کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
تاریخ اسلام اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ
۔اولا ہم تاریخ الاسلام کو لیتے ہیں۔ یہ حافظ ذہبی کی مشہور کتابوں میں سے ہے یہاں پربھی انہوں نے تراجم کے تذکرے میں اپنے محدثانہ جوہردکھائے ہیں۔یہاں پر بھی وہ راویوں کی حیثیت پر بے محابہ کلام کرتے چلے جاتے ہیں۔ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرکے محدثین ،حفاظ اوررواۃ کی علم حدیث میں اوردیگر علوم وفنون میں مقام ومرتبہ کاتعین کرتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ کے ذکر میں انہوں نے جرح کاایک بھی لفظ نقل نہیں کیاہے۔بلکہ اس کے بالمقابل ہمیں اس میں یہ الفاظ ملتے ہیں۔
النعمان بن ثابت. تم. ن. بن زوطى الإمام العلم أبو حنيفة الفقيه مولى بني تيم الله بن ثعلبة
اس کے بعد حافظ ذہبی نے جوکچھ مناقب اورفضائل میں نقل کیاہے اس پورے کو ذکر کرناتطویل کا باعث ہوگا اوریہ شاید پوراایک مقالہ ہی بن جائے گالیکن ہم کچھ اقوال بطور نمونہ ضرور نقل کرناچاہیں گے۔
ولا يقبل جوائز السلطان تورعاً، ولهار وصناع ومعاش متسع، وكان معدوداً في الأجواد الأسخياء والأولياء الأذكياء، وع الدين والعبادة والتهجد وكثرة التلاوة وقيام الليل رضي الله عنه.
سلطان کے تحفائف قبول بطور احتیاط قبول نہیں کرتے ہیں اوراسی کے ساتھ ان کااپناپیشہ تھا اوربطور معاش وہ خوشحال تھے اوروہ منتخب سخیوں،اولیاء اللہ ذہین ترین لوگوں میں سے تھے اسی کے ساتھ دین عبادت تہجد اورکثرت تلاوت اورقیام اللیل کے اوصاف سے متصف تھے۔
ان ساری باتوں کا ہماری بحث سے کیا تعلق ہے ، جناب یہاں ابوحنیفہ کے مناقب پر نہیں ان کے ضعف پر بات ہورہی ہے لیکن ان تمام باتوں کا ہمارے موضوع سے کوئی تعلق ہیں نہیں ہے۔وقال أبو داود: رحم الله مالكاً، كان إماماً، رحم الله الشافعي، كان إماماً، رحم الله أبا حنيفة، كان إماماً، سمع ابن داسة منه.)
وقال الخريبي: ما يقع في أبي حنيفة إلا حاسد أو جاهل. وقال يحيى القطان: لا نكذب الله ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله. وقال علي بن عاصم: لو وزن علم أبي حنيفة بعلم أهل زمانه لرجح عليهم. وقال حفص بن غياث: كلام أبي حنيفة في الفقه أدق من الشعر لا يعيبه إلا جاهل. وقال الحميدي: سمعت ابن عيينة يقول: شيئان ما ظننتهما يجاوزان قنطرة الكوفة: قراءة حمزة، وفقه أبي حنيفة، وقد بلغنا الآفاق.) وعن الأعمش أنه سئل عن مسألة فقال: إنما يحسن هذا النعمان بن ثابت الخزاز، وأظنه بورك له في علمه.
یہ میں نے تھوڑاسانمونہ نقل کیاہے ۔اس میں کوئی بھی دیکھ سکتاہے کہ امام ابوحنیفہ کے ذکر میں جرح کا ایک کلمہ تک نہیں ہے۔
نیزاس طرح کے فضائل جو امام ابوحنفہ رحمہ اللہ سے متعلق بیان کئے جاتے ہیں وہ اکثر جھوٹے ہیں جیساکہ خود اسی کتاب میں منقول ایک روایت میں ایک بات موجود ہے۔
چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَرَوَى بِشْرُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ أَبِي حَنِيفَةَ إِذْ سَمِعْتُ رَجُلا يَقُولُ لِآخَرَ: هَذَا أَبُو حَنِيفَةَ لا يَنَامُ اللَّيْلَ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: وَاللَّهِ لا يَتَحَدَّثُ عَنِّي بِمَا لَمْ أَفْعَلْ فَكَانَ يُحْيِي اللَّيْلَ صَلاةً وَدُعَاءً وَتَضَرُّعًا.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 992]۔
یعنی کسی نے امام ابوحنیفہ کی موجودگی میں کہا کہ ابوحنیفہ رات میں سوتے نہیں ہیں (یعنی عبادت کرتے ہیں ) تو یہ سنتے ہی ابوحنیفہ نے کہا کہ واللہ میرے تعلق سے ایسی بات نہ کہی جائے جسے میں کرتا ہی نہیں ، چنانچہ امام صاحب نماز و دعاء وگریہ وزاری میں شب بیداری کیا کرتے تھے۔
قارئین غورکریں کہ اس روایت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جھوٹے فضائل کا بیان تو امام صاحب کی زندگی ہی سے شروع ہوگیا تھا اب اسی سے اندازہ لگالیں کہ ان کے چاہنے والوں نے اب تک کتنے جھوٹے فضائل بیان کئے ہوں گے۔
نیز اسی کتاب میں امام صاحب سے متعلق کچھ ایسی باتیں منقول ہوئی ہیں جو کوئی بھی سچامسلمان نہیں کرسکتا، مثلا:
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ السَّمَرْقَنْدِيُّ عَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَخْتِمُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَكْعَةٍ.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 993]
یعنی ابوحنیفہ ہر رات میں ایک رکعت میں قران ختم کرتے تھے۔
اب ذرا غورکریں کہ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو امام صاحب نہ صرف حدیث میں ضعیف تھے بلکہ ان کی فقاہت پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا، چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَمْ يَفْقَهْ مَنْ قَرَأَ القُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ[سنن الترمذي ت شاكر 5/ 198 واسنادہ صحیح]۔
جس نے تین دن سے کم میں قران کو ختم کیا وہ فقہ سے محروم ہے ۔
اب دیکھیں کہ اس کتاب میں بتایا جارہا ہے کہ امام ابوحنیفہ تین دن تو دور کی بات ایک ہی رات میں اوروہ بھی ایک ہی رکعت میں قران ختم کردیا کرتے تھے ۔
اب غورکریں اگر تین دن میں قران ختم کرنے والا فرمان نبوی کے مطالق فقاہت سے محروم ہے تو جوشخص ایک دن بھی نہیں بلکہ ایک رات کے اندر اور اس میں بھی صرف ایک رکعت میں قران ختم کردے ، اس سے بڑا کوئی فقاہت سے محروم شخص ہوسکتاہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ ایک اورگپ دیکھیں :
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَيُرْوَى أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ سَبْعَةَ آلافِ مَرَّةٍ.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 993]
یعنی جس مقام پر ابوحنیفہ کی وفات ہوئی اس مقام پر انہوں نے سات ہزر بار قران ختم کیا ۔
اب ایک اور لطیفہ دیکھیں ، جمشید صاحب مجھ ناچیز کے بارے میں لکھتے ہیں:
میرایہ شک گہراہوتاجارہاہے کہ آج کل آنجناب کم سورہے ہیں اس لئے بیداری میں بھی پوری طرح بیدار نہیں رہتے بلکہ جوچاہتے ہیں لکھ دیتے ہیں بغیر غوروفکر کئے ہوئے۔
اب کس کی نیندپوی نہیں ہواکرتی تھی یہ آپ سی کتاب میں دیکھیں:نیند پوری نہ ہوایک مرتبہ براہ کرم نیندپوری کرلیں اورپھر جولکھیں پورے ہوش وحواس مین لکھیں۔
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَعَنْ أَسَدِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ صَلَّى الْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ بِوُضُوءِ أَرْبَعِينَ سَنَةً.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 992]۔
یعنی امام ابوحنیفہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کے وضوء سے ادا کی ۔
اب ذرا انصاف کریں کہ جسے چالیس سال تک سونا نصیب نہ ہو وہ کس قدر مخبوط الحواس شخص ہوسکتا ہے۔
اسی لئے اللہ والے لوگ انہیں نصیحت کیا کرتے تھے اورموصوف کو ان خرافات سے روکتے تھے ، جیساکہ اسی کتاب میں ہے کہ کسی نے ان سے کہا کہ اللہ کا خوف کریں :
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ كُمَيْتٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلا يَقُولُ لِأَبِي حَنِيفَةَ: اتَّقِ اللَّهَ، فَانْتَفَضَ وَاصْفَرَّ وَأَطْرَقَ وَقَالَ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا مَا أَحْوَجُ النَّاسِ كُلَّ وَقْتٍ إِلَى مَنْ يَقُولُ لَهُمْ مِثْلَ هَذَا.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 993]
بلکہ اسی کتاب میں ہے کہ کسی نے انہیں زندیق تک کہہ ڈالا
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَقِيلَ: إِنَّ إِنْسَانًا اسْتَطَالَ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَقَالَ لَهُ: يَا زِنْدِيقُ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ هُوَ يَعْلَمُ مِنِّي خِلافَ مَا تَقُولُ.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 993]
اس پوری کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توثیق کے سلسلے میں صرف ابن معین ہی کا قول ملتا ہے ، جو امام ابن معین رحمہ اللہ سے ثابت ہی نہیں ہے جیساکہ پہلے تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔وقال صالح بن محمد جزرة وغيره: سمعنا ابن معين يقول: أبو حنيفة ثقة. وروى أحمد بن محمد بن محرز عن ابن معين قال: لا بأس به، لم يهم بكذب
نیز بفرض ثابت امام ابن معین کی توثیق والی روایات میں توثیق سے مراد اصطلاحی توثیق نہیں ہے بلکہ دیانت اور سچائی کے لحاظ سے توثیق ہے ، کیونکہ خودامام ابن معین نے انہیں حدیث میں صریح طور پر ضعیف بتلایا ہے ، اس کی مزید تفصیل اگلے مراسلے میں آرہی ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔