• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کا فتویٰ بابت مدت رضاعت!!!

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
امام ابوحنیفہ کا مبلغ علم!!!
تصویر کا ایک رخ

حنفی مقلدین حضرات اپنے امام کے علم و فضل کو بیان کرتے ہوئے انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ میری معلومات کی حد تک آج تک کوئی مقلد صحیح سند کے ساتھ ابوحنیفہ کی علمیت کو ثابت نہیں کر پایا اور صرف خالی باتوں سے ابوحنیفہ کو سب سے بڑا مجتہد اور سب سے بڑا فقہی ثابت کر نا چاہتا ہے۔ کیا محض باتوں سے بھی کبھی کچھ ثابت ہوا ہے ؟؟؟!!!

تصویر کا دوسرارخ

یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے جسے ہم اکثر بیشتر دیکھتے ہیں لیکن میں آپ کو تصویر کا دوسرا رخ احناف کی معتبر کتابوں سے دکھانا چاہتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں

احناف کی انتہائی معتبر کتاب قدوری میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک رضاعت کی مدت ڈھائی سال ہے۔ اسکے برعکس اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمائی ہے۔

اندھی تقلید

اب بجائے اسکے کہ حنفی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ اقرار کرتے کہ ہمارے امام سے غلطی ہوگئی ہے۔ الٹا اپنے امام کے اس خلاف قرآن فتوے کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شبیراحمد عثمانی دیو بندی صاحب اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہ جو رضاعت کی مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں انکے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔

استغفراللہ اندھی تقلید کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ شبیر صاحب یہ بتانے میں ناکام رہے کہ وہ دلیل کہاں ہے جسکی بنیاد پر ابوحنیفہ نے یہ خلاف قرآن فتوی دیا ؟؟؟

صاحب ہدایہ نے قرآن کی آیت جس میں حمل اور رضاعت کی مدت کو جمع کرکے ڈھائی سال بیان کیا گیاہے۔ اس آیت کو ابوحنیفہ کی دلیل بتایا ہے اور اپنے امام کے ناجائز دفاع میں لغت کا سہارا لے کر حمل سے مراد بچے کو گود میں اٹھانا بتایا ہے۔ صاحب قدوری اور صاحب ہدایہ ابوحنیفہ کی اندھی تقلید میں یہ بھول گئے کہ قرآن کی تفسیر حدیث سے کی جاتی ہے لغت سے نہیں۔ حدیث کو چھوڑ کر لغت کا استعمال تو منکر حدیث کرتے ہیں۔


تین فیصلہ کن صورتیں​


اس بحث کا نتیجہ تین صورتوں میں نکلتا ہے جس میں سے کسی ایک صورت کو ماننا لازمی و ناگزیر ہے۔

پہلی صورت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ امام ابوحنیفہ نے پورا قرآن نہیں پڑھا تھا۔ اگر انہوں نے پورا قرآن پڑھا ہوتا تو انکی نظر سے یقیناًقرآن کا وہ مقام ضرور گزار ہوتا جہاں اللہ رب العالمین نے رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمائی ہے۔

دوسری صورت میں اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ امام ابوحنیفہ نے پورا قرآن پڑھا تھا۔ تو مقلدین کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پورا قرآن پڑھنے کے باوجود بھی انہوں نے جان بوجھ کر قرآن کے خلاف فتوی دیا۔

تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتابوں میں امام ابو حنیفہ سے منسوب یہ فتوی فقہ حنفی تحریر کرنے والوں کا جھوٹ ہے جو انہوں نے امام ابوحنیفہ کے ذمہ لگا دیا ہے۔

فیصلہ آپ کے ہاتھ

پہلی صورت کو تسلیم کرنے کی صورت میں مقلدین کے پاس امام ابوحنیفہ کی تقلید کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ کیونکہ جس شخص نے قرآن بھی پورا نہ پڑھا ہو ،وہ امامت کا حق دار کیسے ہو سکتاہے؟!

اگرحنفی بھائی دوسری صورت کو قبول کرلیتے ہیں تو اپنے امام کی مخالفت قرآن کا کیا جواب دینگے؟ اوراس کے بعد کیا وہ اس قابل رہیں گے کہ دوسروں کو انکی تقلید کی دعوت دے سکیں؟!

مقلدین کی طرف سے آخری صورت کو تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ فقہ حنفی جھوٹ اور افتراء کا پلندہ ہے۔ جس سے براء ت واجب ہے۔

اب ہمارے بھائی یہ بتا دیں کہ ان کو مذکورہ تین صورتوں میں سے کون سی صورت قبول ہے۔ اور اگر ان کے نزدیک ان تین صورتوں کے علاوہ بھی کوئی اور صورت ہے تو برائے مہربانی آگاہ کردیں۔ ان کی طرف سے جواب کا منتظر رہونگا۔

تنبیہہ: نامناسب الفاظ و عبارات میں ترمیم کی گئی ہے۔ ازراہ کرم اپنی تحریر میں محدث فورم کے قوانین کا، دیگر یوزرز اور دیگر مکتب فکر کے پیروی کرنے والوں کے جذبات کا احترم ملحوظ رکھیں۔ انتظامیہ
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
شاہد نذیر صاحب کے مقصد سے قطع نظر میں تو بہر جال صرف ان لوگوں کے لئیے یہ تحریر پیش کر رہا ہوں جو حق کو جاننا چاہتے ہیں۔

یہ بات ذہن میں رکھیں کہ احناف کے مدارس دو سال کی رضاعت کا فتوی دیتے ہیں۔

Answer: Darul Ifta Deoband India

DAR-UL-IFTA | JAMIA BINORIA


اس میں درمختار کا حوالہ ضرور پڑھیں) )
بہشتی زیور اور فتاوی رشیدیہ میں بھی دو سال کی رضاعت فتوی ہے ۔


اب ذرا یہ تحریر پڑھیں

صاحب ہدایہ نے یہاں دو قسم کی عورتوں کا ذکر فرمایا ہے اور وہ دو قسم کی مدت بیان کرکے دونوں قسموں کو قرآن و حدیث سے ثابت کیا ہے.

1 پہلی قسم

وہ عورت جو خاوند کے نکاح میں ہے اور بغیر اجرت کے لئے بچے کو دودھ پلارہی ہے اس بچے کی مدت رضاعت اڑھائی سال بیان کی ہے اور دلیل میں قرآن پاک کی آیت پیش فرمائی ہے. وحمله وفصاله ثلاثون شهرا.سورة الاحقاف. اٹھانا بچے کو اور دودھ چھڑانا اس کا تیس 30 ماہ اڑھائی سال میں اس آیت میں حمل کے دو معنی ہوسکتے ہیں پیٹ میں اٹھانا یا گود میں اٹھانا اگر یہاں پیٹ میں اٹھانا مراد ہو تو صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت بھی اڑھائی سال اور دودھ چھڑانے کی زیادہ سے زیادہ مدت بھی. اڑھائی سال ہوئی جیسے کوئی شخص کہے فلاں شخص کے ذمہ ایک ہزار روپیہ اور پانچ بوری گندم اڑھائی سال کے اندر ادا کرنا ہے تو ایک ہزار روپیہ کیلئےبھی ایک اڑھائی سال پانچ بوری گندم کے لئے بھی اڑھائی سال ہوں گے کوئی یہ نہ کہے گا کہ چونکہ دو چیزوں کا بیان ہے اس لئے سوا سال ہزار روپیہ کی اور سوا سال پانچ5 بوری گندم کی اور مجموعہ اڑھائی سال ہے ہدایہ مع عنایہ. اگر کوئی شخص یہاں حمل کا معنی پیٹ میں اٹھانے کا لے اور اڑھائی سال دونوں کی مجموعی مدت قرار دے تو وہ یہ بتائے کہ جو بچہ چھ ماہ ماں کے پیٹ میں رہا وہ تو دو سال دودھ پئے گا جو 9 ماہ پیٹ میں رہا وہ پونے دو سال جو ڈیڑھ سال ماں کے پیٹ میں رہا وہ ایک سال دودھ پئے اور جو دو سال ماں کے پیٹ میں رہے وہ چھ ماہ دودھ پئے اور بعض کے نزدیک تو حمل چار سال تک بھی رہ سکتا ہے تو ایسے بچے پر تو ایک قطرہ دودھ بھی حرام ہوگا اسلئےآسان مطلب یہ ہے کہ حمل سے گود میں اٹھانا مراد لیا جائے تو آیت کا معنی ہوگا اور گود میں اٹھانا اور دودھ چھڑانا اس کا تیس30 ماہ یعنی اڑھائی سال میں.

تفسیر احکام القرآن ص391 ج1 تحت اشراف مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ

2 دوسری قسم

دوسری قسم وہ عورت ہے جس کو خاوند نے طلاق دیدی ہے اور وہ اب بچے کو اجرت پر دودھ پلارہی ہے اس میں مرد .عورت اور بچے تینوں کے حقوق کو مدنظر رکھ کر دو سال مدت رضاعت کی اجرت لینے کا حق دیا ہے اور اس پر صاحب ہدایہ سورۃ البقرہ والی آیت اور حدیث‎ لا ارضاع بعد الحولین پیش فرمارہے ہیں چناچہ اللہ تعالی ان عورتوں کا ذکر فرماتے ہوئے جن کو طلاق مل چکی ہے اور
وہ اجرت پر دودھ پلارہی ہیں.فرماتے ہیں. والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعة و علی المولود له رزقهن وکسوتهن بالمعروف سورة البقرہ233 اور اجرت پر دودھ پلانے والی مائیں اپنی اولاد کو دودھ پلائیں پورے دو سال اس خاوند کے لئے جو اجرت والی مدت رضاعت کو پورا کرنا چاہے اور والد پر ضروری ہے کہ ان دو سالوں میں اس عورت کو نان و نفقہ دے رواج کے موافق. اسکے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں پھر دو سال کے بعد اگر فان اراد افصالا اگر وہ دونوں دودھ چھڑانے کا ارادہ کریں عن تراض منهما و تشاور باہمی رضامندی اور مشورہ سے تو فلا جناح عليهما تو ان پر كوئی گناہ نہیں فان ارادا فصالا عن تراض فان ذکر بحرف الفاء بالتراضی ولو کان الرضاع بعدہ حراما یعلق به لانه لا اثر للتراضی فی ازالة المحرم شرعا. عنایہ علی الہدایہ ص 350 حاشیہ نمبر 14‎ ‎اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ آیت فان ارادا افصالا کی تفسیر میں فرماتے ہیں . قبل الحولین او بعد الحولین تفسیر ابن جریر بسند حسن ص 302 ج 2 یعنی دو سال سے پہلے چھڑانا چاہیں یا دو سال کے بعد اور حضرت عطاء رحمہ اللہ بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں اگر چاہے تو دو سال سے زیادہ پلائے .تفسیر ابن جریر ص 302 ج 2

احناف کو کسی بات پر ضد نہیں ہے، امام صاحب رحمہ اللہ اڑھائی سال کے قائل ہیں اور صاحبین دو سال کے اس لئے احناف ان میں تطبیق اس طرح دیتے ہیں کہ دودھ پلانے میں دو سال کی مدت پر اتفاق ہے کہ دودھ حلال ہے . چھ ماہ میں اختلاف ہے .جہاں حرام حلال میں تعارض ہو تو اسے چھوڑ دینا چاہئے تو دودھ پلانے میں فتوی دو سال پر مناسب ہے تاکہ مشکوک دودھ جو خلاف تقوی ہے اس سے پرہیز ہوجائے . اور یہ بات بھی حدیث کے عین موافق ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان دو کے درمیان کچھ متشابہات ہیں ان سے بچو.

تنبیہہ: ازراہ کرم دیگر اراکین کے بارے میں لکھتے وقت احتیاط سے کام لیجئے۔ پوسٹ میں ترمیم کی گئی ہے : انتظامیہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا شاہد بھائی
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ احناف کے مدارس دو سال کی رضاعت کا فتوی دیتے ہیں۔
آفتاب بھائی آپ کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگی۔بس یہی مقصود ہے شاہد نزیر بھائی کا بھی کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں امام ابو حنیفہ کی بات نہ مانی جائے جو کہ امام ابو حنیفہ صاحب خود بھی کہا کرتے تھے۔اسی طرح آپ کو کوئی بھی امام صاحب کا فتوی قرآن و حدیث کے خلاف ملے۔آپ اس فتوے کو چھوڑ دیں جس طرح مدت رضاعت کے معاملے میں احناف کے مدارس نے ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔بھائی اسی طرح ہمارے درمیان اختلاف ختم ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
شاہد نذیر صاحب کے مقصد سے قطع نظر میں تو بہر جال صرف ان لوگوں کے لئیے یہ تحریر پیش کر رہا ہوں جو حق کو جاننا چاہتے ہیں۔
حق یہ نہیں جو آفتاب صاحب نے بتایا ہے یہ تو خلط مبحث کے ذریعے لوگوں کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹانے کی کوشش ہے۔ آفتاب بھائی، آپ کو تو اس بات کا جواب دینا تھا کہ امام ابو حنیفہ نے قرآن کے خلاف جو فتویٰ دیا اس کی اصل وجہ کیا تھی۔ قرآن کی مخالفت؟ قرآن سے لاعلمی؟ یا کچھ اور؟

یہ بات ذہن میں رکھیں کہ احناف کے مدارس دو سال کی رضاعت کا فتوی دیتے ہیں۔

Answer: Darul Ifta Deoband India

DAR-UL-IFTA | JAMIA BINORIA


اس میں درمختار کا حوالہ ضرور پڑھیں) )
بہشتی زیور اور فتاوی رشیدیہ میں بھی دو سال کی رضاعت فتوی ہے ۔
ہم یہاں آپ سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ صاحب درمختار، صاحب بہشتی زیور اور صاحب فتاوی رشیدیہ، ابوحنفیہ کے امام تھے یا ابوحنیفہ ان لوگوں کے امام؟ کس بنیاد پر ان مقلد حضرات نے اپنے امام کے قول کے خلاف فتویٰ دیا؟ کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ امام ابوحنفیہ کا مذکورہ فتویٰ قرآن کی مخالفت پر مبنی ہے؟

ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ امام صاحب کے مقلدین یہ ظاہر کرکے کہ مقلدین کا علم ان کے امام کے علم سے زیادہ ہے دو سال مدت رضاعت کا فتویٰ کیوں دیتے ہیں۔ ہمارا اعتراض تو یہ ہے کہ یا تو تسلیم کریں کہ آپکے امام کے اس فتویٰ کی بنیاد قرآن سے لاعلمی یا اس کی مخالفت کی وجہ سے ہے ورنہ وہ دلیل ذکر کریں جس کی رو سے رضاعت ڈھائی سال بنتی ہو۔

اب ذرا یہ تحریر پڑھیں

صاحب ہدایہ نے یہاں دو قسم کی عورتوں کا ذکر فرمایا ہے اور وہ دو قسم کی مدت بیان کرکے دونوں قسموں کو قرآن و حدیث سے ثابت کیا ہے.

1 پہلی قسم

وہ عورت جو خاوند کے نکاح میں ہے اور بغیر اجرت کے لئے بچے کو دودھ پلارہی ہے اس بچے کی مدت رضاعت اڑھائی سال بیان کی ہے اور دلیل میں قرآن پاک کی آیت پیش فرمائی ہے. وحمله وفصاله ثلاثون شهرا.سورة الاحقاف. اٹھانا بچے کو اور دودھ چھڑانا اس کا تیس 30 ماہ اڑھائی سال میں اس آیت میں حمل کے دو معنی ہوسکتے ہیں پیٹ میں اٹھانا یا گود میں اٹھانا اگر یہاں پیٹ میں اٹھانا مراد ہو تو صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت بھی اڑھائی سال اور دودھ چھڑانے کی زیادہ سے زیادہ مدت بھی. اڑھائی سال ہوئی جیسے کوئی شخص کہے فلاں شخص کے ذمہ ایک ہزار روپیہ اور پانچ بوری گندم اڑھائی سال کے اندر ادا کرنا ہے تو ایک ہزار روپیہ کیلئےبھی ایک اڑھائی سال پانچ بوری گندم کے لئے بھی اڑھائی سال ہوں گے کوئی یہ نہ کہے گا کہ چونکہ دو چیزوں کا بیان ہے اس لئے سوا سال ہزار روپیہ کی اور سوا سال پانچ5 بوری گندم کی اور مجموعہ اڑھائی سال ہے ہدایہ مع عنایہ. اگر کوئی شخص یہاں حمل کا معنی پیٹ میں اٹھانے کا لے اور اڑھائی سال دونوں کی مجموعی مدت قرار دے تو وہ یہ بتائے کہ جو بچہ چھ ماہ ماں کے پیٹ میں رہا وہ تو دو سال دودھ پئے گا جو 9 ماہ پیٹ میں رہا وہ پونے دو سال جو ڈیڑھ سال ماں کے پیٹ میں رہا وہ ایک سال دودھ پئے اور جو دو سال ماں کے پیٹ میں رہے وہ چھ ماہ دودھ پئے اور بعض کے نزدیک تو حمل چار سال تک بھی رہ سکتا ہے تو ایسے بچے پر تو ایک قطرہ دودھ بھی حرام ہوگا اسلئےآسان مطلب یہ ہے کہ حمل سے گود میں اٹھانا مراد لیا جائے تو آیت کا معنی ہوگا اور گود میں اٹھانا اور دودھ چھڑانا اس کا تیس30 ماہ یعنی اڑھائی سال میں.

تفسیر احکام القرآن ص391 ج1 تحت اشراف مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
نہایت افسوس کی بات ہے کہ آپ لوگوں نے محض اپنے امام کے ناکام دفاع کی کوشش میں قرآن میں تضاد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔صاحب ہدایہ پر حیرت ہے۔ وہ ایک خلاف قرآن بات یعنی ڈھائی سال مدت رضاعت کو قرآن ہی سے ثابت کرکے لوگوں کو یہ بتارہے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک قرآن میں بھی تضاد ہے بھلا یہ ممکن ہے کہ اللہ ایک جگہ فرمائیں کہ رضاعت کی مدت دو سال ہے اور دوسری جگہ فرمائیں کہ ڈھائی سال۔ استغفراللہ

صاحب ہدایہ جس آیت کا مطلب ڈھائی سال رضاعت مدت بتارہے ہیں کون سے مفسر نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے؟ اور صاحب ہدایہ نے یہ تفسیر کس حدیث کی بنیاد پر کی ہے؟ صاحب ہدایہ نے صرف لغت کی بنیاد پر اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ بولا ہے کیونکہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اسکی تشریح کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور نہ تو اللہ نے قرآن میں کہیں رضاعت کی مدت کو ڈھائی سال بیان فرمایا ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی کسی آیت کی تفسیر ڈھائی سال رضاعت مدت کی صورت میں کی ہے۔ صاحب ہدایہ نے صرف امام ابو حنیفہ کے دفاع میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا گوارا کر لیا۔ ایسی تقلید سے اللہ ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔ آمین۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ آیت فان ارادا افصالا کی تفسیر میں فرماتے ہیں . قبل الحولین او بعد الحولین تفسیر ابن جریر بسند حسن ص 302 ج 2 یعنی دو سال سے پہلے چھڑانا چاہیں یا دو سال کے بعد اور حضرت عطاء رحمہ اللہ بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں اگر چاہے تو دو سال سے زیادہ پلائے .تفسیر ابن جریر ص 302 ج 2
اس بات کا زیر بحث مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں یہاں صرف گنجائش کی بات کی جارہی ہے کہ اگر دودھ چھڑوانے میں تھوڑی تاخیر بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔ اور حضرت عطاء رحمہ اللہ کے قول سے بھی امام صاحب کے فتویٰ کو کوئی تقویت نہیں ملتی کیونکہ عطاء رحمہ اللہ رضاعت کی مدت ڈھائی سال بیان نہیں کر رہے۔ اس کے برخلاف ہم بات کر رہے ہیں کہ ایک طرف رب العالمین کا حکم ہے کہ رضاعت کی مدت دوسال ہے اور دوسری جانب امام صاحب کا فتویٰ ہے کہ رضاعت کی مدت ڈھائی سال ہے۔

احناف کو کسی بات پر ضد نہیں ہے، امام صاحب رحمہ اللہ اڑھائی سال کے قائل ہیں اور صاحبین دو سال کے اس لئے احناف ان میں تطبیق اس طرح دیتے ہیں کہ دودھ پلانے میں دو سال کی مدت پر اتفاق ہے کہ دودھ حلال ہے . چھ ماہ میں اختلاف ہے .جہاں حرام حلال میں تعارض ہو تو اسے چھوڑ دینا چاہئے تو دودھ پلانے میں فتوی دو سال پر مناسب ہے تاکہ مشکوک دودھ جو خلاف تقوی ہے اس سے پرہیز ہوجائے . اور یہ بات بھی حدیث کے عین موافق ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان دو کے درمیان کچھ متشابہات ہیں ان سے بچو.
بھائی آپ کو کس نے کہا کہ امام صاحب اور صاحبین کے فتوؤں میں تطبیق دیں۔ آپ تو صرف اس بات کا جواب دیں کہ امام صاحب نے اللہ کے کلام کی مخالفت کیوں کی ہے؟

کیا آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے مذہب میں امام صاحب کے فتوے کے آگے صاحبین کے فتوؤں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
امام ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ دینا جائز ہے بلکہ واجب ہے اگرچہ ہمیں ان کی دلیل کا علم نہ ہو (ردالمحتار١ - ٤٩)

پس ثابت ہوا کہ حنفی مذہب میں کچھ مقلدین کے اپنے امام کے خلاف دو سال رضاعت کا جو فتویٰ دیا ہے وہ ان کے اپنے اصولوں کی وجہ سے باطل ہے۔

آفتاب صاحب یہ تو تھا آپکے موضوع سے ہٹے ہوئے مغالطات کا ازالہ۔ برائے مہربانی میرے موضوع کو دوبارہ بغور پڑھیں اور موضوع سے متعلق جواب دیں ورنہ آپ کے لئے خاموشی بہترہے۔


تنبیہہ: شاہد نذیر بھائی، اپنی پوسٹ میں الفاظ کا چناؤ احتیاط سے کریں۔ محدث فورم کے کئی قوانین کی خلاف ورزی بار بار ہو رہی ہے۔ ازراہ کرم خیال رکھیں۔ اس پوسٹ میں بھی نامناسب الفاظ و عبارات میں ترمیم کی گئی ہے۔ انتظامیہ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
آفتاب صاحب یہ تو تھا آپکے موضوع سے ہٹے ہوئے مغالطات کا ازالہ۔ برائے مہربانی میرے موضوع امام ابوحنیفہ کا مبلغ علم کو دوبارہ بغور پڑھیں اور موضوع سے متعلق جواب دیں ورنہ آپ کے لئے خاموشی بہترہے۔
شاہد نذیر بھائی جان اس طرح بات نہ کریں ، اگر آفتاب بھائی کی جگہ میں ہوتا تو شاید مجھے اس فورم پر دوبارہ آنے میں شرم محسوس ہوتی،
اس طرح انداز گفتگو آفتاب بھائی اور دوسرے لوگوں کا حوصلہ توڑتی ہے.
کوئی بندہ اگر سوال سمجھ نہیں پایا یا اس بندے کا جواب آپ کے حساب سے صحیح نہیں ہے تو اس طرح بات کرنا ٹھیک معلوم نہیں ہوتا.

اور ایک بات شاہد نذیر بھائی سے کے میری اس عبارت میں کوئی بات آپکو ٹھوس محسوس ہو رہی ہو تو معاف کر دینا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا شاہد نزیر بھائی۔بہت زبردست۔اللہ آپ کے علم میں اضافہ فرمائے آمین۔آپ کا جواب پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔
اور ایک بات شاہد نذیر بھائی سے کے میری اس عبارت میں کوئی بات آپکو ٹھوس محسوس ہو رہی ہو تو معاف کر دینا
"ٹھوس" نہیں بھائی "ٹھیس"
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
میں نے حق بیان کردیا ۔ مجھے خاموش رہنے کہا جائے یہ نہیں ۔ قرآن سے دلائل دیے ۔ اس کو اگر کوئی نہ مانے تو میں کیا کہ سکتے ہوں ۔ صاحب ہدایہ نے جو دلائل دیے یقینا وہ امام ابو حنیفہ کو بھی معلوم ہوں گے ۔ اسلئیے انہوں نے ڈھائی سال کا فتوی دیا ۔ اگر آپ جذبات سے ہٹ کر صرف دلائل سے جواب دیتے تو زیادہ بہتر تھا ۔ صاحب ہدایہ بھی ڈھائی سال کی رضاعت کے سلسے میں وضاحت کر رہے رہے تھے ۔
میرا اس فورم پر آنے کا مقصد کسی کو قائل کرنا نہیں ۔ نہ کسی کو دلائل سے زیر کر کے کوئی دنیاوی فتح حاصل کرنا ہے ۔ اصل فتح تو آخرت کی ہے ۔ بس میری تو یہ دعا ہے اللہ ہم سب کو حق کی طرف راہنمائی فرمائے اور اس پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ جو لوگ حق کے متلاشی ہیں وہ دلائل کو دیکھ کر حق تعین کر سکتے ہیں جو میرا مقصد تھا ۔ باقی اب آخرت میں فیصلہ ہو گا کون حق پر تھا اور کون اپنی ضد پر قائم ۔
 
Top