کہ اس میں کسی صحابی کا تذکرہ نہیں کرتے اورنہ ہی ائمہ متبوعین کا۔

1:یہ عبارت سامنے رکھئے اوردیکھئے کہ انہوں نے ذہبی کے منہج کی جانب اشارہ کیاہے یاپھر میزان الاعتدال کے مشمولات پر گفتگو کی ہے۔اگرسخاوی کو منہج پرہی گفتگو کرنی ہوتی توپھر وہ ذہبی کی عبارت کو پیش کردیتے۔اوریہ ان کیلئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔اس کے بجائے انہوں نے میزان الاعتدال پر جوکچھ بھی کہاہے وہ اپنی بات کے طورپر پیش کیاہے۔اس کو منہج کی طرف مختصرااشارہ کہنابات کو غلط رخ دینے کے مترادف ہے۔

2: مان لیاکہ منہج کی جانب اشارہ کررہے ہیں لیکن اگرحافظ ذہبی نے استثناء کے بعد امام ابوحنیفہ کا ذکر کیاہوتاتوپھر سخاوی کیلئے یہ کیسے صحیح ہوجائے گاکہ وہ کہہ دیں کہ
ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس کی پابندی کی ہے کہ اس میں کسی صحابی کا تذکرہ نہیں کریں گے اورنہ ہی ائمہ متبوعین کا۔
اگرامام ابوحنیفہ کا تذکرہ ہوتاتوسخاوی کی عبارت یہ نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتی کہ
انہوں نے اپنی کتاب میں ائمہ متبوعین کے تذکرہ نہ کرنے کی شرط ٹھہرائی تھی مگرامام ابوحنیفہ کا ذکر کیا۔مطلقااتناکہناکہ انہوں نے ائمہ متبوعین کے تذکرہ نہ کرنے کی پابندی کی ہے یہ بتارہاہے کہ ذہبی نے جواستثناء کیاتھاوہ ایک فرضی صورت حال تھی۔کہ اگرمیں ایساکروں گاتواس میں عدل وانصاف کو ملحوظ رکھوں گا۔
اس قضیہ فرضیہ کو جوقضیہ وجوبیہ سمجھے توفلبیک علی نفسہ

اورصرف سخاوی ہی کیوں دیکھئے عراقی اورسیوطی کی عبارت بھی دیکھتے چلیں۔
امام عراقی المتوفى: 806 رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والسَّاجيُّ، وابنُ حِبَّانَ، والدَّارَقطنيُّ، والأزديُّ، وابنُ عَدِيٍّ؛ ولكنَّهُ ذكرَ في كتابِهِ الكاملِ كلَّ مَنْ تُكُلِّمَ فيهِ، وإنْ كانَ ثقةً، وتَبِعَهُ على ذلكَ الذَّهبيُّ في الميزانِ، إلاَّ أنَّهُ لَمْ يذكرْ أحداً منَ الصحابةِ والأئمةِ المتبوعينَ، وفاتهُ جماعةٌ، ذيَّلْتُ عليهِ ذيلاً في مجلدٍ[شرح التبصرة والتذكرة ألفية العراقي 2/ 324]،
امام سیوطی لمتوفى: 911 فرماتے ہیں:
وَالدَّارَقُطْنِيِّ، وَغَيْرِهَا، كَكِتَابِ السَّاجِيِّ، وَابْنِ حِبَّانَ، وَالْأَزْدِيِّ، وَالْكَامِلِ لِابْنِ عَدِيٍّ.إِلَّا أَنَّهُ ذَكَرَ كُلَّ مَنْ تُكُلِّمَ فِيهِ وَإِنْ كَانَ ثِقَةً، وَتَبِعَهُ عَلَى ذَلِكَ الذَّهَبِيُّ فِي الْمِيزَانِ، إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ، وَالْأَئِمَّةِ الْمَتْبُوعِينَ، وَفَاتَهُ جَمَاعَةٌ، ذَيَّلَهُمْ عَلَيْهِ الْحَافِظُ أَبُو الْفَضْلِ الْعِرَاقِيُّ فِي مُجَلَّدٍ.[تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 2/ 890]۔
کفایت اللہ صاحب کے نزدیک اس کی تاویل یہ ہے
قارئین دونوں عبارتوں کا موازنہ کریں تو صاف معلوم ہوگا کہ امام سیوطی نے دراصل امام عراقی ہی کی بات نقل کردی ہے ، بہرحال ان عبارتوں سے متعلق بھی ظن غالب یہی ہے کہ ان اہل علم نے امام ذہبی رحمہ اللہ کے مقدمہ والی بات کاخلاصہ پیش کیا ہے نہ کہ کتاب کے مشمولات پر کوئی تبصرہ کیا ہے ، اور پہلے وضاحت کی جاچکی ہے مقدمہ کی اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے استثناء بھی ذکر کیا ہے۔بالفرض مان لیا جائے کہ ان اہل علم نے کتاب کے مشمولات پر بات کی ہے تو انہوں نے اپنے پاس موجود ان نسخوں کی بنیاد پر یہ بات کی ہے جن میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ترجمہ نہیں ہے، لیکن چونکہ دیگرنسخوں میں یہ بات ثابت ہے لہٰذا ان علماء کا ان نسخوں سے مطلع نہ ہونا ان کے غیر معتبرہونے کی دلیل نہیں ہے۔
سیوطی اورعراقی نے اگر ذہبی کامنہج ہی نقل کیاہے کتاب کے مشمولات پر گفتگو نہیں کی ہے توبھی ان کی ذمہ داری تھی کہ اگرامام ابوحنیفہ کا ذکر ہواہے تواس کو بتاتے یہ نہیں کہتے ۔
إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ، وَالْأَئِمَّةِ الْمَتْبُوعِينَ
ان دونوں کا مطلقااس کو ذکر کرناہی بتارہاہے کہ میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کاذکر نہیں ہواہے اس کی ایک واضح مثال لیں۔
میں شعرائے لکھنوپر ایک کتاب لکھوں اوراس کا التزام کروں کہ صرف شعرائے لکھنوپر ہی کتاب لکھوں گا۔ہاں ہوسکتاہے کہ کسی وقت شعرائے دہلی کابھی تذکرہ کروں۔
اب میری کتاب میں اگرغالب کاتذکرہ موجود ہے تو کیامیری کتاب پر کلام کرتے وقت کوئی بھی بعد کاناقد صرف میری بات ذکر کرے گااوراس کو بیان نہیں کرے گاکہ میں نے اگرچہ التزام کیاتھاکہ صرف شعرائے لکھنو کاتذکرہ کروں گالیکن اس میں کچھ شعرائے دہلی کابھی ذکرہے اوراس لئے کہ انہوں نے اس کی وضاحت کردی تھی ؟
میرانہیں خیال ہے کہ اس دیوارپر لکھی بات کو سمجھنے کیلئے کسی فلسفہ اورایچ پیج اورماجستیر ودکتوراہ یااختصاص کی ضرورت ہوگی۔

کفایت اللہ صاحب نے بالفرض سے جوبات شروع کی ہے وہ بڑی نادرتحقیق ہے۔ علماء اورمحققین اس کو صرف اوراق میں ہی محفوظ نہ کریں بلکہ دامن دل سے باندھ لیں۔
ایک شخص کے ترجمہ پر اختلاف ہے۔کچھ لوگ اس کے ترجمہ کو الحاقی بتاتے ہین اوربعض کی ضد ہے کہ نہیں یہ درست ہے ایسے میں مصنف کی کتاب سے قریبی عہد کے افراد کے بیانات اوران کے نسخے ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے!سبحان اللہ ۔
گزارش یہ ہے کہ کفایت اللہ صاحب تحقیق کے موضوع پر لکھی کتابوں کو ذراغور سے پڑھیں کہ تحریف کیسے ہوتی ہے اس کو کیسے ثابت کیاجاتاہے محض نسخوں کے اختلاف کاحوالہ دے کر کہ یہ بھی صحیح اوروہ بھی صحیح درست طریقہ کارنہیں ہے۔
نسخے بھی صحت وضعف کے اعتبار سے متفاوت ہوتے ہیں۔ہرنسخہ یکساں نہیں ہوتا۔
ہماری دوبارہ کفایت اللہ صاحب سے گزارش ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کے ترجمہ والے نسخوں کامکمل تعارف کردیں تاکہ ہمیں بھی سمجھ میں آجائے کہ ایسے نسخے کتنے وثاقت رکھتے ہیں۔اوران نسخون کے مقابلہ میں جن میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ نہیں ہےکیاحال ہے۔ واضح ہوجائے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top