مولانارئیس احمد ندوی کی تالیف "لمحات"کے مطالعہ کے بعد کچھ لمحہ توغرق حیرت ہوگیاکہ کوئی مصنف اس طرح کی دیدہ دلیری سے بھی کام لے سکتاہے اورعلماء کی عبارت میں کتربیونت،کانٹ چھانٹ،من مانامطلب نکال سکتاہے ۔موصوف نے اپنی کتاب میں جس طرح کے استنباط اوراستخراج کئے ہیں وہ سلفی حضرات کے اجتہاد کے مبلغ کاپتہ دیتی ہیں۔ ان کے اجتہاد کی گہرائی اورگیرائی پر آگے کلام ہوگا۔
موصوف کاحدود اربعہ جب انٹرنیٹ پر تلاش کیاگیاتوپتہ چلاکہ موصوف دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فارغ التحصیل ہیں اورجامعہ سلفیہ بنارس میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔یہ معلوم ہونے کے بعد کہ موصوف ندوہ سے تعلق وارتباط رکھتے ہیں۔ ان کی اس کتاب پر مزید حیرت اورافسوس ہوا۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء اپنے اعتدال اور توازن کیلئے مشہور ہے۔ اس میں حنفی علماء کے ساتھ سلفی علما ء بھی درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔ دار ا لعلو م ند و ۃ العلماء کے قیام کی کوششوں میں اہل حدیث علماء بھی ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ یہ ندوۃ کے اعتدال اورتوازن کا ہی نمونہ ہے کہ وہاں احادیث کے درس میں ترجیح اورمسلک کااثبات نہیں کیاجاتابلکہ صرف تمام ائمہ کرام کے دلائل ذکر کردیئے جاتے ہیں۔ ایسے مثالی مدرسہ سے فارغ التحصیل طالب علم شدت پسندی میں اتناآگے نکل جائے کہ امام ابو حنیفہ کے خلاف اس طرح کی کتابیں لکھتاپڑھے ۔ نہایت قابل افسوس ہے!
موصوف اپنی کتاب میں یہ نقطہ نظرملحوظ رکھتے ہیں کہ شیخ کوثری کی تردید کرتے جائیں۔ ان کے بارے میں مختلف مقامات پر مختلف باتیں نقل کرتے ہیں ان کو ایک شکوہ شیخ کوثری سے یہ ہے کہ وہ رواۃ حدیث پر من ماناکلام کرتے ہیں۔ان کے شکوہ کی ہم قدر کرتے ہیں
لیکن افسوس کہ موصوف خود اس میں اس سے زیادہ مبتلاہیں۔
حافظ جعابی کومتعدد مقام پر موصوف کذاب لکھتے ہیں۔ اسی بحث میں جلد۲/197میں جعابی کو کذاب کہاہے۔
حالانکہ ہم نے میزان الاعتدال اورلسان المیزان اورالمغنی فی الضعفاء کی جانب رجوع کیا۔ کہیں بھی ہم نہیں ملاکہ کسی نے ان کو کذاب کہاہو۔ یہ بات صرف ملتی ہے فاسق رقیق الدین(میزان الاعتدال3/670،لسان المیزان6/280،المغنی فی الضعفاء)
اصل بات یہ ہے کہ اولاوہ قاضی بنے۔ اسلئے بہت سے اہل حدیث حضرات ان سے ناراض ہوگئے (سیر اعلام النبلاء)اوراسی ناراضی میں انہوں نے ان پر کلام کیا۔ جیساکہ امام مالک نے ناراضگی کی حالت میں محمد بن اسحاق پر دجال من دجاجلۃ کہاتھا۔امام نسائی نے احمد بن صالح مصری پر حالت غضب میں کلام کردیاتھا۔
دوسرے یہ کہ وہ متکلمین کے مسلک کی جانب مائل ہوگئے تھ(سیر اعلام النبلاء) اس بناء پر محدثین کا غصہ ان پر اوربھڑک گیا۔ ورنہ یہ نہ ہوتاتوپھر محدثین وہ سارے احتمالات ذکر کرتے جو دوسرے روات میں کرتے ہیں۔
آخر یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ امام ابوداؤد اپنے بیٹے کو کذاب کہتے ہیں۔ دوسرے محدثین ان کو کذب بیانی سے متصف کرتے ہیں، ان کو درکنار کردیاجاتاہے لیکن بے چارے جعابی کی جانب سے کوئی مدافعت نہیں ہوتی۔ جب کہ یہ الزامات قطعی نہیں بلکہ اس میں کئی احتمالات موجود ہیں۔
ان سب قیل وقال کے بعد بھی یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ جعابی پر ہرچند کہ فسق کا الزام ہے لیکن کسی نے بھی انہیں کذاب یاروایت وضع کرنے والا نہیں کہا۔بلکہ ان کی تعریف اورمدح میں جواقوال ہیں وہ ان پرالزامات عائد کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہیں اورپتہ چلتاہے کہ وہ حفظ وضبط میں یکتائے روزگار تھے۔ لیکن یہ موصوف کی دیدہ دلیری ہے کہ وہ ایک راوی کو ایک ایسے لفظ سے متہم کررہے ہیں جس سے دیگر محدثین نے احتیاط برتاہے!
پھر سب سے بڑی بات یہ کہ ہم نے مان لیاکہ چلو حافظ ابن حجر اورحافظ ذہبی کا فیصلہ کہ فاسق رقیق الدین ،لیکن شروع سے ہی توایسامعاملہ نہیں تھا۔بعد میں ایساہوا۔توایک زمانے تک موصوف صحیح اورنیک اورثقہ تھے بعد میں ان میں تغیر آیا۔توپھر مطلقاکذاب کہناکس حیثیت سے ہے اوران کی تمام روایات کو ناقابل اعتبار ٹھہرانے کی کیادلیل بنتی ہے؟
موصوف کاحدود اربعہ جب انٹرنیٹ پر تلاش کیاگیاتوپتہ چلاکہ موصوف دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فارغ التحصیل ہیں اورجامعہ سلفیہ بنارس میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔یہ معلوم ہونے کے بعد کہ موصوف ندوہ سے تعلق وارتباط رکھتے ہیں۔ ان کی اس کتاب پر مزید حیرت اورافسوس ہوا۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء اپنے اعتدال اور توازن کیلئے مشہور ہے۔ اس میں حنفی علماء کے ساتھ سلفی علما ء بھی درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔ دار ا لعلو م ند و ۃ العلماء کے قیام کی کوششوں میں اہل حدیث علماء بھی ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ یہ ندوۃ کے اعتدال اورتوازن کا ہی نمونہ ہے کہ وہاں احادیث کے درس میں ترجیح اورمسلک کااثبات نہیں کیاجاتابلکہ صرف تمام ائمہ کرام کے دلائل ذکر کردیئے جاتے ہیں۔ ایسے مثالی مدرسہ سے فارغ التحصیل طالب علم شدت پسندی میں اتناآگے نکل جائے کہ امام ابو حنیفہ کے خلاف اس طرح کی کتابیں لکھتاپڑھے ۔ نہایت قابل افسوس ہے!
خدااگروقت اورفرصت نصیب کرے تو پوری کتاب کاایک تفصیلی جائزہ لیاجائے گا جس میں موصوف کی بے اعتدالیوں، تناقضات،من موجی استدلال کو واضح کیاجائے۔لیکن فی الحال ہم اپنی بحث کو صرف اورصرف امام ابوحنیفہ کی تابعیت تک محدود رکھتے ہیں۔شاید موصوف کی طرح کے چند ندوہ کے فارغ التحصیل سلفیوں کو دیکھ کرہی وہاں کے ایک قابل قدراستاد مولانا سید سلمان الحسنی والحسینی نے سلفیوں کے خلاف اتناکڑاموقف اختیار کیا اوربنگلور میں ایک کانفرنس میں سلفی حضرات کی بدزبانی اوربدکلامی کے خلاف سخت تقریر کی۔ یہ پوری تقریرمحدثین کے نزدیک فقہ اورفقہاء کی اہمیت کے نام سے شائع ہوچکی ہے اورعوام وخواص نے اس کوپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھاہے۔
موصوف اپنی کتاب میں یہ نقطہ نظرملحوظ رکھتے ہیں کہ شیخ کوثری کی تردید کرتے جائیں۔ ان کے بارے میں مختلف مقامات پر مختلف باتیں نقل کرتے ہیں ان کو ایک شکوہ شیخ کوثری سے یہ ہے کہ وہ رواۃ حدیث پر من ماناکلام کرتے ہیں۔ان کے شکوہ کی ہم قدر کرتے ہیں
لیکن افسوس کہ موصوف خود اس میں اس سے زیادہ مبتلاہیں۔
حافظ جعابی کومتعدد مقام پر موصوف کذاب لکھتے ہیں۔ اسی بحث میں جلد۲/197میں جعابی کو کذاب کہاہے۔
حالانکہ ہم نے میزان الاعتدال اورلسان المیزان اورالمغنی فی الضعفاء کی جانب رجوع کیا۔ کہیں بھی ہم نہیں ملاکہ کسی نے ان کو کذاب کہاہو۔ یہ بات صرف ملتی ہے فاسق رقیق الدین(میزان الاعتدال3/670،لسان المیزان6/280،المغنی فی الضعفاء)
ہم نے ان کے حالات میں غورکیا۔ہمیں کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس سے پتہ چلتاکہ موصوف فاسق تھے۔ ایک شیعت کا الزام ہے۔لیکن شیعت کاالزام بہت سوں پر لگاہے ۔ نفس شیعت ثقاہت کے منافی نہیں بلکہ رافضیت منافی ہے۔ دوسرایہ کہ ابن عمید کی محفل میں شراب پیتے تھے لیکن اس قول کو خود حافظ ذہبی اورحافظ ابن حجر نے قیل سے ذکر کیاہے جس سے پتہ چلتاہے کہ یہ قول ان کی نگاہ میں بھی غلط ہے۔ امام حاکم نے کی ہ کہتے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان کے پاؤں پر کچھ لکھ دیاپھر انہوں نے تین بعد دیکھاتوپتہ چلاکہ وہی تحریر لکھی ہوئی ہے۔حاکم نے یہ قول قال لی الثقۃ سے ذکر کیاہے۔دوسرا یہ حاکم کے ثقہ کا ااپنااستخراج ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھتے تھے اگر اس نے ان تین دنوں میں اس کا مشاہدہ کیاہوتاتوصاف بیان کرتا ،اس طرح استنباط کرنے کی اسے ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن محض اتنی سی بات پر اتنابڑاحکم لگادیناقابل اعتراض ہے کیونکہ اس واقعہ میں کئی چیزیں محل نظرہیں۔
ان سب احتمالات کو درکنار کرتے ہوئے صرف اس بناء پر کسی کو فاسق سمجھنا کہ پاؤں پر جوتحریر تھی وہ دھلی نہیں اس لئے نماز نہیں پڑھی ہوگی ۔ ایک غلط بات ہے۔ پھر اگر کسی نے باجماعت نماز پڑھنی کسی عذر سے چھوڑ دیاہے تواس سے یہ کہاں لازم آیاکہ نماز پڑھتاہی نہیں ہے۔ امام مالک نے بھی آخر عمر میں مدینہ میں جماعت سے نماز پڑھنا کسی عذر سے چھوڑ رکھاتھاجیساکہ ان کے تذکرہ کی تمام کتابوں میں موجود ہے۔ لیکن ہرایک نے ان کی جانب سے عذر بیان کیاکہ انہوں نے کسی عذر سے چھوڑرکھاتھاجو ان کوجماعت میں شریک ہونے سے مانع تھا۔کیاویساہی عذر جعابی کو نہیں ہوسکتا۔1: کبھی تحریر اتنی گاڑھی ہوتی ہے کہ جلدی اس کااثر نہیں چھوٹتا ۔ہفتوں قائم رہتاہے۔
2:دوسرے یہ کہ ہرنماز کیلئے آدمی وضو بھی نہیں کرتا۔اس زمانے میں گیسٹک جیسے مرض عام تونہیں تھے !
3:تیسرے یہ کہ انسان بیمار ہوتاہے تیمم کرلیتاہے وضو نہیں کرتا۔
اصل بات یہ ہے کہ اولاوہ قاضی بنے۔ اسلئے بہت سے اہل حدیث حضرات ان سے ناراض ہوگئے (سیر اعلام النبلاء)اوراسی ناراضی میں انہوں نے ان پر کلام کیا۔ جیساکہ امام مالک نے ناراضگی کی حالت میں محمد بن اسحاق پر دجال من دجاجلۃ کہاتھا۔امام نسائی نے احمد بن صالح مصری پر حالت غضب میں کلام کردیاتھا۔
دوسرے یہ کہ وہ متکلمین کے مسلک کی جانب مائل ہوگئے تھ(سیر اعلام النبلاء) اس بناء پر محدثین کا غصہ ان پر اوربھڑک گیا۔ ورنہ یہ نہ ہوتاتوپھر محدثین وہ سارے احتمالات ذکر کرتے جو دوسرے روات میں کرتے ہیں۔
آخر یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ امام ابوداؤد اپنے بیٹے کو کذاب کہتے ہیں۔ دوسرے محدثین ان کو کذب بیانی سے متصف کرتے ہیں، ان کو درکنار کردیاجاتاہے لیکن بے چارے جعابی کی جانب سے کوئی مدافعت نہیں ہوتی۔ جب کہ یہ الزامات قطعی نہیں بلکہ اس میں کئی احتمالات موجود ہیں۔
ان سب قیل وقال کے بعد بھی یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ جعابی پر ہرچند کہ فسق کا الزام ہے لیکن کسی نے بھی انہیں کذاب یاروایت وضع کرنے والا نہیں کہا۔بلکہ ان کی تعریف اورمدح میں جواقوال ہیں وہ ان پرالزامات عائد کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہیں اورپتہ چلتاہے کہ وہ حفظ وضبط میں یکتائے روزگار تھے۔ لیکن یہ موصوف کی دیدہ دلیری ہے کہ وہ ایک راوی کو ایک ایسے لفظ سے متہم کررہے ہیں جس سے دیگر محدثین نے احتیاط برتاہے!
پھر سب سے بڑی بات یہ کہ ہم نے مان لیاکہ چلو حافظ ابن حجر اورحافظ ذہبی کا فیصلہ کہ فاسق رقیق الدین ،لیکن شروع سے ہی توایسامعاملہ نہیں تھا۔بعد میں ایساہوا۔توایک زمانے تک موصوف صحیح اورنیک اورثقہ تھے بعد میں ان میں تغیر آیا۔توپھر مطلقاکذاب کہناکس حیثیت سے ہے اوران کی تمام روایات کو ناقابل اعتبار ٹھہرانے کی کیادلیل بنتی ہے؟